نظم: برسات کا تماشا
(صنفِ نظم: مخمس)
شاعر: نظؔیر اکبر آبادی
شاعرنظیر اکبر آبادی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: فطرت کی مصوری: نظیر اکبر آبادی ایک نئے اور منفرد کلام کے موجد ہیں۔ ان کی شاعری گویا فطرت کی مصوری ہے۔ انھوں نے ایسے موضوع پر طبع آزمائی کی ہے، جن کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا ۔
2: جذبات کی ترجمانی: نظیر جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ تصنع / بناوٹ اور ریا کاری کا ان کی شاعری میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔
3:منظر نگاری : منظر نگاری اور تصویر کشی میں انہیں کمال حاصل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے وہ اپنے کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرتے جو مناظر کو اپنی خوبصورتی کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے ہیں۔
4: موسیقیت: ان کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ نظیر نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
4: موسیقیت: ان کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ نظیر نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
نظم برسات کا تماشا کا مرکزی خیال:
سخت گرمی سے نڈھال مخلوقِ خدا کو جب موسمِ برسات میں ابرِ رحمت نصیب ہوتی ہے، تو سب خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف قدرت کا حُسن دکھائی دینے لگتا ہے۔ ہر طرف زمین سبزے سے ڈھک جاتی ہے۔ درخت اور پودے دھُل کر نکھر جاتے ہیں۔ حیوان اور چرند پرند بھی اس موسم سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور طرح طرح سے ناچ گا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
سوال: نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کیوں کہا جاتا ہے ، دو نکات تحریر کریں۔
جواب:
1:نظیر نےعوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ان کے روز مرہ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ بے پردگی سے لے کر غربت تک کو موضوع بنایا ہے۔
2:نظیر نے ایک نئے اور منفرد طرزِ کلام کے ذریعےاپنے ملک کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر آواز اٹھائی، جیسے آدمی نامہ۔
نظم برسات کا تماشا کی تشریح:
سوال: نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کیوں کہا جاتا ہے ، دو نکات تحریر کریں۔
جواب:
1:نظیر نےعوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ان کے روز مرہ مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ بے پردگی سے لے کر غربت تک کو موضوع بنایا ہے۔
2:نظیر نے ایک نئے اور منفرد طرزِ کلام کے ذریعےاپنے ملک کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر آواز اٹھائی، جیسے آدمی نامہ۔
مشکل الفاظ کے معانی:
الفاظ | معانی | الفاظ | معانی | الفاظ | معانی | الفاظ | معانی |
خورشید | سورج | کوہ | پہاڑ | کُوک | بلند آواز | چھاجوں برسنا | بہت زیادہ بارش ہونا |
مول | قیمت | دشت | ویرانہ | رِم جھِم | بارش کی ہلکی آواز | وحش و طیور | جنگلی جانور اور پرندے |
زر | دولت | میگھ | بادل، بارش | جھڑی لگانا | لگاتار بارش ہونا | غوغا | شور، غُل |
نگر | بستی، علاقہ | گھٹا | کالے بادل | پھُہار | بوندیں | کوکِلا | کوئل |
اساڑھ | ہندی کا چوتھا مہینہ برسات کا پہلا مہینہ | رعد | بجلی کی کڑک | اَولتی | پرنالہ | چنگاریں | آوازیں لگائیں/ گیت گائیں |
نظم برسات کا تماشا کی تشریح:
بند نمبر :1
خورشید گرم ہو کر نکلا ہے اپنے گھر سے
لیتا ہے مول بادل کر کر تلاش زر سے
آئی ہوا بھی لے کر بادل کو ہر نگر سے لیتا ہے مول بادل کر کر تلاش زر سے
آدھے اساڑھ تو اب دشمن کے گھر سے برسے
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم برسات شروع ہو گیا ہے مگر ابھی تک بارش نہیں ہوئی ہے۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے ۔ لوگ گرمی سے بیحال ہیں اور بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ کاشکر ہے کہ اب ہوا چل پڑی ہے اور مختلف علاقوں سے بادلوں کو جمع کر کے لا رہی ہے۔ برسات کا آدھا مہینہ گزر چکا ہے اور اب تک بارش پرائے دیس میں ہی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اب بارش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ آؤ دوست ہم مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :2
