اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

مجموعہ نظم و نثر ، آغا خان ایگزامینیشن بورڈ کے مطابق ، حصہ نثر، اسباق، تفہیمی سوالات، اُمید کی خوشی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مجموعہ نظم و نثر ، آغا خان ایگزامینیشن بورڈ کے مطابق ، حصہ نثر، اسباق، تفہیمی سوالات، اُمید کی خوشی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

اردو نوٹس برائے جماعت دہم اردو حصہ نثر URDU HISSA NASAR CLASS 10TH

 حصہ نثر      اردو جماعت دہم

سبق نمبر 1: اُمید کی خوشی

  (سر سید احمد خان)         

    صنفِ نثر : مضمون                                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماخذ: "سر سید کے اخلاقی مضامین"

سوال نمبر 1:مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات بیان کریں۔

جواب:                        

شگفتگی اور بے ساختگی: سر سید احمد خان کی تحریرات میں  شگفتگی اور مزاح کی خوبصورتی تاثیر پیدا کرتی ہے۔ قارئین ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے مضامین پڑھ کر مایوسی اور پریشانی سے نکل آتے ہیں۔

 تنوّع اور جدت: ان کی تحریرات میں تنوع اور جدت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے مذہب سے لے کر سیاست اور فلسفہ  سے لے کر قانون تک  ہر موضوع پر لکھا ہے۔

ملی جذبات اورمقصدیت: سر سید کے  دل میں اپنی   قوم کا درد موجود تھا۔ ان کی تحریرات میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔  انکا اولین مقصد مسلمان قوم کی اصلاح  کرنا ہے۔ چنانچہ اپنی  تحریرات  کے ذریعے  وہ اپنی قوم میں اتحاد و یکجہتی کے جذبات ابھارتے ہیں۔

سوال نمبر 2:سبق کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

سر سید احمد خاں کے مضمون  "امید کی خوشی" کا مرکزی  خیال یہ ہے کہ مصنف ہمیں  سمجھانا چاہتا ہے کہ  جو چیزیں  انسان سے دور ہوتی ہیں  وہ ہمیں  بہت اچھی لگتی ہیں.   نیز یہ کہ اُمید انسان کو بہت حوصلہ دیتی ہے اور دور کے وقت کو انسان اپنے قریب پاتا ہے۔ اسی  حوصلے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ سر سید احمد خان نےآخرت یعنی  مرنے کے  بعد کی زندگی کو  "چھپی ہوئی دنیا " قرار دیا ہے۔

------------------

------------------

سبق امید کی خوشی کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

سبق " امید کی خوشی کا خلاصہ یہ ہے کہ سر سید احمد خان نے اس سبق میں  امید کی اہمیت بیان کی ہے اور اس بات کا ثبوت دو واقعات کی صورت میں دیا ہے۔ 

مصنف کہتے ہیں امید ایک ایسی شے ہے جس پر دنیا قائم ہے۔ ہر انسان امید کے سہارے زندہ ہے۔ مصنف نے اس سبق میں امید کو خوشی قرار دیا ہے کیونکہ جب انسان ناامید ہو جاتا ہے اور جینے کا کوئی سہارا نہیں بچتا تو یہ امید ہی ہوتی ہے جو انسان کو خوشی اور سکون مہیا کرتی ہے۔ جب ہر طرف نا امیدی ہوتی ہے، تب امید انسان کے لیے خوشی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ انسان بہتر مستقبل کی امید سے پریشان کن حال کو بھی گزار دیتا ہے۔


 مصنف ایک پر امید ماں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ماں بچے کو لوری دیتے ہوئے کہتی ہے : ” سورہ میرے بچے سورہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سورہ۔ اے میرے دل کی کونپل سورہ، بڑھ اور پھل پھول ، تجھ کو نہ آوے کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی، تو نہ دیکھے۔ تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گا۔


 یہاں مصنف کا اشارہ ایک نو مولود بچے کی جانب ہے جو ہر چیز سے بے خبر اپنے گہوارے میں پر سکون نیند سو رہا ہے۔ جس کی ماں اپنا کام بھی کر رہی ہے اور بچے کو جھولا بھی جھولا رہی ہے۔ دراصل یہاں مصنف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس بچے کی ماں اس قدر تکالیف اس لیے جھیل رہی ہے کہ اسے امید ہے کہ جب اس کا بچہ بڑا ہو جائے گا تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اس عورت کو سکون پہنچائے گا۔ 


 پھر مصنف ایک بے گناہ قیدی کا ذکر کرتے ہیں جن سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جن کو ان کے بھائیوں نے کنوئیں میں دھکیل دیا تھا۔ وہ اپنے والد سے دور ، دوسرے ملک میں غلام اور قیدی بن کر رنجیدہ تھے لیکن وہاں بھی وہ ایک امید کے سہارے موجود تھے کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا اور اس قید سے باعزت رہا ہوں گے۔ 


مصنف سبق کے آخر میں ایک مرنے والے شخص کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امید کی وجہ سے وہ ہنسی خوشی موت کو گلے لگاتا ہے کہ اس کے غم ختم ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ قائم رہنے والی دنیا میں چلا جائے گا۔ اس سب سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ امید ہماری زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ امید کی وجہ سے ہم اپنے حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔




سوال نمبر 3:      انسان کو اپنے سے دور کی وہ چیزیں جن تک اس کی رسائی نہیں ہوتی کیوں زیادہ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں؟

جواب :     جو چیزیں  انسان سے دور ہوتی ہیں  اور ہم ان تک نہیں پہنچ سکتے جیسا کہ آسمان ، اونچے  پہاڑ اور وہ چیزیں جن کو ہم چھو  نہیں سکتے وہ ہمیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب ہم ان  کو پا لیتے ہیں یا ان کے قریب چلے جاتے ہیں تو یہ اپنی  کشش کھو دیتی ہیں۔  کیونکہ انسان ان چیزوں کی خوبیوں خامیوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہی لگتے ہیں۔

سوال نمبر 4:      عقل اور اُمید میں فرق کی وضاحت کریں۔

جواب :   عقل کا دائرہ بہت ہی تنگ ہے۔ یہ ہمیں صرف قانون قدرت تک لے کر جاتی ہے۔ جبکہ  امید سے وہ خوشیاں حاصل  ہوتی ہیں جو بہت دور ہونے کے باوجود قریب دکھائی دیتی ہیں۔

سوال نمبر 5:      آپ کے خیال میں یقینی اور بے یقینی کی موت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ یقین اور بے یقین کی موت میں فرق  بتاتے ہوئے تین نکات تحریر کریں۔

جواب :   میرے خیال میں یقینی اور بے یقینی کی موت میں کوئی فرق نہیں ہوتا ، دونو ں صورتوں میں مرنے والے کو موت کے بعد  سکون ملنے کی امیدہوتی ہے۔    جب انسان یقین کی موت مرتا ہے  تو اسے اُمید ہوتی ہے کہ :

   مرنے کے بعد اسے ہمیشہ کی زندگی ملنے والی ہے۔

   اس کو اسکے نیک کاموں کا صلہ ملنے والا ہے۔

 اس کو امید ہوتی ہے  کہ اس کا حساب کتاب ہوگا اور وہ اس میں کامیاب ہوگا۔

جب انسان بے یقین کی موت مرتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ:

