اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

جمعرات، 29 مارچ، 2018

رسمی خط اور غیر رسمی خط میں فرق

رسمی خط اور غیر رسمی خط میں کیا فرق ہوتا ہے؟
رسمی خط:
رسمی خط کاروباری یا پیشہ ورانہ مقاصد کے لئے حکام ، افسران یا عہدیداران کے نام ذہن میں مخصوص مقصد کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اس میں تکریم کے بعض الفاظ کو خاص اہتمام کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

رسمی خط لکھنے کے لئے نیچے دی گئی ہدایات پر عمل کریں:
خط کا   فارمیٹ (نمونہ /ساخت) مناسب شکل میں لکھیں ۔
مقام روانگی(مکتوب نگار کا پتا)۔۔۔
تاریخ روانگی۔۔۔
مکتوب الیہ ۔۔۔ جسے خط لکھا جارہا ہو  کے لیے تکریم یا تعظیم کے الفاظ  کا استعمال کریں ۔۔۔۔
جیسے مکرم و محترم / جناب محترم / محترمہ  
مکتوب الیہ / وصول کنندہ کے نام اور عہدے کا صحیح تذکرہ کریں۔
سلام مسنون۔۔۔۔
ہمیشہ خط لکھنے کے عنوان کا ذکر کریں۔۔۔
پہلے پیراگراف میں ہی خط لکھنے کی وجہ لکھیں۔۔۔
رسمی خط ہمیشہ جامع اورمسئلے کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
رسمی خط کو خواہ مخواہ طول نہ دیں ۔
خط میں ہمیشہ انتہائی شائستہ لہجے / الفاظ کا استعمال کریں۔
اپنا پتا/ایڈریس اور تاریخ صحیح لکھیں۔
رسمی خط کا اختتام شکریے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
“" آپ کا شکریہ"  /  "آپ کی عین نوازش ہوگی "استعمال کریں۔
آخر میں اپنے نام اور پتا لکھنے سے پہلے "والسلام / خاکسار/ آپکا  مخلص"  ضرور لکھیں۔


غیر رسمی خط:
دوستوں اور رشتہ داروں کو غیر رسمی خط لکھا جاتا ہے. خط لکھنے کا مقصد شکایت یا انکوائری کرنے کے لئے نہیں ہوتا ہے. بے تکلفانہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ غیر رسمی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔غیر رسمی خط ایک فری اسٹائل سوئمنگ سمجھا جا سکتا ہے جہاں آپ اپنی مرضی کے طور پر سٹائل اور لکھنے کے لئے آزاد ہیں. کوئی سیٹ فارمیٹ نہیں ہے، اور رسمی انداز اور جناب کا استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.




SAQAFAT HAMARI NAZAR SAY ثقافت ہماری نظر سے


عنوان: ثقافت ہماری نظر سے
میری تحقیق:
ذرائع: انٹرنیٹ، لائبریری، اساتذہ کرام، دوست اور والدین سے حاصل کردہ معلومات
1: ثقافت سے کیا مراد ہے؟
 ثقافت عربی لفظ  ہے  جس سے مراد کسی قوم یا طبقے کی تہذیب ہے۔ علما نے اس کی یہ تعریف مقرر کی ہے، ’’ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے‘‘۔ اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم و رواج اور طور طریقے جو ہماری اور آپ کی زندگی پر حکم فرما ہیں۔ تہذیب و ثقافت یعنی ہمارا ایمان و عقیدہ اور وہ تمام عقائد و نظریات جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں شامل ہیں۔
ہم تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔
تہذیب وثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکیں گی اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔
ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہر و آشکار ہیں اور نگاہیں انہیں دیکھ سکتی ہیں۔ ان امور کا قوم کے مستقبل اور تقدیر میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ البتہ اس کے اثرات دراز مدت میں سامنے آتے ہیں۔ یہ امور قوم کی اہم منصوبہ بندیوں میں موثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس کیسا ہو، کیسے پہنا جائے اور بدن ڈھانکنے کا کون سا انداز نمونہ عمل قرار دیا جائے؟ یہ چیزیں تہذیب کے ظاہر و آشکار امور میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں معماری کا انداز کیا ہے؟ گھر کس طرح بنائے جاتے ہیں، رہن سہن کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب معاشرے کی ظاہری ثقافت کا آئینہ ہے۔
عوامی ثقافت کا دوسرا حصہ جو پہلے حصے کی ہی مانند ایک قوم کی تقدیر طے کرنے میں موثر ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فورا ظاہر ہو جاتے ہیں اور انہیں بآسانی محسوس بھی کیا جاتا ہے یعنی یہ ثقافتی امور خود تو نمایاں اور واضح نہیں ہیں لیکن ان کے اثرات معاشرے کی ترقی اور اس کی تقدیر کے تعین میں بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اخلاقیات ہیں، یعنی معاشرے کے افراد کی ذاتی اور سماجی زندگی کا طور طریقہ کیسا ہے؟
عوامی ثقافت میں انسان دوستی، مرد میداں ہونا، خود غرضی اور آرام طلبی سے دور ہونا، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینا وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔

2: پاکستان میں موجود مختلف ثقافتیں۔
پاکستان کا معاشرہ اور ثقافت مغرب میں بلوچ اور پشتون اور قدیم درد قبائل جیسے پنجابیوں، کشمیریوں، مشرق میں سندھیوں، مہاجرین، جنوب میں مکرانی اور دیگر متعدد نسلی گروہوں پر مشتمل ہے جبکہ شمال میں واکھی، بلتی اور شینا اقلیتیں۔ اسی طرح پاکستانی ثقافت کو ترک عوام، فارس، عرب اور دیگر جنوبی ایشیائی، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطی کے عوام نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

1: بلوچ ثقافت
بلوچ ( دیگر تلفظ: بلوچ، بلوش، بلاوش، بالوش) ایک نسلی گروہ ہے جو اب پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان سیستان و بلوچستان افغانستان کے صوبے نمروز میں آباد ہیں۔ بلوچ لوگ اپنی ایک ثقافت رکھتے ہیں اور بلوچی زبان بولتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں رہنے والے بلوچ سرائیکی زبان بولتے ہیں۔

بلوچ نسلاً عربی ہیں۔ لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے “بعل”، “بلوچ، بلوص، بلوس، بلوش، بعوث، بیلوث، بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ہے اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے یونانیوں نے اسے بیلوس کہا، عہد قدیم میں لفظ بلوچ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے۔
اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لیے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلا۔
بلوچی لباس:
پاکستان میں فیشن کا انقلاب آچکا ہے ، اس کے باوجود بلوچ خواتین میں ان کے روایتی ملبوسات آج بھی بہت مقبول ہیں ۔بلوچی کپڑوں پہ کشیدہ کاری صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ بلوچ خواتین آج بھی شیشے کی کڑھائی والی ملبوسات زیب تن کرتی ہیں۔ ان ملبوسات میں تلہ، اون اور ریشم کے دھاگوں کی کڑھائی کی جاتی ہے۔ بلوچی ملبوسات کی تیاری میں موسم کے حساب سے کپڑوں کا انتخاب کیاجاتا ہے جس میں لان، ریشم، سوتی ،شیفون اور جارجٹ کے کپڑوں پر کڑھائی کی جاتی ہے ۔بلوچستان کے اس روایتی ملبوسات سے بلوچ ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں. اس کشیدہ کاری میں چھپی ایک انمول چیز سامنے والی کڑھائی شدہ جیب ہوتی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی ۔ یہ روائتی قمیض ہے جس کی جیب اتنی لمبی ہوتی ہے کہ دس کلو چینی ،آٹا آرام سے اس میں ڈالا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جیب کو بنانے کے لئے کم از کم دو ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہیں جبکہ اس کشیدہ کاری میں بہت محنت صرف کی جاتی ہے۔ یہ کشیدہ کاری دنیا میں سب سے مہنگی اور سب سے زیادہ دقت طلب کشیدہ کاری ہوتی ہے۔ بلوچستان میں تو اسکی قیمت ہزاروں میں ہے لیکن دوسرے شہروں میں اسکی مالیت لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔ بلوچستان میں آج بھی لڑکیاں کشیدہ کاری کے ساتھ قمیضیں بڑی شوق سے پہنتی ہیں۔ خاص کر بلوچوں کی شادی بیاہ پر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھے نقش و نگار والے بلوچی کپڑوں کا سوٹ زیب تن کریں۔

