اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

غزل نمبر 4: ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا شاعر : بہادر شاہ ظفرؔ

 غزل نمبر 4:  ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا           

شاعر : بہادر شاہ ظفرؔ

 بہادر شاہ ظفر  کے انداز بیان کی چند خصوصیات:

سوز و گداز: بہادر شاہ ظفر نے اپنے کلام میں اپنی زندگی کے رنج و الم کو بیان کرتے ہوئے دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کیا ہے. اس لیے اس کے کلام میں سوز و گداز پایا جاتا ہے.

سادہ زبان و بیان: بہادر شاہ ظفر نے اپنی شاعری میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے. اس لیے اس کے کلام میں جوش کی بجائے دھیما پن نمایاں نظر آتا ہے.

تشبیہات و استعا رات کا استعمال:  ظفر کو تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں  کمال مہارت حاصل تھی. الفاظ اور تراکیب کی خوبصورتی نے ان کے کلام کو پر اثر بنایا ہے.

 

تشریح غزل:

شعر نمبر 1:اپنی غزل کے اس مطلع میں شاعر بہادر شاہ ظفر ؔ اپنی زندگی کے غموں اور دنیا کی  بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب سے وہ اس دنیا میں آیا ہے اس نے کبھی سُکھ کا سانس نہیں لیا۔ ساری زندگی مصیبتوں کو جھیلتے گزر گئی ہے۔  وہ  اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس دنیا کی  زندگی کی کوئی حقیقت نہیں، سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔  اس کے پاس اقتدار تھا ، طاقت تھی لیکن یہ سب  تھوڑے عرصہ تک اس کے پاس رہا۔ شاعر کو  یہ باتیں اب خواب لگتی ہیں۔


علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت  تشبیہ کا استعمال کیا گیا ہے۔( جو دیکھا  سو خواب سا دیکھا)

 

شعر نمبر 2:  اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  انسان کا خمیر اگرچہ مٹی سے بنا ہے لیکن  اس کی  زندگی پانی کے بلبلے  کی طرح ہے۔  پانی کا بلبلا بھی چند لمحوں تک باقی رہتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نشان بھی باقی  نہیں رہتا۔ اس دنیا کی حقیقت ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔  انسان اس دنیا میں بہت مختصر وقت کیلیے آیا ہے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں استعارہ  کا استعمال کیا گیا ہے۔( پانی کا بلبلا۔۔۔ انسان کو  اس کی کمزوری کی وجہ سے کہا گیا ہے۔)

 

 شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کی خوبصورتی بھی عارضی ہے۔ اگر کسی وجود کو  ہمیشہ رہنا ہے تو وہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس نے دنیا کی  بہت سی خوبصورت چیزیں یا وجود دیکھے ہیں لیکن جو شان و شوکت اور حُسن خدا کی ہے وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔


علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔( خوباں ۔۔۔  تجھ سا نہ دوسرا دیکھا۔۔۔ اللہ کا وجود ظاہری طور پر نظر نہیں آتا۔)

 

 شعر نمبر 4:  : اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ انسان اپنی طاقت اور دولت پر بہت غرور کرتا  ہے ۔ لیکن اس کی حقیقت پانی کے ایک بلبلے کی طرح ہے۔  جس طرح بلبلہ چند لمحوں میں مٹ جاتا ہے اسی طرح انسان بھی کمزور ہے۔ اس کی زندگی بھی دائمی نہیں  ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی زندگی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت تجنیس   کا استعمال کیا گیا ہے۔(دم ۔۔۔  سانس/زندگی۔۔دم ۔۔ لمحہ۔ )

 

شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس شعر میں بہادر شاہ ظفر اپنی زندگی کے دکھوں کو یاد کر رہا ہے.

اس شعر میں دو مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں...

ظفر کا خدا سے شکوے کا رنگ: اے خدا تیرے سامنے دنیا نے میرے ساتھ زیادتیاں کیں. ظلم و ستم کے اتنے پہاڑ ڈھائے کہ میں زندگی سے گزر گیا ہوں.

ظفر کا خدا کے شکر کا رنگ:  اے خدا جب سے میں نے تجھے پہچانا ہے اور تیری نظر مجھ پڑی ہے، میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا ہے.میں تیری سچی محبت میں زندگی کی بازی ہار گیا ہوں۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔(حدف ناوک قضا ۔ ... نظروں کے تیر دل کو چیر گئے)

 

شعر نمبر 6: اپنی غزل کے اس شعر میں بہادر شاہ ظفر زندگی سے مایوسی اور عشق حقیقی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے خدا میں نے تیری رضا پانے کی کوشش میں ہوں.  اب یہی میرا مقصد حیات ہے. میری زندگی گزر گئی ہے لیکن میں تجھے راضی نہیں کر سکا.

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت کنایہ   کا استعمال کیا گیا ہے.. نہ ہوئے تیری خاک پا...  خاک میں ملا دیکھا ... بطور کنایہ استعمال ہوا ہے. یعنی تجھے راضی نہیں کر پائے.... اور دنیا سے گزر گیا ہے)

 

شعر نمبر 7: اپنی غزل کے اس مقطع میں ظفر کہتا ہے کہ دنیا میں سب نے میرے ساتھ بے وفائی کی ہے. شاعر دوسروں کو نصیحت کر رہا ہے کہ دنیا کی زندگی اور خوشیاں عارضی ہیں۔ کوئی چیز بھی باقی نہیں رہے گی، اگر کوئی ہمیشہ رہے  گا تو وہ خدا کی ذات ہے۔  اس لیے اس دنیا سے دل نہیں لگانا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔(نہ دیجیے کسی کو دل۔.. حقیقت میں دل کسی کو دیا نہیں جاسکتا)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