 دنیا کی تکالیف ختم ہو جائیں گی۔

اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔

وہ قبر میں آرام  سے سویا رہے گا۔

سوال نمبر6:    اُمید انسان کو حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے، مثال سے واضح کریں۔

جواب :   اُمید انسان کو بہت حوصلہ دیتی ہے اور دور کے وقت کو انسان اپنے قریب پاتا ہے۔ اسی  حوصلے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں جدوجہد کرتا رہتا ہے مثلاً ایک چھوٹا سا بچہ جو جھولے میں سویا ہوا ہوتا  ہے۔  وہ ابھی بول بھی نہیں سکتا لیکن اس کی ماں اس سے اُمید لگاتی ہے کہ یہ بڑا ہو کر ہمارا سہارا بنے گا۔ یہ اچھے اسکول میں پڑھے گا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے  اسے اچھی نوکری ملے گی۔اپنے والدین کا نام روشن کرے گا۔  حتیٰ کہ ماں کی امید یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ  مرنے کے بعد اسکی قبر پر اسکی یہ اولاد آکر روئے گی اور اسکی مغفرت کیلیے دعاگو ہوگی۔

سوال نمبر7:      سر سید احمد خان کی "چھپی ہوئی دنیا " سے کیا مراد ہے؟

جواب :           سر سید احمد خان نےآخرت یعنی  مرنے کے  بعد کی زندگی کو  "چھپی ہوئی دنیا " قرار دیا ہے۔ کیونکہ جو بھی ایک دفعہ موت کی وادی میں گیا لوٹ کر واپس نہیں آیا کہ آکر ہمیں وہاں کے حالات بتائے۔ البتہ اسلام میں  روزِ آخرت یا یومِ حساب اور مرنے کے  بعد  نیک  لوگوں کے لیے جنت کی خوشخبری  اور  گناہگاروں کےلیے دوزخ کی آگ میں جلنے  کی خبریں  دی گئی ہیں لیکن  وہاں کا آنکھوں دیکھا حال  ابھی تک کسی نے نہیں آکر بتایا ۔

 

سبق نمبر: 2               شیخ سعدی               مصنف :مولانا الطاف حسین حالؔی

صنفِ نثر: سوانح۔۔۔۔۔۔۔ ماخذ: حیاتِ سعدی

 

مصنف کے انداز بیان کی چند خصوصیات:


 سادہ زبان کا استعمال: حاؔلی کے طرزتحریر کی نمایاں خوبی انکی سادگی ہے. انھوں نے اپنی تحریر ات میں تشبیہات اور استعارات سے پاک سادہ زبان کا استعمال کیا ہے. جس کی وجہ سے عام پڑھنے والا بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے.

  مقصدیت : انکی تحریر ات میں مقصدیت پائی جاتی ہے. ان کا اولین مقصد مسلمانوں کو اپنے آباواجداد کی طرح بامقصد زندگی گزارنے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہے.

  سوانح نگاری: حالی کو سوانح نگاری میں خاص مقام حاصل ہے. انھوں نے عظیم شخصیات کے حالات زندگی  پیش کر کے عام لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے.    


 سبق شیخ سعدی کا مرکزی خیال:

اس سبق میں مصنف مولانا الطاف حسین حالی شیخ سعدی کی سوانح بیان کرتے ہوئے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اولاد کی بہترین تربیت میں  والدین کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔  نیز  ایک عالم کا مقام درویش  اور فقیر سے بلند ہوتا ہے. کیونکہ عالم عوام کو علم کی روشنی سے منور کرتا ہے اور کئی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے. جبکہ درویش  تنہائی میں عبادت کرتا ہے اور صرف اپنی عاقبت سنوارتا ہے.

 

تفہیمی سوالات:

  سوال نمبر:1 ایک عالم اور درویش میں کیا فرق ہوتا ہے؟

جواب :  درویش صرف اپنی اصلاح کرتا ہے اور اپنی عاقبت سنوارنے کی جدو جہد میں تارک الدنیا ہو جاتا ہے اور عبادت میں مصروف رہتا ہے. جبکہ عالم اپنی اصلاح بھی کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سیدھی راہ دکھاتا ہے.

درویش خود برائی سے دور رہ کر اپنے رب کو راضی کرتا ہے جبکہ عالم خود بھی برائی سے دور رہتا ہے اور دوسروں کو بھی گناہ کرنے سے بچاتا ہے. درویش صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ علما چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی ڈوبنے سے بچائیں.

 

 سوال نمبر2 : شیخ سعدی اپنی تربیت کا سبب اپنے والد صاحب کو کیوں قرار دیتے ہیں؟

جواب :   شیخ سعدی کے والد ان کے افعال و اقوال کی کڑی نگرانی  عام والدین کی نسبت زیادہ کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے اور کہیں آوارہ نہ پھرنے دیتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی تربیت کا بہت بڑا سبب اپنے والد کی بہترین تربیت اور ڈانٹ ڈپٹ کو قرار دیا ہے۔

 

 سوال نمبر3: شیخ سعدی کا میلان سماع کی محافل  سے کیسے ختم ہوا؟

جواب :    شیخ سعدی کا بچپن سے ہی  درویشی اور فقیری کی طرف زیادہ جھکاو  تھا۔ زمانہ طالبعلمی میں وہ برابر سماع کی محافل میں شرکت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مجلس میں  بدآواز قوال سے واسطہ پڑا اس  روز سے انھوں نے  سماع سے ہمیشہ کیلیے توبہ کر لی۔

 

 سوال نمبر4 : ایک مرتبہ جب قاضی نے مسند چھوڑ کر عمامہ سر سے اتار کر شیخ سعدی کے سامنے رکھ دیا تو انھوں نے یہ کیوں کہا کہ یہ غرور کا اوزار مجھے نہیں چاہیے؟

جواب :    ایک بار  شیخ سعدی  کسی مجلس میں میلے اور پھٹے ہوئے کپڑے پہنے  ایک مجلس میں گئے تو خدام نے انھیں  اٹھا کر جوتیوں والی جگہ پر بٹھا دیا ۔ جب  انھوں نےاسی مجلس میں ایک  ایسے مسئلے کا حل بتایا جو کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا  تو صدرِ مجلس قاضی نے مسند چھوڑ کر اپنی پگڑی اتار کر انکے سامنے رکھ دی  تو  اس پر شیخ سعدی نے  کہا کہ یہ پگڑی  اور صاف لباس تکبر اور غرور کی علامت ہے۔ جبکہ اصل قدر  اور فضیلت علم  کی ہے۔کہیں  یہ غرور کا اوزار یعنی پگڑی  پہن کر میں بھی نہ مغرور  ہو جاوں اور پھٹے پرانے لباس والوں سے نفرت کرنے لگوں۔

 

 سوال نمبر5: اتابک ابوبکر کے وزیر نے علما کو روپیہ دینے اور زاہدون /درویشوں کو کچھ نہ دینے کا مشورہ کیوں دیا؟

