اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

اردو نوٹس برائے جماعت دہم اردو حصہ نثر URDU HISSA NASAR CLASS 10TH

 حصہ نثر      اردو جماعت دہم

سبق نمبر 1: اُمید کی خوشی

  (سر سید احمد خان)         

    صنفِ نثر : مضمون                                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماخذ: "سر سید کے اخلاقی مضامین"

سوال نمبر 1:مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات بیان کریں۔

جواب:                        

شگفتگی اور بے ساختگی: سر سید احمد خان کی تحریرات میں  شگفتگی اور مزاح کی خوبصورتی تاثیر پیدا کرتی ہے۔ قارئین ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے مضامین پڑھ کر مایوسی اور پریشانی سے نکل آتے ہیں۔

 تنوّع اور جدت: ان کی تحریرات میں تنوع اور جدت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے مذہب سے لے کر سیاست اور فلسفہ  سے لے کر قانون تک  ہر موضوع پر لکھا ہے۔

ملی جذبات اورمقصدیت: سر سید کے  دل میں اپنی   قوم کا درد موجود تھا۔ ان کی تحریرات میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔  انکا اولین مقصد مسلمان قوم کی اصلاح  کرنا ہے۔ چنانچہ اپنی  تحریرات  کے ذریعے  وہ اپنی قوم میں اتحاد و یک جہتی کے جذبات ابھارتے ہیں۔

سوال نمبر 2:سبق کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

سر سید احمد خاں کے مضمون  "امید کی خوشی" کا مرکزی  خیال یہ ہے کہ مصنف ہمیں  سمجھانا چاہتا ہے کہ  جو چیزیں  انسان سے دور ہوتی ہیں  وہ ہمیں  بہت اچھی لگتی ہیں.   نیز یہ کہ اُمید انسان کو بہت حوصلہ دیتی ہے اور دور کے وقت کو انسان اپنے قریب پاتا ہے۔ اسی  حوصلے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ سر سید احمد خان نےآخرت یعنی  مرنے کے  بعد کی زندگی کو  "چھپی ہوئی دنیا " قرار دیا ہے۔

------------------

------------------

سبق امید کی خوشی کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

سبق " امید کی خوشی کا خلاصہ یہ ہے کہ سر سید احمد خان نے اس سبق میں  امید کی اہمیت بیان کی ہے اور اس بات کا ثبوت دو واقعات کی صورت میں دیا ہے۔ 

مصنف کہتے ہیں امید ایک ایسی شے ہے جس پر دنیا قائم ہے۔ ہر انسان امید کے سہارے زندہ ہے۔ مصنف نے اس سبق میں امید کو خوشی قرار دیا ہے کیونکہ جب انسان ناامید ہو جاتا ہے اور جینے کا کوئی سہارا نہیں بچتا تو یہ امید ہی ہوتی ہے جو انسان کو خوشی اور سکون مہیا کرتی ہے۔ جب ہر طرف نا امیدی ہوتی ہے، تب امید انسان کے لیے خوشی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ انسان بہتر مستقبل کی امید سے پریشان کن حال کو بھی گزار دیتا ہے۔


 مصنف ایک پر امید ماں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ماں بچے کو لوری دیتے ہوئے کہتی ہے : ” سورہ میرے بچے سورہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سورہ۔ اے میرے دل کی کونپل سورہ، بڑھ اور پھل پھول ، تجھ کو نہ آوے کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی، تو نہ دیکھے۔ تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گا۔


 یہاں مصنف کا اشارہ ایک نو مولود بچے کی جانب ہے جو ہر چیز سے بے خبر اپنے گہوارے میں پر سکون نیند سو رہا ہے۔ جس کی ماں اپنا کام بھی کر رہی ہے اور بچے کو جھولا بھی جھولا رہی ہے۔ دراصل یہاں مصنف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس بچے کی ماں اس قدر تکالیف اس لیے جھیل رہی ہے کہ اسے امید ہے کہ جب اس کا بچہ بڑا ہو جائے گا تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اس عورت کو سکون پہنچائے گا۔ 


 پھر مصنف ایک بے گناہ قیدی کا ذکر کرتے ہیں جن سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جن کو ان کے بھائیوں نے کنوئیں میں دھکیل دیا تھا۔ وہ اپنے والد سے دور ، دوسرے ملک میں غلام اور قیدی بن کر رنجیدہ تھے لیکن وہاں بھی وہ ایک امید کے سہارے موجود تھے کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا اور اس قید سے باعزت رہا ہوں گے۔ 


مصنف سبق کے آخر میں ایک مرنے والے شخص کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امید کی وجہ سے وہ ہنسی خوشی موت کو گلے لگاتا ہے کہ اس کے غم ختم ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ قائم رہنے والی دنیا میں چلا جائے گا۔ اس سب سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ امید ہماری زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ امید کی وجہ سے ہم اپنے حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔




سوال نمبر 3:      انسان کو اپنے سے دور کی وہ چیزیں جن تک اس کی رسائی نہیں ہوتی کیوں زیادہ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں؟

جواب :     جو چیزیں  انسان سے دور ہوتی ہیں  اور ہم ان تک نہیں پہنچ سکتے جیسا کہ آسمان ، اونچے  پہاڑ اور وہ چیزیں جن کو ہم چھو  نہیں سکتے وہ ہمیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب ہم ان  کو پا لیتے ہیں یا ان کے قریب چلے جاتے ہیں تو یہ اپنی  کشش کھو دیتی ہیں۔  کیونکہ انسان ان چیزوں کی خوبیوں خامیوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہی لگتے ہیں۔

سوال نمبر 4:      عقل اور اُمید میں فرق کی وضاحت کریں۔

جواب :   عقل کا دائرہ بہت ہی تنگ ہے۔ یہ ہمیں صرف قانون قدرت تک لے کر جاتی ہے۔ جبکہ  امید سے وہ خوشیاں حاصل  ہوتی ہیں جو بہت دور ہونے کے باوجود قریب دکھائی دیتی ہیں۔

سوال نمبر 5:      آپ کے خیال میں یقینی اور بے یقینی کی موت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ یقین اور بے یقین کی موت میں فرق  بتاتے ہوئے تین نکات تحریر کریں۔

جواب :   میرے خیال میں یقینی اور بے یقینی کی موت میں کوئی فرق نہیں ہوتا ، دونو ں صورتوں میں مرنے والے کو موت کے بعد  سکون ملنے کی امیدہوتی ہے۔    جب انسان یقین کی موت مرتا ہے  تو اسے اُمید ہوتی ہے کہ :

   مرنے کے بعد اسے ہمیشہ کی زندگی ملنے والی ہے۔

   اس کو اسکے نیک کاموں کا صلہ ملنے والا ہے۔

 اس کو امید ہوتی ہے  کہ اس کا حساب کتاب ہوگا اور وہ اس میں کامیاب ہوگا۔

جب انسان بے یقین کی موت مرتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ:

 دنیا کی تکالیف ختم ہو جائیں گی۔

اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔

وہ قبر میں آرام  سے سویا رہے گا۔

سوال نمبر6:    اُمید انسان کو حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے، مثال سے واضح کریں۔

جواب :   اُمید انسان کو بہت حوصلہ دیتی ہے اور دور کے وقت کو انسان اپنے قریب پاتا ہے۔ اسی  حوصلے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں جدوجہد کرتا رہتا ہے مثلاً ایک چھوٹا سا بچہ جو جھولے میں سویا ہوا ہوتا  ہے۔  وہ ابھی بول بھی نہیں سکتا لیکن اس کی ماں اس سے اُمید لگاتی ہے کہ یہ بڑا ہو کر ہمارا سہارا بنے گا۔ یہ اچھے اسکول میں پڑھے گا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے  اسے اچھی نوکری ملے گی۔اپنے والدین کا نام روشن کرے گا۔  حتیٰ کہ ماں کی امید یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ  مرنے کے بعد اسکی قبر پر اسکی یہ اولاد آکر روئے گی اور اسکی مغفرت کیلیے دعاگو ہوگی۔

سوال نمبر7:      سر سید احمد خان کی "چھپی ہوئی دنیا " سے کیا مراد ہے؟

جواب :           سر سید احمد خان نےآخرت یعنی  مرنے کے  بعد کی زندگی کو  "چھپی ہوئی دنیا " قرار دیا ہے۔ کیونکہ جو بھی ایک دفعہ موت کی وادی میں گیا لوٹ کر واپس نہیں آیا کہ آکر ہمیں وہاں کے حالات بتائے۔ البتہ اسلام میں  روزِ آخرت یا یومِ حساب اور مرنے کے  بعد  نیک  لوگوں کے لیے جنت کی خوشخبری  اور  گناہگاروں کےلیے دوزخ کی آگ میں جلنے  کی خبریں  دی گئی ہیں لیکن  وہاں کا آنکھوں دیکھا حال  ابھی تک کسی نے نہیں آکر بتایا ۔

 

سبق نمبر: 2               شیخ سعدی               مصنف :مولانا الطاف حسین حالؔی

صنفِ نثر: سوانح۔۔۔۔۔۔۔ ماخذ: حیاتِ سعدی

 

مصنف کے انداز بیان کی چند خصوصیات:


 سادہ زبان کا استعمال: حاؔلی کے طرزتحریر کی نمایاں خوبی انکی سادگی ہے. انھوں نے اپنی تحریر ات میں تشبیہات اور استعارات سے پاک سادہ زبان کا استعمال کیا ہے. جس کی وجہ سے عام پڑھنے والا بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے.

  مقصدیت : انکی تحریر ات میں مقصدیت پائی جاتی ہے. ان کا اولین مقصد مسلمانوں کو اپنے آباواجداد کی طرح بامقصد زندگی گزارنے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہے.

  سوانح نگاری: حالی کو سوانح نگاری میں خاص مقام حاصل ہے. انھوں نے عظیم شخصیات کے حالات زندگی  پیش کر کے عام لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے.    


 سبق شیخ سعدی کا مرکزی خیال:

اس سبق میں مصنف مولانا الطاف حسین حالی شیخ سعدی کی سوانح بیان کرتے ہوئے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اولاد کی بہترین تربیت میں  والدین کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔  نیز  ایک عالم کا مقام درویش  اور فقیر سے بلند ہوتا ہے. کیونکہ عالم عوام کو علم کی روشنی سے منور کرتا ہے اور کئی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے. جبکہ درویش  تنہائی میں عبادت کرتا ہے اور صرف اپنی عاقبت سنوارتا ہے.

 

تفہیمی سوالات:

  سوال نمبر:1 ایک عالم اور درویش میں کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب :  درویش صرف اپنی اصلاح کرتا ہے اور اپنی عاقبت سنوارنے کی جدو جہد میں تارک الدنیا ہو جاتا ہے اور عبادت میں مصروف رہتا ہے. جبکہ عالم اپنی اصلاح بھی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سیدھی راہ دکھاتا ہے.

درویش خود برائی سے دور رہ کر اپنے رب کو راضی کرتا ہے جبکہ عالم خود بھی برائی سے دور رہتا ہے اور دوسروں کو بھی گناہ کرنے سے بچاتا ہے. درویش صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ علما چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی ڈوبنے سے بچائیں.

