اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

اتوار، 10 ستمبر، 2017

سبق :سفارش طلب مصنف:کرنل محمد خان،

سبق :سفارش طلب
مصنف:کرنل محمد خان

تعارف مصنف:

کرنل محمدخان (انگریزیColonel Muhammad Khan) (پیدائش:5 اگست 1910ء – 23 اکتوبر، 1999ءپاکستان کےنامور مزاح نگاراور پاک فوج کے شعبۂ تعلیم کے ڈائریکٹر تھے۔ نیز انھوں نے برطانوی دور میں ہندوستانی فوج میں بھی کام کیا اور دوسری جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ اور برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ پاک فوج کی ملازمت کے دوران کرنل محمدخان نے کتاب بجنگ آمد تصنیف کی جو ایک مزاحیہ سوانح ہے، ان کی اس کتاب کو اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی کتاب "بجنگ آمد" کی کامیابی کے بعد انہیں اردو کے بلند پایہ مزاح 
نگاروں میں شمار کیا جانے لگا۔ کرنل محمدخان، مشتاق احمد يوسفی، ضمیر جعفری اور شفیق الرحمن کے ہمعصر تھے۔
اندازِ بیان: 
اُرردو مزاح کو کرنل محمد خان نے ایک نیا بانکپن اور اندازِ دلبری بخشا ہے، جو صرف انہی کا حصہ ہے۔
کرنل محمد خان ہمارے عہد کے ذہین مزاح نگار تھے۔ انہوں نے اپنی ذہانت کو صیغۂ راز میں رکھا۔ ایک دن اچانک اُن کے قلم نے شاہکار مزاحیہ ادب تخلیق کیا اور یہ باور کرایا کہ فوجی انسان جس کے ذہن میں جنگ اور امن دونوں ساتھ ساتھ آغاز کرتے ہیں، انسانی یک جہتی اور تحفظ کا احساس اور............ دائمی مفاہمت اور خلوص کی تائید کے لئے تخلیقی مزاح لکھتا ہے۔ اس اعتبار سے مزاح کرنل محمد خان کے لئے حسنِ فطرت کا درجہ رکھتا ہے........... چنانچہ مزاح کے بغیر زندگی اس طرح ہے جیسے پانی کے بغیر سمندر۔
کرنل محمد خان کچھ ایسا معتدبہ فریفتگیٔ دل لے کر ہی ملک سے باہر گئے۔ انہیں جو بھی ملی "حسینۂ عالم" ہی ملی۔ سوائے پی آئی اے کی اس ائیر ہوسٹس کے جس نے اس سفر میں سب سے پہلے ان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس لئے تو میں نے 99 فیصد کی قید لگائی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے بعد کرنل محمدخان ہیں جنہیں ہر جگہ ہر مقام پر کسی نہ کسی حسینہ نے صرف سلام نہیں کیا یہ کوئی خاص فخر کی ات نہیں۔ سلامِ محبت بھی کیا ہے
حالاتِ زندگی:
کرنل محمد خان ضلع چکوال کے قصبہ بلکسر، صوبہ پنجاب میں 5 اگست، 1910ء کو چودھری امیر خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ 
یوں تو چکوال اور کوہستان نمک کے سارے علاقے میں بیشتر مغل قبیلے کے افراد آباد ہیں۔ اور یہ سب غالباً اسی بناء پر جب کاشتکاری نہیں کرتے تو اپنے جوہر دکھانے کے لئے سپہ گری اختیار کرتے ہیں کیوں کہ اپنی اسی نسلی اور خونی صفت سے نہ انہیں فرار اور نہ ہی قرار حاصل ہے لیکن کرنل محمد خان کی مانند میدانِ ادب کے شہسوار صرف چند ہی منظرِعام پر آئے ہیں اور ہر میدانِ مزاح میں چند تر۔ کرنل محمد خان مغلوں کی جس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں اُس کا نام "مغل کسر" ہے۔

