اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

اتوار، 19 مارچ، 2023

روداد نویسی کا نمونہ

 

کلاس: دہم   عنوان:    روداد نویسی   تاریخ:    19  مارچ 2023ء

وقت : 45  منٹ    مہارت:    لکھنا       مواد:  قلم، کاپی، تعلمی مواد،

ایس ایل او:                        پوسٹر یا تصویری خاکوں یا کسی واقعہ  اور منظر کو بیان کرتے ہوئے (آنکھوں دیکھا حال )روداد لکھ سکیں۔

عنوان :    گدھے  یہیں کے

کل  ابا جی کی چھٹی تھی  اس لیے ہم نے دانیال کے ساتھ مل کر پہلے  ہی ابا  جی  کی موٹر سائیکل چلانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ہمارے دونوں بڑے بھائی  اور باجیوں کو بھی اسکول و کالج سے چھٹی ہوئی تھی ۔اس لیے سب ہی بہت دیر سے بیدار ہوتے ہیں ۔کل صبح موٹر سائیکل چلانے   کی خوشی میں رات  کٹنا دوبھر ہوگیا  تھا، اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی ۔فجر کی اذان پر بیداری ہوئی ۔اس وقت دانیال بھی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔ہم نے جاتے ہی اسے بیدار کرنا چاہا، تو ایسا لگا کہ ہم کسی مردے کو جگا رہے ہوں۔گھبراہٹ میں فکر یہ لاحق  تھی کہ ان صاحب کے چکر میں کوئی اور بیدار نہ ہوجائے ۔ جب وہ عزت سے بیدار نہ ہوئے تو ہم نے ان کی ناک بند کردی  مگر ہماری عقل دیکھیں کہ ہم یہ بھول ہی گئے کہ موصوف پیدائشی زکام کے مریض ہیں اور منہ سے سانس لیتے ہیں ۔ خیر جب منہ بند کیا تو بھائی نے آنکھیں کھول دیں۔ "کیاہے"؟ انہوں نے خفا ہوتے ہوئے کروٹ بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔          "ار ے اٹھو بھئی" ہم نے بہت زور دیتے ہوئے ان کی ٹانگ پکڑ کر کھینچی" ارے ابا جی کی موٹر سائیکل نہیں چلانی کیا ۔۔۔"

ہمارے کہنے پر وہ صاحب جلدی سے اُٹھے  اور ہم دونوں بہت احتیاط سے کمرے سے نکل کر پہلے برآمدے میں آئے پھر ابا جی  کی موