اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

بدھ، 19 ستمبر، 2018

اردو حصہ نظم جماعت نہم URDU HISSA NAZM CLASS 9TH

حصہ نظم
 نظم:  حمد
 (صنفِ نظم: قصیدہ)
شاعر: مولانا الطاف حسین حالؔی


شاعر مولانا الطاف حسین حالؔی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: سادہ زبان کا استعمال:   مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے اپنے کلام میں انتہائی سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے۔
2: مقصدیت:   حالیؔ کے کلام  میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔ ان کی تمام نظموں کا موضوع زیادہ تر مذہبی ، اخلاقی اور اصلاحی ہے۔
3:حقیقت کا عنصر: حالیؔ کی شاعری میں اصلیت اور حقیقت  کا عنصر غالب نظر آتاہے۔

نظم حمد کا مرکزی خیال: 
اس نظم میں شاعر مولانا الطاف حسین حالیؔ نے  اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہوئے اس کی  چند  صفات کا ذکر کیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کامل، مالک،  جلیل، جمیل، اور محیط ہے۔  جو شخص ایک بار اللہ کا جلوہ دیکھ لےپھر اسے کسی دوسرے کی شان و شوکت متاثر نہیں کر سکتی۔ بشریت کی بنا پر اگر انسان تمام حقوق اللہ ادا نہ کر پائے تو پھر بھی  اپنے خدا کی محبت اس کے دل میں سمائی رہتی ہے۔
نظم حمد کی تشریح: 
شعر نمبر :١
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
 باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا

حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بلند شان بیان کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعرنے  اللہ کی  صفات کامل اور باقی  کی وضاحت کرتے ہوئے  اللہ کی بلند شان بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجودِ کامل اس کائنات کے آغاز سے ہے اور اس کے اختتام کے بعد بھی قائم رہے گا۔ ہر شے فنا ہو جائے گی اگر کوئی چیز ہمیشہ باقی رہے گی تو وہ اے اللہ تیری ذات، تیری قدرت کا جلوہ اور شان و شوکت ہے۔اے اللہ تو ایک ماہر کاریگر ہے، ایسا کاریگر جس کی بنائی ہوئی ہر چیز  تمام نقائص سے پاک ہے ۔ اور تیری قدرت کے کارخانے میں کوئی خامی نہیں ہے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ کی صفت کامِل کا ذکر کیا ہے۔

شعر نمبر :2
ہے عارفوں کو حیرت  اور منکروں کو سکتہ
 ہر دل پر چھا رہا ہے رعبِ جمال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بلند شان بیان کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر اللہ کی بلند شان بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  اے اللہ تیرے حسن و جمال کا  رعب و دبدبہ اس قدر شان والا ہے کہ ہر کوئی اس سے مرعوب ہو جاتا ہے۔  وہ لوگ  جو تجھ پر ایمان لاتے ہیں  جب تیری قدرت کے جلووں کا نظارہ کرتے ہیں تو  حیرت  کے سمندروں میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور کفار جو تیرا انکار کرتے ہیں تیری خدائی کو دیکھ کر ان پر بیہوشی کی حالت  طاری ہو جاتی ہے۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ اگر اتنا بڑا نظامِ کائنات بہترین طریقے سے چل رہا ہے تواس نظام  کو چلانے والی ہستی کتنی عظیم ہوگی۔وہ لاجواب ہو جاتے ہیں۔اُن کے پاس اللہ کے وجود کو   رد کرنے کی کوئی دلیل نہیں  بچتی۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں خدا کی خدائی  کا ذکر کیا ہے۔


شعر نمبر :3
گو حکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں
لیکن  ٹلا نہ ہرگز دل سے خیال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کر رہا ہے۔
تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ اس دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری حکم عدولی کرتے ہیں۔ تیرے نافرمان ہیں اور تیری عبادت اور ذکر سے غافل ہیں، لیکن ان کے دلوں سے تیری  یاد نہیں جاتی۔ اے اللہ یہ  کسی نہ کسی نام سے کسی نہ کسی انداز سے تجھے ضرور یاد کرتے ہیں۔  جب بھی یہ لوگ کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو  اےاللہ یہ صرف تجھے    ہی مدد کے لیے پُکارتے ہیں۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں خدا کی خدائی  کا ذکر کیا ہے۔


شعر نمبر :4
پھندے سے تیرے کیو ں کر جائے نکل کے کوئی
پھیلا       ہوا ہے      ہر سُو      عالم     میں جال    تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تیری بادشاہت پوری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے  ذرے سے لے کر کہکشاؤں کی بلندیوں تک  تیری نظر ہے۔ تو ہم سب کے دلوں کے حالات تک جانتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بُرائی کرنے والا تیری پکڑ، تیری گرفت اور تیری نظروں سے بچ سکے۔ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ہر اک چیز پر اےخدا تیری گرفت مضبوط  ہے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں خدا کی خدائی  کا ذکر کیا ہے۔

شعر نمبر :5
ان کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہےجن کی جلال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تو بہت بلند شان والا ہے۔ تیری عظمت اور شان و شوکت کے جلووں کو جس نے پہچان لیا اس کی نظروں میں اب دنیا کی کوئی بھی قیمتی چیز  کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اللہ کی ذات بہت بلند شان والی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلیے دنیا کی کوئی چیز نہیں ہے، وہ بہت عظیم ہے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ کی بلند شان   کا ذکر کیا ہے۔


شعر نمبر :6
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری، جاں ہے سو مال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر  اللہ سے بے انتہا محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے اللہ تو ہمیں  دل و جان سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے، دل کی دھڑکنیں تیری عطا کردہ ہیں، اگر تیری راہ میں ہماری جان کی ضرورت پڑے گی تو ہم  بلا جھجھک قربانی دینے  کیلیے تیار ہیں۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار  کیا ہے۔


شعر نمبر :7
بیگانگی        میں        حالی ؔ    یہ         رنگِ آشنائی
سُن سُن کے سر دھُنیں گے حال اہلِ قال تیرا
حوالہ: یہ شعر مولانا الطاف حسین حالؔی کی نظم حمد سے لیا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:  اس شعر میں شاعر  کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا ذکر اتنا دلکش ہے کہ صرف اسی سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔  جو لوگ تیری یاد سے غافل ہیں، اور تجھ سے بے تعلق ہیں جب ان کے سامنے تیرا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں میں تیری محبت جاگتی ہے۔   شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ جب بھی  کسی محفل میں تیری حمد پڑھی جاتی ہے، تیرا ذکر کیا جاتا ہے سُننے والوں پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ تیری تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
حسنِ بیان:   اس شعر میں شاعر انتہائی دلکش انداز میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا  اظہار  کیا ہے۔


 نظم :  نعت



 (صنفِ نظم: قصیدہ)
شاعر: امیر مینائی


شاعر امیر مینائی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: روانی اور سلاست:  امیر مینائی کا کلام روانی اور سلاست کیلیے مشہور ہے۔ الفاظ کا توازن رکھنے اور تشبیہات کے استعمال میں ان کو کمال حاصل تھا۔
2: فصاحت و بلاغت:   امیر مینائی کے کلام میں اعلیٰ تخیل ، فصاحت و بلاغت اور جوشِ اعتقاد پایا جاتا ہے۔
3:شگفتگی : ان کی شاعری میں شگفتگی ، نزاکتِ خیال، شیرینی اور  تصوف کی چاشنی  نمایاں دکھائی دیتی ہے۔

نظم نعت کا مرکزی خیال: 
 شاعر  امیر مینائی  آنحضرت ﷺ  کی شان میں نعت لکھنے کیلیے  استعمال ہونے والی ہر شے ایسی چاہتا  ہے جو پاکیزگی  میں اعلیٰ معیار کی ہو۔ تاکہ وہ ایسے اعلیٰ و ارفع  اشعار لکھے جو بارگاہِ رسالتﷺ میں  شرفِ قبولیت حاصل کریں اور کہیں آپﷺ کی شان اقدس میں کوئی گستاخی نہ ہو جائے  ۔ آنحضرت ﷺ ہی وہ بابرکت  وجود ہیں جن کے دنیا میں تشریف لانے سے شرک اور کفر کی تاریکی ختم ہو گئی اور ہر طرف اسلامی تعلیمات کا نور پھیل گیا۔ 

نظم نعت کی تشریح: 
شعر نمبر :1

جو  کوثر  سے دھوؤں زبانِ  قلم
تو    نعتِ محمد    کروں   میں  رقم
حوالہ:   یہ شعر امیر مینائی    کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:    اس شعر میں شاعر  کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام  کیلیے  اسے  پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔  کیونکہ وہ  سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے، اسلیے اس کا قلم   بھی جنت کےحوض کے پانی سے دھُلا ہونا چاہیے۔  دراصل شاعر   خاص احتیاط کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی  شاعری میں پاکیزگی پیدا ہو اور کہیں نبی پاکﷺ کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے اور اس کے قلم سے صرف  وہی پاکیزہ الفاظ ہی لکھے جائیں جو آپ کے شایانِ شان ہیں۔ 
حسنِ بیان:   اس  شعر میں  شاعر  نے استعارے کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی شگفتہ انداز میں آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

شعر نمبر :2
ورق  پردہ    دیدہ    حور    ہو

قلم    شاخِ  نخلِ     سرِ طور ہو
حوالہ:   یہ شعر امیر مینائی    کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:    اس شعر میں شاعر  کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام  کیلیے  اسے  پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔  کیونکہ وہ  سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے، اسلیے نعت لکھنے کیلیے اسے پاک ورق چاہیے جیسا کہ جنت کی حوروں کے چہرے پر پڑا پردہ پاکیزہ ہوتا ہے۔ جس میں سے انھوں نے کبھی کسی پر غلط نظریں نہیں ڈالیں۔ اور لکھنے والا قلم کوئی عام قلم نہ ہو بلکہ اس کی خواہش ہے کہ طور پہاڑ پر واقع اس درخت کی شاخ سے قلم  بنا ہوا ہو جس درخت کے نیچے حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے کلام کیا تھا۔  دراصل شاعر اپنے کلام میں  پاکیزگی کا اعلیٰ معیار قائم کرنا چاہتا ہے۔
حسنِ بیان:   اس  شعر میں  شاعر نےاستعارہ اور تلمیح   کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

