اردو تخلیقی تحریرمشق کیلیے تصاویر
خاکہ نمبر:1
وقت کا پہیہ گھومتا ہے، اور زندگی کے لمحات انسان کو مختلف مراحل سے گزار کر ایک ایسا مقام دکھاتے ہیں جہاں بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی داستان ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جاتی ہے۔ دیے گئے خاکے میں اس حقیقت کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ وقت کس طرح انسان کے رویوں کو پلٹ دیتا ہے۔
زندگی کے ابتدائی ایام میں، والدین بچوں کی پرورش میں اپنا سب کچھ لگا دیتے ہیں۔ ان کے کھانے پینے، تعلیم اور تربیت کا ہر پہلو والدین کی قربانی اور محبت کا مظہر ہوتا ہے۔ مگر وقت کے ساتھ، یہی بچے جوان ہو کر والدین کی خدمت کے پابند ہو جاتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : " وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا" (سورہ بنی اسرائیل: 23)
" اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔"
یہ آیت واضح طور پر یہ تعلیم دیتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کرنا ہماری ذمہ داری ہے، کیونکہ جس طرح انہوں نے ہمیں بچپن میں پالا، بڑھاپے میں ان کی خدمت ہمارے لیے لازم ہے۔
کسی شاعر کا یہ شعر وقت کی بے ثباتی اور انسانی اعمال کے انجام کو خوبصورتی سے بیان کرتا ہے:
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
ہمیں چاہیے کہ اپنے والدین اور بزرگوں کا دل سے خیال رکھیں، کیونکہ وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے، اور جو آج بویا جائے گا، کل وہی کاٹا جائے گا۔
یہ تصویر ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنے رویوں میں عاجزی، محبت اور خدمت کو شامل کریں۔ زندگی کا یہ پہیہ ہمیں ضرور اسی جگہ واپس لے آتا ہے جہاں ہم نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنوان کہانی : وقت کا پہیہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کراچی کے علاقے کینٹ میں ایک شخص رہتا تھا۔ اس کا نام علی تھا۔ وہ ایک دفتر میں کام کرتا تھا۔ علی کی شادی کے دو سال بعد اس کے گھر میں خوشیوں کا سماں تھا۔ اس کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ میاں بیوی دونوں اللہ کے اس انعام پر بے حد خوش تھے۔
علی دن رات ننھے حسان کے گرد گھومتا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا۔ جب حسان نے پہلا قدم اٹھایا تو علی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وقت گزرتا گیا، اور وہ دن بھی آیا جب حسان نے علی کو "ابو" کہہ کر پکارا۔ علی کے لیے یہ دنیا کی سب سے خوبصورت آواز تھی۔
علی کا معمول تھا کہ وہ شام کو حسان کو کھانا کھلاتا۔ کبھی حسان ضد کرتا، تو کبھی ہنستے ہوئے کھانے کے بہانے بناتا۔ علی بڑی محبت سے چمچ پکڑ کر اسے کھلاتا اور کہتا، "ایک نوالہ ابو کے لیے!"
سال گزرتے گئے، اور حسان جوان ہو گیا۔ علی کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں نمودار ہونے لگیں، لیکن وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کے لیے دعاگو رہتا۔ اب علی کے ہاتھ کانپنے لگے تھے، اور چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ایک دن حسان نے علی کے ہاتھ سے چمچ لیتے ہوئے کہا، "ابو، اب میں آپ کو کھلاؤں گا، جیسے آپ نے بچپن میں مجھے کھلایا تھا۔"
حسان نے علی کو اسی محبت اور خیال سے کھانا کھلایا جیسے علی نے اسے بچپن میں کھلایا تھا۔ علی کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن یہ آنسو خوشی کے تھے کہ اس کا بیٹا اس کے بڑھاپے میں اس کا سہارا بن گیا تھا۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کا پہیہ گھومتا ہے۔ والدین ہمیں بچپن میں سنبھالتے ہیں، اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے والد بن کر بڑھاپے میں ان کی خدمت کریں۔ کیونکہ وقت ہمیں وہی لوٹاتا ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔
خاکہ نمبر:2
مضمون کا عنوان:
اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
یہ ضرب المثل ہماری زندگی کے ان تجربات کو بیان کرتی ہے جہاں انسان اپنی غفلت اور سستی کے سبب مواقع کھو دیتا ہے، اور بعد میں صرف افسوس باقی رہ جاتا ہے۔ یہ کہاوت ہمیں وقت کی اہمیت، پیشگی منصوبہ بندی، اور بروقت عمل کی ضرورت کو اجاگر کرنے کا درس دیتی ہے۔
وقت کی اہمیت اور لاپرواہی کے نتائج
زندگی میں وقت سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اگر وقت پر درست فیصلے نہ کیے جائیں تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک کسان جو اپنی فصل کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہیں کرتا، پرندے اس کی محنت کا صلہ لے جاتے ہیں۔
یہ اصول دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ طالب علم اگر امتحان سے پہلے محنت نہ کرے تو ناکامی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ اسی طرح، ایک تاجر اگر وقت پر کاروبار کے مواقع نہ پہچانے تو نقصان اٹھاتا ہے۔
دلائل
1. پیشگی منصوبہ بندی کی اہمیت
پیشگی منصوبہ بندی وہ بنیادی ہتھیار ہے جو ہمیں غیر ضروری پریشانیوں سے بچا سکتا ہے۔ جو لوگ اپنی ذمہ داریوں کو وقت پر مکمل کرتے ہیں، وہ بعد میں مشکلات کا شکار نہیں ہوتے۔
2. افسوس ناک انجام کا تذکرہ
تاریخ کے کئی واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ غفلت کا نتیجہ ہمیشہ افسوسناک ہوتا ہے۔ مثلاً، سلطنتِ مغلیہ اپنی بے احتیاطیوں اور بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی۔
3. انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثرات
انسانی زندگی میں غفلت کے نتائج انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ قومیں اپنی ترقی کے مواقع ضائع کرکے ترقی یافتہ دنیا سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی کی حقیقت کو سمجھ لے اے دوست
یہ وہ بستی ہے جہاں وقت نہیں لوٹتا
"اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کی قدر کریں اور زندگی کے اہم معاملات میں سستی اور غفلت سے گریز کریں۔ یہ کہاوت ہمیں محنت اور ذمہ داری کی راہ دکھاتی ہے تاکہ ہم اپنے کل کو بہتر بنا سکیں اور پچھتاوے سے بچ سکیں۔
خاکہ نمبر:3
کہانی کا عنوان: وقت کا تعاقب
گزشتہ سال کی بات ہے کراچی کے علاقے کریم آباد میں ایک شخص رہتا تھا۔ اس کا نام طارق تھا۔ طارق ایک ہوٹل کا مالک تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جس کا نام زین تھا۔ وہ اپنی سستی اور غیر ذمہ داری کے لیے پورے محلے میں مشہور تھا۔ وہ ہمیشہ اہم کاموں کو ملتوی کرتا رہتا اور یہ سوچتا کہ وقت کی کمی نہیں، کل کر لوں گا۔ چاہے اسکول کا ہوم ورک ہو، ابا کے ساتھ ہوٹل کا کام ہو، یا دوستوں سے کیا گیا کوئی وعدہ، زین ہمیشہ دیر کر دیتا۔
ایک دن زین کو ایک عجیب خواب آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی گھڑی تیزی سے چل رہی ہے، اور اسی وقت سمندر کی لہریں بھی اٹھ رہی ہیں۔ زین ان دونوں کا تعاقب کر رہا ہے لیکن ہر قدم پر وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ گھڑی کی سوئیاں مزید تیزی سے گھومنے لگتی ہیں، اور لہریں اس کے قدموں کے نیچے سے نکل کر دور بہنے لگتی ہیں۔ زین چیخ کر کہتا ہے:
"رکو! مجھے ایک موقع اور دو!"
لیکن گھڑی اور لہریں اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہیں۔
زین اچانک نیند سے جاگ اٹھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، اور وہ سمجھ چکا تھا کہ خواب دراصل اسے ایک پیغام دے رہا تھا۔ اس نے فوراً فیصلہ کیا کہ اب وہ وقت ضائع نہیں کرے گا اور اپنی زندگی کو بہتر بنائے گا۔
اگلی صبح زین نے اپنے تمام زیر التوا کاموں کی فہرست بنائی اور ایک ایک کر کے انہیں مکمل کرنا شروع کیا۔ اس نے اپنے ابا اور اسکول کے اساتذہ سے معافی مانگی۔ ہوٹل پر اس نے اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا اور اپنے دوستوں سے کیے گئے وعدے پورے کیے۔ چند ہی دنوں میں، زین کی زندگی بدل گئی۔ گاؤں والےحیران تھے کہ زین اتنا محنتی اور ذمہ دار کیسے بن گیا۔
نتیجہ:
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ اگر ہم موقع ضائع کریں گے تو بعد میں پچھتانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کامیابی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو وقت کی قدر کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو وقت پر نبھاتے ہیں۔
خاکہ نمبر:4
عنوان: بہانے باز کا سبق
مانسہرہ کے قریب ایک گاؤں میں گڈو نام کا لڑکا رہتا تھا جو ہر کام کے لیے بہانے تراشتا تھا۔ اگر سکول میں ہوم ورک نہ کرتا، تو استاد کو کہتا کہ کتابیں کھو گئیں۔ اگر دوستوں کے ساتھ کرکٹ کا مقابلہ ہارتا، تو کہتا کہ پچ خراب تھی۔ اسی طرح، گڈو نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ دوسروں یا حالات پر الزام ڈالتا رہا۔
ایک دن گاؤں میں ناچنے کا مقابلہ ہوا۔ گڈو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کہا کہ وہ سب کو مات دے گا۔ لیکن جب اسٹیج پر آیا، تو اس کے ناچنے کا انداز نہایت مضحکہ خیز تھا۔ لوگ ہنسنے لگے اور ججوں نے فوراً ہی اسے نکال دیا۔ گڈو نے فوراً کہا، "آنگن ٹیڑھا تھا، اس لیے میں ناچ نہیں سکا!"
گاؤں کے ایک دانا بزرگ، جو یہ سب دیکھ رہے تھے، اٹھے اور بولے، "گڈو! آنگن ٹیڑھا نہیں تھا، بلکہ تمہیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا نہیں آتا۔ اگر تم اپنی کمزوریوں پر کام کرو، تو کوئی بھی آنگن تمہارے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔"
یہ بات گڈو کے دل کو لگی۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ اسی طرح بہانے بناتا رہا، تو کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ اس دن کے بعد گڈو نے اپنی زندگی بدلنے کا عزم کر لیا۔ اس نے بہانے بنانا چھوڑ دیا اور ہر کام ایمانداری اور محنت سے کرنا شروع کر دیا۔ چند سال بعد، وہ گاؤں کے سب سے قابل اور ہنر مند نوجوانوں میں شمار ہونے لگا۔
نتیجہ:
زندگی میں کامیابی کے لیے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور ان سے سیکھنا ضروری ہے۔ بہانے بنانا ہمیں وقتی طور پر سکون دے سکتا ہے، لیکن یہ ہمارے مستقبل کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اپنے عیبوں کو قبول کریں، ان پر کام کریں، اور آگے بڑھیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکہ نمبر:5
عنوان: اکلوتے موبائل کی آپ بیتی
میں، ایک اکلوتا موبائل فون، جب پہلی بار گھر آیا تو سب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ ایک دم مجھے لگا کہ جیسے میں کوئی "سیلیبرٹی" ہوں۔ سب میری طرف ایسے دیکھتے جیسے میں کوئی قیمتی خزانہ ہوں۔ بس وہ دن اور آج کا دن، میں گھر کے ہر فرد کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہوں۔
صبح میری کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ سبھی اپنے اپنے کام کا بہانہ بنا کر مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امی کہتی ہیں، "بیٹا، ذرا موبائل دینا۔ مجھے گروسری لسٹ دیکھنی ہے۔" جیسے ہی وہ واٹس ایپ کھولتی ہیں، انہیں فوراً ہی "فیملی گروپ" کی پوسٹس دیکھنے کا خیال آ جاتا ہے، اور پھر تو یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ گروسری کی لسٹ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، اور میری بیٹری، واٹس ایپ میسجز کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔
ابھی میں امی کے ہاتھ سے نکلا ہی ہوتا ہوں کہ ابا جی آ کر پکڑ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے، "ذرا خبروں کی ہیڈلائنز چیک کرنی ہیں۔" لیکن پھر یوٹیوب پر کچھ "اہم" ویڈیوز دیکھنے لگتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھتے دیکھتے جب وہ "طنز و مزاح" کی ویڈیوز پر پہنچ جاتے ہیں تو مجھے بھی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید خبروں کا بہانہ تو صرف موبائل پکڑنے کے لئے تھا!
جب شام میں بچے میری طرف آتے ہیں تو میری بیٹری ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں آتے ہی مجھے لگتا ہے کہ میرے اوپر بجلی کا کرنٹ لگایا گیا ہے! موبائل گیمز کا آغاز ہوتا ہے اور میرے دماغی پروسیسر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ گویا کہ میری سانسیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں میرا وجود اس قدر محصور ہو جاتا ہے کہ میں چارجنگ کی درخواست کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
بس رات ہوتے ہی میری کچھ "چُھٹکارا" کی امید جاگتی ہے کہ شاید میں کچھ دیر سکون سے رہ سکوں گا۔ مگر اس وقت ابو کو یاد آتا ہے کہ "گھڑی میں الارم سیٹ" کرنا ہے، اور امی کو "رات کی دعا" سننی ہے۔
یوں میں، ایک اکلوتا موبائل فون، ہر دن اس گھریلو جنگ کا حصہ بن کر صبح سے رات تک تھک جاتا ہوں۔ میری
خواہش ہے کہ مجھے بھی کبھی چھٹی ملے، لیکن لگتا ہے اس گھر میں میرے نصیب میں بس یہی غلامی ہے!
