اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

بدھ، 18 جنوری، 2023

اردو مضمون نویسی

 

انسان  اشرف المخلوقات

خالق کائنات نے انسان کو کائنات میں وہ شرف و مقام بخشا ہے جو کسی اور کو نہ ملا ہے اور نہ ہی قیامت تک ملے گا۔ جانتے ہیں وہ شرف و مقام کیا ہے؟ جی ہاں! اشرف المخلوقات، افضل الملائک یعنی ساری مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے، ’’بے شک ہم نے اولاد آدم کو فضیلت دی اور ان کو خشکی اور سمندر کی سواریاں دیں اور ان کو طیب چیزوں سے رزق دیا اور ان کو ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل) اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے انسان کو تمام مخلوقات میں مکرم و مشرف و فضیلت والا ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی آیت کے ضمن میں انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے                                                                              میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے انسان کو ایک ایسی خوبی و صفت عطا فرمائی ہے جو کسی اور مخلوق کو عطا نہ ہوئی۔ کائنات کی تمام مخلوقات میں سے ایک واحد انسان ہی ایسا ہے جس کو کائنات میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تخلیق کیا گیا ہے، اسے عقل و شعور سے نوازاگیا اور نیابت الہی کے منصب پر فائز کیاگیا۔اللہ تعالی نے انسان کو علم دیااور عقل و شعور عطا کرکے نیکی و بدی کے انتخاب کا اختیار دیا۔

 قرآن انسانوں کی عظمت پر بہت زور دیتا ہے چاہے ان کی جنس یا نسل ہو یا حیثیت۔قرآن پاک میں فرمانِ مبارکہ ہے کہ: ”ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے، انہیں خشکی اور سمندر میں نقل و حمل کی سہولت دی ہے، انہیں اچھی اور پاک چیزوں کی فراہمی کے لیے دی ہے، اور ان کو ہماری تخلیق کے ایک بڑے حصے کے اوپر خاص احسانات سے نوازا ہے۔”

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت میں پیدا فرمایا انسان کی پیدائش میں ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی احسن تقویم ہے، جس کا ذکر اللہ نے تین قسموں کے بعد فرمایا۔ یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا.(1)

 

سائنسی ترقی رحمت یا زحمت؟

سائنسی ترقی کا یہ دور سہولتوں کے ساتھ ساتھ اپنے دامن میں شدید خطرات سمیٹے ہوئے ہے۔ ذرا سی لاپروائی اور اقوامِ عالم آپ کو پیس کر رکھ دیں گی۔ گاڑی سے اتر کر میں نے گھر کا مرکزی دروازہ کھولا تو بیک وقت چار آنکھوں نے اوپر سے نیچے تک مجھے ٹٹولا۔ پھر اپنے ننھے سے بلونگڑے کو چھوڑ کر پیلے رنگ کی ایک بلّی بوگن بیلی کی شاخوں میں چھپ گئی۔ اس کے بچّے کو تنگ کیا جاتا اور وہ چیخ پکار کرتا تو اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے، وہ لوٹ آتی۔ سخت سردی میں اب یہ دو بن بلائے مہمان صحن ہی میں قیام پذیر ہو گئے ، جہاں چھت کو بوسہ دیتی ہوئی گھنی بیل بہترین مورچہ تھی۔وہ انہی مشکل ترین حالات میں بقا کی جنگ لڑ رہے تھے ، جن سے اوّلین عہد کا انسان نبرد آزما رہا۔ ہم تو ان تکالیف سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا چکے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر ہم ہوا میں اڑ تے اور دریاؤں کا رخ موڑڈالتے ہیں۔ ہم اپنے ہمسایہ سیاروں پہ جا اترتے اور خلا کے وسائل ٹٹولتے ہیں۔ ان سب کارناموں کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ہمارے دماغ کا سامنے والا حصہ دوسرے جانوروں سے ذرا سا مختلف ہے۔ سلیٹی رنگ کا ، چوتھائی انچ موٹا ایک چھلکا دماغ کے سامنے والے حصے پر چڑھا ہوا ہے ، جسے سیریبرل کورٹیکس کہتے ہیں۔ وہ نہ ہوتا تو شاید آج بھی ہم جنگلوں میں چھپے ، کچّا اور بدبودار گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہوتے۔

