اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

بدھ، 14 فروری، 2024

نظم آزادی شاعر: احسان دانش

نظم آزادی                 شاعر: احسان دانش

صنفِ نظم بلحاظ موضوع:    آزادی کی اہمیت  / آزدی کے حصول کی جِدو جُہد

صنفِ نظم بلحاظ ساخت /بناوٹ/ ہئیت:    پابند نظم

نظم آزادی کا مرکزی خیال:

نظم  آزادی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر احسان دانش  اس نظم میں ہمیں آزادی کی اہمیت اور ضرورت سمجھانا چاہتا ہے۔    اللہ نے انسان کے  کچھ بنیادی حقوق مقرر کر رکھے ہیں۔ ملک کے ہر شہری کو   اپنے حقوق کے لیے  کوشش کرنے اور آواز بلند کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ شاعر نے اس نظم کے ذریعے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آوازِحق بلند کیا ہے اور دیگر دانشوروں کو  حقیقی آزادی کے لیے بولنے اور لکھنے کی دعوت دی ہے۔

 

شاعر احسان دانش کے انداز ِ کلام کی چند خصوصیات:

(احسان دانش (1914 کاندھلہ -22 مارچ 1982   لاہور)، پیدائشی نام احسان الحق، اردو کے مقبول شاعر تھے۔ انھوں نے صرف پانچویں حماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ مزدوری کر کے اپنا گذر بسر کیا کرتے تھے۔ احسان دانش نے لاہور آکر شاعری کا آغاز کیا۔)

سوز و گداز اور درد کا عکاس:

 احسان دانش کے کلام میں سوزو گداز پایا ہے۔ انھوں  نے اپنے کلام میں زیادہ تر  معاشرے  کے غریب اور مزدور طبقے کے رنج و الم کو بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں انھوں نے مزدوری کی۔ چونکہ وہ خو د مزدور تھے اس وجہ سے مزدور اورکمزور طبقہ کے لوگوں کے درد کو محسوس کرتے تھے۔

طنز  و تنقید:

احسان دانش اپنے دور کے بہترین تنقید نگار تھے۔  انھوں نے اپنے معاشرے کے کمزور اور  مظلوم طبقے کی آواز بنتے ہوئے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ظالم حکمرانوں پر بہترین انداز میں طنزو تنقید کی ہے۔

حرف شناسی / بہترین زبان و بیان:

احسان دانش کو حرف شناسی میں کمال حاصل تھا۔ وہ  موقع محل کے مطابق حرف و صوت کی شگفتگی اور فکرو خیال کی شناسائی کی تازگی سے لبریز اشعار کہتے تھے ۔ فکر و جذبہ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔

 

تشریح نظم

شعر نمبر 1:

 اپنی نظم آزادی کے اس مطلع میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف اور اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اپنے اندر آزادی کا جذبہ پیدا کرنا اور آزادی کے حصول کی کوشش کرنا عین عبادت ہے۔مگر آزادی آسانی سے نہیں مل جاتی، اس کے لیے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مختلف قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر حقیقی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔

شعر نمبر2:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر کہنے کو تو ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں اور ہمارا ملک خود مختار ملک ہے مگر درحقیقت ہم آزاد نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمیں طاقتور اشرافیہ کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی کا سامنا ہے۔ شاعر کے مطابق ایسا  ملک جہاں لوگوں کی آزادئ اظہارِ رائے پر پابندی ہو وہاں کی زندگی آزادی کے نام پر دھبہ ہے۔

شعر نمبر3:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش لوگوں میں آزادی کے جذبے اور شوق کا  ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ لوگوں میں حقیقی آزادی کے لیے کوشش کرنے کا جذبہ اب آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے آباؤاجداد کی تربیت اور قربانی کے عملی نمونوں نے آزادی کا جوش پیدا کر دیا ہے۔

شعر نمبر4:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غلامی کی زندگی نے ہمیں خون کے آنسو رلائے ہیں۔ لیکن لگتا ہے اب خدا کو ہماری حالت پر رحم آ گیا ہے اور حالات تبدیل ہونے والے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو آزادی کا جو خواب اس نے دیکھا ہے وہ جلد شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔

