اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

منگل، 17 جنوری، 2023

نظم جوابِ شکوہ شاعر علامہ اقبال

 

نظم    "جواب شکوہ"       شاعر"   علامہ اقبالؔ"

 (کلاس ہشتم کی اردو  کی کتاب کنول میں شامل بندوں کی تشریح)

تشریح  بند نمبر 1

علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ کے جواب میں جواب شکوہ لکھی تھی۔ اس نظم میں اقبال نے اپنے شکوے کا جواب فرضی طور پر خدا کی طرف سے لکھا ہے۔ اس میں شاعر نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انھیں اپنی کمزوریاں دور کرتے ہوئے بہتری کی تجاویز دی ہیں۔ اس بند میں وہ کہتا  ہے کہ اس کی شکایت  پر اللہ کی طرف سے جواب آیا کہ اے میرے بندے مجھے تیری کہانی بہت دکھ بھری لگی ہے۔ تیری آنکھ سے نکلنے والے آنسو جو یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تیرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور محبت بھری آواز آسمان تک آن پہنچی ہے۔ تیرا شکایت کرنے کا انداز  بہت نرالا ہے۔ تو نے ایسے خوبصورت انداز میں شکوہ کیا ہے جس سے شکر کا پہلو نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔ اے میرے بندے تیرے اس انداز سے دوسرے لوگوں میں بھی جرات پیدا ہوئی ہے کہ وہ بھی  اب اپنے رب سے ہم کلام ہونے لگے ہیں۔

تشریح  بند نمبر 2

اس بند میں شاعر اقبال کہتا ہے کہ اللہ انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ  اے انسان میں رب العالمین ہوں اور ہر وقت تیری طرف متوجہ ہوں مگر اے انسان ! تجھے مجھ سے مانگنے کی توفیق نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے علامہ اقبال کے نالوں کا جواب دیتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا میں کریم ہوں اور ہر وقت رحم اور فضل کرتا ہوں۔ لیکن کوئی مجھ سے، رحم اور فضل طلب نہیں کرتا۔ میں کس کی رہنمائی کروں جبکہ منزل کی طرف کوئی سفر کرنے والا نہیں ہے۔ عام لوگوں کی تربیت کی گئی ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ لیکن کوئی باصلاحیت فرد ہی موجود نہیں۔ یہ وہ مٹی نہیں جس سے آدم میں آدمیت پیدا ہو جاۓ۔ ہم قابل اور باصلاحیت فرد کو ایران کے بادشاہوں جتنی عزت اور مرتبہ عطا کرتے ہیں اور جو لوگ نئی دنیائیں تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم ان کو نئی دنیا بھی عطا کرتے ہیں۔

تشریح  بند نمبر 3

نظم جواب شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال خدا کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہاری حالت یہ ہے کہ تم ہماری عبادت پر خواب شیریں کو ترجیح دیتے ہو ، اور رمضان کے روزوں کو ایک مصیبت سمجھتے ہو۔ کیا یہی وفاداری کا طریقہ ہے ؟ قوم تو مذہب سے بنتی ہے جب تم نے مذہب چھوڑ دیا تو قوم کس طرح زندہ رہ سکتی ہے ؟ مثلاً یوں سمجھو کہ اگر کہکشاؤں کے ستاروں میں جذب باہمی یعنی آپ میں ربط و تعلق باقی نہ رہے تو کیا کوئی ستارہ اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے؟

تشریح  بند نمبر 4

نظم جواب شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال علامتی طور پر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کا دین ایک ہے، اللہ ایک ہے، رسول ایک ہے، خانہ کعبہ ایک ہے، قرآن مجید بھی ایک ہے ، ایسے حالات میں اگر سارے مسلمان بھی ایک ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا ؟ اس کے بر عکس تمہارا حال یہ ہے کہ تم مختلف فرقوں اور ذاتوں اور قبیلوں میں منقسم ہو گئے ہو کیا دنیا میں ترقی کرنے کی یہی صورت ہے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