تعلیم

محمد خان ابھی چار سال کے ہی تھے کہ ان کے سر سے والد کا سایۂ عاطفت اُٹھ گیا لیکن ان کی والدہ نے غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ان کی تعلیم پر نہ صرف یہ کہ خصوصی نظر رکھی بلکہ اُسے خوب سے خوب تر پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ محمد خان نےاپنی تعلیمی زندگی کا آغاز چوتھی جماعت میں داخلے سے کیا۔ ان کا داخلہ ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی اسکول چکوال میں ہوا۔ اب جب آٹھویں پاس کرنے کے بعد نویں جماعت میں داخلے کا وقت آیا تو اس کے لئے اضافی انگریزی کی استطاعت کی ضرورت پڑ گئی جس کے لئے انہیں چار سال صرف کرنے تھے لیکن ان کی یہ ضرورت گاؤں کے ایک لڑکے نے جو چھٹیوں پر گاؤں آیا ہوا تھا اس نے موسمِ گرما میں اُن کو پرائیویٹ طور پر پڑھا کر ان کی ضرورت کو پورا کروا دیا ۔
1927ء میں دسویں جماعت فرسٹ ڈویژن میں پاس کی اور رول آف آنر حاصل کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ٹھانی جس کے لئے لاہور جانا پڑتا تھا۔ انہیں جن لوگوں کی شاگردی اور ہم جلیسی میسر ہوئی۔ ان میں نمایاں حضرات ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض، ن م راشد اور محمود نظامی (بعد میں ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) تھے اور پھراسلامیہ کالج لاہور میں اس دوران جو نابغۂ روزگار ہستیاں بطور پرنسپل تعینات رہیں ان میں قابلِ ذکر حضرات میں علامہ عبداللہ یوسف علی، ایک انگریز الیگزاندر اور کچھ بعد میں ایم اےغنی رہے۔ محمد خان نے ان تمام حضرات کے چمنِ علم سے خوشہ چینی کی۔ ہاسٹل میں محمود نظامی کی شخصیت سے مسحور تھے تو کالج کے باہر کے حضرات میں اُن کی مثالی شخصیت پطرس بخاری تھے جنہیں وہ اپنی تحریری زندگی کا مرشد گردانتے تھے لیکن بعض ناقدین اُسے ان کی کسرِ نفسی گردانتے ہوئے یہ کہنے میں عار نہیں محسوس کرتے کہ وہ صنفِ مزاح میں اُن کو کہیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں[6]۔
1929ء میں ایف ایس سی میڈیکل گروپ میں درجہ اول میں کیا۔ اپنے حاصل کردہ نمبروں کی بناء پر انہیں لاہور کے ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ بہ آسانی مل سکتا تھا لیکن ان کے ایک بزرگ چودھری حق نواز نے کہا "کیا کرو گے ڈاکٹری کرکے، دکان کھولو گے"۔ تب زمیندار بچے کے لئے دکان کھولنا ایک معیوب فعل سمجھا جاتا تھا اور بقول کرنل محمد خان کے "تب ڈاکٹروں کی وہ چاندی نہ تھی جو آج کل ہے۔" ظاہر ہے انہوں نے متبادل مشورہ مانگا تو انہوں نے کہا کم از کم بی اے کرلو، اس کے بعد یا تو فوج میں قسمت آزمائی کرنا۔ یا پھر آئی سی ایس کے لئے امتحان دینا۔ سو انہوں نے ڈاکٹر بننے کے خیال کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے بی اے میں داخلہ لے لیا۔ اور یوں 1931ء میں بی اے بھی نمایاں نمبروں سے پاس کرلیا۔ اس کے بعد بی اے آنرز فارسی میں کیا۔ غالباً یہ وہ مقام اور وقت تھا جب ان کی زبان دانی کو جِلا ملی اور اردو فارسی کے اشعار معانی مطالب اور برمحل استعمال پر عبور حاصل ہوا۔ لیکن ابھی قسمت نے ان کے لئے تعلیمی میدان کی حدود کا تعین نہیں کیا تھا کیوں کہ فوج میں کمیشن اور آئی سی ایس کے امتحان کے لئے عمر کی قید آڑے آ رہی تھی۔ اب پھر وہ زندگی کے ایسے موڑ پر آکھڑے ہوئے تھے کہ یا پھر چشمۂ علم سے جو انہوں نے چلو بھرا تھا اس مزید گھونٹ پی کے اپنی طلبِ علم کی پیاس کو بجھائیں۔ سو انہوں نے پنجاب یونیوسٹی میں ایم اے اقتصادیات میں داخلہ لے لیا جس کی ڈگری انہوں نے1934ء میں حاصل کی۔
یونیورسٹی سے فراغت کے بعد محمد خان نے اپنی تعلیمی قابلیت کو مزید جِلا دینے کے بارے میں سوچا اور بی ٹی میں داخلہ لیا تو یہ ایسے ہی تھا کہ جب کسی آزاد فضا میں رہنے والے پرندے کو پابندِ قفس کردیا جائے۔ کرنل محمد خان کے مطابق اسے ہم سنٹرل ٹریننگ کالج کی بجائے سنٹرل جیل زیادہ سمجھتے تھے۔ اگر کوئی استاد کسی طالب علم کی شکایت کردے تو اس کی نہ صرف شنوائی ہوتی تھی بلکہ اس پر تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی تھی لیکن طلباء کی کوئی نہیں سنتا تھا۔ آخر جب قوتِ برداشت جواب دے گئے تو ان سے ایک نظم سرزد ہوگئے۔ جس کا عنوان تھا بی ٹی نامہ۔ جب نظم چھپی تو کالج میں ہنگامہ بپا ہوگیا۔ طلباء تو خیر بلا استثناء مظلوم صنف ہونے کی بناء پر سو فیصد اس کے حق میں تھے اور اس امر پر شاداں و فرحاں تھے کہ کوئی تو ایسا ہے کہ جس نے ان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے انتظامیہ کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ معاملہ انگریز پرنسپل تک پہنچا۔ پرنسپل نے بلا کر تنبیہ کی لیکن ساتھ ہی اُس نے بہت سی شکایتوں کا ازالہ بھی کیا۔ بہر کیف نظم خاصی پسند کی گئی۔ بالآخر 1936ء میں بی۔ٹی کرلیا[7]۔