شعر نمبر5:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ غلط کام ہوتا دیکھے تو خاموش رہنے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ ہمارے ملک کے دستور میں یہ بات شامل ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن افسوس کہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے نہ صحافی آزاد ہیں نہ ہی کوئی شاعر یا مصنف ان طاقتور اشرافیہ کے سامنے غلط کو غلط اور درست کو درست کہہ سکتا ہے۔ شاعر کے مطابق جس روز ہمارے قلم اور ہماری زبانیں آزاد ہوں گی وہ حقیقی آزادی کا دن ہوگا۔

شعر نمبر6:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ آزادی کی خاطر جہاد کرنے والے کسی بھی مشکل سے نہیں گھبراتے۔ خواہ ان کی راہ میں پہاڑ حائل ہو جائیں یا دریا عبور کرنے پڑیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہماری لڑائی صرف مقامی جاگیرداروں سے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ظلم اور نانصافی کا شکار غریب مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہے۔

شعر نمبر7:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش طاقتور اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کے فضل سے اب ہمارے اندر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔ مزدوروں اور غریبوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے چہرے ہم سب پر کھل گئے ہیں۔ جب سے ہم نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے، ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاست دانوں اور حکومتی نمائندے پر خوف طاری ہو گیا ہے اور وہ کانپنے لگے ہیں۔

شعر نمبر8:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں انسانوں کو آزاد قرار دیا ہے۔ حقیقی آزادی کا جو تصور قرآن میں موجود ہے وہ قیامت تک کے لیے اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔ شاعر کے مطابق اہل قلم نے آزادی کی اصل تعریف جو قرآن میں درج ہے اسے کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔

 


ہفتہ، 25 نومبر، 2023

اصنافِ سُخن کی اقسام ASNAF-E-SUKHAN KI AQSAAM

 

اَصناف ِاَدب کی تعریف اور اقسام

صِنف کے لُغوی معنی   قِسم/جِنس/نسل /ذات  کےہیں  ۔ (صنف کی  جمع اصناف  ہے۔) اَصنافِ  ادب سے مراد ادب کی اقسام ہے۔

اَصناف ِادب کے دو حصے ہیں ایک  اصنافِ نثر اور دوسرا اصنافِ نظم۔

1: اَصنافِ نثر:- بہترین الفاظ کو سادہ  اور عمدہ انداز سے    لکھنا اصنافِ نثر کہلاتا ہے۔ اس میں جملے کی  بناوٹ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔اصناف نثر میں مضمون،  طنزو مزاح ، انشائیہ، تنقید،  کالم نگاری، خط، کہانی، افسانہ، ناول، آپ بیتی، جگ بیتی،  مکالمہ ، ڈراما، خاکہ/کردار نگاری ، داستان / قصہ، سوانح عمری/ سوانح حیات، سرگزشتِ حیات/ خود نَوِشت  ، سفرنامے  فلم اور پیروڈی  وغیرہ شامل ہیں۔

2: اَصناف سخن:- بہترین الفاظ کو بہترین انداز میں لکھنا یا بیان کرنا اصناف سخن کھلاتا ہے۔ اس میں جملے کی ساخت ، الفاظ کی ترتیب اور  گرائمر پر توجہ نہیں دی جاتی۔  شعری اصناف سخن میں نظم ،غزل، قصیدہ،نعت،حمد،منقبت ، مرثیہ، مثنوی ، مسدس،مخمس ، نَوحہ،گمان، اشلوک،کافی،رُباعی،  ہائیکو، سہرا     اور لوری وغیرہ شامل ہیں۔


ہفتہ، 16 ستمبر، 2023

غیر رسمی خط کا نمونہ: دوست کے نام نصیحت آموز خط لکھنا

 

عنوان: دوست کو پڑھائی کی اہمیت  سمجھانےاور محنت کرنے کی نصیحت کرنے کے لیے خط

کمرا امتحان

7 - اکتوبر 2023ء

                   پیارے دوست!

