غزل نمبر6 :۔۔۔۔۔ کہاں کے لالہ و گل ، کیا بہار تو بہ شکن ۔۔۔۔
شاعر: جگر مراد آبادی
جگر مراد آبادی کے اندازِ کلام کی خصوصیات:
سادہ اور سلیس زبان: جگر نے صاف ستھری اورسلیس زبان کا استعمال کیا ہے ۔ وہ مشکل تراکیب کی بجائے زبان کی سادگی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
کلاسیکل غزل شاعری: جگر کا تعلق غزل کے کلاسیکل مکتبہ فکر سے تھا۔ جگر بطور عوامی شاعر مشہور ہوئے اور ان کی وفات کے بعد اُن کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
تشبیہات اور استعارات کا بہترین استعمال: جگر نے اپنے کلام میں تشبیہات اور استعارات کااستعمال بہت خوبصورتی سے کیا ہے ۔
حسنِ تغزل : جگر کی غزل حسنِ تغزل سے بھر پور ہے ۔ محبت کے موضوع کو انہوں نے مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے ۔ مثلاً:
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے ۔۔۔۔۔۔سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
کہاں کے لالہ و گل ، کیا بہار تو بہ شکن
کھلے ہو ئے ہیں دلوں کی جراحتوں کے چمن
شعر نمبر 1تشریح: جگر مراد آبادی اپنی غزل کے اس مطلع میں کہتا ہے کہ باغ میں گُلِ لالہ کھلے ہوئے ہیں ۔ بہار کا موسم جوبن پر ہے۔یہ منظر اس قدر دل فریب اور خوبصورت ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے ۔اس رونق کے پیچھے حقیقت یہ ہے ان پھولوں کی رنگت میں ہمارا خون شامل ہے۔ اسی خون نے باغ کے تمام پھولوں کو خوبصورتی بخشی ہے ۔ ہم نے اپنے خون سے اس چمن کی سینچائی کی ہے یعنی ہم نے بے شمار قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی ہے۔ (مجاز مرسل۔۔۔۔ دلوں کی جراحتوں)
شعر نمبر2:
یہ کس غضب کی محبت نے ڈال دی الجھن
نہ ضبط شوق کا یارا، نہ تابِ عرضِ سُخن
جگر مراد آبادی اپنی غزل کے اس شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی انتہا بھی اپنے اندر ایک انوکھا رنگ لیے ہوئے ہے۔ جب بھی انسان عشق کی وادی میں قدم رکھ لیتا ہے تو اس کا دل عجیب کش مکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں عشق ایسے تڑپ رہا ہوتا ہے کہ وہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ نہ تو وہ اس عشق کو اپنے دل میں چھپا سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے عشق کا بیان دنیا کے سامنے کر سکتا ہے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ تابِ عرض سخن)
شعر نمبر 3:
خلوصِ شوق ، نہ جوشِ عمل، نہ دردِ وطن
یہ زندگی ہے خدایا کہ زندگی کا کفن
تشریح: شاعر جگر مراد آبادی اس شعر میں اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہوئےکہتا ہے کہ جس قوم کے اندر خلوص کا مادہ نہ رہے۔ جس قوم میں آگے بڑھنے کا جذبہ ماند پڑ جائے ۔ اور وہ اپنے اندر سے آگے بڑھنے کی صلاحیت کو ختم کردے ۔ نہ ہی وہ اپنے وطن کے لیے دل میں درد رکھے ۔ تو ایسی قوم زندہ قوم کہلانے کے قابل نہیں ہوتی بلکہ ایسی قوم مردہ قوم کہلاتی ہے ۔ (مجاز مرسل۔۔۔۔ زندگی کا کفن)
شعر نمبر 4:
جمال اس کا چھپائے گی کیا بہار چمن
گلوں سب دب نہ سکی جس کی بوئے پیراہن
شاعر جگر مراد آبادی اس شعر میں اپنے محبوب کےحسن و جمال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب اتنا خوبصورت ہے کہ جیسے موسم بہار میں باغ کی خوبصورتی اپنی انتہا کو ہوتی ہے ۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے پھول مہک رہے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ہے یہ خوبصورتی میرے محبوب کی خوبصورتی کے آگے ماند پر جاتی ہے۔ باغ کے تمام پھولوں کی مہک مل کر بھی میرے محبوب کے لباس کی خوشبو کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ (کنایہ۔۔۔۔ جمال اس کا)
شعر نمبر 5:
وطن ہی جب نہیں اپنا تو پھر کہاں کا وطن