شعر نمبر :3
سیاہی   جو  درکار ہو،  سب ملک

مجھے  اپنی  آنکھوں  کی دیں مردمک
حوالہ:   یہ شعر امیر مینائی    کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:    اس شعر میں شاعر  کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام  کیلیے  اسے  پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔  کیونکہ وہ  سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے، اسلیے نعت لکھنے کیلیے اسے جو سیاہی چاہیے وہ عام سیاہی نہ ہو بلکہ مسلمان بادشاہوں کی پتلیوں کی رنگت سے بنی ہوئی ہو۔ دراصل شاعر اپنے کلام میں مسلمان بادشاہوں کی دور اندیشی چاہتا ہے تاکہ  نعت لکھتے ہوئے اس کے کلام میں شاہانہ انداز پایا جائے، کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے اور آپ ﷺ کی شان میں گستاخی  نہ ہو۔
حسنِ بیان:   اس  شعر میں  شاعر نے تشبیہ کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

شعر نمبر :4
یہ ساماں  مہیا ہوں  جس دن تمام
لکھوں  شوق میں  نعتِ خیرالانام
حوالہ:   یہ شعر امیر مینائی    کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:    اس شعر میں شاعر  کہتا ہے کہ وہ آپﷺ کی شان میں نعت لکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس بابرکت کام  کیلیے  اسے  پاکیزہ چیزیں درکار ہیں۔  کیونکہ وہ  سرورِ کائنات اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے اشعار لکھنا چاہتا ہے۔ جب اس کی مطلوبہ پاکیزہ اشیاء میسر ہو جائیں گی تب ہی وہ انتہائی محبت اور عقیدت سے آپ ﷺ کی  نعت لکھے گا اوراس نعت میں تمام مخلوقات میں افضل ترین وجود حضور صلى الله عليه وآله وسلم  کی  شان بیان کرے گا۔
حسنِ بیان:   اس  شعر میں  شاعر نے انتہائی خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

شعر نمبر :5
 اُسی  نور  سے  دفع  ظلمت  ہوئی
سرافراز ایماں سے خلقت ہوئی
حوالہ:   یہ شعر امیر مینائی    کی نظم نعت سے لیا گیا ہے۔ اس نعت میں شاعر رسولِ کریم ﷺ سے محبت کا  اظہار کر رہا ہے۔
تشریح:    اس شعر میں شاعر  آنحضرت کی بلند شان بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اسلام سے قبل دنیا جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ شرک اور بت پرستی عام تھی۔ یہ آپﷺ کا وجودِ پاک  ہی ہے جس نے  اسلام کا علم بلند کیا اور لوگوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کیا انھیں  توحید کا درس دیا۔  آپ ﷺ کی برکت سے تمام مخلوقات کو ان کا اصل مقام ملا اور معاشرے میں انکی عزت افزائی ہوئی۔ آپﷺ نے ہم سب کو حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی سکھائے۔ قیامت تک آپﷺ کی زندگی ہمارے لیے عملی نمونہ ہے۔

حسنِ بیان:   اس  شعر میں  شاعر نے انتہائی خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی بلند شان بیان کی ہے۔




 نظم:  صبح کا منظر 



 (صنفِ نظم: موضوع :مرثیہ، ساخت: مسدس)
شاعر: میر ببر علی انیس

شاعر میر ببر علی انیس کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: مرثیہ گوئی:  میر انیس نے بھی عام مرثیہ گو شاعروں کی طرح مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ مگر ان کے مرثیوں کی خوبی یہ ہے کہ  لوگ اس کو سچ ماننے لگے۔
2: منظر کشی:    میر انیس کو واقعات کی منظر کشی پر کمال حاصل ہے۔ انکا پُر سوز انداز  مناظر کو بھی درد کی تصویر بنا دیتا ہے۔
3:تشبیہات اور استعارات: میر انیس نے  اپنے کلام میں  تشبیہات اور استعارات کا استعمال بہترین طریقے سے کیا ہے۔

نظم صبح کا منظر کا مرکزی خیال: 
 رات کے بعد صبح کے آغاز پر جو آسمان پر تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں اُن کی شاعر نے نہایت دلکش انداز میں منظر کشی کرتے ہوئے  میدانِ کربلا میں مہکتی صبح کی پاکیزگی کو ہر صبح سے جُدا کر دیا ہے۔ نیز بہترین استعارات اور تشبیہات کے ذریعے میدانِ کربلا کو چاند ، ستاروں اور کہکشاؤں کے ساتھ ملا دیا ہے۔
نظم صبح کا منظر کی تشریح: 
بند نمبر :١
یوں گلشنِ فلک سے    ستارے ہوئے رواں   
           چُن لے چمن سے پھولوں کو جس طرح  باغباں
آئی   بہار   میں   گلِ  ماہتاب    پُر      خزاں             مرجھا  کے     گر گئے   ثمر و شاخ ِ   کہکشاں
دکھلائے  طَور بادِ سحر  نے سموم کے
پژ مردہ ہو کے رہ گئے غنچے نجوم کے
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
 گلشن
باغ
ثمر
پھل
بادِ سحر
صبح کی ہوا
غنچے
کلیاں
باغباں
مالی
کہکشاں
ستاروں کا جھرمٹ
سُموم
لُو، گرم ہوا
نجوم
ستارے
مہتاب
چاند
طَور
طریقہ، قسم
پژ مردہ
مایوس، مرجھائے ہوئے



حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کے شروع ہوتے ہی آسمان پر چمکتے چاند ستاروں کی بہار بھی خزاں میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مالی نے باغ سے تمام خوش نما اور خوبصورت پھولوں کو چُن لیا  ہو۔ ستاروں کا جھرمٹ آہستہ آہستہ اس طرح غائب ہو رہا تھا جیسے باغ کے پھل اور شاخیں مُرجھا کر گِر گئی ہوں۔ زمین پر بھی صورتحال تبدیل ہو چکی تھی۔ صبح کی تازہ ہوا کی ٹھنڈک اب گرم ہو رہی تھی۔  صبح کے نور کی وجہ سے غائب ہوتے ستارے بند کلیوں کی طرح مرجھائے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر طرف  مایوسی پھیل گئی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر: 2
چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور 
         یادِ خدا     میں زمزمہ پردازیِ     طُیور
وہ رونق اور وہ سرد ہوا وہ فضا وہ نور  
            خُنکی ہو جس سے چشم کو اور قلب کو سرور
انسان زمیں پہ محو  مَلَک آسمان پر
جاری تھا ذکرِ قدرتِ حق ہر زبان پر
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
مہتاب
چاند
زمزمہ پرداز
سُریلے گیت گانے والے
چشم
آنکھ
محو
مصروف
ظہور
ظاہر ہونا
طُیور
پرندے
قلب
دِل
مَلَک
فرشتے
زمزمہ
ترانہ، گیت، نغمہ
خُنکی
ٹھنڈک
سرور
خوشی



حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ رات کے جاتے ہی چاند چھُپ گیا تھا اور صبح کا اُجالا پھیل رہا تھا۔ زمین پر  تمام پرندے  خُدا کی یاد میں گیت گا رہے تھے۔ صبح کی تازہ  ٹھنڈی ہوا سے فضا پُر رونق تھی۔  یہ ایسا ماحول تھا کہ جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون مل رہا تھا۔ زمین پر انسان  خُدا کی عبادت کررہے تھے اور آسمان پر فرشتے اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔ الغرض ہر چیز اپنے مالکِ حقیقی کی یاد میں مصروف تھی اور اسکی عبادت کر رہی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔

بند نمبر: 3
وہ سُرخی شفق  کی  اُدھر  چرخ  پر  بہار    
     وہ  بار وَر درخت  وہ صحرا وہ سبزہ زار
شبنم کے وہ گلوں پہ  گہر ہائے آبدار     
  پھولوں سے بھرا  ہوا دامانِ کوہسار
نافے کھلے ہوئے تھے  وہ گُلوں کی شمیم کے
آتے تھے سرد سرد    وہ جھونکے نسیم کے
مشکل الفاظ کے معانی: 
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
چرخ
آسمان
صحرا
ریگستان، ویرانہ
شفق
افق پر دکھائی دینے والی سرخی
نافے
مشک(خوشبو) کی تھیلیاں
بار ور
پھلدار
سبزہ زار
سرسبز میدان
شبنم
اَوس کے قطرے
شمیم
مہک ، خوشبو
حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ جونہی صبح ہوئی افق پر سُرخ رنگ پھیل گیا تھا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف آسمان  بلکہ زمین پر موجود ہر درخت خواہ وہ ریگستانی ہو یا سرسبز میدانوں والا ، بہار کا منظر پیش کر رہا تھا۔اَوس کے قطرے پتوں اور پھولوں پر پڑے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ صبح کی روشنی میں پہاڑوں  وادیاں پھولوں سے بھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف  پھولوں کی خوشبو اور مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے مُشک کی تھیلیاں کھول دی ہوں۔ ہر طرف ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔
بند نمبر: 4
تھی دشتِ کربلا  کی زمین رشک آسماں    
      تھا  دور دور تک شبِ ماہتاب کا سماں
چھٹکے ہوئے ستاروں کا ذروں   پہ تھا گُماں    
  نہرِ فرات بیچ میں تھی مثلِ کہکشاں
سرسبز جو درخت تھا وہ نخل ِ طور  تھا
صحرا کے ہر نہال کا سایہ بھی نور تھا
مشکل الفاظ کے معانی:  
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
الفاظ
معانی
دشت
ویرانہ ، جنگل
سماں
منظر
نہرِ فرات
عراق کا دریائے فرات
نہال
خوشحال، کامیاب،
رشک
حسد، جلن، کسی کے برابر ہونے کی خواہش
چھٹکے ہوئے
پھیلے ہوئے
مثل
مثال، کی طرح
نہال
چھوٹا درخت، پودا

حوالہ: یہ بند میر ببر علی انیسؔ کی نظم صبح کا منظر سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک مرثیہ ہے۔
بند کا مفہوم : اس بند میں شاعر نے  میدانِ کربلا میں طلوعِ صبح کی منظر کشی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے  کہ میدانِ کربلا کی زمین اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ آسمان بھی اس پر رشک کر رہا تھا اور اس کی برابری کی خواہش کر رہا تھا۔ اس ویرانے میں صبح ہو جانے کے بعد  بھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے  چاندنی رات کامنظر ہو۔ میدانِ کربلا کی ریت کے ذرے ستاروں کی مانند چمک رہے تھے۔  دریائے فرات کا پانی اس  طرح چمک رہا تھا جیسے ستاروں کا جھرمٹ  پانی کی سطح پر اتر آیا ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ کربلا کا ہر درخت  طور پہاڑ پر  واقع  اُس بابرکت درخت کی مانند تھا ، جس کے نیچے حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے کلام کیا تھا۔   چھوٹے سے چھوٹے سے پودوں کے سایے بھی بابرکت اور پُر نور تھے۔
حسنِ بیان:   اس بند میں شاعر نےمیدانِ کربلا کی صبح کی انتہائی دلکش انداز میں  منظر کشی کی ہے۔