السلام علیکم ۔ طویل عرصہ بعد تمہاری طرف سے خیریت نامہ موصول ہوا ہے۔پڑھ کر  خوشی ہوئی، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس بار نہم کے بورڈ کے امتحان میں تمہارے نمبر کم آئے ہیں۔ اس موقع پر میں یہ چند حروف بطور  نصیحت تمہیں لکھ رہا ہوں اس  یقین کے ساتھ کہ تم ان پر عمل کرو گے ۔

دوست!  پڑھائی کی اہمیت کی بات کرتے وقت، میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تعلیم ہماری زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ پڑھائی سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے جو ہمیں دنیا کے حقائق کو سمجھنے اور ان کا سامنا کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ اس سے ہمیں ہر طرح کی  ہوشیاری آتی ہے۔

          کامیابی کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن محنت اور استقامت سے تم ہر مشکل کو پار کر سکتے ہو۔امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے لیے میں تمہیں ایک بہت اہم بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ محنت کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہ کرنا۔ محنت کا فائدہ اور اہمیت بہت زیادہ ہے۔ محنت سے نہ صرف انسان  کی ذاتی ترقی ہوتی ہے بلکہ پورے خاندان اور ملک کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ محنت انسان کو نیک نیتی اور استقامت دینے میں مدد فرماتی ہے۔یاد رہے، محنت سے ہر مشکل کا حل نکلتا ہے اور اسی  سے ہی تمہارے  خواب حقیقت بن سکتے ہیں۔

آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تمہیں ہمیشہ کامیابی کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے۔( آمین) گھر میں  اپنے امی اور ابو کو سلام دینا۔

والسلام 

تمہارا دوست

ا      ب      ج

 

 

ہفتہ، 29 اپریل، 2023

اردو تفہیمی اور سمعی مہارتوں کی مشق

 اردو تفہیمی اقتباس کی مشق

جائزہ نمبر 1

تفہیمی مشق کے لیے ذیل میں

 دی گئی تصویر پر کلک(Click) کریں۔ 



 اردو سمعی اقتباس کی مشق

جائزہ نمبر 1

سمعی مہارتوں کی مشق کے لیے ذیل میں

 دی گئی تصویر پر کلک(Click) کریں۔




اتوار، 19 مارچ، 2023

روداد نویسی کا نمونہ

 

کلاس: دہم   عنوان:    روداد نویسی   تاریخ:    19  مارچ 2023ء

وقت : 45  منٹ    مہارت:    لکھنا       مواد:  قلم، کاپی، تعلمی مواد،

ایس ایل او:                        پوسٹر یا تصویری خاکوں یا کسی واقعہ  اور منظر کو بیان کرتے ہوئے (آنکھوں دیکھا حال )روداد لکھ سکیں۔

عنوان :    گدھے  یہیں کے

کل  ابا جی کی چھٹی تھی  اس لیے ہم نے دانیال کے ساتھ مل کر پہلے  ہی ابا  جی  کی موٹر سائیکل چلانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ہمارے دونوں بڑے بھائی  اور باجیوں کو بھی اسکول و کالج سے چھٹی ہوئی تھی ۔اس لیے سب ہی بہت دیر سے بیدار ہوتے ہیں ۔کل صبح موٹر سائیکل چلانے   کی خوشی میں رات  کٹنا دوبھر ہوگیا  تھا، اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی ۔فجر کی اذان پر بیداری ہوئی ۔اس وقت دانیال بھی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔ہم نے جاتے ہی اسے بیدار کرنا چاہا، تو ایسا لگا کہ ہم کسی مردے کو جگا رہے ہوں۔گھبراہٹ میں فکر یہ لاحق  تھی کہ ان صاحب کے چکر میں کوئی اور بیدار نہ ہوجائے ۔ جب وہ عزت سے بیدار نہ ہوئے تو ہم نے ان کی ناک بند کردی  مگر ہماری عقل دیکھیں کہ ہم یہ بھول ہی گئے کہ موصوف پیدائشی زکام کے مریض ہیں اور منہ سے سانس لیتے ہیں ۔ خیر جب منہ بند کیا تو بھائی نے آنکھیں کھول دیں۔ "کیاہے"؟ انہوں نے خفا ہوتے ہوئے کروٹ بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔          "ار ے اٹھو بھئی" ہم نے بہت زور دیتے ہوئے ان کی ٹانگ پکڑ کر کھینچی" ارے ابا جی کی موٹر سائیکل نہیں چلانی کیا ۔۔۔"