چمن اجاڑ رہا ہوں مگر برائے چمن
یہ شعر شاعر کی تقسیم ہند کی سخت نا پسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاعر کا دل اس تقسیم سے خوش نہ تھا ۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ وطن جہاں اس نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ وہ اس وطن سے محبت کرتا ہے ۔ یہ کیسی آزادی ملی ہے کہ وہ اپنے پرانے وطن کو اجاڑ کرنئے وطن کی طرف جا رہا ہے ۔ وہ اپنے آبائی علاقے کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔ کیونکہ اس سے اس کی پرانی اور پیاری یادیں وابستہ ہیں۔ نئے وطن میں جا کر شاعر کا دل و دماغ ہمیشہ پہلے وطن کی یادوں کی غلامی میں مبتلا رہے گا۔
شعر نمبر 6:
غضب ہے ، قہر ہے انسان کی یہ ابو العجبی خود اپنا دوست بہت کم ، زیاده تر دشمن
اس شعر میں جگر مراد آبادی کہتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔ انسان آیا تو خدا کی عبادت اور مخلوق خدا سے محبت کرنے کے لیےتھا ۔ لیکن افسوس ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے مقصد کو ہی بھول گیا ہے ۔ دنیا داری اور ذاتی منفعت کی سوچ کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے بھلے کو مدِ نظر رکھتا ہے اور دنیا میں فتنہ و فساد کا باعث بن گیا ہے۔ اسے کسی دوسری مخلوق کی دشمنی کا خطرہ نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنا دشمن بن گیا ہے ۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اس نے خدا کی دی ہوئی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ (کنایہ۔۔۔۔ غضب ہےـ قہر ہے)
شعر نمبر 7:
یہ مرحلہ بھی مری حیر توں نے دیکھ لیا
بہار میرے لیے اور میں تہی دامن
اس شعر میں شاعر اپنی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے ہے کہ دنیا میں بہار آگئی ۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پھیل گئی ہیں۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ رہی ہے ۔ در اصل شاعر کی خوشی تو اپنے محبوب کو پانے میں تھی ۔ اس لیے دنیا کی باقی تمام خوشیاں شاعر کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کے لیے تھا مگر وہ خالی ہاتھ رہا اور ابھی تک خالی ہاتھ ہے ۔(کنایہ۔۔۔۔ مرحلہ حیرتوں نے دیکھ لیا)
شعر نمبر 8:
مرا شعور محبت ہے کس لیے ہمہ گوش
اگر نہیں مری جانب کسی کا روئے سخن
اس شعر میں شاعر جگر مراد آبادی اپنے محبوب کی بے رخی اور بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے اس کے محبوب کی ساری توجہ اس کے رقیب کی طرف ہے۔ اس نے کبھی بھی اس کی طرف دیکھنا گوارہ نہیں کیا ۔ اس کی عقل اس بات کو سمجھتی ہے کہ اس کے محبوب کا رُخ اس کی طرف نہیں ۔ مگر پھر بھی اُس کی محبت اسے اس سے باتیں کرنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ اس کے کان اس کی آواز سننے کے منتظر ہیں۔ وہ اسی بات کا منتظر ہے کہ اس کا محبوب اُس سے ہم کلام ہو۔ (کنایہ۔۔۔۔ شعور محبت)
شعر نمبر 9:
مقام عشق کی نیرنگیاں نہ پوچھ جگر
کمال آگہی ، سخت آگہی دشمن
جگر مراد آبادی اس شعر میں عشق حقیقی کو بیان کر دیا ہے۔ غزل کے مقطع میں شاعر مقام عشق کے اسرار و رموز بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب انسان عشق کے تمام بھید اور بلندیوں سے آگاہ ہو جاتا ہے تب بھی وہ مطمئن نہیں ہوتا ۔وہ عشق کی معراج کو پانے کے لیے ہمیشہ جستجو میں بے قرار رہتا ہے۔ یہی عشق کی جادوگری ہے ۔ ایک منزل کے بعد دوسری منزل کا سفر اور انسان کہیں مطمئن ہو کر ٹھہر نہیں سکتا۔ انسان جہاں تک بھی پہنچ جائے وہ یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ شاہد وہ اللہ تعالی کے اور زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ مقام عشق)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