 نظم:  برسات کا تماشا
 (صنفِ نظم: مخمس)
شاعر: نظؔیر اکبر آبادی

شاعرنظیر اکبر آبادی   کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:
1: فطرت کی مصوری:  نظیر اکبر آبادی ایک نئے اور منفرد کلام کے موجد ہیں۔ ان کی شاعری گویا فطرت کی  مصوری ہے۔ انھوں نے ایسے موضوع پر طبع آزمائی کی ہے، جن کا خیال بھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا ۔ 
2: جذبات کی ترجمانی نظیر   جذبات کی  صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ تصنع / بناوٹ اور ریا کاری کا ان کی شاعری میں  کوئی سراغ نہیں ملتا۔
3:منظر نگاری :   منظر نگاری اور تصویر کشی میں انہیں کمال حاصل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے  وہ اپنے کلام میں ایسے الفاظ استعمال  کرتے جو مناظر کو اپنی خوبصورتی کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے ہیں۔
4: موسیقیت: ان کی شاعری میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ نظیر نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
نظم برسات کا تماشا کا مرکزی خیال: 
 سخت گرمی سے نڈھال مخلوقِ خدا کو جب موسمِ برسات میں ابرِ رحمت نصیب ہوتی ہے، تو سب خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ ہر طرف قدرت کا حُسن دکھائی دینے لگتا ہے۔ ہر طرف زمین سبزے سے ڈھک جاتی ہے۔ درخت اور پودے دھُل کر نکھر جاتے ہیں۔ حیوان اور چرند پرند بھی اس موسم سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور طرح طرح سے ناچ گا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ 
سوال: نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کیوں کہا جاتا ہے ، دو نکات تحریر کریں۔
جواب: 
 1:نظیر نےعوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ان کے روز مرہ مسائل  کی نشاندہی کی ہے۔  بے پردگی سے لے کر غربت تک  کو موضوع بنایا ہے۔
2:نظیر نے ایک نئے اور منفرد طرزِ کلام کے ذریعےاپنے ملک کے ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر آواز اٹھائی، جیسے آدمی نامہ۔



مشکل الفاظ کے معانی: 

الفاظ

معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

معانی

الفاظ

معانی

خورشید

سورج

کوہ

پہاڑ

کُوک

بلند آواز

چھاجوں برسنا

بہت زیادہ بارش ہونا

مول

قیمت

دشت

ویرانہ

رِم جھِم

بارش کی ہلکی آواز

وحش و  طیور

جنگلی جانور اور پرندے

زر

دولت

میگھ

بادل، بارش

جھڑی لگانا

لگاتار بارش ہونا

غوغا

 شور، غُل

نگر

بستی، علاقہ

گھٹا

کالے بادل

پھُہار

بوندیں

کوکِلا

کوئل

اساڑھ

ہندی کا چوتھا مہینہ

برسات کا پہلا مہینہ

رعد

بجلی کی کڑک

اَولتی

پرنالہ

چنگاریں

آوازیں لگائیں/ گیت گائیں


نظم برسات کا تماشا کی تشریح: 
بند نمبر :1
خورشید گرم ہو  کر نکلا ہے اپنے گھر سے  
        لیتا ہے مول بادل کر کر تلاش زر سے
آئی ہوا بھی لے کر بادل کو ہر نگر سے              
  آدھے اساڑھ تو اب دشمن کے گھر سے برسے
آ یار چل کے دیکھیں ،  برسات کا تماشا
حوالہ:    یہ بند  نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح:    اس بند میں شاعر  کہتا ہے کہ  موسم برسات شروع ہو گیا  ہے مگر ابھی تک بارش نہیں ہوئی  ہے۔  سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے ۔ لوگ گرمی سے بیحال ہیں اور بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔  اللہ کاشکر ہے  کہ اب ہوا چل پڑی ہے اور مختلف علاقوں سے بادلوں کو جمع کر کے لا رہی ہے۔ برسات کا آدھا مہینہ گزر  چکا ہے اور اب تک بارش پرائے دیس میں ہی ہوتی رہی ہے۔  لیکن  اب بارش  کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ آؤ دوست ہم مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان:   اس  بند میں  شاعر  نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔ 


بند نمبر :2
قاصدصبا کے دوڑے  ہر طرف منہ اٹھا کر      
    ہر کوہ و دشت کو بھی کہتے ہیں یوں سنا کر
ہاں سبز جوڑے   پہنو ہر دم       نہا نہا کر           
   کوئی دم کو میگھ راجا دیکھے گا سب کو آکر
آ یار چل کے دیکھیں ،  برسات کا تماشا
حوالہ:    یہ بند  نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح:    اس بند میں شاعر  کہتا ہے کہ  موسم برسات شروع ہو گیا  ہے۔ مون سون کی ہوائیں بارش کا پیغام لا رہی ہیں اور پہاڑوں اور جنگلوں کو یہ کہہ رہی ہیں کہ ابھی بادلوں کا بادشاہ آنے والا ہے یعنی بارش ہونے والی ہے۔ہر پیاسے کی پیاس بجھے گی اور خوب بارش ہوگی ۔ ہر طرف سبزہ و ہریالی ہوگی۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان:   اس  بند میں  شاعر  نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔ 


بند نمبر :3
ساون کے بادلوں سے  پھر آ گھٹا جو چھائی      
   بجلی نے اپنی صورت  پھر آن کر دکھائی
ہو مست رعد گرجا ، کوئل کی کُوک آئی      
   بدلی نے کیا مزے کی رم جھم   جھڑی لگائی
آ یار چل کے دیکھیں ،  برسات کا تماشا
حوالہ:    یہ بند  نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح:    اس بند میں شاعر  کہتا ہے کہ  برسات کے کالے بادل ہر طرف آسمان پر چھا گئے ہیں۔ بجلی بھی چمک رہی ہے اور بادل بھی خوب گرج رہے ہیں۔  گرمی کے ستائے سب لوگ خوش ہو گئے ہیں ۔ کوئل بھی بھی اپنی سریلی آواز میں گیت گانے لگی ہے۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی ہے۔آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان:   اس  بند میں  شاعر  نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔  



بند  نمبر :4
آکر کہیں مزے کی ننھی پُھہار برسے         
  چیزوں کا رنگ چھٹ کر حسن و نکھار  برسے
اک طرف اَولتی کی باہم قطار برسے      
  چھاجوں اُمڈ کے پانی  موسل کی دھار برسے
آ یار چل کے دیکھیں ،  برسات کا تماشا
حوالہ:    یہ بند  نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح:    اس بند میں شاعر  کہتا ہے کہ  بارش کے قطروں  نے ہر چیز پر پڑے غُبارکو دھو کر صاف شفاف کر دیا ہے، انکا اصل رنگ روپ نکل آیا ہے اور ان سب کی خوبصورتی نمایاں ہو گئی ہے۔ تیز بارش کے سبب چھتوں سے پانی پرنالوں سے گرنا شروع ہو گیا ہے۔یعنی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان:   اس  بند میں  شاعر  نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔   


بند  نمبر :5
ہر کوہ  کی     کمر تک       سبزہ ہے     لہلہاتا
                  برسے ہے  مینه جھڑا جھڑ، پانی بہا ہے جاتا 
وحس وطیور  ہر اک ، مل مل کے ہے نہاتا        
    غوغا کریں  ہیں مینڈک ، جھینگر ہے غُل مچاتا
آ یار چل کے دیکھیں ،  برسات کا تماشا
حوالہ:    یہ بند  نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح:    اس بند میں شاعر  کہتا ہے کہ  اللہ کی رحمت کی بارش  ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ و ہریالی دکھائی دے رہی ہے۔ لگاتار بارش برس رہی ہے، ہر طرف پانی بہتا جا رہا ہے۔ تمام جانور اور پرندے جو گرمی کے ستائے ہوئے تھے اس پانی میں خوب نہا رہے ہیں اور اپنے جسم کی  گرمی اور مَیل دور کر رہے ہیں۔ مینڈک بھی خوشی سے ٹرا رہے ہیں اور چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی  خوشی سے شور مچا رہے ہیں۔ آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان:   اس  بند میں  شاعر  نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔  


بند  نمبر :6
کالی گھٹا ہے ہر دم برسے ہیں مینھ  کی دھاریں    
     اور جس  میں اُڑ رہی ہیں بگلوں کی سو قطاریں
کوئل   پپیہے  کوکیں   اور کُوک کر پُکاریں           
    اور مور مست ہو کر جوں کُو کِلا    چنگاریں
آ یار چل کے دیکھیں ،  برسات کا تماشا
حوالہ:    یہ بند  نظیر ؔ اکبر آبادی کی نظم "برسات کا تماشا" سے لیا گیا ہے۔ اس میں شاعر برسات کے موسم کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
تشریح:    اس بند میں شاعر  کہتا ہے کہ   موسم برسات کی بارش شروع ہے۔ کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ خوب زوروں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس بارش میں خوشی سے بگلے قطاریں بنائے  اُڑ رہے ہیں۔ نہ صرف کوئل بلکہ پپیہے بھی خوشی سے گیت گا رہے ہیں۔ مور بھی خوشی میں مدہوش ہو کر کوئل کی طرح گانے لگےہیں۔   آؤ دوست ہم سب مل کر برسات میں ہونے والی اس رحمت کی بارش کا لطف اُٹھائیں۔
حسنِ بیان:   اس  بند میں  شاعر  نے خوبصور ت انداز میں برسات کی آمد کی منظر کشی کی ہے۔  

نظم      :    حضرت اُمِ عمارہ  رضی اللہ عنھا

موضوع  کے اعتبار سے  یہ نظم  " رزمیہ قصیدہ" ہے۔

ساخت /بناوٹ/ہئیت کے لحاظ سے نظم کی قسم  "مثنوی "ہے۔

سوال نمبر 1:شاعر حفیظ جالندھری  کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

جواب:

     ترنم اور موسیقیت:  حفیظ جالندھری کے کلام میں ترنم اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔   انکی اس خوبی  نے ان کے کلام کو تازگی، دلکشی اور دلآویزی عطا کی ہے۔

