اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

نظم: حمد شاعر: مولانا الطاف حسین حالی

 حصہ نظم

 نظم:  حمد
 (صنفِ نظم: قصیدہ)
شاعر: مولانا الطاف حسین حالؔی


شاعر مولانا الطاف حسین حالؔی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: سادہ زبان کا استعمال:   مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے اپنے کلام میں انتہائی سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے۔
2: مقصدیت:   حالیؔ کے کلام  میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔ ان کی تمام نظموں کا موضوع زیادہ تر مذہبی ، اخلاقی اور اصلاحی ہے۔
3:حقیقت کا عنصر: حالیؔ کی شاعری میں اصلیت اور حقیقت  کا عنصر غالب نظر آتاہے۔

نظم حمد کا مرکزی خیال: 
اس نظم میں شاعر مولانا الطاف حسین حالیؔ نے  اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہوئے اس کی  چند  صفات کا ذکر کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کامل، مالک،  جلیل، جمیل، اور محیط ہے۔  جو شخص ایک بار اللہ کا جلوہ دیکھ لےپھر اسے کسی دوسرے کی شان و شوکت متاثر نہیں کر سکتی۔ بشریت کی بنا پر اگر انسان تمام حقوق اللہ ادا نہ کر پائے تو پھر بھی  اپنے خدا کی محبت اس کے دل میں سمائی رہتی ہے۔
نظم حمد کی تشریح: 
شعر نمبر :١
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
 باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا

حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بلند شان بیان کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعرنے  اللہ کی  صفات کامل اور باقی  کی وضاحت کرتے ہوئے  اللہ کی بلند شان بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجودِ کامل اس کائنات کے آغاز سے ہے اور اس کے اختتام کے بعد بھی قائم رہے گا۔ ہر شے فنا ہو جائے گی اگر کوئی چیز ہمیشہ باقی رہے گی تو وہ اے اللہ تیری ذات، تیری قدرت کا جلوہ اور شان و شوکت ہے۔اے اللہ تو ایک ماہر کاریگر ہے، ایسا کاریگر جس کی بنائی ہوئی ہر چیز  تمام نقائص سے پاک ہے ۔ اور تیری قدرت کے کارخانے میں کوئی خامی نہیں ہے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ کی صفت کامِل کا ذکر کیا ہے۔

شعر نمبر :2
ہے عارفوں کو حیرت  اور منکروں کو سکتہ
 ہر دل پر چھا رہا ہے رعبِ جمال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بلند شان بیان کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر اللہ کی بلند شان بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  اے اللہ تیرے حسن و جمال کا  رعب و دبدبہ اس قدر شان والا ہے کہ ہر کوئی اس سے مرعوب ہو جاتا ہے۔  وہ لوگ  جو تجھ پر ایمان لاتے ہیں  جب تیری قدرت کے جلووں کا نظارہ کرتے ہیں تو  حیرت  کے سمندروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور کفار جو تیرا انکار کرتے ہیں تیری خدائی کو دیکھ کر ان پر بیہوشی کی حالت  طاری ہو جاتی ہے۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ اگر اتنا بڑا نظامِ کائنات بہترین طریقے سے چل رہا ہے تواس نظام  کو چلانے والی ہستی کتنی عظیم ہوگی۔وہ لاجواب ہو جاتے ہیں۔اُن کے پاس اللہ کے وجود کو   رد کرنے کی کوئی دلیل نہیں  بچتی۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں خدا کی خدائی  کا ذکر کیا ہے۔


شعر نمبر :3
گو حکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں
لیکن  ٹلا نہ ہرگز دل سے خیال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ اس دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری حکم عدولی کرتے ہیں۔ تیرے نافرمان ہیں اور تیری عبادت اور ذکر سے غافل ہیں، لیکن ان کے دلوں سے تیری  یاد نہیں جاتی۔ اے اللہ یہ  کسی نہ کسی نام سے کسی نہ کسی انداز سے تجھے ضرور یاد کرتے ہیں۔  جب بھی یہ لوگ کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو  اےاللہ یہ صرف تجھے    ہی مدد کے لیے پُکارتے ہیں۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں خدا کی خدائی  کا ذکر کیا ہے۔


شعر نمبر :4
پھندے سے تیرے کیو ں کر جائے نکل کے کوئی
پھیلا       ہوا ہے      ہر سُو      عالم     میں جال    تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تیری بادشاہت پوری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے  ذرے سے لے کر کہکشاؤں کی بلندیوں تک  تیری نظر ہے۔ تو ہم سب کے دلوں کے حالات تک جانتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بُرائی کرنے والا تیری پکڑ، تیری گرفت اور تیری نظروں سے بچ سکے۔ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ہر اک چیز پر اےخدا تیری گرفت مضبوط  ہے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں خدا کی خدائی  کا ذکر کیا ہے۔

شعر نمبر :5
ان کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہےجن کی جلال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تو بہت بلند شان والا ہے۔ تیری عظمت اور شان و شوکت کے جلووں کو جس نے پہچان لیا اس کی نظروں میں اب دنیا کی کوئی بھی قیمتی چیز  کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اللہ کی ذات بہت بلند شان والی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلیے دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے، وہ بہت عظیم ہے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ کی بلند شان   کا ذکر کیا ہے۔


شعر نمبر :6
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری، جاں ہے سو مال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر  اللہ سے بے انتہا محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے اللہ تو ہمیں  دل و جان سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے، دل کی دھڑکنیں تیری عطا کردہ ہیں، اگر تیری راہ میں ہماری جان کی ضرورت پڑے گی تو ہم  بلا جھجھک قربانی دینے  کیلیے تیار ہیں۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار  کیا ہے۔


شعر نمبر :7
بیگانگی        میں        حالی ؔ    یہ         رنگِ آشنائی
سُن سُن کے سر دھُنیں گے حال اہلِ قال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر  کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا ذکر اتنا دلکش ہے کہ صرف اسی سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔  جو لوگ تیری یاد سے غافل ہیں، اور تجھ سے بے تعلق ہیں جب ان کے سامنے تیرا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں میں تیری محبت جاگتی ہے۔   شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ جب بھی  کسی محفل میں تیری حمد پڑھی جاتی ہے، تیرا ذکر کیا جاتا ہے سُننے والوں پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ تیری تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار  کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