ایک حرف ایک کہانی
"الف کی اُلجھن"
الف ایک عام آدمی تھا، مگر اُسے ایک
عجیب مسئلہ تھا—جہاں بھی جاتا، اُسے الف سے شروع ہونے والے لفظ ہی یاد آتے۔ اُس کی
بات چیت، اُس کے خیال، سب الف کے اردگرد گھومتے۔ لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے، مگر وہ
اپنی عادت سے باز نہ آتا۔
ایک دن، اُس نے ارادہ کیا کہ وہ
اپنے علاقے کے عقلمند آدمی، "استاد اکرم" کے پاس جائے گا اور اپنی
اُلجھن کا حل پوچھے گا۔ استاد اکرم ایک آرام دہ آنگن میں آرام کر رہے تھے جب الف
اُن کے پاس پہنچا۔
الف نے آہ بھرتے ہوئے کہا،
"استاد! ایک عجیب آزمائش میں اُلجھا ہوں۔ اگر آپ آسان علاج بتا دیں، تو ہمیشہ
احسان مند رہوں گا۔"
استاد اکرم نے آنکھیں موند کر
مسکراتے ہوئے پوچھا، "اچھا، تمہاری آزمائش کیا ہے؟"
الف بولا، "ابا کہا کرتے تھے
کہ آدمی کو اچھے انداز میں اظہار کرنا چاہیے، مگر میرا اظہار ہمیشہ الف کے اردگرد
اٹک جاتا ہے۔ اگر آپ اصلاح کر دیں تو آسانی ہو جائے۔"
استاد اکرم ہنس پڑے، "ارے
بھئی، الفاظ پر اتنا قابو پانے کی کیا ضرورت؟ اگر آسان الفاظ اپناؤ گے، تو بات بھی
آسان ہو جائے گی۔ آزاد ہو جاؤ، الف سے آگے بھی الفاظ ہیں!"
الف نے ایک لمحے کو سوچا، پھر
اپنا سر ہلایا، "آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، استاد! اب میں آزاد الفاظ کا
انتخاب کروں گا، الف کی قید سے نکلوں گا اور آسان زبان میں بات کروں گا۔"
یہ کہہ کر، وہ خوشی خوشی آگے بڑھ
گیا، اور اُس کی اُلجھن ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔
"ب" کی بپتا
ببلو بھائی بٹیر بازی کے بےحد
بےتاب بندے تھے۔ بچپن میں بندر پالنے کا بھی بےحد شوق تھا، مگر بےچاری بی اماں کی
بددعا سے بندر بھاگ گیا۔ بچا کھچا دل بہلانے کے لیے ببلو بھائی نے بٹیر پالنے کا بیڑہ
اٹھا لیا۔
ببلو بھائی کی بیٹھک بٹیروں کے بسیرے
میں بدل چکی تھی۔ بٹیر بازی میں بدنامی بھی بڑی بری بلا ہے، مگر ببلو بھائی باز نہیں
آتے تھے۔ بےچینی سے بٹیر باندھتے، بیچتے، بچاتے، پھر بھی بےباکی برقرار رکھتے۔
ایک بار ببلو بھائی کو بڑی بازی
کا بلاوا آیا۔ بہاول پور کے بابر بھائی نے بٹیر بازی کا بڑا بندوبست کیا تھا۔ ببلو
بھائی بےحد بےتاب ہوئے، بستہ باندھا، بٹیر بس میں بٹھائے، بہاول پور پہنچ گئے۔
بازی بڑی بےمثال تھی۔ ببلو بھائی
کے بہترین بٹیر بابر بھائی کے بہادر بٹیر سے بھڑ گئے۔ بےدریغ بےقابو بٹیر بغل گیر
ہو گئے، بال و پر بکھر گئے، بےچارے ببلو بھائی بدحواس ہو گئے۔ بلبل بھائی بےحد
بدمزہ ہوئے، بولے:
"ببلو بھائی، بٹیر بازی بےکار بکھیڑا ہے، بہتر ہے بکریاں پال
لو!"
ببلو بھائی نے بات بُری تو نہیں
مانی، مگر بکریاں پالنا بٹیر بازی جیسا بےتابانہ تجربہ نہ تھا۔ بالآخر ببلو بھائی
برگر بیچنے لگے، بس پھر کیا تھا، بٹیر برگر بننے لگے!
پپّو کی
پتنگ
پپو پتنگ بازی کا شوقین تھا۔ ایک
دن وہ پارک میں پتنگ اڑا رہا تھا کہ اچانک پتنگ پتوں میں پھنس گئی۔ جب پپو پتنگ
نکالنے گیا، تو اسے پتوں کے نیچے ایک پرانا پرچہ پڑا ملا۔
پرچے پر پُراسرار پیغام لکھا تھا:
"پہاڑی کے پیچھے پتھر کے پاس پُرانی پٹاری پڑی ہے۔ پٹاری
کھولو، پر پہلے پہیلی حل کرو!"
پپو نے پرچہ پکڑا اور پہاڑی کی
طرف دوڑ پڑا۔ پہاڑی پر پہنچ کر اسے پتھر کے پیچھے واقعی ایک پُرانی پٹاری ملی۔
پٹاری پر ایک پہیلی لکھی تھی:
"پانی میں پڑوں تو پیوں، پکڑو تو نہیں رہوں۔ پہچانو، میں
کون؟"
پپو نے پہیلی پر بہت سوچا، پھر
پرجوش ہو کر بولا، "یہ تو پرچھائیں ہے!" جیسے ہی اس نے جواب دیا، پٹاری
کھل گئی!
اندر پرانے پیسے، پتھر کے سکے اور
پیاری پرچیاں پڑی تھیں۔ پرچی پر لکھا تھا:
"پپو! تم بہت ذہین ہو۔ یہ پرانا پٹارا پرانی پہیلیوں کا
خزانہ ہے۔ اسے پڑھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ!"
پپو خوشی سے پتنگ پکڑ کر پلٹ آیا
اور اپنے پتنگ باز دوستوں کو پٹاری کی پوری پہیلی سنائی۔ سب ہنسنے لگے، اور پپو پہیلیوں
کا پہلوان بن گیا!
تنویر کی تختی
ایک تھا توتلا تاجر، نام تھا تنویر،
تجارت میں تھا طاق، مگر تقدیر تھی تند و تیز۔ تنویر نے تیل کا تذکرہ سن کر ترکی سے
تجارت کا تہیہ کر لیا۔ تختی پر "تنویر تیل ٹریڈرز" تحریر کروا دی اور تین
تنومند ترکی تاجروں سے تماثیل کی طرح تیل کے تین ٹینکر خرید لیے۔
تقدیر کا تماشا دیکھیے! تینوں ٹینکر
تباہ ہوگئے—پہلا تیز طوفان میں، دوسرا تپتی تندی میں، اور تیسرا تیز رفتار ٹرک سے
ٹکرا کر۔ تنویر تلملا اٹھا، تمتماتا چہرہ لیے تکیے میں منہ دے کر تڑپنے لگا۔
تھوڑا توقف کیا، پھر تیز تیز تسبیح
گھماتے ہوئے توبہ کی اور تہیہ کیا کہ تلخ تجربے کے بعد ترکیب تبدیل کرے گا۔ تبھی
ترکی سے تار آیا: "تجربہ تمہارا تھا، تعلیم ہماری، تمھیں تجارت تحفے میں دی
جاتی ہے!"
تنویر تیزی سے تہہ خانے میں گیا،
تحائف تولے، ترکیب بدلی، اور تندہی سے کام میں لگ گیا۔ تقدیر نے پھر تغیر کیا، اور
تنویر ترقی کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔
لوگوں کو آج تک معلوم نہیں ہوا کہ
یہ تقدیر کا تماشا تھا، یا تنویر کی تدبیر؟
ٹماٹر، ٹوپی اور ٹرین
ٹُن ٹُن ٹرین کے اسٹیشن پر ٹوپی
پہنے ٹیٹو چاچا ٹھنڈی ٹھنڈی ٹھنڈائی پیتے بیٹھے تھے۔ اچانک ایک ٹھیلوں والا ٹماٹر
بیچتا آیا۔
"ٹماٹر لے لو! تازہ ٹماٹر!" وہ ٹوٹی پھوٹی آواز میں
چلّایا۔
ٹیٹو چاچا نے ٹھنڈی سانس لی اور
ٹھیلے والے کو ٹوکتے ہوئے کہا، "ٹماٹر تو ٹھیک ہیں، مگر تمھاری آواز تو کسی
ٹُوٹے ہوئے ٹین کے ڈبّے جیسی ہے!"
ٹھیلوں والے نے ترکی بہ ترکی جواب
دیا، "چاچا! آپ کی ٹوپی میں تو ٹڈیوں کا جھنڈ چھپا بیٹھا ہے!"
یہ سن کر ٹیٹو چاچا تلملا گئے،
مگر پھر ٹہلتے ہوئے ٹھیلے سے کچھ ٹماٹر خرید لیے اور ٹرین کے ٹکٹ کی ٹوہ میں نکل
پڑے۔
مگر قسمت تو ٹالنے سے نہیں ٹلتی۔
ٹکٹ کھڑکی پر پہنچے تو پتا چلا کہ ٹرین چھوٹ چکی تھی!
"ٹُھس!" وہ سر پکڑ کر بولے، "اب ٹُک ٹُک دیکھنے کے
علاوہ کوئی چارہ نہیں!"
اور یوں ٹوپی میں ٹڈیوں کا جھنڈ
اور ہاتھ میں ٹماٹر لیے، ٹیٹو چاچا اسٹیشن پر بیٹھے رہ گئے، اور ٹرین کا دھواں دور
افق میں گم ہو گیا۔
ثاقب کاثمر
ثاقب ایک دن سوچنے لگا کہ آخر نیکی
کا ثواب کیسے ملتا ہے؟ ثریا بیگم، جو اس کی نانی تھیں، اکثر کہتی تھیں: "بیٹا،
ثواب ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے میں ہے!" مگر ثاقب کو ہمیشہ جلدی ہوتی تھی، وہ
سوچتا تھا کہ کوئی ایسا آسان نسخہ ہو جس سے زیادہ سے زیادہ ثواب کمایا جا سکے، بغیر
زیادہ محنت کے۔
ایک دن ثاقب کے دوست ثمر نے مشورہ
دیا: "دیکھو بھئی، ثواب چاہیے تو کسی نیکی کے کام میں حصہ ڈال دو، جیسے ثمرین
خالہ کی تھیلی میں راشن رکھوا دو، یا ثقلین چچا کے ثواب کے لیے دعا کر دو۔"
ثاقب نے سر ہلایا، مگر اسے لگا کہ
اس سے کچھ خاص ثواب نہیں ملے گا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ کچھ بڑا کیا جائے؟ چنانچہ
اس نے ایک ترکیب سوچی۔
اس نے گھر میں سب کو بتایا کہ وہ
ایک "ثواب فنڈ" بنا رہا ہے، جس میں سب کو اپنی جیب سے کچھ نہ کچھ ڈالنا
ہوگا، تاکہ وہ اس سے نیکی کے کام کرے۔ سب نے حیرانی سے اسے دیکھا، مگر ثریا بیگم
نے خوش ہو کر کہا، "واہ بھئی! یہ تو زبردست خیال ہے!"
ثاقب بہت خوش ہوا، مگر پھر ثانیہ
آپا نے پوچھا، "مگر تم اس فنڈ کا کرو گے کیا؟"
یہ سن کر ثاقب تھوڑا گڑبڑا گیا، کیونکہ
اس نے اس بارے میں نہیں سوچا تھا! جلدی سے بولا، "وہ... ہم ثواب کے لیے ثقیل
کتابیں خریدیں گے، تاکہ سب ان سے کچھ سیکھیں!"