خاکہ نمبر:6
سفارش اور رشوت: ایک معاشرتی ناسور
سفارش اور رشوت وہ دو بڑے معاشرتی مسائل ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ یہ دونوں برائیاں انصاف، اہلیت، اور قابلیت کے اصولوں کو پامال کر کے معاشرے میں عدم مساوات اور ناانصافی کو فروغ دیتی ہیں۔
رشوت کا مطلب ہے غیر قانونی طور پر کسی کام کے لیے مالی یا دیگر فوائد فراہم کرنا، جب کہ سفارش کسی کے ذاتی تعلقات یا اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اپنے مفاد کے لیے کسی کام کو کروانا ہے۔ یہ دونوں برائیاں نہ صرف اخلاقی اصولوں کے خلاف ہیں بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
رشوت کے ذریعے نااہل لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ دوسری جانب، سفارش کے ذریعے میرٹ کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جو قابل افراد کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔ اس کا نتیجہ معاشرتی بدامنی اور ترقی کی رفتار میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔
جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
رشوت و سفارش عدل انصاف کو پامال کریں
قوم کی ترقی کو روبہ زوال کریں
یہ ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان برائیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ عدالتی اور انتظامی نظام کو مضبوط بنایا جائے تاکہ رشوت اور سفارش کا قلع قمع ہو سکے۔ عوام کو شعور دینا اور اخلاقی تربیت فراہم کرنا بھی اس مسئلے کے حل کے لیے نہایت اہم ہے۔
اگر ہم رشوت اور سفارش کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری قوم ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر دیانت داری اور انصاف کے اصولوں کو اپنائیں۔
خاکہ نمبر:7
خاکہ نمبر:7
مضمون بعنوان: خوراک کا ضیاع انسانیت کے لیے ایک المیہ
دنیا کے اس وسیع منظرنامے پر جہاں ترقی اور خوشحالی کے قصے سنائی دیتے ہیں، وہیں بھوک اور افلاس کی کہانیاں بھی دل دہلا دینے والی ہیں۔ ایک طرف لاکھوں انسان ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں، تو دوسری جانب دولت مند طبقہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھانے کو بے دریغ ضائع کر رہا ہے۔
یہ تضاد ہماری اجتماعی بے حسی اور غیر منصفانہ معاشرتی ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے۔ امیر طبقہ دعوتوں اور تقاریب میں کھانے کے انبار لگاتا ہے، مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ نعمت ان لوگوں کی حسرت بن جاتی ہے جنہیں مہینوں پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں ملتا۔ وہی کھانا کوڑے دانوں میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے، جب کہ بھوک کے مارے لوگ اسی کوڑے دان میں اپنی امیدیں تلاش کرتے ہیں۔
جیسا کہ شاعر نے کہا:
رزق کو ٹھکراؤ نہ یونہی کبھی اے مسند نشیں
کتنے ہی انسانوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
یہ المیہ صرف انسانیت کی تذلیل ہی نہیں بلکہ قدرت کی نعمتوں کی ناقدری بھی ہے۔ اگر کھانے کو ضائع کرنے کی بجائے ضرورت مندوں تک پہنچانے کا نظام بنایا جائے تو بھوک کے مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
ہم سب کو بحیثیت ذمہ دار انسان اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ خوراک کی اہمیت کیا ہے اور اسے ضائع کرنے کے بجائے دوسروں کے ساتھ بانٹنے کی کتنی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی نعمتوں میں دوسروں کو شریک کریں تو نہ صرف بھوک کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور انسانیت کی اصل روح بھی قائم ہو سکتی ہے۔
خاکہ نمبر:8
مضمون بعنوان: انصاف کی کشتی اور کمزور کا حق
دیے گئے خاکے میں معاشرتی ناانصافی کو بڑی خوبصورتی سے مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف طاقتور اور مضبوط پہلوان ہیں، جو اپنی دھونس جمانے کے لیے تیار ہیں، اور دوسری طرف ایک نحیف و نزار شخص ہے، جو اس غیر منصفانہ مقابلے کا حصہ بننے پر مجبور ہے۔ یہ تصویر ہمارے معاشرے کی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے، جہاں طاقتور ہمیشہ کمزور کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ معاشرتی انصاف صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل کا متقاضی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: "قوی وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ قوی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔"
(صحیح بخاری)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل طاقتور وہ ہے جو انصاف اور اخلاق کو مقدم رکھے، نہ کہ وہ جو صرف اپنی جسمانی قوت کا مظاہرہ کرے۔
یہ خاکہ ہمیں ایک اور اہم سبق دیتا ہے: طاقتور افراد اور اداروں کو اپنی حیثیت کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ کمزوروں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا"
خاکہ نمبر:9
مضمون بعنوان: دوا سازی یا موت کا کاروبار؟
دیے گئے خاکے میں ہمارے معاشرتی نظام کا ایک اہم مسئلہ اجاگر کیا گیا ہے: صحت کے شعبے میں تجارت کا عنصر۔ تصویر میں دوا ساز کمپنیاں نہایت مزاحیہ انداز میں یہ حقیقت بیان کر رہی ہیں کہ وہ مریض کے علاج کے بجائے اپنی منافع خوری کو ترجیح دیتی ہیں۔ مریض اپنی حالت زار کا ذکر کر رہا ہے، لیکن جواب میں اُسے دوائی کو خریدنے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں دیا جا رہا۔
یہ صورت حال ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ صحت کا شعبہ، جو انسانیت کی خدمت کے لیے ہونا چاہیے، ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ دوا ساز کمپنیاں اور نجی اسپتال عوام کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ضروری علاج و معالجے کو اتنا مہنگا کر دیتے ہیں کہ عام انسان کی پہنچ سے باہر ہو جاتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"یہاں ہر شخص ہر لمحہ کما رہا ہے
کوئی دوائی سے، کوئی دعا سے کما رہا ہے"
خاکہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ صحت ایک بنیادی انسانی حق ہے، جسے تجارت کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ حکومتوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ صحت کے شعبے میں اصلاحات کریں تاکہ ہر فرد کو معیاری اور سستی طبی سہولیات فراہم ہوں۔
خاکہ نمبر:10
ناجائز منافع خوری: ایک لطیف مگر تلخ حقیقت
ناجائز منافع خوری ہمارے معاشرتی نظام کی ایسی بیماری ہے جو ہمدردی اور اخلاقیات کے وجود کو کھا جاتی ہے۔ یہ بیماری ان تاجروں میں پائی جاتی ہے جو قیمتوں کو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسے وہ اپنی دکانوں پر کوئی سونے کے سکے فروخت کر رہے ہوں، حالانکہ حقیقت میں آلو اور پیاز بیچ رہے ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ "دولت ہاتھ کا میل ہے،" لیکن ہمارے منافع خور حضرات تو اسے صابن کے ساتھ دھونے کی بجائے، اسے بڑھانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں۔ وہ پیاز کے تھیلے کو ایسی قیمت پر بیچتے ہیں کہ خریدار خود کو نوبل انعام یافتہ محسوس کرے کہ اس نے اتنا مہنگا سودا کیا!
تصور کریں، ایک عام آدمی بازار میں جاتا ہے اور خریدار کے چہرے پر وہی معصومیت ہوتی ہے جیسے کوئی بچہ کھلونوں کی دکان پر ہو۔ لیکن دکاندار کے نرخ سن کر وہی خریدار اس معصومیت کو کھو کر ایک فلمی ولن جیسا نظر آنے لگتا ہے۔ اور بھلا کیوں نہ ہو؟ جب آٹے کی قیمت سن کر دل کا بلڈ پریشر اور دماغ کی پریشانی بڑھ جائے تو معصومیت کہاں بچتی ہے!
دکاندار کہتے ہیں کہ "یہ مہنگائی ہماری مرضی سے نہیں ہوتی۔" لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ منافع خوری انہی کی "مرضی" کی کہانی ہے۔ وہ حالات کا فائدہ اٹھا کر عوام کی جیبیں خالی کرنے میں ماہر ہیں۔ اب تو کئی پاکستانی منافع خور ڈالر کمانے امریکہ جانے کے لیے تیار ہیں کیونکہ انھوں نے سن لیا ہے کہ وہاں بھی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا کیا ہے۔
کسی شاعر نے شاید ان منافع خوروں کے لیے ہی کہا تھا:
"لٹتا ہے بے کسوں کا یہاں مال بار بار،
اے اہلِ زر، حیا کا بھی کچھ پاس کیجیے!"
خاکہ نمبر:11
موزوں عناوین:
"کتب بینی کے فوائد"
"کتاب: سکون کی روشنی، شہر کے شور میں"
"کتاب کی روشنی اور شہر کا شور"
زندگی ایک عجیب تضاد کا نام ہے۔ ایک طرف دنیاوی زندگی کی چمک دمک، شور شرابا، اور تیز رفتار وقت کا دباؤ ہے، اور دوسری طرف سکون، خاموشی، اور معرفت کی وہ دنیا ہے جو کتابوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ دیے گئے خاکے میں ایک نوجوان دکھایا گیا ہے جو اپنے اردگرد کے مادی ماحول سے بے نیاز، ایک کتاب کی دنیا میں گم ہے۔ یہ خاکہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حقیقی سکون اور روشنی کہاں سے حاصل ہوتی ہے۔
شہر کی بلند و بالا عمارتیں، ٹریفک کا شور، اور مصنوعی چمک دمک ایک ایسی زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں جس میں بظاہر سب کچھ ہے لیکن درحقیقت یہ روحانی طور پر خالی ہے۔ اسی کے برعکس، نوجوان کے ہاتھ میں کتاب ایک روشن چراغ کی مانند ہے جو اسے اس مادی دنیا کی تاریکی سے نکال رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ"
(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)۔
یہ آیت اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ علم اور معرفت کا راستہ ہمیں اللہ سے جوڑتا ہے اور ہماری روحانی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔
نوجوان کا یہ عمل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سکون کی تلاش شور و غل میں نہیں بلکہ خود شناسی اور علم کی گہرائی میں ہے۔
جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"چراغِ علم جلے، یوں ہر طرف ہو نور،
نکالے تاریکی سے، عطا کرے شعور"
یہ خاکہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی کی روش کو بدلیں اور علم و معرفت کے ذریعے اپنے دل و دماغ کو منور کریں۔ جیسے حدیث میں آیا ہے:
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے"
(سنن ابن ماجہ)۔
لہذا، یہ خاکہ نہ صرف نوجوان کی کہانی بیان کرتا ہے بلکہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ حقیقی روشنی کتاب کی دنیا میں ہے اور یہی روشنی ہمیں دنیاوی تاریکی سے نجات دلا سکتی ہے۔
خاکہ نمبر:12

کہانی بعنوان: مہنگائی کے خلاف جنگ
رمضان کا مہینہ آیا تو حاجی صاحب ہمیشہ کی طرح خیرات کرنے کے لیے بازار گئے۔ وہاں انہوں نے ایک پھل فروش سے ٹھیلا بھر پھل خریدنے کی کوشش کی، لیکن قیمت سن کر ان کا دماغ چکرا گیا۔ حاجی صاحب کو احساس ہوا کہ یہ صرف ان کے ساتھ نہیں، بلکہ پورے شہر کے غریب عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔
حاجی صاحب نے محلے کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک پرجوش تقریر کی۔ انہوں نے کہا، "اگر ہم اس ناجائز منافع خوری کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، تو یہ ظلم مزید بڑھتا جائے گا!" سب نے ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا، اور وہ لوگ بازار میں جمع ہو گئے۔
پھل فروشوں کے سامنے عوام نے احتجاج شروع کیا۔ پہلے تو پھل فروش ہنستے رہے، لیکن جب لوگوں نے ان کے ٹھیلوں کو گھیر لیا اور "ظالم تاجروں مردہ باد!" کے نعرے لگائے، تو ان کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ احتجاج شدت اختیار کر گیا، اور کچھ نوجوانوں نے غصے میں ٹھیلوں کو الٹنا شروع کر دیا۔
یہ صورتحال دیکھ کر بازار کے تاجروں نے پولیس کو بلا لیا۔ پولیس نے آتے ہی مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، لیکن حاجی صاحب کی قیادت میں لوگ ڈٹے رہے۔ پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ کئی لوگ زخمی ہو گئے، اور حاجی صاحب خود بھی زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ لیکن ان کی آواز گونجتی رہی:
"یہ جنگ ہم جیتیں گے! ظالموں کو حساب دینا ہوگا!"
پولیس کی سختی کے باوجود احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا۔ میڈیا کے کیمرے یہ منظر ریکارڈ کر رہے تھے، اور پورے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر مظاہرے میں شامل ہونے لگے۔
بالآخر حکومت نے عوامی دباؤ کے تحت نوٹس لیا۔ اعلیٰ حکام نے اعلان کیا کہ ناجائز منافع خوری کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔ کئی پھل فروشوں اور تاجروں کو گرفتار کیا گیا، اور رمضان کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو سختی سے کنٹرول کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
حاجی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں نے رنگ لایا۔ زخمی ہونے کے باوجود وہ مسکراتے ہوئے بولے، "یہ ہماری فتح ہے۔ اگر ہم ایک ساتھ کھڑے ہوں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔"
سبق:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کے خلاف جدوجہد آسان نہیں، لیکن اگر ہم جرات اور اتحاد کے ساتھ کھڑے ہوں، تو بڑے سے بڑا نظام بھی ہل سکتا ہے۔
خاکہ نمبر:13
کہانی بعنوان: مہنگائی کا راز
رمضان کا مہینہ تھا، اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ ایک دن ایک عام شہری، رشید، جو ہر مہینے بمشکل اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتا تھا، بازار سے واپس آیا تو سخت پریشان تھا۔ اس نے دیکھا کہ مہنگائی کی وجہ سے اس کے بچے بھی بھوکے رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
رشید نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کی جڑ تک پہنچے گا۔ اگلے دن وہ تھانے گیا اور پولیس کے ایک سپاہی سے پوچھا:
"اس مہنگائی میں آپ لوگ اتنے شاندار صحت مند کیسے ہیں؟ کیا راز ہے؟"
سپاہی نے پہلے تو کچھ نہ کہا، لیکن رشید کی بار بار کی پوچھ گچھ نے اسے جھنجھوڑ دیا۔
رشید نے اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے کہا، "یہ مہنگائی قدرتی نہیں لگتی، یہ کہیں نہ کہیں کسی بڑی سازش کا حصہ ہے، اور شاید آپ لوگ اس کا حصہ ہیں!"
سپاہی غصے میں آ گیا اور رشید کو تھانے سے نکل جانے کا حکم دیا۔ لیکن رشید نے اس معاملے کو یہیں ختم نہیں کیا۔ وہ رات کے وقت تھانے کے قریب چھپ کر بیٹھ گیا اور پولیس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا شروع کر دی۔
آدھی رات کو اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ پولیس کی مدد سے غیر قانونی گوداموں سے ذخیرہ شدہ اشیاء نکال رہے ہیں اور انہیں دوسرے شہروں میں مہنگے داموں فروخت کرنے بھیج رہے ہیں۔ رشید نے یہ منظر دیکھ کر چپکے سے اپنے موبائل سے ویڈیو بنائی اور اپنے محلے والوں کو دکھائی۔
محلے کے لوگوں نے رشید کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اگلی رات وہ سب تھانے کے باہر چھپ گئے۔ جیسے ہی پولیس اور منافع خوروں نے دوبارہ وہی عمل دہرانا چاہا، لوگوں نے انہیں گھیر لیا۔ لیکن پولیس نے اپنی طاقت استعمال کی اور لاٹھی چارج شروع کر دیا۔
رشید اور اس کے ساتھیوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے زخمی ہونے کے باوجود احتجاج جاری رکھا۔ رشید نے ویڈیو میڈیا کو بھیج دی، اور کچھ ہی دیر میں یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی، اور بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گیا۔
حکومت نے آخرکار نوٹس لیا اور پولیس افسران اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ ذخیرہ شدہ سامان عوام میں تقسیم کیا گیا، اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر قابو پایا گیا۔ رشید کو اس کی بہادری پر پورے محلے نے ہیرو مانا۔
سبق:
ظلم اور سازش کے خلاف جدوجہد کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن اگر نیت اور حوصلہ بلند ہو تو انصاف ضرور جیتتا ہے۔
یہ ایک عام سا دن تھا، لیکن معراج صاحب کے لیے کچھ خاص۔ وہ صبح کے وقت دفتر جانے کے لیے ہمیشہ کی طرح رکشہ لینے نکلے۔ لیکن آج کا دن الگ تھا کیونکہ رکشے والے نے انہیں حیران کر دیا۔
معراج صاحب نے جیسے ہی رکشے میں قدم رکھا، انہوں نے دیکھا کہ رکشے کا انجن بند ہے اور ایک گدھا آگے جتا ہوا ہے۔ رکشے والے نے مزے سے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا، "صاحب، گیس ختم ہو گئی ہے، لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ ماحول دوست گدھا رکشہ ہے۔"
معراج صاحب حیرانی سے بولے، "بھائی! یہ کیا ماجرا ہے؟ نہ گیس، نہ رکشہ، بس گدھا!"
رکشے والے نے ہنستے ہوئے کہا، "صاحب، یہی تو کمال ہے! نہ پیٹرول کی جھنجھٹ، نہ گیس کی لائن، بس گدھا اور ہم۔ سفر بھی ہو گا اور قدرتی وسائل بھی محفوظ!"
