اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

غزل نمبر 7: کچھ اشارے تھے جنھیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم شاعر: فراق گورکھ پوری

 غزل  نمبر7:       کچھ اشارے تھے جنھیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم 

 شاعر فراق گورکھپوری

فراق گورکھ پوری کے اندازِ کلام کی خصوصیات تحریر کریں۔۔

تشبیہات اور استعارات کا استعمال:

فراق گورکھپوری نے اپنی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کو نئے استعارات اور نازک نمونوں سے آراستہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو ادب کو نئی تازگی ملی ہے۔

آفاقیت اور معرفت کا رنگ:

 فراق کے کلام میں آفاقی رنگ پایا جاتا ہے۔ انکی شاعری انکی ذات تک محدود نہیں بلکہ انھوں نے اپنی شاعری میں کائنات کے رنگ و خوبصورتی کو بھی پیش کیا ہے۔ فراق نہ تو زاہد  تھے اور نہ ہی عارف لیکن انکے کلام میں اردو اور فارسی کلام کی آمیزش سے عارفانہ رنگ دکھائی دیتا ہے۔

خودداری اور عزتِ نفس:

فراق کےکلام میں خود داری اور عزتِ نفس بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق جذبہ عشق  میں خودداری کا کوئی دخل نہیں یہ سپردگی اور راضی برضا رہنے کا نام ہے۔ لیکن غالب کے بعد فراق ایسے شاعر ہیں جنھوں نے جذبہ عشق اور خود داری کو مربوط کر دیا۔

تشریح غزل

شعر نمبر 1

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر فراق گورکھ پوری عشقِ مجازی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبوب کی نگاہوں نے اسے فریب میں مبتلا کر دیا ہے۔ شاعر کے مطابق یہ اس کی زندگی کی بڑی بھول تھی کہ اس نے اپنے بےوفا محبوب کے ساتھ گزارے چند لمحات کو دنیا کی سب سے بڑی دولت سمجھ لیا۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کا محبوب بھی اس سے اسی طرح سچی اور بے لوث محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ اس سے کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بر عکس نکلی۔

(اس شعر میں علم البیان کی قسم مجاز مرسل کا استعمال کیا گیا ہے۔ نگاہِ آشنا کو التفات بنانا۔۔۔ ایک غلط فہمی تھی۔)

شعر نمبر 2

شاعر عشق مجازی کے حامل اس شعر میں اپنے دل کی کیفیت کا حال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے محبوب پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کا نتیجہ مجھے اس صورت میں ملا ہے کہ میں اپنی ہی نظروں میں شرمسار ہو گیا ہوں۔ یہ میری بھول تھی کہ میں اپنے بے وفا محبوب کو اپنا سمجھتا رہا ، جب کہ اس کے دل میں میرے بارے میں کوئی محبت کے جذبات نہیں تھے۔ یہ  میری اپنی بہت بڑی بھول تھی جس کی وجہ سے میں اپنے نظروں میں پرایا ہو گیا ہوں۔

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام کنایہ  (واہ ری غفلت ۔۔۔محبوب پر بھروسہ کیا ہے۔)اور صنعت تضاد (غیر اور اپنا متضاد الفاظ ہیں۔) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

شعر نمبر 3

شاعر عشق مجازی کے حامل اس شعر میں محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبوب سے گفتگو کے دوران جب خاموشی طاری ہوگئی یعنی رابطوں میں تعطل آگیا تو اس نے یہ گمان کیا کہ شاید میری داستان محبت یہیں  ختم ہو گئی ہے۔ اس خاموشی سے شاعر کی یہ حالت ہوگئی کہ کانوں میں اس کے محبوب  کی آوازیں گونجنے لگیں۔  ہر لمحہ اسے یہ محسوس ہوتا جیسے اسے اس کا محبوب پکار رہا ہے۔ کیونکہ ابھی تو داستانِ محبت کا ایک طویل حصہ باقی تھا ۔شاعر سے یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب اُس سے ہم کلام ہو اور وہ اسے اپنی داستان محبت سنائے۔

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام مجازِ مرسل  (کان بجتے ہیں ۔۔۔ ) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

شعر نمبر 4

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر فراق گورکھپوری مجنوں اور اور فرہاد کی محبت کے قصوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو عشق کو ایسے عاشقوں کا قصہ ہی سمجھتا رہا۔ حالانکہ یہاں تو پوری دنیا ہی ہیں محبت اور عشق کے جذبے کی وجہ سے درد و غم میں مبتلا ہے۔ جس کو دیکھو  وہی عشق و محبت کے عارضے میں مبتلا ہے اور اس کی وجہ سے تکالیف برداشت کر رہا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق سے کوئی انسان بچا ہوا نہیں ہے ۔ چاہے عشق مجازی ہو یا عشقِ حقیقی ہر شخص کسی نہ کسی عشق میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔شاید اسی وجہ سے ہی اس دنیا  میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے  کا مقابلہ جاری ہے۔

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام استعارہ  (دنیا درد کی تصویر نکلی ۔۔۔۔)اور صنعت تلمیح (قیس اور کوہ کن۔۔۔ مجنوں اور فرہاد کی محبت کی داستانوں کی طرف اشارہ ہے۔) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

شعر نمبر 5

عشق مجازی کے حامل اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہا ہوں۔  اپنے محبوب سے جدائی کی وجہ سے شاید مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے، لیکن جب میں ماحول پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ہر طرف ہی عشق میں ڈوبے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔  ہر دوسرا شخص عشقِ مجازی ہو یا  عشقِ حقیقی میں مبتلانظر آتا ہے۔ شاعر کے مطابق یہ  جذبہ عشق کی کارفرمائی ہے کہ اس  دنیا  میں کاروانِ حیات رواں دواں ہے۔

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام مجازِ مرسل  (عشق مانوسِ جہاں ہوتا گیا۔۔۔۔ ) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

شعر نمبر 6

شاعر حسن کی قدر نا شناسی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمانہ حُسن جیسی لطافت کو محسوس کرنے سے قاصر رہا ہے ۔ فراق زمانے کے اس انداز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  دنیا والوں نے حُسن کو وفا و بے وفائی کے پیمانے میں تول کر  اس بیش قیمت اور انمول انعام کی بے قدری کی ہے۔حسن کی دلفریبی اور رعنائی کے جادو  کا اسیر ہونے کی بجائے حسن کو ہجر و وصال کے اثرات سے مجروح کیا ہے۔ حسن کو حسن کی حیثیت سے سراہا نہیں گیا حالانکہ یہ وہ انعام ہے جسے غیر مشروط طور پر  پذیرائی حاصل ہونی چاہیے۔

 اس شعر میں علم البیان کی قسم  صنعت تضاد  (مہربان ، نا مہربان ) کا استعمال کیا گیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