جواب :    وزیر نے مشورہ دیا کہ  علما ء اور درویشوں دونوں  سے برابر کا سلوک کرنا چاہیے۔ علما ء کو روپیہ دینا چاہیے تاکہ اطمینان سے درس اور تصنیف میں مصروف رہیں اور درویشوں کو کچھ نہیں دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے زُہد پر قائم رہیں۔

 

سبق نمبر:3  نماز                    مصنف : شبلی نعمانی  صنف نثر: سوانح 

ماخذ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:

     جوش بیانی: شبلی  نے  بڑی  پُر جوش طبیعت پائی  ہے۔وہ اپنے مضامین میں مسلمانوں کو گزشتہ عظمت ، آباؤ اجداد کے کارناموں اور قومی ترقی  کا تذکرہ کر کے  ان  کے جوش میں اضافہ کردیتے ہیں۔

   شعریت:   ان کی تحریرات میں شعریت پائی جاتی ہے۔ شبلی کی شعریت محض لفاظی کا نام  نہیں بلکہ وہ لطیف ، شیریں اور نرم الفاظ کو سلیقے سے استعمال  کرکے نثر میں شامل  کرتے ہیں۔

   ایجاز و اختصار:  شبلی کا انتخابِ الفاظ  قابلِ داد ہے۔ وہ تفصیل اور پھیلاؤ سے بچتے اور  مقصد و مفہوم کو  مختصر اً بیان کرنے کیلیے اشارہ و کنایہ سے کام لیتے تھے۔

     طنزیہ انداز: شبلی کی تحریرات میں طنزیہ انداز  پایا جاتا ہے۔ انھوں نے جمود کا شکار علماء اور متعصب مستشرقین1 پر بھر پور طنز کیا ہے۔

     بے ساختگی:  ان کی تحریرات تصنع اور تکلف سے پاک ہیں ۔ ان کا اسلوب قدرتی اور بے ساختہ ہے۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔

 (استشراق کا مطلب: غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔۔۔۔۔۔ اس طبقے میں ان مستشرقین کو رکھا جاتا ہے جن کا مقصد بے لاگ اور غیر جانبدارنہ علمی تحقیق کے لبادے میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں۔ اس طبقے میں مزید تقسیم کی جا سکتی ہے کیونکہ کے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے انداز مین تبدیلی آتی رہی ہے۔ ان میں چند مشہور افراد یہ ہیں۔ کیمون ۔جین برڈ ۔ہمفرس پرائی ڈیکس ۔سر ویلم میور)

 

سبق" نماز"  کا  مرکزی خیال:

سبق "نماز " کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف ہمیں نماز کی اہمیت  و فضیلت اور روحانی غرض وغایت سمجھانا چاہتا ہے۔ عبادت کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے۔ نماز اسلام کا ایسا رکن ہے جو امیر غریب ،بوڑھے جوان،عورت مرد ، بیمار  و تندرست سب پر یکساں فرض ہے۔  نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ قیامت کے روز سب سے پہلے  قیامِ نماز سے متعلق سوال کیا جائے گا۔ 

  

سبق نماز کےتفہیمی سوالات:  

سوال نمبر 1: نماز کی تین حکمتیں بیان کریں۔

جواب:

    نماز کی ایک حکمت یہ ہے کہ "نماز برائیوں سے روکتی ہے۔"

      نماز سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔

     نماز خدا کی یاد ہے اور خدا کی یاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔

سوال نمبر 2: نماز کی  لفظی اور معنوی حقیقت بیان کریں۔

جواب: نماز کیلیے اصل عربی لفظ "صلوٰۃ" ہے جس   کے معنی عربی  اور عبرانی  زبانوں میں  دعا کے ہیں۔ اس لیے نماز کی لفظی حقیقت  خدا سے درخواست اور التجا ہے اور اس کی معنوی حقیقت بھی یہی ہے۔ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: " دعا ہی عبادت کا مغز ہے۔"

سوال نمبر 3: نماز کی روحانی غرض و غایت بیان کریں۔

جواب: نماز کی روحانی غرض و غایت یہ ہے کہ خالقِ کل ، رازق عالم اور مالک الملک کے احسانات اور بخششوں کا   شکر ہم دل اور زبان سے کریں۔ تاکہ ہمارےنفس و روح اور دل و دماغ پر  اللہ کی کبریائی  اور اپنی عاجزی کا نقش بیٹھ جائے۔ اس کی محبت کا نشہ ہماری رگ رگ  میں سما جائے۔  ہر وقت ہم یہ محسوس کرنے والے بن جائیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔

سوال4: " نماز کی اہمیت و فضیلت"  کے عنوان پر ایک مضمون تحریر کریں۔

جواب:  ( سبق کا مطالعہ کر کے طلبہ خود جواب تحریر کریں۔)

سبق نمبر 4:     انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔          مصنف کا نام:مولانا محمد حسین آزاد

صنف ادب : تمثیل نگاری

ماخذ: نیرنگ خیال 


سوال 1: انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا کا خلاصہ تحریر کیجیے۔

انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا "محمد حسین آزاد” کا انشائیہ ہے۔اس کی کہانی کو مصنف نے تمثیلی انداز میں پیش کیا ہے۔مصنف نے لکھا ہے کہ بڑے بڑے داناؤں کے مطابق بھی انسان کسی حال خوش نہیں کہ اگر اس پر کوئی پریشانی آ جاتی ہے تو اسے وہ اپنی وہ مصیبت بہت بھاری اور زیادہ جبکہ دوسرے کی مصیبت کم معلوم ہوتی ہے۔ 

اسی طرح ایک مرتبہ مصنف کی آنکھ لگی اور خواب دیکھا کہ سلطان افلاک کے دربار سے اشتہار جاری ہوا ہے کہ تمام دنیا کے لوگ اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف لائیں اور جگہ پر ڈھیر کر دیں۔ یہ سننا تھا کہ کئی طرح کے لوگ آ کر وہاں اپنی پریشانیاں ڈھیر کرنے لگے اور دیکھتے دیکھتے یہ ڈھیر آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ یہاں اس ڈھیر کے پاس ایک سوکھا،سہما اور دبلاپے کا شکار شخص تھا۔ جو انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے پر شکل بہت بڑی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ جس کا دامن دامنِ قیامت سے بندھا تھا۔اس کی آنکھیں وحشیانہ مگر نگاہ میں افسردگی تھی۔دراصل یہ وہم تھا جو لوگوں کو بہکانے کے لیے اس ڈھیر کے پاس موجود تھا۔  اس نے مصنف کو ایک آئینہ دکھایا جس نے اس کی صورت بہت بھدی دکھائی تو اس نے اپنے چہرے کو اس ڈھیر پر اتار پھینکا۔

یہاں پر لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ آئی تھی جس کا شما ر بھی ممکن نہیں لوگ گھٹریاں باندھ یہاں اپنے غم پھینک رہے تھے۔اس انبار میں انواع و اقسام کے سقم اور امراض موجود تھے۔جن میں بعض اصلی جبکہ بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے تھے۔  سب سے زیادہ جسمانی عیب دیکھنے کو ملے۔لیکن اس ڈھیر پر کوئی بے وقوفی یا بد اطواری نہ پائی گئی۔ عورتیں بھی یہاں اپنی خامیوں کو چھوڑ کر نیا طور اپنا رہی تھیں۔

