نظم : کسان
شاعر: جوشؔ ملیح آبادیشاعرجوشؔ ملیح آبادی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: نغمگیت اور موسیقیت: جوشؔ ایک نئے اور منفرد کلام کے موجد ہیں۔ ان کی نظموں میں نغمگیت اور موسیقیت پائی جاتی ہے ۔جوش نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
2:عظمتِ انسانی: جوشؔ کا کلام عظمتِ انسانی کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے اپنی نظم کسان میں کسان کے اوصاف بیان کر کے معاشرے میں اُسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔
3:کردار نگاری : کردار نگاری اور تصویر کشی میں انہیں کمال حاصل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے وہ اپنے کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرتے جو کردار کی صورت کے ساتھ ساتھ سیرت کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
4:تشبیہات و استعارات کا استعمال : جوشؔ کو تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں کمال حاصل تھا۔ انکی اس خوبی نے ان کے کلام کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
نظم کسان کا مرکزی خیال:
نظم کسان میں جوشؔ ملیح آبادی نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ کسان ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ محنت و مشقت اور لگن کے ساتھ فصلوں کی نگہداشت کرتا ہے۔ وہ ہر موسم کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے بہترین فصلیں اگاتا ہے جن پر سارا جہان پلتا ہے۔ کسان کی محنت عوام کی خوشحالی اور صحت کی ضمانت ہے۔ کسان ہی کی بدولت تہذیب و تمدن کا ارتقا ہوا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کی محنت پر حکمران عیش کرتے ہیں اور یہ بیچارہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے صحت اور تعلیم سے محروم رہتا ہے اورکبھی اپنی زبان پر حرفِ شکایت بھی نہیں لاتا۔
تشریح شعر نمبر 1: نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح سے شام تک ہر وقت کھیتوں میں ایک مضبوط اور محنتی انسان کھیتی باڑی کیلیے تیار کھڑا نظر آتا ہے۔ انسانوں اور چرند پرند کے ارتقا میں اس کا بنیادی کردار ہے۔ کسان کی محنت سے فصلیں اور اناج اگتا ہے جس پر سارا جہان پلتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اب تک کسان کی محنت اور فصلوں کی رکھوالی وہ مشکل کام ہے جس پر تہذیبوں نے پرورش پائی ہے اور زندگی کا ارتقا ہوا ہے۔
تشریح شعر نمبر2 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان بارش سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ اس مٹی کی تمام اقسام سے واقف ہے، گویا وہ اس دھرتی کا بادشاہ ہے۔ وہ قدرت کے قوانین سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس دنیا کی رونق اور زندگی اسی کسان کی بدولت ہے کیونکہ وہ محنت کرتا ہے اور اس کے اگائے اناج، سبزیاں اور پھل تمام دنیا والے کھاتے ہیں۔
تشریح شعر نمبر3 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان ہمیشہ پھولوں ،پھلوں اور باغوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ہر طرف لہراتا سبزہ، پھولوں کی مہک اور رنگینی کسان کی بدولت ممکن ہے۔وہ تمام فصلیں اور اناج جن کی پیداوار پر پوری قوم فخر کرتی ہے کسان ہی ان سب کا بادشاہ ہے۔
تشریح شعر نمبر4 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام قدرت کے رازوں سے آگاہی دے رکھی ہے۔ امید اور خوف کے عالم میں بھی وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ کسان پہلے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ کب بارش ہوگی۔ وہ ہر قسم کی ہواؤں کے نظاموں سے واقفیت رکھتا ہے۔ اس لیے وہ موسم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فصلیں اُگاتا ہے۔
تشریح شعر نمبر5 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ صبح سویرے سورج طلوع ہوتے ہی یہ کھیتوں میں کام کرنے چلا جاتا ہے اور دوپہر تک وہیں کام کرتا رہتا ہے۔ سورج کی تپش اور گرمی بھی اسے ذرا برابر پریشان نہیں کرتی اور نہ ہی تھکاتی ہے۔ اسکی مسلسل کوشش اور محنت کے جذبے کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ اِس نے مسلسل محنت کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور عہد باندھ رکھا ہے کہ وہ ہر وقت کام ہی کرتا رہے گا اور مختلف اقسام کی فصلیں اور اناج اُگاتا رہے گا۔