 

 سوال نمبر2 : شیخ سعدی اپنی تربیت کا سبب اپنے والد صاحب کو کیوں قرار دیتے ہیں؟

جواب :   شیخ سعدی کے والد ان کے افعال و اقوال کی کڑی نگرانی  عام والدین کی نسبت زیادہ کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے اور کہیں آوارہ نہ پھرنے دیتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی تربیت کا بہت بڑا سبب اپنے والد کی بہترین تربیت اور ڈانٹ ڈپٹ کو قرار دیا ہے۔

 

 سوال نمبر3: شیخ سعدی کا میلان سماع کی محافل  سے کیسے ختم ہوا؟

جواب :    شیخ سعدی کا بچپن سے ہی  درویشی اور فقیری کی طرف زیادہ جھکاو  تھا۔ زمانہ طالبعلمی میں وہ برابر سماع کی محافل میں شرکت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مجلس میں  بدآواز قوال سے واسطہ پڑا اس  روز سے انھوں نے  سماع سے ہمیشہ کیلیے توبہ کر لی۔

 

 سوال نمبر4 : ایک مرتبہ جب قاضی نے مسند چھوڑ کر عمامہ سر سے اتار کر شیخ سعدی کے سامنے رکھ دیا تو انھوں نے یہ کیوں کہا کہ یہ غرور کا اوزار مجھے نہیں چاہیے؟

جواب :    ایک بار  شیخ سعدی  کسی مجلس میں میلے اور پھٹے ہوئے کپڑے پہنے  ایک مجلس میں گئے تو خدام نے انھیں  اٹھا کر جوتیوں والی جگہ پر بٹھا دیا ۔ جب  انھوں نےاسی مجلس میں ایک  ایسے مسئلے کا حل بتایا جو کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا  تو صدرِ مجلس قاضی نے مسند چھوڑ کر اپنی پگڑی اتار کر انکے سامنے رکھ دی  تو  اس پر شیخ سعدی نے  کہا کہ یہ پگڑی  اور صاف لباس تکبر اور غرور کی علامت ہے۔ جبکہ اصل قدر  اور فضیلت علم  کی ہے۔کہیں  یہ غرور کا اوزار یعنی پگڑی  پہن کر میں بھی نہ مغرور  ہو جاوں اور پھٹے پرانے لباس والوں سے نفرت کرنے لگوں۔

 

 سوال نمبر5: اتابک ابوبکر کے وزیر نے علما کو روپیہ دینے اور زاہدون /درویشوں کو کچھ نہ دینے کا مشورہ کیوں دیا؟

جواب :    وزیر نے مشورہ دیا کہ  علما ء اور درویشوں دونوں  سے برابر کا سلوک کرنا چاہیے۔ علما ء کو روپیہ دینا چاہیے تاکہ اطمینان سے درس اور تصنیف میں مصروف رہیں اور درویشوں کو کچھ نہیں دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے زُہد پر قائم رہیں۔

 

سبق نمبر:3  نماز                    مصنف : شبلی نعمانی  صنف نثر: سوانح 

ماخذ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:

     جوش بیانی: شبلی  نے  بڑی  پُر جوش طبیعت پائی  ہے۔وہ اپنے مضامین میں مسلمانوں کو گزشتہ عظمت ، آباؤ اجداد کے کارناموں اور قومی ترقی  کا تذکرہ کر کے  ان  کے جوش میں اضافہ کردیتے ہیں۔

   شعریت:   ان کی تحریرات میں شعریت پائی جاتی ہے۔ شبلی کی شعریت محض لفاظی کا نام  نہیں بلکہ وہ لطیف ، شیریں اور نرم الفاظ کو سلیقے سے استعمال  کرکے نثر میں شامل  کرتے ہیں۔

   ایجاز و اختصار:  شبلی کا انتخابِ الفاظ  قابلِ داد ہے۔ وہ تفصیل اور پھیلاؤ سے بچتے اور  مقصد و مفہوم کو  مختصر اً بیان کرنے کیلیے اشارہ و کنایہ سے کام لیتے تھے۔

     طنزیہ انداز: شبلی کی تحریرات میں طنزیہ انداز  پایا جاتا ہے۔ انھوں نے جمود کا شکار علماء اور متعصب مستشرقین1 پر بھر پور طنز کیا ہے۔

     بے ساختگی:  ان کی تحریرات تصنع اور تکلف سے پاک ہیں ۔ ان کا اسلوب قدرتی اور بے ساختہ ہے۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔

 (استشراق کا مطلب: غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔۔۔۔۔۔ اس طبقے میں ان مستشرقین کو رکھا جاتا ہے جن کا مقصد بے لاگ اور غیر جانبدارنہ علمی تحقیق کے لبادے میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں۔ اس طبقے میں مزید تقسیم کی جا سکتی ہے کیونکہ کے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے انداز مین تبدیلی آتی رہی ہے۔ ان میں چند مشہور افراد یہ ہیں۔ کیمون ۔جین برڈ ۔ہمفرس پرائی ڈیکس ۔سر ویلم میور)

 

سبق" نماز"  کا  مرکزی خیال:

سبق "نماز " کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف ہمیں نماز کی اہمیت  و فضیلت اور روحانی غرض وغایت سمجھانا چاہتا ہے۔ عبادت کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے۔ نماز اسلام کا ایسا رکن ہے جو امیر غریب ،بوڑھے جوان،عورت مرد ، بیمار  و تندرست سب پر یکساں فرض ہے۔  نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ قیامت کے روز سب سے پہلے  قیامِ نماز سے متعلق سوال کیا جائے گا۔ 

  

سبق نماز کےتفہیمی سوالات:  

سوال نمبر 1: نماز کی تین حکمتیں بیان کریں۔

جواب:

    نماز کی ایک حکمت یہ ہے کہ "نماز برائیوں سے روکتی ہے۔"

      نماز سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔

     نماز خدا کی یاد ہے اور خدا کی یاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔

سوال نمبر 2: نماز کی  لفظی اور معنوی حقیقت بیان کریں۔

جواب: نماز کیلیے اصل عربی لفظ "صلوٰۃ" ہے جس   کے معنی عربی  اور عبرانی  زبانوں میں  دعا کے ہیں۔ اس لیے نماز کی لفظی حقیقت  خدا سے درخواست اور التجا ہے اور اس کی معنوی حقیقت بھی یہی ہے۔ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: " دعا ہی عبادت کا مغز ہے۔"

سوال نمبر 3: نماز کی روحانی غرض و غایت بیان کریں۔

جواب: نماز کی روحانی غرض و غایت یہ ہے کہ خالقِ کل ، رازق عالم اور مالک الملک کے احسانات اور بخششوں کا   شکر ہم دل اور زبان سے کریں۔ تاکہ ہمارےنفس و روح اور دل و دماغ پر  اللہ کی کبریائی  اور اپنی عاجزی کا نقش بیٹھ جائے۔ اس کی محبت کا نشہ ہماری رگ رگ  میں سما جائے۔  ہر وقت ہم یہ محسوس کرنے والے بن جائیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔

سوال4: " نماز کی اہمیت و فضیلت"  کے عنوان پر ایک مضمون تحریر کریں۔

جواب:  ( سبق کا مطالعہ کر کے طلبہ خود جواب تحریر کریں۔)

سبق نمبر 4:     انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔          مصنف کا نام:مولانا محمد حسین آزاد

صنف ادب : تمثیل نگاری

ماخذ: نیرنگ خیال 


سوال 1: انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا "محمد حسین آزاد” کا انشائیہ ہے۔اس کی کہانی کو مصنف نے تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔مصنف نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے داناؤں کے مطابق بھی انسان کسی حال خوش نہیں کہ اگر اس پر کوئی پریشانی آ جاتی ہے تو اسے وہ اپنی وہ مصیبت بہت بھاری اور زیادہ جبکہ دوسرے کی مصیبت کم معلوم ہوتی ہے۔ 

اسی طرح ایک مرتبہ مصنف کی آنکھ لگی اور خواب دیکھا کہ سلطان افلاک کے دربار سے اشتہار جاری ہوا ہے کہ تمام دنیا کے لوگ اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف لائیں اور جگہ پر ڈھیر کر دیں۔ یہ سننا تھا کہ کئی طرح کے لوگ آ کر وہاں اپنی پریشانیاں ڈھیر کرنے لگے اور دیکھتے دیکھتے یہ ڈھیر آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ یہاں اس ڈھیر کے پاس ایک سوکھا،سہما اور دبلاپے کا شکار شخص تھا۔ جو انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے پر شکل بہت بڑی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ جس کا دامن دامنِ قیامت سے بندھا تھا۔اس کی آنکھیں وحشیانہ مگر نگاہ میں افسردگی تھی۔دراصل یہ وہم تھا جو لوگوں کو بہکانے کے لیے اس ڈھیر کے پاس موجود تھا۔  اس نے مصنف کو ایک آئینہ دکھایا جس نے اس کی صورت بہت بھدی دکھائی تو اس نے اپنے چہرے کو اس ڈھیر پر اتار پھینکا۔

یہاں پر لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ آئی تھی جس کا شما ر بھی ممکن نہیں لوگ گھٹریاں باندھ یہاں اپنے غم پھینک رہے تھے۔اس انبار میں انواع و اقسام کے سقم اور امراض موجود تھے۔جن میں بعض اصلی جبکہ بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے تھے۔  سب سے زیادہ جسمانی عیب دیکھنے کو ملے۔لیکن اس ڈھیر پر کوئی بے وقوفی یا بد اطواری نہ پائی گئی۔ عورتیں بھی یہاں اپنی خامیوں کو چھوڑ کر نیا طور اپنا رہی تھیں۔

غرض جب سب لوگوں نے اپنی تکالیف سے چھٹکارا پا کر اس کا بدل حاصل کرلیا تو رفتہ رفتہ یہ نئی مصیبتیں ان کو بوجھ معلوم ہونے لگیں۔دراصل پہلی مصیبتوں کو چونکہ وہ سہہ چکے تھے اور ان کو سہنے کے عادی ہوچکے تھے اس لیے نئی پڑنے والی مصیبت سے ہر شخص ہی نا خوش تھا۔

آخر سلطان افلاک کو لوگوں کی اس حالت زار پر رحم آیا۔اس نے حکم جاری کیا کہ اپنے نئے بوجھ اتار پھینک کر پرانے حاصل کر لو۔

یوں دھوکے میں رکھنے والے شیطان کی جگہ ایک فرشتہ رحمت انسان آسمان سے نازل ہوا۔جس کی حرکات وسکنات نہایت معقول اور باوقار تھیں۔چہرہ بھی سنجیدہ اور خوشنما تھا۔وہ بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا تھا اور رحمت الہی پر توکل کرکے نگاہ کو اسی کی آس پر لگا دیا کرتا تھا۔ اسی کا نام صبر و تحمل تھا۔اس نے ہر شخص کو اس کا واجبی بوجھ اور ساتھ میں بردباری کی تلقین کی۔سب نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ یوں مصنف نے تمثیلی انداز میں  بہت بڑی  نصیحت کی ہے کہ انسان اگر صبر و برداشت سے کام لے اور خدا پر بھروسہ رکھے تو ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے ۔

سوال نمبر2: سبق انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ سلطان افلاک کے دربار سے کیسا اشتہار جاری ہوا تھا؟

