اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

نظم : حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنھا شاعر: حفیظ جالندھری

نظم      :    حضرت اُمِ عمارہ  رضی اللہ عنھا

موضوع  کے اعتبار سے  یہ نظم  " رزمیہ قصیدہ" ہے۔

ساخت /بناوٹ/ہئیت کے لحاظ سے نظم کی قسم  "مثنوی "ہے۔

سوال نمبر 1:شاعر حفیظ جالندھری  کے اندازِ کلام کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

جواب:

     ترنم اور موسیقیت:  حفیظ جالندھری کے کلام میں ترنم اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔   انکی اس خوبی  نے ان کے کلام کو تازگی، دلکشی اور دلآویزی عطا کی ہے۔

    سوزو گداز: انکی شاعری میں سوزو گداز  پایا جاتا ہے جو اشعار کو پر اثر بنا دیتا ہے۔اس لیے ان کا کلام دل سے نکلتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔

     قافیہ بندی اور تراکیب کا  خیال:  انھوں نے اپنے کلام میں  متوازن قافیہ بندی  اور فنکارانہ تراکیب کا خاص خیال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے انکی نظموں میں جدت اور تنوع   دکھائی دیتا ہے۔

سوال نمبر 2: نظم "حضرت اُمِ عمارہ  رضی اللہ عنھا" کا مرکزی خیال  اس طرح تحریر کریں کہ شاعر کا  حضرت اُمِ عمارہ کو موضوع بنانے کا مقصد واضح ہو جائے۔

جواب: اس نظم   میں شاعر حفیظ جالندھری نے تاریخِ اسلام کی بہادر خاتون  حضرت اُمِ عمارہ کے کارناموں  کو بیان کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ پیارے رسولﷺ سے سچا پیار اور عشق ہو تو عورتیں بھی جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر مردوں کے شانہ بشانہ جنگوں میں دشمن  کا مقابلہ کرتی ہیں اور بہادری کے جوہر دکھاتی ہیں۔ حضرت اُمِ عمارہ کی طرح اسلام کی راہ میں اپنے خاوندوں اور بیٹوں کو قربان کرنے کیلیے تیار رہتی ہیں۔ یہی  جرات و بہادری  اور قربانی کا جذبہ جب مسلمان مائیں اپنے بچوں کو وراثت میں دیتی ہیں تو وہ اسلام کے عظیم سپہ سالار بنتے ہیں۔ انھی بہادر عورتوں سے وہ نسل چلتی ہے جو غازی یا شہید کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کر کے احیائے اسلام کا موجب  بنتی ہے۔

تشریح نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ ۔۔۔

شعر نمبر 1:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب اُحد کے میدان میں جنگ کا پانسا پلٹ چُکا تھا  اور ایک غلطی سے فتح، شکست میں تبدیل ہوگئی تھی۔ شکستہ دل مسلمانوں میں انتشار اور بدنظمی پھیلی ہوئی تھی۔ زخموں سے چُور قریش سے تعلق رکھنے والے دو صحابہ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، نبی کریمﷺ کو اپنے حصار میں لیے شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کررہے تھے۔ان میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی خدمات سب سے نمایاں تھی۔ آپ نے اس غزوہ میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر آنحضورﷺ کی حفاظت کی تھی۔

شعر نمبر 2:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں  شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت اُمِّ عُمارہؓ رضی اللہ تعالی عنہا کی بہادری کو سلام پیش کر رہا ہے۔  غزوہ اُحد میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کی نمایاں  خدمات کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے  کہ اسلام کی خاطر یہ بہادر خاتون اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شامل تھیں اور آنحضورﷺ کی اجازت سے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور پانی پلانے کا کام انجام دے رہی تھیں۔

: شعر نمبر 3:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب آنحضورﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور آپ پر دین کے دشمن پے در پے وار کرنے لگے تو اس صورتحال میں  حضرت اُمِّ عُمارہؓ اور دیگر چند صحابہ ڈھال بن کر آپ کی حفاظت کرنے لگے۔

 شعر نمبر 4:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ غزوہ احد میں جب آنحضورﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے پانی پلانے کا کام چھوڑا، پانی سے بھری مشک رکھ دی اور براہ راست دشمن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ دشمن کا بہادری سے مقابلہ کیا اور آپﷺ کی جان کی حفاظت کرنے لگیں۔ حضورﷺ کے چاروں جانب آگے بڑھ بڑھ کر کفّار پر وار کرکے اُنہیں حضورﷺ کے قریب آنے سے روکتی رہیں۔

شعر نمبر 5:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس  شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ، غزوہ احد میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ نہ صرف خود اس جنگ میں شامل تھیں بلکہ ان کا شوہر اور ان کے بیٹے بھی اللہ کی راہ میں میں لڑ رہے تھے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار تھے۔  آنحضرتﷺ کی جان کی حفاظت اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر اللہ کے یہ بہادر سپاہی دشمن سے بر سرِ پیکار تھیں۔

 شعر نمبر 6:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں ایک وقت ایسا آیا جب مسلمان پسپا ہوگئے تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ  نہایت بہادری کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں شامل ہوگئیں۔ وہ آنحضورﷺ کے دائیں بائیں آگے پیچھے رہتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرنے لگیں اور آپ کی ڈھال بن کر آپ  کی جان کی حفاظت کی۔