ثمر نے فوراً کہا، "ارے بھائی،
ثواب کا مطلب ہے دوسروں کی مدد کرنا، کتابیں خرید کر اپنی الماری بھرنا نہیں!"
یہ سن کر سب ہنسنے لگے اور ثاقب
کو بھی سمجھ آ گئی کہ اصل ثواب نیت کی سچائی میں ہوتا ہے، نہ کہ چالاکی میں۔ آخر میں
سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اس فنڈ سے واقعی کسی ضرورت مند کی مدد کریں گے، اور یوں
ثاقب کو نیکی کا اصل مفہوم سمجھ آ گیا۔
نتیجہ:
ثواب حاصل کرنے کے لیے صرف ترکیبیں
نہیں، بلکہ نیک نیتی اور سچی خدمت کا جذبہ بھی ضروری ہے!
جمیل کا جوتا
جمیل جلد باز تھا۔ جو چیز جَچ جاتی،
جھٹ سے جَنبش میں آجاتا۔ ایک دن جنگل کے جَنگلے کے قریب، جہاں جبار جوتے بیچ رہا
تھا، جمیل جا پہنچا۔
"جناب! جدید جوتے ہیں، جَلدی خرید لو!" جبار نے جوتا
جھاڑ کر جمیل کی جانب بڑھایا۔
جمیل نے جُھٹ سے جوتے جَیب میں
ڈالے، پیسے پکڑائے، اور جَھٹ پٹ جُوتے پہن کر جَنگل کی طرف چل دیا۔ جمیل کا جُوش
جَوبن پر تھا، لیکن جیسے ہی جُوتے کی جَگہ جَلدی میں بدلی گئی جوڑی کا راز کھلا،
جمیل کی جان جَنجال میں پھنس گئی۔
اچانک، جھاڑیوں میں جنبش ہوئی۔
جنگل کی جَھونپڑی میں چھپا جُرم پیشہ جَاوید اپنے جَتھے سمیت باہر آیا۔ جمیل کے
چمکتے جوتے دیکھ کر جَاوید جَھٹ سے بولا، "جناب! جوتے جبار سے لیے ہیں؟"ْ
جمیل جَھجھک کر بولا، "جی،
جَلدی میں خریدے، جَچ گئے!"
جَاوید جَھٹ پٹ جَھپٹا مار کر
بولا، "یہ جُوتے جَعل سازی کے لیے جانے جاتے ہیں! جبار جُرم میں جَکڑا ہوا
ہے، جَھوٹے جوتے بیچ کر جیب کاٹتا ہے!"
جمیل جَھٹ سے جُوتے اُتارنے لگا،
لیکن جَاوید کا جتھا جَھنڈے کی طرح اس پر جَھپٹ پڑا۔ جمیل کی جان جُنبش میں آ گئی،
جَنگل میں جَھاڑیوں کے پیچھے جَھپٹ کر بھاگنے لگا۔ جَاوید اور اس کے جَتھے نے
جَملہ کسا، "جلد باز انسان جَھوٹے جوتے کے ساتھ جَھانسے میں ہی جَیتا ہے!"
جمیل جُھنجھلا کر سوچنے لگا،
"جَلد بازی کا انجام ہمیشہ جَنگ، جَھپٹ اور جَھگڑے میں ہی نکلتا ہے!"
چالاک چوہا
چم چم کرتی چاندنی رات تھی۔ چوہا
چاچا چندن چاولوں کے چکر میں چپکے سے چوہدری چراغ دین کے چوبارے میں چلا گیا۔ چوری
چھپے چمچوں میں چاول چکھنے ہی والا تھا کہ چوہدری کی چنچل بلی چشم زدن میں چوکنے
ہو کر چھلانگ لگا بیٹھی۔
چوہے نے چالاکی دکھائی، چکمہ دے
کر چولہے کے پیچھے چھپ گیا۔ بلی چکرا گئی، چاروں طرف چکر کاٹنے لگی۔ چوہا چپکے سے
چنگیر کے نیچے چلا گیا، بلی چنگھاڑ کر چنگیر پر چڑھ بیٹھی۔ چوہے نے چالاکی سے چنگیر
ہلائی، بلی چرخی کی طرح چکر کھا کر چٹائی پر چت جا پڑی۔
چوہا چین سے چاول چبا کر چمکتا
ہوا چور دروازے سے چھلانگ لگا کر چل دیا، اور بلی چپ چاپ چوتھی بار اپنی قسمت کو
چبانے لگی!
حاجی حلوائی
حلوہ پکانے میں حاجی حلوائی ہمیشہ
حد سے زیادہ محنت کرتے تھے۔ حکمتِ حلوائی یہ تھی کہ حلوہ ہمیشہ حلیم حوصلے اور حیرت
انگیز حسنِ ذائقہ سے بنایا جائے۔
حاجی حلوائی کی حویلی ہمیشہ حلوے
کی خوشبو سے مہکتی تھی۔ حاجی صاحب ہر حریف کو حیران کر دیتے۔ ہر خاص و عام ان کے
ہاتھ کے بنے حلوے کا حامی تھا۔ حلوہ مانڈے کی ہر محفل میں حاجی حلوائی کی حکمرانی
ہوتی۔
ایک دن حاجی صاحب نے حلوہ پکانے
کے لیے خاص حکمت عملی بنائی۔ حلوہ بنانے کی حالت میں حاجی صاحب کے ہاتھ حلوے میں ایسے
دھنسے کہ ہاتھوں کا حال خراب ہوگیا۔ حالانکہ ہاتھ دھونے کی حاجت تھی، مگر حاجی
صاحب ہاتھ جھاڑ کر حلوہ تقسیم کرنے لگے۔
حلوہ کھاتے ہی حاضرین حیران ہو
گئے۔ کسی نے پوچھا، "حلوے میں یہ خاص حیرت انگیز حدت کہاں سے آئی؟"
حاجی صاحب ہنس کر بولے، "حقیقت
یہ ہے کہ حلوے میں ہاتھوں کی حرارت بھی شامل ہو گئی!" حاضرین نے حلوہ کھاتے ہی ہاتھوں پر ہاتھ مار
کر کہا، "حاجی حلوائی! آپ کا حلوہ حقیقتاً حد سے زیادہ حیرت انگیز ہے!"
خرگوش کا خواب
خرم خرگوش خود کو بہت خوش فہم
سمجھتا تھا۔ کھیت میں خراماں خراماں گھومتے ہوئے
خود کو جنگل کا سب سے خوش نصیب
جانور خیال کرتا۔ خالص غذا، خوبصورت کھال، اور خطرے سے خالی زندگی—یہ سب کچھ اس کے
پاس تھا۔
ایک دن، خرم خرگوش نے خواب دیکھا
کہ وہ ایک خاص خلائی خرگوش بن چکا ہے! خواب میں، وہ خلائی خول پہن کر خلا میں گھوم
رہا تھا۔ وہاں خوبصورت کہکشائیں تھیں، اور ستارے جگمگا رہے تھے۔ خرم بہت خوش ہوا،
لیکن اچانک خلائی خلل پیدا ہوگیا! خلا میں خطرناک خلائی خچر نمودار ہوا، جس کے
دانت خوفناک تھے۔
"خرم میاں! خواب دیکھنا چھوڑو، خطرہ قریب ہے!" ایک خفیہ
خلائی آواز سنائی دی۔
خرم ہڑبڑا کر جاگ گیا اور دیکھا
کہ خواب کی جگہ حقیقت میں، کھیت میں ایک خوفناک کھلونا خچر رکھا تھا، جو ہوا سے ہل
رہا تھا۔ خرگوش نے خجل ہو کر خود کو سنبھالا اور سوچا: "خواب دیکھنا اچھا ہے،
مگر حقیقت میں ہوشیار رہنا ضروری ہے!"
اور یوں، خرم خرگوش نے خوابوں کے
ساتھ ساتھ حقیقت پر بھی دھیان دینا سیکھ لیا۔
درخت سے دوستی
دادو دادا درختوں سے دلی محبت
رکھتے تھے۔ دن بھر درختوں کے نیچے بیٹھ کر داستانیں سناتے اور دعا کرتے کہ دنیا میں
درخت دن بدن بڑھتے رہیں۔ دادو کی درختوں سے دوستی دیکھ کر دلاور، دانیہ اور دانیال
بھی درختوں کے دیوانے ہو گئے۔
ایک دن دادو نے دہی کھاتے ہوئے
دلاور سے کہا، "بیٹا! درخت دنیا کے دل ہیں، درختوں کے بغیر دنیا دم توڑ دے گی!"
دلاور نے دہی کا دوسرا نوالہ دہن میں ڈالتے ہوئے دادو سے دریافت کیا، "یہ
درخت دن میں دھوپ اور رات میں دھیما سکون دیتے ہیں، مگر دادو! درخت دن بھر کھڑے کھڑے
تھکتے نہیں؟"
دادو نے درخت کے تنے پر ہاتھ
رکھتے ہوئے دلنشین انداز میں جواب دیا، "بیٹا! درخت دُکھی نہیں ہوتے، دوسروں
کو دھنک جیسے خواب دیتے ہیں، دنیا کو دمکتا ہوا دامن عطا کرتے ہیں۔ درخت دینا
جانتے ہیں، لینا نہیں!"
دانیہ بولی، "دادو! درختوں
کو دعا دینی چاہیے یا دوانی؟" دادو مسکرا کر بولے، "دعا دو، دوا دو، دھیان
دو، درختوں سے دوستی کرو، درختوں کو دماغ میں بٹھاؤ اور دنیا کو دلکش بناؤ!"
دانیال نے درخت کے دائرے میں دوڑ
لگاتے ہوئے دلاور سے کہا، "چلو، درختوں کے درمیان دوستی کا دن مناتے ہیں!"
دلاور نے درخت کو گلے لگاتے ہوئے دھنک دار آواز میں کہا، "درختو! دعا ہے کہ
دنیا میں دن بدن تمہاری دولت میں اضافہ ہو!"
دادو نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے
بلند کیے اور مسکرا کر بولے، "دعا ہے کہ درختوں کی دولت سے دنیا دمکتی رہے!"
ڈاکٹر کے ہاتھ میں ڈنڈا
ڈھلتی رات کا وقت تھا، دسمبر کی
دھند نے پورے علاقے کو ڈھانپ رکھا تھا۔ دور درختوں کی ڈالیاں خوفناک سائے بنا رہی
تھیں۔ ڈاک بنگلے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ دھیرے سے کھلا، اندر ایک دبلا
پتلا آدمی کھڑا تھا— ڈاکٹر داؤد!
ڈاکٹر کے ہاتھ میں ایک لمبا ڈنڈا
تھا، جسے وہ بار بار زمین پر مار رہا تھا۔ دروازے پر کھڑے آدمی نے دھیمی آواز میں
کہا، "ڈرنے کی ضرورت نہیں، دوا چاہیے!"
ڈاکٹر نے درشت لہجے میں پوچھا،
"کون ہو؟"
آدمی نے دھیرے سے جواب دیا،
"دلاور!"
ڈاکٹر کی آنکھوں میں درد ابھر آیا۔
"دلاور؟ وہی دلاور جسے دس سال پہلے مردہ قرار دیا تھا؟"
دلاور کے ہونٹوں پر ایک ڈراؤنی
مسکراہٹ ابھری۔ "میں مر گیا تھا، مگر ڈاک میں جو رپورٹ آئی تھی، وہ دھوکہ تھی!"