معراج صاحب نے مجبوراً بیٹھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ دفتر کے لیے دیر ہو رہی تھی۔ لیکن جیسے ہی رکشہ چلنا شروع ہوا، گدھا رک گیا اور ضدی بچے کی طرح آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ رکشے والے نے گدھے کے کان میں سرگوشی کی، "چلو بھائی، ورنہ کرایہ کٹ جائے گا!" لیکن گدھا اپنی جگہ جم کر کھڑا رہا۔
رکشے والے نے آخرکار گدھے کو راضی کرنے کے لیے اسے ایک گاجر دکھائی، تب جا کر وہ آگے بڑھا۔ راستے میں لوگ رکشے کو دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے، کچھ تصاویر لے رہے تھے، اور بچے شور مچا رہے تھے، "ماحول دوست گدھا رکشہ!"
جب رکشہ دفتر کے قریب پہنچا، تو معراج صاحب نے غصے سے کہا، "بھائی، یہ کیا مصیبت ہے؟ میں آئندہ کبھی تمہارے ساتھ سفر نہیں کروں گا!"
رکشے والے نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "صاحب، آپ کی مرضی، لیکن یہ گدھا رکشہ ایک دن پوری دنیا کو حیران کرے گا!"
کہانی ختم ہوئی، لیکن معراج صاحب کے دل میں یہ یاد ہمیشہ کے لیے بس گئی کہ کس طرح ایک گدھے نے ان کی زندگی کا سب سے انوکھا سفر ممکن بنایا۔
سبق:
جب گیس اور پیٹرول ختم ہو جائیں، تو گدھے کی قدر کریں!
خاکہ نمبر:15
مضمون بعنوان: بین الاقوامی امداد پر قومی غلامی کا سمجھوتہ
دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان تعلقات اور امداد کا لین دین ایک عام بات ہے، لیکن جب امداد کسی قوم کی خودمختاری، آزادی، اور تشخص کو متاثر کرے، تو یہ ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے امریکی امداد ہمیشہ ایک متنازعہ موضوع رہا ہے۔ یہ امداد بظاہر ترقی اور استحکام کے لیے دی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے موجود مقاصد قومی خودمختاری پر سمجھوتے کا باعث بنتے ہیں۔
امداد یا سیاسی دباؤ؟
امریکی امداد کبھی معیشت کی بحالی کے نام پر دی جاتی ہے تو کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے لیے۔ لیکن اس امداد کے ساتھ ایسے مطالبات منسلک ہوتے ہیں جو قومی مفادات کے برعکس ہوتے ہیں۔ پاکستان کو اکثر ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو عوامی رائے یا قومی وقار کے خلاف ہوں۔ مثال کے طور پر، اہم پالیسیز میں امریکہ کی ہدایات کا اثر، دفاعی حکمت عملی میں مداخلت، اور بین الاقوامی معاملات میں امریکی مفادات کو فوقیت دینا، ان تمام عوامل نے پاکستان کو کئی بار مشکل حالات سے دوچار کیا۔
معاشی انحصار اور خودمختاری کا خاتمہ
امریکی امداد کے ساتھ پاکستان کی معیشت پر ایسے قرضوں کا بوجھ ڈالا گیا جو ملک کی خودمختاری کو محدود کر دیتے ہیں۔ امداد کا مقصد درحقیقت پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا نہیں بلکہ اسے مستقل معاشی دباؤ میں رکھنا ہے۔ اس معاشی انحصار کی وجہ سے پاکستان اکثر ان منصوبوں کو ترک کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو قومی مفاد میں ہوں لیکن امریکی پالیسیز سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ثقافتی اور سماجی اثرات
امریکی امداد نہ صرف معاشی بلکہ سماجی سطح پر بھی غلامی کا باعث بنتی ہے۔ امریکی ثقافت اور اقدار کا فروغ، تعلیمی نصاب میں غیرملکی نظریات کی شمولیت، اور میڈیا کے ذریعے امریکی بیانیے کی ترویج، ان تمام پہلوؤں نے قومی تشخص کو دھندلا دیا ہے۔ امداد کے ساتھ آنے والی ان شرائط نے پاکستانی سماج کو تقسیم کر دیا ہے اور نوجوان نسل میں اپنی ثقافت اور تاریخ سے دوری پیدا کی ہے۔
جیسا کہ شاعر نے کہا:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مستقبل کی راہ
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ امریکی امداد پر انحصار کم کرے اور اپنی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے۔ ہمیں خود انحصاری، قومی وسائل کے بہتر استعمال، اور علاقائی تعاون پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چین، ترکی، اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا اور اپنی پالیسیز کو قومی مفاد کے مطابق ترتیب دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نتیجہ
امریکی امداد وقتی فائدہ تو دیتی ہے، لیکن اس کی قیمت قومی خودمختاری، آزادی، اور وقار کی قربانی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایک مضبوط اور خودمختار پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے اور کسی بیرونی طاقت کے دباؤ کو قبول نہ کرے۔ جب تک ہم اپنی معاشی اور سماجی پالیسیاں خود مختار طریقے سے نہیں بنائیں گے، غلامی کا یہ سمجھوتہ ہمارے قومی تشخص کو مٹاتا رہے گا۔
خاکہ نمبر:16
دہشت گردی موجودہ دور کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دہشت گرد نہ صرف جانی اور مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ عوام میں خوف و ہراس بھی پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم اقدام موبائل فون سروس کی معطلی ہے، جو ہر قومی یا مذہبی تہوار کے موقع پر حفاظتی تدابیر کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔
موبائل فون اور دہشتگردی
جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کی زندگی آسان بنائی ہے، وہیں دہشت گردوں کے لیے بھی سہولت فراہم کی ہے۔ موبائل فون کے ذریعے دھماکہ خیز مواد کو ریموٹ کنٹرول سے چلانا، مشکوک پیغامات کا تبادلہ، اور منصوبہ بندی کرنا عام بات ہے۔ موبائل فون سروس معطل کرنے کا مقصد ان دہشت گردانہ منصوبوں کو ناکام بنانا اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
فوائد
موبائل فون سروس معطل کرنے سے دہشت گردوں کے درمیان رابطہ منقطع ہو جاتا ہے، جس سے ان کی کاروائیاں محدود ہو جاتی ہیں۔ کئی بار حکام نے یہ ثابت کیا ہے کہ بروقت سروس معطلی نے بڑے سانحات کو روکنے میں مدد فراہم کی۔ اس کے علاوہ، عوام میں یہ پیغام جاتا ہے کہ حکومت ان کی حفاظت کے لیے متحرک ہے۔
چیلنجز اور نقصانات
موبائل فون سروس کی معطلی سے جہاں دہشت گردی کو قابو میں لانے میں مدد ملتی ہے، وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ عوام کے لیے یہ سہولت زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ سروس معطل ہونے سے عام لوگ، خاص طور پر بیمار افراد، ہنگامی صورت حال میں ڈاکٹروں یا رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر پاتے۔ کاروباری طبقے کو بھی اس اقدام سے شدید نقصان ہوتا ہے، جبکہ یہ قدم عموماً عوام میں غیرضروری پریشانی کا سبب بنتا ہے اور اس کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ کہیں جان کی، کہیں مال کی تو کہیں موبائل کی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یہ غازی، یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ قومی سلامتی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا لازمی ہے۔
حل اور تجاویز
موبائل فون سروس کی معطلی ایک وقتی اقدام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے جدید تکنیکی ذرائع، جاسوسی، اور عوامی تعاون کا سہارا لے۔ اس کے علاوہ، انٹرنیٹ پر بھی نگرانی بڑھا کر مشکوک سرگرمیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ حکومتی اقدامات میں تعاون کریں اور مشکوک افراد کی بروقت اطلاع دیں۔
نتیجہ
موبائل فون سروس معطل کرنا دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کا ایک اہم ہتھیار ہے، لیکن اس کا متبادل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کو کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ حکومت اور عوام کو مل کر اس جنگ میں حصہ لینا ہوگا تاکہ ایک محفوظ اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
خاکہ نمبر:17
عنوان: تعلیم کا خواب: غریبوں کے لیے ایک دور کی بات؟
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جو معاشرے کی ترقی اور کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ لیکن موجودہ دور میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات نے اس حق کو صرف امراء تک محدود کر دیا ہے۔ اسکول کی فیسیں، کتابوں کی قیمتیں، یونیفارم، اور دیگر اخراجات ایک عام شخص کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تعلیم واقعی ہر فرد کا حق ہے یا صرف امیر طبقے کی عیاشی؟
تعلیم اور اخراجات کا مسئلہ
آج کے دور میں، ایک عام نجی اسکول میں داخلہ لینا بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور کتابوں اور دیگر تعلیمی سامان کی قیمتیں بھی حد سے زیادہ ہیں۔ ایک مزدور یا کم آمدنی والے والدین کے لیے یہ اخراجات برداشت کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ غریب والدین اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کسی کام پر لگا دیں تاکہ گھر کے اخراجات پورے ہوں۔
امیر اور غریب کا فرق
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تعلیم بھی اب طبقاتی نظام کا شکار ہو چکی ہے۔ امراء کے بچے مہنگے اسکولوں میں بہترین تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ غریب بچوں کے لیے سرکاری اسکول بھی مشکلات سے بھرپور ہیں۔ اس صورتحال کو شاعر نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:
ہم سے کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بےسبب ہوا غالب دشمن آسماں ہمارا
یہ شعر غریبوں کے ان خوابوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو وہ تعلیم کے ذریعے پورے کرنا چاہتے ہیں، مگر حالات ان کے خلاف ہیں۔
حکومت اور معاشرتی ذمہ داری
تعلیم کی اس خلیج کو کم کرنے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانا، فیسوں میں کمی، اور اسکالرشپ پروگرامز متعارف کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، نجی اداروں کو بھی سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم کو سب کے لیے قابل رسائی بنانا چاہیے۔
نتیجہ
تعلیم کا خواب ہر بچے کا حق ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ خواب صرف امراء تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت، ادارے، اور معاشرہ اگر مل کر کام کریں، تو غریب طبقے کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ قوم ہی ترقی کی ضمانت ہے، اور اس کے لیے ہر ممکن اقدام ضروری ہے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اسکولوں کے دروازے صرف امراء کے بچوں کے لیے کھلے ہوں گے، اور غریب بچوں کے خواب دھندلا جائیں گے۔
خاکہ نمبر:18
کہانی بعنوان: بچے چھوٹے، بستے بھاری
پشاور شہر کی گلیوں میں صبح کا منظر کسی جنگی میدان سے کم نہیں تھا۔ بچے، جو اپنی عمر کے لحاظ سے معصوم اور نازک ہونے چاہیے تھے، پیٹھ پر پہاڑ جیسے بھاری بستے اٹھائے اسکول جانے کی کوشش میں تھے۔ یہ بستے اتنے وزنی تھے کہ دیکھنے والے کو شک ہونے لگتا تھا کہ شاید یہ بچے اسکول نہیں، کسی مہم پر جا رہے ہیں۔
علی، محلے کا شرارتی لڑکا، روزانہ اپنی بہن فاطمہ کے بوجھل بستے کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوتا۔ "یہ کیا ہے، فاطمہ؟ اسکول جا رہی ہو یا کسی ٹرک کی ڈلیوری دینے؟" علی مذاق کرتا۔ فاطمہ ایک گہری سانس لے کر جواب دیتی، "یہ علم کا خزانہ ہے، بھائی!" علی ہنستے ہوئے کہتا، "خزانہ تو نظر آتا ہے، مگر یہ علم کہاں ہے؟"
ایک دن علی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس "وزن کی سازش" کا راز معلوم کرے گا۔ وہ فاطمہ کے ساتھ اسکول چلا گیا۔ اسکول گیٹ پر منظر اور بھی دل دہلا دینے والا تھا۔ بچے بستوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے تھے، کچھ لڑکھڑا رہے تھے، اور ایک بچہ تو بستے سمیت زمین پر گر گیا۔ علی کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔
اسی دوران اسکول کا چوکیدار بچوں کو "جلدی اندر آنے" کا حکم دے رہا تھا، گویا وہ فوجی سپاہی ہوں۔ علی نے چوکیدار سے کہا، "یہ بستے اتنے بھاری کیوں ہیں؟ بچوں کو پڑھائی کرانی ہے یا ویٹ لفٹنگ کا مقابلہ کروانا ہے؟" چوکیدار ہنستے ہوئے بولا، "بھائی، یہ آج کل کا نصاب ہے۔"
علی نے اسکول کے پرنسپل سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ پرنسپل صاحب اپنے دفتر میں بڑے سکون سے بیٹھے تھے، ایک طرف چائے کا کپ اور دوسری طرف کتابوں کا ڈھیر۔ علی نے پوچھا، "سر، ان بچوں کے بستے اتنے بھاری کیوں ہیں؟" پرنسپل صاحب نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ ضروری ہے۔ علم کی بنیاد کتابیں ہیں۔" علی نے طنزیہ لہجے میں کہا، "مگر کتابیں پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں، اٹھانے کے لیے نہیں،"!"
علی کو لگا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ اس نے بستوں کی تلاشی لینے کا منصوبہ بنایا۔ اگلے دن، اسکول کے بعد، اس نے بچوں کے بستے کھولے۔ سسپنس اپنے عروج پر تھا۔ بستوں میں کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی "غیر ضروری اشیاء" نکلیں—پچھلے سال کی کتابیں، کھانے کے ڈبے، اور یہاں تک کہ ایک بچے کے بستے سے اینٹ نکل آئی۔!
علی نے محلے کے والدین کو جمع کیا اور اسکول کے سامنے احتجاج کا منصوبہ بنایا۔ احتجاج شروع ہوتے ہی پولیس آ گئی۔ ایکشن شروع ہو چکا تھا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا، علی نے ایک بچے کے بستے کو "ڈھال" کے طور پر استعمال کیا، اور نعرے بلند ہونے لگے، "چھوٹے بستے، ہلکے بستے!"
پرنسپل صاحب نے مجبور ہو کر والدین سے مذاکرات کیے۔ علی نے کہا، "یہ بستے بچوں کے لیے نہیں، گدھوں کے لیے ہیں۔ کم از کم کتابوں کو نصاب کے مطابق رکھیں۔" پرنسپل صاحب نے بستوں کا وزن کم کرنے کا وعدہ کیا، اور نصاب میں تبدیلی کی گئی۔
آج بھی بچے اسکول جاتے ہیں، مگر ان کے بستے ہلکے اور دماغ بھاری ہو چکے ہیں۔ علی محلے میں مشہور ہو گیا، اور والدین اسے مسیحا کہنے لگے۔ وہ اکثر ہنستے ہوئے کہتا،
علم کی روشنی کا دعویٰ تو سب نے کیا،
بچوں پر بوجھ ڈال کر انہیں اندھا کر دیا
خاکہ نمبر:19
مضمون بعنوان: جعلی ڈگریاں، خواب اور حقیقت
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے کسی نہ کسی بحران کا شکار رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں جعلی ڈگریوں اور جعلی تعلیمی اداروں کا مسئلہ ایک خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ وہ ادارے جو علم کی روشنی بانٹنے کے لیے بنائے گئے تھے، آج کچھ افراد کے لیے محض ایک کاروبار بن چکے ہیں۔
جعلی ڈگریوں کا کاروبار
یہ جعلی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جیسے وہ جادوگر ہوں جو محض چند ہزار روپے میں کامیابی کے خواب بیچتے ہیں۔ نہ طلبہ کا داخلہ، نہ کلاسز، نہ امتحانات، اور نہ ہی کوئی قابلیت! صرف ایک "ڈگری" جو کاغذ پر تو اصلی لگتی ہے، لیکن حقیقت میں ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ دھوکہ دہی نہایت کھلے عام ہو رہی ہے اور پکڑنے والا کوئی نہیں۔
معاشرے پر اثرات
جعلی ڈگریوں نے نہ صرف ہمارے تعلیمی معیار کو تباہ کیا ہے بلکہ معاشرے میں عدم اعتماد بھی پیدا کیا ہے۔ ایسے ڈاکٹر، انجینئر، اور اساتذہ سامنے آتے ہیں جو اپنے شعبے میں مہارت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا اداروں اور نظام پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی بار آوازیں اٹھائی گئیں، لیکن عملی اقدامات کی شدید کمی ہے۔ انتظامیہ کی غفلت اور قوانین کے نفاذ میں ناکامی نے ان جعلی اداروں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا ہے۔
کسی شاعر کا یہ شعر ان حالات کی عکاسی کرتا ہے:
یہاں علم نہیں، بس کاغذ کا چرچا ہے،
ڈگری ہاتھ میں، بس خالی دماغ کا نقشہ ہے!
