( اردو حصہ غزل (جماعت دہم
غزل نمبر 1: فقیرانہ آئے صدا کر چلے شاعر : میر تقی میرؔ
سوال نمبر 1: میر تقی میرؔ کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے ۔
جواب:
سادگی اور سلاست: میر ؔ کا کلام اپنی سادگی اور سلاست کی وجہ سے مشہور ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا ہے۔
سوز و گداز: انکے کلام میں سوز و گداز پایا جاتا ہے۔ انہوں نے زمانے تلخیوں اور دکھوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے۔
ترنم اور حسنِ تغزل: ترنم اور حسنِ تغزل میر ؔ کے کلام کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ میر غالباً واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ،ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔
وارداتِ قلبی کا اظہار: میرؔ نے اپنی شاعری میں دلی کیفیات اور جذبات کو انتہائی لطیف انداز میں پیش کیا ہے۔ انکی باتیں دل سے نکلتی اور دل پر اثر کرتی ہیں۔
سوال نمبر2: میر تقی میرؔ کو"خدائے سخن " کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب:
میر تقی میر کو "خدائے سخن" کا لقب اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ:
خدائے سخن کا مطلب ہے باکمال کلام کہنے والا۔ میر تقی میر اردو شاعری میں ایک عظیم مقام رکھتے ہیں۔
ان کی شاعری میں ایک غیر معمولی گہرائی، احساسات کی شدت اور زبان کی خوبصورتی پائی جاتی ہے۔
ان کی شاعری میں انسانی جذبات، خاص طور پر غم، درد، محبت، اور تنہائی کے احساسات کو بڑی لطافت اور مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔
ان کا اسلوب بیان انتہائی منفرد اور سادہ تھا، جس نے اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔
ان کی غزلوں میں زندگی کی تلخ حقیقتوں، عشق کی ناکامیوں اور جذباتی پیچیدگیوں کا عمیق اظہار ملتا ہے۔
انہیں "خدائے سخن" کہنا ان کی شاعری کی اس عظمت، فنی کمالات، اور اردو ادب پر ان کے گہرے اثرات کا اعتراف ہے۔
میؔر غالباً واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ،ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔
سوال: میر تقی میر کی غزل کی تشریح بیان کیجیے۔
شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس شعر میں میر ؔ اپنی زندگی کے غموں کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ شاعر نے اپنی زندگی میں بہت دشواریاں دیکھی ہیں۔ اس کو محبت میں ناکامی ہوئی غربت کی مار ، یتیمی کی زندگی اور اپنے سوتیلے بھائیوں کی دھتکار کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس لیے اُس نے لوگوں سے کہا کہ میں فقیروں کی طرح اس دنیا میں آیا تھا اور دوسروں کو دعائیں دیتے ہوئے اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ میرے پاس دوسروں کو دینے کیلیے کچھ نہیں سواۓ دعاؤں کے، خدا کرے جن دکھوں کا مجھے سامنا کرنا پڑا ہے وہ کسی اور کو نہ دیکھنا نصیب ہوں۔
شعر نمبر 2: شاعر میر تقی میرؔ اس شعر میں اپنے مجازی محبوب سے کہتا ہے کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ تمھا را ساتھ دوں گا، تمھارے بغیر میں زندہ نہیں رہوں گا، ہم ایک ساتھ جئیں گے اور ساتھ مریں گے۔ اب چونکہ تم نے بے وفائی کی ہے اور مجھے چھوڑ دیا ہے لیکن میں اپنے عہد پر ابھی بھی قائم ہوں۔ اپنے کیے گئے وعدے کے مطابق اس دنیا کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کیونکہ اگر میری زندگی میں تو نہیں ہے تو پھر میرا جینا کس کام کا؟
شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں میر ؔ اپنے محبوب کی بے رخی اور بے وفا ئی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب! میری قسمت میں تیری محبت نہ تھی۔ تجھے پانے کیلیے میں نے لاکھ جتن کیے تھے ، تجھے راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں ناکام رہا۔ جس طرح ایک مریض بیماری سے بچنے کیلیے علاج معالجے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتا ہے لیکن اگر اس کے مقدر میں شفا لکھی ہو تو ہی وہ صحتیاب ہو تا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں بھی مریض ِ عشق تھا ۔ میں نے اس بیماری سے شفا پانے کی بھر پور کوشش کی لیکن میرے نصیب کھوٹے نکلے۔ اس کا مجھے بہت غم ہے لیکن میرے دل کو اتنی تسلی تو ضرور ہے کہ کم ازکم میں نے اپنی بساط کے مطابق کوشش تو ضرور کی ہے آگے اللہ کی مرضی تھی۔
شعر نمبر4: شاعر میر تقی میرؔ اس شعر میں اپنی محبت میں ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے اپنے محبوب کے دیے غموں اور دکھوں کی وجہ سے اس دنیا سے بیزار ہو گیا ہوں۔ لیکن اب وہ کونسی چیز یا قوت ہے جس نے مجھ میں ان سب غموں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور میرے اندر سے عشق مجازی کا بھوت سر سے اُتار کر پھینکا ہے۔ اس قوت نے مجھے بیماری سے شفا دی ہے۔ ہاں وہ خدا ہے جس کی وجہ سے میں صحت یاب ہوا ہوں۔ اب میں صرف اس سے سچا عشق کرنے لگا ہوں۔ میں دنیا سے لاتعلق ہو گیا ہوں کیونکہ مجھے اس دنیا کی کوئی چیز خدا کی محبت سے بڑھ کر نہیں ہے۔ ہر چیز خدا کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس شعر میں میر ؔ کہتا ہے کہ جب سے میں نے دنیاوی محبوب کو چھوڑا ہے اور خدا کی محبت کو پہچانا ہے۔ میں اپنے لیے جینا ہی بھول گیا ہوں۔ اب میرے دل میں ْْمیںْْ اور تُو کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ میرے دل میں بس اب صرف خدا کی محبت ہے اور اُسی نے اپنا دیوانہ بنا دیا ہے۔ میں معرفت الٰہی کا قائل ہو گیا ہوں اور فنا فی اللہ ہو گیا ہوں۔ اب میرے رگ و ریشہ میں صرف خدا ہی خدا ہے۔
شعر نمبر 6: اپنی غزل کے اس شعر میں میرؔ کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی عبادت اور بندگی کیلیے پیدا کیا ہے اور انسان کی زندگی کا اولین مقصد خدا کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔ اسی لیے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں اور ہمیشہ اسی کے سامنے جھکنے کو پسند کروں گا۔ کاش میرے سجدے قبولیت کا درجہ پا لیں اور خدا مجھ سے راضی ہو جائے۔
شعر نمبر 7: اپنی غزل کے اس شعر میں میرؔ اپنے دکھوں کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے ساری زندگی ہمیشہ مصائب کا ہی سامنا کیا ہے۔ لیکن اس بات کی خوشی ہے کہ میرے دوستوں کو ایسے دن دیکھنے نہیں پڑے۔ خدا کا شکر ہے میرے احباب ان مصائب سے آزاد ہیں اور خیریت کی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ اگر کبھی کسی کو کوئی تکلیف پہنچی بھی تو اس نے اس کا مجھ پر اظہار نہیں کیا۔ افسوس کہ ایک میں ہی ہوں جو اپنے تمام دکھوں کے قصے سب کو سناتا رہا ہوں جبکہ انھوں نے میرے سامنے کبھی اُف تک نہ کی ۔
شعر نمبر 8: اپنی غزل کے اس شعر میں میرؔ کہتا ہے کہ میری ساری زندگی آوارگی ، دیوانگی اور دنیا داری میں گزر گئی ہے ۔ اللہ نے انسانوں کو محض اپنی عبادت کیلیے پیدا کیا ہے۔ اس کے ذمہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ اب روزِ آخرت جب حساب کتاب ہوگا اور مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں نے اس دنیا میں آکر کیا کام کیے ہیں؟ تو مجھے فکر لاحق ہو گئی ہے کہ میں وہاں کیا منہ دکھاؤں گا؟ کیا جواب دوں گا ، کرنا کیا تھا اور ساری زندگی کیا کرتے گزری ہے، میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے کہ رہتی نسل تک مجھے یاد رکھا جائے۔ میر ؔ عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے ایسا کہتا ہے جبکہ انکا شاعرانہ کلام ہی ایسا ہے کہ ہم انہیں آئندہ زندگی میں یاد رکھیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