 شعر نمبر 7:

نظم اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں جب حضرت محمدﷺ پر دشمن پے درپے وار کرنے لگا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے ہر ممکن طریقے سے آپ کی حفاظت کی۔ کوئی حملہ یا دشمن کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے دیتی تھیں۔ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے تمام زخم اپنے جسم پر سہہ لیتی تھیں لیکن آنحضورﷺ تک اس حملے یا وار کو نہ جانے دیتی تھیں۔

 شعر نمبر 8:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں لڑائی کے دوران جب کفار کو یہ محسوس ہوا کہ آنحضورﷺ اکیلے رہ گئے ہیں اور آپ کی حفاظت کے لیے صرف ایک نہتی خاتون رہ  گئی ہے تو اچانک ایک کافر عبداللہ بن قمیہ نے آپﷺ پر وار کردیا۔ حضرت اُمِّ عُمارہؓ  نے لپک کر پیچھے سے اُس پر وار کیا، تو وہ واپس پلٹا اور ا ن پر حملہ کردیا، جس سے اُن کی گردن پر گہرا زخم ہو گیا۔ مگر اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر  اس  دلیر خاتون  نے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے پیغمبر آنحضورﷺ کو بچانے کے لیے آگے بڑھ کر اس کے حملے کو روکا۔

 شعر نمبر 9:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد کے دوران جب آنحضورﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور دشمن آپ پر حملہ کرنے لگا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ اگرچہ اس وقت ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا خالی ہاتھ تھیں۔ لیکن انھوں نے ایک دشمن کے بازو کو مروڑ کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور اسی سے اس کا مقابلہ کرنے لگیں۔

 شعر نمبر 10:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں  شاعر حفیظؔ جالندھری  حضرت عمارہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں جب  ایک دشمن سپاہی آنحضورﷺ  پر حملہ کر نے لگا تو حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے آگے بڑھ کر اس دشمن سے تلوارچھین لی اور اسی تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔آپ کی اس جرات و بہادری کو دیکھ کر دشمنوں کی صفوں میں خوف کی وجہ سے سناٹا چھا گیا۔

 شعر نمبر 11:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ  کے شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ احد کے میدان میں جب اللہ کے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور آنحضورﷺ جس طرف بڑھتے آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے رہتے ہوئے حضرت اُمِّ عُمارہؓ نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر آپ کی حفاظت کرنے کی کوشش کی۔

 شعر نمبر 12:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غزوہ احد میں انھوں نے بہادری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ لڑائی کے دوران ان کے جسم پر تیرہ کے قریب زخم آئے  لیکن وہ بے حوصلہ نہیں ہوئیں۔ نہ ہی ان کے قدم ڈگمگائے آئے بلکہ اسی جوش و جذبے کے ساتھ اللہ کی رضا کی خاطر میدان جنگ میں موجود رہیں۔

 شعر نمبر 13:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی غزوہ احد میں خدمات کو سراہتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ بہادر خاتون نماز فجر کے وقت بیدار ہوئی تھیں۔  اس وقت سے لیکر دن ڈھلنے تک میدان جنگ میں موجود رہیں۔ نماز ظہر کا وقت ہونے کو آیا تھا مگر یہ تلوار ہاتھ میں تھامے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اسلام کی راہ میں دشمن سے برسرِ پیکار تھیں۔ ان کے چہرے پر نہ کوئی تھکن کے آثار تھے نہ ہی ان کا حوصلہ پست ہوا تھا۔

 شعر نمبر 14:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی غزوہ احد میں خدمات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتا ہےکہ میدان جنگ میں حضرت اُمِّ عُمارہؓ کی بہادری کے اعلیٰ نمونے دیکھ کر کر آسمان پر فرشتے بھی حیران ہو رہے تھے۔ کیوں کہ جس جرات و بہادری کے ساتھ یہ خاتون اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دشمن سے صف آرا  تھیں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ نہ صرف یہ خود لڑائی میں شامل تھیں بلکہ ان کا شوہر  اور ان کے بیٹے بھی اپنی جان، مال اور عزت اسلام کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔

 شعر نمبر 15:

نظم حضرت اُمِّ عُمارہؓ کے اس شعر  میں شاعر حفیظؔ جالندھری حضرت اُمِّ عُمارہؓ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حضرت اُمِّ عُمارہؓ جیسی مائیں ہیں جن کی اعلی تربیت اور بہادری کے عملی نمونے کی وجہ سے ایسی اولاد پرورش پاتی ہے جو اسلام کی سربلندی اور فروغ کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دیتے ہیں۔ یہی  جرات و بہادری  اور قربانی کا جذبہ جب مسلمان مائیں اپنے بچوں کو وراثت میں دیتی ہیں تو وہ اسلام کے عظیم سپہ سالار بنتے ہیں۔ انھی بہادر عورتوں سے وہ نسل چلتی ہے جو غازی یا شہید کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔ اسلامی تاریخ ایسے کئی بہادر سپہ سالاروں اور جرنیلوں سے بھری پڑی ہے جن کے والدین کے اعلیٰ عملی نمونوں نے انھیں یہ مقام دلایا اور وہ احیائے اسلام کا موجب بنے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