غرض جب سب لوگوں نے اپنی تکالیف سے چھٹکارا پا کر اس کا بدل حاصل کرلیا تو رفتہ رفتہ یہ نئی مصیبتیں ان کو بوجھ معلوم ہونے لگیں۔دراصل پہلی مصیبتوں کو چونکہ وہ سہہ چکے تھے اور ان کو سہنے کے عادی ہوچکے تھے اس لیے نئی پڑنے والی مصیبت سے ہر شخص ہی نا خوش تھا۔

آخر سلطان افلاک کو لوگوں کی اس حالت زار پر رحم آیا۔اس نے حکم جاری کیا کہ اپنے نئے بوجھ اتار پھینک کر پرانے حاصل کر لو۔

یوں دھوکے میں رکھنے والے شیطان کی جگہ ایک فرشتہ رحمت انسان آسمان سے نازل ہوا۔جس کی حرکات وسکنات نہایت معقول اور باوقار تھیں۔چہرہ بھی سنجیدہ اور خوشنما تھا۔وہ بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا تھا اور رحمت الہی پر توکل کرکے نگاہ کو اسی کی آس پر لگا دیا کرتا تھا۔ اسی کا نام صبر و تحمل تھا۔اس نے ہر شخص کو اس کا واجبی بوجھ اور ساتھ میں بردباری کی تلقین کی۔سب نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ یوں مصنف نے تمثیلی انداز میں  بہت بڑی  نصیحت کی ہے کہ انسان اگر صبر و برداشت سے کام لے اور خدا پر بھروسہ رکھے تو ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے ۔

سوال نمبر2: سبق انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ سلطان افلاک کے دربار سے کیسا اشتہار جاری ہوا تھا؟

سلطان افلاک کے دربار سے اشتہار جاری ہوا کہ تمام دنیا کے لوگ اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف لائیں اور ایک جگہ پر ڈھیر کر دیں۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ اپنی پہلی مصیبت کے بدلےاس انبارِ رنج و الم سے کسی دوسری پسندیدہ مصیبت کو اٹھا لیں۔

سوال نمبر 3: آپ کے خیال میں انسان کو اس کی اپنی تکالیف زیادہ اور دوسروں کی بڑی مصیبتیں کیوں کم معلوم ہوتی ہیں؟

شیطان انسان کے دل میں ایسے وہم اور وسوسے ڈالتا ہے کہ اسے اپنی معمولی تکالیف بھی بڑی معلوم ہوتی ہے۔

سوال نمبر4: مصنف نے وہم کا کیا حلیہ بیان کیا ہے؟ نیز آپ کے خیال میں ایسی مثال بیان کر کے مصنف نے ہمیں کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے؟

 وہم ایک سوکھا،سہما اور دبلاپے کا شکار شخص تھا۔ جو انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے پر شکل بہت بڑی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ جس کا دامن دامنِ قیامت سے بندھا تھا۔اس پر دیو زادوں، جناتوں کی تصویریں کڑھی ہوئی تھیں۔اس کی آنکھیں وحشیانہ مگر نگاہ میں افسردگی تھی۔

میرے خیال میں مصنف نے اس تمثیل کے ذریعے ہمیں یہ نصیحت کی ہے کہ وہم ایک شیطانی چال ہے اور بہت کمزور ہے۔ ہم اپنی مضبوط قوّت ارادی سے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر 5: لوگ اپنی پہلی مصیبت سے چھٹکارا کیوں پانا چاہتے تھے؟

لوگ اپنی پہلی مصیبت سے اس لیے چھٹکارا پانا چاہتے تھے کہ ان کو اپنی وہ مصیبت بہت بڑی اور بھاری معلوم ہوتی تھی۔

سوال نمبر 6:مصیبتوں کو بدلنے کے بعد لوگوں نے خود کو کیسا محسوس کیا؟

مصیبتوں کو بدلنے کے بعد لوگ خود میں واضح تبدیلی محسوس کرنے لگے۔ مگر رفتہ رفتہ یہ نئی مصیبت ان کے لیے بوجھ بننے لگی اور وہ اس سے تنگ آنے لگے۔

سوال نمبر7:اپنی اپنی مصیبتوں کو بدلنے کے بعد بھی لوگوں کی پریشانیاں کیوں کم  نہیں ہوئیں؟

اپنی مصیبتوں کو بدلنے کے بعد لوگوں پر جو نئی مصیبتیں یا بوجھ لادے گئے وہ انھیں پہلے سے بھی زیادہ بھاری معلوم ہونے لگے۔ پہلی مصیبتوں کاچونکہ وہ سامنا کر چکے تھے اور ان کو سہنے کے عادی ہوچکے تھے اس لیے نئی پڑنے والی مصیبت سے ہر شخص ہی نا خوش تھا۔

سوال نمبر8: مصنف نے اس سبق میں صبر و تحمل کا حلیہ کس طرح کا بیان کیا ہے؟

ایک فرشتہ رحمت انسان آسمان سے نازل ہوا۔جس کی حرکات وسکنات نہایت معقول اور باوقار تھیں۔چہرہ بھی سنجیدہ اور خوشنما تھا۔وہ بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا تھا اور رحمت الہی پر توکل کرکے نگاہ کو اسی کی آس پر لگا دیا کرتا تھا۔ اسی کا نام صبر و تحمل تھا۔

 سوال نمبر 9: مصنف نے اس سبق کے ذریعے ہمیں کیا نصیحت کرنے کی کوشش کی ہے؟

  اس سبق کے ذریعے مصنف نے یہ نصیحت کی ہے کہ اگر انسان صبرو تحمل سے کام لے اور اپنی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے صرف خدا پر توکل و بھروسہ کرے اور اسی سے مدد مانگے تو وہ ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے۔

سوال نمبر 10: مشہور کہاوت ہے کہ " انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا"  اسی بات کو محمد حسین آزاد نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے۔ آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟ اپنے جواب کی وضاحت چار نکات سے کیجیے۔

جواب:  جی ہاں میں مصنف کی بات سے متفق ہوں انسان میں فطری طور پر لالچ پایا جاتا ہے، اس لیے دنیا میں اس کو چاہے جو مرضی دے دیا جائے وہ اس پر خوش نہیں ہوتا اور مزید کی تمنا کرتا ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ اسے دوسروں کی چیزیں ہمیشہ زیادہ پسند آتی ہیں۔  اس لیے وہ اپنی چیز یا نعمت پر ناشکری کرتا ہے۔

انسان ہمیشہ اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں اور خوشیاں صرف اسے ہی مل جائیں۔

 انسان ترقی پسند ہے اس کے مقام  کی کوئی حد نہیں۔  اس لیے وہ ہمیشہ آگے سے آگے بڑھنے کی جدو جہد میں لگا رہتا ہے اور اپنی پہلی حالت پر مطمئن نہیں ہوتا۔

 سوال نمبر 11: وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی  نہ تھا۔ اس  بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ وہم  جیسا مرض ہم  میں کونسی خرابیاں پیدا کرتا ہے؟

جواب: وہم کی وجہ سے  انسان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ۔ وہم ہماری خرابیوں ، بیماریوں اور تکالیف کو بڑھا بڑھا کر دکھاتا ہے۔

