غزل نمبر 3: حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
شاعر : مرزا اسد اللہ خان غالبؔ
شاعر کے انداز کلام کی چند خصوصیات:
سوز و گداز: غالب نے زندگی میں عشق میں ناکامی کا منہ دیکھا، انکا کا زمانہ شورش سے بھرا ہوا تھا اس لیے ان کے کلام میں گہرا سوز و گداز پایا جاتا ہے.
تصوف و فلسفہ: غالب کو اردو کا پہلا فلسفی شاعر کہتے ہیں. انکی شاعری فکرو فلسفہ سے پر ہوتی ہے. انھوں نے اپنے کلام میں صوفیانہ مضامین کو بھی نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے.
بہترین تراکیب کا استعمال: غالب نے اپنی شاعری میں استعارات اور تراکیب کا کمال مہارت سے استعمال کیا ہے. انھوں نے مختلف تلمیحات کے ذریعے اپنی شاعری کو خوبصورت بنایا ہے...
تشریح غزل
شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس مطلع میں غالب ؔ اپنی زندگی کی داستانِ غم سناتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے ساری زندگی دکھوں کا سامنا کیا ہے۔ مالی تنگدستی تھی، عشق میں ناکامی ہوئی، کوئی اولاد زندہ نہ رہی ۔ شعر و سخن میں بھی اس کو وہ عزت و پذیرائی نصیب نہ ہوئی جو وہ چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے اپنے وطن دلّی کے اجڑنے کا بھی غم تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ اسے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کس غم پر روئیں ۔ دل بھی زخمی ہے اور جگر بھی چھلنی چھلنی ہو چکا ہے۔ وہ اپنا غم نوحہ کی صورت میں دوسروں کو سناتے تھے، اب اگر اتنی مالی استطاعت ہو تو کسی نوحہ گر سے یہ کام کروائیں جو ان کے نالے دوسروں کو بہتر انداز میں سنا سکے۔
شعر نمبر 2: غالب ؔ اس شعر میں اپنے عشق میں نا کامی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے زیادہ توجہ میرے رقیب کو دیتا ہے، اس لیے میں نے جب جب اپنے محبوب کو یاد کیا تو مجھے رشک اور حسد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اسی حسد اور رشک کی وجہ سے میں نے اس کی گلیوں جانا چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ میں اس سے ملنا بھی چاہتا ہوں اور اس کا نام بھی کسی اور کے سامنے نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے جب میں کسی سے اپنے محبوب کا گھر معلوم کرنا چاہتا ہوں تو پھر یہی کہہ دیتا ہوں کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں نے کدھر جانا ہے۔
شعر نمبر 3: غالب اپنی غزل کے اس شعر میں کہتا ہے کہ میرے رقیب نے اپنا گھر میرے محبوب کے گھر کے سامنے بنا لیا ہے اس لیے اب میں جب بھی اپنے معشوق کی زیارت کیلیے جاتا ہوں تو رقیب کا گھر دیکھ کر جل جاتا ہوں ۔ یہ دکھ مجھ سے برداشت نہیں ہو پاتا اس لیے میں چاہتا ہوں میری یاداشت کھو جائے اور میں اپنے محبوب کے گھر کا راستہ ہی بھول جاؤں ۔ تاکہ بار بار مجھے اپنے رقیب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
شعر نمبر 4: اس شعر میں غالبؔ کہتا ہے کہ یہ سیاسی انتشار کا دور آگیا ہے ہر طرف افرا تفری ہے۔ ساری قوم بکھر گئی ہے میرا شہر دلّی اجڑ گیا ہے۔ ساری قوم کسی ایسے دیانت دار رہبر و رہنما کی تلاش میں ہے جو انھی سیدھے راستے پر لاسکے۔ جب بھی وہ کسی کو اپنے سے آگے چلتا دیکھتے ہیں تو وہ اسے اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں لیکن جب کچھ عرصہ گزرتا ہے اور اس کی حقیقت ان پر ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ پھر سے نئے رہنما کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ خدا کرے اس قوم کو ایک مخلص رہنما مل جائے۔
شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس شعر میں غالؔب کہتا ہے کہ میں نے اپنے حقیقی محبوب کی خاطر خود کو بھلا دیا ہے اور عشق میں ایسا ڈوبا ہوں کہ مدہوشی کے عالم میں اُس کی گلیوں کا راستہ تک بھول بیٹھا ہوں۔ چونکہ میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اور وہ میری رگوں میں بستا ہے اس لیے اب اس کو اپنے دل میں تلاش کروں گا۔
شعر نمبر 6: اس شعر میں غالبؔ نے دہلی کے اجڑنے پر دکھ کا اظہار کرتے ہو کہا ہے کہ انگریزوں کے تسلط میں آئی قوم کے درد اور انکی بربادی کی تصویر مجھ سے زیادہ کوئی اور اچھے انداز میں نہیں بیان کرسکتا ۔ کیونکہ اس زمانے کے لوگوں اور انکی دنیا داری کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں دہلی کا نمائندہ شاعر ہوں۔ میری شاعری اِس وقت کی آواز اور قوم کانمائندہ بنے گی۔
شعر نمبر 7: اپنی غزل کے مقطع میں غالؔب اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیارت کرناچاہتا ہے۔ جس شان اور بہادری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کئی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے تھے کاش کہ ایک بار پھر اسی انداز سے وہ آئے اور مغلیہ شاہی انگریزوں سے واپس لے۔ دراصل غالبؔ چاہتا ہے کہ اس اجڑی قوم کو ان جیسا بہادر اور شان و شوکت والا عظیم رہنما میسر آ جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