    سوزو گداز: انکی شاعری میں سوزو گداز  پایا جاتا ہے جو اشعار کو پر اثر بنا دیتا ہے۔اس لیے ان کا کلام دل سے نکلتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔

     قافیہ بندی اور تراکیب کا  خیال:  انھوں نے اپنے کلام میں  متوازن قافیہ بندی  اور فنکارانہ تراکیب کا خاص خیال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے انکی نظموں میں جدت اور تنوع   دکھائی دیتا ہے۔

سوال نمبر 2: نظم "حضرت اُمِ عمارہ  رضی اللہ عنھا" کا مرکزی خیال  اس طرح تحریر کریں کہ شاعر کا  حضرت اُمِ عمارہ کو موضوع بنانے کا مقصد واضح ہو جائے۔

جواب: اس نظم   میں شاعر حفیظ جالندھری نے تاریخِ اسلام کی بہادر خاتون  حضرت اُمِ عمارہ کے کارناموں  کو بیان کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ پیارے رسولﷺ سے سچا پیار اور عشق ہو تو عورتیں بھی جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر مردوں کے شانہ بشانہ جنگوں میں دشمن  کا مقابلہ کرتی ہیں اور بہادری کے جوہر دکھاتی ہیں۔ حضرت اُمِ عمارہ کی طرح اسلام کی راہ میں اپنے خاوندوں اور بیٹوں کو قربان کرنے کیلیے تیار رہتی ہیں۔ یہی  جرات و بہادری  اور قربانی کا جذبہ جب مسلمان مائیں اپنے بچوں کو وراثت میں دیتی ہیں تو وہ اسلام کے عظیم سپہ سالار بنتے ہیں۔ انھی بہادر عورتوں سے وہ نسل چلتی ہے جو غازی یا شہید کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کر کے احیائے اسلام کا موجب  بنتی ہے۔

تشریح نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ ۔۔۔

شعر نمبر 1:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب اُحد کے میدان میں جنگ کا پانسا پلٹ چُکا تھا  اور ایک غلطی سے فتح، شکست میں تبدیل ہوگئی تھی۔ شکستہ دل مسلمانوں میں انتشار اور بدنظمی پھیلی ہوئی تھی۔ زخموں سے چُور قریش سے تعلق رکھنے والے دو صحابہ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، نبی کریمﷺ کو اپنے حصار میں لیے شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کررہے تھے۔ان میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی خدمات سب سے نمایاں تھی۔ آپ نے اس غزوہ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر آنحضورﷺ کی حفاظت کی تھی۔

شعر نمبر 2:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں  شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت اُمِّ عُمارہؓ رضی اللہ تعالی عنہا کی بہادری کو سلام پیش کر رہا ہے۔  غزوہ اُحد میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کی نمایاں  خدمات کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے  کہ اسلام کی خاطر یہ بہادر خاتون اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شامل تھیں اور آنحضورﷺ کی اجازت سے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور پانی پلانے کا کام انجام دے رہی تھیں۔

: شعر نمبر 3:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب آنحضورﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور آپ پر دین کے دشمن پے در پے وار کرنے لگے تو اس صورتحال میں  حضرت اُمِّ عُمارہؓ اور دیگر چند صحابہ ڈھال بن کر آپ کی حفاظت کرنے لگے۔

 شعر نمبر 4:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ غزوہ احد میں جب آنحضورﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے پانی پلانے کا کام چھوڑا، پانی سے بھری مشک رکھ دی اور براہ راست دشمن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ دشمن کا بہادری سے مقابلہ کیا اور آپﷺ کی جان کی حفاظت کرنے لگیں۔ حضورﷺ کے چاروں جانب آگے بڑھ بڑھ کر کفّار پر وار کرکے اُنہیں حضورﷺ کے قریب آنے سے روکتی رہیں۔

شعر نمبر 5:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس  شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ، غزوہ احد میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ نہ صرف خود اس جنگ میں شامل تھیں بلکہ ان کا شوہر اور ان کے بیٹے بھی اللہ کی راہ میں میں لڑ رہے تھے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار تھے۔  آنحضرتﷺ کی جان کی حفاظت اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر اللہ کے یہ بہادر سپاہی دشمن سے بر سرِ پیکار تھیں۔

 شعر نمبر 6:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں ایک وقت ایسا آیا جب مسلمان پسپا ہوگئے تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ  نہایت بہادری کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں شامل ہوگئیں۔ وہ آنحضورﷺ کے دائیں بائیں آگے پیچھے رہتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرنے لگیں اور آپ کی ڈھال بن کر آپ  کی جان کی حفاظت کی۔

 شعر نمبر 7:

نظم اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں جب حضرت محمدﷺ پر دشمن پے درپے وار کرنے لگا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے ہر ممکن طریقے سے آپ کی حفاظت کی۔ کوئی حملہ یا دشمن کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے دیتی تھیں۔ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے تمام زخم اپنے جسم پر سہہ لیتی تھیں لیکن آنحضورﷺ تک اس حملے یا وار کو نہ جانے دیتی تھیں۔

 شعر نمبر 8:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں لڑائی کے دوران جب کفار کو یہ محسوس ہوا کہ آنحضورﷺ اکیلے رہ گئے ہیں اور آپ کی حفاظت کے لیے صرف ایک نہتی خاتون رہ  گئی ہے تو اچانک ایک کافر عبداللہ بن قمیہ نے آپﷺ پر وار کردیا۔ حضرت اُمِّ عُمارہؓ  نے لپک کر پیچھے سے اُس پر وار کیا، تو وہ واپس پلٹا اور ا ن پر حملہ کردیا، جس سے اُن کی گردن پر گہرا زخم ہو گیا۔ مگر اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر  اس  دلیر خاتون  نے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے پیغمبر آنحضورﷺ کو بچانے کے لیے آگے بڑھ کر اس کے حملے کو روکا۔

 شعر نمبر 9:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد کے دوران جب آنحضورﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور دشمن آپ پر حملہ کرنے لگا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ اگرچہ اس وقت ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا خالی ہاتھ تھیں۔ لیکن انھوں نے ایک دشمن کے بازو کو مروڑ کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور اسی سے اس کا مقابلہ کرنے لگیں۔

 شعر نمبر 10:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں  شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت عمارہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں جب  ایک دشمن سپاہی آنحضورﷺ  پر حملہ کر نے لگا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے آگے بڑھ کر اس دشمن سے تلوارچھین لی اور اسی تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔آپ کی اس جرات و بہادری کو دیکھ کر دشمنوں کی صفوں میں خوف کی وجہ سے سناٹا چھا گیا۔

 شعر نمبر 11:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کے شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ احد کے میدان میں جب اللہ کے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور آنحضورﷺ جس طرف بڑھتے آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے رہتے ہوئے حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر آپ کی حفاظت کرنے کی کوشش کی۔

 شعر نمبر 12:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں انھوں نے بہادری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ لڑائی کے دوران ان کے جسم پر تیرہ کے قریب زخم آئے  لیکن وہ بے حوصلہ نہیں ہوئیں۔ نہ ہی ان کے قدم ڈگمگائے آئے بلکہ اسی جوش و جذبے کے ساتھ اللہ کی رضا کی خاطر میدان جنگ میں موجود رہیں۔

 شعر نمبر 13:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی غزوہ احد میں خدمات کو سراہتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ بہادر خاتون نماز فجر کے وقت بیدار ہوئی تھیں۔  اس وقت سے لیکر دن ڈھلنے تک میدان جنگ میں موجود رہیں۔ نماز ظہر کا وقت ہونے کو آیا تھا مگر یہ تلوار ہاتھ میں تھامے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اسلام کی راہ میں دشمن سے برسرِ پیکار تھیں۔ ان کے چہرے پر نہ کوئی تھکن کے آثار تھے نہ ہی ان کا حوصلہ پست ہوا تھا۔

 شعر نمبر 14:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی غزوہ احد میں خدمات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتا ہےکہ میدان جنگ میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کے اعلیٰ نمونے دیکھ کر کر آسمان پر فرشتے بھی حیران ہو رہے تھے۔ کیوں کہ جس جرات و بہادری کے ساتھ یہ خاتون اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دشمن سے صف آرا  تھیں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ نہ صرف یہ خود لڑائی میں شامل تھیں بلکہ ان کا شوہر  اور ان کے بیٹے بھی اپنی جان، مال اور عزت اسلام کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔

 شعر نمبر 15:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر  میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حضرت اُمِّ عُمارہؓ جیسی مائیں ہیں جن کی اعلی تربیت اور بہادری کے عملی نمونے کی وجہ سے ایسی اولاد پرورش پاتی ہے جو اسلام کی سربلندی اور فروغ کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دیتے ہیں۔ یہی  جرات و بہادری  اور قربانی کا جذبہ جب مسلمان مائیں اپنے بچوں کو وراثت میں دیتی ہیں تو وہ اسلام کے عظیم سپہ سالار بنتے ہیں۔ انھی بہادر عورتوں سے وہ نسل چلتی ہے جو غازی یا شہید کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔ اسلامی تاریخ ایسے کئی بہادر سپہ سالاروں اور جرنیلوں سے بھری پڑی ہے جن کے والدین کے اعلیٰ عملی نمونوں نے انھیں یہ مقام دلایا اور وہ احیائے اسلام کا موجب بنے۔


نظم "دنیائے اسلام"        شاعر علامہ اقبالؔ

سوال: نظم "دنیائے اسلام" کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

جواب:

نظم "دنیائے اسلام" میں شاعر علامہ اقباؔل  مسلمانوں کے زوال  پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے  امتِ مسلمہ کو اتحاد کا درس دینا چاہتا ہے ۔ شاعر کے مطابق مغرب کی اندھی تقلید کرکے ہم نے مسلمان قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ہر طرف مغربی طاغوتی قوتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں۔ ہم فرقہ بندی کا شکار ہیں اور اسلامی تعلیمات کو بھول چکے ہیں۔ اگر تمام مسلمان قرآن و حدیث پرعمل کرنا شروع کر دیں اور نظم و ضبط کو قائم کرتے ہوئے متحد ہوجائیں تو وہ جلد ہی ہیں اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اقبال کے مطابق اس کا واحد حل نظام خلافت کا قیام ہے۔

 

سوال نمبر 2: اقبال ؔ کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات تحریر کریں۔