بلوچ خواتین ہاتھ کی کڑھائی کے ملبوسات گھر پر ہی تیار کرکے پہنتی ہیں مگر ہاتھ کی کڑھائی ایک بہت دقت طلب کام ہوتا ہے جس کی تیاری میں تین سے چار مہینوں تک لگ جاتے ہیں اس لیے پورے ملک کے بڑے شہروں کی خواتین مشین کی کڑھائی کے ڈیزائن کے بلوچی کپڑوں کے سیمپل پسند کرکے آرڈر دیتی ہیں۔ جو خاصی سستی بھی ہوتی ہے اور کم وقت میں تیار کی جاتی ہے جو چند ماہ میں اپنی اصل شکل اور ڈیزائن کھو دیتی ہے۔ بلوچ خواتین اپنی محنت کی رقم دس سے بیس ہزار تک لیتی ہیں جبکہ کچھ خواتین کڑھائی پر آنے والی ٹائم اور ڈیزائن دیکھ کر رقم لیتی ہیں۔ سادہ سے سادہ کڑھائی بھی دس ہزار روپے سے کم کی نہیں ہوتی۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ بلوچی لباس میں فراک نما بند چاکوں والی قمیض پر شیشے کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے کو ترجیح دیا جاتا ہے ، دوپٹے کے پلوؤں اور شلوار کے پائنچے پر بھی ایک قسم کی کڑھائی کی جاتی ہے۔ بلوچی کشیدہ کاری ایک مہنگا اور مشکل ہنر ہے ۔یہعام سی باریک سوئی سے کپڑوں پر خوبصورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، اسی وجہ سے پورے بلوچستان سے ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات پوری دنیا میں فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں جو کہ خاصے مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ اگر آپ میں سے کسی کو بھی بلوچی کپڑے پہننے کا شوق ہے تو بلوچستان کے کسی بھی گاؤں کا رخ کریں، بلوچی کڑھائی شدہ کپڑے بالکل نہیں ملیں گی کیونکہ بلوچی کپڑے صرف اور صرف آرڈر پہ تیار کیئے جاتے ہیں۔
بلوچی کھانے:
بلوچستان کی سر زمین کھانوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔مگر بلوچ جونہی سردیا ں آتی ہیں تو اسکی ابتداء باسی بلوچی سوغات خاص جسے ’’بلوچی بُسری کہتے ہیں ،اس سے کرتے ہیں۔ بلوچی بُسری کوتیار کرنے کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلوچی بُسری بغیر مصالحوں کے آگ پہ روٹی کی طرح تیار کی جاتی ہے۔
بلوچی بُسری کو بنانے میں دس سے بیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ اس کی تیاری میں گندم کی روٹی ، دیسی گھی، مکھن اور گڑ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ روٹی کا ایک حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر دوسرے حصے میں گڑ ڈالا دیا جاتا ہے اور روٹی کو دونوں طرف سے مکھن لگاکر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بلوچی بُسری گرم گرم کھانے میں انتہائی لذیذ ہوتی ہے ۔
اس سوغات کا رواج کس دور سے شروع ہوا ،یہ کوئی نہیں جانتا، نہ ہم نہ ہمارے آبا و اجداد اور نہ گوگل بے چارہ۔ بلوچی بسری صدیوں سے بلوچ خواتیں بناتی چلی آ رہی ہیں۔ بلوچستان میں اکثر علاقوں میں بلوچی بُسری کا ناشتہ لازم و ملزوم سمجھاجاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں اس کو میٹھی روٹی کا بھی نام بھی دیا گیا ہے۔ گڑ اور دیسی گھی کے تڑکے سے تیار ہونے والی میٹھی روٹی سردیوں میں جسم کے اندر حرارت پیدا کرکے انسانی جسم کو گرم رکھتی اور منہ کا ذائقہ دوبالا کردیتی ہے۔
 2: پشتون ثقافت
پشتون ثقافت کا بنیاد اسلام اور پشتونولی ہے، اس کے ساتھ ساتھ پشتو زبان اور پشتون لباس بھی پشتون ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ پشتون ثقافت کا تشکیل تقریبا ہیرووت اور سکندر اعظم کے زمانے میں ہوا ہے،جب وہ پاکستان اور افغانستان آئے۔ پشتون ثقافت بہت کم دوسرے ثقافتوں سے اثر انداز ہوا ہے اور ان چند ثقافتوں میں سے جو زیادہ تر اپنی اصل حالت میں برقرار ہیں۔

