اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

نظم: "دنیائے اسلام" شاعر: علامہ اقبالؔ

 نظم "دنیائے اسلام"        شاعر علامہ اقبالؔ

سوال: نظم "دنیائے اسلام" کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

جواب:

نظم "دنیائے اسلام" میں شاعر علامہ اقباؔل  مسلمانوں کے زوال  پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے  امتِ مسلمہ کو اتحاد کا درس دینا چاہتا ہے ۔ شاعر کے مطابق مغرب کی اندھی تقلید کرکے ہم نے مسلمان قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ہر طرف مغربی طاغوتی قوتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں۔ ہم فرقہ بندی کا شکار ہیں اور اسلامی تعلیمات کو بھول چکے ہیں۔ اگر تمام مسلمان قرآن و حدیث پرعمل کرنا شروع کر دیں اور نظم و ضبط کو قائم کرتے ہوئے متحد ہوجائیں تو وہ جلد ہی ہیں اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اقبال کے مطابق اس کا واحد حل نظام خلافت کا قیام ہے۔

 

سوال نمبر 2: اقبال ؔ کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات تحریر کریں۔

جواب:

قومی شاعری: اقبال ایک قومی شاعر ہیں ۔انہوں نے ہمیشہ  مسلمان قوم کے بارے میں اپنا قلم اٹھایا ہے۔  ان کے کلام کا بیشتر حصہ اُمت مسلمہ کے عروج و زوال کو بیان کرتا ہے۔

مقصدیت اور اصلاحی انداز: اقبالؔ کی شاعری میں مقصدیت پائی جاتی ہے ۔ان کا اولین مقصد مسلمان قوم  کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہے۔ ان کی شاعری کا اولین مقصدمسلمانوں کی اصلاح اور انھیں راہ راست پر لانا ہے۔

 فلسفیانہ اور صوفیانہ رنگ: اقبال نہ صرف شاعر تھے بلکہ فلاسفر بھی تھے۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ اور صوفیانہ رنگ پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں "خُودی" کے جذبے کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

سوال نمبر 3: نظم "دنیائے اسلام" کی تشریح تحریر کریں۔

جواب: تشریح نظم:

شعر نمبر 1:نظم دنیائے اسلام کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبال مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو! مجھے  ترک اور عرب قوم کی بہادری اور شان و شوکت کے قصے مت سناؤ۔ میں ان کی تاریخ سے بخوبی واقف ہوں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان قومیں دنیا میں قابل عزت تصور کی جاتی تھیں۔ لیکن اب یہ کمزور ہو چکی ہیں۔ اے مسلمانو! اپنے شاندار ماضی کی یادوں میں نہ کھوئے رہو بلکہ اپنے حال اور مستقبل کی پروا کرو۔

 

شعر نمبر 2: نظم دنیائے اسلام  کے اس شعر  میں شاعر  علامہ اقباؔل نے مسلمانوں کے زوال کی حالت کو بیان کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا دنیا کے ایک وسیع خطے پر اسلام کا پرچم لہراتا تھا۔  ہر جگہ توحید کا بول بالا تھا۔ لیکن افسوس کہ ملتِ اسلامی کی بنیادیں کمزور پڑ چکی ہیں۔ اور عیسائیت کی مشرکانہ تعلیم عام ہو رہی ہے۔ وہ سرزمین جہاں سے کلمہ حق بلند ہوا تھا اور وہاں پر اب عیسائیت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں اور لوگ اسلام کی بجائے عیسائیت کو اپنا رہے ہیں۔

 

شعر نمبر 3: نظم دنیائے اسلام کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمان قوم کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا میں ترک قوم کی عزت تھی۔ ہر جگہ اس کی  بات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اس کے آگے دنیا سر جھکاتی تھی لیکن افسوس کہ یہ سب عزت جاتی رہی ہے۔ یہ قوم اب اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے دنیا میں ذلیل اور رسوا ہو کر اب مغربی اقوام کی محتاج بن کر رہ گئی ہے۔

 

شعر نمبر 4: نظم دنیائے اسلام کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبال مسلمان قوم کے زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا زمانہ تھا جب مسلمان سلطنت کے دنیا  بھرمیں چرچے تھے۔ اس کا رعب و دبدبہ تھا۔ انگریزوں  نے اس قوم کو شراب کے نشے کا عادی بنا دیا۔ یہ وہی شراب ہے جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کا انسان کے دل و دماغ  پر منفی اثر پڑتا ہے۔ شراب کے نشے میں مسلمان اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔ ان کے دلوں میں پایا جانے والا جوش ایمانی بھی ماند پڑ گیا ہے۔ اس طرح یہ قوم زوال پذیر ہو گئی ہے۔