جواب:

قومی شاعری: اقبال ایک قومی شاعر ہیں ۔انہوں نے ہمیشہ  مسلمان قوم کے بارے میں اپنا قلم اٹھایا ہے۔  ان کے کلام کا بیشتر حصہ اُمت مسلمہ کے عروج و زوال کو بیان کرتا ہے۔

مقصدیت اور اصلاحی انداز: اقبالؔ کی شاعری میں مقصدیت پائی جاتی ہے ۔ان کا اولین مقصد مسلمان قوم  کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہے۔ ان کی شاعری کا اولین مقصدمسلمانوں کی اصلاح اور انھیں راہ راست پر لانا ہے۔

 فلسفیانہ اور صوفیانہ رنگ: اقبال نہ صرف شاعر تھے بلکہ فلاسفر بھی تھے۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ اور صوفیانہ رنگ پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں "خُودی" کے جذبے کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

سوال نمبر 3: نظم "دنیائے اسلام" کی تشریح تحریر کریں۔

جواب: تشریح نظم:

شعر نمبر 1:نظم دنیائے اسلام کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبال مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو! مجھے  ترک اور عرب قوم کی بہادری اور شان و شوکت کے قصے مت سناؤ۔ میں ان کی تاریخ سے بخوبی واقف ہوں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان قومیں دنیا میں قابل عزت تصور کی جاتی تھیں۔ لیکن اب یہ کمزور ہو چکی ہیں۔ اے مسلمانو! اپنے شاندار ماضی کی یادوں میں نہ کھوئے رہو بلکہ اپنے حال اور مستقبل کی پروا کرو۔

 

شعر نمبر 2: نظم دنیائے اسلام  کے اس شعر  میں شاعر  علامہ اقباؔل نے مسلمانوں کے زوال کی حالت کو بیان کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا دنیا کے ایک وسیع خطے پر اسلام کا پرچم لہراتا تھا۔  ہر جگہ توحید کا بول بالا تھا۔ لیکن افسوس کہ ملتِ اسلامی کی بنیادیں کمزور پڑ چکی ہیں۔ اور عیسائیت کی مشرکانہ تعلیم عام ہو رہی ہے۔ وہ سرزمین جہاں سے کلمہ حق بلند ہوا تھا اور وہاں پر اب عیسائیت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں اور لوگ اسلام کی بجائے عیسائیت کو اپنا رہے ہیں۔

 

شعر نمبر 3: نظم دنیائے اسلام کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمان قوم کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا میں ترک قوم کی عزت تھی۔ ہر جگہ اس کی  بات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اس کے آگے دنیا سر جھکاتی تھی لیکن افسوس کہ یہ سب عزت جاتی رہی ہے۔ یہ قوم اب اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے دنیا میں ذلیل اور رسوا ہو کر اب مغربی اقوام کی محتاج بن کر رہ گئی ہے۔

 

شعر نمبر 4: نظم دنیائے اسلام کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبال مسلمان قوم کے زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا زمانہ تھا جب مسلمان سلطنت کے دنیا  بھرمیں چرچے تھے۔ اس کا رعب و دبدبہ تھا۔ انگریزوں  نے اس قوم کو شراب کے نشے کا عادی بنا دیا۔ یہ وہی شراب ہے جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کا انسان کے دل و دماغ  پر منفی اثر پڑتا ہے۔ شراب کے نشے میں مسلمان اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔ ان کے دلوں میں پایا جانے والا جوش ایمانی بھی ماند پڑ گیا ہے۔ اس طرح یہ قوم زوال پذیر ہو گئی ہے۔

 

شعر نمبر 5: نظم"دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کی تفرقہ بازی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور آپس میں اختلافات کی وجہ سے مسلمان گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ یہی مغرب کی چال تھی جس سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی گئی ۔ اب پوری اُمت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ۔جس طرح سنار کی قینچی سونے کو کاٹ دیتی ہے اسی طرح مسلمان بھی  اب ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس کے اختلافات کو مٹا کر متحد ہو جائیں تا کہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکیں۔

 

شعر نمبر 6: نظم "دنیائے اسلام" کے اس  شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آج کل مسلمان کسمپرسی اور گھبراہٹ  کا شکار ہیں۔ ہر طرف مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ قتل و غارت گری جاری ہے۔ مسلمانوں کے خون کی اہمیت ایسے ہے جیسے پانی ہو۔ کہیں مسلمان آپس میں لڑ لڑ کر مر رہے ہیں اور کہیں مغربی اقوام کے زیر ستم ہیں۔ مسلمانوں میں بڑھتی بے چینی اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں حقیقت کی سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے ان مسائل سے نمٹا جائے۔

 

شعر نمبر 7: نظم "دنیائے اسلام"  کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مغربی اقوام کے چنگل سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ مسلمانوں آپس میں متحد ہو جائیں اور باہمی اختلافات کو بھلا دیں۔ تا کہ مغربی طاغوتی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ شاعر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ابھی بھی مسلمان خوابِ غفلت میں سوئے ہیں۔ مشرق میں بسنے والے مسلمان  خاص طور پر ایشیا والوں کو  اس  نکتے کی سمجھ نہیں آرہی کہ فرقہ واریت کا خاتمہ ہی ان کی کامیابی کی اصل کنجی  ہے۔

 

شعر نمبر 8: نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی تعلیمات پر صحیح رنگ میں عمل پیرا ہو جائیں۔ مغربی اقوام کی سیاست سے بچ جائیں۔ اقبؔال کہتا ہے کہ بعض مسلمان ابھی خوش ہیں کہ ان کی ریاست قائم ہے تو اس کی وجہ خانہ کعبہ کی برکت ہے۔ اس کعبہ کی حفاظت کے انعام کے طور پر اللہ نے انھیں کچھ عزت دے رکھی ہے۔ ورنہ ان کی حالت اس سے بھی ابتر ہو چکی ہے۔ پس انہیں چاہیے کہ دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں تا خدا کی رحمت کا نزول ان پر ہو سکے۔

 

شعر نمبر 9: نظم "دنیائے اسلام "کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کے زوال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور انھیں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ پانے کے لئے مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام  مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں۔ افریقہ سے لے کر چین تک یعنی دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے تمام مسلمان تفرقہ بازی اور باہمی اختلافات  کو چھوڑ کر ایک امت بن جائیں۔ دین اسلام کی مضبوطی اور کعبہ کی حرمت کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ یعنی کلمہ حق کے لیے آواز بلند کریں ۔ اس کے لیے  پہلے لازمی ہے کہ تمام مسلمان  دین اسلام کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو جائیں۔

 

شعر نمبر 10: نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام مسلمان رنگ و نسل کا فرق مٹا کر آپس میں متحد ہو جائیں۔نسلی  امتیاز  کرنے کی  اسلام میں سختی سے نفی کی گئی ہے۔افسوس کہ  اس بیماری کی وجہ سے مسلمان کی یہ حالت ہوئی ہے۔ اگر اب بھی مسلمان رنگ و نسل  کا خیال رکھیں گے تو صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔چاہے مضبوط ترکی سلطنت ہو یا عرب بادشاہت سب صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔

 

شعر نمبر 11: نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نسلی  اور لسانی امتیاز کو ترک دیں اور متحد ہو جائیں۔۔  اگر نسل پرستی کا خیال رکھا گیا اور  مذہب پر رنگ و نسل کو فوقیت دی گئی  جس کی اسلام میں ممانعت ہے تومسلمان قوم کا نام اس طرح مٹ جائے گا جس طرح راستے کی دھول مٹی قافلے کے گزرنے پر اڑ جاتی ہے۔

 

شعر نمبر 12:نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو اگر تم نے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا ہے تو باہمی اختلافات کو بھلانا ہوگا۔ تفرقہ بازی کو چھوڑ کر نظامِ خلافت کو  جاری کرنا ہوگا۔ اس کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اپنے شاندار ماضی  سے سبق حاصل کرو تاکہ ایک مرتبہ پھر دنیا میں اُمتِ مسلمہ کا بول بالا ہو سکے۔


 نظم :  کسان
 شاعر: جوشؔ ملیح آبادی
شاعرجوشؔ ملیح آبادی   کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:

1: نغمگیت اور موسیقیت:  جوشؔ ایک نئے اور منفرد کلام کے موجد ہیں۔ ان کی نظموں میں نغمگیت اور موسیقیت پائی جاتی ہے ۔جوش نےمٹھاس اور روانی کے حامل الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
2:عظمتِ انسانی:   جوشؔ  کا کلام  عظمتِ انسانی کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے اپنی نظم کسان میں کسان کے اوصاف بیان  کر کے  معاشرے میں  اُسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔
3:کردار نگاری :   کردار نگاری اور تصویر کشی میں انہیں کمال حاصل ہے۔ موضوع کی مناسبت سے  وہ اپنے کلام میں ایسے الفاظ استعمال  کرتے جو کردار کی صورت کے ساتھ ساتھ سیرت کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
4:تشبیہات و استعارات کا استعمال :  جوشؔ کو تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں کمال حاصل تھا۔ انکی اس خوبی نے ان کے کلام کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
نظم کسان کا مرکزی خیال: 
نظم کسان  میں جوشؔ ملیح آبادی نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ کسان ملکی معیشت  میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔  وہ محنت و مشقت اور لگن کے ساتھ فصلوں کی نگہداشت کرتا ہے۔ وہ ہر موسم کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے بہترین   فصلیں اگاتا ہے جن پر سارا جہان پلتا ہے۔  کسان کی محنت عوام کی خوشحالی اور صحت کی ضمانت ہے۔ کسان ہی کی بدولت تہذیب و تمدن کا ارتقا ہوا  ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کی محنت پر حکمران عیش کرتے ہیں اور  یہ بیچارہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے صحت اور تعلیم سے محروم  رہتا ہے  اورکبھی  اپنی زبان پر حرفِ شکایت بھی نہیں لاتا۔

تشریح شعر نمبر 1:  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔  شاعر کہتا ہے کہ صبح سے شام تک  ہر وقت کھیتوں میں ایک مضبوط  اور محنتی انسان  کھیتی باڑی کیلیے تیار کھڑا نظر آتا ہے۔  انسانوں  اور چرند پرند کے ارتقا میں اس کا بنیادی کردار ہے۔ کسان کی محنت سے فصلیں اور اناج اگتا ہے جس پر سارا جہان پلتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اب تک کسان کی محنت اور فصلوں کی رکھوالی وہ مشکل کام ہے جس  پر تہذیبوں نے پرورش پائی ہے اور زندگی کا ارتقا ہوا ہے۔