شادی

محمد خان دورانِ ملازمت جب تلہ کنگ میں تھے جو اُن کے گاؤں بلکسر سے نزدیک تھا اس وقت اُن کی والدہ نے اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے محمد خان کی 1939ء میں ان کی پھوپھی زاد بخت بانو سے شادی کردی۔ بخت بانو سے رفاقت 35 سال پر محیط رہی اور یوں انہوں نے نومبر 1974ء میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔

ملازمت

درس و تدریس

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی چودھری حق نواز (جنہوں نے ڈاکٹری میں داخلے سے منع کیا تھا) کے مشورے کے مصداق نہ تو فوج میں بھرتی کا مرحلہ ہوا اور نہ ہی آئی سی ایس کے امتحان دینے کی نوبت آئی۔ اب صرف یہ رہ گیا تھا کہ معلمی کا پیشہ اختیار کیا جائے چنانچہ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے اور اپنی لیاقت، قابلیت اور علمیت کی بنیاد پر اس وقت کے مروجہ گریڈ کی آخری تنخواہ پر مقرر ہوئے۔ پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ اسکول بھیرہ میں ہوئی لیکن صحت کی خرابی آڑے آئی اور وہاں سے چھ ماہ بعد رخصتِ سفر باندھنا پڑا۔ وہاں سے لنگر اُٹھایا تو تلہ کنگ پڑاؤ ڈالا۔ ایک سال وہاں رہنے کے بعد عازمِ چکوال ہوئے۔جہاں مختصر عرصہ ٹھہرنے کا موقع ملا۔

فوج میں شمولیت

داخلہ


کرنل محمد خان فوج وردی میں
عجیب اتفاق ہے کہ جب فوج میں کمیشن کا اشتہار شائع ہوا تو محمد خان اس سےنا واقف تھے۔ وہ تو ان کے ایک بچپن کے ساتھی کرنل غلام علی نے جب اشتہار پڑھ کر فوج میں بھرتی ہونے کے لئے آئے تو محمد خان کو بھی اس خبر سے آگاہ کیا اور فوراً درخواست دلوائی اور وہ دونوں براستہ ڈپٹی کمشنر جہلمراولپنڈی پہنچے۔ جہاں ان کاکلکتہدفتر (موجودہ منسٹری آف ڈیفنس) میں انٹرویو ہونا تھا۔ پہلے دن کے انٹرویو کے بعد وہ اور دوسرے روز کے انٹرویو کے بعد ان کے دوست کرنل غلام علی فوج میں کمیشن کے لئے منتخب ہوگئے۔
کرنل محمد خان اپنی فوج میں داخلے اور آمد کے بارے بڑے پیارے انداز میں یوں تعارف کرواتے ہیں:
جنوری 1940ء میں ہر چند کہ پولینڈ اور ہٹلر کے دوسرے ہمسائے جرمن بمباروں اور ٹینکوں کے درمیان ایسی پُر سکون زندگی بسر نہیں کر رہے تھے۔ تاہم باقی دنیا بفضلِ خدا خیریت سے تھی اور ہمارے ملک ہندوستان میں انگریز کی برکت سے اس شدت سے امن برپا تھا کہ شیر بکری مع جملہ ہندوستانیوں کے ایک گھاٹ پانی پی رہے تھے۔ چنانچہ صلح و آتشی کے اس ماحول میں کسی کو گمان تک نہ تھا کی عین اس وقت ملک کے ایک گوشے میں ایک اہم جنگی واقعہ کی ابتداء ہورہی ہے۔ یعنی لاہور میں ایک نوجوان کالج چھوڑ کر جنگ میں کود پڑنے پر تل گیا ہے۔ یہ نوجوان میں ہی تھا۔

تربیت کا دور

جب وہ بطورکیڈٹ آفیسر ٹریننگ اسکول مہو کے ادارے میں داخل ہوئے تو دراصل اب صحیح معنوں میں فوجی زندگی کے کرب و ابتلاء سے متعارف ہورہے تھے۔ یہی وہ زمانہ اور مقام ہوتا ہے جہاں وہ لوگ جو ناز و نعم کے عادی ہوتے ہیں انہیں اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے اور کئی نہ صرف دل چھوڑ جاتےہیں بلکہ جسم و جاں کا بچانا بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔ اب لیفٹینی / کپتانی کا نشہ اُتر چکا ہوتا ہے اور جن حالات سے نبرد آزما ہونا ہوتا ہے اس کو بیان کئے بغیر اور وہ بھی محمد خان کی زبان میں آپ نہ تو صرف اُسے صحیح معنوں میں سمجھ پائیں گے اور نہ ہی اسے سراہنا ممکن ہوسکے گا۔ اگرچہ مہو میں محمد خان کا قیام اپنے جلو میں اور کئی نئے نئے قسم کے تجربات اور مشاہدات لئے ہوئے تھا۔ اگرچہ مہو میں تربیت کی کل مدت نو ماہ تھی کہ چھٹے مہینے انہیں سگنل کور کے لئے چن لیا گیا اور بالآخر انہیں کمیشن بھی سگنل کور ہی میں ملی۔

پہلی تعینانی

تربیت کے بعد ان کی پہلی چو ائس لاہور تھی اور دوسرا پشاور۔ مگر قرعۂ فال پشاور کے نام نکلا جہاں انگریزی فوج کے گورے افسر بلکہ سارجنٹوں سے بنے افسروں سے واسطہ پڑا۔ ایسی سیکشن میں تعینات ہوئے جس کا کام پہاڑی توپ خانے کو مواصلات پہچانا تھا۔ لیکن وہاں باعثِ تمانیت یہ بات تھی کہ اس میں بیشتر مسلمان تھے۔