 

شعر نمبر 5: نظم"دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کی تفرقہ بازی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور آپس میں اختلافات کی وجہ سے مسلمان گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ یہی مغرب کی چال تھی جس سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی گئی ۔ اب پوری اُمت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے ۔جس طرح سنار کی قینچی سونے کو کاٹ دیتی ہے اسی طرح مسلمان بھی  اب ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس کے اختلافات کو مٹا کر متحد ہو جائیں تا کہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکیں۔

 

شعر نمبر 6: نظم "دنیائے اسلام" کے اس  شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آج کل مسلمان کسمپرسی اور گھبراہٹ  کا شکار ہیں۔ ہر طرف مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ قتل و غارت گری جاری ہے۔ مسلمانوں کے خون کی اہمیت ایسے ہے جیسے پانی ہو۔ کہیں مسلمان آپس میں لڑ لڑ کر مر رہے ہیں اور کہیں مغربی اقوام کے زیر ستم ہیں۔ مسلمانوں میں بڑھتی بے چینی اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں حقیقت کی سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے ان مسائل سے نمٹا جائے۔

 

شعر نمبر 7: نظم "دنیائے اسلام"  کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مغربی اقوام کے چنگل سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ مسلمانوں آپس میں متحد ہو جائیں اور باہمی اختلافات کو بھلا دیں۔ تا کہ مغربی طاغوتی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔ شاعر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ابھی بھی مسلمان خوابِ غفلت میں سوئے ہیں۔ مشرق میں بسنے والے مسلمان  خاص طور پر ایشیا والوں کو  اس  نکتے کی سمجھ نہیں آرہی کہ فرقہ واریت کا خاتمہ ہی ان کی کامیابی کی اصل کنجی  ہے۔

 

شعر نمبر 8: نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقباؔل مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی تعلیمات پر صحیح رنگ میں عمل پیرا ہو جائیں۔ مغربی اقوام کی سیاست سے بچ جائیں۔ اقبؔال کہتا ہے کہ بعض مسلمان ابھی خوش ہیں کہ ان کی ریاست قائم ہے تو اس کی وجہ خانہ کعبہ کی برکت ہے۔ اس کعبہ کی حفاظت کے انعام کے طور پر اللہ نے انھیں کچھ عزت دے رکھی ہے۔ ورنہ ان کی حالت اس سے بھی ابتر ہو چکی ہے۔ پس انہیں چاہیے کہ دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں تا خدا کی رحمت کا نزول ان پر ہو سکے۔

 

شعر نمبر 9: نظم "دنیائے اسلام "کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کے زوال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور انھیں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ پانے کے لئے مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام  مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں۔ افریقہ سے لے کر چین تک یعنی دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے تمام مسلمان تفرقہ بازی اور باہمی اختلافات  کو چھوڑ کر ایک امت بن جائیں۔ دین اسلام کی مضبوطی اور کعبہ کی حرمت کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ یعنی کلمہ حق کے لیے آواز بلند کریں ۔ اس کے لیے  پہلے لازمی ہے کہ تمام مسلمان  دین اسلام کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو جائیں۔

 

شعر نمبر 10: نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام مسلمان رنگ و نسل کا فرق مٹا کر آپس میں متحد ہو جائیں۔نسلی  امتیاز  کرنے کی  اسلام میں سختی سے نفی کی گئی ہے۔افسوس کہ  اس بیماری کی وجہ سے مسلمان کی یہ حالت ہوئی ہے۔ اگر اب بھی مسلمان رنگ و نسل  کا خیال رکھیں گے تو صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔چاہے مضبوط ترکی سلطنت ہو یا عرب بادشاہت سب صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔

 

شعر نمبر 11: نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نسلی  اور لسانی امتیاز کو ترک دیں اور متحد ہو جائیں۔۔  اگر نسل پرستی کا خیال رکھا گیا اور  مذہب پر رنگ و نسل کو فوقیت دی گئی  جس کی اسلام میں ممانعت ہے تومسلمان قوم کا نام اس طرح مٹ جائے گا جس طرح راستے کی دھول مٹی قافلے کے گزرنے پر اڑ جاتی ہے۔

 

شعر نمبر 12:نظم "دنیائے اسلام" کے اس شعر میں شاعر علامہ اقبؔال مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو اگر تم نے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا ہے تو باہمی اختلافات کو بھلانا ہوگا۔ تفرقہ بازی کو چھوڑ کر نظامِ خلافت کو  جاری کرنا ہوگا۔ اس کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اپنے شاندار ماضی  سے سبق حاصل کرو تاکہ ایک مرتبہ پھر دنیا میں اُمتِ مسلمہ کا بول بالا ہو سکے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