تشریح شعر نمبر2 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ  کسان  بارش سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ اس مٹی  کی تمام اقسام سے واقف ہے، گویا وہ اس دھرتی کا بادشاہ ہے۔ وہ قدرت کے  قوانین سے بخوبی آگاہ  ہے۔ اس دنیا کی  رونق اور زندگی اسی کسان کی بدولت ہے کیونکہ وہ محنت کرتا ہے اور اس کے اگائے اناج، سبزیاں اور پھل تمام دنیا والے کھاتے ہیں۔

تشریح شعر نمبر3 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان ہمیشہ پھولوں ،پھلوں اور باغوں کی حفاظت کرتا  ہے۔ ہر طرف لہراتا سبزہ، پھولوں  کی مہک اور رنگینی کسان کی بدولت ممکن ہے۔وہ تمام  فصلیں  اور اناج جن کی پیداوار پر پوری قوم فخر کرتی ہے کسان ہی ان سب کا  بادشاہ ہے۔

تشریح شعر نمبر4 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام قدرت کے رازوں سے آگاہی دے رکھی ہے۔ امید اور خوف کے عالم میں بھی وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ کسان پہلے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ کب بارش ہوگی۔ وہ ہر قسم کی ہواؤں کے نظاموں سے واقفیت رکھتا ہے۔ اس لیے وہ موسم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فصلیں اُگاتا ہے۔

تشریح شعر نمبر5 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ صبح سویرے سورج طلوع ہوتے ہی یہ کھیتوں میں کام کرنے چلا جاتا ہے اور دوپہر تک وہیں کام کرتا رہتا ہے۔ سورج کی تپش اور گرمی بھی اسے ذرا برابر پریشان نہیں کرتی اور نہ ہی تھکاتی ہے۔ اسکی  مسلسل کوشش اور محنت کے جذبے  کو دیکھ کر یہ  لگتا ہے کہ  اِس نے مسلسل محنت کرنے کی قسم کھا رکھی  ہے اور عہد باندھ رکھا ہے کہ وہ ہر وقت کام ہی کرتا رہے گا اور مختلف اقسام کی فصلیں اور اناج اُگاتا رہے گا۔

تشریح شعر نمبر6 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے کسان کی محنت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسے خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہی کسان ہے جس نے  قدرت کے جلوے دیکھے ہیں کہ کس طرح اللہ بے جان بیجوں  اور بے ذائقہ پانی و مٹی سے لہلہاتی فصلیں اور پھلدار تناور  درخت  اُگاتا ہے۔  اللہ ہی ہواؤں کے رخ بدل کر موسم تبدیل کرتا ہے اور بارشیں برساتا ہے۔   کسان کا دل چاند کی طرح خوبصورت ہے    اور اس کا چہرہ سورج کی طرح چمکدار ہے۔ سورج کی روشنی دراصل کسان کو ہی زیادہ  فائدہ   پہنچاتی ہے  اس لیے سورج کو بھی کسان ہی سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔
تشریح شعر نمبر7 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کے مطابق کسان کے دل میں دن رات کھیتی  باڑی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتا رہتا ہے۔ ہر وقت اس کے دماغ میں منصوبہ بندی رہتی ہے کہ کب کونسی فصلیں اگانی ہیں   نیز زرعی پیداوار کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کی اُگائی فصلیں ، سبزیاں اور پھل اُسکی دانائی اور عقل مندی کو ظاہر کرتے ہیں جسکا  نظارہ ہم صبح  وشام  کرتے رہتے ہیں۔

تشریح شعر نمبر8 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔  کسان کی پیداوار نہ صرف  عوام کو خوراک  فراہم کرتی ہے بلکہ  یہ روزگار کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ زرعی پیداوار سے ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور ملکی ترقی کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے۔شاعر کے مطابق کسان خود مشکلات اور مصائب کا سامنا کر کے دوسروں کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹیں لاتا ہے۔ کیونکہ کسان کی محنت اور مشقت سے فصلیں اور اناج اُگتا ہے جس پر سارا جہان پلتا ہے۔

تشریح شعر نمبر9 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان بہت محنتی ہے اور اسکی محنت کا پھل سارا جہان کھاتا  ہے۔ اس کی اُگائی فصلیں اور  اناج لوگوں کو خوراک فراہم  کرتے ہیں۔کسان کی محنت کا رنگ ہمیں لہلہاتے کھیتوں ، پھلدار درختوں، رنگ برنگے پھولوں اور مہکتی خوشبوؤں میں دکھائی دیتا ہے۔

تشریح شعر نمبر10 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان   دن رات بہت محنت کرتا ہے۔ اسکی کوششوں سے سخت سے سخت  زمین نرم ہو کر اپنا سینہ کھولتی ہے اور نت نئی فصلیں پیدا کرتی  ہے۔ کسان بہت جوش اور جذبے والا انسان ہے۔ وہ محنت  و مشقت سے کبھی نہیں گھبراتا۔ اسکے محنت و مشقت کے جذبے کو  دیکھ کر لگتا ہے کہ  اس  میں آگ کے تیز شعلوں جیسی  گرمی  اور سورج کی  تیز کرنوں جیسی  تمازت پائی جاتی ہے۔

تشریح شعر نمبر11 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان کی رگوں میں بجلی کی سی تیزی پائی جاتی  ہے۔  یہ طلوع صبح سے شام تک اندھیرا پھیلنے تک کھیتوں  میں مصروف کار رہتا ہے۔ ہل چلاتا ہے، بیجائی کرتا ہے اور سینچائی کرتا ہے اور زمین سے سونے جیسی قیمتی فصلیں اُگاتا ہے۔ وہ کڑی دھوپ  کا بھی مقابلہ کر کے اناج پیدا کرتا ہے جس پر سارا جہاں پلتا ہے۔

تشریح شعر نمبر12 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ  کسان ہل چلا کر بیجائی سینچائی کر کے ایک ہی زمین سے مختلف ذائقوں  اور تاثیر کے پھل اور سبزیاں اگاتا ہے۔ ہر طرف ہمیں سبزہ  و ہریالی ،  خوشبو  اور پھولوں کی رنگینی دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم  پودوں ، اناج کی بالیوں اور گھاس کی حقیقت پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی رگوں میں کسان کا خون دوڑ رہا ہو۔کسان کے جوش و جذبے اور خون کی گرمی کی بدولت اس زمین سے  کئی قسم کی فصلیں اُگتی ہیں اور رنگ و بُو کا سلسلہ جاری ہے۔

تشریح شعر نمبر13 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کسان صبح شام سخت محنت کرتا ہے ۔  نیند  بھی اس کے ارادوں کو کمزور نہیں کر سکتی۔ اکثر وہ راتوں کو جاگ جاگ کر  کاشتکاری کے نئے آسمانوں پر نگاہ رکھتا ہے اور منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ دن کو وہ کھیتوں کا جائزہ لیتا رہتا ہے کہ زمین ہل چلانے  یا بیجائی کے قابل کب ہوگی۔ وہ زمین میں مناسب نمی دیکھ کر ہل چلاتا ہے اور مٹی کی نبض دیکھ کر یعنی اسکی جانچ پڑتال کے بعد  اس میں موسم کے مطابق فصلیں بوتا ہے۔

تشریح شعر نمبر14 :  نظم کسان کے اس شعر میں جوش ؔ نے ہمارے معاشرے کے ایک کم اہم سمجھے جانے والے اور گمنام کردار کسان کو خراجِ تحسین پیش کرکے اسے وہ مقام دلانا چاہا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ شاعر کسان کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کسان بہت بہادر ہے اور مضبوط جسم کا مالک ہے۔  اسکے بازو ہل چلا کر زمین کو نرم کرتے ہیں تاکہ زمین بیجائی کے قابل ہو  اور مٹی نرم ہو گی  تو نازک کونپلیں بآسانی اُگتی ہیں۔ گویا نرم و نازک پودے ، ملائم پتے اور پھول کسان کے بازو کی قوت سے  جنم لیتے ہیں۔ ملک کی خوراک اور زرعی پیداوار کا دارومدار کسان کی محنت پر ہوتا ہے۔ یہی کسان محنت کرتا ہے اور اس کی محنت کے پھل پر ملک ترقی کرتا ہے  اور بادشاہ کا اعتماد فخر میں بدل جاتا ہے ۔


نظم    :   قومی نغمہ

(صنفِ نظم:  قصیدہ ،  (پاک فوج کے بہادر سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے  لیے ملی ترانہ ہے۔)
شاعر: جمیل الدین عالیؔ

شاعر جمیل الدین عالؔی کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات:

  حُب الوطنی کے  جذبات:   جمیل الدین عالیؔ نے بے شمار ملی ترانے اور قومی نغمے لکھے ہیں ۔ وہ اپنی نسل کے ان آخری لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے قیامِ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد دیکھی، مسلم لیگ کا زمانہ دیکھا، پاکستان بن جانے کے بعد سے لے کر رواں دہائی تک سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے، آمریت اور جمہوریت کے ادوار کو پرکھا، پاکستان کو درپیش جنگوں کا درد محسوس کرکے ملی نغمے لکھے۔۔ ان کا کلام نہ صرف حُب الوطنی کے جذبات سے پُر ہے بلکہ ہمارے دلوں میں وطن سے محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

 نغمگیت اور موسیقیت:  عالیؔ کی شاعری میں نغمگیت اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے گیتوں کی زبان سادہ اور مترنم رکھی۔ ان کی لفظی جادو گری نے ان  کی معنویت کو مزید گہرائی دی کیونکہ وہ حرف کے برتاؤ سے معنی نکالنا جانتے تھے۔ ان کے ہاں گیت صرف داخلی اظہار کی علامت نہیں تھا بلکہ وہ ایسے موضوع اور احساس کو بھی شامل کر لیتے، جن سے ان کی ذات ہی نہ معاشرہ بھی شاملِ گفتگو ہوتا۔ وہ ہر طرح کے احساس کو بیان کرنے میں ملکہ رکھتے تھے۔

  دوہا نگاری:   عا لیؔ  ایک مشہور دوہا نگار تھے۔ جب انھوں نے معدوم ہوتی صنف سخن ”دوہے“ کو توجہ دی، تو گویا اس کی قسمت پھر سے جاگ اٹھی۔ انہوں نے اس کی صنف سخن پر خوب جی لگا کر کام کیا اور اس کی وجہ سے بھی ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ انھوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑا  اور اردو سائکی کے کسی ایسے تار کو چھوا کہ دوہا ان سے اور وہ دوہے سے منسوب ہو گئے ۔