دوسری جنگِ عظیم میں شمولیت۔

پشاور کے بعد محمد خان بمبئی کی بندرگاہ سے پہلی باراگست 1941ء کے‌آخری ہفتے میں سوئے مغرب روانہ ہوئے۔ بظاہر کسی کو منزل کا علم نہ تھا بقول کرنل محمد خان:
خیال تھا کہ سویز یا پورٹ سعید اُتریں گے، لیکن دوسرے روز ہی کسی نے کان میں آ کر کہا "بصرہ اُتریں گے لیکن بتانا کسی کو نہیں"۔ ہم نے کسی کو نہ بتایا۔ یعنی سوائے اپنے دوست کے۔ لیکن اُسے پہلے ہی علم تھا۔
اس طرح ستمبر کے پہلے ہفتے میں بصرہ کی بندرگاہ میں جا اُترے جہاں سے اُن کے سفر زندگی کا معرکہ خیز دور شروع ہوا جو آدھی دنیا کا چکر لگانے، جنگ و جدل کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ، کیاہ، سدی امین، قاہرہ، شمالی افریقہ سے ہندوستان واپس اور پھر دوسری بار دوسرے میدانِ کارزار یعنی برما میں اس طرح جا پہنچے کہ یہاں ڈوبے وہاں نکلے۔ مگر وہاں جاپانیوں کی چیرہ دستیوں کا ایسا مشاہدہ کرنے کو ملا اور اُسے اس طرح محسوس کیا بھی کہ اس نے طبیعت کو اس حد تک مکدر کیا کہ انہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ قیام کو ڈیڑھ لمحہ لکھا ہے۔ اپنی واپسی کا ذکر کرتے ہوئے کرنل محمد خان لکھتے ہیں:
میمیو سے رنگون تک جیپ میں سفر کیا اور دیکھا کہ ہمارے قیام کے دوران برما کے بے شمار زخم بھر آئے ہیں۔۔۔۔۔" ہم نے دل ہی دل میں روبصحت برما سے کہا کہ تجھے احساس نہ ہومگر ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے۔ برما میں رنگون سے بحری جہاز میں سوار ہوکر ایک مختصر سفر کے بعد براستہ مدراس سرزمینِ ہند میں دوبارہ داخل ہوئے۔ وہاں سے جو سوئے شمال روانہ ہوئے تو راستے میں کئی تجربات سے گزرتے ہوئے ایک بار پھر پشاور آ ڈیرہ ڈالا۔ یوں دنیا گول ہے کے مصداق جہاں سے چلے تھے وہیں آ پہنچے۔۔۔

پشاور میں تعیناتی۔

قیام پاکستان کے بعد ان کی فوجی زندگی کے پانچ سال پشاور میں گزرے۔اب ایک آزاد ملک کی فوج کے ایک اعلیٰ آفیسر یعنی چیف ایجوکیشن آفیسر کے طور میجر کے رینک میں قلعہ بالاحصار میں رونق افروز تھے۔

جی ایچ کیو میں تعیناتی۔

اس کے بعد ایجوکیشن کور جی ایچ کیو میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدہ پر فائز کئے گئے۔

ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن۔



1957ء مین حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن کی جگہ خالی ہوگئی۔ اب اگرچہ ایک سے زائد حضرات نے اس عہدے کے لئے اپنا استحقاق جتانے کی کوشش کی لیکن اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان کی مردم شناس نے رنگ دکھایا اور انہوں نے لیفٹنینت کرنل محمد خان کو فل کرنل کے رینک پر ترقی دلو کر انہیں ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن کے عہدے پر لگائے جانے کے احکامات صادر کروا دیئے۔
ڈائریکٹر بننے کے سال ڈیڑھ سال بعد ہی ملک میں ایوب خان کا مارشل لا لگ گیا۔ اس دور میں جہاں اور بہت سی اصلاحات پر عمل درآمد ہونا شروع ہوا۔ مختلف کمیشن مقررہوئے۔ ان میں ایجوکیشن کمیشن بھی تھا۔ کرنل محمد خان اس مین مسٹر شریف کی سربراہی میں ممبر مقرر ہوئے۔ اپنی اس تفویض کردہ ڈیوٹی کے لئے وہ پندرہ دن جی ایچ کیو میں اور پندرہ دن کمیشن کے ساتھ مختلف میٹنگوں اور دورے میں مصروف رہتے لیکن دونوں کاموں میں سے کسی ایک کو دوسرے کام میں مُخل نہیں ہونے دیا۔ اپنی ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کے علاوہ اس دوران جو ایک اور بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا وہ پی ایم اے کی عطا کردہ بی اے اور بی ایس سی کی ڈگری کو ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے برابر منوانا تھا۔ فوجیوں کے لئے اس فیصلے سے بڑے فائدہ مند اور دور رس نتائج مرتب ہوئے۔
؎ریٹائرمنٹ
کرنل محمد خان نے فوج میں 29 برس سروس کرنے کے بعد بطور ڈائریکٹر آرمی ایجوکیشن کے 1969ء میں وردی کو خیرباد کہا۔

آرمی سنٹرل لائبریری

ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کوئی نوکری تو قبول نہ کی البتہ اعزازی طور پر آرمی لائبریری کی تشکیلِ نو اور بہتری کے لئے بطور ایڈوائزر لائبریری کا کام قبول کرلیا۔ اس دوران ہی برٹش کونسل کی جانب سے انگلستان کی فوجی لائبریریوں کا دورہ کیا جس کا ذکر اپنی کتاب "بسلامت روی" میں کیا ہے۔ فوجی لائبریریوں میں بہتری کے لئے انہوں نے ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی ملکی حالات میں تبدیلی کی بناء پر فوج میں بھی کٹوتی اور بچت مہم چلی۔ سو نزلہ بہ عضو ضعیف کے تحت اس اعزازی عہدے پر گرا اور کرنل صاحب بہ عزت تمام صحیح معنوں میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔

ادبی خدمات

ابتدائی کاوش

کرنل محمد خان کے اندر ایک ادیب اسکول کے دوران ہی کروٹیں لے رہا تھا جس کا انہوں نے گاہے بگاہے اسکول، کالج اور یونیورسٹی اور پھر بی ٹی کے تربیتی ادارے میں اظہار کیا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق انہوں نے اسکول کے زمانے میں ہی خامہ فرسائی شروع کردی تھی۔ کوئی بارہ برس کی عمر میں انہوں نے پہلی بار جرأتِ رندانہ کرتے ہوئے بلی چوہے کے عنوان کے تحت کہانی لکھی۔ اگرچہ اسے وہ اپنی تخلیقی کاوش کی ابتداء گردانتے ہیں لیکن عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ بلی چوہے کے بارے میں کیا اور کس انداز میں لکھا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کا بھی آغاز کیا۔ انہوں نے حمدِ خدا کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو اس زمانے میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک رسالے رہنمائے تعلیم میں چھپی۔ جیسے آج کل اخباروں میں ایک گوشۂ اطفال ہوتا ہے۔ اسی طرح اس رسالے کا ایک حصہ طلباء کی تخلیقات کے لئے مختص تھا اس میں ان کی یہ نظم حمدِ خدا بھی چھپ گئی اگرچہ قدرے ترمیم کے ساتھ۔ محمد خان اس زمانے میں "صادق" تخلص اختیار کئے ہوئے تھے لیکن بقول کیپٹن شاکر ٹنڈان وہ نسیم تخلص کرتے تھے۔ ان کی ابتدائی نظم کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں :
مقدس ذات بے انتہا خداوندِ جہاں تم ہونگہباں، رحمدل ہو، بیکسوں پر مہرباں تم ہو
ستونوں کے سوا قائم کیا ہے آسمانوں کودکھادی قدرت کامل نظر سے گونہاں تم ہو
کھڑا ہے دست بستہ تیرے در پر ملتجی صادقکرو نظرِ کرم ہاں حامیٔ افتادگاں تم ہو

