اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

غزل نمبر 5: نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے شاعر: حسرت موہانی

 غزل نمبر 5: نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے

شاعر: حسرت موہانی

 سوال: حسرت موہانی کو "رئیس المتغزلین" کا خطاب کیوں ملا؟ حسرت موہانی کے انداز کلام کی چند خصوصیات تحریر کیجیے.

جواب:  حسرت کو  ان کے کلام کی درج ذیل خصوصیات کی بنا پر "رئیس المتغزلین" کہا جاتا ہے.

رومانوی انداز: حسرت کی غزلیات رومانیت سے بھر پور ہیں.

صوفیانہ انداز اور عشق حقیقی: حسرت کی غزلیں عشق حقیقی پر مشتمل ہیں. ان میں صوفیانہ اور اصلاحی انداز پایا جاتا ہے.

سادگی اور تسلسل: حسرت کو زبان پر بڑا عبور حاصل تھا. اپنے خیالات و جذبات کو نہایت سادہ انداز میں پیش کیا ہے.

انھوں نے غزل کو عشق حقیقی کا رنگ دے کر پاکیزگی عطا کی ہے جس کی وجہ سے انھیں "رئیس المتغزلین" کا خطاب ملا.


سوال : حسرت موہانی کی غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے یا عشق مجازی کی؟ مثال سے واضح کیجیے.

جواب:  حسرت موہانی کی غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے. جیسا کہ انھوں نے کہا ہے..

دلوں کو فکر دو عالم سے کر دیا آزاد....

اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عشق حقیقی ہی ہمیں فکر دو عالم سے آزاد کرتا ہے. کیونکہ اللہ کی محبت ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی دلاتی ہے.

اسی طرح شاعر کہتا ہے کہ

؂     غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش          وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

اس شعر میں بھی عشق حقیقی کا رنگ نمایاں ہے. شاعر لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ اگر غم جہاں سے نجات پانی ہے تو خدا سے دل لگاو. کیونکہ عشق مجازی تمھیں دونوں عالم کی فکروں سے آزاد نہیں کروا سکتا. اس لیے میرے خیال میں یہ غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے.

 

تشریح غزل:


شعرنمبر 1: اپنی غزل کے مطلع میں حسؔرت موہانی خدا کی محبت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ سے سچی محبت کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر مہربان ہوتا ہے اور  اپنی نگاہ کرم ڈالتا ہے۔اور اس کی دلی مرادیں پوری کرتا ہے۔ ایسا شخص دنیا کا خوش قسمت ترین شخص ہے۔ اسے اپنی اچھی قسمت ہر ہمیشہ فخر کرنا چاہیے اور رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے۔۔۔ مراد دلی مُرادیں  جان لے)

 

شعر نمبر 2: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سے  میں نے اللہ  سے  دل لگایا ہے تب سے دونو ں جہانوں کی تمام فکروں سے آزادی مل گئی ہے۔  مجھے نہ اس دنیا میں کوئی فکر ہے اور آخرت میں بھی خدا سے محبت  کی وجہ سے کوئی  پریشانی نہیں ہوگی۔  کیونکہ تو میرا سچا محبوب بن گیا ہے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (جنوں کا سلسلہ خدا دراز کرے۔۔۔ مراد یہ عشقِ حقیقی  کا تعلق ہمیشہ جاری رہے)

 

شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیرے  حُسن کا جلوہ بہت  جادوئی ہے۔ جب کوئی دنیا دار دیوانہ دیکھتا ہے تو اسے عقل آجاتی ہے اور  جب  صاحبِ فہم و فراست تجھے پہچانتا ہے تو وہ تیرے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دراصل حقیقی دانائی عشق حقیقی   کی دیوانگی ہے۔اللہ کو پہچاننا ہے اورصرف  اُسی  سے دل لگانا ہے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت تضاد    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (خِرَد۔ اور ۔جنوں۔ دو متضاد الفاظ ہیں ۔)

 

شعر نمبر 4: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری ہر آزمائش مجھے قبول ہے اور میں اس پر ہمیشہ  راضی رہوں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کسی پر اس کی استطاعت   / طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ مجھے ہر ابتلا پر خوشی ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھے یاد تو  رکھتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ  مجھ سے راضی ہو اور مجھے اپنے  نیک لوگوں میں شمار کر لے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (شاملِ اربابِ امتیاز کرے۔۔۔۔  مراد  راضی ہو جائے)


شعر نمبر 5: : اپنی غزل کے آخری  شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  دنیا کو نصیحت کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ جو لوگ دنیا کی فکروں سے آزادی اور چھٹکارہ چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ  اللہ سے  دل لگائیں۔ کیونکہ عشق مجازی تمھیں دونوں عالم کی فکروں سے آزاد نہیں کروا سکتا۔   ایک وہی ذات ہے جو حاجت روا  اور مشکل کُشا ہے۔

؂                                                                                                                 حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر       کر بیاں سب حاجتیں حاجت رَوا کے سامنے

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (ان کے دردِ محبت سے ساز باز  کرے۔۔۔۔  مراد   ۔۔۔ اللہ کی ذات سے دل لگائے)


شعر نمبر 6:   جب انسان  دعا مانگتاہے تو گویا اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی فہرست پیش کر کے عاجزی اور انکساری کے ساتھ  اور اس سے رحم و کرم کی التجا کرتا ہے کیونکہ وہ  جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مختارِ کل ہے۔ ہزار گناہوں کے باوجود بھی عفو و درگزر سے کام لے کر سربلند و سرفراز کر سکتا ہے۔ اسی امید پر شاعر اپنے محبوب رب کے حضور التجا کرتا ہے کہ میری گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ میں نافرمانیوں کے سبب تیری لطف و کرم اور عنایتوں کا مستحق قرار نہیں ہوں۔ میں صرف تیرے حضور گناہوں کا اعتراف کر کے رحم و کرم کا طلب گار ہوں۔ آگے تیری مرضی، تو مختار ہے  یا تو مجھے انعامات سے نواز دے یا  میرے ساتھ جو مرضی سلوک  روا رکھے مجھے قبول ہوگا۔

  راضی ہوں میں اسی میں جس میں تیری رضا ہو۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (کرم کا سزا وار۔۔۔۔)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