وہم کی وجہ سے انسان میں صبر و تحمل کی  صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہم کی وجہ سے انسان کا سکون جاتا رہتا ہے۔ زندگی میں بے سکونی سے معاشرے کا امن  بھی خراب ہو جاتا ہے۔

 سوال نمبر 12:    سبق " انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مشورہ دیجیے کہ انسان کس طرح ہر حال میں خوش رہ سکتا ہے؟

جواب:       میرے خیال میں انسان اگر سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو اسے وہم جیسی بلا سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔ کیونکہ وہم ہمارے دل و دماغ میں منفی خیالات پیدا کر کےہماری تکالیف کو بڑھا کر دکھاتا ہے۔

 انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے کیونکہ صبر اور برداشت  کی بدولت انسان مصائب  کا مقابلہ بآسانی کر سکتا ہے۔

 انسان اگر خدا سے پختہ تعلق قائم رکھے تو اس کی زندگی میں سکون پیدا ہوگا۔  اسی لیے فرمانِ الٰہی ہے ترجمہ:"  ہاں! خدا  ہی کی یاد سے دل تسکین پاتے ہیں۔" (سورۃ رعد)

سوال نمبر 13: سبق “انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا” میں مصنف نے عاشقوں کو گروہ کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی دکھوں کی گٹھڑیاں مصائب کے ڈھیر میں نہیں پھینکیں ۔ جس طرح تکالیف کے بوجھ سے لدے آئے تھے اسی طرح واپس چلے گئے۔ آپ کے خیال میں عاشقوں نے اپنے دکھوں کو تبدیل کرنا  کیوں گوارا نہ کیا؟

جواب:  عاشقوں نے اپنی تکالیف اس ڈھیر میں نہیں  ڈالیں کیونکہ وہ اپنے محبوب کے دیے ہوئے غموں اور دکھوں کو اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہتے تھے۔  جس طرح  عاشق کو معشوق کی ہر بات، ہر ادا پسند ہوتی ہے اسی طرح سچا  عشق کرنے والے  کو محبوب کے دیے ہوئے غم  اس  کی بے رخی اور بے وفائی  بھی  پیاری لگتی ہے۔

 سوال 14: مصنف محمد حسین آزاد کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات بیان کریں۔

 ماحول کی مصوری: مولانا محمد حسین آزاد کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ انکی تصویر کشی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔

مکالماتی انداز: انھوں نے اپنی تحریرات میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے مکالماتی انداز اختیار کیا ہے۔ تاہم ڈرامائیت پیدا کرنے میں اکثر وہ حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

 شعریت اور رنگین بیانی:  آزاد سادگی اور سلاست کی بجائے شعریت اور رنگین  بیانی کے قائل ہیں۔ ان کی نثر کو نثری شاعری بھی کہا جاتا ہے۔

سوال نمبر 15: سبق "انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا" کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

 اس سبق کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف محمد حسین آزاد ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ انسان کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا۔ اگر ہم اپنی اپنی مصیبتوں کو آپس میں بدل سکتے تو پھر ہر شخص اپنی پہلی ہی مصیبت کو اچھا سمجھتا۔ دراصل انسان وہم کے دھوکے میں آکر اپنی معمولی تکالیف کو ہوّا بنا لیتے ہیں۔ مصنف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم خدا پر کامل یقین اور صبرو تحمل سے کام لیں تو ہر حال میں خوش رہیں گے۔

سبق نمبر 5:     شاہد احمد دہلوی  

        مصنف کا نام:شاہد احمد دہلوی۔ 

صنف نثر : خاکہ     ماخذ: گنجینہ گوہر 


سوال1 :مصنف شاہد احمد دہلوی کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

بہترین خاکہ نگاری: خاکہ نگاری ان کا اہم ادبی کارنامہ ہے۔ وہ کسی شخصیت کا خاکہ اس طرح کھینچتے ہیں کہ صاحب موضوع کی شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے اور نگاہوں کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔

زبان و بیان کی سادگی :شاہد احمد دہلوی  نے اپنی تحریرات میں سادہ انداز اپنا یا ہے۔ان کی تحریر میں سادگی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔

 مقصدیت اور اصلاحی انداز : شاہد احمد دہلوی  کی تحریرات میں مقصدیت  پائی جاتی ہے۔ان کا اولین مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔

 دلکشی اور شگفتگی : ان کی تحریرات  میں وہ دلکشی اور شگفتگی   پائی جاتی ہے کہ بات سیدھا دل میں اتر جاتی ہے۔ ان کی نثر میں محاورات اور الفاظ کا استعمال اس قدر صحیح ہوا ہے کہ ہر لفظ زندہ اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔

سوال2 :سبق شاہد احمد دہلوی کا مرکزی خیال لکھیے۔

جواب: اپنی سرگزشت حیات میں مصنف شاہد احمد دہلوی اپنے آباواجداد کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔مصنف سمجھانا چاہتا ہے کہ اگر دل میں حصول علم کا شوق ہو اور سختیوں کا صبر و برداشت سے سامنا کرنے کا حوصلہ ہو تو انسان اونچے سے اونچے مرتبے تک تک پہنچ سکتا ہے۔ نیز مصنف نے اپنے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے کامیاب زندگی گزاری اور جو ذمہ داریاں نہیں سونپی گئیں انھیں بخوبی انجام دیا۔

 سوال 3: شاہد احمد دہلوی کی زندگی کے دو اہم پہلو کون سے ہیں ؟ تحریر کیجیے۔

آپ کی زندگی کے دو پہلو ہیں ادب ، اور موسیقی ۔جنوری 1930 میں ماہنامہ ساقی جاری کیا۔ 1936 سے آل انڈیا ریڈیو کے کئی اسٹیشنوں سے کلاسیکی  موسیقی بھی نشر کرنی شروع کر دی تھی۔1961 ء  میں خیر سگالی کا ایک ثقافتی وفدہندوستان گیا تھا۔ کہ اس میں ان کو پاکستانی ادب و موسیقی کی نمائندگی کرنے کافخر حاصل ہوا۔ 1959 کے اوائل میں جن آٹھ ادیبوں نے پاکستان رائٹرز  گلڈ کا سنگِ بنیاد رکھا آپ ان میں سے ایک ہیں۔

سوال4: مغل بادشاہوں کا آفتاب جلال غروب ہو رہا تھا۔ دلی کے لال قلعے میں مغلوں کی آخری شمع جھلملا رہی تھیں۔ بادشاہ کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔

 درجہ بالا عبارت میں آخری شمع سے کیا مراد ہے؟ بادشاہ کی حیثیت کو شاہ شطرنج کیوں کہا گیا ہے؟

جواب:  اس عبارت میں آخری شمع سے مراد مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ہیں جن کو انگریزی حکومت نے  قید کر رکھا تھا۔ بادشاہ کو شاہ شطرنج اس لیے کہا گیا  ہےکہ انگریزوں نے ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور و ہ با دشاہ کو ایک مُہرے کی طرح استعمال کر رہے تھے اور ان سے کام نکلوارہے تھے ۔ان تمام کاموں میں بہادر شاہ ظفر کی کوئی مرضی شامل نہ تھی۔