صحافت

کھیلوں کا شوق دیکھنے کی حد تک تھا۔ ان کے پسندیدہ کھیلوں میں فٹ بال اور کرکٹ تھا اور کرکٹ ہمیشہ شوق سے دیکھتے تھے۔ کھیلوں میں حصہ نہ لینے کے باوجود انہوں نے اپنی اس پسند کو شوقِ تکمیل تک پہچانے کے لئے کھیلوں پر تبصرہ نگاری کا شغل اختیار کیا۔ یوں اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ساتھ ساتھ فیروز سنز کےایک اخبار ایسٹرن ٹائمز کے اسپورٹس رپورٹر بن گئے۔

مزاح نگاری

کرنل محمد خان کے فن کا تھوڑا سا اظہار تو ان کی تعلیم کے ابتدائی زمانے میں ہوا اور پھر جیسے وہ ودیعت شدہ فن ایک طویل عرصے کے لئے خاموشی اختیار کر گیا۔ان کی پہلی کتاب بجنگ آمد ہے۔ بجنگ آمد کرنل محمد خان کی زمانۂ جنگ کی گزاری ہوئی زندگی کی داستان ہے۔ اس میں جہاں بہت سی ہونی اور انہونیوں کا ذکر ہے، جہاں بہت سے پُر لطف یادگار اور قابلِ ذکر واقعات، ادوار اور یارانِ دلدار کا ذکر ہے وہاں انہوں نے اپنی اس کتاب کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر ان کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستانِ جاوداں بنا دیا ہے[18] ۔اس کتاب کا پسِ منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ یہ مضامین 1962ء اور 1965ء کے درمیان لکھے گئے اور ان میں سےچند مختلف رسائل میں چھپے۔ وسط 1965ء میں انہیں کتابی صورت میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور بالآخر اگست 1966ء میں شائع ہوئی۔ کرنل صاحب اپنی کتاب بجنگ آمد کی ہر اشاعت میں تصحیح اور ترمیم کرتے رہتے۔ وہ بڑی حد تک چھوٹی چھوٹی جزویات پر نظر رکتے تھے اور ساتھ ساتھ سرخ روشنائی سے کتاب میں دَر آنے والی غلطیوں کو نظر سے قطعی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ اور حسبِ ضرورت مزید بہتری کے خیال سے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بھی کرتے جاتے تھے۔