ڈاکٹر کے ہاتھ سے ڈنڈا گرنے لگا۔
دروازے کی درز سے دادی اماں نے جھانکا، دل دہل گیا۔ "یہ دلاور نہیں، دھوکہ
ہے!" دادی نے چیخ کر کہا۔
ڈاکٹر نے دروازہ بند کرنا چاہا،
مگر دلاور نے دھکا دے کر اندر قدم رکھ دیا۔ "اب دیر ہو گئی، ڈاکٹر! دوا نہیں،
بدلہ لینے آیا ہوں!"
دھپ کی آواز آئی… دروازہ بند ہوا…
اور ڈاک بنگلے میں ہمیشہ کے لیے خاموشی چھا گئی۔
ذخیرہ لگا ذیشان کے ہاتھ
ذیشان کے ذہن پر شدید دباؤ تھا۔ وہ زمین
کھود رہا تھا، پسینے سے شرابور، سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ ذرائع سے ملی
معلومات کے مطابق، یہاں ایک خفیہ ذخیرہ دفن تھا— دولت یا شاید کچھ اور…
ذرا دیر بعد ذیشان کے ہاتھ کسی
سخت چیز سے ٹکرائے۔ "ذرا اور گہرا کھودو!" اس کے دل نے سرگوشی کی۔ جلد ہی
زمین سے ایک زنگ آلود ذخیرہ دان برآمد ہوا۔ ذیشان نے جھٹ سے ڈھکن ہٹایا۔
اندر ذرا ذرا سی روشنی میں چمکتے
سکے، زیورات اور زرد کاغذات نظر آئے۔ "ذرا سوچو، اتنی دولت؟" دل نے
دھڑکنا تیز کر دیا۔ مگر… کاغذات پر لکھی تحریر نے اس کا دل دہلا دیا:
"ذیشان! اگر تُو نے یہ ذخیرہ چُھوا، تو زندگی بھر ذلت تیرا
مقدر ہوگی!"
ذیشان نے گھبرا کر اردگرد دیکھا،
دھند سی پھیلی ہوئی تھی، فضا میں ایک ذومعنی خاموشی تھی۔ اچانک، زمین کے اندر سے
کسی کے چلنے کی ذیلی آواز ابھری۔ "ذیشان!" کوئی سرگوشی کر رہا تھا۔
ذیشان کا ذہن سن ہو گیا، ہاتھ سے
ذخیرہ دان چھوٹ گیا۔ "یہ کیسا جال تھا؟" وہ ذرا سی ہمت کر کے پیچھے ہٹا،
مگر پیر کسی چیز سے الجھا…
دھڑام!
ذیشان ذخیرے کے گڑھے میں گر چکا
تھا۔ فضا میں بس اس کی آخری چیخ گونج رہی تھی، اور زمین پر زرد کاغذات دھیرے دھیرے
اُڑ رہے تھے…
ریل کہانی
رات روتی رہی، رم جھم بارش رہ رہ
کر رُک جاتی، پھر راگ الاپتی۔ ریل گاڑی راولپنڈی روانہ ہونے کو تیار تھی۔ رستم ریاض،
روہیل اور رفیق راستے بھر ریزہ ریزہ یادوں کے رُو برو رہے۔ روہیل رک رک کر
رازدارانہ لہجے میں رستم سے رہ رہ کر راحیلہ کا ذکر کر رہا تھا، مگر رستم رہائی کی
راہ تک رہا تھا—کسی رنج، کسی ردِ عمل سے بےنیاز۔
راحیلہ! رعنا، روشن، رقاصہ سی
روانی رکھنے والی راحیلہ… رک رک کر ہنستی تھی، روشنی بکھیرتی تھی، رستم کی روح کی
راحت تھی۔ مگر رفاقت روگ بن گئی۔ رستم رنجور تھا، راحیلہ رخصت ہو چکی تھی۔ رہ گئی
رفاقت کی راکھ، ریشمی ریشوں جیسی یادیں۔ روہیل راستے بھر رستم کو راحیلہ کی روانگی
کی روداد سناتا رہا۔
"رستم! راحیلہ نے رات روتے ہوئے راقم کو رقعہ بھیجا تھا، روح
تڑپ رہی تھی اُس کی، رہ رہ کر رحم کی التجا کر رہی تھی، مگر رعایت نہ ملی اسے۔ رقیبوں
نے راستہ روک لیا تھا، روکھی روٹی، رنج و الم، ریاضت، رسوائی—سبھی کچھ سہنا پڑا
اُسے۔"
رستم رنج سے رہائی چاہتا تھا، مگر
راحیلہ کی ریاضت کا ردِ عمل رگ رگ میں رچ چکا تھا۔ ریل راولپنڈی کی راہ پر روانہ
ہو چکی تھی۔ رہ رہ کر رات کی رم جھم بارش رستم کے رخساروں سے مل رہی تھی، جیسے راحیلہ
کی رتجگوں میں بھیگی آنکھوں کا لمس ہو۔ ریل روانی میں تھی، مگر رستم رک چکا
تھا—روح کی رہگزر پر، ہمیشہ کے لیے۔
سڑک محفوظ نہیں!
شام کا وقت تھا، ہوا میں سردی تھی،
اور کہر نے ہر چیز کو ڈھانپ رکھا تھا۔ رافیل اپنی
پرانی گاڑی میں پہاڑ کے کنارے ایک
تنگ سڑک پر سفر کر رہا تھا۔ وہ تنہا تھا، اور گاڑی کی ہیڈلائٹس دھند میں مدھم
دکھائی دے رہی تھیں۔
اچانک سڑک پر کسی پرزے کے رگڑنے کی
آواز کے ساتھ گاڑی ایک جھٹکے سے اچھلی۔ رافیل نے گھبرا کر بریک لگائے۔ وہ نیچے
اترا تو دیکھا کہ سڑک پر ایک بڑا پتھر پڑا تھا، جیسے کسی نے جان بوجھ کر رکھا ہو۔
اچانک، پیچھے سے کسی نے سرگوشی کی:
"یہ سڑک محفوظ نہیں!"
"یہ پہاڑ مقناطیسی پہاڑ ہے اور ہر گاڑی کو اپنی طرف کھینچ لیتا
ہے، جس کی وجہ سے اکثر گاڑیاں گڑھے میں گر جاتی ہیں!"
رافیل نے چونک کر پیچھے دیکھا،
مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھا اور آگے بڑھنے لگا، مگر جیسے ہی
ایک موڑ پر پہنچا، گاڑی کے آگے ایک سایہ ابھرا—ایک سفید داڑھی والا بوڑھا اچانک
سامنے آن کھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس کے دھڑ پر دو چہرے تھے۔ ایک چہرہ
رو رہا تھا اور دوسرا ہنس رہا تھا!
گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔ رافیل
کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ سایہ آہستہ آہستہ قریب آیا اور بولا:
"یہ وہی خطرناک سڑک ہے، جہاں سالوں پہلے میرا ایکسیڈنٹ ہوا
تھا۔ یہ موڑ انتہائی خطرناک ہے۔ لوگ احتیاط نہیں کرتے۔ میرے بیوی بچے اسی حادثے میں
جاں بحق ہو گئے تھے۔ میرا اس دنیا میں اب کوئی نہیں ہے۔ اس دن سے میں ڈراؤنے لباس
میں ملبوس ہو کر لوگوں کو ڈراتا ہوں اور اس سڑک پر جانے سے روکتا ہوں۔"
اس بوڑھے کی آنکھوں میں آنسوؤں کی
جھڑیاں لگ گئی تھیں۔
اس نے رافیل کو واپس مڑنے کا کہا
اور پچھلے موڑ سے دائیں سڑک پر جانے کا کہا۔ اگر تم نے آگے قدم بڑھایا، تو تم بھی
ان حادثات کا حصہ بن جاؤ گے!"
رافیل کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔
وہ گاڑی ریورس کرنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک زوردار ڑڑک کی آواز آئی، اور گاڑی کا
اگلا حصہ زمین میں دھنس گیا۔ سڑک جیسے دھڑک رہی تھی، اور رافیل کی آنکھوں کے سامنے
اندھیرا چھانے لگا۔
صبح جب گاؤں کے لوگ وہاں پہنچے،
تو سڑک سنسان تھی، مگر ایک عجیب نشان موجود تھا—رافیل کی گاڑی کے ٹائروں کے ساتھ ایک
اور پرانے ٹائروں کا نشان، جیسے وہاں پہلے بھی کوئی گاڑی اسی طرح غائب ہوئی ہو!
کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی رات
کے وقت اس سڑک سے گزرتا ہے، تو گاڑی کے شیشوں پر دھند میں لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے: "یہ سڑک محفوظ نہیں!"
زبان کی زبانی
صبح کی پہلی کرن جیسے ہی لبوں کے
پردے سے اندر داخل ہوئی، زبان نے ایک لمبی انگڑائی لی اور مسکرا کر خود سے کہا،
"آج کا دن کیسا ہوگا؟" ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ دانتوں نے ایک ساتھ
حرکت کی، اور ناشتہ شروع ہوگیا۔ نوالہ آیا، زبان نے چکھا، مزہ جانچا، پھر دانتوں
کے حوالے کر دیا۔ دانت مزے سے چبانے لگے، اور زبان ہر نوالے پر دانتوں کے درمیان
پھنسنے کا خدشہ محسوس کرتی رہی۔
"یہ بتیس کے بتیس ظالم، ہر وقت مجھ پر ہی تیز ہوتے ہیں!"
زبان نے خود سے گلہ کیا۔ "ذرا بھی بے احتیاطی ہوئی تو کٹ جاؤں گی، اور پھر
درد سہنا پڑے گا!" لیکن قسمت کی ستم ظریفی، دوپہر کے کھانے میں ہی ایک دانت
نے ذرا بے دھیانی میں زبان کو کاٹ ڈالا۔
"آہ! تم سب کے سب میرے دشمن ہو!" زبان چیخی۔ خون کا
ذائقہ اس کے ذائقے پر حاوی ہوگیا۔ لیکن دانتوں کو جیسے کوئی پروا نہ تھی، وہ حسبِ
معمول اپنی چبانے کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔
دن گزرتا رہا، زبان نے طرح طرح کے
ذائقے چکھے، چٹخارے لیے، کچھ میٹھا، کچھ کڑوا، کچھ نمکین— مگر شام ہوتے ہوتے زبان
کو پھر ایک بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر میں بحث چھڑ گئی، اور زبان کو تیز
ہونا پڑا۔ جیسے ہی زبان نے کسی کی برائی میں ایک جملہ کہا، دانتوں نے زور سے بھینچ
کر اسے دبایا، جیسے کہہ رہے ہوں: "چپ رہو! اپنی حد میں رہو!"
زبان گھبرا گئی، "اف! میں جو
چکھنے، بولنے، چٹکارے لینے کی عادی ہوں، مجھے چپ رہنے کا کہہ رہے ہو؟" مگر
دانتوں نے کوئی جواب نہ دیا، بس سختی سے جُڑے رہے۔
رات ہوئی، زبان دن بھر کی تھکن کے
ساتھ آرام کرنے کو تیار ہوئی۔ لیکن آخری امتحان ابھی باقی تھا— مسواک آئی! زبان بے
بسی سے دائیں بائیں ہلنے لگی، کبھی دائیں دانتوں سے بچتی، کبھی بائیں دانتوں سے،
مگر وہ مسواک کے حملے سے بچ نہ سکی۔
"بس! آج کا دن بہت تھکا دینے والا تھا!" زبان نے خود سے
کہا، "کل دیکھیں گے، شاید قسمت مہربان ہو اور دانت کچھ رحم کریں!"
