اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

غزل نمبر :8 ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے شاعرہ: ادا ؔجعفری

 غزل نمبر :8                 ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا  نام ہی آئے

     شاعرہ: ادا ؔجعفری

شاعرہ کے کلام کی نمایاں خصوصیات :-

 انفرادیت:  ادا ؔجعفری کا شمار طویل مشقِ سخن اور ریا ضتِ فن کے صفِ اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے ۔ ان کے اشعار شعور ذات  اور دل آویزی کی زندہ مثال ہیں۔

حرف شناسی:

ادؔا جعفری حرف و صوت کی شگفتگی اور فکرو خیال کی شناسائی کی تازگی سے لبریز اشعار کہتی ہیں ۔ فکر و جذبہ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔

آفاقیت اور جذبات نگاری:

 ادا جعفری کے کلام میں جو جذبات نظر آتے  ہیں وہ  ان  کے ذاتی نہیں بلکہ مشاہداتی بھی ہیں۔ ان کی شاعری میں ساری کائنات کا درد نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

بہترین ہائیکو شاعرہ:

غزل کے ساتھ ساتھ ادا جعفری نے آزاد نظم کو اپنے جذبات کے اظہار کےلیے چنا ہے۔ انھوں نے جاپانی صنف سُخن ہائیکو پر بہت طبع آزمائی کی ہے۔

شعر نمبر 1:

؎    ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا  نام ہی آئے           آئے تو سہی، برسرِ الزام  ہی آئے

 تشریح : ادا جعفری اس شعر میں اپنی یکطرفہ محبت میں مایوسی اور محبوب کی بے وفائی کا رونا روتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا محبوب بہت سنگ دل ہے کہ اس کے دل کے کسی کونے میں بھی میرے لیے  محبت پیدا نہیں ہوئی۔ اس  کے  لبوں پر کبھی بھی میرا نام نہیں آیا ۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ بے شک میرا  محبوب مجھ  پر الزام لگا کر ہی   یا نفرت  بھرے اندازسے  ہی میرا  نام لے لے۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہوگا۔  میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھوں گی کہ اس نے کسی بہانے سے مجھے یاد تو کیا ہے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ ہونٹوں پہ نام آئے)

شعر نمبر 2:

؎    حیران ہیں،  لب  بستہ ہیں ، دل گیر ہیں غنچے                   خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے

 ادا جعفری اس شعر میں اپنے محبوب کی دوری اور جدائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب کچھ دن میری اپنے محبوب سے بات نہ ہو سکی، تو اس غم کی وجہ  سے باغ میں اداسی چھاگئی۔ کلیاں جنہوں نے کھل کر پھول بننا تھا ، انہوں نے کھلنے سے انکار کردیا ۔ شاعرہ  کہتی ہے کہ کاش میرا محبوب کسی خوشبو کے جھونکے  کو قاصد بنا کر باغ میں بھجوا دے تا کہ باغ کی اداسی بھی ختم ہو جائے اور باغ میں ہر طرف خوشی بکھر جائے اور میرا دل بھی باغ باغ ہوجائے۔(استعارہ۔۔۔۔ خوشبو  کی  زبانی)

 شعر نمبر 3:

؎             لمحات   مسرت ہیں تصور سے گریزاں                          یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تشریح : اس شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ میری زندگی تو غم کی ایک تصویر ہے۔ اگر میں اپنے ماضی  پہ نظر ڈالوں  تو مجھے کوئی ایسے لمحات نہیں یاد آتے جب کبھی   میرے محبوب نے  مجھے خوشی  دی ہو یا مجھ  سے محبت کا اظہار کیا ہو۔ میں  نے جب بھی ماضی کو دیکھا تو محبوب کے  دیے ہوئے غم ہی نظر آئے ہیں ۔  محبوب  کی  نفرت ہی دکھائی  دی ہے۔ صرف اپنا ز خمی دل ہی دکھائی دیا ہے کوئی  ایسا لمحہ  تصور میں نہیں آیا جو خوشی میں گزرا ہو ۔  میرے محبوب نے کبھی بھی مجھ سے  محبت نہیں کی ۔(کنایہ۔۔۔۔ لمحاتِ مسرت)

  ؎ اک مرگ تسلسل سے ہر اک سانس ہے گزرا                                 رکھے گا زمانہ میرے  جینے  کی ادا یاد

شعر نمبر 4:

؎ تاروں  سے سجا لیں گے  رہِ  شہر تمنا                         مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

