غزل نمبر 2: تصور سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں
شاعر : خواجہ حیدر علی آتشؔ
سوال: خواجہ حیدر علی آتشؔ کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے ۔ یا انھیں لکھنو کے دبستانِ شاعری کا نمائندہ کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: آتشؔ کو دبستان ِ لکھنو کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔خالص اور صاف طرزِ بیان کے شاعر تھے۔ انکا ایک مخصوص انفرادی رنگ ہے۔ انھیں لکھنو کے دبستانِ شاعری کا نمائندہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ:
· بلند خیالی اور تحرک: آتشؔ کے کلام میں بلند خیالی اور مضامین کا تنوع پایا جاتا ہے۔ انکا کلام بہت جامع ہے۔ انکی غزلیات میں تہہ دار معانی والے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ انکے کلام میں بے قراری ، اضطراب، اور تڑپ پائی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں زندگی کی علامت ہیں۔
· تصوف: انکی شاعری بنیادی طور پر لکھنو شعرا ء کی رنگین مزاجیوں سے مختلف ہے۔ درویشی اور قلندری انکی فطرت میں شامل تھی۔ اسلیے انکی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔
· لفظی صنعت گری: انھوں نے اپنے کلام میں تشبیہات اور استعارات کا استعمال کیا ہے ۔لیکن انکا کمال یہ ہے کہ انھوں نے لفظی صنعت گری کے باوجود شعر کے حُسن اور تاثیر کو بدستور قائم رکھا ہے۔
تشریح غزل:
تشریح شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس مطلع میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش ؔ نے اپنے تصوراتی محبوب کی بے رُخی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو اپنے محبوب پر جان چھڑکتا ہوں مگر محبوب مجھ سے خفا ہے اور بےوفائی کا رویہ رکھتا ہے۔ دراصل شاعر کی محبت یکطرفہ ہے۔ شاعر کہتا ہے میرا دل اتنا مضبوط نہیں کہ اس کے سامنے جاکر اپنی محبت کا اظہار کر سکوں اور نہ وہ مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ اس سے میں ہمکلام ہوں۔ اس لیے میں نے اپنے دل میں اپنے محبوب کی ایک خیالی تصویر سی بنا رکھی ہے اور عرصہ ہو گیا ہے میں اسی تصویر سے باتیں کرتا رہتا ہوں اور گلے شکوے کرتا رہتا ہوں۔
جیسا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔
تیرا درد دل میں بسا لیا تجھے اپنا ہم نہ بنا سکے
رہیں دل ہی دل میں حسرتیں تجھے حالِ دل نہ سنا سکے
شعر نمبر 2: اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنی زندگی کے غموں اور دکھوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک روز میں باغ کی سیر کرنے گیا تھا ، وہاں غلطی سے اپنے دکھوں کو یاد کر کے آہ و زاری کی تو بُلبل بھی سُن کر آبدیدہ ہو گئی۔ میرے نالے میں اس قدر تاثیر تھی کہ بُلبل بہت غمگین ہوگئی ، جب پھول نے کہا کہ گیت گاؤ تو اس نے گلے کی خرابی کا بہانہ کر دیا، اسی غم میں اُس نے بھی محبت ترک کر دی ہے۔ شاعر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ کاش میں اپنے مصائب کا ذکر یہاں باغ میں نہ کرتا کیونکہ جب سے بلبل نے میری درد بھری داستان سنی ہے اس نے گانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ہر بار اپنے محبوب پھول کے سامنے گلے کی خرابی کا بہانہ کرکے اُڑ جاتی ہے۔ جبکہ پُھول سے اس کی محبت اور تعلق برسوں پرانا ہے۔
شعر نمبر 3: اس شعر میں آتشؔ کہتا ہے کہ ساری زندگی میں نے اپنے محبوب سے عشق کیا ہے اور کبھی اپنے دل سے اُس کی محبت کم نہیں ہونے دی۔ موت بھی میرے اس لگاؤ کو کم نہیں کر سکے گی۔ اگر میں مر گیا تو اے میرے محبوب تجھے پانے کی آرزو اور تمنا زندہ رہے گی۔ میری روح تیری یاد میں تڑپے گی اور میری قبر سے صرف ایک ہی خواہش جھلکے گی کہ کاش میں اپنے محبوب کو پا لوں۔ لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں ، ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی طرح میری محبت ہمیشہ قائم رہے گی۔