ہمارے کہنے پر وہ صاحب جلدی سے اُٹھے  اور ہم دونوں بہت احتیاط سے کمرے سے نکل کر پہلے برآمدے میں آئے پھر ابا جی  کی موٹر سائیکل کی چابی نکال کر مزید احتیاط سے دروازہ کھول کر موٹر سائیکل نکال لی اور گلی سے ذرا دُور لے جا کر اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔مگر موٹر سائیکل تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی ۔۔اوپر سے مصیبت یہ کہ ہماری ٹانگیں کِک پر نہیں پہنچ رہی تھی ۔ اور کِک میں اتنی طاقت تھی کہ بہت زور آزمائی کرنے کے باوجود بھی موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہو پارہی تھی  اور وقت تھا کہ رُک ہی نہیں رہا تھا ۔صبح ہی صبح لوگوں کی چہل پہل کم ہوتی ہے ،حادثے کا امکان بھی کم ہوتا ہے  اس لیے یہ وقت مناسب تھا ۔آخر بہت زور آزمائی کے باوجود موٹر سائیکل اسٹارٹ نہ ہوئی تو طے یہ پایا کہ موٹر سائیکل کو دھکا دے کر اسٹارٹ کیا جائے ۔یہ تجویز کار گر ثابت  ہوئی  اور ذرا سی طاقت  آزمائی  سے گاڑی اسٹارٹ ہوگئی ۔بس پھر کیا تھا  گاڑی کو جیسے کہ پَر  اور ہم سپر مین بن گئے ۔دھکا لگا کر دانیال بیچارہ  سانس پُھلائے بیٹھا  تھا۔ہم نے بہت دُور جاکر گاڑی روکی  تو ہانپتا ہوا آیا اور موٹر سائیکل  پر سوار ہو گیا ۔راستہ بالکل  صاف  اور کُشادہ تھا اور صبح کے موسم کی  تو بات ہی کیا ہے  ،ہمارا بھی چہچہانے   کا جی چاہ رہا تھا ،گنگنانے کو جی چاہ رہا تھا ،ہم موٹر سائیکل بالکل  درمیانی رفتار سے چلا رہے تھے  اور پوری ذمہ داری سے گاڑی کو سنبھالا ہوا تھا ۔ جیسے ہی قبرستان کی طویل  دیوار شروع ہوئی ہم نے گاڑی کی رفتار  کم کر لی  کیونکہ آگے گٹر تھا ۔جس کا  ڈھکنا غائب تھا ۔ وہ جگہ پار کرکے ابھی تک ہم نے گاڑی ذرا آگے ہی بڑھائی تھی کہ اچانک ہی ایک گدھا سورا قبرستان میں سے تیزی سے نمودار ہوا اور بڑی سڑک پر آتے ہی جیسے کہ گدھے کوبریک لگ گئے ۔ہم بیچارے شاہی کٹھولے پر سوار گدھے کے یوں سڑک کے بیچوں بیچ رُک جانے پر حواس باختہ ہوگئے ۔موٹر سائیکل کی  رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ہم نے فوراً بریک لگائی ۔گدھے سوارنے جو بُل فائٹر کو بے لگام اپنی طرف آتے دیکھا تو اس نے گدھے  کودولتیاں بھی مار یں مگر تب تک دھڑام کی آواز کے ساتھ موٹر سائیکل گدھے  سے جاٹکرائی ۔دانیال پیچھے  بیٹھا تھا  اور ہوشیار بھی تھا وہ محفوظ رہا جبکہ ہمارا منہ گدھے کے  فولادی سر سے ایسا ٹکرایا کہ ہمارے آٹھوں طبق روشن ہوگئے ۔گدھے کا مالک گدھے کی چھت پر بیٹھا تھا  اس لیے محفوظ رہا جبکہ ہماری موٹر سائیکل گدھے سے ٹکرا کراس زور سے زمین پر گری کہ اس کا میٹر لائٹ  اور دو اشارے ٹوٹ  گئے ۔ہینڈل ٹیڑھا ہوگیا ،ہمیں بھی بڑ ی ذمہ دار چوٹیں لگی تھیں  مگر اپنی موٹر سائیکل کی حالت اور اب اپنی ہونے والی شامت یاد کرتے ہوئے ہمارا دل خون کے آنسو بہا رہا تھا ۔ "گدھا چلانے کی تمیز نہیں ہے۔ یوں گدھا چلاتے ہیں۔۔؟"  ہم نے بھناتے ہوئے گدھے اور سوار مالک کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ "ارے میاں ! یہ خود ہی رک گیا ہے تم نے دیکھا نہیں کہ میں اسے راستے سے ہٹانے کی کتنی کوشش کررہا تھا۔۔۔؟ گدھے سوار نے بدحواسی کی حالت میں  عجیب  سا جواب دیا۔ " کیا خاک کوشش کر رہے تھے ، دیکھو تمہارے گدھے  کو تو کچھ نہیں ہوا ،ہماری موٹر سائیکل کی کیا حالت ہوگئی ہے۔۔ اور۔۔۔اور دیکھو ہم دونوں کو کتنی چوٹیں لگیں ہیں۔ہم نے اپنی آستین اور شلوار ذرا اوپر اٹھا کر انہیں دکھائی تو خود بھی چکرا گئے کیونکہ واقعی ہم گدھے کی مرہون ِ منت کچھ زیادہ ہی زخمی ہوگئے تھے ۔