تجاویز
جعلی ڈگریوں کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں کی سخت نگرانی کرے اور صرف ان اداروں کو کام کرنے دے جو معیار اور شفافیت کے اصولوں پر پورا اترتے ہوں۔ عوام کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا اور ایسے اداروں سے بچنا ہوگا جو سستی شہرت کا لالچ دے کر تعلیم کا مذاق بناتے ہیں۔
اختتام
تعلیم کسی بھی قوم کا ستون ہے، اور اس ستون کو مضبوط بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ جعلی ڈگریاں نہ صرف ہمارے نظام کی کمزوری ظاہر کرتی ہیں بلکہ ہماری ترقی میں رکاوٹ بھی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم جعلی تعلیم کے اس دھندے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں تاکہ پاکستان کی نسل نو ایک روشن مستقبل کی امید کر سکے۔
خاکہ نمبر:20
عنوان: عید کا تحفہ – منافع خور اور مہنگائی
عید مسلمانوں کے لیے خوشی، محبت، اور سخاوت کا پیغام لے کر آتی ہے۔ یہ دن عبادت، شکر گزاری، اور معاشرتی ہم آہنگی کا موقع ہوتا ہے۔ تاہم، ہمارے معاشرے میں منافع خور اور مہنگائی کی بلا عوام کو ان خوشیوں سے محروم کر دیتی ہے۔ خاکے میں دو کردار، "منافع خور" اور "مہنگائی"، عوام کو نچوڑتے دکھائے گئے ہیں۔ ان کے درمیان عید کی مبارک باد کا تبادلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ دونوں کس طرح عوام کی مشکلات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عید کے قریب ضروری اشیاء کی قیمتیں دوگنی یا تین گنی ہو جاتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2024 کے دوران عید کے موقع پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 25 سے 40 فیصد اضافہ ہوا، جس سے متوسط طبقے کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول مشکل ہو گیا۔ گوشت، پھل، کپڑے، اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عید کا تہوار مایوسی میں بدل جاتا ہے۔
قرآن کریم ہمیں انصاف اور اعتدال کا درس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو" (سورہ ہود: 85)۔
لیکن ہمارے سماج میں منافع خوروں کے لیے یہ آیت محض ایک کتابی بات بن چکی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، وہ گناہ گار ہے" (مسلم)۔
اس حدیث کی روشنی میں ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ نہ صرف ایک سماجی برائی ہے بلکہ ایک سنگین گناہ بھی ہے۔
عوام کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے شاعر نے کہا:
"یہ کیسی عید ہے، یہ کیسا سماں،
یہاں خوشی ہے فقط خواص کا بیاں۔"
یہ مسئلہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کا فرض ہے۔ اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور عوام ذمہ داری سے خریداری کریں تو مہنگائی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، ہمیں سخاوت اور ہمدردی کو فروغ دینا ہوگا تاکہ عید حقیقی معنوں میں خوشی کا باعث بنے، نہ کہ مایوسی کا۔
آئیے اس عید پر عہد کریں کہ ہم انصاف، اعتدال، اور سخاوت کے اصولوں پر عمل کریں گے تاکہ ہر شخص عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکے۔
خاکہ نمبر:21
عنوان: پاکستان میں جمہوریت – ایک سوالیہ نشان
پاکستان کو جمہوری ملک کے طور پر قائم ہوئے 75 سال سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن آج بھی "پاکستان میں جمہوریت نے کیا دیا؟" کا سوال ایک گہرا اور تکلیف دہ سوال بن کر سامنے آتا ہے۔ خاکے میں دکھایا گیا منظر ہماری قوم کی حقیقت کو بیان کرتا ہے، جہاں ہر شخص جمہوریت کے ثمرات کی جگہ شکایات کی طویل فہرست پیش کر رہا ہے۔
"مہنگائی، بیروزگاری، اندرونی و بیرونی قرضے، سیاسی انتشار، اور بدعنوانی" جیسے مسائل وہ چہرہ ہیں جو ہماری جمہوریت نے عوام کو دکھایا ہے۔ عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق، سال 2024ء میں پاکستان کی غربت کی شرح 37.2 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ دوسری طرف، کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان کا درجہ مسلسل گر رہا ہے۔ یہ صورتحال عوام کے اس گہرے احساس کی عکاسی کرتی ہے کہ جمہوریت کے ثمرات ان تک پہنچنے کے بجائے چند خاص طبقوں تک محدود ہو چکے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور لوگوں کے معاملات میں انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے" (سورہ نساء: 58)۔
یہ آیت ہمیں عدل و انصاف کی اہمیت بتاتی ہے، جو ایک حقیقی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ لیکن کیا ہماری جمہوریت نے ان اصولوں کو اپنایا ہے؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سب سے بہتر حکمران وہ ہے جو اپنی رعایا کے لیے نرمی اور انصاف سے پیش آئے" (ترمذی)۔
یہ حدیث ایک رہنما اصول کے طور پر ہمیں بتاتی ہے کہ حکمرانی کا اصل مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے، جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نظر نہیں آتی۔
شاعر نے اس صورتِ حال پر یوں تبصرہ کیا ہے:
"یہ کیسی جمہوریت، یہ کیسا نظام،
کہ ہر گلی میں مچا رکھا ہے کہرام
جمہوریت کی بنیاد عوام کی خدمت اور ان کے مسائل کا حل ہونا چاہیے۔ مگر آج ہمارے ملک میں یہ ایک کھیل بن چکی ہے، جہاں چند افراد ذاتی مفادات کے لیے اداروں اور وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان مسائل کا سامنا کریں اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ ورنہ یہ سوال، "جمہوریت نے کیا دیا؟" ہمیشہ ہماری اجتماعی ناکامی کا آئینہ دکھاتا رہے گا۔
خاکہ نمبر:22
عنوان:سیاست دانوں کے وعدے، دعوے اور حقیقت
قیام پاکستان سے لے کر اب تک جب بھی عام انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے تو ہر سیاسی جماعت اور اس کے نمائندے عوام کے سامنے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔اپنے اپنے منشور میں عوام کی خدمت کے جذبات کا اظہار اور بے لوث قیادت کے وعدے ایسے بیان کیے جاتے ہیں گویا وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ لیکن افسوس کہ یہ وعدے عموماً جھوٹے خواب ثابت ہوتے ہیں۔ جیسے ہی یہ نمائندے اسمبلی کی کرسی پر پہنچتے ہیں، عوام کے مسائل پسِ پشت ڈال کر اپنے مفادات کو اولین ترجیح دے دیتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور وعدہ پورا کرو، بے شک وعدے کی بابت پوچھا جائے گا" (سورہ الاسراء: 34)۔
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ وعدوں کی پاسداری نہایت اہم ہے، خاص طور پر جب یہ وعدے کسی قوم یا ملت سے کیے جائیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں سیاست دان وعدے صرف انتخابات جیتنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا جس نے لوگوں کو دھوکہ دیا" (مسلم)۔
یہ حدیث سیاست دانوں کے لیے ایک واضح سبق ہے، جو عوامی خدمت کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں لیکن بعد میں ان کے مسائل حل کرنے سے غافل ہو جاتے ہیں۔
شاعر نے خوب کہا ہے:
"وعدے کیے تھے چراغ جلانے کے،
چراغ بجھائے تو روشنی کہاں ہو؟"
خصوصاََ 2008ء کے بعد سے عوامی توقعات اور ان کے حصول کے درمیان ایک واضح خلا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے ایک تجزیے کے مطابق، 70 فیصد عوام کا اعتماد حکومت کی کارکردگی پر متزلزل ہے۔ روزگار، تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی اب بھی ایک خواب ہے، کیونکہ حکمران اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف وعدوں اور نعروں پر بھروسہ نہ کریں، بلکہ ایسے رہنما منتخب کریں جن کا کردار صاف ہو اور جو عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جمہوریت کے استحکام کا انحصار صرف سیاست دانوں پر نہیں بلکہ عوام کی سیاسی بصیرت پر بھی ہے۔ یہی بصیرت ہمیں ان دعووں کی حقیقت کو پہچاننے کا ہنر دے گی اور ملک کی ترقی کی راہ ہموار کرے گی۔
خاکہ نمبر:23
چاند سے بجلی اور ہماری لوڈشیڈنگ
یہ خبر پڑھ کر کہ جاپانی سائنسدانوں نے چاند سے بجلی حاصل
کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، میرے ذہن میں فوراً وہ منظر آیا جب ہم لوڈشیڈنگ کے عذاب
میں مبتلا، ہاتھ کے پنکھے سے ہوا لینے پر مجبور ہیں۔ خبر پڑھتے ہی میرے کانوں میں
آواز گونجی، "اور ہم آج تک کوئلے سے بجلی نہیں بنا سکے!" یہ فقرہ نہ صرف
ہماری بے بسی کا اظہار ہے بلکہ ہماری ترقی کے معیار پر ایک طنزیہ ضرب بھی۔
ہمارے ملک میں بجلی کی حالت کچھ یوں ہے کہ جیسے بجلی کسی کھیل
کے کھلاڑی ہو، جو کبھی میدان میں آتی ہے تو کبھی باہر۔ گرمیوں کے دنوں میں تو بجلی
یوں غائب ہوتی ہے جیسے گرمی سے گھبرا کر خود ہی چھپ گئی ہو۔ ایک طرف جاپانی
سائنسدان چاند کی روشنی سے بجلی بنانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، اور دوسری طرف ہمارے
عوام کا خواب صرف اتنا ہے کہ گرمیوں میں رات کو سکون کی نیند مل جائے۔
ہمارے یہاں کا نظام یوں ہے کہ بجلی کے آنے اور جانے کے وقت کا
کوئی یقین نہیں۔ بجلی آ جائے تو حیرانی ہوتی ہے، اور اگر زیادہ دیر رک جائے تو خوف
ہوتا ہے کہ بل بھی زیادہ آئے گا۔ عوام کی حالت یہ ہے کہ گرمی سے ستائے ہوئے لوگ
پنکھے کے نیچے بیٹھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ "یہ پنکھا کب چلے گا؟"
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"ہوا کے
منتظر ہیں ہم، ہوا بھی روٹھ جاتی ہے یہ
بجلی کی کہانی ہے، جو دل کو توڑ جاتی ہے!"
ہماری ترقی کی رفتار کچھ ایسی ہے جیسے اونٹ پہاڑ کے نیچے کھڑا
سوچ رہا ہو کہ چڑھنا ہے یا نہیں۔ جاپانی چاند سے بجلی حاصل کرنے کی تیاری کر رہے
ہیں، اور ہم زمینی تاریکی میں روشنی کے منتظر ہیں۔ شاید کبھی وہ دن آئے جب ہم بھی
چاند سے بجلی نہیں تو کم از کم زمین سے بجلی مستقل حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔
خاکہ نمبر:24
رودادبعنوان :
لوڈشیڈنگ، احتجاج اور عوام کی بے بسی
پاکستان میں لوڈشیڈنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر طبقۂ فکر کے
لیے اذیت کا باعث بن چکا ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے
زمین کو جھلسا رہا ہوتا ہے، بجلی کی بندش عوام کو مزید بے سکون کر دیتی ہے۔ ایسے
میں عوام کی بے بسی اور حکومت کی بے حسی مل کر ایک ایسا سماجی انتشار پیدا کرتی ہے
جس کا سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔
خاکے میں دکھائی گئی صورتحال ہماری معاشرتی حقیقت کی عکاسی
کرتی ہے۔ احتجاج کے دوران سڑکوں پر ٹائر جلانے اور راستے بند کرنے کو لوگ اپنے
مسائل کا حل سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ عمل مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
مظاہرین کا خیال ہوتا ہے کہ حکومت تک ان کی آواز پہنچے گی، لیکن اس احتجاج کا پہلا
شکار وہی شہری بن جاتے ہیں جو پہلے ہی لوڈشیڈنگ کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔
یہ مظاہرے اکثر ٹریفک جام کا باعث بنتے ہیں۔ ایمبولینسیں
راستے میں پھنسی رہتی ہیں، دفاتر جانے والے لوگ وقت پر نہیں پہنچ پاتے، اور طلبہ
امتحانات کے لیے پریشان ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان مظاہروں سے بجلی کی
بندش ختم ہو جاتی ہے؟ یا پھر یہ عمل صرف عوام کی بے بسی کو مزید نمایاں کرتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مسئلے کا حل احتجاج سے زیادہ مربوط منصوبہ
بندی اور حکومتی اقدامات میں ہے۔ بجلی کی پیداوار کے ذرائع بڑھانے، نظام کو جدید
بنانے، اور بجلی کی چوری روکنے جیسے اقدامات ہی اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ عوام
کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ احتجاج تب ہی موثر ہو سکتا ہے جب وہ نظم و ضبط کے
ساتھ کیا جائے اور دوسروں کے لیے مشکلات کا باعث نہ بنے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"چراغ
سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں، یہ
وقت اور مصیبت، سدا کسی کی نہیں۔"
یہ مسئلہ وقتی ضرور ہے، مگر اس کے حل کے لیے حکومت اور عوام
کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ عوامی احتجاج اپنی جگہ اہم ہے، مگر اسے مثبت اور
تعمیری انداز میں ہونا چاہیے تاکہ مسائل حل ہوں، نہ کہ مزید پیچیدہ۔
انسانی رشتے یا تجارتی سودے؟
زمانہ جوں جوں ترقی کر رہا ہے، انسان کی سوچ بھی بدل رہی ہے۔
نئی ٹیکنالوجی، برانڈز، اور مارکیٹنگ کی چکاچوند نے ہماری عقلوں کو اس طرح جکڑ لیا
ہے کہ ہم زندگی کے بنیادی تصورات کو بھی کاروباری معاہدے کی طرح دیکھنے لگے ہیں۔
اب رشتے، احساسات، اور جذبات بھی کسی "ڈیل" کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں سب
کچھ ایک "پیکیج آفر" کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔
آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، وہاں ہر چیز کی قدر اس کی
"مارکیٹ ویلیو" سے جُڑ چکی ہے۔ کسی چیز کا نیا ماڈل آ جائے تو پرانا بے
وقعت ہو جاتا ہے، چاہے وہ موبائل ہو، گاڑی ہو، یا انسان! اسی جدیدیت کے جنون میں
ہم نے رشتوں کو بھی کسی برانڈ کی طرح ناپنا شروع کر دیا ہے۔ جو چیز "لیٹسٹ"
نہ ہو، وہ ہمیں بےکار لگتی ہے۔
انسانی سوچ اب خالص جذبوں سے زیادہ "پروڈکٹ ویلیو"
پر منحصر ہو گئی ہے۔ ہر چیز کی قیمت لگائی جاتی ہے، حتیٰ کہ خوشی اور غم بھی بازار
کی زبان میں تولے جا رہے ہیں۔ اشتہاری کمپنیوں نے اس کھیل میں مہارت حاصل کر لی
ہے۔ وہ ہمیں وہی چیز بیچتی ہیں جو ہمیں پہلے سے چاہیے ہی نہیں تھی، لیکن چند
چمکدار نعرے سنا کر ہمیں یقین دلا دیا جاتا ہے کہ "یہ آپ کی زندگی کا لازمی
حصہ ہے!"