شعر نمبر 4: آتش ؔ اس شعر میں اپنے غموں اور دکھوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے جب محبت میں دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا اور عشق کی راہ میں کانٹے پار کرنے پڑے تب جاکر کہیں محبوب کو پایا۔ لیکن جب اس نے بے وفائی کی پھر میں نے سارے جہاں کو چھوڑ دیا اور دنیا سے لاتعلق ہو گیا۔ سکون کی تلاش کرتے کرتے بالآخر شراب نوشی کا سہارا لیا۔ اب عرصہ ہوا دنیا کے غمو ں سے دور رہنے کیلیے شراب پی کر شراب کامٹکا ساتھ رکھ لیتا ہوں اور ہاتھ کا سرہانہ بنا کر سو جاتا ہوں۔ اس طرح زندگی گزر رہی ہے۔
شعر نمبر 5: اس شعر میں آتش ؔ اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب نہیں جانتا کہ میں کتنا حسّاس ہوں۔ اتنا نازک طبیعت ہوں کہ اگر اس نے وفا کا تعلق نہ رکھا تو یہ میری طبیعت کیلیے ظلم عظیم ہے ۔ میں اس ظلم کو برداشت نہیں کر پاؤں گا اور مر جاؤں گا۔ لیکن میری موت پر میرے محبوب کو بھی سکون نہیں آئے گا۔ وہ ہمیشہ بے چین رہے گا کہ اس نے مجھ سے بے رُخی برتی ہے اور ناحق خون کیا ہے۔ جبکہ صرف میں ہی ہوں جو اس پرجان چھڑکتا ہوں۔
شعر نمبر 6: آتش ؔ اپنی غزل کے اس شعر میں اپنی محبت میں ناکامی اور محبوب کی بے رخی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری عمر بیت گئی ہے۔ جوانی ختم ہو گئی۔ ہماری محبت پر ہمیشہ خزاں چھائی رہی اور میں نے کبھی بہار کا منہ نہیں دیکھا۔ میں نے اس محبت کی راہ میں بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرا ہوں، پر مجھے اپنا پیار نہیں مل سکا۔ لیکن ابھی بھی میرا جنوں اور عشق قائم ہے، میں تھک ہار کر بیٹھنے والا نہیں۔ اپنی محبت کو کم نہیں ہونے دوں گا بلکہ اگر اس راہ میں مزید چوٹیں آئیں تو انھیں بھی خندہ پیشانی سے قبول کروں گا۔
شعر نمبر7: اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنے تصوراتی محبوب کے بارے میں کہتا ہے کہ سالوں اپنے پیار کو تلاش کرتے بیت گئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اسکی محبت میرے نصیب میں نہ لکھی تھی۔ میں نے اپنے حقیقی محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے قریہ قریہ ، بستی بستی ، کونہ کونہ چھان مارا ہے لیکن ایک دن بھی اس کی زیارت نہیں ہوئی۔ شاعر کے مطابق اس نے اپنے سچے پیار کو پانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
شعر نمبر 8: آتشؔ اپنی غزل کے اس شعر میں محبت میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اپنے حقیقی محبوب کی تلاش میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا ، ہر جگہ ڈھونڈا ہے پر وہ مجھے نہیں ملا ہے۔ اب میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس محبوب کو اپنے دل میں تلاش کروں گا۔ کیونکہ ساری دنیا میں اگر کہیں نہیں ملا ہے تو کوئی بات نہیں اس کا گھر میرے دل میں ہے، وہ وہاں تو ضرور رہتا ہے۔میں ہمیشہ اسے اپنے دل میں بسائے رکھوں گا۔
شعر نمبر 9: اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنے حقیقی عشق کے بارے میں کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب سے ہمیشہ پیار کرتا تھا، کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ اگر میں مر بھی گیا تو خاک میں مل کرمٹی مٹی ہو جانے کے باوجود میرے دل سے اسکی محبت کم نہ ہوگی۔ کیونکہ محبت ایک لافانی جذبہ ہے یہ مرنے سے بھی نہیں ختم ہوتا۔ مرنے کے بعد بھی میری روح اس کے پیار میں تڑپتی رہے گی اور ہوا کا بگولا بن کر دنیا میں گھومتی رہے گی اور اپنے حقیقی محبوب کی تلاش کرتی رہے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