"غلطی ہوگئی بچو!مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا ڈھیٹ اور اڑیل ہے۔۔۔۔گدھے کے مالک نے اپنی جان چھڑانے کے سے اندز  میں کہا ۔ "تمہاری غلطی ہوگئی اور ہمارا اتنا انقصان ہوگیا ۔۔۔ہمارا نقصان پورا کردو۔۔۔ورنہ ہم تجھے گدھا  لیجانے نہیں دیں گے ۔ "  ہم نے گدھے کی لگام  مضبوطی سے اپنے قابو میں کرتے ہوئے کہا ۔ یہ سنتے ہی گدھے کا مالک بدحواس ہوگیا اور عاجزی پر اتر آیا ۔ اُ س نے کہا "غلطی ہوگئی ۔ معاف کردو ۔اور اس وقت تو تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔اس نے جان چھڑانے کے سے  انداز میں روہانسی صورت بناتے ہوئے  کہا  ۔ "کچھ بھی ہو ہمارا نقصان پورا کردو ۔

اتنی دیر میں چہل پہل شروع ہوگئی تھی  اور لوگ تفریح اور صلح صفائی کرانے کے لیے آنا شروع ہوگئے ۔سبھی گدھے کے مالک کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ایک لمبی چھڑی والے بابا جی نے کہا چالیس پچاس ہزار کا گدھا لے کر گھوم رہا ہے ،بچوں کا اتنا نقصان ہوا ہے  اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے ۔ نہیں دینا اسے گدھا ۔۔۔جب تک یہ بچوں کا نقصان پورا نہیں کردیتا ۔۔۔اسے گدھا مت دینا ۔۔۔لوگوں کے مشورہ دینے اور ڈھیٹ بن جانے  پر  ہمیں   دلی تسلی  ہوئی اور اطمینان  ہوا کہ لوگوں میں ا بھی  بھی انسانیت باقی ہے ،خیر گدھے کا مالک اب  بھلا کیا کرسکتا تھا ،مجبورً  ا اس نے  ہتھیار ڈال کر  گدھے  کی لگام   ہمارے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا "ٹھیک  ہے ،پکڑو اسے ۔۔۔۔میں ابھی پیسے لاتا ہوں ۔۔۔" یہ کہتے ہوئے  وہ  غصہ ہونے کے بجائے  پاگل سا ہوکر جیسے کہ ہنسنے لگا پھر خراماں خراماں چال چلتے ہوئے آگے بڑھا  اور پھر تیزی سے آگے جا کر گلی میں مڑ گیا ۔