ہم ایسے دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں خوشی بھی ایک خریداری کا
عمل بن چکی ہے۔ کوئی نیا ماڈل، نیا کنکشن، یا نئی آفر نہ آئے تو لوگوں کو لگتا ہے
کہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہر چیز کو "اپ گریڈ"
کرنے کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ ہم جذبات، تعلقات، اور رشتے بھی بدلنے پر یقین
رکھنے لگے ہیں۔
یہ وہی دنیا ہے جہاں کبھی سادگی کو فضیلت سمجھا جاتا تھا۔
جہاں دعائیں اور محبتیں سب سے قیمتی خزانے تھے۔ مگر آج یہ سب صرف تحفے کی طرح پیش
کیے جانے والے "اضافی بونس" بن گئے ہیں، جنہیں صرف وقتی خوشی کے لیے
قبول کیا جاتا ہے۔
جدیدیت بری چیز نہیں، مگر اگر یہ ہمیں جذبات سے محروم کر دے،
اگر یہ ہمیں انسان سے زیادہ صارف بنا دے، تو پھر شاید ہمیں سوچنا پڑے کہ ہم ترقی
کر رہے ہیں یا تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں؟ سوال یہ نہیں کہ نیا کیا ہے، سوال یہ ہے
کہ ہم نے اپنے اندر سے کیا کھو دیا ہے!
خاکہ نمبر:26
کردار:
1. عامر (باپ، دفتر میں مصروف رہنے والا،
موبائل کا شوقین)
2. سارہ (ماں، سوشل میڈیا کی دیوانی)
3. علی (بیٹا، ڈیجیٹل دنیا میں کھویا ہوا)
4. دادا جان (خاندان کے بزرگ، حکمت اور تجربے
کے مالک)
5. چور (پراسرار کردار، جو کہانی میں سسپنس
اور ایکشن لائے گا)
پہلا منظر: (گھر کا کمرا، ٹیکنالوجی کی دنیا میں کھویا
خاندان)
(عامر اور سارہ صوفے پر بیٹھے ہیں، دونوں کے
ہاتھ میں ٹیبلٹ ہے۔ علی زمین پر بیٹھا اپنا ٹیبلٹ چارج ہونے کا انتظار کر رہا ہے،
لیکن بیٹری ختم ہو چکی ہے۔)
سارہ (جھنجھلا کر): عامر! اب ذرا بیٹے کے ساتھ بھی کچھ دیر کھیل
لو، اس کے ٹیبلٹ کی بیٹری ختم ہو گئی ہے!
عامر (ٹیبلٹ سے نظریں نہ ہٹاتے ہوئے): ارے سارہ! ابھی تو میٹنگ
ختم ہوئی ہے، بس پانچ منٹ دو، ایک ای میل بھیجنی ہے۔
علی (بلک بلک کر): مما! ٹیبلٹ دے دو، بابا کو کہو چارج کر دیں!
سارہ (خود بھی موبائل پر مصروف): ارے بیٹا، تھوڑا صبر کرو، میں
ایک پوسٹ لکھ رہی ہوں، بابا سے کہو!
(علی مایوس ہو کر کھلونے کی طرف دیکھتا ہے،
مگر وہ اسے غیر دلچسپ لگتے ہیں۔ اچانک، گھر کی لائٹ بند ہو جاتی ہے۔ پورے کمرے میں
اندھیرا چھا جاتا ہے!)
دوسرا منظر: (سسپنس کا آغاز، ایک پراسرار لمحہ)
عامر (گھبرا کر): یہ کیا ہو رہا ہے؟
سارہ: کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں؟
(اسی لمحے، کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی
ہے۔ اچانک، ایک نقاب پوش چور کمرے میں داخل ہوتا ہے!)
چور (گھمبیر آواز میں): خبردار! ہلنے کی کوشش مت کرنا، ورنہ
بہت برا ہوگا!
(عامر، سارہ اور علی خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے
کی طرف دیکھتے ہیں۔ چور کمرے میں ادھر اُدھر دیکھتا ہے، اور قیمتی سامان تلاش کرنے
لگتا ہے۔)
تیسرا منظر: (دادا جان کا ہیرو والا کردار)
(اچانک، دادا جان ایک چراغ ہاتھ میں لیے کمرے
میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر سکون اور آنکھوں میں چمک ہے۔)
دادا جان (مسکرا کر): بیٹا، تمہاری نسل کے لوگ چارجنگ ختم
ہونے کے بعد کچھ نہیں کر سکتے، مگر ہم بغیر بیٹری کے بھی سب کچھ کر سکتے ہیں!
(چور چونک کر دادا جان کی طرف دیکھتا ہے، مگر
دادا جان آرام سے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ میز پر رکھا پرانا لکڑی کا ڈنڈا اٹھاتے ہیں
اور ایک جھٹکے میں چور کو دبوچ لیتے ہیں!)
چور (چونک کر): اوہ! یہ بزرگ کہاں سے آ گیا؟
(دادا جان ایک زوردار وار کرتے ہیں، چور زمین
پر گر جاتا ہے۔ عامر اور سارہ حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی لمحے، دادا جان علی کی
طرف مڑ کر کہتے ہیں۔)
دادا جان: بیٹا! دیکھو، زندگی صرف موبائل یا ٹیبلٹ تک محدود
نہیں، اصل طاقت دماغ اور ہاتھوں کی ہوتی ہے!
(پولیس آتی ہے اور چور کو گرفتار کر لیتی ہے۔
لائٹ واپس آ جاتی ہے۔ عامر اور سارہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں، اور پھر علی کی
طرف۔ وہ دونوں اپنی موبائل اور ٹیبلٹ ایک طرف رکھتے ہیں اور علی کو گلے لگا لیتے ہیں۔)
عامر (مسکراتے ہوئے): بیٹا، آج سے ہم تمہارے ساتھ زیادہ وقت
گزاریں گے!
سارہ: ہاں، ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ ہم تمہیں ٹیکنالوجی کی دنیا
میں اکیلا چھوڑ رہے تھے!
(علی خوش ہو کر اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے
لگتا ہے، اور دادا جان مسکراتے ہیں۔)
دادا جان: دیکھو! محبت کی بیٹری کبھی ختم نہیں ہوتی، بس ہمیں
چارج کرنا آنا چاہیے!
(پردہ گرتا ہے، اور کہانی ایک اہم سبق کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے کہ زندگی صرف ٹیکنالوجی پر نہیں، بلکہ حقیقی رشتوں اور خوداعتمادی پر بھی منحصر ہے۔)
روداد بعنوان: خشکی کے ملاح
یہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی، جب میں گاؤں کے کنارے پہنچا
تو ایک عجیب و غریب منظر میرے سامنے تھا۔ چند بزرگ، جو بظاہر گاؤں کے عقلمند سمجھے
جاتے تھے، اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھے زور و شور سے چپو چلا رہے تھے۔ حیرت انگیز
بات یہ تھی کہ پانی نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہ تھی، بلکہ ان کی کشتیاں خشک اور
پھٹی ہوئی زمین پر ٹکی ہوئی تھیں!
میں نے قریب جا کر کان لگایا تو بحث سنائی دی:
پہلا بزرگ (زور سے چپو ہلاتے ہوئے): "میں اس پانی میں
اپنی کشتی چلاؤں گا!"
دوسرا بزرگ (ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر): "یہ پانی میرا ہے،
تمہاری کشتی یہاں نہیں چل سکتی!"
تیسرا بزرگ (بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے): "یہ سب
بیکار کی بحث ہے، پہلے ہمیں پانی ڈھونڈنا چاہیے!"
یہ مکالمہ سن کر میں مزید حیران رہ گیا۔ میں نے قریب بیٹھے ایک
نوجوان سے پوچھا،
"یہ کیا تماشا ہو رہا ہے؟"
وہ ہنستے ہوئے بولا،
"یہ ہمارے گاؤں کے رہنما ہیں۔ برسوں سے یہ
طے نہیں کر سکے کہ یہاں کس کا حق زیادہ ہے، تو اب خشکی پر ہی کشتی چلانے کی مشق کر
رہے ہیں!"
میں نے قریب جا کر ادب سے کہا،
"بابا جی! پانی تو یہاں ہے ہی نہیں، پھر
یہ بحث کیوں؟"
پہلا بزرگ مجھے گھورتے ہوئے بولا،
"بس یہی تو اصل مسئلہ ہے، پہلے یہ طے کریں
کہ پانی کس کا ہوگا، پھر کہیں جا کر پانی لانے کی سوچیں گے!"
دوسرے بزرگ نے فوراً تائید کی،
"ہاں! اگر ہم نے پہلے پانی لے آئے، تو
بعد میں یہ طے کرنا مشکل ہوگا کہ اس پر حق کس کا ہوگا!"
تیسرے بزرگ نے لمبی آہ بھری،
"بس یہی سمجھنے کی بات ہے، نوجوان! ہم
پہلے اصول طے کرتے ہیں، پانی کی ضرورت بعد میں دیکھیں گے!"
میں نے قہقہہ لگایا اور کہا،
"تو پھر آپ سب خشکی پر کشتی چلانے کی
مشق کرتے رہیے، اور جب پانی آئے تو مجھے بھی خبر کر دیجیے گا!"
یہ کہہ کر میں واپس مڑ گیا، اور پیچھے سے ان بزرگوں کی بحث
جاری رہی۔ میں نے سنا کہ ایک کہہ رہا تھا،
"پانی آئے نہ آئے، کشتی ضرور چلنی چاہیے!"
اور میں سوچنے لگا کہ ہمارے معاشرے کے کئی فیصلے شاید ایسے ہی
ہوتے ہیں، جہاں پہلے بے معنی بحث ہوتی ہے، اور اصل مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا!
خاکہ نمبر:28
"مٹھائی
کا قیدخانہ
تین بہادر چیونٹیوں کی داستان"
چیونٹیوں کے قبیلے میں خوشی کا دن تھا۔ باورچی خانے میں
ایک مٹھائی کا ڈبہ کھلا چھوڑ دیا گیا تھا، اور پوری کالونی میں جشن کا سماں تھا۔
سب اپنی اپنی رفتار سے دانہ دانہ چینی لے جا رہے تھے کہ اچانک شور مچ گیا:
"بچاؤ!
ہمارا ننھا گوگو برفی کے نیچے دب گیا!"
گوگو، جو کہ محض ایک ننھی سی شوخ چیونٹی تھی، تجسس کے
مارے برفی پر چڑھ گئی تھی، لیکن اچانک کسی نے ڈبے کو حرکت دی اور برفی کی ایک
بھاری ڈلی اس پر آن گری۔ باقی سب چیونٹیاں تو باہر بھاگ گئیں، لیکن تین بہادر
چیونٹیوں نے عہد کیا کہ وہ گوگو کو ہر حال میں بچا کر رہیں گی۔
تینوں نے پہلے باہر بیٹھ کر حکمتِ عملی بنائی۔
"ہم
اندر جا کر برفی کو کاٹ کر گوگو کو نکالیں گے!" ایک نے عزم سے کہا۔
"لیکن
برفی تو چپک دار ہوتی ہے، اگر ہم پھنس گئے تو؟" دوسری نے پریشانی ظاہر کی۔
"ہم
چیونٹیاں ہیں، انسان نہیں، جو مٹھائی کے جال میں ہمیشہ کے لیے قید ہو جائیں!"
تیسری نے طنزیہ کہا اور اندر کودنے کی تیاری کی۔
جیسے ہی تینوں نے ڈبے میں چھلانگ لگائی، وہ برفی کی چمک
دار سطح پر جا گریں۔ پہلی چیونٹی نے ہمت سے برفی کو کاٹنا شروع کیا، دوسری نے
راستہ بنایا، جبکہ تیسری اپنی پھسلتی ٹانگیں سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔
"ارے،
میں پھنس رہی ہوں! برفی میرے پیروں میں چپک گئی!" پہلی نے چلّا کر کہا۔
"سنبھلو!
ابھی تو ہمیں گوگو کو بھی بچانا ہے!" دوسری نے حوصلہ دیا۔
تبھی اچانک خطرے کی گھنٹی بجی—چمچ حملہ آور ہو گیا!
انسان نے اچانک چمچ سے برفی نکالنے کی کوشش کی۔ جیسے ہی
چمچ اندر آیا، برفی کا بڑا سا ٹکڑا اوپر نیچے ہوا، اور تینوں چیونٹیاں دھچکے سے
اچھل گئیں۔
"خبردار!
یہ کوئی زلزلہ نہیں، یہ چمچ ہے!" ایک چیونٹی چلائی۔
چمچ کا وار ہوتے ہی برفی میں دراڑ پڑی، اور ایک لمحے کے
لیے گوگو کی ننھی ننھی ٹانگیں نظر آئیں۔
"وہ
زندہ ہے! جلدی کرو!" سب نے مل کر گوگو کو کھینچنا شروع کر دیا۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ گوگو کو آزاد کرا کر باہر کیسے نکلا
جائے؟ برفی کے چپکنے کی وجہ سے تینوں کی رفتار دھیمی ہو چکی تھی، اور چمچ کا خطرہ
ہر لمحہ بڑھ رہا تھا۔
"ہماری
آخری امید وہ چینی کا دانہ ہے جو کنارے پر پڑا ہے!" ایک نے مشورہ دیا۔
"اگر
ہم اسے دھکیل کر نیچے پھینک دیں، تو اس سے ہلچل مچے گی، اور ہم برفی سے آزاد ہو
سکیں گے!"
یہ ایک خطرناک مگر آخری موقع تھا۔ تینوں نے پوری طاقت
لگا کر چینی کے دانے کو دھکیلا، اور جیسے ہی وہ نیچے گرا، ایک اور چیونٹی فوراً
بھاگ کر شور مچانے لگی، "انسان! چینی گر گئی!"
چمچ والا انسان فوراً نیچے دیکھنے لگا، اور اس لمحے کا
فائدہ اٹھا کر تینوں نے گوگو کو کھینچا اور پوری طاقت سے بھاگی۔ جیسے ہی وہ ڈبے سے
باہر نکلی، ان کے قدم فرش پر آتے ہی انہیں محسوس ہوا:
"ہم
زندہ بچ گئے!"
ساری چیونٹی کالونی نے تینوں چیونٹیوں کا استقبال کیا،
اور گوگو کی رہائی پر جشن منایا گیا۔ گوگو نے جو پہلی بات کہی، وہ یہ تھی:
"برفی
بہت مزیدار تھی، لیکن اس کے نیچے دبنا زندگی کا سب سے برا فیصلہ تھا!"
اور یوں، تین بہادر چیونٹیوں کی یہ داستان ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے کالونی کے مشہور کارناموں میں شامل ہو گئی!