قاصدصبا کے دوڑے ہر طرف منہ اٹھا کر
ہر کوہ و دشت کو بھی کہتے ہیں یوں سنا کر
ہر کوہ و دشت کو بھی کہتے ہیں یوں سنا کر
ہاں سبز جوڑے پہنو ہر دم نہا نہا کر
کوئی دم کو میگھ راجا دیکھے گا سب کو آکر
کوئی دم کو میگھ راجا دیکھے گا سب کو آکر
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم برسات شروع ہو گیا ہے۔ مون سون کی ہوائیں بارش کا پیغام لا رہی ہیں اور پہاڑوں اور جنگلوں کو یہ کہہ رہی ہیں کہ ابھی بادلوں کا بادشاہ آنے والا ہے یعنی بارش ہونے والی ہے۔ہر پیاسے کی پیاس بجھے گی اور خوب بارش ہوگی ۔ ہر طرف سبزہ و ہریالی ہوگی۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :3
ساون کے بادلوں سے پھر آ گھٹا جو چھائی
بجلی نے اپنی صورت پھر آن کر دکھائی
بجلی نے اپنی صورت پھر آن کر دکھائی
ہو مست رعد گرجا ، کوئل کی کُوک آئی
بدلی نے کیا مزے کی رم جھم جھڑی لگائی
بدلی نے کیا مزے کی رم جھم جھڑی لگائی
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ برسات کے کالے بادل ہر طرف آسمان پر چھا گئے ہیں۔ بجلی بھی چمک رہی ہے اور بادل بھی خوب گرج رہے ہیں۔ گرمی کے ستائے سب لوگ خوش ہو گئے ہیں ۔ کوئل بھی بھی اپنی سریلی آواز میں گیت گانے لگی ہے۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی ہے۔آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
بند نمبر :4
آکر کہیں مزے کی ننھی پُھہار برسے
چیزوں کا رنگ چھٹ کر حسن و نکھار برسے
اک طرف اَولتی کی باہم قطار برسے
چھاجوں اُمڈ کے پانی موسل کی دھار برسے
چیزوں کا رنگ چھٹ کر حسن و نکھار برسے
اک طرف اَولتی کی باہم قطار برسے
چھاجوں اُمڈ کے پانی موسل کی دھار برسے
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ بارش کے قطروں نے ہر چیز پر پڑے غُبارکو دھو کر صاف شفاف کر دیا ہے، انکا اصل رنگ روپ نکل آیا ہے اور ان سب کی خوبصورتی نمایاں ہو گئی ہے۔ تیز بارش کے سبب چھتوں سے پانی پرنالوں سے گرنا شروع ہو گیا ہے۔یعنی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :5
ہر کوہ کی کمر تک سبزہ ہے لہلہاتا
برسے ہے مینه جھڑا جھڑ، پانی بہا ہے جاتا
وحس وطیور ہر اک ، مل مل کے ہے نہاتا
غوغا کریں ہیں مینڈک ، جھینگر ہے غُل مچاتا
وحس وطیور ہر اک ، مل مل کے ہے نہاتا
غوغا کریں ہیں مینڈک ، جھینگر ہے غُل مچاتا
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت کی بارش ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ و ہریالی دکھائی دے رہی ہے۔ لگاتار بارش برس رہی ہے، ہر طرف پانی بہتا جا رہا ہے۔ تمام جانور اور پرندے جو گرمی کے ستائے ہوئے تھے اس پانی میں خوب نہا رہے ہیں اور اپنے جسم کی گرمی اور مَیل دور کر رہے ہیں۔ مینڈک بھی خوشی سے ٹرا رہے ہیں اور چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی خوشی سے شور مچا رہے ہیں۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر :6
کالی گھٹا ہے ہر دم برسے ہیں مینھ کی دھاریں
اور جس میں اُڑ رہی ہیں بگلوں کی سو قطاریں
کوئل پپیہے کوکیں اور کُوک کر پُکاریں
اور مور مست ہو کر جوں کُو کِلا چنگاریں
اور جس میں اُڑ رہی ہیں بگلوں کی سو قطاریں
کوئل پپیہے کوکیں اور کُوک کر پُکاریں
اور مور مست ہو کر جوں کُو کِلا چنگاریں
آ یار چل کے دیکھیں ، برسات کا تماشا
حوالہ: یہ بند نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح: اس بند میں شاعر کہتا ہے کہ موسم برسات کی بارش شروع ہے۔ کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ خوب زوروں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس بارش میں خوشی سے بگلے قطاریں بنائے اُڑ رہے ہیں۔ نہ صرف کوئل بلکہ پپیہے بھی خوشی سے گیت گا رہے ہیں۔ مور بھی خوشی میں مدہوش ہو کر کوئل کی طرح گانے لگےہیں۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان: اس بند میں شاعر نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