پشتونوں کے لیے سب سے بڑے تہوار اسلامی تہواریں یعنی عید الفطر اور عیدالاضحی ہیں۔ پشتون معاشرے میں اہم ایام میں یوم آزادی پاکستان (14 اگست) اور یوم آزادی افغانستان (19 اگست) منائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند پشتون سپرلے (بہار) کے موسم کا تہوار نوروز بھی مناتے ہیں نوروزافغانستان کے چندپشتون گروہ کے علاوہ پاکستان میں کوہاٹ،ہنگو،اورکزئی اورکرم ایجنسی کے بعض علاقوں میں پشتون نوروزمناتے ہیں۔
پشتونوں میں شاعری افغانستان کی اسلامی فتح سے پہلے بھی پائی جاتی تھی۔8ویں صدی میں کتاب پٹہ خزانہ (چھپا ہوا خزانہ) پشتو زبان میں لکھا گیا تھا جو قدیم پشتو شاعری کا ایک اثار بن گیا ہے۔ چند معروف پشتو شاعر جن کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے ہے، میں پیر روشان،عبدالحمید ماشوخیل،خوشحال خان خٹک، نازو توخی،عبدالرحمان بابا،اجمل خٹک،حمزہ شنواری،غنی خان،کبیر ستوری، عبدالباری جہانی، حفیظ اللہ خالد،خاطر آفریدی شامل ہیں۔ پشتو زبان کے اکثر شعرا کا تعلق پاکستان سے ہے۔
پشتون لباس:
پشتون لباس وہی لباس ہے جو پاکستان کے دیگر بیشتر علاقوں میں پہنا جاتا ہے اور جو پاکستانی قومی لباس ہے۔
پشتون پکوان:  
افغانی روٹی بولانی چپلی کباب گوش فیل کابلی پلاؤ قہوہ منتو نان
پشتون ثقافتی کھانوں میں کابلی پلاو،د بیزے غوخہ (بکری گوشت)،سیخ کباب، چپلی کباب،شامی کباب،شینواری کباب،کیچڑی،شوربہ،اوش،اوشک،ہیراک،برونی،غٹے ورجے (بڑے چاول) گھمبڑی(اس میں لوبیا،چنے،گندم،مکئ ہوتےہیں۔ اس کا شوربا نمکین ہوتا ہے)،شوملے (لسی)،وغیرہ شامل ہیں۔

سندھی ثقافت:
وادیٔ سندھ کی تہذیب (انگریزی: Indus Valley Civilization) سنہ 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادیٔ سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔

سوتی کپڑا کہ جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔
خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے۔ مگر بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کر دیا۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔
سندھی لباس:
سندھی ٹوپی اور اجرک کی تاریخ برسوں پرانی ہے،یہ سندھ کی ثقافت کی عکا س بھی ہےاورسندھ کے عوام کا فخربھی ۔ جس طرح مقامی زبان اور لباس ہر علاقے کی پہچان ہوتی ہے۔ اسی طرح سندھی ٹوپی اور اجرک برسوں سے صوبہ سندھ کی پہچان ہے اسی لئے سندھ کےباسی سندھی ٹوپی اور اجرک ساراسال خریدتے بھی ہیں اوراپنے پہناوے میں اسے خاص اہمیت بھی دیتےہیں ۔
صوبے کی ثقافت کے یہ خوبصورت رنگ سندھ سمیت بلوچستان،پنجاب،خیبرپختونخواہ گلگت سمیت ہر جگہ نظر آتے ہیں سندھی ٹوپی اور اجرک بیرون ملک بھی تحفتاًبھیجی جاتی ہیں۔
سندھی کھانے:  حیدرآبادی اچار سندھی بریانی کڑھی
سندھی ثقافت کا دن: یہ صوبہ سندھ میں ہر سال دسمبر کے پہلے اتوار روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ جسے ایکتا دن (یکجہتی کا دن) کہا جاتا ہے۔
یوم سندھ ثقافت کے دن صوبے بھر میں لوگ سندھی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہوئے سندھی ٹوپی ،اجرک اورثقافتی لباس زیب تن کرتے ہیں۔ مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے کراچی سمیت کئی شہروں میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، کئی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ یہ یوم ثقافت عام طور پر ہفتہ وار تعطیل کے دن ہوتا ہے اور اس دن سندھ میں جشن کا سما ں ہوتا ہے۔