سبق نمبر 6:   مرزا چپاتی       مصنف : سید ولی اشرف صبوحی۔     صنف نثر :خاکہ    ماخذ: دلی کی چند عجیب ہستیاں۔       

 سوال نمبر 1: مصنف  اشرف صبوحی کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

1: دہلوی اندازِ بیان:   دہلی سے تعلق  ہونے کی وجہ سے ان کی تحریرات میں دبستانِ دہلی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ زبان و بیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ دہلی کے معاشرے  کی جھلک ان کی تحریرات  کی خاص خوبی ہے۔

2: محاورات و تراکیب کا استعمال:   اشرف صبوحی  نے اپنی تحریرات میں الفاظ و تراکیب  اور محاورات کا نہایت خوبی سے استعمال کیا ہے۔ ان کی تحریرات کی یہ  خوبی  ظاہر کرتی ہے کہ ان کا تعلق  ڈپٹی نذیر احمد  کے خاندان سے ہے۔

3: ماحول کی عکاسی:   اشرف صبوحی نے اپنی تحریرات میں ماحول کی  خوبصورت انداز میں منظر نگاری کی ہے۔ گویا الفاظ  کی مدد سے مناظر کو پیش کر دیا ہو۔

4: حقیقت کا رنگ:  ان کی تحریرات  بناوٹ سے پاک ہیں۔ انھوں نے حقیقی کرداروں کو پیش کیا  ہے۔ مغلیہ خاندان کے دردناک حالات کی بھر پور انداز  میں ترجمانی کی ہے۔  

سوال نمبر 2:سبق  "مرزا چپاتی"   کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اشرف صبوحی نے اپنے مضمون میں آخری مغل بادشاہ  بہادر شاہ ظفر  کے بھانجے مرزا فخر الدین (عرف مرزا فخرو۔۔۔۔جن  کو لوگ مرزا  چپاتی کہتے  تھے)   کا خاکہ پیش کیا ہے۔  مغلیہ سلطنت چھِن جانے کے بعد شاہی خاندان  سے تعلق رکھنے والے افراد کو کئی مشکلات اور لوگوں کے بدلتے رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔  مرزا چپاتی  بھی اسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔ مغلیہ دربار سے وابستگی کی بنا  پر مرزا کو زبان و بیان پر خاصا عبور حاصل تھا۔  لیکن ان کا کہنا تھا کہ غربت زبان و ادب کو بھلا دیتی ہے۔  گردش ِ دوراں کے ہاتھوں  انسان عرش سے فرش پر پہنچ جاتا ہے۔

سبق نمبر 7:   قومی تشکیل  

   مصنف:  ڈاکٹر وحید قریشی

ماخذ: قومی زبان اور ہمارا قومی تشخص 

صنف نثر: مضمون 

سوال نمبر 1:سبق "قومی تشکیل " کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

اپنے مضمون قومی تشکیل میں مصنف ڈاکٹر وحید قریشی ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کا قیام نظریہ اسلام کی بنیاد پر ہوا ہے۔ مسلمانوں کا قومی تشخص مخصوص اقدار پر مبنی ہے اور یہ مغرب کے جغرافیائی ،نسلی، لسانی، لونی اور شعوبی قومیت کے تصور سے مختلف ہے۔ مزید یہ کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانیوں کو اپنے قومی تشخص کو  برقرار رکھنے میں مشکل پیش آئی کیونکہ  مہاجرین ہندی مسلمان اور مقامی مسلمان  پاکستانی مسلمان کہلائے۔مصنف کے مطابق اس مشکل کا واحد حل یہ ہے کہ  مسلمان  اپنے قومی  تشخص  کو سمجھتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر کما حقہُ عمل پیرا ہوں۔

سوال نمبر 2:مصنف ڈاکٹر وحید قریشی کے انداز بیان کی چند خصوصیات  تحریر کیجیے۔

مقصدیت اور اصلاحی انداز: ڈاکٹر وحید قریشی کی تحریرات میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔ ان کا اولین مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ان پر ان کا حقیقی قومی تشخص اجاگر کرنا ہے۔ وہ اپنی تحریرات میں میں قارئین کو محض علم  سے مسحور نہیں کرتے بلکہ مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے  اپنےافکار کو پیش کرتے ہیں۔

بہترین الفاظ و تراکیب کا استعمال: ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے مضامین میں بہترین الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ ان کی یہ خوبی ظاہر کرتی ہے کہ ان کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع اور مؤثر ہے۔

منفرد اسلوبِ  بیان: ڈاکٹر وحید قریشی کا اندازِ بیان منفرد ہے۔ اردو زبان پر انھیں خاصا عبور حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جس موضوع پر لکھتے ہیں  زبان و بیان پر ان کی مکمل گرفت ہوتی  ہے۔

سبق نمبر  8:   اُونھ                          مصنف : فرحت اللہ بیگ

صنف نثر: طنزو مزاح 

ماخذ: مضامین فرحت

سبق اونھ  کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس مضمون میں مصنف فرحت اللہ بیگ ہمیں یہ نکتہ سمجھانا چاہتا ہے کہ ہمارے مزاجوں  کی لاپروائی ہماری انفرادی اور قومی ناکامیوں  کا باعث بنتی ہے۔تاریخ گواہ ہے یہ اونھ جس کی زبان پر آیا اسے تباہ کیا جس گھر میں گھسا اس کا ستیا ناس کیا ۔ مصنف  کے مطابق فتح اور شکست دونوں صورتوں میں اونھ نقصان پہنچاتی ہے۔  اس اونھ کی وجہ سے انسان  میں تکبر آجاتا ہے اور اس میں نکما پن پیدا ہو جاتا ہے۔

مصنف کے اندازِ بیان کی چند خوبیاں:

     شگفتہ اور مزاحیہ انداز : ان کی تحریرات  شگفتگی اور مزاح کا خزینہ ہیں۔ کہیں کہیں ان کی تحریر میں طنز کی  تپش  بھی محسوس ہوتی ہے مگر اس حرارت میں جلن اور چبھن نہیں ہے۔

    بہترین خاکہ نگاری:

فرحت اللہ بیگ ایک بہترین خاکہ نگار تھے۔ وہ اپنی  تحریرات میں   اس خوبصورتی سے خاکہ کھنچتے ہیں کہ مذکورہ کردار کی عادات و اطوار اور شخصیت کا  ہر پہلو کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

      منظر نگاری اور واقعات نگاری:

انہیں منظر نگاری میں کمال مہارت حاصل ہے۔ ان کی تحریرات میں دلی کی قدیم تہذیبی روح سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ واقعات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ قاری خود ان کا حصہ بن جاتا ہے اور جاگتی  آنکھوں سے ان مناظر کی دلکشی کو سراہنے لگتا ہے۔

سوال نمبر1 : لفظ اونھ کے کیا معنی ہیں؟

جواب: "اونھ" سے مراد کلمہ نفرت /میری بلا سے/ پھر کیا ہوا/کیا پرواہ ہے۔۔ ہے۔ دراصل ہم اس لفظ کو لاپروائی کے رویے کو ظاہر کرنے کیلیے استعمال کرتے ہیں۔