خاکہ نمبر:29
مہنگائی کا غبارہ اور عوام کی امیدیں
کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے، لیکن جب بات مہنگائی
کی ہو تو امید بھی پتنگ کی طرح کٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دیے گئے خاکے کو دیکھ کر یوں
محسوس ہوتا ہے جیسے عوام بے چارے ہاتھ پھیلائے دعا کر رہے ہوں کہ شاید کسی مہربان
کی جیب سے کچھ گر جائے، لیکن آسمان میں اُڑتے غبارے میں موجود اشیائے خورد و نوش
مزید بلندی کی طرف رواں دواں ہیں۔
یہ غبارہ دراصل "پیٹرولیم کی قیمتوں" کا ہے،
جو ہر مہینے کسی نہ کسی بہانے ہوا سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ کبھی عالمی منڈی میں تیل
کی قیمتیں بڑھنے کا بہانہ، کبھی ڈالر کی اُچھل کود، اور کبھی حکومت کی "عوام
دوست" پالیسی! غبارہ اُڑتا ہے تو ساتھ ہی آٹے، چینی، دال، سبزی، دودھ اور
یہاں تک کہ ہوا بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔ عوام بیچارے زمین پر کھڑے ہاتھ پھیلائے، اس
امید میں ہیں کہ شاید کوئی کرشمہ ہو اور یہ غبارہ واپس نیچے آ جائے، لیکن حقیقت
میں یہ غبارہ کسی کی پہنچ میں نہیں۔
یہ صورتِ حال کچھ یوں ہے جیسے کسی بچے کو چاکلیٹ دکھا
کر کہا جائے کہ یہ تمہاری ہے، لیکن جیسے ہی وہ ہاتھ بڑھائے، اسے غبارے میں باندھ
کر فضا میں چھوڑ دیا جائے۔ عوام کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ حکومت ہر بار کسی نئے
پیکج، سبسڈی یا ریلیف کا اعلان کرتی ہے، لیکن جیسے ہی عوام خوش ہونے لگتے ہیں،
اچانک "پیٹرول بم" گرتا ہے اور وہی سبسڈی خود بخود غائب ہو جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی مہنگائی پر سوال کیا جاتا ہے
تو وزراء کے جوابات بھی کسی غبارے سے کم نہیں ہوتے۔ کوئی کہتا ہے، "یہ پچھلی
حکومت کی غلطیوں کا نتیجہ ہے"، تو کوئی فرماتا ہے، "عالمی منڈی میں تیل
کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، ہم کیا کریں؟" عوام کے ہاتھ صرف طفل تسلیاں ہی آتی
ہیں، جبکہ اشیائے خورد و نوش "غبارہ پالیسی" کے تحت مزید مہنگی ہو جاتی
ہیں۔
خیر، عوام کو بھی سلام پیش کرنا چاہیے کہ جتنی تیزی سے
مہنگائی بڑھتی ہے، اتنی ہی تیزی سے وہ اس کے ساتھ جینے کے نت نئے طریقے بھی سیکھ
لیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب دعوتوں میں بریانی عام تھی، اب "چائے بسکٹ"
دعوتوں کا نیا مینو بن چکا ہے۔ پہلے سبزی خریدنے جاتے تھے، اب دکان پر جا کر صرف
خوشبو سونگھ کر واپس آ جاتے ہیں۔ یہ قوم مشکل حالات میں جینے کا فن جانتی ہے!
آخر میں دعا ہے کہ شاید کوئی دن ایسا بھی آئے جب یہ
غبارہ پھٹ جائے اور اشیائے خورد و نوش دوبارہ عوام کی پہنچ میں آ جائیں۔ ورنہ عوام
کا حال بھی اُس بچے کی طرح ہوگا جو ہر روز غبارے کے نیچے ہاتھ پھیلاتا ہے اور
آخرکار تھک ہار کر کہتا ہے، "چلو بھائی، خواب ہی دیکھ لیتے ہیں!"
خاکہ نمبر:30
"چور
چور کا شکار"
رات کے سائے میں لاہور کی ایک سنسان گلی میں اچانک
ہنگامہ برپا ہو گیا۔ شور و غل کی آوازیں آ رہی تھیں، لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔
تھانے سے چند قدم کے فاصلے پر دو پولیس اہلکار ہاتھ ملتے کھڑے تھے، جبکہ ان کے
سامنے دو شہری حیران و پریشان کھڑے تھے۔
"کوئی ہماری موبائل وین چوری کر کے لے گیا ہے! آپ
نے کسی کو نہیں دیکھا؟" سب انسپکٹر جمیل پسینے میں شرابور، آنکھوں میں آنسو
لیے پوچھ رہا تھا۔
سامنے کھڑے احمد اور ریحان حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف
دیکھنے لگے۔ "صاحب! ہم تو اپنی موٹر سائیکل کی چوری کی رپورٹ درج کرانے آئے
تھے، یہ کیا ماجرا ہے؟" احمد نے سوال کیا۔
"بھائی! یہ بہت بڑا سانحہ ہے! ہماری گاڑی میں
سرکاری ہتھیار بھی تھے!" ساتھ کھڑے ہیڈ کانسٹیبل شفیق نے روہانسی آواز میں
کہا۔
"تو آپ پولیس والے ہو کر اپنی ہی وین نہیں بچا
سکے؟" ریحان نے حیرانی سے پوچھا۔
"ارے بھائی! مسئلہ یہ ہے کہ چور بھی بہت تیز نکلے،
ہمیں چائے پلانے کے بہانے وین سے اتار دیا اور جب ہم گپ شپ میں لگے تھے تو وہ غائب
ہو گئے!" جمیل نے وضاحت کی۔
"یہ تو فلمی سین ہو گیا!" احمد نے ہنسی دباتے
ہوئے کہا۔
اسی وقت ایک سائرن بجا اور ایک دوسری پولیس گاڑی وہاں
پہنچ گئی۔ ڈی ایس پی فہیم گاڑی سے باہر نکلے اور غصے سے بولے: "یہ کیا سن رہے
ہیں ہم؟ پولیس کی گاڑی چوری ہو گئی؟ یہ کسی مزاحیہ فلم کا سین لگ رہا ہے!"
"سر! چوروں نے بہت مہارت سے کام کیا، ہمیں کچھ پتہ
ہی نہیں چلا!" شفیق نے افسوس سے سر ہلایا۔
"اور تم دونوں یہاں کیوں کھڑے ہو؟" ڈی ایس پی
نے احمد اور ریحان کی طرف اشارہ کیا۔
"سر! ہم اپنی موٹر سائیکل چوری ہونے کی رپورٹ
لکھوانے آئے تھے، لیکن اب لگتا ہے کہ ہمیں پہلے پولیس وین ڈھونڈنی ہوگی!"
احمد نے طنزیہ انداز میں کہا۔
ڈی ایس پی نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور بولا، "لگتا
ہے چور اب پولیس کو بھی چکر دے رہے ہیں! سب فوراً ناکہ بندی کرو! اور خبردار! اگر
وین نہ ملی تو کل سے پیدل گشت کرو گے!"
اہلکار فوراً حرکت میں آئے۔ احمد اور ریحان نے ایک
دوسرے کو دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا، "چلو بھائی، ہماری بائیک تو گئی، اب
دیکھتے ہیں پولیس اپنی وین کیسے ڈھونڈتی ہے!"
خاکہ نمبر:31
" قانون کی پاسداری یا جیب
کی صفائی؟"
رات کا وقت تھا، گلیاں سنسان تھیں، اور آسمان پر چمکتا
ہوا چاند بھی یوں لگ رہا تھا جیسے زمین پر ہونے والے ظلم کا گواہ بننے سے انکاری
ہو۔ قاسم ایک شریف شہری، اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر دفتر سے گھر لوٹ رہا تھا۔
تھکن کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے، لیکن تنخواہ ملنے کی خوشی نے اس کے قدم
ہلکے کر دیے تھے۔
"بس آج بیگم کے لیے کچھ اچھا لے جاؤں گا، اور بچوں
کے لیے چاکلیٹ بھی..." وہ خود سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک ایک گرجدار آواز
سنائی دی:
"اوئے! کہاں جا رہے ہو؟ روک موٹر سائیکل!"
قاسم نے چونک کر بریک لگائی۔ سامنے ایک پولیس اہلکار
کھڑا تھا، ہاتھ میں ڈنڈا، مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا، جیسے کسی شکاری نے شکار دبوچ
لیا ہو۔
"جناب، میں بس گھر جا رہا تھا، کوئی مسئلہ؟"
رفیق نے ادب سے پوچھا۔
"مسئلہ؟ مسئلہ تو یہ ہے کہ تمہیں نہیں پتہ آج کے
دن ڈبل سواری پر پابندی ختم ہے؟" اہلکار نے غصے سے کہا۔
"لیکن، لیکن... میں تو اکیلا ہوں!" قاسم نے
حیرانی سے اپنے پیچھے دیکھا اور پھر اہلکار کی طرف۔
"ابے بکواس بند کر! قانون سب کے لیے برابر ہوتا
ہے! تُو اکیلا کیوں ہے؟ تجھے کم از کم اپنی بیوی کو ساتھ بٹھانا چاہیے تھا تاکہ
قانون کی عزت ہو!" اہلکار نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔
قاسم حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بولا،
"صاحب، یہ کیسا قانون ہے؟ میں نے کوئی جرم تو نہیں کیا!"
"ارے! زبان لڑاتا ہے؟ ابھی حوالات میں بند کر دوں
گا، وہاں جا کر قانون کی کتاب پڑھ لینا!" اہلکار نے ڈنڈا گھماتے ہوئے دھمکی
دی۔
قاسم نے پسینے میں شرابور ہوتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا۔
تنخواہ کے تازہ نوٹ ابھی تک تہہ کیے ہوئے تھے۔ اس نے آہ بھری اور چند نوٹ نکال کر
اہلکار کی طرف بڑھائے۔
"اب آیا نہ لائن پر! دیکھو بھائی، ہم تو تمہاری
بھلائی چاہتے ہیں، ورنہ اگر مقدمہ درج ہو جاتا تو کم از کم چھ ماہ کی پیشیاں
بھگتنا پڑتیں!" اہلکار نے نوٹ اپنی جیب میں رکھے اور مسکرا کر قاسم کی پیٹھ
تھپتھپائی۔
"جا بیٹا، گھر جا اور بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہ!
اور ہاں، اگلی بار اکیلے نہ نکلنا، قانون کا خیال رکھنا!"
قاسم نے سر جھکا کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور آہستہ
آہستہ گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج اس نے سیکھ لیا تھا کہ قانون کے رکھوالے کون
ہوتے ہیں اور قانون کی پاسداری کیسے کرنی ہوتی ہے!
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اگلی صبح وہی پولیس
اہلکار اپنے تھانے میں رشوت کے الزامات میں گھرا بیٹھا تھا۔ رات کی واردات کی
ویڈیو کسی شہری نے بنا لی تھی اور وہ وائرل ہو چکی تھی۔ بڑے افسران کے حکم پر
اہلکار کو معطل کر دیا گیا، اور کچھ ہی دنوں بعد رشوت ستانی کے جرم میں اسے نوکری
سے برطرف کر کے حوالات میں ڈال دیا گیا۔
قاسم نے یہ خبر پڑھی اور مسکرا دیا۔ آخرکار، انصاف نے
اپنا راستہ خود بنا لیا تھا۔
روداد سفر : ایک کبوتر کی زبانی
میں، یعنی آپ کا عاجز کبوتر، آج آپ کو اپنی ایک یادگار
سفری داستان سنانے جا رہا ہوں۔ میری یہ اُڑان صرف ہوا میں پر پھڑپھڑانے تک محدود
نہ رہی، بلکہ اس میں کئی حیرت انگیز، مضحکہ خیز اور سنسنی خیز واقعات بھی شامل
ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کبوتروں کی زندگی بس "گُٹر گُوں" کرنے اور
دانہ چگنے تک محدود ہے، تو یقین کریں، آپ بہت بڑی غلط فہمی میں ہیں!
میں نے فیصلہ کیا کہ آج اپنے علاقے کی تنگ گلیوں سے نکل
کر کسی نئی جگہ کی سیر کی جائے۔ جیسے ہی میں نے اپنے پر پھیلائے اور فضا میں بلند
ہوا، نیچے انسانوں کی بھیڑ نظر آئی، جو اپنی گاڑیوں میں پھنسے غصے سے ہارن بجا رہے
تھے۔ میں سوچنے لگا کہ اگر یہ سب بھی پرندے ہوتے تو یقینا ٹریفک جام کا کوئی مسئلہ
نہ ہوتا، بس ایک دوسرے کے اوپر سے گزر جاتے۔
میں مزے سے اُڑ رہا تھا کہ اچانک ایک پتنگ میرے قریب آ
گئی۔ پتنگ تو خیر کوئی مسئلہ نہ تھی، اصل خطرہ تھا وہ دھاگا جو دُور سے نظر بھی
نہیں آتا تھا! میں نے جیسے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی، ایک دھاگا میرے پروں کے قریب
سے گزرا اور میں نے ایک لمحے میں پوری طاقت لگا کر جھٹکا دیا۔ سانس تو بحال ہوئی،
مگر میری دم کے دو پر شہید ہو چکے تھے! اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ انسانوں کے یہ
پتنگ بازی کے شوق کبوتروں کے لیے کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں۔
کافی دیر اُڑنے کے بعد مجھے بھوک محسوس ہوئی۔ ایک پارک
میں اُتر کر میں نے کچھ چگنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی ایک بچے نے میری طرف چنے
پھینکے، میں خوشی خوشی آگے بڑھا، لیکن اس کے فوراً بعد وہی بچہ زور سے اچھل کر
چلانے لگا:
"پکڑو! پکڑو! یہ میرا پالتو کبوتر ہے!"
میں نے فوراً پر پھڑپھڑائے اور وہاں سے نکلنے میں ہی
عافیت سمجھی۔ یوں لگا جیسے میں کسی خاص سرکاری راز کے ساتھ بھاگ رہا ہوں!
جیسے ہی میں نے دانہ چگنے کے بعد اُڑان بھری، ایک بلی
کی تیز نظریں مجھ پر جمی ہوئیں تھیں۔ میں نے تو ہمیشہ سنا تھا کہ بلیاں انسانوں کی
دوست ہوتی ہیں، لیکن یہ والی تو مجھے دیکھ کر زبان چاٹ رہی تھی! جیسے ہی میں ایک
دیوار پر بیٹھا، وہ بجلی کی تیزی سے مجھ پر جھپٹی۔ میں نے ایک جھٹکے سے اُڑنے کی
کوشش کی، لیکن بلی کے ناخن میری دم کے آخری پروں تک پہنچ چکے تھے۔
مجھے لگا کہ اب میری کہانی ختم! لیکن آخری لمحے میں میں
نے پوری طاقت لگا کر اوپر کی جانب اُڑان بھری اور کسی طرح جان بچائی۔ جب میں نے
نیچے دیکھا تو بلی حیران و پریشان مجھے گھور رہی تھی، جیسے کہہ رہی ہو:
"یہ بچ کیسے گیا؟!"
بلی سے جان بچا کر میں سکون سے اُڑ رہا تھا کہ اچانک
میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کسی نے بتایا تھا کہ اگر تمہیں اپنے پیچھے سایہ بڑا
ہوتا محسوس ہو، تو سمجھ جاؤ کہ کوئی شکاری پرندہ تمہیں گھور رہا ہے۔ جیسے ہی میں
نے مڑ کر دیکھا، ایک خوفناک باز پوری رفتار سے میری طرف آ رہا تھا!