یہ سوچتے ہی وہ آرام سے لیٹ گئی،
اور بتیس دروازوں کے پیچھے، اپنے قید خانے میں، نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
ژالہ باری اور گلی میں کھیلتے بچے
سردیوں کی شام تھی، بادل گرج رہے
تھے، اور اچانک آسمان سے ژالہ باری شروع ہو گئی۔ سفید، موتیوں جیسے اولے زمین پر
گرنے لگے، اور گلی کے بچے جو پہلے چھپن چھپائی کھیل رہے تھے، خوشی سے اچھلنے لگے۔
"واہ! برف کے گولے!" ننھا سفیان خوشی سے چِلایا اور
ہاتھ پھیلا کر اولے پکڑنے لگا۔
مگر اسی وقت، شرارتی حماد کو ایک
نیا خیال آیا۔ "کیوں نہ ژالہ باری کو کھیل میں بدل دیں؟" اس نے جھک کر ایک
مٹھی اولے اٹھائے اور سیدھا عفان پر دے مارے۔
"اوئے! یہ تو برف کے گولے نہیں، پتھر ہیں!" عفان چیخا
اور بدلہ لینے کے لیے ژالہ اٹھا لیا۔ یوں پوری گلی میں ژالہ باری کی جنگ شروع ہو
گئی۔ بچے قہقہے لگاتے، دوڑتے، ایک دوسرے پر اولے برساتے رہے۔
تبھی، گلی کی نکڑ سے مشہور سخت
مزاج "چھوٹے ماموں" نمودار ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح ان کے ہاتھ میں چائے کا
کپ اور چہرے پر سنجیدگی طاری تھی۔ جیسے ہی ایک ژالہ آ کر ان کے کپ میں گرا، وہ غصے
سے دہاڑے، "یہ کیا ہو رہا ہے؟"
سب بچے ایک لمحے کے لیے ساکت ہو
گئے، پھر اچانک، سب نے ایک ساتھ زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔ چھوٹے ماموں نے
پہلے حیرت سے دیکھا، پھر خود بھی مسکرا دیے۔ "اچھا، تو تم لوگ کھیل رہے ہو؟"
حماد نے شرارت سے کہا، "جی
ماموں! لیکن اگر آپ بھی شامل ہو جائیں تو زیادہ مزہ آئے گا!"
چھوٹے ماموں نے ایک لمحہ سوچا،
پھر زمین سے ایک اولہ اٹھایا اور سیدھا حماد کی طرف اچھال دیا۔ پورا محلہ حیران رہ
گیا—چھوٹے ماموں بھی کھیل میں شامل ہو چکے تھے!
اور یوں، وہ سرد شام، جس میں صرف
ژالہ باری ہو رہی تھی، ایک ایسی یادگار شام بن گئی جسے گلی کے بچے کبھی نہیں بھولیں
گے!
سانپ اور سیب
صبح سویرے سبزی منڈی میں سخت
سناٹا تھا۔ سب دکانیں سنسان تھیں، سوائے سلیم سوداگر کی سبزی کی سب سے سجی سجائی
دکان کے۔ سلیم کی سبزیاں سب سے زیادہ صاف ستھری اور سرسبز ہوتی تھیں، مگر اس کے سیب
سب سے زیادہ سرخی مائل اور سحر انگیز نظر آتے۔
"سبحان اللہ! سلیم بھائی کے سیب تو سونے جیسے چمک رہے ہیں!"
سجاد سبزی فروش نے حسد سے سوچا۔ "آخر کیا راز ہے؟"
سلیم ہمیشہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا،
"سچ پوچھو تو سب صبر، سخت محنت اور صفائی کا کمال ہے!" مگر سجاد کو یقین
نہ آتا۔
تجسس تو تب بڑھا جب سلومی، جو سلیم
کے ساتھ اکثر سیب خریدنے آتی تھی، چلاّ کر بولی، "امی! یہ سیب تو سرسرانے کی
آواز نکال رہے ہیں!"
سب لوگ چونک گئے۔ سلیم ہنس کر
بولا، "ارے سلومی بیٹی، یہ تو تمہارا وہم ہوگا!" مگر جیسے ہی سلیم نے سیب
کی ٹوکری کو ہلایا، اچانک ایک سانپ سرسراتا ہوا باہر نکل آیا!
سب دکاندار سکتے میں آ گئے، سلیم
کے چہرے کا سارا سکون غائب ہو گیا، اور سجاد نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شور مچا
دیا، "یہ دیکھو! سلیم کے سیبوں میں سانپ چھپے ہوتے ہیں!"
سانپ سکون سے سیبوں کے بیچ سے نکل
کر سب کو گھور رہا تھا۔ کچھ لوگ بھاگنے لگے، کچھ ہنسنے لگے، اور کچھ حیران تھے کہ
آخر ماجرا کیا ہے؟
تبھی سلیم نے سنجیدگی سے کہا،
"بھائیو، سانپ بے ضرر ہے، بس سردی میں سیبوں کی گرمی لینے آ گیا تھا!"
سب ہنس پڑے، مگر سجاد نے فوراً سنسنی پھیلا دی، "تو یہ ہے تمہارے سیب چمکنے
کا راز؟ سانپ کی سرسراہٹ!"
سلیم مسکرایا، "نہیں بھائی،
میرے سیب تو ہمیشہ صاف ستھرے ہوتے ہیں، سانپ تو بس آج پہلی بار مہمان آیا ہے!"
اور یوں، سبزی منڈی میں ایک سنسنی
خیز مگر سنجیدہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی—سلیم کے سیب واقعی بے مثال تھے، مگر سانپ
کے ساتھ بالکل مفت آتے تھے!
شیر کا شکار
شیراز شہر کے شمال میں، شاداب
جنگل کے شانہ بشانہ، شکاریوں کے لیے مشہور شکارگاہ تھی۔ شہرت یافتہ شکاری شرافت
شاہ اکثر یہاں شکار کے شوق میں آتا تھا۔ اس کا شمار شہر کے سب سے زیادہ شاطر اور
شجاع شکاریوں میں ہوتا تھا، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ شکار کے نام پر صرف شوخی
دکھاتا اور شہر میں شیخی بگھارتا تھا۔
ایک شب، شرافت شاہ نے اعلان کیا
کہ وہ شیر کا شکار کرے گا۔ شہر کے سبھی شکاری ششدر رہ گئے۔ شیر کا شکار؟ وہ بھی
شرافت شاہ؟ شام تک شہر بھر میں چرچا ہوگیا۔ کچھ شریر لوگ اس کے شوق پر شکوک و
شبہات کا اظہار کرنے لگے، جبکہ شریف لوگ شرافت شاہ کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے۔
شکار کی شب آ پہنچی۔ شرافت شاہ،
شاندار شکار جیکٹ پہنے، شان بے نیازی سے جنگل کی طرف چل دیا۔ اس کے ساتھ اس کا
شاگرد شبیر بھی تھا، جو اصل میں اس کی شرارتوں کا شکار رہتا تھا۔ جنگل میں شدید
سناٹا تھا، صرف شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور شام کے پرندوں کی چیخ و پکار سنائی
دے رہی تھی۔
شرافت شاہ نے شبیر سے کہا،
"شیر کا شکار معمولی کام نہیں۔ شجاعت، شعور اور شوکت چاہیے۔" شبیر نے سر
ہلا دیا، حالانکہ اس کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔
اچانک جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔
شبیر چیخ اٹھا، "شیر! شیر!"
شرافت شاہ نے فوراً شکاری بندوق
سنبھالی، مگر جیسے ہی اس نے نشانہ باندھا، شیر زور سے دھاڑا۔ شرافت شاہ کے ہاتھ سے
بندوق چھوٹ گئی، اور وہ سرپٹ دوڑ پڑا۔ شبیر بھی شور مچاتا ہوا اس کے پیچھے لپکا۔
شہر میں جیسے ہی دونوں داخل ہوئے،
لوگ شرافت شاہ کا حال دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ اس کی شکار جیکٹ کی جگہ شکنوں بھری شرٹ
تھی، شوز کی جگہ شیر کی خراشیں، اور شکاری بندوق کہیں کھو چکی تھی۔ کسی نے شرارت
سے پوچھا، "شرافت بھائی، شکار کا کیا ہوا؟"
شرافت شاہ نے شرمندگی چھپاتے ہوئے
کہا، "شکار تو شاندار تھا، مگر شیر کی شجاعت دیکھ کر سوچا کہ اسے زندہ چھوڑ دینا
چاہیے۔"
شہر بھر میں قہقہے گونج اٹھے، اور
شرافت شاہ کی شیخی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی!
صندوق میں صندوق، صندوق میں خزانہ
صادق صراف ایک صابر مگر صدمہ رسیدہ
صراف تھا۔ قسمت کی ستم ظریفی کہیے یا صادق کی سادگی، مگر ہر سودے میں نقصان
اٹھاتا۔ صبح سے شام تک صرافہ بازار میں سونے چاندی کے سودے کرتا، مگر سکون نصیب نہ
ہوتا۔
ایک صبح، صرافہ بازار میں صمد
سوداگر نے صادق کو صدیوں پرانے صندوق کی پیشکش کی۔ صندوق پر سنہری سطریں لکھی تھیں:
"صندوق میں صندوق، صندوق میں خزانہ"
صادق کو صدمہ ہوا کہ یہ کیسا
صندوق ہے، مگر صمد سوداگر نے سرگوشی کی:
"یہ صندوق صوفیوں کے صیغے میں رکھا جاتا تھا، اس میں صدیوں
پرانی دولت ہے!"
صادق نے صدمے اور سنسنی کے عالم میں
صندوق خرید لیا اور سیدھا صحنِ خانہ پہنچا۔ صندوق کھولا تو اندر ایک اور صندوق
تھا۔ دوسرے میں تیسرا، تیسرے میں چوتھا! یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ آخری صندوق
کھلا… اور اس میں تھا— ایک صفحہ!
صفحے پر صرف چند سطریں لکھی تھیں:
"صبر کرو، صادق رہو، صلہ ضرور ملے گا!"
صادق کا سر چکرا گیا، صمد سوداگر
کے صریح دھوکے پر صدمہ پہنچا، مگر صبر سے صفحہ پڑھتا رہا۔ صفحے کے نیچے ایک چھوٹا
سا صندوق تھا، جس میں سونے کے سکے چمک رہے تھے۔
صادق ہنس دیا۔
"سچ ہے، صبر کا صلہ ملتا ہے، بس صدمہ سہنے کا حوصلہ ہونا چاہیے!"
ضعیف درزی
محلے کا سب سے پرانا درزی، ضمیر دین،
جسے سب "ضعیف درزی" کہتے تھے، اپنی ضعیف العمر آنکھوں سے سوئی میں دھاگا
ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی دکان کی در و دیوار بھی اس کی طرح خستہ حال تھے،
مگر وہ اپنی ضد پر قائم تھا کہ جب تک ہاتھوں میں جنبش ہے، وہ قینچی نہیں چھوڑے گا۔
ایک دن، ضمیر دین کے پاس ایک
ضابطہ پسند اور ضعیف الاعتقاد گاہک، ضیغم بیگ، آیا۔ ضیغم نے اپنی ضیافتی تقریب کے
لیے ایک نیا کرتا سلوایا، مگر جب اسے لینے آیا تو اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔
"یہ کیا غضب کر دیا ضمیر چاچا؟!" ضیغم نے چلّا کر کہا۔
"کیوں بھئی، کیا ہوا؟" ضمیر دین نے عینک ٹھیک کرتے ہوئے
معصومیت سے پوچھا۔
"یہ کرتا نہیں، ضمیری زحمت ہے! سیدھا پہنوں تو دائیں بازو
لمبا، اُلٹا پہنوں تو بائیں طرف کا دامن زمین کو چھوتا ہے! اور یہ گریبان؟ یہ تو
کندھے پر جا لگا ہے!"