پنجابی ثقافت:
پنجاب کو 5دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے، ہڑپہ کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے، ایک ہزار سال پہلے بابا فرید گنج شکرؒ نے سلوک و معرفت کا اپنا پیغام پنجابی زبان کے ذریعے پہنچایا۔

پنجابی ثقافت دنیا کی تاریخ میں سب سے قدیم تاریخوں میں شمار کی جاتی ہے۔یہاں کی ثقافت اپنے اندر وسعت رکھتی ہےجو قدیم اور جدید کا بہترین امتزاج ہے ۔ پنجاب کے کچھ شہر ہندوستان کی سکھ تہذیب کیلئے اہمیت کے حامل ہیں ۔ سکھوں کے بانی مذہبی پیشوا بابا گورو ناک کی جائے پیدائش پنجاب میں ننکانہ صاحب میں واقع ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک سے ہر سال آنے والے سکھ ننکانہ صاحب مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے آتے ہیں ۔ لاہور میں واقع جہانگیر کا مقبرہ اور بادشاہی مسجد پاکستان کے اہم تاریخی مقامات ہیں ۔ معروف صوفی بزرگ شیخ عثمان بن علی ہجویری ؒ المعروف داتا صاحب کا مزار بھی لاہور میں واقع ہے جہاں ہر روز لاکھوں زائرین اور عقیدت مند آتے ہیں ۔
پنجابی کھانے:
مکھنی مرغ، سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی‘ تندوری مرغ‘مصالحہ چنے ‘دال مکھنی ‘امرتسری مچھلی ‘ ڈھابہ دال