اس شعر میں میں شاعرہ ناامیدی اور مایوسی کو اپنی زندگی سے نکالتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر مجھے سورج کی روشنی میں میسر نہ ہوئی یعنی محبت میں ناکامی ہوئی  تو بھی صبر شکر کر لوں گی۔اگر مجھے   کوئی امید کی کرن دکھائی نہ دے  تو میں سمجھ لوں گی کہ  میری قسمت میں محبوب کو پانا نہیں لکھا  تھا اور اس کے بغیر ہی اپنی راہ تلاش کر لو ں گی۔ اگر صبح کی روشنی میری قسمت میں نہیں تو  میں تاروں کی روشنی میں آگے بڑھنے  کے لیے راہ تلاش کر لوں گی۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ تاروں سے سجانا)

شعر نمبر 5:

؎ کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے                   جس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ اپنے محبوب  کے ہرجائی پن کا شکوہ  کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں اپنے اکیلے  پن  کا  گلہ نہیں کرتی نہ ہی  مجھے اپنے ساتھ نہ  چلنے والوں سے گلہ ہے۔ اگر  میرے محبوب نے   بے وفائی کر کے  یا ہرجائی بن کے  راستہ بدلہ ہے تو  اس  کا  مجھے اس سے کوئی شکوہ نہیں ہے ۔ اگر وہ راستہ بدل بھی لے تو بھی ہم سب کو ایک منزل کی تلاش ہی ہے۔ میرے رقیب بھی میرے ہم سفر ہیں ۔ہم سب کی منزل  اپنے اپنے محبوب کو پانا ہے ۔ میں  جانتی ہوں کہ بے شک میرے  محبوب نے  مجھے  بیچ راستے چھوڑ کر راستہ بدل لیا ہے، لیکن پھر بھی ہم سب کی آخری منزل محبوب کو پانا ہے اور آخر کار اسی منزل پہ ہم سب کو پھر سے اکٹھا  ہو جائیں گے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ درو بام)

شعر نمبر 6:

؎ یادوں کے، وفاؤں کے، عقیدوں کے، غموں کے            کام آئے جو دنیا میں تو اصنام ہی آئے

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعرہ  محبت میں  مایوسی اور  اداسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس دنیا میں  ہمیشہ عورت ذات کے نصیب میں محبت کی خوشی  کم ہی نصیب  ہوتی ہے۔ ساری زندگی عورت اپنی حسرتِ ناتمام کو لیے  دل ہی دل میں روتی رہتی ہے۔ شاید محبت میں ناکامی اس کا مقدر بن چکا ہے۔  یادِ ماضی عذاب بن جاتا ہے، وفا کی متلاشی کو بے وفائی اور غم کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ بہر حال وہ جینے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکال لیتی ہے اور یک طرفہ محبت دل میں لیے اپنے محبوب  کو چاہتی رہتی ہے ، اس کے ظلم و ستم کو برداشت کر تی رہتی ہے۔  ۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ اصنام)

شعر نمبر 7:

؎ تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا                                کام آئے تو پھر یہ جذبہ  ناکام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ محبت میں ناکامی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم سب عشق کی راہ سے تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔ میں نے اپنے تمام جذبات کو محبوب کی جھولی میں ڈال دیا ہے ۔میں جس قدر اپنے محبوب سے محبت کر سکتی تھی میں نے اس کی انتہا کر دی ہے۔  میں نے اپنا دل کھول کر محبوب کے سامنے رکھ دیا لیکن  افسوس مجھے اس کا کوئی صلہ نہیں ملا ۔ لیکن  جو چیز میرے کام آئی وہ  میری ناکام محبت تھی،  اس کی ناکام چاہت  تھی۔ اب یہ ناکام چاہتوں  کےجذبات ہیں  جو میری میری باقی ماندہ  زندگی کا اثاثہ ہیں۔ اب اسی یاد اور اسی ناکام محبت کے سہارے ہی مجھے اپنی ساری زندگی گزارنی ہوگی۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ سرِ کوئے تمنّا)

شعر نمبر 8:

؎  باقی نہ رہے ساکھ ادا ؔدشت جنوں کی                            دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

اپنی غزل کے اس مقطع میں ادا جعفری اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے کہتی ہے کہ عشق کے صحرا میں  عشق کی قدر و قیمت  اُس وقت ختم ہوجاتی ہے  جب انسان عشق کے انجام کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔  عشق  کی دیوانگی کی انتہا  یہ ہے کہ ہمیشہ انسان اس میں آگے بڑھتا رہے کبھی بھی اس کے انجام کے بارے میں نہ سوچے ۔ جب انسان کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہو جائے کہ اس  عشق کا انجام کیا ہوگا  تو وہ محبت کے مقام سے گر جاتا ہے اور کبھی بھی اپنی منزل کو نہیں پا سکتا۔  (مجاز مرسل۔۔۔ دشتِ جنوں)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