دکان میں بیٹھے دوسرے گاہک قہقہہ
لگا کر ہنسنے لگے۔ ضمیر دین نے تسلی دی، "بیٹا، صبر کرو، ضمیر کے ہاتھوں جو
بنتا ہے، وہی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے!"
مگر سسپنس تب بڑھا جب اچانک محلے
کا سب سے ضابطہ شکن نوجوان، ضوفی، دکان میں گھسا اور بولا، "چاچا، مجھے وہی
کرتا دو جو ضیغم کے لیے بنایا تھا!"
"کیوں بھئی، تمہیں اس میں کیا خاص بات نظر آئی؟" ضیغم
نے حیرت سے پوچھا۔
"ارے بھائی، آج کل ضمیر دین کے کپڑے فیشن میں ہیں! ادھر
اُدھر کے ٹکڑے جڑ کر جو آرٹ بنتا ہے، وہ کوئی ضعیف درزی ہی بنا سکتا ہے!"
یوں، ضمیر دین کی شہرت بڑھنے لگی،
اور وہ محلے کے ضعیف ترین مگر جدید ترین فیشن ڈیزائنر کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
طوطے کی پکار
طاہر تپتی دوپہر میں طوطا بازار
پہنچا، جہاں طوطوں کی طرح رنگ برنگے پرندے طیارے کی مانند اُڑتے پھرتے تھے۔ طغرل
طوطا، جو طاہر کا طوطا تھا، قفس میں طواف کر رہا تھا۔ طاہر نے طوطے کو تازہ تلسی
کے پتوں اور طوطے کی پسندیدہ طعام، طعامِ طوطی، سے بہلانے کی کوشش کی، مگر طغرل تو
طیش میں تھا۔
"طوطے میاں، کیا طعام پسند نہیں آیا؟" طاہر نے طعنے سے
پوچھا۔
طغرل نے طوطوں والی چالاکی دکھاتے
ہوئے طشتری کو الٹ دیا اور طوطوں کی مخصوص آواز میں چلّایا: "طوطا طوطا! طوطی
گئی کدھر؟ طوطی گئی کدھر؟"
طاہر چونک گیا۔ طغرل کی طوطی کا
تذکرہ تو بہت دنوں بعد سنا تھا۔ طوطی، طغرل کی طویل عرصے کی ساتھی، چند ماہ قبل
طوفان میں لاپتہ ہوگئی تھی۔
طاہر نے طوطے کو تسلی دی، مگر
طغرل کی طوطا چشمی جاری رہی۔ اچانک طوطا بازار کے طوطا فروش طلحہ نے قہقہہ لگایا،
"طاہر میاں، طوطا تو تم سے طوطا چشمی کر رہا ہے! طوطی تو تمہارے پڑوسی طلعت
کے پاس ہے!"
طاہر کو طیش آگیا، "طلعت کے
پاس؟"
طلحہ نے طوطوں کی طرح گردن ہلائی،
"طوطا بازار میں طوطوں کے تاجر طلعت نے طوطی کو پال رکھا ہے۔"
طاہر طیش میں طلعت کے گھر پہنچا۔
طلعت طعنوں سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا، اور پس منظر میں طوطی
اپنی مخصوص طوطا چشمی دکھا رہی تھی۔
"طوطی تمہارے پاس؟" طاہر نے تحکمانہ لہجے میں پوچھا۔
"ہاں، طوفان میں طوطی میرے طاق پر آبیٹھی تھی۔ میں نے طوطا
بازار کے طوطا فروش سے پوچھا تھا، مگر کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ طوطی تمہاری ہے۔"
طغرل نے پھر پکارا، "طوطا
طوطا! طوطی آئی؟ طوطی آئی؟"
طلعت ہنسا، "طوطا طوطا، طوطی
کو واپس لو!"
یوں طوطی واپس طغرل کے پاس آئی،
اور طاہر نے طوطوں کے لیے تازہ تلسی کے پتوں سے طعام تیار کیا۔ طوطے کی پکار نے
آخرکار اپنا جواب پا لیا، اور طوطا بازار میں طویل عرصے تک طغرل اور طوطی کی کہانی
طنزیہ و طربیہ قصے کے طور پر سنائی جاتی رہی۔
ظالم بادشاہ کا انصاف
ظہیرالدین ظفرنامی بادشاہ اپنی
ظالم طبیعت اور ظالمانہ فیصلوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ رعایا اس کے نام سے ہی کانپتی
تھی۔ ہر ظالم کو معاف کردیتا اور ہر مظلوم پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتا۔ مگر وہ اپنی
سلطنت میں انصاف پسند ہونے کا دعویٰ بھی کرتا تھا۔
ایک روز ایک ظریف (لطیفہ گو)
دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی مدح سرائی کرتے ہوئے گویا ہوا: "اے ظلِ الٰہی!
آپ کے انصاف کی مثال نہیں ملتی، لیکن ایک ظالم کوتوال نے میرا ظریفانہ قصہ سن کر
مجھ پر ظلم کیا اور زبردستی مجھے قید کروا دیا۔"
بادشاہ نے تلوار کی نوک پر ظالم
کوتوال کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ کوتوال کانپتے ہوئے آیا اور فوراً سجدے
میں گر گیا۔ بادشاہ نے سخت لہجے میں پوچھا، “کیا یہ سچ ہے کہ تُو نے ایک بےگناہ ظریف
پر ظلم کیا؟”
کوتوال ہکلانے لگا، “ظلِ سبحانی! یہ
شخص دراصل آپ کے انصاف کا مذاق اُڑاتا تھا، کہتا تھا کہ بادشاہ صرف نام کا منصف
ہے، حقیقت میں ظالم ہے۔”
بادشاہ کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی،
مسکراتے ہوئے بولا، “واقعی؟ تو پھر انصاف یہ ہوگا کہ اس ظریف کو اس کے طنز کی سزا
دی جائے، اور تمہیں اس پر ظلم کی!”
سب درباری حیرت سے دیکھنے لگے کہ
اب کیا ہوگا۔ بادشاہ نے حکم دیا:
"ظریف کو شاہی مہمان خانے میں رکھا جائے، جہاں اسے روزانہ
مرغِ زعفرانی کھلایا جائے، اور کوتوال کو زنجیروں میں جکڑ کر قیدخانے میں ڈال دیا
جائے تاکہ وہ ظلم کا مزہ چکھے!"
دربار میں قہقہے گونج اٹھے، لیکن
بادشاہ نے فوراً رعب دار آواز میں کہا، "یہ ہے میرا ظالمانہ انصاف!"
ظالم کوتوال کو زندان میں ڈال دیا
گیا، اور ظریف اپنی آزادی کے ساتھ ساتھ ایک نئی کہانی لیے دربار سے روانہ ہوا۔
عینک کا جادو
عابد علی عجیب آدمی تھا۔ عقل میں
عام مگر عادتوں میں غیرمعمولی۔ اُس کی عادت تھی کہ ہر چیز میں عیب نکالتا، ہر
انسان میں عذر ڈھونڈتا اور ہر موقعے پر اعتراض کرتا۔ محلے والے اُس سے عاجز آچکے
تھے۔
ایک روز، ایک عجیب و غریب فقیر
اُس کے پاس آیا۔ اُس کی آنکھوں میں عجب سی چمک تھی، اور ہاتھ میں ایک عینک تھی۔ فقیر
نے کہا، "عابد علی! یہ جادوئی عینک لے لو، اس سے دنیا کا اصل چہرہ نظر آئے گا!"
عابد نے عینک پہنی اور حیرت زدہ
رہ گیا! وہ جو اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتا تھا، اچانک اپنی اصلیت دیکھنے لگا—ایک
چھوٹا، ضدی، اور ہمیشہ شکوہ کرنے والا شخص! پھر اُس نے محلے والوں کو دیکھا، جو
عام نظر میں بُرے لگتے تھے، مگر عینک کے ذریعے وہ سب نیک اور محنتی نکلے۔
عابد کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ
چیخا، "یہ عینک اتارو! مجھے حقیقت نہیں دیکھنی!" مگر فقیر غائب ہو چکا
تھا۔
اب عابد کیا کرے؟ اگر عینک اتارتا
تو پھر پرانی لاعلمی میں رہتا، اگر پہنے رکھتا تو اپنی حقیقت کے ساتھ جینا مشکل ہو
جاتا!
کہتے ہیں کہ آج بھی وہ عابد علی
کسی عطار کی دکان میں بیٹھا اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا ہے، مگر ایک بات طے ہے… اُس
دن کے بعد اُس نے کسی پر اعتراض نہیں کیا!
غبارے کی ہوا
غضنفر گلی میں غلیل چلانے میں
ماہر تھا، مگر قسمت کی غضب ناکی دیکھیں کہ ہمیشہ غلط نشانے لگتے۔ ایک دن غفور چچا
کی غزلوں سے بھری ڈائری کا صفحہ الٹ رہا تھا کہ اچانک ایک غبارہ ہوا میں اچھلا اور
سیدھا ان کے غصیلی ماتھے پر جا لگا۔ غفور چچا نے غصے سے گھورا، مگر پھر اپنی عینک
کے شیشے صاف کرتے ہوئے مسکرا دیے۔
"غضنفر میاں! تمھاری حرکتیں غبار کی طرح بے وزن اور بے سمت ہیں!"
غفور چچا نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
غضنفر نے معصومیت سے سر کھجایا۔
"چچا، میرا کیا قصور! یہ غبارہ خود ہوا میں گھوم کر آپ کی طرف آیا۔"
غفور چچا نے غیظ و غضب سے کہا،
"یہی تو مسئلہ ہے، تمھاری حرکتوں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی غیبی طاقت کام کرتی
ہے!"
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ گلی
کے نکڑ پر غفار موچی کا غلغلہ سنائی دیا۔ "میرا جوتا! ارے میرا جوتا کس نے
اڑایا؟"
سب نے دیکھا کہ غضنفر کے ہاتھ میں
غبارے کی ڈور تھی اور جوتا ہوا میں معلق جھول رہا تھا! اصل میں ہوا یہ تھا کہ
غضنفر نے اپنی غلیل سے ایک پتھر مارا، جو سیدھا غبارے کی گرہ میں پھنسا اور اس کے
ساتھ بندھا دھاگہ غفار موچی کے جوتے میں الجھ گیا۔ ہوا نے ساتھ دیا، اور جوتا ہوا
میں بلند ہوگیا۔
محلے والے یہ دلچسپ تماشا دیکھ کر
غش کھا کر ہنسنے لگے۔ غفور چچا نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے کہا، "غضنفر! تمھاری
ہر حرکت میں ایک غیرفطری قسم کی معصومیت ہوتی ہے!"
غضنفر نے شرماتے ہوئے کہا،
"چچا! کیا میں غبارے کی ہوا نکال دوں تاکہ جوتا واپس آجائے؟"
غفار موچی نے فوراً سر ہلایا،
"ارے بھائی! جوتے کو زمین پر لے آؤ، ورنہ میرا دھندا ہوا میں ہی غائب ہوجائے
گا!"