میں نے اپنی رفتار دُگنی کر دی، لیکن باز کسی جدید جٹ
طیارے کی طرح میرے پیچھے تھا۔ وہ مجھ سے کئی گنا بڑا اور طاقتور تھا، اور میں
مسلسل دعا کر رہا تھا کہ کسی طرح جان بچ جائے۔
اچانک مجھے ایک گنجان درخت نظر آیا۔ میں پوری طاقت سے
اس کی طرف لپکا اور جھاڑیوں کے اندر گھس گیا۔ باز نے بھی اندر آنے کی کوشش کی،
لیکن اس کے بڑے پروں نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے ایک درخت کی شاخ پر آ کر
لمبی سانس لی اور شکر ادا کیا کہ آج بھی میری زندگی محفوظ رہی۔
کافی گردش کے بعد جب شام ہونے لگی، تو میں نے اپنے
علاقے کی طرف واپسی کا ارادہ کیا۔ راستے میں کئی کبوتر دوستوں سے ملاقات ہوئی،
جنہوں نے میری داستانیں سُن کر قہقہے لگائے اور میری ہمت کو داد دی۔ میں نے انہیں
تاکید کی کہ خبردار! بلیوں، پتنگوں اور بازوں سے دور رہنا، ورنہ میری طرح تمہیں
بھی اپنے پروں کی قربانی دینی پڑے گی!
یوں میری یہ سفر کہانی طنز و مزاح، سنسنی اور حیرت
انگیز واقعات سے بھرپور رہی۔ اور ہاں، اگر آپ نے کبھی کسی کبوتر کو کسی چھت پر
بیٹھے سوچ میں گم پایا ہو، تو سمجھ جائیں کہ وہ شاید اپنے اگلے سفر کی منصوبہ بندی
کر رہا ہے!
خاکہ نمبر:33
پاکستان کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے
فراہم کردہ امداد اور قرضوں کے باوجود، ملک کی اقتصادی حالت میں بہتری کی بجائے
بگاڑ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ صورتحال اس خاکے میں بخوبی اجاگر کی گئی ہے، جہاں ورلڈ
بینک کو ایک خوشحال اور طاقتور شخصیت کے طور پر دکھایا گیا ہے، جبکہ پاکستانی
معیشت ایک کمزور اور نحیف گھوڑے کی مانند ہے جس پر ایک پاکستانی شخصیت سوار ہے۔ یہ
منظر واضح کرتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے بظاہر پاکستان کی مدد کر رہے ہیں، لیکن
حقیقت میں معیشت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے۔
ورلڈ بینک نے حال ہی میں پاکستان کے لیے 10 سالہ 20 ارب
ڈالر کے قرضے کی منظوری دی ہے، جس کا مقصد اقتصادی اصلاحات اور استحکام میں مدد
فراہم کرنا ہے۔ تاہم، یہ قرضے اکثر سخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں، جن میں ٹیکس
اصلاحات، سبسڈی میں کمی، اور دیگر معاشی پابندیاں شامل ہیں۔ نتیجتاً، عوام پر
مہنگائی اور بیروزگاری کا بوجھ بڑھتا ہے، جبکہ معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو جاتی
ہے۔
پاکستان کے قرضوں کی صورتحال
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا مجموعی قرضہ
71.3 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جو کہ جون 2024 تک جی ڈی پی کے 67.4 فیصد کے برابر
ہے۔ اس میں سے بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جو کہ اوسط سالانہ
برآمدات سے 352 فیصد زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین 29 ارب ڈالر کے ساتھ
پاکستان کا سب سے بڑا قرض دہندہ بن چکا ہے۔
یہ صورتحال کچھ یوں ہے جیسے ایک مریض کو ڈاکٹر مزید
دوائیں تجویز کر رہا ہو، جبکہ مریض کی حالت دواؤں کے بوجھ سے بگڑتی جا رہی ہو۔
عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک کی جانب سے ملنے والے قرضے بظاہر معیشت کو
سہارا دینے کے لیے ہیں، لیکن ان کی سخت شرائط اور سود کی ادائیگیاں معیشت کو مزید
کمزور کر رہی ہیں۔ عوام پر مہنگائی، بیروزگاری، اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا
ہے، جبکہ معیشت کی بہتری کے آثار معدوم ہیں۔
موجودہ معاشی صورتحال سے یہ سبق ملتا ہے کہ
بیرونی قرضوں پر انحصار معیشت کی بہتری کا مستقل حل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ پاکستان اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خود انحصاری کی راہ اپنائے، تاکہ
معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جا سکے اور عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کیا
جا سکے۔
خاکہ نمبر:34
پاکستان میں اگر پانی کی قلت کا ذکر کریں تو ایسا محسوس
ہوتا ہے جیسے کسی بھوکے کو روٹی دکھا کر کہہ دیا جائے کہ "بھائی، روٹی تو ہے،
بس تمہاری پلیٹ میں نہیں!" پانی کا بحران بھی کچھ ایسا ہی ہے، دنیا کے نقشے
پر دریا بہہ رہے ہیں، سمندر موجیں مار رہے ہیں، بادل برسنے کو تیار ہیں، لیکن
ہمارے ہاں نلکے میں بوند بوند کو ترسنا پڑتا ہے۔
پانی کی دستیابی کا عالمی موازنہ
اقوامِ متحدہ کے مطابق ایک ملک میں فی کس سالانہ 1700
کیوبک میٹر پانی دستیاب ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں یہ مقدار تیزی سے 1000 کیوبک
میٹر سے کم ہو رہی ہے، جو کہ "پانی کی شدید قلت" کے زمرے میں آتی ہے۔
اب اگر ہم کچھ ترقی یافتہ ممالک سے اپنا موازنہ کریں تو
معلوم ہوتا ہے کہ کینیڈا میں فی کس پانی کی دستیابی 80,000 کیوبک میٹر ہے، جبکہ
امریکہ میں 9,000 کیوبک میٹر۔ اور پاکستان میں؟ جی ہاں! صرف 908 کیوبک میٹر، یعنی
"پانی نہیں تو صبر کر لو" والا فارمولا اپنایا جا رہا ہے۔
پانی کی قلت کے اسباب
1. ڈیم نہ بننے کی ضد: ہمیں نہروں اور دریاؤں کے پانی
کو بچانے کے لیے ڈیمز کی ضرورت ہے، مگر ہر نیا منصوبہ سیاست کی نظر ہو جاتا ہے۔
2. فضول خرچی: اگرچہ "ٹینکی فل" کرنے کا نعرہ
ہر گلی میں گونجتا ہے، مگر پانی کا ضیاع اپنی جگہ برقرار ہے۔ لوگ ہاتھ دھونے کے
بہانے دریا بہا دیتے ہیں اور گاڑیاں دھونے میں اتنا پانی استعمال کرتے ہیں کہ ایک
پورا گاؤں پی سکتا ہے۔
3. آبادی کا طوفان: جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی
ہے، لگتا ہے کہ جلد ہی ہم پانی کے بجائے "دھوئیں" پر گزارہ کرنے پر
مجبور ہوں گے۔
4. ماحولیاتی تبدیلیاں: دنیا میں گلیشیئرز پگھل رہے
ہیں، برف باری کے پیٹرن بدل رہے ہیں، اور پاکستان میں بھی یہ اثرات محسوس کیے جا
رہے ہیں۔
مستقبل کا منظرنامہ
اگر پانی کی قلت کا حل نہ نکالا گیا تو مستقبل کچھ ایسا
ہو سکتا ہے:
لڑکیاں "جہیز میں پانی" لانے کی شرط پر بیاہی
جائیں گی۔
چائے خانوں پر "صرف ایک کپ پانی فی کس" کی
پالیسی لاگو ہو جائے گی۔
گاڑی دھونا جرم قرار دے دیا جائے گا، اور "دھول
والی گاڑیاں" فیشن کا حصہ بن جائیں گی۔
نہانے کا دورانیہ 30 سیکنڈ سے زیادہ ہونے پر جرمانہ
عائد ہوگا۔
حل کی تجاویز
1. ڈیموں کی تعمیر: کالا باغ ڈیم جیسی متنازعہ بحث کو
چھوڑ کر فوری طور پر نئے آبی ذخائر بنائے جائیں۔
2. واٹر ری سائیکلنگ: ترقی یافتہ ممالک کی طرح پانی کو
ری سائیکل کر کے دوبارہ استعمال میں لایا جائے۔
3. قطرہ قطرہ پالیسی: ہر شہری کو پانی کے کم سے کم
استعمال کا شعور دیا جائے۔
4. پائپ لائنز کی مرمت: ناقص پائپ لائنوں سے لاکھوں
گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے، جسے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
اگر ہم نے پانی کو ضائع کرنے کا یہی رویہ برقرار رکھا
تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں پانی "بلیک مارکیٹ" سے ملے گا اور پانی چرانے
کے لیے "ٹینکر مافیا" کے ساتھ ساتھ "بوتل مافیا" بھی سرگرم ہو
جائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کریں، ورنہ مستقبل میں
"پانی کے بغیر زندگی" صرف افسانوں میں نہیں بلکہ حقیقت میں دیکھی
جائے گی۔
خاکہ نمبر:35
ہمارے معاشرے میں دیانت داری کا معیار اتنا بلند ہو چکا ہے کہ
اگر کوئی دودھ خالص بیچنے لگے تو لوگ حیران ہو کر پوچھتے ہیں: "بھائی صاحب،
سب خیریت تو ہے؟ کہیں کاروبار ختم کرنے کا ارادہ تو نہیں؟" یعنی خالص چیز
دینا اب کاروباری خودکشی کے مترادف ہو چکا ہے۔ دیے گئے خاکے میں ایک صاحب نہایت
عقیدت سے دودھ میں پانی انڈیل رہے ہیں، اور دل ہی دل میں سوچ رہے ہیں کہ
"ناجا نہ کر بیٹا، حکمتوں سے ہماری جان کب چھوٹے گی!" گویا دودھ میں
پانی ملانا کوئی خاندانی ورثہ ہو جسے چھوڑنا غداری کے مترادف ہو۔
یہاں ہر چیز میں ملاوٹ ہو رہی ہے، بس نیکیوں میں نہیں ہو رہی!
دودھ میں پانی، مرچ میں اینٹوں کا برادہ، چائے میں کیمیکل، اور نیت میں چالاکی۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر دودھ میں صرف پانی ملایا جائے تو لوگ اسے غنیمت سمجھتے
ہیں، ورنہ آج کل یوریا، واشنگ پاؤڈر اور نہ جانے کون کون سی دیسی ایجادات دودھ کو
"طاقتور" بنانے کے لیے شامل کی جاتی ہیں۔ گویا دودھ نہ ہوا، سائنسدانوں
کی لیبارٹری کا کوئی خفیہ تجربہ ہو گیا!
ہم وہ قوم ہیں جو دودھ میں پانی ملانے کو معاشی ترقی، اور
مصالحوں میں مٹی ملانے کو بزنس کی چالاکی سمجھتے ہیں۔ ملاوٹ کے بھی کئی
"فائدے" ہیں، جیسے:
دودھ والے کو کم دودھ میں زیادہ منافع ملتا ہے، یعنی کاروبار
میں برکت!
عوام کی قوتِ برداشت میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر چیز میں سے
خالص پن ختم کر کے انہیں "آزمائشوں" کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
اگر دودھ میں خالص
پانی ہی مل جائے تو لوگ شکر ادا کرتے ہیں کہ کم از کم کیمیکل تو نہیں ڈالا گیا!
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ملاوٹ کا دھندا جو چمکا یہاں تو خالص رہا صرف پانی
یہاں!
حکومت ہر سال ملاوٹ کے خلاف کمر کس لیتی ہے، اور پھر وہ کمر
اتنی زیادہ کس جاتی ہے کہ خود ہی تکلیف میں آ جاتی ہے۔ کبھی کبھی چھاپے مار کر
"گندے انڈے" پکڑے بھی جاتے ہیں، مگر وہ جلدی ہی دوبارہ تازہ دودھ فروش
بن کر واپس آ جاتے ہیں۔ عوام بھی کبھی
قصہ مختصر، ہم ملاوٹ کے بغیر جی نہیں سکتے۔ اگر کسی دن کوئی
چیز خالص مل جائے تو دل میں وسوسہ اٹھتا ہے: "کہیں اس میں کوئی خرابی تو
نہیں؟" یہی ہماری سوچ کی معراج ہے۔ تو بس یوں سمجھ لیجیے کہ دودھ میں پانی
ملانا تو چھوٹی بات ہے، یہاں تو اخلاقیات میں بھی ملاوٹ ہو چکی ہے!
خاکہ نمبر:36
شہر کے ایک مصروف بازار میں ریڑھی والا رفیق روزانہ کی طرح
اپنی سبزیوں کی ریڑھی لگا کر بیٹھا تھا۔ پسینے میں شرابور، وہ گاہکوں کو آوازیں دے
رہا تھا،
"کیلےلے لو! بالکل تازہ! کیلا میٹھا ہے،
لے لو بھائی!"
رفیق اپنی محنت کی کمائی میں مگن تھا کہ اچانک بازار میں ایک
پولیس موبائل آ کر رکی۔ ایک تگڑے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے پولیس اہلکار، چودھری
بشیر، گاڑی سے اترے۔ ان کے ساتھ ان کا دستِ راست سپاہی اللہ دتہ بھی تھا، جو ہمیشہ
پس منظر میں رہ کر کام دکھانے کا ماہر تھا۔
چودھری بشیر نے رفیق کی ریڑھی کے پاس آ کر چشمہ درست کیا اور
رعب دار آواز میں بولا،
"اوئے! پرچی ہے تیرے پاس؟"
رفیق نے حیرانی سے سر اٹھایا،
"ک..کون سی پرچی صاحب؟"
چودھری بشیر نے کمال مہارت سے جیب سے ایک شکن آلود کاغذ نکالا
اور لہرا کر بولا،
"یہ پرچی! اجازت نامہ! بغیر اس کے یہاں
کاروبار کرنا جرم ہے۔ قانون پڑھا ہے کہ نہیں؟"
بیچارہ رفیق کانپ گیا۔
"صاحب، میں غریب آدمی ہوں، مجھے نہیں
پتا تھا۔"
چودھری بشیر نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کندھے پر رکھا ڈنڈا
ہلایا اور قریب آ کر سرگوشی میں بولا،
"دیکھو، قانون سخت ہے، مگر ہم دل کے نرم
ہیں۔ اگر تمہاری فیس بنتی ہے، تو بات بن سکتی ہے، کوئی ٹینشن نہ لو۔"
"ہاتھ اوپر کر دو سب!"
بازار میں کہرام مچ گیا۔ دکاندار ادھر ادھر بھاگنے لگے، لیکن
چودھری بشیر اور سپاہی اللہ دتہ کے چہرے پر کوئی گھبراہٹ نہ تھی۔ نقاب پوش نے اپنی
جیب سے ایک اور پرچی نکالی اور چودھری بشیر کے سامنے لہرائی،
"یہ دیکھو! یہ میری پرچی ہے، ریڑھی
والوں کی حفاظت کا لائسنس! تم رشوت نہیں لے سکتے!"
چودھری بشیر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"کون ہو تم؟"
نقاب پوش مسکرایا اور اپنی نقاب ہٹا دی۔ یہ منصور بھائی تھے،
جو علاقے کے ایماندار بزرگ تھے اور ریڑھی والوں کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔
رفیق نے حیران ہو کر پوچھا،
"مگر منصور بھائی، آپ یہ سب کیسے جانتے
تھے؟"
منصور بھائی نے سپاہی اللہ دتہ کی طرف اشارہ کیا،
"یہ چھوٹا رشوت خور کل میری چائے کی
دکان پر غلطی سے بول گیا تھا کہ آج بازار میں ریڑھی والوں کی پرچیاں چیک ہونی ہیں۔
میں سمجھ گیا کہ کوئی کھیل ہو رہا ہے۔"
چودھری بشیر نے دانت پیسے،
"تمہیں لگتا ہے میں تمہاری یہ ڈرامے بازی
نہیں سمجھتا؟"
سپاہی اللہ دتہ نے جلدی سے بشیر صاحب کو کندھے سے ہلایا،
"صاحب، نکلو یہاں سے، ورنہ ہڈی پسلی ایک
ہو جائے گی!"