پنجابی لباس:
ستھن :   پنجابی ستھن اوپر سے خاصی کھلائی میں اور ٹخنوں کے قریب اور ارد گرد تنگ ہوتی ہے یا اسے گھٹنوں سے ٹخنوں تک تنگ شکل میں بھی پہنا جاتا ہے ۔ ستھن مرد اور عورتوں دونوں کا پہناوا ہے لیکن پنجابی ستھن زیادہ تر عورتیں کرتے کے ساتھ پہنتی ہیں ۔ ستھن ایک اور پنجابی لباس ’’ گھگرا‘‘ کا بھی حصہ ہے ۔ ایک اور امتزاج چوغہ اور ستھن کا بھی ہے ۔
کرتہ:
موجودہ کرتا روایتی کرتے کی شکل ہے جس میں دونوں پہلو ئوں پر جیبیں ہوتی ہیں یہ بھی مردوں کی بہ نسبت عورتیں زیادہ پہنتی ہیں ۔ اسے جما اور پنجابی انگرکھے کے ساتھ بھی پہنا جاتا ہے جبکہ کرتا شلوار ‘ ستھن ‘ تہبند ‘ لنگی ‘ دھوتی ‘ پنجابی گھگرا اور جینز کیساتھ بھی مقبول پہناوا ہے ۔
ملتانی شلوار سوٹ:
ملتانی شلوار کو عام طور پر گھیر والی یا سرائیکی گھیر والی کہا جاتا ہے ۔ یہ پہننے میں کافی زیادہ حجیم ہوتی ہے اور یہ پنجاب میں ملتان کے ارد گرد کے علاقوں میں مقبول ہے ۔ ملتان شلوار سندھی پہناوے ’’ کنچھا ‘‘ سے مماثلت رکھتی ہے ۔ یہ دونوں انداز عراق میں 7 صدی کے ایک پہناوے سے ماخذ ہیں ۔ ملتانی شلوار کھلی ‘ پھیلائو میں زیادہ اور پنجابی ستھن کی طرز پر پہنی جاتی ہے ۔ اس کیساتھ پنجابی قمیض اور چولا زیب تن کیا جاتا ہے
پنجابی پھلکاری کرتہ:
یہ پھلکاری کڑھائی یا نقش و نگار کی مدد سے تیار کی جاتا ہے .
پنجابی بندھانی کرتا:
بندھانی طرز کا کرتہ مختلف رنگوں کے امتزاج سے تیار کیاجاتا ہے جو پنجاب ‘ چولستان کے صحرائی علاقوں میں مقبول ہے ۔
پوٹھوہاری سوٹ:
ایک اور پنجابی پہناوا پوٹھو ہاری سوٹ ہے جو علاقہ پوٹھو ہار کی روایت ہے ۔ اسے پوٹھو ہاری شلوار بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ پنجابی ستھن سے مماثلت رکھتی ہے جس میں کچھ تہوں کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس کی قمیض بھی کھلی ہوتی ہے جس کا گلا بڑا رکھا جاتا ہے
پنجابی گھگرا:
پنجابی سوٹ کی روایت سے قبل ’’ گھگرا ‘‘ پنجاب کی خواتین میں مقبول لباس تھا ۔ اس کی روایت گنڈاٹکا تہذیب جو گپتا دور سے جڑی ہوئی ہے سے ملتی ہے ۔ ’’گنڈاٹکا ‘‘ مردوں کا لباس تھا جو آدھے پاجامے پر مشتمل تھا جو بعد میں ’’ گھگرا ‘‘ بن گیا ۔ بعد ازاں یہ لباس مردوں کیلئے قمیض اور عورتوں کیلئے گلے سے رانوں تک لمبی قمیض کی صورت میں باقی رہ گیا ۔ ’’گنڈاٹکا ‘‘ 7 ویں صدی عیسوی میں ایک مقبول پہناوا تھا ۔

پاکستانی ثقافت  کی گونا گونی: (   گونا گوں کے معنی ہیں  انواع و اقسام کا،    رنگ برنگ کا)
پاکستان ایک امیر ثقافتی تنوع ہے جیسا کہ معاشرے میں کثیر زبانی، کثیر نسلی اور کثیر ثقافتی ہے. پاکستانی سماج میں مختلف متنوع ثقافتی اور نسلی کمیونٹی شامل ہیں جن میں پنجابی، سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، محیر، کشمیری، ماکانی اور شمال کے قدیم وققی اور برشو گروپ شامل ہیں.
پاکستان عموما لسانی طور پر زبانی طور پر ہے، اور پوری زبان میں کوئی بھی زبان عام نہیں کہا جاسکتا ہے. اس کے پرنسپل زبانوں میں سے ہر ایک مضبوط علاقائی توجہ ہے. زبانوں میں دعوی کردہ زبانوں میں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، کشمیری، برہائی، ہندکو اور پوٹاہوہاری شامل ہیں. اردو قومی زبان ہے اور پاکستان کے دو سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے (دوسری انگریزی ہے). اگرچہ پاکستان میں تقریبا 8 فیصد صرف اپنی پہلی زبان کے طور پر بولتے ہیں، یہ تقریبا پاکستان کے تقریبا تمام شہریوں کی طرف سے دوسری اور اکثر تیسری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے.




زبانیں
پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔
پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔
پاکستان کی صوبائی زبانوں میں پنجابی صوبہ پنجاب، پشتو صوبہ خیبر پختونخوا، سندھی صوبہ سندھ ، بلوچی صوبہ بلوچستان اور شینا صوبہ گلگت بلتستان میں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ [25]
پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں، آیر ، بدیشی ، باگری ، بلتی ، بٹیری ، بھایا ، براہوی ، بروشسکی ، چلیسو ، دامیڑی ، دیہواری ، دھاتکی ، ڈوماکی ، فارسی ، دری ، گواربتی ، گھیرا ، گوریا ، گوورو ، گجراتی ، گوجری ، گرگلا ، ہزاراگی ، ہندکو ، جدگلی ، جنداوڑا ، کبوترا ، کچھی ، کالامی ، کالاشہ ، کلکوٹی ، کامویری ، کشمیری ، کاٹی ، کھیترانی ، کھوار ، انڈس کوہستانی ، کولی (تین لہجے)، لہندا لاسی ، لوارکی ، مارواڑی ، میمنی ، اوڈ ، اورمڑی ، پوٹھواری ، پھالولہ ، سانسی ، ساوی ، شینا (دو لہجے)، توروالی ، اوشوجو ، واگھری ، وخی ، وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔[26] ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں-
تہوار
جشن عید میلاد النبی، عيد الاضحى، عيد الفطر، يوم مزدور، يوم آزادی، یوم دفاع، وفات قائد، یوم تکبیر، يوم پاکستان ،ولادت قائد، یومِ یکجہتیِ کشمیر