غضنفر نے غبارے کی ڈور کھولی، مگر
قسمت کی ستم ظریفی کہ جیسے ہی غبارے کی ہوا نکلی، وہ ایک زوردار غوں غوں کی آواز
کے ساتھ غفور چچا کی نئی پگڑی پر جا گرا، جس پر تازہ تازہ خوشبودار تیل لگا تھا!
غفار موچی نے قہقہہ لگایا،
"چچا جی! لگتا ہے آپ کے خیالات بھی اب غبارے کی طرح ہوا میں اڑنے لگے ہیں!"
محلے میں قہقہے گونجنے لگے، اور
غضنفر نے سر جھکا کر اپنی غلیل کو جیب میں چھپا لیا۔ وہ جان گیا تھا کہ غبارے کی
ہوا صرف غبارے سے نہیں، بعض اوقات عقل سے بھی نکل جاتی ہے!
فوارہ چوک میں فاختہ اُڑی
فوارہ چوک کی فضا ہمیشہ فریب زدہ
رہتی۔ فرید فالودے والا اپنی فرحت بخش فالودے کی فراہمی میں معروف تھا، جبکہ فہیم
فقیر اپنی فلسفیانہ فقیری سے لوگوں کو فریب دینے میں فنکار۔ مگر اس دن فوارہ چوک کی
فضا میں ایک نیا فسانہ فضا میں بلند ہوا—فاختہ کی پراسرار اڑان!
فصیح فٹ پاتھ پر فرفر اخبار پڑھ
رہا تھا کہ اچانک فوارے کے قریب فہیم فقیر نے فلک شگاف چیخ ماری، "فاختہ اُڑی!
فاختہ اُڑی!"
فوراً ہی فواد فرنیچر والے نے فریاد
کی، "یہ فاختہ میرے فنجانِ چائے پر فضائی حملہ کر کے فرار ہوئی ہے!"
فریحہ فیشن بوتیک سے نکلی اور
فکرمند ہو کر بولی، "یہ وہی فاختہ تو نہیں جس کے پنجے میں فقیر صاحب کی فال کی
پرچی بندھی تھی؟"
فہیم فقیر نے فوراً اپنی فقیری کا
فیض فوارہ چوک پر بانٹنا شروع کر دیا۔ "دوستو! یہ کوئی فاختہ نہیں، بلکہ فطرت
کا فسانہ ہے! میری فال کہتی ہے کہ جو اس فاختہ کو پکڑے گا، اس کی قسمت فوراً بدل
جائے گی!"
فوراً ہی فواد، فصیح اور فرید
فالودے والے نے فاختہ پکڑنے کی فضول کوشش شروع کر دی۔ فصیح نے فوارے پر چڑھ کر
فاختہ پر فوکس کیا، فواد نے فرفر دوڑ لگا دی، اور فرید فالودے والے نے فالودے کا پیالہ
آگے بڑھا دیا کہ شاید فاختہ فریب میں آ جائے۔
فختہ نے ایک فاتحانہ قہقہہ لگایا
(اگر پرندے قہقہہ لگا سکتے ہوں) اور فضا میں فرفر کرتے ہوئے فوارے کے اوپر جا بیٹھی۔
فواد نے فریاد کی، "فقیر
صاحب! فال کی پرچی میں کیا لکھا تھا؟"
فہیم فقیر نے فلسفیانہ انداز میں
داڑھی کھجاتے ہوئے کہا، "میری فال نے فرمایا تھا… کہ فاختہ اُڑے گی، فریب
ہوگا، اور کوئی فائدہ نہیں ہوگا!"
سب فکرمند ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے
لگے۔ فریادیں خاموش ہو گئیں، فوارہ چوک میں قہقہے گونجنے لگے، اور فرید فالودے
والے نے اعلان کیا، "چلو بھائی، فالودہ کھاؤ! قسمت بدلنی ہو، نہ ہو، مزہ ضرور
آنا چاہیے!"
قلم کی طاقت
قاضی قدیر قلاقند کھاتے ہوئے قصبے
کے قدیم قلعے کے قریب قائم قمر چائے خانے
میں بیٹھا تھا۔ قصبے میں کچھ دنوں
سے ایک قیامت خیز قیاس آرائی گردش میں تھی کہ قلعے کے قیمتی خزانوں کی کوئی قدیم
قسط کہیں گم ہو گئی ہے۔
قاضی قدیر کے قریب قاصد قمر بیٹھا،
جس کی قمیض قہوے کے دھبوں سے بھری تھی۔ وہ قریب جھک کر سرگوشی میں بولا،
"قبلہ! خزانے کا راز ایک قلم میں قید ہے!"
قاضی قدیر نے قہقہہ لگایا،
"قاصد میاں! یہ قلم کی طاقت والی کہانی کسی کتابی قاری کو سناؤ، میں حقیقت
پسند آدمی ہوں!"
مگر قاصد قمر نے قسم کھائی،
"قبلہ، میں قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، قلم قلعے کے قاضی اعظم کے قبضے میں تھا،
اور اس میں خفیہ قوائد و قوانین قید تھے۔ اگر وہ قلم کسی قابل شخص کے قابو آ گیا
تو خزانے کا سراغ مل سکتا ہے!"
قصبے میں خبر قہر بن کر پھیلی۔
قمر چائے خانے کے قریب قحط زدہ کبوتروں کی طرح لوگ اکٹھے ہو گئے۔ قریبی قصاب قربانی
کے گوشت کو بھول کر قلعے کے قریب پہنچ گیا۔ قاسم قصائی، قیصر قلفی والا، قدوس
قانون دان، سبھی اس قلم کو قابو پانے کی کوشش میں لگ گئے۔
قاسم قصائی نے قائل کرنے کی کوشش
کی، "یہ قلم گوشت کے وزن کی قیمت لکھنے کے کام آئے گا!"
قیصر قلفی والا قہقہہ لگا کر
بولا، "بھئی، میں تو اس قلم سے قلفیوں کے نئے ذائقے لکھوں گا!"
قدوس قانون دان نے قہر آلود لہجے
میں کہا، "یہ قلم قانون کے قیام کے لیے ہونا چاہیے!"
اتنے میں قاضی قدیر نے قیامت خیز
قہقہہ لگایا اور بولا، "قبلہ حضرات! قلم کی طاقت کسی خزانے سے زیادہ ہے، مگر
افسوس، تم سب اسے صرف اپنے قابو میں لانے کے خواب دیکھ رہے ہو!"
پھر قاضی قدیر نے قلم اٹھایا، ایک
قدیم کتاب کھولی، اور قلعے کے قانون میں ایک قاعدہ شامل کر دیا: "یہ قلم صرف اسی کے پاس رہے گا جو علم و انصاف کے لیے اسے
استعمال کرے!"
اور یوں، قلعے کے خزانے کی تلاش قیامت
تک معطل ہو گئی، اور قصبے والوں کو قلم کی اصل طاقت کا پتا ہی نہ چلا!
کتابوں کی دنیا
کمالیہ کے کرنل کلیم کتب بینی کے
کتنے کٹر شوقین تھے، یہ کہنا کم ہوگا۔ کتاب کے بغیر ان کا کوئی کام نہیں چلتا تھا۔
وہ کھانے کے دوران کتاب، کمرے میں کتاب، کبھی کچن میں کتاب، حتیٰ کہ کبھی کبھی غسل
خانے میں بھی کتاب لے جاتے۔ ان کی کتابی محبت کو دیکھ کر کئی لوگوں کو شک ہونے لگا
کہ کہیں وہ کتابوں کے کرداروں سے گفتگو تو نہیں کرتے؟
ایک دن کرنل کلیم کی کتابی کائنات
میں کہرام مچ گیا۔ کتب خانے کے کونے میں رکھا ان کا قیمتی کتابوں کا کلیکشن غائب
تھا! کرنل کلیم کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ کیا کوئی کتابی کک چور ان کے خزانے پر ہاتھ
صاف کر گیا تھا؟ انہوں نے فوراً کلب کے کچھ کھوجی کرنل کرامت، قاضی کامل اور کرشن
کمار کو بلایا۔
کرنل کرامت نے کمرے کا کونا کونا
کھنگالا، قاضی کامل نے کتابوں کے کفن جیسے خالی ریک دیکھ کر کراہتے ہوئے کہا،
"کتب خانے کو کھنڈر بنانے والے کو کھوجنا ضروری ہے!" کرنل کلیم کی کلائی
کانپ رہی تھی۔ کرشن کمار نے کھڑکی کے کنارے سے کچھ کاغذ کے کترے اٹھائے۔
کسی کتاب کے کٹے پھٹے صفحات تھے
جن پر کچھ کلیدی نشان تھے:
"کتاب کے قدر دان کب قدر کریں گے؟"
کلیم کا کلیجہ دہل گیا۔ کیا کسی
کو ان کی کتابوں سے کوئی کدورت تھی؟ کرنل کرامت نے کاغذ کو قریب سے دیکھا اور کہا،
"کمال کا کیس ہے! کتابیں خود تو قدموں پر چل کر کہیں جا نہیں سکتیں!"
اتنے میں کرنل کلیم کے کلینڈر پر
نظر پڑی، جس پر کسی نے کرم خوردہ قلم سے لکھا تھا:
"کتب خانہ کمروں میں کیوں قید؟ کتابیں کھلی فضا میں کیوں نہیں؟"
سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ کیا کوئی
کتابوں کا کٹر دشمن تھا یا کتابوں کا کوئی خفیہ خیر خواہ؟
تھوڑی دیر بعد قاضی کامل کچن کی
طرف دوڑے، وہاں کچھ کھٹ کھٹ کی آواز آ رہی تھی۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو کلیم کا
کام کرنے والا کرم دین کتابوں کو کیلے کے کریٹ میں رکھ کر کھسکنے کی کوشش کر رہا
تھا۔
"کرم دین! یہ کیا کر رہے ہو؟" کرنل کلیم کی کڑک دار
آواز گونجی۔
کرم دین کانپ گیا، "حضور،
کتابیں قید خانے میں پڑی تھیں، سوچا کسی کو کام آ جائیں، کچھ کباڑیے کو کچھ کسی
کتابی کلب میں دے دوں۔"
کرنل کلیم کا دل کڑھنے لگا۔ کرم دین
کو کتابوں کی قدر تو تھی، مگر طریقہ کار کتابی مجرموں والا تھا! کرنل کرامت نے
قہقہہ لگایا، "کرم دین کو کچھ کتابیں پڑھنے دو، شاید کتابوں کا کفران نعمت نہ
کرے!"
اس کے بعد کرنل کلیم نے فیصلہ کیا
کہ کچھ کتابیں کتب خانہ کلب میں بھیجی جائیں تاکہ لوگ کتابوں کی کسر نکال سکیں،
اور کرم دین کو ہر ہفتے ایک کتاب پڑھنے کی شرط پر معاف کر دیا گیا۔
یوں کتابوں کی کھوج ختم ہوئی،
کرنل کلیم کی کلیدی کلیکشن واپس آئی، اور کرم دین کو کتابوں کے کرداروں سے کم از
کم کچھ قربت حاصل ہو گئی۔
گاجر کا حلوہ
گاؤں گنگا پور میں گلابی سردی کا
آغاز ہو چکا تھا۔ گلیوں میں گرم گرم گاجر کے حلوے کی خوشبو گونج رہی تھی۔ گوہر
گلابی، جو گاؤں کے سب سے گپّی آدمی تھے، گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر گرما گرم گپیں ہانک
رہے تھے۔
"گھر میں گاجر کا حلوہ بنا ہے، مگر بیوی نے کہا کہ گلی میں
گھومو مت، سب کو نہ بتا دینا!" گوہر گلابی نے گیارہویں بار اپنی گپ دہراتے
ہوئے کہا۔
گاما گوالا، جو گلی کے گپ بازوں
کا گرو تھا، گھنی مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر گویا ہوا، "گوہر بھائی، حلوہ اتنا
خاص ہے کہ گوگل پر ٹرینڈ کروا دو؟"
اتنے میں گڈو گنجا آ گیا، جو گاؤں
کا سب سے گریز پا مگر حلوہ خور شخص تھا۔ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر گوہر گلابی کے
قریب ہوا اور گڑگڑاتے ہوئے بولا، "گوہر بھائی، گاجر کے حلوے کا گواہ بننے کا
موقع دیں!"