سلطان افلاک کے دربار سے اشتہار جاری ہوا کہ تمام دنیا کے لوگ اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف لائیں اور ایک جگہ پر ڈھیر کر دیں۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ اپنی پہلی مصیبت کے بدلےاس انبارِ رنج و الم سے کسی دوسری پسندیدہ مصیبت کو اٹھا لیں۔

سوال نمبر 3: آپ کے خیال میں انسان کو اس کی اپنی تکالیف زیادہ اور دوسروں کی بڑی مصیبتیں کیوں کم معلوم ہوتی ہیں؟

شیطان انسان کے دل میں ایسے وہم اور وسوسے ڈالتا ہے کہ اسے اپنی معمولی تکالیف بھی بڑی معلوم ہوتی ہے۔

سوال نمبر4: مصنف نے وہم کا کیا حلیہ بیان کیا ہے؟ نیز آپ کے خیال میں ایسی مثال بیان کر کے مصنف نے ہمیں کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے؟

 وہم ایک سوکھا،سہما اور دبلاپے کا شکار شخص تھا۔ جو انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے پر شکل بہت بڑی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ جس کا دامن دامنِ قیامت سے بندھا تھا۔اس پر دیو زادوں، جناتوں کی تصویریں کڑھی ہوئی تھیں۔اس کی آنکھیں وحشیانہ مگر نگاہ میں افسردگی تھی۔

میرے خیال میں مصنف نے اس تمثیل کے ذریعے ہمیں یہ نصیحت کی ہے کہ وہم ایک شیطانی چال ہے اور بہت کمزور ہے۔ ہم اپنی مضبوط قوّت ارادی سے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر 5: لوگ اپنی پہلی مصیبت سے چھٹکارا کیوں پانا چاہتے تھے؟

لوگ اپنی پہلی مصیبت سے اس لیے چھٹکارا پانا چاہتے تھے کہ ان کو اپنی وہ مصیبت بہت بڑی اور بھاری معلوم ہوتی تھی۔

سوال نمبر 6:مصیبتوں کو بدلنے کے بعد لوگوں نے خود کو کیسا محسوس کیا؟

مصیبتوں کو بدلنے کے بعد لوگ خود میں واضح تبدیلی محسوس کرنے لگے۔ مگر رفتہ رفتہ یہ نئی مصیبت ان کے لیے بوجھ بننے لگی اور وہ اس سے تنگ آنے لگے۔

سوال نمبر7:اپنی اپنی مصیبتوں کو بدلنے کے بعد بھی لوگوں کی پریشانیاں کیوں کم  نہیں ہوئیں؟

اپنی مصیبتوں کو بدلنے کے بعد لوگوں پر جو نئی مصیبتیں یا بوجھ لادے گئے وہ انھیں پہلے سے بھی زیادہ بھاری معلوم ہونے لگے۔ پہلی مصیبتوں کاچونکہ وہ سامنا کر چکے تھے اور ان کو سہنے کے عادی ہوچکے تھے اس لیے نئی پڑنے والی مصیبت سے ہر شخص ہی نا خوش تھا۔

سوال نمبر8: مصنف نے اس سبق میں صبر و تحمل کا حلیہ کس طرح کا بیان کیا ہے؟

ایک فرشتہ رحمت انسان آسمان سے نازل ہوا۔جس کی حرکات وسکنات نہایت معقول اور باوقار تھیں۔چہرہ بھی سنجیدہ اور خوشنما تھا۔وہ بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا تھا اور رحمت الہی پر توکل کرکے نگاہ کو اسی کی آس پر لگا دیا کرتا تھا۔ اسی کا نام صبر و تحمل تھا۔

 سوال نمبر 9: مصنف نے اس سبق کے ذریعے ہمیں کیا نصیحت کرنے کی کوشش کی ہے؟

  اس سبق کے ذریعے مصنف نے یہ نصیحت کی ہے کہ اگر انسان صبرو تحمل سے کام لے اور اپنی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے صرف خدا پر توکل و بھروسہ کرے اور اسی سے مدد مانگے تو وہ ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے۔

سوال نمبر 10: مشہور کہاوت ہے کہ " انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا"  اسی بات کو محمد حسین آزاد نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے۔ آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟ اپنے جواب کی وضاحت چار نکات سے کیجیے۔

جواب:  جی ہاں میں مصنف کی بات سے متفق ہوں انسان میں فطری طور پر لالچ پایا جاتا ہے، اس لیے دنیا میں اس کو چاہے جو مرضی دے دیا جائے وہ اس پر خوش نہیں ہوتا اور مزید کی تمنا کرتا ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ اسے دوسروں کی چیزیں ہمیشہ زیادہ پسند آتی ہیں۔  اس لیے وہ اپنی چیز یا نعمت پر ناشکری کرتا ہے۔

انسان ہمیشہ اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں اور خوشیاں صرف اسے ہی مل جائیں۔

 انسان ترقی پسند ہے اس کے مقام  کی کوئی حد نہیں۔  اس لیے وہ ہمیشہ آگے سے آگے بڑھنے کی جدو جہد میں لگا رہتا ہے اور اپنی پہلی حالت پر مطمئن نہیں ہوتا۔

 سوال نمبر 11: وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی  نہ تھا۔ اس  بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ وہم  جیسا مرض ہم  میں کونسی خرابیاں پیدا کرتا ہے؟

جواب: وہم کی وجہ سے  انسان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ۔ وہم ہماری خرابیوں ، بیماریوں اور تکالیف کو بڑھا بڑھا کر دکھاتا ہے۔

وہم کی وجہ سے انسان میں صبر و تحمل کی  صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہم کی وجہ سے انسان کا سکون جاتا رہتا ہے۔ زندگی میں بے سکونی سے معاشرے کا امن  بھی خراب ہو جاتا ہے۔

 سوال نمبر 12:    سبق " انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مشورہ دیجیے کہ انسان کس طرح ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے؟

جواب:       میرے خیال میں انسان اگر سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اسے وہم جیسی بلا سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔ کیونکہ وہم ہمارے دل و دماغ میں منفی خیالات پیدا کر کےہماری تکالیف کو بڑھا کر دکھاتا ہے۔

 انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے کیونکہ صبر اور برداشت  کی بدولت انسان مصائب  کا مقابلہ بآسانی کر سکتا ہے۔

 انسان اگر خدا سے پختہ تعلق قائم رکھے تو اس کی زندگی میں سکون پیدا ہوگا۔  اسی لیے فرمانِ الٰہی ہے ترجمہ:"  ہاں! خدا  ہی کی یاد سے دل تسکین پاتے ہیں۔" (سورۃ رعد)

سوال نمبر 13: سبق “انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا” میں مصنف نے عاشقوں کو گروہ کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی دکھوں کی گٹھڑیاں مصائب کے ڈھیر میں نہیں پھینکیں ۔ جس طرح تکالیف کے بوجھ سے لدے آئے تھے اسی طرح واپس چلے گئے۔ آپ کے خیال میں عاشقوں نے اپنے دکھوں کو تبدیل کرنا  کیوں گوارا نہ کیا؟

جواب:  عاشقوں نے اپنی تکالیف اس ڈھیر میں نہیں  ڈالیں کیونکہ وہ اپنے محبوب کے دیے ہوئے غموں اور دکھوں کو اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہتے تھے۔  جس طرح  عاشق کو معشوق کی ہر بات، ہر ادا پسند ہوتی ہے اسی طرح سچا  عشق کرنے والے  کو محبوب کے دیے ہوئے غم  اس  کی بے رخی اور بے وفائی  بھی  پیاری لگتی ہے۔

 سوال 14: مصنف محمد حسین آزاد کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات بیان کریں۔

 ماحول کی مصوری: مولانا محمد حسین آزاد کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ انکی تصویر کشی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔

مکالماتی انداز: انھوں نے اپنی تحریرات میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے مکالماتی انداز اختیار کیا ہے۔ تاہم ڈرامائیت پیدا کرنے میں اکثر وہ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

 شعریت اور رنگین بیانی:  آزاد سادگی اور سلاست کی بجائے شعریت اور رنگین  بیانی کے قائل ہیں۔ ان کی نثر کو نثری شاعری بھی کہا جاتا ہے۔

سوال نمبر 15: سبق "انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا" کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

 اس سبق کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف محمد حسین آزاد ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ انسان کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا۔ اگر ہم اپنی اپنی مصیبتوں کو آپس میں بدل سکتے تو پھر ہر شخص اپنی پہلی ہی مصیبت کو اچھا سمجھتا۔ دراصل انسان وہم کے دھوکے میں آکر اپنی معمولی تکالیف کو ہوّا بنا لیتے ہیں۔ مصنف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم خدا پر کامل یقین اور صبرو تحمل سے کام لیں تو ہر حال میں خوش رہیں گے۔

سبق نمبر 5:     شاہد احمد دہلوی  

        مصنف کا نام:شاہد احمد دہلوی۔ 

صنف نثر : خاکہ     ماخذ: گنجینہ گوہر 


سوال1 :مصنف شاہد احمد دہلوی کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

بہترین خاکہ نگاری: خاکہ نگاری ان کا اہم ادبی کارنامہ ہے۔ وہ کسی شخصیت کا خاکہ اس طرح کھینچتے ہیں کہ صاحب موضوع کی شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے اور نگاہوں کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔

زبان و بیان کی سادگی :شاہد احمد دہلوی  نے اپنی تحریرات میں سادہ انداز اپنا یا ہے۔ان کی تحریر میں سادگی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔

 مقصدیت اور اصلاحی انداز : شاہد احمد دہلوی  کی تحریرات میں مقصدیت  پائی جاتی ہے۔ان کا اولین مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔

 دلکشی اور شگفتگی : ان کی تحریرات  میں وہ دلکشی اور شگفتگی   پائی جاتی ہے کہ بات سیدھا دل میں اتر جاتی ہے۔ ان کی نثر میں محاورات اور الفاظ کا استعمال اس قدر صحیح ہوا ہے کہ ہر لفظ زندہ اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔

سوال2 :سبق شاہد احمد دہلوی کا مرکزی خیال لکھیے۔

جواب: اپنی سرگزشت حیات میں مصنف شاہد احمد دہلوی اپنے آباواجداد کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔مصنف سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر دل میں حصول علم کا شوق ہو اور سختیوں کا صبر و برداشت سے سامنا کرنے کا حوصلہ ہو تو انسان اونچے سے اونچے مرتبے تک تک پہنچ سکتا ہے۔ نیز مصنف نے اپنے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے کامیاب زندگی گزاری اور جو ذمہ داریاں نہیں سونپی گئیں انھیں بخوبی انجام دیا۔

 سوال 3: شاہد احمد دہلوی کی زندگی کے دو اہم پہلو کون سے ہیں ؟ تحریر کیجیے۔

آپ کی زندگی کے دو پہلو ہیں ادب ، اور موسیقی ۔جنوری 1930 میں ماہنامہ ساقی جاری کیا۔ 1936 سے آل انڈیا ریڈیو کے کئی اسٹیشنوں سے کلاسیکی  موسیقی بھی نشر کرنی شروع کر دی تھی۔1961 ء  میں خیر سگالی کا ایک ثقافتی وفدہندوستان گیا تھا۔ کہ اس میں ان کو پاکستانی ادب و موسیقی کی نمائندگی کرنے کافخر حاصل ہوا۔ 1959 کے اوائل میں جن آٹھ ادیبوں نے پاکستان رائٹرز  گلڈ کا سنگِ بنیاد رکھا آپ ان میں سے ایک ہیں۔