ماضی کی سب سے بڑی انسانی کامیابی کا تعین مشکل ہے۔ بجلی اور اس کے بل پر چلنے والی سینکڑوں ایجادات کے بغیر زندگی کیا ہوتی ؟ انجن ، جو موٹر سائیکل سے لے کر خلائی جہاز تک میں نصب ہے اورجس نے فاصلہ مٹا دیا ہے۔ تار کی مدد سے ڈیٹا دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتقل ہوتا ہے۔ روایتی ٹیلی فون اور انٹرنیٹ جس کی مدد سے کام کرتے ہیں اور جس نے کرّہ ارض پہ بکھرے بنی نوع انسان کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے۔ زیرِ زمین کوئلے اور تیل جیسی مفید اشیا سے لے کر ایٹم سے توانائی کا اخراج۔ سیٹلائٹ ؟ موبائل فون ؟ عجیب بات یہ ہے کہ تقریبا ساری بڑی ایجادات پچھلی دو ڈھائی صدیوں ہی میں ہوئیں۔دنیا بدل چکی ہے لیکن اگلے سو ڈیڑھ سو سال میں یہ ایک بار پھر بدل جائے گی۔ بحیثیت ایک قوم ہم اس کے لئے تیار نہیں۔۔۔ تیار ہونا پڑے گا۔

آنے والے دور کی ایجادات زیادہ سنسنی خیز ہیں۔مئی 2005 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں بلو برین پراجیکٹ (Blue Brain Project) کا آغاز ہوا تھا۔اس کے تحت لیبارٹری میں سو ارب خلیات پر مشتمل مصنوعی انسانی دماغ تیار ہونا ہے۔ دنیا کے 135اداروں کے دماغی سائنسدان، ڈاکٹر، طبیعات دان ، ریاضی دان اور کمپیوٹر انجینئر ڈاکٹر ہنری مارکرم کی سربراہی میں سر جوڑے بیٹھے ہیں۔متوازی طور پر چوہے کا دماغ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔یہ انسانی دماغ سے ہزار گنا سادہ ہے اور 2014 میں مکمل ہو جائے گا۔بلو برین پراجیکٹ کی کامیاب تکمیل کی صورت میں توقعات یہ ہیں کہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اپنے عروج پہ پہنچ جائے گی اور لامحالہ اس کا سب سے بڑا استعمال جنگ میں ہوگا۔ امریکہ اس وقت بھی ایسے ذہین فولادی روبوٹ تیار کرنے میں جتا ہوا ہے ، جومیدانِ جنگ میں گوشت پوست کے کمزور فوجیوں کی جگہ سنبھال سکیں۔ تخلیق (Creation)کو سمجھنا ہو یا خود کچھ بنانا ہو، ہمیں خوردبینی سطح (Microscopic Level)پر جانا ہوتاہے۔مثلاً بیکٹیریا اور وائرس کے جسم پر حملے اور جواباً انسانی قدرتی مدافعتی نظام کو سمجھ کر ہی ملیریا اور طاعون جیسی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہوا، جنہوں نے کبھی کروڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ نینو ٹیکنالوجی کو درست طور پر انسان کا مستقبل کہا جاتاہے کہ یہ خوردبینی سطح پر تخلیق اور تبدیلی کا باعث بنے گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے بیمار دل یا ناکارہ جگر کے صحت مند خلیات نئے سرے سے جنم لینے لگیں تو یہ ایک نئی زندگی پا لینے کے برابر ہوگا۔ طب ہی نہیں ، زندگی کے ہر شعبے میں نینو ٹیکنالوجی ایک انقلاب برپا کر دے گی۔ انسانی جسم ہی کو دیکھئے۔ میں ایک چٹان پہ ہاتھ رکھتا ہوں۔ فوراً ہی میری جلد میں موجود خلیات نینو سنسر کی طرح کام کرتے ہوئے پتلی پتلی تاروںیعنی نروز (Nerves) کے ذریعے پیغام ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز کو اور وہ دماغ کوبھیجتا ہے۔ دماغ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں جان لیتاہے کہ کسی سخت چیز کو چھوا گیا ہے۔

کائنات کے بڑے راز تیزی سے افشا ہو رہے ہیں۔ زیرِ زمین ایک طویل ٹنل میں ایٹم کے ننھے ذرّات کو روشنی کی رفتار سے ٹکرا کر کائنات کی ابتدا کا ماحول پیدا کیا گیا۔ اس عمل میں خدائی ذرّہ (God\'s Particle)بے نقاب ہو ا۔ اسی نے کائنات کی ابتدا میں عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ(Big Bang)کے بعد مادے کو وزن عطا کیا۔ وہ نہ ہوتا تو سب کچھ روشنی کی رفتار سے بہہ جاتا اور کچھ بھی تخلیق نہ ہو پاتا۔اس دریافت کو چاند پر انسانی قدم جیسی کامیابی قرار دیا گیا۔ میری نظر میں یہ اس سے بہت بڑا کارنامہ ہے۔ دوسری طرف مغربی سائنسدان ڈار ک میٹر (Dark Matter)کے اسرار سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں محو ہیں۔ شاید آ پ یہ جان کر حیران ہو جائیں کہ کائنات میں جو کچھ آپ دیکھتے ہیں ، وہ صرف پانچ فیصد ہے۔باقی 95فیصد تواوجھل ہے۔ یہ پراسرار ڈارک میٹر ہے ، جو سینکڑوں ارب ستارے اور سیارے رکھنے والے کہکشاؤں کو بکھرنے سے روکتاہے۔ خود سے کچھ تخلیق کرنا تو انسان کے بس میں نہیں۔ ہم خدا کے پیدا کردہ کسی عمل کو کامیابی سے دہرا بھی لیں تو عظیم الشان کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔

مثلاً ستاروں کے مرکز میں خوفناک درجہ حرارت اور دباؤ کے تحت ہائیڈروجن کے ایٹم ہیلیم کا روپ دھارتے ہیں۔ اس عمل میں گیما ریز نامی وہ شعاعیں خارج ہوتی ہیں ، جو سورج کی حرارت اور روشنی کا باعث ہیں۔ یاد رہے کہ کائنات کے تمام عناصر (بشمول وہ ، جن سے ہمارے جسم بنے ہیں ) ستاروں کے مرکزہی میں بنے ہیں۔ اب اس عمل کو کرّہ ارض پہ دہرانے کی تیاری ہے۔ ہائیڈروجن کے دو ایٹموں کو بے پناہ حرارت پہنچا کر انہیں ہیلیم میں بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ عمل کامیاب ہو گیا تو نہ صرف توانائی کا ایک نیا باب کھل جائے گا بلکہ مستقبل میں شاید مفید دھاتیں بنانے کی کوشش بھی کی جائے۔ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر نہ صرف دوسرے جانداروں پر حاوی ہے بلکہ خود بھی اس سے محفوظ نہیں

 

برقی آلات کی ری سائیکلنگ

ماہرین کا کہنا ہے دنیا بھر میں 20 فیصد سے کم الیکٹرونک آلات کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔آپ کا فون یقیناً آپ کو عزیز بھی ہو گا اور آپ کے لیے اہم بھی اس بات سے قطع نظر کہ یہ آئی فون کا نیا ماڈل ہے یا نوکیا کا 3310 ماڈل۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ سال 2022 کے آخر تک عالمی سطح پر تقریباً پانچ ارب موبائل فونز کو الیکٹرونک کچرا قرار دے کر پھینک دیا جائے گا۔

عالمی ادارہ برائے الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونک اکیومپنٹ ویسٹ (ڈبلیو ای ای ای ) کا کہنا ہے کہ رواں برس 5.3 ارب موبائل فونز کو ری سائیکل نہیں کیا جائے گا بلکہ انھیں الیکٹرک کچرا قرار دے کر پھینک دیا جائے گا۔عالمی تجارتی اعداد و شمار پر مبنی یہ تخمینہ ’ای ویسٹ‘ کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسئلے کو نمایاں کرتا ہے۔

تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے پرانے موبائل فونز کو ری سائیکل کرنے کی بجائے انھیں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔اور ان فونز میں موجود قیمتی دھاتیں مثلا تاروں میں موجود تانبہ، اور ری چارج ایبل بیٹریوں میں موجود کوبالٹ کو نکال کر دوبارہ استعمال نہ کرنے سے ان معدنیات کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے۔

ڈبلیو ای ای ای کے ڈائریکٹر جنرل پاسکل لیروئے کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ تمام بظاہر غیر معمولی اشیا کی بہت زیادہ قیمت ہے اور مجموعی طور پر یہ عالمی سطح پر ایک بڑے حجم کی نمائندگی کرتے ہیں۔دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 16 ارب موبائل فونز ہیں اور یورپ میں موجود موبائلز میں سے تقریباً ایک تہائی موبائل فونز اب استعمال میں نہیں ہیں۔

ڈبلیو ای ای ای کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ واشنگ مشین سے لے کر ٹوسٹر تک اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز سے لے کر جی پی ایس ڈوائسز تک عالمی سطح پر الیکٹرونک کچرے کا ایک پہاڑ ہے اور سنہ 2030 تک یہ بڑھ کر 74 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔اس سال کے شروع میں، رائل سوسائٹی آف کیمسٹری نے نئی مصنوعات تیار کرنے کے لیے پرانے آلات میں سے قیمتی دھاتیں نکال کر استعمال کرنے کو فروغ دینے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی، جس میں یوکرین جنگ سمیت عالمی تنازعات کو اجاگر کیا گیا، جس سے قیمتی دھاتوں کی سپلائی چین کو خطرہ ہے۔