سوال: نظم قومی نغمہ موضوع اور ساخت کے لحاظ سے کون سی نظم کہلاتی ہے؟

جواب: موضوع کے اعتبار سے نظم "قومی نغمہ" قصیدہ (کیوں کہ اس میں پاک فوج کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔)، ملی نغمہ یا ملی ترانہ ہے۔ جبکہ بناوٹ/ساخت/ہیئت کے لحاظ سے یہ نظم مسدس بند طرزپر لکھی گئی  ہے۔

سوال: نظم قومی نغمہ کا مرکزی خیال تحریر کیجئے۔

جواب: نظم قومی نغمہ میں شاعر جمیل الدین عالیؔ پاک فوج کے بہادر سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا لہو گرماناچاہتا ہے۔ ارض پاک کے یہ دلیر سپاہی وطن کی سرحدوں پر سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں اور پورا وطن سکون کی نیند سوتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر یہ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ ان کی شہادت پر ان کے اہلِ خانہ اور پوری قوم ان پر فخر کرتی ہے ان کو دعائیں دیتی ہے۔نیز پاک فوج کی ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری  کی پوری دنیا تعریف کرتی ہے۔

نظم  "قومی نغمہ "کی تشریح: 

شعر نمبر :١

اے وطن کے سجیلے جوانو                

                       میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

حوالہ:  یہ شعر جمیل الدین عالیؔ کی نظم قومی نغمہ سے لیا گیا ہے۔

تشریح: اس شعر میں شاعر پاک فوج کے بہادر سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہےکہ اےمیرے وطن کے خوبصورت بہادر  جوانو! یہ میری شاعری میرے گیت تمہاری شان میں لکھی گئے ہیں۔ تُم اس دھرتی کے بیٹے ہو اس کی حفاظت کی ذمہ داری تم نے اُٹھا رکھی ہے۔ پوری قوم کو تم پر فخر ہے اور سب تمہارے  لیے دعا گو ہیں اور قصیدے گاتے ہیں۔

 بند نمبر1:

سر فروشی  ہے  ایماں تمہارا 

      جراتوں کے پرستار  ہو تم

جو حفاظت کرے سرحدوں کی

وہ فلک بوس دیوار ہو تم

اے شجاعت کے زندہ نشانو

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

حوالہ:  یہ بند جمیل الدین عالیؔ کی نظم قومی نغمہ سے لیا گیا ہے۔

تشریح:  اس بند میں شاعر وطنِ عزیز کی  بہادر  فوج  کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ   اے پاک فوج کے بہادر جوانو! تم نےخاکی وردی پہن کر  عہد کیا ہے کہ ملک کی خاطر جان نچھاور کر نے کے لیے ہر دم تیار رہو گے۔ تم بہت دلیر ہو اور  وطن کی سرحدوں پر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہو۔ تمہاری اِسی جرات و بہادری کے سہارے پورا ملک رات کو سکون کی نیند سوتا ہے۔ تمہاری  خوبیوں اور  ماہرانہ صلاحیتوں کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے۔شاعر کہتا ہے کہ   اس کا  یہ نغمہ بھی  ان بہادر سپاہیوں کی شان میں لکھا گیا ہے۔

 

بند نمبر2:

بیویوں، ماؤں، بہنوں کی نظریں   

تم کو دیکھیں تو یوں جگمگائیں

جیسے  خاموشیوں کی زبان  سے

    دے رہی ہوں تم کو دعائیں

قوم کے  اے  جری  پاسبانو

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

حوالہ:  یہ بند جمیل الدین عالیؔ کی نظم قومی نغمہ سے لیا گیا ہے۔

تشریح:  اس بند میں شاعر وطنِ عزیز کی  بہادر  فوج  کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ   اے پاک فوج کے بہادر سپاہیو! جب تم  وطن کی حفا ظت کے لیے گھر سے نکلتے ہو تو تمہاری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور تمہارے والدین تم پر فخر کرتے ہیں۔ ہر لمحہ سب  تمہاری سلامتی کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ اگر کبھی وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے تم شہید ہو جاتے ہو تو تمہارے اہلِ خانہ کے چہروں پر ملال کی بجائے خوشی  کے آثار دکھائی دیتے ہیں کہ تم نے اپنے وطن کی خاطر جان قربان کی ہے۔ شاعر بھی  اپنی شاعری اور نغمات پاک فوج کے ان بہادر سپاہیوں اور وطن کے محافظوں کے نام کرتا ہے۔

 بند نمبر3:

تم پہ جو کچھ لکھا ہے شاعروں نے

    اس میں شامل ہے آواز میری

اُڑ کے پہنچو گے  تُم جس اُفق پر

 ساتھ جائے گی پرواز میری

چاند تاروں کے  اے  پاسبانو

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

حوالہ:  یہ بند جمیل الدین عالیؔ کی نظم قومی نغمہ سے لیا گیا ہے۔

تشریح:   اس بند میں شاعر وطنِ عزیز کی  بہادر  فوج  کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ   اے پاک فوج کے بہادر سپاہیو! تمہاری ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری کے دنیا بھر میں چرچے ہیں۔ تمہاری شان میں کئی شعراءنے نغمے ، ترانے، قصیدے اور  گیت لکھے ہیں۔ شاعر کہتا  ہے کہ اسے  اس بات کا فخر ہے کہ   انھی میں اُس  کا قومی نغمہ بھی شامل ہے۔ پاک فوج جس قدر ترقی کی منازل طے کرے گی اور جتنے بھی اعزازات اور میڈلز حاصل کرے گی، شاعر کہتا ہے کہ وہ بھی اسی قدر شہرت کی بلندیوں کو چھوئے گا۔ کیونکہ اس کا کلام  ایسی ہی بہادرفوج کی شان میں لکھا گیا ہے۔ شاعر بھی  اپنی شاعری اور نغمات پاک فوج کے ان بہادر سپاہیوں اور قوم کے محافظوں کے نام کرتا ہے۔


نظم آزادی شاعر: احسان دانش

نظم آزادی                 شاعر: احسان دانش

صنفِ نظم بلحاظ موضوع:    آزادی کی اہمیت  / آزدی کے حصول کی جِدو جُہد

صنفِ نظم بلحاظ ساخت /بناوٹ/ ہئیت:    پابند نظم

نظم آزادی کا مرکزی خیال:

نظم  آزادی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر احسان دانش  اس نظم میں ہمیں آزادی کی اہمیت اور ضرورت سمجھانا چاہتا ہے۔    اللہ نے انسان کے  کچھ بنیادی حقوق مقرر کر رکھے ہیں۔ ملک کے ہر شہری کو   اپنے حقوق کے لیے  کوشش کرنے اور آواز بلند کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ شاعر نے اس نظم کے ذریعے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آوازِحق بلند کیا ہے اور دیگر دانشوروں کو  حقیقی آزادی کے لیے بولنے اور لکھنے کی دعوت دی ہے۔

 

شاعر احسان دانش کے انداز ِ کلام کی چند خصوصیات:

(احسان دانش (1914 کاندھلہ -22 مارچ 1982   لاہور)، پیدائشی نام احسان الحق، اردو کے مقبول شاعر تھے۔ انھوں نے صرف پانچویں حماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ مزدوری کر کے اپنا گذر بسر کیا کرتے تھے۔ احسان دانش نے لاہور آکر شاعری کا آغاز کیا۔)

سوز و گداز اور درد کا عکاس:

 احسان دانش کے کلام میں سوزو گداز پایا ہے۔ انھوں  نے اپنے کلام میں زیادہ تر  معاشرے  کے غریب اور مزدور طبقے کے رنج و الم کو بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں انھوں نے مزدوری کی۔ چونکہ وہ خو د مزدور تھے اس وجہ سے مزدور اورکمزور طبقہ کے لوگوں کے درد کو محسوس کرتے تھے۔

طنز  و تنقید:

احسان دانش اپنے دور کے بہترین تنقید نگار تھے۔  انھوں نے اپنے معاشرے کے کمزور اور  مظلوم طبقے کی آواز بنتے ہوئے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ظالم حکمرانوں پر بہترین انداز میں طنزو تنقید کی ہے۔

حرف شناسی / بہترین زبان و بیان:

احسان دانش کو حرف شناسی میں کمال حاصل تھا۔ وہ  موقع محل کے مطابق حرف و صوت کی شگفتگی اور فکرو خیال کی شناسائی کی تازگی سے لبریز اشعار کہتے تھے ۔ فکر و جذبہ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔

 

تشریح نظم

شعر نمبر 1:

 اپنی نظم آزادی کے اس مطلع میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف اور اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اپنے اندر آزادی کا جذبہ پیدا کرنا اور آزادی کے حصول کی کوشش کرنا عین عبادت ہے۔مگر آزادی آسانی سے نہیں مل جاتی، اس کے لیے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مختلف قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر حقیقی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔

شعر نمبر2:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر کہنے کو تو ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں اور ہمارا ملک خود مختار ملک ہے مگر درحقیقت ہم آزاد نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمیں طاقتور اشرافیہ کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی کا سامنا ہے۔ شاعر کے مطابق ایسا  ملک جہاں لوگوں کی آزادئ اظہارِ رائے پر پابندی ہو وہاں کی زندگی آزادی کے نام پر دھبہ ہے۔

شعر نمبر3:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش لوگوں میں آزادی کے جذبے اور شوق کا  ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ لوگوں میں حقیقی آزادی کے لیے کوشش کرنے کا جذبہ اب آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے آباؤاجداد کی تربیت اور قربانی کے عملی نمونوں نے آزادی کا جوش پیدا کر دیا ہے۔

شعر نمبر4:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غلامی کی زندگی نے ہمیں خون کے آنسو رلائے ہیں۔ لیکن لگتا ہے اب خدا کو ہماری حالت پر رحم آ گیا ہے اور حالات تبدیل ہونے والے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو آزادی کا جو خواب اس نے دیکھا ہے وہ جلد شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔

شعر نمبر5:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ غلط کام ہوتا دیکھے تو خاموش رہنے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ ہمارے ملک کے دستور میں یہ بات شامل ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن افسوس کہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے نہ صحافی آزاد ہیں نہ ہی کوئی شاعر یا مصنف ان طاقتور اشرافیہ کے سامنے غلط کو غلط اور درست کو درست کہہ سکتا ہے۔ شاعر کے مطابق جس روز ہمارے قلم اور ہماری زبانیں آزاد ہوں گی وہ حقیقی آزادی کا دن ہوگا۔