سوال4: مغل بادشاہوں کا آفتاب جلال غروب ہو رہا تھا۔ دلی کے لال قلعے میں مغلوں کی آخری شمع جھلملا رہی تھیں۔ بادشاہ کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔

 درجہ بالا عبارت میں آخری شمع سے کیا مراد ہے؟ بادشاہ کی حیثیت کو شاہ شطرنج کیوں کہا گیا ہے؟

جواب:  اس عبارت میں آخری شمع سے مراد مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ہیں جن کو انگریزی حکومت نے  قید کر رکھا تھا۔ بادشاہ کو شاہ شطرنج اس لیے کہا گیا  ہےکہ انگریزوں نے ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور و ہ با دشاہ کو ایک مُہرے کی طرح استعمال کر رہے تھے اور ان سے کام نکلوارہے تھے ۔ان تمام کاموں میں بہادر شاہ ظفر کی کوئی مرضی شامل نہ تھی۔


*سبق سے متعلق چند مزید تفہیمی سوالات اور ان کے جوابات:


سوال:. مغل بادشاہوں کے زوال کی کیا علامات اقتباس میں بیان کی گئی ہیں؟

جواب: اقتباس میں مغل بادشاہوں کے زوال کی علامات یہ بیان کی گئی ہیں کہ بادشاہ محض ایک نمائشی حیثیت رکھتا تھا، اسے فرنگیوں سے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا، لیکن شرط یہ تھی کہ مغل سلطنت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اس کے باوجود لال قلعہ اور دہلی کی تہذیب و شائستگی اور علوم و فنون کی روایات باقی تھیں۔


سوال:. نذیر احمد نے ابتدائی زندگی میں کس طرح کے حالات کا سامنا کیا اور وہ علم کے حصول کے لیے کس حد تک کوشاں رہے؟

جواب: نذیر احمد نے انتہائی سخت حالات میں تعلیم حاصل کی۔ بجنور سے دہلی آ کر پنجابی کڑے کی مسجد میں رہتے تھے، محلے سے روٹی مانگ کر کھاتے، جاڑوں کی سردی میں صفوں پر سوتے، اور ملا کی سختی برداشت کرتے ہوئے دن رات پڑھائی میں مصروف رہتے۔ ان کی محنت اور علم کی لگن نے انہیں ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔


سوال:. ڈپٹی نذیر احمد کو کس طرح کا مقام اور شہرت حاصل ہوئی اور ان کی شخصیت میں کون سی خصوصیات نمایاں تھیں؟

جواب: ڈپٹی نذیر احمد نے علم و محنت کے ذریعے ڈپٹی کلکٹری کے عہدے تک رسائی حاصل کی، جو اس وقت دیسی افراد کے لیے اعلیٰ ترین منصب تھا۔ حیدر آباد میں ان کی کارکردگی نے انہیں مزید کامیابی دلائی۔ وہ اخلاقی اور مذہبی کتابیں لکھیں اور قرآن کا ترجمہ بھی کیا۔ ن کی شخصیت میں صبر، محنت، لگن، اور دیانت داری نمایاں تھیں۔


سوال : میاں بشیر نے اپنی علمی اور تحقیقی زندگی میں کون سے دو بڑے کارنامے سرانجام دیے اور ان کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: انہوں نے تاریخ بیجاپور اور تاریخ دہلی جیسی تحقیقی کتابیں لکھیں، جو ان کے وقت کے اہم تاریخی کام ہیں اور ان میں دکن اور دہلی کی تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔


سوال. میاں بشیر کی ازدواجی زندگی میں طویل عرصے تک اولاد نہ ہونے کا خاندان پر کیا اثر ہوا؟

جواب: خاندان کے افراد نے اس محرومی پر باتیں بنانی شروع کیں، جس کی وجہ سے مولوی نذیر احمد نے نکاح ثانی پر رضامندی ظاہر کی تاکہ خاندان کا چراغ روشن رہے۔


سوال. مولوی نذیر احمد نکاح ثانی کے مخالف تھے، پھر بھی انہوں نے میاں بشیر کے لیے دوسری شادی کی اجازت کیوں دی؟

جواب: عزیزوں کے دباؤ اور خاندان کے مستقبل کے حوالے سے فکرمندی نے انہیں نکاح ثانی کی اجازت دینے پر مجبور کیا۔


سوال. میاں بشیر کی دونوں بیویوں کے درمیان تعلقات کیسے تھے، اور ان کے اختلافات کی کیا وجوہات تھیں؟

جواب: بڑی بیوی نے دوسری بیوی سے تعلقات خراب رکھے اور طعنوں تشنوں سے اس کی زندگی مشکل بنائی، خاص طور پر جب دوسری بیوی سے کئی سال تک اولاد نہ ہوئی۔


سوال. میاں بشیر کے دوسرے نکاح کے بعد خاندان میں کیا تبدیلیاں آئیں؟

جواب: دوسری بیوی سے اولاد ہونے کے بعد خاندان میں خوشی کا ماحول پیدا ہوا، اور میاں بشیر کے چار بیٹے ہوئے۔


سوال. میاں شاہد احمد دہلوی کی ابتدائی زندگی کا وہ کون سا واقعہ ہے جو ان کے دادا کے ساتھ محبت کو ظاہر کرتا ہے؟

جواب: وہ واقعہ جب ان کے والد دادا سے ملاقات کے وقت جذباتی ہو جاتے تھے، اور دادا ہر بار انہیں ایک اشرفی دیتے تھے۔


سوال. میاں شاہد احمد دہلوی کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں والد کے حیدر آباد سے آمد کا ان کے بچپن پر کیا اثر پڑا؟

جواب: وہ ان ملاقاتوں کو خواب کی مانند یاد کرتے ہیں، جو ان کے خاندان کے جذباتی تعلقات کو ظاہر کرتی ہیں۔


سوال. میاں بشیر کی دوسری بیوی سے اولاد ہونے کے بعد خاندان میں بڑی بیوی کے رویے میں کیا تبدیلیاں آئیں؟

جواب: بڑی بیوی کا رویہ مزید سخت ہو گیا، لیکن خاندان میں خوشی کی وجہ سے تنازعات کم ہو گئے۔


سوال. میاں بشیر کی شخصیت میں ان کے والد مولوی نذیر احمد کی کون سی خصوصیات جھلکتی ہیں؟

جواب: میاں بشیر نے بھی اپنے والد کی طرح علمی اور تحقیقی کاموں میں نمایاں کارکردگی دکھائی اور کبھی قلم کو ترک نہیں کیا۔


سوال. میاں شاہد احمد دہلوی کی پیدائش کے وقت کے حالات اور خاندان کی خوشی کے اظہار کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟

جواب: ان کی پیدائش خاندان کے لیے بہت بڑی خوشی کا باعث بنی، اور ان کے دادا نے پوتے کے لیے خاص جشن منایا۔


سوال. اماں کی وفات کا ابا پر کیا اثر ہوا اور انہوں نے بچوں کی تربیت کے لیے کیا اقدامات کیے؟

جواب: اماں کی اچانک وفات نے ابا کو گہرے صدمے سے دوچار کیا، لیکن وہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اماں کی کمی پوری کرنے کے لیے انہوں نے بچوں پر خصوصی توجہ دی، ان کے لیے یورپین اور اینگلو انڈین گورنسیں رکھیں، بہترین کانونٹ اسکولوں میں داخل کروایا، اور خود بھی انہیں انگریزی اور اردو پڑھانے میں کردار ادا کیا۔


سوال. علی گڑھ میں تعلیم کے دوران کون سی تحریک نے اثر ڈالا اور اس کا بچوں کی تعلیم پر کیا اثر ہوا؟

جواب: علی گڑھ میں تعلیم کے دوران عدم تعاون کی تحریک نے زور پکڑا، جس کے نتیجے میں مولانا محمد علی نے جامعہ ملیہ علی گڑھ میں قائم کی۔ ابا نے اس تحریک کے اثرات کے تحت بچوں کو علی گڑھ سے نکال کر جامعہ ملیہ میں داخل کروا دیا۔


سوال. مصنف نے میڈیکل کی تعلیم کیوں چھوڑ دی اور انہوں نے کس میدان میں اپنی تعلیم جاری رکھی؟

جواب: مصنف نے میڈیکل کی تعلیم اس لیے چھوڑ دی کہ سڑی ہوئی لاشوں پر کام کرنے سے طبیعت ماند اور بے زار ہو گئی۔ انہوں نے دہلی آ کر انگریزی ادبیات میں بی اے (آنرز) کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں فارسی ادبیات میں ایم اے میں داخلہ لیا۔


سوال. ماہنامہ 'ساقی' کے آغاز میں مصنف کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور انہوں نے ان مشکلات کا حل کیسے نکالا؟

جواب: ابتدا میں ماہنامہ 'ساقی' کو چار سے پانچ سال تک مالی نقصان برداشت کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ماموں اور بھائیوں نے تنقید کی۔ مصنف نے پرچے کا انتظام خود سنبھالا، ہم عصر ادیبوں کی کتابیں چھاپنے کا فیصلہ کیا، جس سے کاروبار مستحکم ہو گیا اور 1947ء تک 'ساقی بک ڈپو' کی مالی حیثیت دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی۔


سوال. راجہ مہدی علی خان کے خطوط میں مصنف کے بارے میں کیا جذبات ظاہر کیے گئے ہیں؟

جواب: خطوط میں راجہ مہدی علی خان نے مصنف کی خیریت کے بارے میں اپنی فکر اور دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے مصنف کے 'ساقی' کے دوبارہ آغاز کو بھی سراہا اور خود اپنی بے توجہی پر شرمندگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنے ادبی دوستوں سے رابطہ برقرار نہ رکھ سکے۔


سوال. مصنف نے 'ساقی' کے بارے میں محاسبہ نفس کو کیوں ضروری سمجھا اور اس کا ان کی شخصیت پر کیا اثر ہوا؟

جواب: مصنف نے 'ساقی' کے ابتدائی نقصان کے بعد خود احتسابی کی، جس نے انہیں اپنی غلطیوں کو سمجھنے اور کاروبار کو بہتر طریقے سے چلانے میں مدد دی۔ یہ عمل ان کی محنت اور خود اعتمادی کو ظاہر کرتا ہے، جو ان کی کامیابی کا سبب بنا۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کے کس عمل کو اپنی زندگی میں اہم قرار دیا؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کے اس عمل کو اہم قرار دیا کہ انہوں نے اپنے سفارشی خط کے ذریعے انہیں فلم انڈسٹری میں داخل ہونے کا موقع دیا، جو ان کی زندگی کا رخ بدلنے کا سبب بنا۔