ڈبلیو ای ای ای کی اہلکار میگڈلینا کا کہنا ہے کہ ’یہ پرانے آلات بہت سے اہم اور قیمتیں وسائل (دھاتیں) فراہم کرتے ہیں جنھیں نئے الیکٹرانک آلات یا دیگر آلات کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے ونڈ ٹربائنز، الیکٹرک کار بیٹریاں یا سولر پینلز۔ یہ سب کم کاربن اخراج کرنے والے معاشروں میں ڈیجیٹل منتقلی کے لیے بہت اہم ہیں۔

دنیا کے صرف 17 فیصد سے زیادہ الیکٹرونک کچرے کو صحیح طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین نے اگلے سال تک اسے 30 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’یہ تیزی سے بڑھنے والے اور سب سے پیچیدہ کچرے میں سے ایک ہے جو انسانی صحت اور ماحول دونوں کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ اس میں نقصان دہ مادے ہو سکتے ہیں۔میٹریل فوکس نامی تنظیم کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں گھروں میں تقریباً 5.63 ارب پاونڈز مالیت کی دس لاکھ سے زائد غیر استعمال شدہ لیکن قابل استعمال برقی اشیا موجود ہیں۔یہ حساب بھی لگایا گیا ہے کہ برطانیہ میں اوسط فی گھر تقریباً دو سو پاؤنڈ تک کی غیر استعمال شدہ الیکٹرک آلات کو فروخت کر سکتا ہے۔

اس تنظیم کی آن لائن آگاہی مہم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کے قریب ترین ری سائیکل پلانٹ کہاں کہاں موجود ہیں۔پاسکل لیروئے کہتے ہیں اس ضمن میں اور بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’سپر مارکیٹوں میں کلیکشن بکس فراہم کرنا، نئے آلات کی ڈیلیوری پر چھوٹے ٹوٹے ہوئے آلات کو اٹھانا اور چھوٹے ای ویسٹ کو واپس کرنے کے لیے پی او (پوسٹ آفس) بکس پیش کرنا ان چیزوں کی واپسی کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کرائے گئے کچھ اقدامات ہیں۔

 

پاکستانی جمہوریت

اگر ہمارے جیسے پڑھے لکھے عالمی ایکسپوژر رکھنے والے اوورسیز پاکستانی ووٹ ڈالنے کے عمل کا اور پاکستان کی پارلیمان کا حصّہ بنیں گے تو آپ کو گامے ماجھے قسم کی سڑک چھاپ لڑائیاں اور گلی کے نکڑ پر تھڑے باز قسم کے لوگوں کی گالیاں اور زبان اعلیٰ ترین ایوان میں نظر نہیں آئے گی نہ قوم کا پیسہ ضائع ہوگا۔ہم تو خود سب سے زیادہ پیسہ پاکستان بھیج کر آپ کی معیشت کو ترسیلات زر کا سہارا دیتے ہیں۔

یہاں نیوزی لینڈ میں بھی دہری شہریت والے کو ووٹ کا حق حاصل ہے وہ پارلیمان کا ممبر بھی بن سکتا ہے یہاں اس کی وفاداری پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں سلجھے انداز سے پڑھے لکھے سنجیدہ ممبران اپنے عوام کے فائدے کے لیے بحث اور قانون سازی کرتے ہیں۔

یہ والی بات تو ان کی درست تھی لیکن نجانے کس بات کا غصّہ یا رَنج تھا، شاید گذشتہ دنوں پارلیمان کی ہوئی توہین کا یا شاید منتخب نمائندوں کے اخلاق باختہ بازاری رویے کا یا شاید عوامی پیسے اور وقت کے ضیاع کا یا پھر شاید دن بدن تنزلی کا شکار قومی اخلاقیات کا اور اپنے ملک اپنی قوم کو پستی کی اندھی گہری دلدل میں مسلسل دھنستے چلے جاتے ہوئے دیکھنے اور کچھ نہ کر پانے کا رنج اور غصہ۔

بہرحال میں نے قدرے تلخی سے اپنے محترم دوست کو جواب دیا کہ دیکھیے اول تو مہذب دنیا کے کئی پارلیمانوں کے ایسے واقعات میں آپ کو گنوا سکتی ہوں جہاں ایسا ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ!

اور دوسرا اگر آپ کو دیگر ممالک کی پارلیمان ہمارے ہاں سے بہتر لگتی ہے تو آپ وہیں کے لیے ووٹ کاسٹ کیجیے نا اور وہیں کے ممبر بنیے۔ ہمارے ہاں کیوں بدیس سے اخلاقیات کا عَلَم گاڑنے آنا چاہتے ہیں۔