لباس
پاکستان میں سب سے عام لباس شلوار قمیض ہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت قبائلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔
شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمال اسکول، کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ او ر ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔ شیروانی کا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔
خواتین میں بھی پاکستانی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔






اہم واقعات
تاریخ
1947ء سے لے کر 1948ء تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔
 1948میں جناح صاحب کی اچانک وفات ہوگئی، جس کے بعد حکومت لیاقت علی خان کو سونپی گئی۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔
پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائے گئے۔ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963ء میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سےعلیحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔ 1971ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور مشرقی پاکستان ایک علاحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

1972ء سے لے کر 1977ء تک پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977ء میں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔
اگلا دور 1977ء تا 1988ء مارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تہے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988ء میں ضیاءالحق نے برطرف کر دیا- 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاءالحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔
اس کے بعد 1988ء میں انتخابات ہوئے اور بينظير بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990ء میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993ء میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔
اس کے بعد پاکستان کے نئے صدر فاروق لغاری تہے۔ اگلے انتخابات 1993ء میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ صدر فاروق احمد لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997ء میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999ء میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرويز مشرف بنے اور 2001ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔
2004ءمیں جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فيصلہ کیا ۔ مختصر عرصہ کے لیے چوہدرى شجاعت حسين نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پی پی پی پی نے جناب یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا، جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 22 جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔
مئی 2013ء میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کےتیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیراعظم نوازشریف کو پانامالیکس فیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نئے وزیراعظم بن گئے۔




دستکاری
پاکستان کی ثقافتی اور روایتی ہنرمندی اور دستکاری کو ایک کوزے میں بند کرنا ناممکن ہے۔
پاکستان کی فیشن کی صنعت میں بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کے لیے مغربی رحجانات اور انداز اپنائے جاتے رہے ہیں جبکہ پاکستان کے ثْقافتی انداز اور ہنر دیگر دنیا کے لیے کشش کا باعث ہیں۔
پاکستان کے ثقافتی ہنر میں بہت کچھ اہمیت کا حامل ہے جس میں شروعات یہاں پر بننے والے کپڑے کی مختلف اقسام سے ہوتی ہے۔
پاکستان بلاشبہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں چار اقسام کا مقبول عام ریشم تیار کیا جاتا ہے جس میں شہتوت (ملبیری)، ریشم کے کیڑے (تسور)، ایری، اور موگا سے بنائے بانے والا ریشم شامل ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ دنیا کا مشہور ترین کپڑا ڈینم (جس سے جینز کی پتلون تیار کی جاتی ہے) بھی وادی مہران کی تہذیب کے زمانے میں تیار ہونا شروع ہوا اور آج تک پاکستان میں بنایا جاتا ہے۔
جہاں کپڑے کی بات آتی ہے وہاں اس کے بننے یا بنانے کا عمل بھی ضرور ہوتا ہے جس کے لیے کراچی کے مشہور زمانہ اورنگی ٹاؤن میں ہاتھ سے کپڑا بننے کے بڑے بڑے کارخانے موجود ہیں جہاں بروکیڈ، جامہ وار، کمخواب، بنارسی اور تانچوئی جیسے قیمتی اور زرق برق کپڑے بنے جاتے ہیں۔ یہ تمام کپڑے پاکستان میں میں عروسی ملبوسات کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں جو کہ پاکستان میں ایک بڑا کاروبار ہے۔