گوہر گلابی نے گہری سانس لی اور
غصے سے غرائے، "گنجے گڈو! گاجر کا حلوہ کوئی گلی کا گٹکا نہیں جو بانٹ دوں۔"
گڈو نے گہری چال چلی، گاؤں کے
گورکن غلام گوندل کو ساتھ ملا لیا، جس نے خبر اڑائی کہ گوہر گلابی کے گھر کے گودام
میں گاجر کا حلوہ سڑنے کے قریب ہے!
یہ خبر گھنٹوں میں گاؤں میں گونج
گئی۔ گاؤں کی گوریوں سے لے کر گنجے گیانیوں تک سب گوہر کے گھر کے گرد گھیرا ڈال کر
گرجنے لگے، "گاجر کا حلوہ گاؤں کا حق ہے!"
گوہر گلابی گھبرا گیا، گڑبڑا کر
گھر کے گلیارے میں گھسا اور بیوی کے گودے ہوئے گالوں کو گھورتے ہوئے بولا،
"گلابو! گلی کے لوگ گاجر کے حلوے پر غصے میں گر رہے ہیں!"
گلابو نے گھور کر کہا،
"گدھے! میں نے تو گیہوں کی کھیر بنائی تھی، گاجر کا حلوہ تو گلی کے گپّی خود
بنا رہے ہیں!"
گوہر گلابی گڑبڑا گیا، باہر نکل
کر گرگٹ کی طرح بات بدلی، "گاؤں والو! گاجر کا حلوہ نہیں ہے، غلط فہمی ہے!"
مگر گاما گوالا قہقہہ لگا کر
بولا، "غلط فہمی نہیں، گپ بازی کا غضب ہے! اب گرما گرم گاجر کا حلوہ نہ ملا
تو گوہر بھائی، گلی میں گھسنا مشکل ہوگا!"
گوہر گلابی نے گلے میں پسینہ
پونچھا، بازار بھاگا، گاجریں خریدیں، اور گاؤں والوں کے لیے سب سے بڑا گاجر کا
حلوہ بنانے لگا۔
یوں گوہر کی گپ بازی نے گاؤں
والوں کے گلے میں گاجر کا حلوہ ڈالا، اور سب نے گرم گرم حلوے کے ساتھ گوہر کی گلابی
گپوں کا خوب مزہ لیا!
لاہوری لٹو
لاہور کے لاہوری لڑکوں کی لڑائیوں
کے قصے لاثانی ہیں، مگر جو کچھ لالہ لجپت لاہوری کے ساتھ ہوا، وہ لاہوری لوک کہانیوں
میں لکھا جانے کے لائق ہے۔
لالہ لجپت لاہوری لسی کے لشکر کے
سربراہ تھے۔ ہر لاہوری کی طرح انہیں لاہوری ناشتہ، لسی، اور لب و لہجے پر ناز تھا۔
مگر ان کا سب سے لاڈلا شوق لٹو گھمانا تھا۔ لوگ لاہوری کڑاہی گھماتے، لالہ لجپت
لٹو!
ایک دن لاہور کی لہراتی گلیوں میں
لالہ لجپت نے اعلان کیا، "لٹو لڑائی ہوگی! جو لٹو زیادہ لَمبا گھومے گا،
لاہوری لٹو کا لقب اسی کا ہوگا!"
لاہور کے لڑکے لپک پڑے۔ لمبے لمبے
لٹو لیے، لگن کے ساتھ لائین میں لگ گئے۔
مگر لاہوری لڑائی میں لاہوری لٹک
بھی لازمی تھی۔ لحیم شحیم لڑکا لنگی لَلی، جو لاہور کی لسی کے علاوہ لٹو کا بھی
لاہوری لیڈر تھا، للکارا، "لالہ لجپت! لاہوری لٹو کا لقب لینا لسی پینے جتنا
آسان نہیں!" لالہ لجپت نے لہک کر
کہا، "لٹو لو، لمحوں میں فیصلہ ہوگا!"
لنگی لَلی نے لمبے لٹو کو لپیٹ کر
لیس دار دھاگے سے چھوڑا، اور لٹو لمبے لمحوں تک لہراتا رہا۔ لوگ لو دینے لگے۔ مگر
لالہ لجپت نے لبوں پر للکار لی، "لاہوری لٹو لاہور کی لاج ہے!" اور اپنا
لٹو لڑھکایا۔
لٹو لہراتا، لڑھکتا، لوگوں کی لَپ
میں لپکتا، گلی کے لان میں جا پہنچا اور… اچانک غائب ہوگیا!
لوگ لب بھینچ کر لٹو کی گمشدگی پر
حیران، لڑھکنے لگے۔ "لٹو لگا کہاں؟"
ایک لمحے بعد لٹو واپس آیا، مگر
کسی اور کے ہاتھ میں!
لاہوری لومڑ لُدھو لُچّا، جو
لوگوں کی لاپْرواہی کا لاجواب فائدہ اٹھاتا تھا، لٹو لیے لہراتا آیا اور لمبے
قہقہے لگاتا بولا، "لٹو لو، اب لاہور کا لاہوری لٹو میں ہوں!"
لالہ لجپت لپک کر لُدھو کی لٹک میں
لپٹ گیا، لنگی لَلی لَچکیلی چال میں لُدھو کے قریب آیا، اور لاہور کے لوگوں نے مل
کر لُدھو کو لپیٹ دیا!
لُدھو لپک لپک کر لٹو کی طرح گھوم
گیا اور اعلان کیا، "لاحول ولا قوت! لٹو تمہارا ہی ہوا، مگر لسی پلوانا لازمی!"
یوں لاہوری لٹو کی لڑائی لسی پر
ختم ہوئی، اور لاہور کی لٹو بازی میں لالہ لجپت کا لقب لاہوری لٹو کے نام سے
لازوال ہوگیا۔
مور کی مستیاں
ملکِ مرغزار میں مشہور تھا کہ مور
میاں محفل میں مستیاں کرنے میں ماہر ہیں۔ مگر
مسئلہ یہ تھا کہ وہ محض مستیاں نہیں کرتے تھے
بلکہ موقع محل دیکھے بغیر مذاق بھی فرماتے تھے، جس کی وجہ سے محلّے میں مسائل کھڑے
ہو جاتے۔
ایک مرتبہ موسمِ بہار میں ملکِ
مرغزار میں مہمان مورِ مغرب کی آمد متوقع تھی۔ مہاراجہ مینا نے محفلِ مسرت کا
منصوبہ بنایا، جس میں مور میاں بھی مدعو تھے۔ مگر محلّے والوں کو معلوم تھا کہ
جہاں مور میاں ہوں، وہاں مستی کے ساتھ مسئلے بھی ملتے ہیں!
محفل میں مورِ مغرب نے مسکراتے
ہوئے کہا، "ملکِ مرغزار میں مہمان نوازی مثالی ہے!"
مور میاں نے موقع ملتے ہی مذاق
فرمایا، "ہاں، مگر یہاں کے مہمان اگر مہینوں رہیں تو میزبان منہ بسورتے ہیں!"
محفل میں مکمل سناٹا چھا گیا۔
مہاراجہ مینا نے ملامتی نظروں سے مور میاں کو گھورا۔ مگر مور میاں تو مست تھے، محض
محظوظ ہونے کے موڈ میں!
اتنے میں موسیقار بلبل نے معیاری
موسیقی پیش کی، مگر مور میاں نے مذاقاً میز پر مکّی کے دانے بکھیر دیے۔ مہمانوں کی
محویت منتشر ہوگئی، اور محفل میں مسخرگی کا ماحول بن گیا۔ مہاراجہ مینا نے موقع دیکھ
کر منادی کروا دی، "مور میاں کے مزاح میں مسئلے ہیں، ہمیں محفل میں معقولیت
ملحوظ رکھنی چاہیے!"
مگر مور میاں مسکراتے ہوئے محفل
سے نکلے اور مغرور لہجے میں بولے، "مستیاں میری محبت ہیں، میں مسئلہ نہیں،
محض محظوظی ہوں!"
مور کی مستیاں کبھی کم نہ ہوئیں،
مگر ملکِ مرغزار کے مہمان ہمیشہ محتاط رہے!
نون ندی کا مینڈک
نون ندی کے کنارے ایک نرالا مینڈک،
نادر نغمانہ، نرم نرم ندی کے پانی میں نہانے کا بے حد شوقین تھا۔ نادر نغمانہ نہایت
نٹ کھٹ، نک چڑھا اور نخریلا مینڈک تھا، جو نہ تو ندی کے دوسرے مینڈکوں کے ساتھ میل
جول رکھتا تھا، نہ کسی کے نخرے برداشت کرتا تھا۔
ندی کے کنارے ننھا ننھا نیلا نیلوفر
کھلا رہتا، اور اس کے نزدیک نرم گھاس پر ننھے ننھے ننھے منے کیڑے مکوڑے ناچتے
رہتے۔ نادر نغمانہ کا معمول تھا کہ وہ ندی کے پانی میں نہا کر، نیلوفر کے پتوں پر
بیٹھ کر، نرالی آواز میں نغمے گاتا اور ندی کے دوسرے مینڈکوں کو نیچا دکھانے کی
ناکام کوشش کرتا۔
ایک دن، ندی کے کنارے نمودار ہونے
والے نایاب نقاب پوش نے نادر نغمانہ کو نظر بھر کر دیکھا۔ نقاب پوش نے نرمی سے
کہا، "نادر بھائی! ندی کے نیلے پانی میں نہانے کا نایاب موقع ہے، لیکن نادانی
میں نہانا نقصان دہ ہوسکتا ہے!"
نادر نغمانہ نے نخوت سے ناک چڑھائی،
"میں نہایت نامور تیراک ہوں! ندی کی نرم و نازک لہروں سے نہ مجھے نقصان
ہوسکتا ہے، نہ کسی نقاب پوش ناصح کی نصیحت کی ضرورت ہے!"
نقاب پوش نے نرمی سے سر ہلایا اور
ندی کے کنارے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ نادر نغمانہ نے نفاست سے اپنے ننھے ننھے ہاتھ
جھاڑے اور ندی میں نہانے کے لیے نیچے کود پڑا۔ مگر جیسے ہی وہ پانی میں پہنچا، نیچے
ایک ناقابلِ یقین نظارہ اس کا منتظر تھا!
ندی کے نیچے ننھا ننھا نہنگ، نرمی
سے تیرتا ہوا، نادر نغمانہ کی طرف بڑھا۔ نادر نغمانہ نے نرمی سے ندی کی گہرائی میں
جھانکا، اور اچانک نہنگ نے نہایت ناگہانی حرکت کی!
نادر نغمانہ کی نازک جان پر بن آئی!