شعر نمبر6:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ آزادی کی خاطر جہاد کرنے والے کسی بھی مشکل سے نہیں گھبراتے۔ خواہ ان کی راہ میں پہاڑ حائل ہو جائیں یا دریا عبور کرنے پڑیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہماری لڑائی صرف مقامی جاگیرداروں سے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ظلم اور نانصافی کا شکار غریب مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہے۔

شعر نمبر7:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش طاقتور اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کے فضل سے اب ہمارے اندر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔ مزدوروں اور غریبوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے چہرے ہم سب پر کھل گئے ہیں۔ جب سے ہم نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے، ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاست دانوں اور حکومتی نمائندے پر خوف طاری ہو گیا ہے اور وہ کانپنے لگے ہیں۔

شعر نمبر8:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں انسانوں کو آزاد قرار دیا ہے۔ حقیقی آزادی کا جو تصور قرآن میں موجود ہے وہ قیامت تک کے لیے اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔ شاعر کے مطابق اہل قلم نے آزادی کی اصل تعریف جو قرآن میں درج ہے اسے کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔

 


نظم  :    "میں نے کہا اس نے کہا"

شاعر کا نام : دلاور فگارؔ

 موضوع کے اعتبار سے یہ نظم "شہرِآشوب"  اور بناوٹ یا ساخت کے لحاظ سے "پابند نظم" ہے۔

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے شاعر کے انداز کلام کی چند خصوصیات۔۔۔

شگفتگی: دلاور فگار کے کلام میں شگفتگی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے شگفتہ شاعری اختیار کی اور واقعات کی مزاحیہ شاعری میں شہرت حاصل کی۔

طنز و مزاح کا عنصر: دلاور کے کلام میں میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے طنز و مزاح کے نشتر سے معاشرے کے جسم سے فاسد مواد نکال باہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

سادہ زبان و بیان: دلاور فگار نے انتہائی سادہ، عام فہم، بے تکلف  اور بے ساختہ زبان کا استعمال کیا ہے جو تحت الشعور  میں گہرا اور بھرپور مفہوم چھوڑ دیتی ہے۔


سوال : نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

جواب:  نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر دلاور فگارؔ اس نظم میں عوام کے مسائل بیان کرتے ہوئے حکمرانوں اور صاحب اقتدار کی بے حسی  اور ان کی نااہلی پر بھرپور انداز میں طنز کیا ہے۔ شاعر کے مطابق جب عوام اپنے مسائل لے کر متعلقہ محکموں کے پاس جا تے ہیں تو وہ ان کے مسائل کے حل کے بجائے ان پر ہنسی کرتے ہیں اور انہیں طفل تسلیاں دیتے ہیں۔  شاعر کے مطابق  ایسی صورتحال کی ذمہ دار کسی حد تک عوام خود ہے۔ کیونکہ کہ ایسے نااہل حکمران انہی کے ووٹوں سے ہی منتخب ہو  حکومت کر رہے ہیں۔


نظم"میں نے کہا اس نے کہا" کی تشریح:

 شعر نمبر 1:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ شہریوں کے مسائل اور حکمرانوں کے غیر سنجیدہ رویے پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شہر کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ محکمہ جات کے افسران ان کے حل کی بجائے بات کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ عوام اب خدا سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ شاعر کے مطابق عوام کے مسائل اب دعاؤں سے حل ہونے والے نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

 شعر نمبر 2:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ کار محکمہ واپڈا کی بے حسی پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے ہ کہ لوڈ شیڈنگ سے تنگ عوام عوام جب واپڈا کے محکمے کے سامنے بجلی کی بحالی کے لیے درخواست لے کر پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ  ان کے علاقے میں رات سے بجلی بند ہے۔ اس پر واپڈا والے بجلی کی بحالی کی بجائے  ان پر ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر بجلی نہیں آتی تو ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو۔ اس سے ہاتھوں کی ورزش بھی ہوگی اور بجلی کا بل بھی کم آئے گا۔

 شعر نمبر 3:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ کار پانی کے مسائل کے حل پر محکمہ واسا کی نااہلی اور سست روی پر طنز کررہا ہے۔  جب محکمہ واسا کی کوتاہی کی وجہ سے شہر میں پینے کے پانی کی قلت ہوجاتی ہے اور اس پر  عوام شکایت لے کر متعلقہ افسران کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان کی عرضی  پر کارروائی کرنے کے بجائے ان کو طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ ان کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اگر شہر میں پانی نہیں آرہا  تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں آپ سب لوگ صبر سے کام لیں اور پانی کی بجائے آپ  دیگر مشروبات پیپسی کولا وغیرہ پی لیا کریں۔

 شعر نمبر 4:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ  محکمہ  پولیس کی نااہلی اور نامناسب رویے پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب لوگ چوری ڈکیتی کی شکایت لے تھانے  پہنچتے  ہیں تو پولیس چوروں ڈاکوؤں کا پیچھا کرنے کی بجائے عوام کا مذاق اڑاتے ہیں اور انھیں طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ اگر کسی کی کار ڈاکو چھین کر لے جائیں تو پولیس والے شکایت سننے پر گاڑی کے مالک کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا تمہاری کار ڈاکوؤں نے چھین لی، اب تم پیدل چلو گے تو تمہارا وزن کم ہو جائے گا، تمہاری صحت بھی اچھی ہو جائے گی اور پٹرول کا خرچ بھی بچ جائے گا۔

 شعر نمبر 5:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ حکمرانوں کی نااہلی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بے روزگاری سے تنگ عوام  جب روزگار کی تلاش  میں حکمرانوں کے پاس جاتی  ہے تو بجائے اس کے انہیں ملازمت دی جائے  ان پر ہنسی  کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی کام کاروبار نہیں تو کوئی بات نہیں شعر و شاعری پر ہی اپنا گزارہ کر لو۔

 شعر نمبر 6:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ  عوام کے مسائل پر حکمرانوں کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کررہا ہے۔ جب عوام کہتی ہے ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی بندوبست کیا جائے جائے اور ایسے ادارے کھولے جائیں جو انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر سکھائیں  تو یہ کہہ کر بات کو ہنسی میں اڑا دیا جاتا ہے کہ ابھی ہمارے پاس نئے تعلیمی اور تربیتی ادارے کھولنے کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔ آپ لوگ صبر سے کام لیں  اور رات کو تارے گنا کریں، اس سے وقت بھی گزر جائے گا اور گنتی بھی یاد ہو جائے گی۔

 شعر نمبر 7:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ لوگوں کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کر رہا ہے۔ شاعر نے جب اپنے استاد شاعر سے بھی کہا کہ کوئی نوکری یا کام نہیں مل رہا۔ حکمرانوں نے بھی کہا ہے کہ شاعری پر گزارہ کرو۔  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے غزل نہیں پڑھی جاتی۔ اس پر اسے طفل تسلی دی جاتی ہے اور یہ جواب ملتا ہے کہ غزل کا پہلے ریاض یا مشق کر لیا کرو۔

 شعر نمبر 8:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ لوگوں کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کر رہا ہے۔ شاعر نے جب اپنے استاد شاعر سے بھی کہا کہ کوئی نوکری یا کام نہیں مل رہا۔ حکمرانوں نے بھی کہا ہے کہ شاعری پر گزارہ کرو۔  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شاعر کو اچھی غزل لکھنی نہیں آتی، اس پر اسے بڑے شعرا کی طرف سے طفل تسلی دی جاتی ہے کہ کسی دوسرے شاعر کا کلام ہی پڑھ دیا کرو۔

 شعر نمبر 9:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ حکمرانوں کی نااہلی اور نامناسب رویہ پر طنز کر رہا ہے ۔ شاعر کے مطابق  عوام کے مسائل کی ذمہ دار کسی حد تک عوام خود ہے۔ کیونکہ یہ حکمرانوں کی جی حضوری کرتی رہی ہے۔ ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی ہے۔ یہ حکمران انھی کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوگئے ہیں۔ اب اگلے انتخابات تک جتنا مرضی شور مچا لیں ، کچھ بھی  نہیں  بدلنے والا۔


نظم :  مال گودام روڈ                  شاعر : محمود سرحدی

موضوع کے اعتبار سے یہ نظم "شہرِآشوب"  اور بناوٹ یا ساخت کے لحاظ سے "پابند  نظم" ہے۔

نظم " مال گودام روڈ      " کے شاعر کے انداز کلام کی چند خصوصیات۔۔۔

طنز ومزاح کا عنصر:  اردو شاعری میں محمود سرحدی اردو طنز نگاری  اور مزاح نگاری  میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے کلام میں  ارد گرد کی صورت حال کو انتہائی لطیف  اور شگفتہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ماحول کی  تصویر نہایت مہارت کے ساتھ مزاحیہ طور پر نمایاں کرتے جس میں طنزیہ  انداز بھی پایا جاتا ہے۔

عوامی شاعری:  محمود سرحدی ایک عوامی شاعر ہیں۔ انھوں نے عام آدمی کے مسائل کو عوام کی آواز بنتے ہوئے عوام کے  انداز میں پیش کیا ہے۔

شگفتگی:محمود سرحدی  کےکے کلام میں شگفتگی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے شگفتہ شاعری اختیار کی اور واقعات کی مزاحیہ شاعری میں شہرت حاصل کی۔

سادہ زبان و بیان: محمود سرحدی نے انتہائی سادہ، عام فہم، بے تکلف  اور بے ساختہ زبان کا استعمال کیا ہے جو تحت الشعور  میں گہرا اور بھرپور مفہوم چھوڑ دیتی ہے۔

 نظم "مال گودام روڈ کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

نظم "مال گودام روڈ"میں شاعر محمود سرحدی  اپنے شہر کی ایک شکستہ حال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑک کی صورتحال  کومزاحیہ اور طنزیہ انداز میں بیان کرنا چاہتاہے۔اس سڑک کی بحالی کا خیال کسی کو نہیں آتا۔ لوگوں کا اس شاہراہ سے گزرنا دشوار ہوگیا ہے۔آئے روز اس پر حادثات رونما ہوتے ہیں۔ کئی لوگ زخمی اور کئی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔  شاعر کے مطابق اس سڑک کی خرابی کی وجہ سے ارد گرد کا ماحول بھی کھنڈرات کا منظر پیش کررہاہے۔