پاکستان کے تمام علاقوں میں دستکاری کا اعلیٰ اور معیاری کام نسل در نسل سے ہوتا چلا آرہا ہے۔یہ دستکاریاں عام طور پر خواتین اپنے گھروں میں کرتی ہیں۔سندھ میں لباس پر شیشہ سازی اور کندہ کاری کا نہایت نفیس کام ہوتا ہے اور یہ اپنی جگہ خود بڑا منفرد ہے۔سندھی اجرک بہت مشہور اور مقبول ہے۔کراچی میں سیپیوں اور پتھروں سے زیور اور آرائشی اشیاءبنائی جاتی ہے۔صوبہ سرحد میں کڑھائی، مینا کاری، اورکشیدہ کاری کا اعلیٰ اور معیاری کام ہوتا ہے۔دستکاری کے میدان میں پنجاب کا بھی بڑا حصہ ہے۔
ملتان کی اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے لیمپ اور دیگر مختلف اشیاءنیز نیلے رنگ کی میناکاری والے برتن، بہاولپور کی مٹی کی نازک صراحیاں و دیگر ظروف۔ یہ سب ان
علاقوں کے لوگوں کے نفیس اور فنکارانہ کام کے عکاس ہیں۔چنیوٹ میں لکڑی پر کندہ کاری والا فرنیچر تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں کڑھائی، کشیدہ کاری اور شیشے کا کام بھی بہت اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ دستکاری کی یہ صفت پاکستان کے اکثر شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں قائم ہے۔جس سے ایک طرف ان کو روزگار ملتا ہے اور دوسری جانب ہماری ثقافت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ دستکاریاں زرِ مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔


ایک سے زائد ثقافتوں کی وجہ سے معاشرے کو حاصل ہونے والے فوائد :
پاکستان ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جیسا کہ معاشرے میں کثیر زبانی، کثیر نسلی اور کثیر ثقافتی ہے. پاکستانی سماج میں مختلف متنوع ثقافتی اور نسلی کمیونٹی شامل ہیں جن میں پنجابی، سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، محیر، کشمیری، ماکانی اور شمال کے قدیم وققی اور برشو گروپ شامل ہیں۔
·       معاشرہ خوبصورت دکھائ دیتا ہے۔
·       ایک دوسرے کی ثقافت کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
·       معاشرے میں  ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فضا  قائم ہوتی ہے۔


پاکستانی ثقافت کے  چند عناصر:
ملبوسات
پاکستان میں سب سے عام لباس شلوار قمیض ہے۔ جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت قبائلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پہنا جاتا ہے۔
شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمال اسکول، کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔
شیروانی کا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔
تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔
کھانے
کشمیری کھانے:
دم آلو قہوہ نون چائے راجما روغن جوش
مہاجر کھانے:
آلو ٹکی دہی چٹنی بریانی حلیم مصالحہ چائے کوفتے نہاری پان شیرمال
پنجابی کھانے:
لاہوری چرغہ گول گپا حلوا پوری مچھلی گوشت کڑاہی مرغ چھولے پایا کٹاکٹ مغلائی  بالوشاہی بریانی کباب کوفتے قورمے پسندہ رومالی روٹی شامی کباب شیر خوارمہ
دیگر مقامات کے کھانے:
آلو گوبھی آلو پراٹھا بینگن کا بھرتا بھٹورا چنا مصالحہ چپاتی تکہ چھولے بھٹورے گجریلا لسی مکئی کی روٹی پنجیری پاپڑ پراٹھا  پوری سرسوں کا ساگ سوہن حلوا گنے کا رس تندوری روٹی تندوری مرغ تکہ
مشترکہ پکوان:آلو گوشت بن کباب چاٹ چٹنی دال فالودہ گلاب جامن حلوا کلفی اچار جلیبی قلاقند کھیر کھچڑا کھچڑی لڈو مغز نان پکوڑہ پانی پوری پلاؤ روٹی سالن سموسہ شوربہ چائے زردہ

کھیل
کرکٹ،  ہاکی،  کبڈی،  پولو،  فٹبال، والی بال،   بیڈ منٹن،   سکوائش اور دیگر کئی علاقائی کھیلیں۔