وہ ناگہانی صورتحال میں نڈھال ہوکر ندی کے کنارے کی طرف نکل بھاگا۔ نقاب پوش، جو
پاس ہی نظارہ کر رہا تھا، مسکرایا اور نادر نغمانہ سے کہا، "نادان مینڈک! نصیحت
نہ ماننے کی سزا نہایت نرالی ہوتی ہے!"
نادر نغمانہ نے نہایت ندامت سے سر
جھکایا اور ندی کے نیلوفر پر جا بیٹھا، نہ نہانے کا نام لیا، نہ نغمہ گانے کا!
ورق کا واقعہ
ورق نامی ایک وسیع و عریض ورقہ،
وکیل واجد وڑائچ کی وسیع و عریض ورقوں والی وسیلہ دستاویز میں وقعت رکھتا تھا۔ وہ
ورق کوئی عام ورق نہ تھا، بلکہ وہ وصیت نامہ تھا جو وڈیرے وزیر وریام وڑائچ کا آخری
وسیع و عریض وسیلہ تھا۔ وصیت کے مطابق، وریام کی وسیع جاگیر وارثین میں برابر تقسیم
ہونی تھی، مگر وہاں وکیل واجد کی ورق گردانی نے ایک عجیب و غریب واقعہ کو جنم دیا۔
وہ ورق اچانک وصیت کی ورقوں سے
غائب ہوگیا! واجد وڑائچ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ورق، جو وصیت کی ورق
گردانی میں واضح مقام رکھتا تھا، یوں ہواؤں میں تحلیل ہو جائے گا۔ وارثین وکیل کے
وکیلانہ وعود پر یقین کرنے سے قاصر تھے، اور وصیت کی ورق گردانی میں وقت کا ضیاع
ہو رہا تھا۔
ورق کی ورطہ خیزی سے وڈیرے وریام
کے وارث، وسیم و ولی، وسوسوں میں مبتلا ہو گئے۔ وسیم، جو وصیت میں وسیع حصہ ملنے
کا امیدوار تھا، وکیل واجد پر ورق چرانے کا الزام لگانے لگا۔ ولی، جو وصیت کے
وارثوں میں واجبی حصہ رکھتا تھا، وسیم کے ساتھ سازش میں مبتلا ہوگیا۔
وکیل واجد نے وکالتی وارثت کے وسیع
تجربے کی روشنی میں معاملے کو وکیلانہ وار نمٹانے کا وعدہ کیا، مگر وقت و حالات نے
وفا نہ کی۔ وسیع و عریض ورق کی عدم موجودگی نے وکیل کے وقار کو داؤ پر لگا دیا
تھا۔
اچانک ایک واقعہ رونما ہوا! وکیل
کے وفادار نوکر، وفا دار، جو وکیل کے دفتر میں ورق گردانی کی خدمات انجام دیتا
تھا، وارفتہ وار دوڑتا ہوا آیا اور وسوسے سے بولا:
"وکیل صاحب! وہ ورق واثق و وضاحتی ثبوت کے ساتھ وڈیرے کی وہیل
چیئر میں وہیں پایا گیا جہاں وہ وصیت کے وقت بیٹھے تھے۔"
وسیع و عریض وصیت نامہ واپس پا کر
وارثین کی وہمی وسوسے والی وکالت ختم ہوئی، مگر وکیل واجد نے واشگاف الفاظ میں وعظ
دیا:
"وصیت کو وقت پر ورق بند کر دینا واجب ہے، ورنہ ورق ہوا کے
جھونکوں میں وہم و گمان میں گم ہو سکتا ہے!"
ہاتھی سب کا ساتھی
ہمدرد ہاتھی ہاشم ہر روز ہریالی
والے ہموار ہلکے جنگل میں ہنسی خوشی ہلچل مچاتا۔ ہاشم کا حلقہ احباب خاصا حیرت انگیز
تھا، ہرن، ہجرتی ہدہد، ہلکے پھلکے ہمستروں اور حد سے زیادہ ہوشیار ہنسوں پر مشتمل
تھا۔ ہاشم کی عادت تھی کہ ہر مشکل وقت میں حیوانی ہم نشینوں کی مدد کرتا، مگر آج
جنگل میں ہنگامہ برپا تھا!
ہوا یوں کہ ہاتھی ہاشم نے ایک دن
ہنسی مذاق میں ہیرے جیسے حسین ہنس سے کہا:
"حضرت ہنس، ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ آپ ہمیشہ ہوا میں ہی کیوں
ہوتے ہیں؟"
ہنس نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے ہنس
کر کہا:
"ہاتھی صاحب! ہمیں حیرت ہے کہ آپ ہمیشہ زمین پر ہی کیوں ہوتے
ہیں؟"
ہاشم ہکا بکا رہ گیا! ہاتھی کو چیلنج
دینا؟ یہ تو حیوانوں کی تاریخ میں حیران کن حرکت تھی۔ سب حیوان ہنسی ہنسی میں شرط
لگا بیٹھے کہ اگر ہاشم ہوا میں اڑ کر دکھائے تو وہ جنگل کا حکمران ہوگا، ورنہ اسے
سب کے لیے ہلکی ہلکی ہری ہری ہریسہ کھچڑی پکانی ہوگی!
ہاتھی نے ہوشیاری سے حکمت عملی
بنائی۔ ہجرتی ہدہد سے ہوائی مدد لی، ہمستروں نے ہوادار غبارے کا ہلکا پھلکا جال تیار
کیا، ہنسی خوشی سب نے ہاتھی کو جال میں باندھا اور ہوا میں چھوڑا۔۔۔
مگر حیوانو! ہاتھی ہوا میں جاتے ہی
"ہاہاہاہا!" کہہ کر ہچکولے کھانے لگا۔ حیرت ناک حد تک وہ ہوا میں جھول
رہا تھا، مگر جیسے ہی ہوا کا دباؤ ہلکا ہوا، ہاتھی "ہڑبڑ" کر کے دھڑام
سے زمین پر آ گرا! سب حیوان ہنسی میں ہلکان ہوگئے۔
ہاتھی ہاشم ہنسی سے ہلکان ہو کر
بولا:
"حیوانو! ہوا میں اڑنا ہمارے ہنر میں نہیں، مگر ہمیں ہر حال
میں ہنسی خوشی رہنا چاہیے۔ ہلکی ہلکی ہریسہ کھچڑی بھی ہماری ہنسی خوشی کا حصہ ہوگی!"
یوں ہاتھی نے ہار کر بھی حیوانوں
کا دل جیت لیا، اور سب ہنسی خوشی ہاتھی کے ہاتھ کی ہری ہری ہریسہ کھچڑی کھانے لگے!
چائے کی دعوت
محب احمد کے ہاں چائے کی دعوت تھی۔
صبح سے ہی گھر میں صفائی ستھرائی اور اہتمام جاری تھا۔ اچانک ستارۃ العروج نے چائے
دانی کو اٹھایا تو اس کی چونکنے والی چیخ گونجی، "ہائے اللہ! یہ کیا؟"
سب دوڑے آئے۔ چائے دانی کے اندر کچھ عجیب و غریب تھا—کالا سا، چمکدار، جیسے کوئی
جرثومہ یا شاید نیم مردہ کیڑا۔
محب احمد کے چہرے پر حیرت کی جھریاں
ابھر آئیں۔ "یہ کیسے ممکن ہے؟" اس نے بڑبڑاتے ہوئے چائے دانی کو غور سے
دیکھا۔ ستارۃالعروج نے مشورہ دیا، "یہ چائے دانی اب قابلِ استعمال نہیں۔"
مگر محب احمد نے اسے نہ دھونا گوارا کیا، نہ پھینکنا۔
دعوت کا وقت قریب تھا، اور
مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ ایک لمحے کے لیے گھر کا ماحول خوشگوار رہا، مگر جیسے
ہی چائے پیش ہوئی، ایک چیخ فضا میں بلند
ہوئی!
"یہ چائے ہے یا کوئی کیمیکل؟" ایک مہمان نے کپ رکھتے
ہوئے کہا۔
دوسرا مہمان، جو کچھ زیادہ ہی
حساس طبیعت کا تھا، "مجھے الٹی آ رہی ہے!" کہتا ہوا واش روم کی طرف
بھاگا۔
محب احمد نے گھبرا کر چائے کا
ذائقہ چکھا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ چائے کا مزاکھٹا، کڑوا، اور کچھ زیادہ
ہی بھیانک تھا۔ آخر کار، معمہ حل کرنے کے لیے چائے دانی دوبارہ کھولی گئی—اندر ایک
چھپکلی مردہ حالت میں پائی گئی!
"یہ۔۔۔ یہ کہاں سے آئی؟" ستارۃ العروج نے جھرجھری لی۔
محب احمد نے افسوس بھرے انداز میں
کہا، "یہ سب میری عادتِ دیرینہ کا نتیجہ ہے۔ ہمیشہ پرانی چیزوں کو بچانے کا
خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے!"
مہمانوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،
اور پھر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ "چلو، آج چائے کم از کم یادگار تو رہی!" کسی
نے ہنستے ہوئے کہا۔
نتیجہ: چائے کی دعوت ہو یا زندگی،
کبھی کبھی پرانی اور بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے!
یاروں کی یاری، یکے کی سواری
یونس، یاسر اور یعقوب— یہ تین یار
یگانہ، یک جان اور یک دل تھے۔ ہر یکم تاریخ کو یہ یگانہ یاران یاقوتی یخنی کھانے یوسف
ہوٹل پر جاتے، یاقوتی گلاس میں یخ پانی پیتے، اور یکتائی سے یارانہ نبھاتے۔ مگر یکم
مارچ کو یوسف ہوٹل بند تھا، کیونکہ یوسف یرقان کا شکار ہو گیا تھا!
یاسر نے یوں یگانہ رائے دی:
"یار، یکے میں یاترا کرتے ہیں، یوں بھی یہ یادگار لمحہ ہوگا!" یونس اور یعقوب
یک زبان ہو گئے: "یکے کا کرایہ؟" یاسر نے یکدم یاقوتی نوٹ نکالا: "یہ
لو! یک طرفہ کرایہ میں دوں گا، واپسی تم دونوں کی ذمہ داری!"
یوں یکے کی یاری شروع ہوئی، مگر یکدم
یکے والے نے یکسانیت توڑتے ہوئے یک طرفہ اعلان کیا: "یکہ یکا یک یوں یکا یک رک
گیا ہے، یعنی یرقان زدہ گھوڑا یوں ہی یکدم یک دم جواب دے گیا!"
یونس یکدم یوں چلا اٹھا: "یہ
یک بیک کیا یلغار ہے؟ یعنی یوں ہی یکہ یک جام ہو گیا؟" یعقوب نے یکسوئی سے یکے
والے کو گھورا: "یہ یکہ یا یک چرخہ؟"
یکے والے نے یاسر کو یک رنگی سے دیکھا:
"یار، یکے کے یکے پہ یاقوتی نوٹ یوں ہی نہیں چلتے، یک جوتے بھی ساتھ ہوں!"
یک دم یاسر، یونس، اور یعقوب نے یک
زبانی سے یکجہتی دکھائی اور یکے والے کو یک جنبشِ ید یوں پھسلایا کہ وہ یاسر کے یاقوتی
نوٹ کو یوں ہی یکبارگی لے کر یک طرف ہو گیا!
"یک طرفہ کرایہ یک طرف ہوا، یاری یوں ہی یک طرفہ رہ گئی!"
یعقوب نے یکسر یاسر کو یک چوٹ لگائی، یونس یک دم لب ِخند کے ساتھ بولا: "یار، یک
سبق ملا— یکے میں یک بار سوار ہو جاؤ، مگر یک بارگی سوچ لو!"