اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

بدھ، 14 فروری، 2024

نظم آزادی شاعر: احسان دانش

نظم آزادی                 شاعر: احسان دانش

صنفِ نظم بلحاظ موضوع:    آزادی کی اہمیت  / آزدی کے حصول کی جِدو جُہد

صنفِ نظم بلحاظ ساخت /بناوٹ/ ہئیت:    پابند نظم

نظم آزادی کا مرکزی خیال:

نظم  آزادی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر احسان دانش  اس نظم میں ہمیں آزادی کی اہمیت اور ضرورت سمجھانا چاہتا ہے۔    اللہ نے انسان کے  کچھ بنیادی حقوق مقرر کر رکھے ہیں۔ ملک کے ہر شہری کو   اپنے حقوق کے لیے  کوشش کرنے اور آواز بلند کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ شاعر نے اس نظم کے ذریعے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آوازِحق بلند کیا ہے اور دیگر دانشوروں کو  حقیقی آزادی کے لیے بولنے اور لکھنے کی دعوت دی ہے۔

 

شاعر احسان دانش کے انداز ِ کلام کی چند خصوصیات:

(احسان دانش (1914 کاندھلہ -22 مارچ 1982   لاہور)، پیدائشی نام احسان الحق، اردو کے مقبول شاعر تھے۔ انھوں نے صرف پانچویں حماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ مزدوری کر کے اپنا گذر بسر کیا کرتے تھے۔ احسان دانش نے لاہور آکر شاعری کا آغاز کیا۔)

سوز و گداز اور درد کا عکاس:

 احسان دانش کے کلام میں سوزو گداز پایا ہے۔ انھوں  نے اپنے کلام میں زیادہ تر  معاشرے  کے غریب اور مزدور طبقے کے رنج و الم کو بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں انھوں نے مزدوری کی۔ چونکہ وہ خو د مزدور تھے اس وجہ سے مزدور اورکمزور طبقہ کے لوگوں کے درد کو محسوس کرتے تھے۔

طنز  و تنقید:

احسان دانش اپنے دور کے بہترین تنقید نگار تھے۔  انھوں نے اپنے معاشرے کے کمزور اور  مظلوم طبقے کی آواز بنتے ہوئے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ظالم حکمرانوں پر بہترین انداز میں طنزو تنقید کی ہے۔

حرف شناسی / بہترین زبان و بیان:

احسان دانش کو حرف شناسی میں کمال حاصل تھا۔ وہ  موقع محل کے مطابق حرف و صوت کی شگفتگی اور فکرو خیال کی شناسائی کی تازگی سے لبریز اشعار کہتے تھے ۔ فکر و جذبہ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔

 

تشریح نظم

شعر نمبر 1:

 اپنی نظم آزادی کے اس مطلع میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف اور اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اپنے اندر آزادی کا جذبہ پیدا کرنا اور آزادی کے حصول کی کوشش کرنا عین عبادت ہے۔مگر آزادی آسانی سے نہیں مل جاتی، اس کے لیے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مختلف قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر حقیقی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔

شعر نمبر2:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر کہنے کو تو ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں اور ہمارا ملک خود مختار ملک ہے مگر درحقیقت ہم آزاد نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمیں طاقتور اشرافیہ کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی کا سامنا ہے۔ شاعر کے مطابق ایسا  ملک جہاں لوگوں کی آزادئ اظہارِ رائے پر پابندی ہو وہاں کی زندگی آزادی کے نام پر دھبہ ہے۔

شعر نمبر3:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش لوگوں میں آزادی کے جذبے اور شوق کا  ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ لوگوں میں حقیقی آزادی کے لیے کوشش کرنے کا جذبہ اب آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے آباؤاجداد کی تربیت اور قربانی کے عملی نمونوں نے آزادی کا جوش پیدا کر دیا ہے۔

شعر نمبر4:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غلامی کی زندگی نے ہمیں خون کے آنسو رلائے ہیں۔ لیکن لگتا ہے اب خدا کو ہماری حالت پر رحم آ گیا ہے اور حالات تبدیل ہونے والے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو آزادی کا جو خواب اس نے دیکھا ہے وہ جلد شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔

شعر نمبر5:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ غلط کام ہوتا دیکھے تو خاموش رہنے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ ہمارے ملک کے دستور میں یہ بات شامل ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن افسوس کہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے نہ صحافی آزاد ہیں نہ ہی کوئی شاعر یا مصنف ان طاقتور اشرافیہ کے سامنے غلط کو غلط اور درست کو درست کہہ سکتا ہے۔ شاعر کے مطابق جس روز ہمارے قلم اور ہماری زبانیں آزاد ہوں گی وہ حقیقی آزادی کا دن ہوگا۔

شعر نمبر6:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ آزادی کی خاطر جہاد کرنے والے کسی بھی مشکل سے نہیں گھبراتے۔ خواہ ان کی راہ میں پہاڑ حائل ہو جائیں یا دریا عبور کرنے پڑیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہماری لڑائی صرف مقامی جاگیرداروں سے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ظلم اور نانصافی کا شکار غریب مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہے۔

شعر نمبر7:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش طاقتور اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کے فضل سے اب ہمارے اندر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔ مزدوروں اور غریبوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے چہرے ہم سب پر کھل گئے ہیں۔ جب سے ہم نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے، ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاست دانوں اور حکومتی نمائندے پر خوف طاری ہو گیا ہے اور وہ کانپنے لگے ہیں۔

شعر نمبر8:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں انسانوں کو آزاد قرار دیا ہے۔ حقیقی آزادی کا جو تصور قرآن میں موجود ہے وہ قیامت تک کے لیے اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔ شاعر کے مطابق اہل قلم نے آزادی کی اصل تعریف جو قرآن میں درج ہے اسے کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