یہ کہہ کر دوبارہ بات ہوتی ہے پر اپنے محترم دوست سے فون بند کرنے کی اجازت طلب کی۔ لیکن یقین مانیے فون بند کرنے کے بعد بھی رَنج، غم و غصّہ اور جھنجھلاہٹ ختم نہ ہو سکی بلکہ رُسوائی کا احساس مزید گہرا ہوگیا کہ دنیا بھر میں ہماری مقدس منتخب پارلیمان کے مناظر دیکھے گئے ہوں گے کیا کیا جگ ہنسائی نہ ہوئی ہوگی کیسے کیسے الفاظ منتخب نمائندوں، ان کے رویوں اور پارلیمان کے کردار کے بارے نہ کہے گئے ہوں گے۔

ایسی پارلیمان جو تاریخی اعتبار سے کمزور رہی ہے جس پر کئی بار شب خون مارا گیا جس کی توقیر اور بالادستی کو کئی بار بھاری بھر کم بوٹوں تلے روندا گیا ہو جو آج بھی محض ربر سٹیمپ کی حیثیت سے تصور کی جاتی ہو۔

پاکستان میں مہنگائی

عام طور پر مہنگائی سے مراد اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ لیا جاتا ہے۔ دراصل جب قیمتوں میں اضافہ ہو اور  لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ نہ ہو یا کم شرح سے ہو، ایسی صورتحال کو مہنگائی کہتے ہیں۔مہنگائی کا براہ راست اثر غریب اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے۔ جس سے وہ غریب  سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔

مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت اور بدحالی کو روکنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں کو جدوجہد اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے دستور میں عوام سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی عوامی حکومت یا جمہوریت اسی وقت اپنے نام کی اہل قرار دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی عوام کو زندگی کی لازمی ضروریات کو پورا کرنے کا حق دے سکتے ہیں۔

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک طرف تو حکومت کے بہت سے ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ پاتے اور دوسرے ملک میں بے اطمینانی اور جگہ جگہ حکومت کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں جو تخریبی کارروائیوں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان تخریبی کارروائیوں سے ملک کے امن و اطمینان میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ترقی کے منصوبے سست اور بے عمل ہو جاتے ہیں۔

اسی مسئلے کے نتیجے میں سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافہ کی مانگ کرتے ہیں اور ہڑتال کرتے ہیں۔ صحت، ریلوے، ڈاک اور ایسے ہی اہم شعبوں کی ہڑتالوں سے ہر سال ملک کے کروڑوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے ملکی بجٹ پر کافی بوجھ پڑ جاتا ہے اور مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔

حکومت ابھی تک موثر اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام نے حکومت کو اس سلسلے میں مناسب تعاون نہیں دیا۔ ظاہر ہے کہ قانون اور حکومت ہی منافع خوروں کو سزا دے سکتی ہے لیکن کیا یہ عوام کا فرض نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کی نظر میں لائیں۔ پرامن طریقوں سے ذخیرہ اندوزوں وغیرہ کو بے نقاب کریں۔ اور ان کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اور خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب ایک بار پھر ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا۔

اُف یہ مہنگائی!

مہنگائی کا نام سنتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔مہنگائی دور حاضر کی سب سے بڑی لعنت ہے ۔اس نے ہمارے ملک کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔اس کا ڈنکا یوں تو ساری دنیا میں بج رہا ہے ،لیکن ہمارے ملک میں اس کی بازگشت کچھ زیادہ ہی سنائی دے رہی ہے ۔ہر کوئی مہنگائی کا رونا روتا دکھائی پڑتا ہے ۔ اس کے تدارک کی فکر کسی کو نہیں ،یوں سمجھیے مہنگائی کا رونا بس فیشن بن گیا ہے ۔

کس کس کا ذکر کیا جائے ؟کون کون سی شئے گنوائی جائے ؟؟۔۔ہرچیز پر مہنگائی کی بجلی گری ہے ۔بازار جاؤ تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے ۔چیزوں کے دام پوچھو تو نانی یاد آجاتی ہے ۔ضروری اشیاء کے دام معلوم کرو تو پیروں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے ۔ضرورت زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے ۔آلو ،پیاز،سبزیوں کے دام آسمان کو چھورہے ہیں ۔ایک ہا ہا کار مچی ہے ۔

غریب جب سبزی خریدنے بازار جاتا ہے تو اس کی حالت دیکھ کر گوبھی منہ پھلاتی ہے ۔کریلے کا منہ کڑوا ہوجاتا ہے ۔۔اور ٹماٹر کا چہرہ خواہ مخواہ لال ہوجاتا ہے ۔۔بے چارہ کس کس کا مقابلہ کرے !! وہ منہ لٹکائے گھر واپس آجاتا ہے ۔ زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔اب اگر روزمرّہ کی اشیاء بھی مہنگی ہوجائیں تو غریب کیا کھائے اور کیا پیئے ؟۔۔وہ بے چارہ سوائے غم کھانے اور آنسو پینے کے کر بھی کیا سکتا ہے !!