سوال نمبر2 : اونھ کے تین نقصانات بیان کیجیے۔

جواب: اونھ دراصل لاپروائی کے رویے کو ظاہر کرتا ہے اس کے بہت سے نقصانات ہیں: مثلاً

      انسان  میں نکما پن پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔

     انسان   اپنا  قیمتی وقت ضائع کردیتا ہے۔

     انسان ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے۔

سوال نمبر3:  کسی تاریخی حوالہ سے ثابت کریں کہ اونھ نے  کسی قوم  یا ملک کو نقصان پہنچایا ہو؟

جواب : 18 جون 1815ء  کو فرانس   اور برطانیہ کے درمیان  شروع ہونے والی واٹر لو( بیلجیم کے قریب) کی جنگ میں جب نپولین  اپنی فوج کے جرنیل گروش کو حکم دیتا ہے کہ  انگریزوں کی فوج کے پیچھے ابھی پہنچ جاو اور پو پھٹنے سے پہلے پشت پر  دباو ڈالو میں سامنے سے حملہ کرتا ہوں ، بلوشر کے آنے سے پہلے ہم اس فوج کو رگڑ ڈالیں گے۔ لیکن جرنیل گروش "اونھ " کر دیتا ہے۔ سکون  سے صبح ناشتے سے فارغ ہو کر روانہ ہوتا ہے تو انھیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  اس طرح یہ اونھ نہ صرف یورپ بلکہ ساری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔

سوال نمبر4: ایک طالبعلم  کو اُونھ کس طرح نقصان پہنچاتی ہے؟

جواب:  اس اونھ  سے طالبعلم زیادہ  نقصان اُٹھاتے ہیں۔  سارا سال اونھ کہہ کر کہ کل پڑھائی  کر لیں گے یا امتحان کے قریب  کر لیں گے، اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ جب نتیجہ آتا ہے تو  امتحانات میں فیل ہو جاتے ہیں۔ پھر اس ناکامی سے  وہ سبق بھی حاصل نہیں کرتے بلکہ "اونھ " کردیتے ہیں۔ اس طرح اس اونھ کی وجہ سے انکی پڑھائی کا خاتمہ  ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر 5: میاں بیوی کی لڑائی میں "اونھ" کس طرح  سود مند ہو سکتی ہے؟

جواب:  میاں بیوی کی اونھ بعض اوقات  بہت فائدہ پہنچاتی ہے۔  اکثر   و بیشتر انکی لڑائی میں کوئی بھی صلح نہیں کروا سکتا۔  لیکن  اونھ بعض اوقات وہ  کام کر جاتی ہے جو  بڑے سے بڑے افلاطون  صلاح کارسے بھی نہ  کر سکتے ، بیوی کے غصے پر میاں کی اونھ اور میاں کی ناراضگی پر بیوی کی  اونھ  لڑائی کو بڑھنے سے پہلے ہی ختم کروا دیتی ہے۔  اس اونھ کی وجہ سے گھر اجڑنے سے بچ جاتا ہے۔

سوال نمبر 6: "ہم لوگ تقدیر بلا تعلق تدبیر کے قائل  ہو گئے ہیں" اس جملے سے مصنف کی کیا مراد ہے؟

جواب:   اس سے مراد یہ ہے کہ ہم  مسائل کے حل  کیلیے کوئی تدبیر  نہیں کرتے  جب ناکام  ہو جاتے ہیں تو سارا الزام اپنی قسمت اور تقدیر پر ڈال دیتے ہیں کہ قسمت میں یہی لکھا تھا۔

سوال نمبر7: مصنف فرحت اللہ بیگ نے سبق "اونھ"  میں خالص تقدیر کے کتنے درجے بیان کیے ہیں؟ اور آخری درجہ کسے قرار دیا ہے؟

جواب:   مصنف کے مطابق   خالص تقدیر کے تین  درجےتھے: صبر، رضا اور تسلیم لیکن ہم نے چوتھا درجہ "اونھ" کا نکال لیا ہے۔  اور ابھی بھی لوگ پانچواں درجہ تلاش کر رہے ہیں۔

 

سبق نمبر 9  : نیلی جھیل                       مصنف : شفیق الرحمٰن

صنف نثر: طنزو مزاح 

ماخذ: حماقتیں 

سوال نمبر 1: مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

معاشرتی رویوں پر  تنقید : شفیق الرحمٰن نے اپنی تحریرات میں معاشرتی رویوں کو  بھر پور انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔  اس  طرح وہ قارئین کو حقیقت کا آئینہ  دکھاتے ہیں۔

اشارہ کنایہ کا استعمال:  معاشرے کی خامیوں اور خرابیوں  پر تنقید کرتے ہوئے   شفیق الرحمٰن  براہِ راست چوٹ  کرنے کی بجائے اشارہ کنایہ سے کام  لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی کی دل آ زاری   نہیں  کرنا چاہتے۔

کردار نگاری: کردار نگاری میں انہیں  کمال حاصل تھا۔ اپنی تحریروں میں وہ کئی دلچسپ کردار تخلیق کرتے ہیں جو قارئین کی یادداشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سادہ اور سلیس زبان کا استعمال : انکی تحریرات کی زبان انتہائی سادہ ، سلیس اور بامحاورہ ہے۔ وہ مشکل تحریر سے گریز کرتے ہیں۔

سوال نمبر2:سبق نیلی جھیل کا مرکزی خیال اس  طرح بیان کریں کہ مصنف کا پیغام واضح ہو جائے۔

اس سبق میں  مصنف  شفیق الرحمٰن  نے بچوں کو نیلی جھیل سے تشبیہ دی ہے اور نیلی جھیل کی شفافیت کو بچوں کے دل و دماغ سے جوڑا ہے ۔ بچوں کے دل  زمانے کی گرد آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں۔  وہ اپنے دلوں کو صاف رکھتے ہیں اس لیے ان کے دلوں میں اندر تک جھانکا جا سکتا ہے۔ بچوں کے گھروں میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے  گھر سے باہر جا کر وہ   اسے اپنے  رویّوں  سے ظاہر کرتے ہیں۔

سوال نمبر 3: گھر کا ماحول بچوں کی تعلیم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ مثال سے واضح کیجیے۔

جواب: بچے اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کے گھروں میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ بچے  باہر جا کر وہی اپنے رویّوں سے  ظاہر کرتے ہیں۔ جیسا کہ سبق میں بتایا گیا ہے کہ ان دنوں گھر میں تاش بہت کھیلی جاتی تھی،  جب استاد نے منےّ سے گنتی سنانے کا کہا  تو اس نے تاش کی گنتی سنا دی۔  اسی طرح گھر میں اگر اساتذہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو جب استاد بچوں  کا امتحان لینے کےلیے کوئی سوال پوچھے گا   تو وہ استاد کا مذاق اڑائیں گے۔

سوال نمبر4:  گھر میں بچوں کے سامنے اساتذہ کا مذاق اڑانا ان کی  تعلیم  پر  کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟

جواب: جب گھر میں اساتذہ کا احترام نہیں ہوگا تو بچے بھی اپنے اساتذہ کا مذاق اڑائیں گے۔ ان کے دلوں سے استاد کی عزت ختم ہو جائے گی۔ وہ انکا سبق یاد نہیں کریں گے ۔  اساتذہ کی کہی ہوئی باتیں ایسے بچوں پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گی۔ اس طرح وہ پڑھائی میں کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔

 

سبق نمبر 10  :     سفارش طلب                 مصنف : کرنل محمد خان

صنف نثر: طنزو مزاح 

ماخذ: بزم آرائیاں

سوال1: مصنف  کرنل محمد خان کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

طنز و مزاح کا عنصر: کرنل محمد خان نے اپنی تحریرات میں معاشرے میں انسانوں پر گہرا طنز کیا ہے۔ مگر اس طنز کو مزاح کا رنگ دے کر ان لوگوں کو شرمندہ کیا ہے جو اس نا انصافی کا سبب بنتے ہیں۔

منفرداند از بیان : آپ کا انداز بیان نہایت منفرد ہے جو ان کو ان کے ہم عصر ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ وسیع ذخیرہ الفاظ کی وجہ سے انہیں ادب پر مہارت حاصل ہے۔

گہرا مشاہدہ اور ماحول کی عکاسی:  انہوں نے اپنی تحریرات میں معاشرے میں موجود برائیوں کی بڑے موثر انداز سے نشان دہی کی ہے جو دیمک کی طرح معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔

سوال2: سبق  سفارش طلب کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

کرنل محمد خان اپنے مضمون سفارش طلب میں ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ سفارش کرنا اور کروانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کا حق مارتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ وہ رشتہ دار بنتے ہیں جو سفارش کے لیے آتے ہیں اور منتیں کر کے سفارش کرواتے ہیں۔ مصنف ہمیں سفارش  کے بارے میں بتاتے ہوئے اس سے بچنے کے طریقے بھی بتاتا ہے۔سفارش ایک قسم کی چوری ہے پہلے سفارش طلب کو زبان سے سمجھانا چاہیے اور اگر سفارش  طلب نہ سمجھے تو ہاتھوں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ مگر سفارش جیسے گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔

سوال3: معاشرے میں سفارش کے پھیلنے کی تین وجوہات بیان کریں؟

لاقانونیت:  پاکستان سمیت دنیا کے دیگر کئی ممالک میں سفارش کروانے کا گھناؤنا عمل جاری ہے ۔مگر اس کی روک تھام کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔

بے ایمانی: لوگوں کے اندرآج کل بہت بے ایمانی پائی جاتی ہے۔ جس کو دیکھو صرف آگے بڑھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ وہ طریقہ کونسا اپنا رہا ہےاور اس سے لوگوں کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔

 نااہلی: سفارش کی ایک اور بڑی وجہ ہماری عوام کی نااہلی ہے ۔جب ان کا کوئی بس نہیں چلتا تو نوکری کے لیے وہ اپنے عزیز و اقارب کے ذریعے سفارش کروانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کا حق مارتے ہیں۔

 سوال4: آپ کے نصاب میں شامل سبق "سفارش طلب میں مصنف نے سفارشی لوگوں سے گلو خلاصی کا طریقہ بیان کیا ہے۔ اگر آپ کا واسطہ سفارشی لوگوں سے پڑ جائے تو آپ اُن سے بچنے کا کون سا طریقہ اختیار کریں گے۔ تحریر کریں ؟

اگر میرا  واسطہ کسی ایسے سے آدمی سے پڑ جائے جو سفارش کروانا چاہتا ہے  تو پہلے میں اس کے لئے دل میں برا چاہوں گا۔ پھر میں اس کو تسلی سے سمجھاؤں گا کہ سفارش ایک گناہ ہے جس کے ذریعے تم کسی دوسرے کا حق مار رہے ہو۔اگر وہ باتوں سے مان گیا تو ٹھیک ہے ورنہ میں اس سے سے قطع تعلق کر لوں گا لیکن سفارش کے لیے تیار نہیں ہوں گا۔

سبق نمبر 11:   پریٹوریا میں ایک شام

مصنف: حکیم محمد سعید 

صنف نثر: سفرنامہ 

ماخذ:ڈیلفی سے سونے کی کان تک

سوال1: مصنف حکیم محمد سعید کے مختصر حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات تحریر کیجیے۔

مختصر حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات: حکیم محمد سعید (9 جنوری 1920ء تا 17 اکتوبر 1998ء)  ایک مایہ ناز حکیم تھے جنہوں نے اسلامی دنیا اور پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مذہب اور طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کیں۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی ان کے قائم کردہ اہم ادارے ہیں۔

حکیم سعید بچوں اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اپنی شہادت تک وہ اپنے ہی شروع کردہ رسالے ہمدرد نونہال سے مکمل طور پر وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نونہال ادب کے نام سے بچوں کے لیے کتب کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی مختلف موضوعات پر کتب شائع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہترین عالمی ادب کے تراجم بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ 17 اکتوبر 1998ء میں انہیں کراچی میں شہید کر دیا گیا.

جس وقت انہیں آرام باغ میں ان کے دواخانہ کے باہر وحشیانہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا وہ روزہ کی حالت میں تھے یوں انہوں نے روزہ کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ جس روز مریضوں کو دیکھنے جاتے روزہ رکھتے تھے چونکہ ان کا ایمان تھا کہ صرف دوا  وجہ شفاء نہیں ہوتی۔ حکیم محمد سعید پاکستان کے بڑے شہروں میں ہفتہ وار مریضوں کو دیکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کا ادارہ ہمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہیں۔ (منقول)

سوال2: سبق پریٹوریا میں ایک شام  کا مرکزی خیال تحریر کیجیے۔

اس سبق میں مصنف حکیم محمد سعید نے اپنے جنوبی افریقہ کے سفر کے احوال بیان کیے ہیں۔ انھوں نے دورانِ سفر اس ملک کی خوبصورتی, معاشی اور سماجی ترقی کا دنیا کے  دیگر مشہور شہروں سے  تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ نیز جنوبی افریقہ میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کاموں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ان کے سفرناموں میں ان کا مسلمانوں اور دین اسلام سے دلی لگاؤ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام کے کاموں پر گہری نظر رکھتے  ہیں۔

سوال3:حکیم محمد سعید کے انداز بیان کی چند خصوصیات بیان کیجیے۔

 مقصدیت و اصلاحی انداز: حکیم محمد سعید کی تحریرات میں مقصدیت و اصلاحی انداز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر بچوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے  رسائل جاری کیے۔ نیز مذہب اور طب و حکمت پر بھی بے شمار کتب تحریر کیں۔

روانی و سلاست: ان کی تحریرات میں شگفتگی کے ساتھ سا تھ روانی و سلاست بھی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے نہایت سادہ اور لطیف پیرائے میں سفرنامے اور مضامین تحریر کیے ہیں۔

 بہترین منظر کشی: منظر کشی میں انھیں کمال مہارت حاصل تھی۔ ان کے سفرنامے پڑھ کر قارئین خود کو ا ن کے ساتھ محو سفر پاتے ہیں۔

 ملی و دینی جذبات: حکیم محمد سعید کی تحریرات میں ان کا مسلمانوں اور دین اسلام سے دلی لگاؤ دکھائی دیتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام کے کاموں پر گہری نظر رکھتے تھے۔