سوال:. شاہد احمد دہلوی کے رویے نے ادیبوں اور شاعروں پر کیا اثر ڈالا؟

جواب: شاہد احمد دہلوی کا رویہ ضرورت مند ادیبوں اور شاعروں کے لیے انتہائی ہمدردانہ تھا۔ وہ ہمیشہ ان کی مالی مدد کرتے اور ان کی ضروریات پوری کرتے، جس کی وجہ سے ان کا دروازہ ضرورت مندوں کے لیے ایک امید کی کرن تھا۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کے رویے کو کاروباری اصولوں کے خلاف کیوں قرار دیا؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے کہا کہ ایک پبلشر اور کاروباری آدمی کے طور پر شاہد احمد دہلوی کو کم رقم دینی چاہیے تھی، لیکن انہوں نے بغیر توقف کے پوری رقم دے دی۔ یہ رویہ ان کی سخاوت کو ظاہر کرتا ہے، جو کاروباری اصولوں کے بجائے انسانیت پر مبنی تھا۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کی مالی سخاوت کے بارے میں کیا مثال دی؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے ذکر کیا کہ شاہد احمد دہلوی نے بغیر کسی توقف کے انہیں تین سو روپے دیے، جو اس وقت ایک بڑی رقم تھی، اور اس کے بدلے میں کبھی رسید تک نہیں مانگی۔ یہ ان کی سخاوت اور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کی موجودہ حالت کو کس طرح بیان کیا؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے دکھ کے ساتھ بیان کیا کہ شاہد احمد دہلوی، جو ایک وقت میں دلی کے ادب کا گہوارہ اور ہر ادیب و شاعر کا مرکز تھے، آج گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور موسیقی کی تعلیم سے روزگار کما رہے ہیں، جو ان کی صلاحیتوں کے شایان شان نہیں۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کے مقام کو کن الفاظ میں بیان کیا؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے کہا کہ شاہد احمد دہلوی ہندوستان اور پاکستان میں اپنی نوعیت کے واحد انشا پرداز اور زبان داں ہیں، جن کی عظمت کو صحیح معنوں میں پہچانا نہیں گیا، اور ان کی خدمات سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کے بلند اخلاق اور شخصیت کی کیا خصوصیات بیان کیں؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کو ایک بلند اخلاق، نیک دل، اور عظیم شخصیت قرار دیا جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتے تھے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ شاہد احمد کی سخاوت اور خدا ترسی کی کوئی مثال نہیں، اور وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کے لیے ایک دروازہ کھلا رکھتے تھے۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے 1947ء کے واقعات کا ذکر کیسے کیا؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے بتایا کہ 1947ء کے کشت و خون کے دوران دتی کا کاروبار مکمل تباہ ہو گیا اور انہیں دلی سے نکلنا پڑا۔ انہوں نے پرانے قلعے میں تین دن پناہ لینے کے بعد لاہور جانے کا ذکر کیا، جہاں راستے میں پٹیالہ کے علاقے میں ریل پر حملہ بھی ہوا۔


سوال. راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کی موجودہ حالت کو کیسے بیان کیا؟

جواب: راجہ مہدی علی خان نے شاہد احمد دہلوی کو "ایک فقیر جلا وطن بہادر شاہ ظفر" سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی عظمت کے باوجود گوشہ نشینی اور مالی مشکلات کا شکار ہیں، اور ان کی وہ عظمت و رفعت برقرار نہیں رہی جو ماضی میں تھی۔


سوال. شاہد احمد دہلوی نے ریڈیو پاکستان کی خدمات کے بارے میں کیا بتایا؟

جواب: شاہد احمد دہلوی نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان نے انہیں میوزک سپروائزر کی خدمت پیش کی، جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس موقع پر انہیں کلاسیکی موسیقی کی تعلیم اور تجربے کا فائدہ ہوا، اور اس کے ذریعے انہوں نے پاکستانی کلچر اور موسیقی کی نمائندگی کی۔


سوال. شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے شوق کو کیسے بیان کیا؟

جواب: شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے شوق کو ایک غیر متوقع دلچسپی کے طور پر بیان کیا، کیونکہ ان کا خاندان گانے بجانے کا مخالف تھا۔ انہوں نے سولہ سال کی عمر سے کلاسیکی موسیقی سیکھنی شروع کی اور بعد میں یہ شوق ان کی زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔ اگر انہیں موسیقی کا علم نہ ہوتا تو وہ اپنی موجودہ زندگی کے بارے میں نہیں جانتے کہ کیا ہوتا۔


سوال. شاہد احمد دہلوی کی ثقافتی خدمات اور ان کے اعزازات کیا تھے؟

جواب: شاہد احمد دہلوی نے 1959ء میں پاکستان کے کلچر کی نمائندگی کے لیے سیٹو کے ممبر ملکوں میں گشتی مقررین کی اسکیم کے تحت منتخب ہونے پر فخر محسوس کیا۔ انہوں نے 1961ء میں ہندوستان میں ثقافتی وفد کا حصہ بن کر پاکستانی ادب و موسیقی کی نمائندگی کی اور مغربی و مشرقی پاکستان میں لسانی، ادبی اور ان موسیقی کے مذاکرات میں حصہ لیا۔


سوال. شاہد احمد دہلوی نے پاکستان رائٹرز گلڈ کے بارے میں کیا بتایا؟

جواب: شاہد احمد دہلوی نے بتایا کہ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے قیام میں آٹھ ادیبوں میں سے ایک تھے، اور انہیں اس تنظیم کے کنوینشن کا داعی اور صدر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔


سوال :شاہد احمد دہلوی اپنی زندگی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: شاہد احمد دہلوی اپنی زندگی سے خوش ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے ادب اور ادیبوں کی خدمت کی اور ان کے کاموں سے کچھ حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے اس عمل کو ایک کامیاب اور بامقصد زندگی سمجھا ہے۔


سوال. شاہد احمد دہلوی نے اپنی زندگی کے بارے میں جو مصرعہ نقل کیا ہے، اس کا مفہوم کیا ہے؟

جواب: شاہد احمد دہلوی نے "شادم از زندگی خویش که کاری کردم" کا مصرعہ نقل کیا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں کیونکہ انہوں نے کچھ ایسا کام کیا ہے جس پر انہیں فخر ہے اور جس نے ان کی زندگی کو بامقصد بنایا۔


سوال. شاہد احمد دہلوی کی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کن اہم اعزازات کا ذکر کیا؟

جواب: شاہد احمد دہلوی نے اپنی ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ کے کنوینشن کا داعی اور صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ادب اور ادیبوں کی خدمت میں گزارا۔


سبق نمبر 6:   مرزا چپاتی       مصنف : سید ولی اشرف صبوحی۔     صنف نثر :خاکہ    ماخذ: دلی کی چند عجیب ہستیاں۔       

 سوال نمبر 1: مصنف  اشرف صبوحی کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

1: دہلوی اندازِ بیان:   دہلی سے تعلق  ہونے کی وجہ سے ان کی تحریرات میں دبستانِ دہلی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ زبان و بیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ دہلی کے معاشرے  کی جھلک ان کی تحریرات  کی خاص خوبی ہے۔

2: محاورات و تراکیب کا استعمال:   اشرف صبوحی  نے اپنی تحریرات میں الفاظ و تراکیب  اور محاورات کا نہایت خوبی سے استعمال کیا ہے۔ ان کی تحریرات کی یہ  خوبی  ظاہر کرتی ہے کہ ان کا تعلق  ڈپٹی نذیر احمد  کے خاندان سے ہے۔

3: ماحول کی عکاسی:   اشرف صبوحی نے اپنی تحریرات میں ماحول کی  خوبصورت انداز میں منظر نگاری کی ہے۔ گویا الفاظ  کی مدد سے مناظر کو پیش کر دیا ہو۔

4: حقیقت کا رنگ:  ان کی تحریرات  بناوٹ سے پاک ہیں۔ انھوں نے حقیقی کرداروں کو پیش کیا  ہے۔ مغلیہ خاندان کے دردناک حالات کی بھر پور انداز  میں ترجمانی کی ہے۔  

سوال نمبر 2:سبق  "مرزا چپاتی"   کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اشرف صبوحی نے اپنے مضمون میں آخری مغل بادشاہ  بہادر شاہ ظفر  کے بھانجے مرزا فخر الدین (عرف مرزا فخرو۔۔۔۔جن  کو لوگ مرزا  چپاتی کہتے  تھے)   کا خاکہ پیش کیا ہے۔  مغلیہ سلطنت چھِن جانے کے بعد شاہی خاندان  سے تعلق رکھنے والے افراد کو کئی مشکلات اور لوگوں کے بدلتے رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔  مرزا چپاتی  بھی اسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔ مغلیہ دربار سے وابستگی کی بنا  پر مرزا کو زبان و بیان پر خاصا عبور حاصل تھا۔  لیکن ان کا کہنا تھا کہ غربت زبان و ادب کو بھلا دیتی ہے۔  گردش ِ دوراں کے ہاتھوں  انسان عرش سے فرش پر پہنچ جاتا ہے۔


سبق سے متعلق چند مزید تفہیمی سوالات:


سوال 1: مرزا چپاتی کے ظاہری حلیے کی کیا خصوصیات بیان کی گئی ہیں؟

جواب: مرزا چپاتی کا حلیہ گورا رنگ، بڑی ہوئی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد، چوڑا شفاف ماتھا، تیموری داڑھی، چنگیزی ناک اور مغلئی ہاڑ بتایا گیا ہے۔


سوال 2: مرزا چپاتی کو "لٹے ہوئے عیش کی تصویر" کیوں کہا گیا؟

جواب: مرزا چپاتی کی حالت پرانے شاہی عہد کی یادگار تھی، جو زوال پذیر ہو چکا تھا۔ ان کے لباس، حرکات و سکنات اور معمولات میں شاہانہ رنگ تو تھا، مگر حالات نے انہیں بے وقعت بنا دیا تھا۔


سوال 3: مرزا چپاتی کے والد سے انہیں کیا ورثہ ملا؟

جواب: مرزا چپاتی کے والد سے انہیں صرف شاعری ورثے میں ملی تھی۔


سوال 4: مرزا چپاتی کا حافظہ کس لحاظ سے منفرد تھا؟

جواب: مرزا چپاتی کا حافظہ اتنا زبردست تھا کہ انہیں سو سو بند کے مسدس ازبر تھے اور وہ کہیں سے کوئی مصرع نہیں بھولتے تھے۔


سوال 5: مرزا چپاتی کے نزدیک اردو کی کتنی قسمیں تھیں؟

جواب: مرزا چپاتی کے نزدیک اردو کی سات قسمیں تھیں: اردوئے معلی، قل آعوذی اردو، خود رنگی اردو، ہڑدنگی اردو، لفنگی اردو، فرنگی اردو، اور سربھنگی اردو۔


سوال 6: مرزا چپاتی اور پٹھانچے کے درمیان کیا واقعہ پیش آیا؟

جواب: مرزا چپاتی نے پٹھانچے کو راستہ روکنے پر ٹوکا، جس پر پٹھانچے نے گستاخانہ جواب دیا، اور مرزا غصے میں آگئے۔ معاملہ محلے والوں کی مداخلت سے ٹھنڈا ہوا۔


سوال 7: مرزا چپاتی کے خیال میں دہلی کی زبان اور تہذیب کیسے تبدیل ہوئی؟

جواب: مرزا چپاتی کے مطابق دہلی کی زبان اور تہذیب قلعے والوں کے زوال کے بعد بگڑ گئی، اصلی زبان کا حسن ختم ہو گیا اور تہذیبی روایات بھی مٹ گئیں۔


