اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

نظم : "میں نے کہا اس نے کہا" شاعر کا نام : دلاور فگارؔ

 نظم  :    "میں نے کہا اس نے کہا"

شاعر کا نام : دلاور فگارؔ

 موضوع کے اعتبار سے یہ نظم "شہرِآشوب"  اور بناوٹ یا ساخت کے لحاظ سے "پابند نظم" ہے۔

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے شاعر کے انداز کلام کی چند خصوصیات۔۔۔

شگفتگی: دلاور فگار کے کلام میں شگفتگی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے شگفتہ شاعری اختیار کی اور واقعات کی مزاحیہ شاعری میں شہرت حاصل کی۔

طنز و مزاح کا عنصر: دلاور کے کلام میں میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے طنز و مزاح کے نشتر سے معاشرے کے جسم سے فاسد مواد نکال باہر کرنے کی کوشش کی ہے۔

سادہ زبان و بیان: دلاور فگار نے انتہائی سادہ، عام فہم، بے تکلف  اور بے ساختہ زبان کا استعمال کیا ہے جو تحت الشعور  میں گہرا اور بھرپور مفہوم چھوڑ دیتی ہے۔


سوال : نظم کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

جواب:  نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر دلاور فگارؔ اس نظم میں عوام کے مسائل بیان کرتے ہوئے حکمرانوں اور صاحب اقتدار کی بے حسی  اور ان کی نااہلی پر بھرپور انداز میں طنز کیا ہے۔ شاعر کے مطابق جب عوام اپنے مسائل لے کر متعلقہ محکموں کے پاس جا تے ہیں تو وہ ان کے مسائل کے حل کے بجائے ان پر ہنسی کرتے ہیں اور انہیں طفل تسلیاں دیتے ہیں۔  شاعر کے مطابق  ایسی صورتحال کی ذمہ دار کسی حد تک عوام خود ہے۔ کیونکہ کہ ایسے نااہل حکمران انہی کے ووٹوں سے ہی منتخب ہو  حکومت کر رہے ہیں۔


نظم"میں نے کہا اس نے کہا" کی تشریح:

 شعر نمبر 1:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ شہریوں کے مسائل اور حکمرانوں کے غیر سنجیدہ رویے پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شہر کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ محکمہ جات کے افسران ان کے حل کی بجائے بات کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ عوام اب خدا سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ شاعر کے مطابق عوام کے مسائل اب دعاؤں سے حل ہونے والے نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

 شعر نمبر 2:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ کار محکمہ واپڈا کی بے حسی پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے ہ کہ لوڈ شیڈنگ سے تنگ عوام عوام جب واپڈا کے محکمے کے سامنے بجلی کی بحالی کے لیے درخواست لے کر پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ  ان کے علاقے میں رات سے بجلی بند ہے۔ اس پر واپڈا والے بجلی کی بحالی کی بجائے  ان پر ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر بجلی نہیں آتی تو ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو۔ اس سے ہاتھوں کی ورزش بھی ہوگی اور بجلی کا بل بھی کم آئے گا۔

 شعر نمبر 3:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ کار پانی کے مسائل کے حل پر محکمہ واسا کی نااہلی اور سست روی پر طنز کررہا ہے۔  جب محکمہ واسا کی کوتاہی کی وجہ سے شہر میں پینے کے پانی کی قلت ہوجاتی ہے اور اس پر  عوام شکایت لے کر متعلقہ افسران کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان کی عرضی  پر کارروائی کرنے کے بجائے ان کو طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ ان کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اگر شہر میں پانی نہیں آرہا  تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں آپ سب لوگ صبر سے کام لیں اور پانی کی بجائے آپ  دیگر مشروبات پیپسی کولا وغیرہ پی لیا کریں۔

 شعر نمبر 4:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ  محکمہ  پولیس کی نااہلی اور نامناسب رویے پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب لوگ چوری ڈکیتی کی شکایت لے تھانے  پہنچتے  ہیں تو پولیس چوروں ڈاکوؤں کا پیچھا کرنے کی بجائے عوام کا مذاق اڑاتے ہیں اور انھیں طفل تسلیاں دیتے ہیں۔ اگر کسی کی کار ڈاکو چھین کر لے جائیں تو پولیس والے شکایت سننے پر گاڑی کے مالک کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا تمہاری کار ڈاکوؤں نے چھین لی، اب تم پیدل چلو گے تو تمہارا وزن کم ہو جائے گا، تمہاری صحت بھی اچھی ہو جائے گی اور پٹرول کا خرچ بھی بچ جائے گا۔

 شعر نمبر 5:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ حکمرانوں کی نااہلی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بے روزگاری سے تنگ عوام  جب روزگار کی تلاش  میں حکمرانوں کے پاس جاتی  ہے تو بجائے اس کے انہیں ملازمت دی جائے  ان پر ہنسی  کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی کام کاروبار نہیں تو کوئی بات نہیں شعر و شاعری پر ہی اپنا گزارہ کر لو۔

 شعر نمبر 6:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ  عوام کے مسائل پر حکمرانوں کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کررہا ہے۔ جب عوام کہتی ہے ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی بندوبست کیا جائے جائے اور ایسے ادارے کھولے جائیں جو انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر سکھائیں  تو یہ کہہ کر بات کو ہنسی میں اڑا دیا جاتا ہے کہ ابھی ہمارے پاس نئے تعلیمی اور تربیتی ادارے کھولنے کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔ آپ لوگ صبر سے کام لیں  اور رات کو تارے گنا کریں، اس سے وقت بھی گزر جائے گا اور گنتی بھی یاد ہو جائے گی۔

 شعر نمبر 7:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ لوگوں کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کر رہا ہے۔ شاعر نے جب اپنے استاد شاعر سے بھی کہا کہ کوئی نوکری یا کام نہیں مل رہا۔ حکمرانوں نے بھی کہا ہے کہ شاعری پر گزارہ کرو۔  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے غزل نہیں پڑھی جاتی۔ اس پر اسے طفل تسلی دی جاتی ہے اور یہ جواب ملتا ہے کہ غزل کا پہلے ریاض یا مشق کر لیا کرو۔

 شعر نمبر 8:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا"  کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ لوگوں کی بے حسی اور غیر سنجیدہ رویے پر طنز کر رہا ہے۔ شاعر نے جب اپنے استاد شاعر سے بھی کہا کہ کوئی نوکری یا کام نہیں مل رہا۔ حکمرانوں نے بھی کہا ہے کہ شاعری پر گزارہ کرو۔  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شاعر کو اچھی غزل لکھنی نہیں آتی، اس پر اسے بڑے شعرا کی طرف سے طفل تسلی دی جاتی ہے کہ کسی دوسرے شاعر کا کلام ہی پڑھ دیا کرو۔

 شعر نمبر 9:

نظم "میں نے کہا اس نے کہا" کے اس شعر میں شاعر دلاور فگارؔ حکمرانوں کی نااہلی اور نامناسب رویہ پر طنز کر رہا ہے ۔ شاعر کے مطابق  عوام کے مسائل کی ذمہ دار کسی حد تک عوام خود ہے۔ کیونکہ یہ حکمرانوں کی جی حضوری کرتی رہی ہے۔ ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی ہے۔ یہ حکمران انھی کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوگئے ہیں۔ اب اگلے انتخابات تک جتنا مرضی شور مچا لیں ، کچھ بھی  نہیں  بدلنے والا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