کرنل محمدخان مختلف اوقات میں بیرونِ ممالک کے تین دورے کیے جن میں سے ایک نجی اور دو سرکاری ۔ ان تین سفروں پر مشتمل انہوں نے ایک سفرنامہ تحریر کیا جس کا نام انہوں نے بسلامت روی رکھا[21]۔ بسلامت روی ان کی ریٹائرمنٹ کے چھ سال بعد 1975ءمیں منظرِ عام پر آئی۔ کرنل محمد خان کی یہ سب سے طول طویل کتاب ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک نوع کی آپ بیتی ہے جو ایک سفرنامہ کی شکل میں وجود میں آئی[22]۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے بسلامت روی کے بارے میں لکھتے ہیں:
وہی بجنگ آمد والی حلاوت، لطافت، ظرافت، سلاست، بانکپن اور شگفتگی ہے، فرق ہے تو یہ کہ اس میں زبان کا چٹخارہ یعنی شعریت اور ادبیت زیادہ ہے اور اس میں بے ساختہ پن زیادہ ہے۔
کرنل صاحب کی تیسری کتاب بزم آرائیاں ہے اور یہ بسلامت روی کے پانچ سال بعد 1980ء میں شائع ہوئی۔ اس میں متفرق مضامین اور کہانیاں شامل ہیں جن میں اکثر مختلف رسالوں میں چھپ چکی تھیں۔ جو غالباً کرنل صاحب نے مدیروں کی فرمائش پر تحریر کیں۔ کرنل محمد خان بزم آرائیاں کے بارے میں رقمطراز ہیں:
بجنگ آمد کا موضوع میری لیفٹینی تھی، یعنی یہ کہ کب اور کیسے نازل ہوئی اور بعد از نزول مجھ پر کیا گزری۔ بسلامت روی سفرِ فرنگ کی روئداد تھی۔ موجودہ کتاب جیسا کہ آپ نے دیکھا ہے، متفرق مضامیں کا مجموعہ ہے لیکن اس الوداعی باب میں یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ایک روز یہ خاکسار یکا یک ایک عام آدمی سے مصنف بن گیا تو اس کے بعد اس پرکیا بیتی۔
پروفیسر مجتبیٰ حسین نے ان کی کتاب بزم آرائیاں کو جس انداز میں دیکھا اور پرکھا، وہ پیشِ خدمت ہے:
بزم آرائیاں۔ یہ ان کی تیسری تصنیف ہے--------- کرنل محمد خان کے مزاح میں بے فکری اور فکرمندی دونوں اس وجہ سے پائی جاتی ہیں کہ بعض باتیں وہ کھل کر کہتے ہیں اور بعض جگہ خاموشی مصلحت کوشی بن جاتی ہے۔ کرنل محمد خان کے مزاح میں جڑواں بچوں سی ہم طبعی پائی جاتی ہے۔ ان کے منصب اور انکی مزاح نگاری میں خوشگوار تعاون ہے۔ مثال کے طور پر شرابی کبابی،خیالاتِ پریشان، ضرورت ہے ایک خوشامدی کی اور ریٹائرمنٹ کا ذائقہ پڑھ لیجئے۔ مصنف کے نام کے جز و کل موجود ملیں گے۔
کرنل صاحب اپنی پہلی تین کتابوں (یعنی بجنگ آمد، بسلامت روی اور بزم آرائیاں) کو تو تمامتر اپنی کتابیں گردانتے تھے اور چوتھی کتاب انگریزی سے اردو میں ترجمہ شدہ کہانیوں پر مشتمل ہے اس لئے وہ اسے اپنی تخلیق نہیں گردانتے تھے۔ کرنل محمد خان کی چوتھی کتاب بدیسی مزاح۔ پاکستانی لباس میں ہے جس میں آپ نے انگریزی مزاح پاروں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب 1992ء میں شائع ہوئی۔

رسالہ "اُردو پنچ" کی ادارت

بزم آرائیاں لکھنے کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے دوست احباب سے مشورے کے ساتھ ایک نیا رسالہ بنام اُردو پنچ کے نام سے نکالنے کی تیاری شروع کردی۔ تمام انتظامی امور اور فراہمیٔ مضامین کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد انہوں نے1981ء میں یہ رسالہ نکالہ جس کا پہلا شمارہ یکم اپریل 1981ء میں نکلا جو حجم کے لحاظ سے کسی کتاب سے کم نہ تھا[26]۔ اُردو پنچ کے اولین اشاعت میں جن مصنفین کے مضامین شامل ہوئے ان میں شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، ڈاکٹر وزیر آغا، ممتاز مفتی، مشکور حسین یاد،رضیہ فصیح احمد، صدیق سالک، مستنصر حسین تارڑ، مختار زمن، ڈاکٹر انور سدید، پطرس بخاری، بشریٰ رحمن، محمد منشا یاد،کیپٹن اشفاق حسین، ڈاکٹر صفدر محمود، چراغ حسن حسرت، کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری اور منظومات میں سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، رئیس امروہوی، دلاور فگار، مولانا احسن مارہروی، مسٹر دہلوی، قتیل شفائی، تابش دہلوی، انور مسعود، امیر الاسلام ہاشمی، سرفراز شاہد شامل وغیرہ شامل ہیں۔رسالے کی جلد نمبر 15 (57) کرنل محمد خان نے 1995ء میں چھاپی جو شفیق الرحمن نمبر تھا اور یہ اردو پنچ کا آخری نمبر ثابت ہوا۔

تخلیقات