سوال 8: مرزا چپاتی نے دہلی کی تہذیبی زوال کی کیا نشانیاں بتائیں؟

جواب: انہوں نے بتایا کہ پرانے رسم و رواج، ادب و احترام، مجلسوں کی رونق، شریفوں کے انداز، امیروں کی شان، اور سپاہیوں کی اکڑ ختم ہو گئی اور کم ظرف لوگوں کو عروج مل گیا۔


سوال 9: مرزا چپاتی کی زندگی میں شاہی عہد کی جھلک کیسے نظر آتی تھی؟

جواب: مرزا چپاتی کی زندگی میں کبوتر بازی، پتنگ بازی، شطرنج، تیراکی، اور دیگر شاہی مشغلے شامل تھے، جو ان کے ماضی کے شاہی تعلقات کی عکاسی کرتے تھے۔


سوال 10: مصنف نے مرزا چپاتی کے کردار کو کن لفظوں میں بیان کیا؟

جواب: مصنف نے مرزا چپاتی کو ایک رنگیلے، زندہ دل اور پرانی وضع کے انسان کے طور پر پیش کیا جو زوال کے باوجود شاہانہ زندگی گزارنے کی کوشش کرتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سبق مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد دہلی کی تہذیب، زبان اور معاشرتی روایات کی بگڑتی ہوئی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ مرزا چپاتی کا کردار اس زوال کا نمائندہ ہے، جو شاہی عظمت کے مٹتے نقوش کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مصنف نے زبان کے بدلتے انداز، تہذیبی روایات کے خاتمے اور سماجی اقدار کی گراوٹ کو بیان کیا ہے۔ یہ سبق ہمیں ماضی کی شاندار تہذیب کی قدروں کو پہچاننے اور ان کی حفاظت کی اہمیت سمجھاتا ہے۔




سبق نمبر 7:   قومی تشکیل  

   مصنف:  ڈاکٹر وحید قریشی

ماخذ: قومی زبان اور ہمارا قومی تشخص 

صنف نثر: مضمون 

سوال نمبر 1:سبق "قومی تشکیل " کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

اپنے مضمون قومی تشکیل میں مصنف ڈاکٹر وحید قریشی ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا قیام نظریہ اسلام کی بنیاد پر ہوا ہے۔ مسلمانوں کا قومی تشخص مخصوص اقدار پر مبنی ہے اور یہ مغرب کے جغرافیائی ،نسلی، لسانی، لونی اور شعوبی قومیت کے تصور سے مختلف ہے۔ مزید یہ کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانیوں کو اپنے قومی تشخص کو  برقرار رکھنے میں مشکل پیش آئی کیونکہ  مہاجرین ہندی مسلمان اور مقامی مسلمان  پاکستانی مسلمان کہلائے۔مصنف کے مطابق اس مشکل کا واحد حل یہ ہے کہ  مسلمان  اپنے قومی  تشخص  کو سمجھتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر کما حقہُ عمل پیرا ہوں۔

سوال نمبر 2:مصنف ڈاکٹر وحید قریشی کے انداز بیان کی چند خصوصیات  تحریر کیجیے۔

مقصدیت اور اصلاحی انداز: ڈاکٹر وحید قریشی کی تحریرات میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔ ان کا اولین مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ان پر ان کا حقیقی قومی تشخص اجاگر کرنا ہے۔ وہ اپنی تحریرات میں میں قارئین کو محض علم  سے مسحور نہیں کرتے بلکہ مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے  اپنےافکار کو پیش کرتے ہیں۔

بہترین الفاظ و تراکیب کا استعمال: ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے مضامین میں بہترین الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ ان کی یہ خوبی ظاہر کرتی ہے کہ ان کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع اور مؤثر ہے۔

منفرد اسلوبِ  بیان: ڈاکٹر وحید قریشی کا اندازِ بیان منفرد ہے۔ اردو زبان پر انھیں خاصا عبور حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جس موضوع پر لکھتے ہیں  زبان و بیان پر ان کی مکمل گرفت ہوتی  ہے۔


سبق کے چند اہم سوالات اور جوابات:


سوال 1: پاکستان کس نوعیت کی ریاست کے طور پر وجود میں آیا؟

جواب: پاکستان ایک نظریاتی ریاست کے طور پر وجود میں آیا جہاں اسلام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔


سوال 2: مسلمانوں نے الگ ملک کے قیام کے لیے کون سی دلیل دی؟

جواب: مسلمانوں نے دلیل دی کہ وہ ایک جداگانہ قوم ہیں جن کی روحانی اور مادی قدریں دیگر اقوام سے مختلف ہیں، اور انہیں ایک ایسا خطہ چاہیے جہاں وہ اپنے نظریات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔


سوال 3: پاکستانی قومیت کی تشکیل کے مسائل کیا تھے؟

جواب: پاکستانی قومیت کی تشکیل کے مسائل میں ہندی اور پاکستانی مسلمانوں کا جداگانہ تشخص، مہاجرین اور مقامی افراد کے درمیان اختلافات، اور اقلیتوں کی حیثیت شامل تھے۔


سوال 4: مسلمانوں کی قومیت کو مغرب کی قومیتوں سے کس طرح الگ قرار دیا گیا؟

جواب: مسلمانوں کی قومیت مذہب پر مبنی تھی، جو مغرب کی جغرافیائی، نسلی اور لسانی بنیادوں سے مختلف تھی۔


سوال 5: قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کے تشخص میں کیا تبدیلی آئی؟

جواب: قیام پاکستان کے بعد مسلمان ہندی مسلمان کے بجائے پاکستانی مسلمان کہلائے اور ان کی سیاسی و فکری جدوجہد کے راستے جدا ہو گئے۔

سوال 6: اقلیتوں کی حیثیت کے حوالے سے مضمون میں کون سا سوال اٹھایا گیا ہے؟

آپ کے خیال میں پاکستان میں اقلیتوں کی حیثیت کیا ہونی چاہیے؟

جواب: سوال یہ تھا کہ کیا اقلیتیں پاکستانی قوم کا حصہ ہیں یا ان کا مذہبی تشخص ان کی جداگانہ حیثیت کا متقاضی ہے؟

میرے خیال میں پاکستان میں اقلیتوں کو بطورِ پاکستانی شہری تمام جائز حقوق ملنے چاہئیں۔ انھیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

سوال 7: پاکستان میں اسلام کا کردار کس طرح برقرار رہا؟

جواب: اصول اور عمل کے تضادات کے باوجود، اسلام ایک زندہ اور فعال عنصر کے طور پر پاکستانی معاشرے میں برقرار رہا۔


سوال 8: قومی تشکیل میں اسلام کی کیا اہمیت بیان کی گئی ہے؟

جواب: قومی تشکیل میں اسلام کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے کیونکہ یہ پاکستانی قوم کی روحانی، مادی، اور معاشرتی زندگی کا لازمی عنصر ہے۔


سوال: مضمون قومی تشکیل کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

جواب:

سبق کا خلاصہ:

پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو ایک نظریاتی ریاست کے طور پر عمل میں آیا، جہاں اسلام کو عوام نے ایک جذباتی اور اعلیٰ قدر کے طور پر اپنایا۔ اس ریاست کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے عہد کے باوجود عملی زندگی اور اصولی نظریات کے درمیان تضادات پیدا ہوئے۔ قومیت کی تشکیل کے حوالے سے سوالات ابھرے کہ پاکستانی قومیت کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور مسلمانوں کے ماضی، جدوجہد آزادی، اور جغرافیائی بنیادوں کا کیا کردار رہا؟ نظریاتی طور پر مسلمانوں کی قومیت مذہب پر مبنی تھی، جس نے انہیں ہندو قوم سے الگ تشخص دیا اور جغرافیائی حدود سے ماورا ایک وحدت میں پرویا۔


قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی قومیت نے عملی شکل اختیار کی، مگر مختلف مسائل سامنے آئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقسیم، مہاجرین اور مقامی باشندوں کے درمیان اتحاد، اور ہندی و پاکستانی مسلمانوں کے جداگانہ تشخص جیسے مسائل نے قومی یکجہتی کو متاثر کیا۔ اقلیتوں کی حیثیت اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کے سوالات بھی قومی تشکیل میں اہم رہے۔ پاکستانی قومیت کو ایک وحدت میں ڈھالنے کے لیے مذہبی اور تہذیبی رشتوں کو مضبوط کرنا ضروری تھا۔


اسلام پاکستان کی شناخت اور ریاست کا بنیادی عنصر رہا، جو قوم کی روحانی اور مادی زندگی کا اہم حصہ ہے۔ عملی تضادات کے باوجود، اسلام عوام کی اجتماعی زندگی میں زندہ اور فعال رہا، اور قومی تشکیل کے لیے ایک مستحکم بنیاد فراہم کرتا رہا۔ مذہب کی گرفت معاشرت پر مضبوط رہی اور اسلام کو نظر انداز کیے بغیر کوئی سیکولر نظام ممکن نہیں۔



سبق نمبر  8:   اُونھ                          مصنف : فرحت اللہ بیگ

صنف نثر: طنزو مزاح 

ماخذ: مضامین فرحت

سبق اونھ  کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس مضمون میں مصنف فرحت اللہ بیگ ہمیں یہ نکتہ سمجھانا چاہتا ہے کہ ہمارے مزاجوں  کی لاپروائی ہماری انفرادی اور قومی ناکامیوں  کا باعث بنتی ہے۔تاریخ گواہ ہے یہ اونھ جس کی زبان پر آیا اسے تباہ کیا جس گھر میں گھسا اس کا ستیا ناس کیا ۔ مصنف  کے مطابق فتح اور شکست دونوں صورتوں میں اونھ نقصان پہنچاتی ہے۔  اس اونھ کی وجہ سے انسان  میں تکبر آجاتا ہے اور اس میں نکما پن پیدا ہو جاتا ہے۔

مصنف کے اندازِ بیان کی چند خوبیاں:

     شگفتہ اور مزاحیہ انداز : ان کی تحریرات  شگفتگی اور مزاح کا خزینہ ہیں۔ کہیں کہیں ان کی تحریر میں طنز کی  تپش  بھی محسوس ہوتی ہے مگر اس حرارت میں جلن اور چبھن نہیں ہے۔

    بہترین خاکہ نگاری:

فرحت اللہ بیگ ایک بہترین خاکہ نگار تھے۔ وہ اپنی  تحریرات میں   اس خوبصورتی سے خاکہ کھنچتے ہیں کہ مذکورہ کردار کی عادات و اطوار اور شخصیت کا  ہر پہلو کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

      منظر نگاری اور واقعات نگاری:

انہیں منظر نگاری میں کمال مہارت حاصل ہے۔ ان کی تحریرات میں دلی کی قدیم تہذیبی روح سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ واقعات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ قاری خود ان کا حصہ بن جاتا ہے اور جاگتی  آنکھوں سے ان مناظر کی دلکشی کو سراہنے لگتا ہے۔

سوال نمبر1 : لفظ اونھ کے کیا معنی ہیں؟

جواب: "اونھ" سے مراد کلمہ نفرت /میری بلا سے/ پھر کیا ہوا/کیا پرواہ ہے۔۔ ہے۔ دراصل ہم اس لفظ کو لاپروائی کے رویے کو ظاہر کرنے کیلیے استعمال کرتے ہیں۔