بڑے شہروں میں مکان خریدنا بھی ایک دیوانے کا خواب سا ہوگیا ہے ۔مکانوں کی قیمتیں فلک بوس عمارتوں ہی کی طرح آسمان سے باتيں کرتی نظر آتی ہیں ۔ایک عام انسان کی قوت خرید اتنی بھی نہیں رہی کہ وہ اپنے لیے ایک چھت ہی مہیا کرسکے ۔۔۔آج فٹ پاتھوں اور پلیٹ فارمس پر کتنے ہی لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

ہمیں ہر بات کی آزادی ہے اور اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔سرمایہ دار طبقہ من مانے دام مقرر کردیتا ہے ۔غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ان کے آنسو کون پونچھے ؟۔۔مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔حکومتیں بدلتی ہیں مگر رجحانات نہیں بدلتے ! ہر حکومت مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن مہنگائی کا دیو کسی کے قابو میں آتا دکھائی نہیں دیتا ۔۔مہنگائی کا آسیب ہر ذی روح پر سوار ہے ۔۔۔میدان حشر میں سب نفسی نفسی پکاریں گے ۔۔مگر آج ہر نفس ، اف!یہ مہنگائی ۔۔اف! یہ مہنگائی پکارتا نظر آرہا ہے۔

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔

  

مہنگائی

مہنگائی انسان کے ایک ایسے فعل کا نام ہے۔جس میں ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کو اُن کے مُنصفانہ اور اعتدالانہ نرخ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے۔اسلامی تعلیمات میں اس عمل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔اور اس عمل کو ظلم کہا گیا ہے۔

مہنگائی کے غیر مُنصفانہ اور غیر عادلانہ عمل سے سماج کا کمزور اور افلاس زدہ طبقہ دولت مندوں ۔سرمایہ داروں اور امیروں کے ہاتھوں دب کر رہ جاتا ہے۔اور یوں سرمایہ دار روز بروز امیر اور دولت مند ہوتا چلا جاتا ہے۔اللہ نے اپنی مقدس کتاب قُران کے زریعے نوعِ انسان پر اسی لیے زکواۃ کا نظام قائم کیا ہے۔تاکہ سرمایہ دار طبقہ کے سرمایہ کا ڈھائی فیصد حِصہ وصول کر کے ان غریبوں اور مساکین کو دیا جائے۔اور یوں سماج کے غریب طبقہ کو غُربت کی اُس سطح سے اوپر اُٹھا کر کسی حد تک غُربت سے نجات دلائی جاۓ اور امیر کو مزید امیر بننے سے روکا جاٸے۔تاکہ امیر اور غریب کے درمیان کا تفاوُت ختم ہو جائے۔

بقول علامہ اقبال

صاحب ِ تاج و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

انسانی سماج میں جب آسمانی عدل وانصاف کا عقیدہ باقی نہ رہے۔تو پھر ایسا سماج مہنگائی جیسے ظُلم و نا انصافی کے ہتھکنڈوں سے اللہ کی مخلوق کے حقوق کو پامال کرنے میں لگ جاتا ہے۔ایسا انسانی سماج ُان بھوکے بھیڑیوں کی طرح بن جاتا ہے۔ جو بے زبان انسانی بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں میں داخل ہو کر ان کا خون چوسنے میں لگ جاتا ہے۔شاید ایسے ہی شکلِ انسانی بھیڑیوں کے  لیے شاعر نے ایک جگہ یوں لکھا ہے۔

کس قدر وحشی ہیں یہ انسانیت کے نامدار؟

بھیڑیے جنگل کے جن کو دیکھ کر ہیں شرمسار

حق تعالیٰ سے ظفر ہے میری یہی دُعا

سنگدل انساں کو آئے رحم اور خوفِ خُدا

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔

سوشل میڈیا کے فوائد

سوشل میڈیا یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ایک کمپیوٹر پر مبنی ٹیکنالوجی ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کے نظریات ، خیالات اور معلومات کو شیئر کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔   یہ صارفین کو ڈیٹا کی فوری الیکٹرانک مواصلت فراہم کرتا ہے۔ یہ ڈیٹا مختلف اقسام پر مشتمل ہوتا ہے جس میں تصاویر، ویڈیوز ، پرسنل معلومات اور دیگر دستاویزات بھی شامل ہیں ۔

 ہم سب صرف ایک دوسرے کے ساتھ آن لائن بات چیت  ہی نہیں  بلکہ اس کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں  دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے سے رابطہ قائم کریں اور طویل فاصلے پر موجود دوستوں سے رابطے میں رہیں ۔ اس پر لاتعداد معلومات موجود ہیں جس تک آپ صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں ۔اس  کے ذریعے بہت سے افراد نے  ایک دوسرے کو آن لائن تلاش کیا اور جاننا ہے ۔

پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق ، آن لائن کاروباری افراد اپنے صارفین کو فون اور کمپیوٹرز کے ذریعے ٹارگٹ کرنے کے لئے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا استعمال کر رہے ہیں ، تاکہ کلائنٹس کو گھر بیٹھے سہولیات مہیا کی جا سکیں ۔ایسا کرنے میں کسٹمر اور کاروباری کمپنی دونوں کا فائدہ ہے۔ کچھ کمپنیاں ، جیسے ڈینی نےنوجوان صارفین کو مارکیٹ کرنے کے لئے ٹویٹر پر مکمل تیار کیا ہے۔

  انڈونیشیا جیسے ایشیائی ممالک سوشل میڈیا کے استعمال کی فہرست میں سب سے آگے ہیں۔ 3.8 بلین سے زیادہ افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ سب سے بڑے  نیٹ ورکس میں فیس بک ، انسٹاگرام ہے۔

سوشل میڈیا عام طور پر لوگوں یا صارفین کا تیار کردہ ڈیٹا اور پرسنل پروفائلز کی معلومات پیش کرتا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے 2023 تک ، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد تقریبا 257 ملین تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے۔

سوشل میڈیا کا آغاز

ابتدا میں  دوستوں اور دیگر خاندان کے افراد سے جو بہت دور رہتے ہوں سے رابطہ کے طور پر شروع ہوا تھا لیکن بعد میں یہ ایک کاروباربن گیا۔ جس میں صارفین تک پہنچنے کے لئے مواصلات کے ایک مشہور طریقہ کار سے فائدہ اٹھایا گیا۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے زمین پر موجود کسی سے بھی ، یا ایک ہی وقت میں معلومات کو بہت سارے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

عالمی سطح پر اس کے صارفین کی تعداد 3.8 بلین سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ہمیشہ بدلتی ہوئی فیلڈ ہے، جس میں ہر سال نت نئے ایپس اور سافٹ ویئر منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ٹِک ٹاک اور کلب ہاؤس جیسے نئے ایپس سامنے آئے ہیں۔ فیس بک ، یوٹیوب ، ٹویٹر ، اور انسٹاگرام جیسے قائم سوشل نیٹ ورکس مشہور سماجی رابطوں کے ذریعے سمجھے جاتے ہیں۔

بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما

اس میں کوئی دو رائے نہیں بچے قوم کے معمار اور مستقبل کے قائد وذمہ دارہوتے ہیں۔بچوں کی اعلی تعلیم اور اچھی تربیت ہی ایک صالح معاشرے کی تشکیل کا سبب ہے۔ ایک صحت مند اور مضبوط پودا ہی مستقبل میں ایک تناور اور خوش ذائقہ پھلوں اور پھولوں والا درخت بن سکتا ہے۔

والدین پر بچوں کے سلسلے میں یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کو اچھی زندگی کے لئے اچھی خوراک،عمدہ کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں،وہیں ان کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کریں۔نیز زندگی اور اس کے نشیب وفراز کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ماہرین کے مطابق بچہ پیدائش کے بعد تربیت کے حوالے دو دور سے گزرتا ہے:

1۔بچپن کا دور،یہ دور ایک سال کی عمر سے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تربیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔

2۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھتا اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکتا ہے۔

پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہیے اور اس عمر میں بچے کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کا حکم دینے میں سختی بھی نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ اس کے لیے اچھا ماحول،پاکیزہ فضا اور مناسب دوست فراہم کرنا چاہیے؛تاکہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا رہے،یہی وہ زمانہ ہے جس میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو محفوظ کرلیتا ہے۔

دوسرے دور میں بچے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہیے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہیے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کردو ان کے درمیان خواب گاہ ہوں میں (ابوداؤد) ۔

اس وقت مغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کو لے کر جو چہل پہل دکھائی دے رہی ہے،دانشوران فرنگ اس سلسلے میں جس حساسیت کا اظہار کررہے ہیں،مختلف این جی اوز کی جانب سے جو شعور بیداری مہم چلائی جارہی ہے اور ہرسال اس حوالے سے جو مختلف قوانین وضع کیے جارہے ہیں،بہ نظر غائر دیکھاجائے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل،جب انسانیت جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی،اسی وقت پیغمبر اسلام ﷺنے بچوں کی قدر ومنزلت اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ زریں اصول اور رہنما ہدایات عطا فرمائے جو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے سرمۂ چشم کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج کے دانشور اور ماہرین نفسیات بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کے بعض پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بچوں کی جسمانی

 ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضروریات بھی بہت اہمیت کی حامل اور والدین کی توجہ کی متقاضی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ نا صرف بچے کی تعلیمی و معاشی ضروریات پر توجہ دیں؛بلکہ بچوں کی سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بھی سمجھیں اور ان ضروریات کی تسکین کامناسب انتظام کریں،دن بھر میں بچوں کے لیے کچھ وقت فارغ کریں،ان کے ساتھ گفتگو کریں،ان کے سرپر دست شفقت رکھیں،ان کی پریشانی پوچھیں اور اسے حل کرنے کا یقین دلائیں۔

دورجدید کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے جبکہ پرانے زمانے میں والدین بچوں کو وقت دیتے تھے،انہیں قصے اور کہانیاں سناتے تھیاور ان کی فکری تربیت کرتے تھے۔ یوں بچوں کی نفسیاتی ضرورت بھی پوری ہو جاتی تھی اور تعلیم وتربیت بھی۔

منگل، 17 جنوری، 2023

نظم جوابِ شکوہ شاعر علامہ اقبال

 

نظم    "جواب شکوہ"       شاعر"   علامہ اقبالؔ"

 (کلاس ہشتم کی اردو  کی کتاب کنول میں شامل بندوں کی تشریح)

تشریح  بند نمبر 1

علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ کے جواب میں جواب شکوہ لکھی تھی۔ اس نظم میں اقبال نے اپنے شکوے کا جواب فرضی طور پر خدا کی طرف سے لکھا ہے۔ اس میں شاعر نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انھیں اپنی کمزوریاں دور کرتے ہوئے بہتری کی تجاویز دی ہیں۔ اس بند میں وہ کہتا  ہے کہ اس کی شکایت  پر اللہ کی طرف سے جواب آیا کہ اے میرے بندے مجھے تیری کہانی بہت دکھ بھری لگی ہے۔ تیری آنکھ سے نکلنے والے آنسو جو یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تیرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور محبت بھری آواز آسمان تک آن پہنچی ہے۔ تیرا شکایت کرنے کا انداز  بہت نرالا ہے۔ تو نے ایسے خوبصورت انداز میں شکوہ کیا ہے جس سے شکر کا پہلو نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔ اے میرے بندے تیرے اس انداز سے دوسرے لوگوں میں بھی جرات پیدا ہوئی ہے کہ وہ بھی  اب اپنے رب سے ہم کلام ہونے لگے ہیں۔

تشریح  بند نمبر 2

اس بند میں شاعر اقبال کہتا ہے کہ اللہ انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ  اے انسان میں رب العالمین ہوں اور ہر وقت تیری طرف متوجہ ہوں مگر اے انسان ! تجھے مجھ سے مانگنے کی توفیق نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے علامہ اقبال کے نالوں کا جواب دیتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا میں کریم ہوں اور ہر وقت رحم اور فضل کرتا ہوں۔ لیکن کوئی مجھ سے، رحم اور فضل طلب نہیں کرتا۔ میں کس کی رہنمائی کروں جبکہ منزل کی طرف کوئی سفر کرنے والا نہیں ہے۔ عام لوگوں کی تربیت کی گئی ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ لیکن کوئی باصلاحیت فرد ہی موجود نہیں۔ یہ وہ مٹی نہیں جس سے آدم میں آدمیت پیدا ہو جاۓ۔ ہم قابل اور باصلاحیت فرد کو ایران کے بادشاہوں جتنی عزت اور مرتبہ عطا کرتے ہیں اور جو لوگ نئی دنیائیں تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم ان کو نئی دنیا بھی عطا کرتے ہیں۔

تشریح  بند نمبر 3

نظم جواب شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال خدا کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہاری حالت یہ ہے کہ تم ہماری عبادت پر خواب شیریں کو ترجیح دیتے ہو ، اور رمضان کے روزوں کو ایک مصیبت سمجھتے ہو۔ کیا یہی وفاداری کا طریقہ ہے ؟ قوم تو مذہب سے بنتی ہے جب تم نے مذہب چھوڑ دیا تو قوم کس طرح زندہ رہ سکتی ہے ؟ مثلاً یوں سمجھو کہ اگر کہکشاؤں کے ستاروں میں جذب باہمی یعنی آپ میں ربط و تعلق باقی نہ رہے تو کیا کوئی ستارہ اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے؟

تشریح  بند نمبر 4

نظم جواب شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال علامتی طور پر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کا دین ایک ہے، اللہ ایک ہے، رسول ایک ہے، خانہ کعبہ ایک ہے، قرآن مجید بھی ایک ہے ، ایسے حالات میں اگر سارے مسلمان بھی ایک ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا ؟ اس کے بر عکس تمہارا حال یہ ہے کہ تم مختلف فرقوں اور ذاتوں اور قبیلوں میں منقسم ہو گئے ہو کیا دنیا میں ترقی کرنے کی یہی صورت ہے؟