چودھری بشیر نے منصور بھائی کی طرف انگلی اٹھا کر دھمکی دی،
"یہ بازی ابھی ختم نہیں ہوئی!"
یہ کہہ کر وہ اور سپاہی اللہ دتہ بھاگتے ہوئے پولیس موبائل میں
جا بیٹھے اور دھواں چھوڑتے نکل گئے۔
رفیق نے سکون کا سانس لیا اور بازار میں ایک نعرہ گونج اٹھا،
"رشوت خوروں کا بائیکاٹ! انصاف کا
ساتھ!"
منصور بھائی نے رفیق کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر
بولے،
"اب تمہیں کسی پرچی کی ضرورت نہیں، جب
تک ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ ہیں!"
بازار ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ لیکن سب جانتے تھے
کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ پرچی کا کھیل ہر روز ایک نئی چال کے ساتھ
آتا تھا۔
خاکہ نمبر:37
ہمارے ملک میں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ انتخابات کے
قریب آتے ہی سیاستدان عوام کی ہمدردی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ وہ
مہنگائی کم کرنے، روزگار دینے، اور عوامی فلاح کے منصوبے بنانے کے بلند و بانگ
دعوے کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی اقتدار ملتا ہے، تمام وعدے طاقِ نسیاں کی زینت بن
جاتے ہیں۔ دوسری طرف عوام روزمرہ کی ضروریات کے لیے ترستی رہتی ہے۔
یہ المیہ نیا نہیں بلکہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ اشرافیہ
اپنے مفادات کی خاطر عوام کو خواب دکھا کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ غریب دو
وقت کی روٹی کو ترستا ہے، لیکن حکمرانوں کی عیاشیاں کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔
یہ صورتِ حال ہمیں ایک تلخ حقیقت کی یاد دلاتی ہے:
"یہاں
پہ صرف امیروں کی داستاں لکھی ہے
غریب شہر کا کوئی بھی ذکر تک نہیں ہے"
عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
سیاستدان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کریں۔ اگر
ایسا نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب عوام بھی ان کے کھوکھلے وعدوں کے خلاف اٹھ کھڑی
ہوگی اور اپنے حقوق کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کرے گی۔
سلیم احمد ایک عام شہری تھا، جو دن رات محنت کرکے اپنے
بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ مگر جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی گئی، اس کی زندگی ایک
مسلسل جنگ بن گئی۔ روٹی کے نوالے چھوٹے اور مسائل کے پہاڑ بڑے ہوتے چلے گئے۔
ایک دن جب سلیم اپنے گھر میں بیٹھا حساب لگا رہا تھا کہ
تنخواہ کیسے پورے مہینے چلے گی، اچانک اس نے خود کو ایک خوفناک خواب میں پایا۔
چاروں طرف اندھیرا تھا، اور آسمان پر تین خطرناک میزائل اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان
پر بڑے الفاظ میں لکھا تھا: "مہنگائی"، "بیروزگاری"، اور
"غربت"۔
سلیم کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرا گئے۔ وہ چیخا:
ْ"خدا کے لیے! میں کہاں جاؤں؟
اسی لمحے، اس کے ہاتھ میں موجود اخبار زندہ ہو گیا اور
اس میں سے ایک پراسرار آواز ابھری:
"سلیم!
اگر تمہیں ان حملوں سے بچنا ہے تو ہمت اور عقل سے کام لینا ہوگا۔"
سلیم نے ہمت باندھی اور بھاگنا شروع کر دیا، مگر ہر جگہ
صرف بدحالی، کرپشن اور سیاستدانوں کے جھوٹے وعدے نظر آ رہے تھے۔ وہ ایک سنسان گلی
میں پہنچا، جہاں ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا۔
بوڑھے نے مسکرا کر کہا:
"اگر
تم ان میزائلوں کو روکنا چاہتے ہو، تو صرف ایک راستہ ہے: سچائی اور اتحاد۔ عوام جب
تک بکھرے ہوئے ہیں، ان کا استحصال جاری رہے گا۔ جب سب ایک ہو جائیں گے، تو کوئی
بھی ان پر ظلم نہیں کر سکے گا!"
یہ سنتے ہی سلیم کو ایک عجیب روشنی محسوس ہوئی۔ اس نے
اپنے اردگرد کے لوگوں کو جھنجھوڑا، انہیں حالات کے خلاف اٹھنے کا پیغام دیا، اور
یوں ایک زبردست تحریک کا آغاز ہوا۔ جیسے جیسے عوام متحد ہوتے گئے، مہنگائی،
بیروزگاری اور غربت کے میزائل ہوا میں تحلیل ہوتے چلے گئے۔
اچانک، سلیم کی آنکھ کھل گئی۔ وہ پسینے میں شرابور تھا،
مگر اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ حقیقت میں بھی، اگر عوام
شعور حاصل کر لیں اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو جائیں، تو کوئی طاقت انہیں نہیں
دبا سکتی۔
اگلی صبح، سلیم نے اپنے ساتھی مزدوروں، محلے کے لوگوں
اور نوجوانوں کو اکٹھا کیا۔ ان میں یوسف، جو ایک ہنر مند مگر بے روزگار نوجوان
تھا، خالد جو ایک چھوٹے کاروبار کا مالک تھا، اور فاطمہ جو ایک اسکول ٹیچر تھی،
شامل تھے۔ سب نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گے۔
ایک منظم تحریک شروع کی گئی، جہاں تعلیم، خود انحصاری
اور کرپشن کے خلاف بیداری پر زور دیا گیا۔ عوام نے مل کر ایک دوسرے کا سہارا بننا
شروع کیا، چھوٹے کاروبار کو فروغ دیا، اور سیاستدانوں کو ان کے وعدے یاد دلانے
لگے۔
کچھ ہی عرصے میں تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ حکومت کو
عوامی دباؤ کے تحت شفافیت اپنانا پڑی، ملازمتوں کے مواقع بڑھائے گئے، اور مہنگائی
کے خلاف اقدامات کیے گئے۔
سلیم، یوسف، خالد اور فاطمہ کے ساتھ ہزاروں لوگ اس
تحریک کا حصہ بن چکے تھے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اگر عوام متحد ہو جائیں، تو
غربت اور ناانصافی کا کوئی میزائل انہیں ختم نہیں کر سکتا۔
یہ کہانی صرف سلیم کی نہیں، بلکہ ہر اس انسان کی ہے جو
معاشی بدحالی سے نبردآزما ہے، مگر اگر وہ ہمت، حکمت اور اتحاد سے کام لے، تو ہر
بحران کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
خاکہ نمبر:39
.اپنے ملک پہ قربان جاؤں
یوں تو دنیا میں ہر قوم کے کچھ مخصوص افراد یا طبقات
ہوتے ہیں جو قربانی دینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، مگر ہمارے ہاں عوام کو یہ شرف
حاصل ہے کہ وہ بغیر کسی مزاحمت کے ہر سال، ہر مہینے، بلکہ ہر دن قربانی دینے کے
لیے تیار رہتے ہیں۔ عوام کی حیثیت کچھ ایسی ہو گئی ہے جیسے ایک پالتو بکرے کی، جو
ہر عید قربان سے پہلے اپنے مالک کی محبت میں اور موٹا تازہ ہونے کی خوشی میں خوشی
سے اچھلتا کودتا ہے، مگر جونہی چھری تیز ہونے لگتی ہے، تب جا کر حقیقت کا ادراک
ہوتا ہے۔
ہر انتخاب سے پہلے سیاست دان یہی نعرہ لگاتے ہیں،
" ہم یہ ملک بچانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں، "۔
یعنی وہی پرانی کہانی، جو ہر بجٹ، ہر بحران، اور ہر
سیاسی تقریر کے بعد عوام کو سننے کو ملتی ہے۔ہمارے ہاں عوام کو قربانی دینے کا
اتنا شوق ہے کہ وہ خود بخود مہنگائی، لوڈشیڈنگ، ٹیکسز، اور کرپشن کے بوجھ تلے دبتے
چلے جاتے ہیں۔ اگر کسی حکومت سے پوچھو کہ بجلی مہنگی کیوں کی؟ تو جواب ملے گا:
"ہم ملک بچانے کے لیے بڑی قربانی دے رہے
ہیں!"
اگر پٹرول کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگے، اور ایک
غریب موٹر سائیکل والے سے پوچھو کہ کیا حال ہے، تو وہ ٹھنڈی آہ بھر کر کہے گا:
"کیا کریں بھائی، ملک بچانے کے لیے قربانی دینا
پڑے گی!"
اور اگر کسی دوست سے مل بیٹھ کر چائے کی محفل میں ملکی
حالات پر بحث چھیڑ دو، تو وہ لمبی سانس لے کر کہے گا:
"ہماری قربانی سے ہی ملک بچے گا، مگر بچتا نظر تو
نہیں آ رہا!"
ہمارے سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں، تو وہ عوام کو
یہ یقین دلاتے ہیں کہ قربانی دینا ہی ان کی اصل پہچان ہے۔ کبھی کہتے ہیں: "دو
وقت کی روٹی کم کھاؤ، ملک بچاؤ!" کبھی فرماتے ہیں: "مہنگائی کو برداشت
کرو، ترقی کا سفر جاری ہے!" اور جب عوام واقعی کسی دن غصے میں آ جائیں تو
حکومتی نمائندے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر کہہ دیتے ہیں:
"بس چند دن کی بات ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا!"
مگر وہ "چند دن" پچھلے کئی عشروں سے آ ہی
نہیں رہے۔ عوام ہر نئے الیکشن میں سوچتے ہیں کہ اب شاید قربانی کا بکراکوئی اور
بنے گا، لیکن نتیجہ وہی نکلتا ہے: "بکرا وہی، چھری نئی!"
اگر اس خاکے میں بنی بکرا واقعی بول سکتا، تو شاید یوں
کہتا:
"بھائیو! میں بھی کبھی تمہاری طرح خوش باش تھا۔
سوچتا تھا کہ سبزی کھاؤں گا، صاف ستھری ہوا میں چہل قدمی کروں گا، اور لمبی عمر
پاؤں گا۔ مگر جب حکومت نے کہا کہ ‘بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں’، تو میرا دل دہل
گیا۔ پہلے مہنگی خوراک کھلا کر مجھے تیار کیا گیا، پھر جب میں جوان ہوا، تو پتا
چلا کہ میری قسمت میں چھری ہے!"
اور عوام کے لیے بھی یہ کہانی مختلف نہیں۔ سالہا سال
ٹیکس دیتے رہو، پھر بھی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، اسپتالوں میں دوائیاں نایاب، اور
نوکریاں ایک خواب۔ جب عوام سوال کرتے ہیں کہ ہم نے اتنی قربانیاں دیں، بدلے میں
کیا ملا؟ تو جواب آتا ہے: "آپ نے ملک بچا لیا!"
یہ خاکہ محض ایک طنزیہ تصویر نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی
رویوں اور حکومتی بیانات کا حقیقی عکس ہے۔ عوام کو ہر بار قربانی کے نام پر خاموش
کرا دیا جاتا ہے، اور چھری چلانے والے کبھی نہیں بدلتے۔ بس فرق اتنا ہے کہ
بکرے کی قربانی صرف ایک بار ہوتی ہے، جبکہ عوام کو ہر روز "ملک بچانے"
کے نام پر ذبح کیا جاتا ہے
خاکہ نمبر:40
عنوان:
"سو روپے کا نوحہ"
میں
ایک سو روپے کا نوٹ ہوں۔ میری قسمت میں عزت کم، رسوائی زیادہ لکھی ہے۔ آج میری
زندگی کا ایک اور دن شروع ہوا، مگر یہ دن بھی میرے لیے کسی المیے سے کم نہ تھا۔
سورج
نکلا تو میں ایک دکاندار کی دراز میں پڑا سستا رہا تھا کہ اچانک ایک جھگڑا شروع ہو
گیا۔ ایک شخص دکاندار سے بحث کر رہا تھا کہ باقی کے پیسے پورے دو۔ دکاندار نے غصے
میں آ کر مجھے جھٹ سے نکالا اور گلی میں بیٹھے فقیر کے پیالے میں پھینک دیا۔
فقیر
نے حیرت سے مجھے دیکھا، جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ آج قسمت نے مہربانی کر دی ہے۔
مگر خوشی دیرپا نہ تھی، کیونکہ چند لمحے بعد ہی ایک نوجوان آیا، فقیر کے سامنے دو
روٹیاں رکھیں اور مجھے اٹھا کر چلتا بنا۔
وہ
نوجوان سیدھا ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ پر پہنچا، اور مجھے کیشیئر کے حوالے کر دیا۔
کیشیئر
نے مجھے الٹ پلٹ کر دیکھا، منہ بنایا اور کہا: "یہ بہت بوسیدہ ہے، اسے
بدلو!"
نوجوان
نے مجھے لے کر کچھ دیر سوچا، پھر چلتے ہوئے اچانک مجھے سڑک کے کنارے پھینک دیا۔
میں
دھول میں گرتے ہی بے یار و مددگار پڑا رہا۔ میرے اوپر گاڑیاں گزریں، لوگوں کے جوتے
لگے، اور کچھ آوارہ کتوں نے مجھ پر چکر لگائے۔ ایک لمحے کو لگا، اب شاید میرا وقت
پورا ہو چکا ہے۔
اچانک
ایک شخص کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ مجھے اٹھا کر سیدھا ایک پنساری کی دکان پر لے گیا
اور مجھے سودا لینے کے لیے دے دیا۔ دکاندار نے بددلی سے مجھے لیا اور پھر اچانک
مسکرایا۔
"ارے،
یہ تو ٹھیک کام آ سکتا ہے!" اس نے مجھے میز کے نیچے رکھا اور ایک گندی، پرانی
جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا، پھر کسی کو فون ملایا۔
"ہاں
صاحب، کام ہو گیا، پانچ ہزار تیار ہیں!"
میرے
دل کو ایک دھچکا لگا۔ میں جو خود دربدر پھر رہا تھا، اب کسی بڑی کرپشن کا حصہ بننے
والا تھا۔
کچھ
دیر بعد، ایک موٹر سائیکل پر بیٹھا آدمی آیا، جس کی آنکھوں میں چالاکی جھلک رہی تھی۔
اس نے دکاندار سے پانچ ہزار کا نوٹ لیا، اور بدلے میں کچھ جعلی نوٹ اس کے ہاتھ
تھما دیے۔ میں بھی ان جعلی نوٹوں کے ساتھ کسی نئے سفر پر نکلنے والا تھا۔
کچھ
ہی دیر بعد پولیس کی گاڑی آئی، اور وہ آدمی جلدی میں کچھ نوٹ پھینک کر بھاگ گیا۔ میں
بھی ان میں شامل تھا۔
اب
میں کچرے کے ڈھیر میں پڑا تھا، وہیں جہاں گلی کے کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ ان میں سے
ایک بچہ مجھے اٹھا کر خوشی سے بولا:
"دیکھو!
مجھے سو روپے ملے!"
دوسرا
بچہ بولا: "یہ تو بہت گندا ہے، کسی کام کا نہیں!" اور اس نے مجھے ہوا میں
اچھال کر دوبارہ کچرے میں پھینک دیا۔
میں
وہی پڑا ہوں، سوچ رہا ہوں کہ ایک وقت تھا جب میں کسی کی ضرورت پوری کرتا تھا، اور
آج مجھے کچرے میں بھی کوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔ شاید میرا نصیب بھی عام آدمی جیسا
ہے، جو ہر روز استعمال ہوتا ہے، مگر آخر میں بے وقعت ہو کر کہیں پھینک دیا جاتا
ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