تشریح شعر نمبر6 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہی کسان ہے جس نے قدرت کے جلوے دیکھے ہیں کہ کس طرح اللہ بے جان بیجوں اور بے ذائقہ پانی و مٹی سے لہلہاتی فصلیں اور پھلدار تناور درخت اُگاتا ہے۔ اللہ ہی ہواؤں کے رخ بدل کر موسم تبدیل کرتا ہے اور بارشیں برساتا ہے۔ کسان کا دل چاند کی طرح خوبصورت ہے اور اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکدار ہے۔ سورج کی روشنی دراصل کسان کو ہی زیادہ فائدہ پہنچاتی ہے اس لیے سورج کو بھی کسان ہی سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔
تشریح شعر نمبر7 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کے مطابق کسان کے دل میں دن رات کھیتی باڑی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتا رہتا ہے۔ ہر وقت اس کے دماغ میں منصوبہ بندی رہتی ہے کہ کب کونسی فصلیں اگانی ہیں نیز زرعی پیداوار کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کی اُگائی فصلیں ، سبزیاں اور پھل اُسکی دانائی اور عقل مندی کو ظاہر کرتے ہیں جسکا نظارہ ہم صبح وشام کرتے رہتے ہیں۔
تشریح شعر نمبر8 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ کسان کی پیداوار نہ صرف عوام کو خوراک فراہم کرتی ہے بلکہ یہ روزگار کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ زرعی پیداوار سے ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور ملکی ترقی کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے۔شاعر کے مطابق کسان خود مشکلات اور مصائب کا سامنا کر کے دوسروں کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹیں لاتا ہے۔ کیونکہ کسان کی محنت اور مشقت سے فصلیں اور اناج اُگتا ہے جس پر سارا جہان پلتا ہے۔
تشریح شعر نمبر9 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان بہت محنتی ہے اور اسکی محنت کا پھل سارا جہان کھاتا ہے۔ اس کی اُگائی فصلیں اور اناج لوگوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔کسان کی محنت کا رنگ ہمیں لہلہاتے کھیتوں ، پھلدار درختوں، رنگ برنگے پھولوں اور مہکتی خوشبوؤں میں دکھائی دیتا ہے۔
تشریح شعر نمبر10 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان دن رات بہت محنت کرتا ہے۔ اسکی کوششوں سے سخت سے سخت زمین نرم ہو کر اپنا سینہ کھولتی ہے اور نت نئی فصلیں پیدا کرتی ہے۔ کسان بہت جوش اور جذبے والا انسان ہے۔ وہ محنت و مشقت سے کبھی نہیں گھبراتا۔ اسکے محنت و مشقت کے جذبے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس میں آگ کے تیز شعلوں جیسی گرمی اور سورج کی تیز کرنوں جیسی تمازت پائی جاتی ہے۔
تشریح شعر نمبر11 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان کی رگوں میں بجلی کی سی تیزی پائی جاتی ہے۔ یہ طلوع صبح سے شام تک اندھیرا پھیلنے تک کھیتوں میں مصروف کار رہتا ہے۔ ہل چلاتا ہے، بیجائی کرتا ہے اور سینچائی کرتا ہے اور زمین سے سونے جیسی قیمتی فصلیں اُگاتا ہے۔ وہ کڑی دھوپ کا بھی مقابلہ کر کے اناج پیدا کرتا ہے جس پر سارا جہاں پلتا ہے۔
تشریح شعر نمبر12 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان ہل چلا کر بیجائی سینچائی کر کے ایک ہی زمین سے مختلف ذائقوں اور تاثیر کے پھل اور سبزیاں اگاتا ہے۔ ہر طرف ہمیں سبزہ و ہریالی ، خوشبو اور پھولوں کی رنگینی دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم پودوں ، اناج کی بالیوں اور گھاس کی حقیقت پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی رگوں میں کسان کا خون دوڑ رہا ہو۔کسان کے جوش و جذبے اور خون کی گرمی کی بدولت اس زمین سے کئی قسم کی فصلیں اُگتی ہیں اور رنگ و بُو کا سلسلہ جاری ہے۔
تشریح شعر نمبر13 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان صبح شام سخت محنت کرتا ہے ۔ نیند بھی اس کے ارادوں کو کمزور نہیں کر سکتی۔ اکثر وہ راتوں کو جاگ جاگ کر کاشتکاری کے نئے آسمانوں پر نگاہ رکھتا ہے اور منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ دن کو وہ کھیتوں کا جائزہ لیتا رہتا ہے کہ زمین ہل چلانے یا بیجائی کے قابل کب ہوگی۔ وہ زمین میں مناسب نمی دیکھ کر ہل چلاتا ہے اور مٹی کی نبض دیکھ کر یعنی اسکی جانچ پڑتال کے بعد اس میں موسم کے مطابق فصلیں بوتا ہے۔
تشریح شعر نمبر14 : نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کسان کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کسان بہت بہادر ہے اور مضبوط جسم کا مالک ہے۔ اسکے بازو ہل چلا کر زمین کو نرم کرتے ہیں تاکہ زمین بیجائی کے قابل ہو اور مٹی نرم ہو گی تو نازک کونپلیں بآسانی اُگتی ہیں۔ گویا نرم و نازک پودے ، ملائم پتے اور پھول کسان کے بازو کی قوت سے جنم لیتے ہیں۔ ملک کی خوراک اور زرعی پیداوار کا دارومدار کسان کی محنت پر ہوتا ہے۔ یہی کسان محنت کرتا ہے اور اس کی محنت کے پھل پر ملک ترقی کرتا ہے اور بادشاہ کا اعتماد فخر میں بدل جاتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