سوال نمبر2 : اونھ کے تین نقصانات بیان کیجیے۔

جواب: اونھ دراصل لاپروائی کے رویے کو ظاہر کرتا ہے اس کے بہت سے نقصانات ہیں: مثلاً

      انسان  میں نکما پن پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔

     انسان   اپنا  قیمتی وقت ضائع کردیتا ہے۔

     انسان ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے۔

سوال نمبر3:  کسی تاریخی حوالہ سے ثابت کریں کہ اونھ نے  کسی قوم  یا ملک کو نقصان پہنچایا ہو؟

جواب : 18 جون 1815ء  کو فرانس   اور برطانیہ کے درمیان  شروع ہونے والی واٹر لو( بیلجیم کے قریب) کی جنگ میں جب نپولین  اپنی فوج کے جرنیل گروش کو حکم دیتا ہے کہ  انگریزوں کی فوج کے پیچھے ابھی پہنچ جاو اور پو پھٹنے سے پہلے پشت پر  دباو ڈالو میں سامنے سے حملہ کرتا ہوں ، بلوشر کے آنے سے پہلے ہم اس فوج کو رگڑ ڈالیں گے۔ لیکن جرنیل گروش "اونھ " کر دیتا ہے۔ سکون  سے صبح ناشتے سے فارغ ہو کر روانہ ہوتا ہے تو انھیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  اس طرح یہ اونھ نہ صرف یورپ بلکہ ساری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔

سوال نمبر4: ایک طالبعلم  کو اُونھ کس طرح نقصان پہنچاتی ہے؟

جواب:  اس اونھ  سے طالبعلم زیادہ  نقصان اُٹھاتے ہیں۔  سارا سال اونھ کہہ کر کہ کل پڑھائی  کر لیں گے یا امتحان کے قریب  کر لیں گے، اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ جب نتیجہ آتا ہے تو  امتحانات میں فیل ہو جاتے ہیں۔ پھر اس ناکامی سے  وہ سبق بھی حاصل نہیں کرتے بلکہ "اونھ " کردیتے ہیں۔ اس طرح اس اونھ کی وجہ سے انکی پڑھائی کا خاتمہ  ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر 5: میاں بیوی کی لڑائی میں "اونھ" کس طرح  سود مند ہو سکتی ہے؟

جواب:  میاں بیوی کی اونھ بعض اوقات  بہت فائدہ پہنچاتی ہے۔  اکثر   و بیشتر انکی لڑائی میں کوئی بھی صلح نہیں کروا سکتا۔  لیکن  اونھ بعض اوقات وہ  کام کر جاتی ہے جو  بڑے سے بڑے افلاطون  صلاح کارسے بھی نہ  کر سکتے ، بیوی کے غصے پر میاں کی اونھ اور میاں کی ناراضگی پر بیوی کی  اونھ  لڑائی کو بڑھنے سے پہلے ہی ختم کروا دیتی ہے۔  اس اونھ کی وجہ سے گھر اجڑنے سے بچ جاتا ہے۔

سوال نمبر 6: "ہم لوگ تقدیر بلا تعلق تدبیر کے قائل  ہو گئے ہیں" اس جملے سے مصنف کی کیا مراد ہے؟

جواب:   اس سے مراد یہ ہے کہ ہم  مسائل کے حل  کیلیے کوئی تدبیر  نہیں کرتے  جب ناکام  ہو جاتے ہیں تو سارا الزام اپنی قسمت اور تقدیر پر ڈال دیتے ہیں کہ قسمت میں یہی لکھا تھا۔

سوال نمبر7: مصنف فرحت اللہ بیگ نے سبق "اونھ"  میں خالص تقدیر کے کتنے درجے بیان کیے ہیں؟ اور آخری درجہ کسے قرار دیا ہے؟

جواب:   مصنف کے مطابق   خالص تقدیر کے تین  درجےتھے: صبر، رضا اور تسلیم لیکن ہم نے چوتھا درجہ "اونھ" کا نکال لیا ہے۔  اور ابھی بھی لوگ پانچواں درجہ تلاش کر رہے ہیں۔

 

سبق نمبر 9  : نیلی جھیل                       مصنف : شفیق الرحمٰن

صنف نثر: طنزو مزاح 

ماخذ: حماقتیں 

سوال نمبر 1: مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

معاشرتی رویوں پر  تنقید : شفیق الرحمٰن نے اپنی تحریرات میں معاشرتی رویوں کو  بھر پور انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔  اس  طرح وہ قارئین کو حقیقت کا آئینہ  دکھاتے ہیں۔

اشارہ کنایہ کا استعمال:  معاشرے کی خامیوں اور خرابیوں  پر تنقید کرتے ہوئے   شفیق الرحمٰن  براہِ راست چوٹ  کرنے کی بجائے اشارہ کنایہ سے کام  لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی کی دل آ زاری   نہیں  کرنا چاہتے۔

کردار نگاری: کردار نگاری میں انہیں  کمال حاصل تھا۔ اپنی تحریروں میں وہ کئی دلچسپ کردار تخلیق کرتے ہیں جو قارئین کی یادداشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سادہ اور سلیس زبان کا استعمال : انکی تحریرات کی زبان انتہائی سادہ ، سلیس اور بامحاورہ ہے۔ وہ مشکل تحریر سے گریز کرتے ہیں۔

سوال نمبر2:سبق نیلی جھیل کا مرکزی خیال اس  طرح بیان کریں کہ مصنف کا پیغام واضح ہو جائے۔

اس سبق میں  مصنف  شفیق الرحمٰن  نے بچوں کو نیلی جھیل سے تشبیہ دی ہے اور نیلی جھیل کی شفافیت کو بچوں کے دل و دماغ سے جوڑا ہے ۔ بچوں کے دل  زمانے کی گرد آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں۔  وہ اپنے دلوں کو صاف رکھتے ہیں اس لیے ان کے دلوں میں اندر تک جھانکا جا سکتا ہے۔ بچوں کے گھروں میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے  گھر سے باہر جا کر وہ   اسے اپنے  رویّوں  سے ظاہر کرتے ہیں۔

سوال نمبر 3: گھر کا ماحول بچوں کی تعلیم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ مثال سے واضح کیجیے۔

جواب: بچے اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کے گھروں میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ بچے  باہر جا کر وہی اپنے رویّوں سے  ظاہر کرتے ہیں۔ جیسا کہ سبق میں بتایا گیا ہے کہ ان دنوں گھر میں تاش بہت کھیلی جاتی تھی،  جب استاد نے منےّ سے گنتی سنانے کا کہا  تو اس نے تاش کی گنتی سنا دی۔  اسی طرح گھر میں اگر اساتذہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو جب استاد بچوں  کا امتحان لینے کےلیے کوئی سوال پوچھے گا   تو وہ استاد کا مذاق اڑائیں گے۔

سوال نمبر4:  گھر میں بچوں کے سامنے اساتذہ کا مذاق اڑانا ان کی  تعلیم  پر  کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟

جواب: جب گھر میں اساتذہ کا احترام نہیں ہوگا تو بچے بھی اپنے اساتذہ کا مذاق اڑائیں گے۔ ان کے دلوں سے استاد کی عزت ختم ہو جائے گی۔ وہ انکا سبق یاد نہیں کریں گے ۔  اساتذہ کی کہی ہوئی باتیں ایسے بچوں پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گی۔ اس طرح وہ پڑھائی میں کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔

 

سبق نمبر 10  :     سفارش طلب                 مصنف : کرنل محمد خان

صنف نثر: طنزو مزاح 

ماخذ: بزم آرائیاں

سوال1: مصنف  کرنل محمد خان کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

طنز و مزاح کا عنصر: کرنل محمد خان نے اپنی تحریرات میں معاشرے میں انسانوں پر گہرا طنز کیا ہے۔ مگر اس طنز کو مزاح کا رنگ دے کر ان لوگوں کو شرمندہ کیا ہے جو اس نا انصافی کا سبب بنتے ہیں۔

منفرداند از بیان : آپ کا انداز بیان نہایت منفرد ہے جو ان کو ان کے ہم عصر ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ وسیع ذخیرہ الفاظ کی وجہ سے انہیں ادب پر مہارت حاصل ہے۔

گہرا مشاہدہ اور ماحول کی عکاسی:  انہوں نے اپنی تحریرات میں معاشرے میں موجود برائیوں کی بڑے موثر انداز سے نشان دہی کی ہے جو دیمک کی طرح معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔

سوال2: سبق  سفارش طلب کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

کرنل محمد خان اپنے مضمون سفارش طلب میں ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ سفارش کرنا اور کروانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کا حق مارتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ وہ رشتہ دار بنتے ہیں جو سفارش کے لیے آتے ہیں اور منتیں کر کے سفارش کرواتے ہیں۔ مصنف ہمیں سفارش  کے بارے میں بتاتے ہوئے اس سے بچنے کے طریقے بھی بتاتا ہے۔سفارش ایک قسم کی چوری ہے پہلے سفارش طلب کو زبان سے سمجھانا چاہیے اور اگر سفارش  طلب نہ سمجھے تو ہاتھوں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ مگر سفارش جیسے گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔

سوال3: معاشرے میں سفارش کے پھیلنے کی تین وجوہات بیان کریں؟

لاقانونیت:  پاکستان سمیت دنیا کے دیگر کئی ممالک میں سفارش کروانے کا گھناؤنا عمل جاری ہے ۔مگر اس کی روک تھام کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔

بے ایمانی: لوگوں کے اندرآج کل بہت بے ایمانی پائی جاتی ہے۔ جس کو دیکھو صرف آگے بڑھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ وہ طریقہ کونسا اپنا رہا ہےاور اس سے لوگوں کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔

 نااہلی: سفارش کی ایک اور بڑی وجہ ہماری عوام کی نااہلی ہے ۔جب ان کا کوئی بس نہیں چلتا تو نوکری کے لیے وہ اپنے عزیز و اقارب کے ذریعے سفارش کروانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کا حق مارتے ہیں۔

 سوال4: آپ کے نصاب میں شامل سبق "سفارش طلب میں مصنف نے سفارشی لوگوں سے گلو خلاصی کا طریقہ بیان کیا ہے۔ اگر آپ کا واسطہ سفارشی لوگوں سے پڑ جائے تو آپ اُن سے بچنے کا کون سا طریقہ اختیار کریں گے۔ تحریر کریں ؟

اگر میرا  واسطہ کسی ایسے سے آدمی سے پڑ جائے جو سفارش کروانا چاہتا ہے  تو پہلے میں اس کے لئے دل میں برا چاہوں گا۔ پھر میں اس کو تسلی سے سمجھاؤں گا کہ سفارش ایک گناہ ہے جس کے ذریعے تم کسی دوسرے کا حق مار رہے ہو۔اگر وہ باتوں سے مان گیا تو ٹھیک ہے ورنہ میں اس سے سے قطع تعلق کر لوں گا لیکن سفارش کے لیے تیار نہیں ہوں گا۔


سبق سے متعلق چند مزید تفہیمی نوعیت کے سوالات اور ان کے جوابات:


سوال 1: آغا نے "ڈاکے" کی مثال دے کر کس بات کی نشاندہی کی؟

جواب: آغا نے سفارش کو "ڈاکے" سے تشبیہ دے کر اس کے غیر اخلاقی ہونے کی نشاندہی کی۔


سوال 2: آغا نے راوی کو "ڈاکو" کیوں کہا؟

جواب: آغا نے کہا کہ راوی نے سفارش کر کے کسی کا حق چھیننے کی کوشش کی، جو "ڈاکے" کے مترادف ہے۔


سوال 3: مولوی صاحب نے راوی سے کس قسم کی سفارش کی درخواست کی؟

جواب: مولوی صاحب نے اپنے بیٹے کو کلرک بھرتی کرانے کی سفارش کی درخواست کی۔


سوال 4: چچا جان کے خط میں سفارش کس کے لیے کی گئی تھی؟

جواب: چچا جان نے ایک دوست کے داماد، شیخ حاضر دین، کے لیے سفارش کی تھی، جو چینی کی بلیک مارکیٹنگ کے الزام میں پھنسے تھے۔


سوال 5: راوی نے سفارش طلب افراد کو کس وبا سے تشبیہ دی؟

جواب: راوی نے سفارش طلب افراد کو وبا کے جراثیم پھیلانے والے مکھی، مچھر، اور چوہے سے تشبیہ دی۔


سوال 6: راوی کے مطابق سفارش طلب لوگ کس طرح اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں؟

جواب: سفارش طلب لوگ بے تکلفی، جذباتی اپیل، اور فلسفیانہ دلائل سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔


سوال 7: اقبال کے اشعار کو سفارش طلب افراد کس طرح استعمال کرتے ہیں؟

جواب: سفارش طلب افراد اقبال کے اشعار کو اپنی سفارش کو جائز ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


سوال 8: راوی نے سفارش طلبی سے بچنے کا مؤثر طریقہ کیا بتایا؟

جواب: راوی نے کہا کہ سفارش طلب کو چور سمجھا جائے اور اس کے ساتھ چور جیسا سلوک کیا جائے۔


سوال 9: سفارش طلب افراد کے رویے سے راوی کو کیا نتیجہ اخذ ہوا؟

جواب: راوی نے محسوس کیا کہ سفارش طلبی ایک وسیع اور اخلاقی مسئلہ ہے، جو ملک میں بدعنوانی کی جڑ ہے۔


سوال 10: راوی کے مطابق سفارش کے خاتمے کے لیے کیا اقدام ضروری ہے؟

جواب: راوی نے کہا کہ سفارش طلب افراد کو عوامی سطح پر بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔


سبق کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

کرنل محمد خان کے طنزیہ مضمون "سفارش طلب" میں معاشرتی برائی، یعنی سفارش کے رجحان کو مزاحیہ انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ مضمون میں راوی کے دوست آغا نے سفارش کو "ڈاکا" قرار دے کر اس کی اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ آغا نے راوی کی سفارش کی درخواست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ کسی دوسرے کا حق چھیننے کے مترادف ہے۔


راوی نے مختلف واقعات کے ذریعے سفارش طلب افراد کی چالاکیوں اور مکاریوں کو بیان کیا۔ مولوی صاحب اپنے بیٹے کو کلرک بھرتی کرانے کی سفارش کرتے ہیں، جبکہ چچا جان اپنے دوست کے داماد، جو چینی کی بلیک مارکیٹنگ کے الزام میں گرفتار ہے، کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ افراد جذباتی اپیل کرتے ہیں، کچھ بے تکلفی سے کام لیتے ہیں، اور بعض اقبال کے اشعار کو اپنی سفارش کو جائز ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


راوی نے سفارش کو ایک وبا اور سفارش طلب افراد کو جراثیم سے تشبیہ دی ہے، جو معاشرتی انصاف اور دیانت داری کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے سفارش طلبی کے خاتمے کے لیے تجویز دی کہ ایسے افراد کو عوامی سطح پر شرمندہ کیا جائے اور ان کے رویے کی مذمت کی جائے۔ مضمون کا انداز طنزیہ اور مزاحیہ ہے، لیکن اس کے ذریعے ایک اہم معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔



سبق نمبر 11:   پریٹوریا میں ایک شام

مصنف: حکیم محمد سعید 

صنف نثر: سفرنامہ 

ماخذ:ڈیلفی سے سونے کی کان تک

سوال1: مصنف حکیم محمد سعید کے مختصر حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات تحریر کیجیے۔

مختصر حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات: حکیم محمد سعید (9 جنوری 1920ء تا 17 اکتوبر 1998ء)  ایک مایہ ناز حکیم تھے جنہوں نے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی ان کے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔

حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ 17 اکتوبر 1998ء میں انہیں کراچی میں شہید کر دیا گیا.

جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا وہ روزہ کی حالت میں تھے یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا  وجہ شفاء نہیں ہوتی۔ حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا ادارہ ہمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہیں۔ (منقول)

سوال2: سبق پریٹوریا میں ایک شام  کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس سبق میں مصنف حکیم محمد سعید نے اپنے جنوبی افریقہ کے سفر کے احوال بیان کیے ہیں۔ انھوں نے دورانِ سفر اس ملک کی خوبصورتی, معاشی اور سماجی ترقی کا دنیا کے  دیگر مشہور شہروں سے  تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ نیز جنوبی افریقہ میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کاموں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ان کے سفرناموں میں ان کا مسلمانوں اور دین اسلام سے دلی لگاؤ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام کے کاموں پر گہری نظر رکھتے  ہیں۔

سوال3:حکیم محمد سعید کے انداز بیان کی چند خصوصیات بیان کیجیے۔

 مقصدیت و اصلاحی انداز: حکیم محمد سعید کی تحریرات میں مقصدیت و اصلاحی انداز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر بچوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے  رسائل جاری کیے۔ نیز مذہب اور طب و حکمت پر بھی بے شمار کتب تحریر کیں۔

روانی و سلاست: ان کی تحریرات میں شگفتگی کے ساتھ سا تھ روانی و سلاست بھی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے نہایت سادہ اور لطیف پیرائے میں سفرنامے اور مضامین تحریر کیے ہیں۔

 بہترین منظر کشی: منظر کشی میں انھیں کمال مہارت حاصل تھی۔ ان کے سفرنامے پڑھ کر قارئین خود کو ا ن کے ساتھ محو سفر پاتے ہیں۔

 ملی و دینی جذبات: حکیم محمد سعید کی تحریرات میں ان کا مسلمانوں اور دین اسلام سے دلی لگاؤ دکھائی دیتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام کے کاموں پر گہری نظر رکھتے تھے۔

::::::::::::::::::::::

حکیم محمد سعید صاحب کے سفرنامے کے چند مزید تفہیمی و علمی نوعیت کے سوالات اور ان کے جوابات:


تفہیمی نوعیت کے سوالات اور ان کے مختصر جوابات

1. جوہانس برگ کو دنیا میں کیوں اہمیت حاصل ہے؟

جوہانس برگ میں سونے کی سب سے بڑی کانیں ہیں اور یہ جنوبی افریقہ کا بڑا مالی و صنعتی مرکز ہے۔

2. جوہانس برگ میں کون سی اہم عمارتیں اور تفریحی مقامات ہیں؟

ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا ٹاور، ایک پچاس منزلہ عمارت، سانپوں کا پارک، چڑیا گھر، اور آرٹ گیلری۔

3. جوہانس برگ کے ہوٹل کیسا تھا اور حکیم صاحب کو کیا پریشانی ہوئی؟

جوہانس برگ سن ہوٹل بہت شاندار تھا، مگر نرم بستر کی وجہ سے حکیم صاحب رات بھر سکون سے نہ سو سکے۔

4. سعید بھام جی صاحب کی جرسی فیکٹری کی کیا خاص باتیں ہیں؟

یہ جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی فیکٹری ہے، جہاں پانچ سو افریقی کام کرتے ہیں، اور روزانہ تین ہزار جرسیاں تیار ہوتی ہیں۔

5. پریٹوریا شہر کی بنیاد کب رکھی گئی اور یہ کیوں مشہور ہے؟

پریٹوریا کی بنیاد 1855 میں رکھی گئی، یہ جمہوریہ جنوبی افریقہ کا انتظامی دارالحکومت ہے اور یہاں کئی تحقیقی ادارے ہیں۔

6. واٹر وال اسلامک انسٹی ٹیوٹ کی کیا خصوصیات ہیں؟

یہ ساڑھے چھے ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں دینی تعلیمات اور اسلام کی ترویج کے لیے کام ہوتا ہے۔

7. کالوں کی بستی میں مسلمانوں کے لیے کیا کام کیا گیا ہے؟

مسلمانوں کو یہاں داخلے کی اجازت ملی اور ایک مسجد تعمیر کی گئی جہاں اذان دی جاتی ہے.

8. مرکز زکریا میں حکیم صاحب نے اپنے خطاب میں کیا پیغام دیا؟

انہوں نے اتحاد، اخلاق، محبت، اور سنت پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

9. حکیم صاحب نے جنوبی افریقہ کو یورپ سے کیسے موازنہ کیا؟

انہوں نے جنوبی افریقہ کو ترقی یافتہ اور یونان جیسے ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ قرار دیا۔

10. حکیم صاحب نے مدینتہ الحکمت کے بارے میں کیا دعوت دی؟

انہوں نے ڈاکٹر یوسف اور ان کے بیٹوں کو مدینتہ الحکمت کے منصوبے کو دیکھنے کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی۔


سفرنامے کا خلاصہ تحریر کیجیے.

دیے گئے سفرنامے میں حکیم محمد سعید نے جنوبی افریقہ کے دو اہم شہروں، جوہانس برگ اور پریٹوریا، کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جوہانس برگ کو سونے کی کانوں، بلند عمارتوں، اور صنعتی و مالیاتی ترقی کے باعث نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ شہر میں جدید سہولتوں سے آراستہ ہوٹل، آرٹ گیلری، چڑیا گھر، اور سانپوں کا پارک قابل ذکر ہیں۔

حکیم صاحب نے سعید بھام جی کی جرسی فیکٹری کا دورہ کیا، جہاں پانچ سو افریقی کام کرتے ہیں، اور فیکٹری میں اسلامی نقش و نگار بھی موجود ہیں۔ انہوں نے پلازا کا بھی ذکر کیا، جہاں زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی ہیں اور ہفتہ کے دن کا کاروبار عروج پر ہوتا ہے۔

پریٹوریا کو جمہوریہ جنوبی افریقہ کا انتظامی دارالحکومت بتایا گیا ہے۔ یہاں اہم تحقیقی ادارے، یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقا، اور سرسبز علاقے ہیں۔ حکیم صاحب نے واٹر وال اسلامک انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا، جو اسلام کی ترویج کے لیے کام کر رہا ہے، اور کالوں کی بستی میں مسجد اور دینی مدرسہ قائم کرنے کی تجویز دی۔

مرکز زکریا میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور خطاب کے دوران حکیم صاحب نے اتحاد، اخلاق، اور اسلامی تعلیمات پر زور دیا۔ اقتباس میں جنوبی افریقہ کی ترقی، اسلامی اداروں، اور مسلمانوں کے اتحاد کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