اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

نظم: صبح کا منظر شاعر: میر ببر علی انیس

 نظم:  صبح کا منظر 

 (صنفِ نظم: موضوع :مرثیہ، ساخت: مسدس)
شاعر: میر ببر علی انیس

شاعر میر ببر علی انیس کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: مرثیہ گوئی:  میر انیس نے بھی عام مرثیہ گو شاعروں کی طرح مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ مگر ان کے مرثیوں کی خوبی یہ ہے کہ  لوگ اس کو سچ ماننے لگے۔
2: منظر کشی:    میر انیس کو واقعات کی منظر کشی پر کمال حاصل ہے۔ انکا پُر سوز انداز  مناظر کو بھی درد کی تصویر بنا دیتا ہے۔
3:تشبیہات اور استعارات: میر انیس نے  اپنے کلام میں  تشبیہات اور استعارات کا استعمال بہترین طریقے سے کیا ہے۔

نظم صبح کا منظر کا مرکزی خیال: 
 رات کے بعد صبح کے آغاز پر جو آسمان پر تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں اُن کی شاعر نے نہایت دلکش انداز میں منظر کشی کرتے ہوئے  میدانِ کربلا میں مہکتی صبح کی پاکیزگی کو ہر صبح سے جُدا کر دیا ہے۔ نیز بہترین استعارات اور تشبیہات کے ذریعے میدانِ کربلا کو چاند ، ستاروں اور کہکشاؤں کے ساتھ ملا دیا ہے۔
نظم صبح کا منظر کی تشریح: 
بند نمبر :١
یوں گلشنِ فلک سے    ستارے ہوئے رواں   
           چُن لے چمن سے پھولوں کو جس طرح  باغباں
آئی   بہار   میں   گلِ  ماہتاب    پُر      خزاں             مرجھا  کے     گر گئے   ثمر و شاخ ِ   کہکشاں
دکھلائے  طَور بادِ سحر  نے سموم کے
پژ مردہ ہو کے رہ گئے غنچے نجوم کے
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
 گلشن
باغ
ثمر
پھل
بادِ سحر
صبح کی ہوا
غنچے
کلیاں
باغباں
مالی
کہکشاں
ستاروں کا جھرمٹ
سُموم
لُو، گرم ہوا
نجوم
ستارے
مہتاب
چاند
طَور
طریقہ، قسم
پژ مردہ
مایوس، مرجھائے ہوئے



حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کے شروع ہوتے ہی آسمان پر چمکتے چاند ستاروں کی بہار بھی خزاں میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مالی نے باغ سے تمام خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو چُن لیا  ہو۔ ستاروں کا جھرمٹ آہستہ آہستہ اس طرح غائب ہو رہا تھا جیسے باغ کے پھل اور شاخیں مُرجھا کر گِر گئی ہوں۔ زمین پر بھی صورتحال تبدیل ہو چکی تھی۔ صبح کی تازہ ہوا کی ٹھنڈک اب گرم ہو رہی تھی۔  صبح کے نور کی وجہ سے غائب ہوتے ستارے بند کلیوں کی طرح مرجھائے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر طرف  مایوسی پھیل گئی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر: 2
چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور 
         یادِ خدا     میں زمزمہ پردازیِ     طُیور
وہ رونق اور وہ سرد ہوا وہ فضا وہ نور  
            خُنکی ہو جس سے چشم کو اور قلب کو سرور
انسان زمیں پہ محو  مَلَک آسمان پر
جاری تھا ذکرِ قدرتِ حق ہر زبان پر
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
مہتاب
چاند
زمزمہ پرداز
سُریلے گیت گانے والے
چشم
آنکھ
محو
مصروف
ظہور
ظاہر ہونا
طُیور
پرندے
قلب
دِل
مَلَک
فرشتے
زمزمہ
ترانہ، گیت، نغمہ
خُنکی
ٹھنڈک
سرور
خوشی



حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ رات کے جاتے ہی چاند چھُپ گیا تھا اور صبح کا اُجالا پھیل رہا تھا۔ زمین پر  تمام پرندے  خُدا کی یاد میں گیت گا رہے تھے۔ صبح کی تازہ  ٹھنڈی ہوا سے فضا پُر رونق تھی۔  یہ ایسا ماحول تھا کہ جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون مل رہا تھا۔ زمین پر انسان  خُدا کی عبادت کررہے تھے اور آسمان پر فرشتے اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ الغرض ہر چیز اپنے مالکِ حقیقی کی یاد میں مصروف تھی اور اسکی عبادت کر رہی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔

بند نمبر: 3
وہ سُرخی شفق  کی  اُدھر  چرخ  پر  بہار    
     وہ  بار وَر درخت  وہ صحرا وہ سبزہ زار
شبنم کے وہ گلوں پہ  گہر ہائے آبدار     
  پھولوں سے بھرا  ہوا دامانِ کوہسار
نافے کھلے ہوئے تھے  وہ گُلوں کی شمیم کے
آتے تھے سرد سرد    وہ جھونکے نسیم کے
مشکل الفاظ کے معانی: 
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
چرخ
آسمان
صحرا
ریگستان، ویرانہ
شفق
افق پر دکھائی دینے والی سرخی
نافے
مشک(خوشبو) کی تھیلیاں
بار ور
پھلدار
سبزہ زار
سرسبز میدان
شبنم
اَوس کے قطرے
شمیم
مہک ، خوشبو
حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ جونہی صبح ہوئی افق پر سُرخ رنگ پھیل گیا تھا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف آسمان  بلکہ زمین پر موجود ہر درخت خواہ وہ ریگستانی ہو یا سرسبز میدانوں والا ، بہار کا منظر پیش کر رہا تھا۔اَوس کے قطرے پتوں اور پھولوں پر پڑے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ صبح کی روشنی میں پہاڑوں  وادیاں پھولوں سے بھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف  پھولوں کی خوشبو اور مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے مُشک کی تھیلیاں کھول دی ہوں۔ ہر طرف ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر: 4
تھی دشتِ کربلا  کی زمین رشک آسماں    
      تھا  دور دور تک شبِ ماہتاب کا سماں
چھٹکے ہوئے ستاروں کا ذروں   پہ تھا گُماں    
  نہرِ فرات بیچ میں تھی مثلِ کہکشاں
سرسبز جو درخت تھا وہ نخل ِ طور  تھا
صحرا کے ہر نہال کا سایہ بھی نور تھا
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
دشت
ویرانہ ، جنگل
سماں
منظر
نہرِ فرات
عراق کا دریائے فرات
نہال
خوشحال، کامیاب،
رشک
حسد، جلن، کسی کے برابر ہونے کی خواہش
چھٹکے ہوئے
پھیلے ہوئے
مثل
مثال، کی طرح
نہال
چھوٹا درخت، پودا

حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ میدانِ کربلا کی زمین اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ آسمان بھی اس پر رشک کر رہا تھا اور اس کی برابری کی خواہش کر رہا تھا۔ اس ویرانے میں صبح ہو جانے کے بعد  بھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے  چاندنی رات کامنظر ہو۔ میدانِ کربلا کی ریت کے ذرے ستاروں کی مانند چمک رہے تھے۔  دریائے فرات کا پانی اس  طرح چمک رہا تھا جیسے ستاروں کا جھرمٹ  پانی کی سطح پر اتر آیا ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ کربلا کا ہر درخت  طور پہاڑ پر  واقع  اُس بابرکت درخت کی مانند تھا ، جس کے نیچے حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے کلام کیا تھا۔   چھوٹے سے چھوٹے سے پودوں کے سایے بھی بابرکت اور پُر نور تھے۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