گدھے کی لگام پکڑ کر اب ہمیں قدرے  سکون ہوا ،اب ابو جو کچھ ہمارے ساتھ کریں گے وہ تو دنیا  دیکھے گی  مگر نقصان کا ازالہ ہوجانا یقیناً  سب کو چپ کرا دے گا ۔موٹر سائیکل کا نقصان   کوئی چھ سات سو روپے سے زیادہ نہیں ہوا تھا ۔اب ہمیں اس کے آنے کا انتظار تھا ۔تکلیف بھی اب بڑھنے لگی تھی ۔ دانیال صحیح  سویا نہیں تھا ۔ اس لیے گدھے سے ٹیک لگائے وہ بھی اونگھنے لگا ۔اب وقت تھا کہ کٹنا مشکل ہورہا تھا ۔گدھے کا مالک ابھی تک نہیں آیا تھا ،ہم نے دعائیں بھی بہت کرلی تھیں  اور یہ دعائیں تو خاص  طور پر کر لی تھیں  کہ اللہ کرے  اماں ، ابا  اور سب گھر والے سوتے ہی رہیں ۔ پھر گدھے والے سے پیسے لے کر موٹر سائیکل ٹھیک کروائیں اور لے جا کر گھر میں  کھڑی کردیں ۔کسی کو پتہ نہ چلے مگر وقت تھا کہ بڑھتا اور سورج طلوع ہوتا جا رہا تھا ۔ مگر وہ نہیں آیا ۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد دو موٹر سائیکلوں  پر چار سوار نمودار ہوئے ۔ ابھی وہ کسی طرف جانے ہی والے تھے کہ ہمیں دیکھتے ہی وہ جیسے چیختے ہوئے بولے   ۔۔ "ارے یہ رہا ۔۔۔ان کے لبیک کہنے پر ہم کچھ نہ سمجھے ،،  انہوں نے آتے ہی گدھے کی بلائیں لینا شروع  کر دیں ۔

"یہی ہے۔۔۔ہاں ۔۔ہاں  یہی ہے ۔۔۔" ان صاحب کے کہتے ہی دیگر سوار بھی آگئے ،ان میں سے ایک صاحب نے ہمارے گریبان پکڑ کر کھینچا  اور کہا ۔ "ارے چھچھوندر کے کام تو دیکھو ۔۔۔ اس سے پہلے وہ  ہمیں ہمارا قصور بتائے بغیر پٹائی کرتے ہم نے پہلے ہی بھاں ۔۔۔بھاں  رونا شروع کردیا ۔۔ہمیں روتا دیکھتے ہی چند  لوگ پھر تفریح لینے کے لیے آگئے  تو پتا چلا کہ یہ گدھا رات ہی چوری ہوا  ہے  اور کھوجی  نے یہی نشاندہی کی تھی کہ گدھا قبرستان میں سے  گزرا ہے۔اب ہم تہری مصیبت  میں مبتلا تھے ۔ آج گدھے کے ہاتھوں بُرے پھنسے تھے کئی صاحباں نے ہماری بے گناہی کی گواہی دی مگر ان صاحب نے کسی  کی نہ سنی ۔وہ چھڑی والے بابا  جی بُری مصیبت میں پھنسوا کر واپس نہ آئے اور نہ وہ گدھے والا۔۔خیر اس نے تو  کمبخت  آنا ہی نہیں تھا ،یہ بھی کوئی انسانیت    ہے کہ انہوں نے کسی کی نہیں سنی  اور ہمیں زبردستی تھانے لے گئے  ۔ اُ س روز خدا  کاکرنا ایسا ہوا کہ میں  پولیس والوں کی انسانیت اور خدا کی طرف سے  مدد ملنے پر یقین ہوگیا ۔ انہی پولیس والوں نے ان چاروں  لوگوں اور ہمارے اماں ، ابا کے غضب  سے جان بخشی کرائی ۔ بلکہ نقصان کا خرچہ بھی دلایا ۔انہوں نے کہا شکر کرو کہ گدھا  ہوشیار تھا،   موٹر سائیکل کے سامنے ہی آکر اڑیل بن کر کھڑا ہو گیا ۔ آگے ہی پھاٹک ہے  اگر یہ ریلوے لائین  پر کھڑا ہو جاتا  تو تمہیں اس کی دُم بھی نہیں ملتی ۔ اس روز اماں ،ابا نے تو کچھ نہیں کیا ۔ کہا تو بہت کچھ ۔۔۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگلے ہی ہفتے سالانہ امتحانات  ہونے والے تھے ۔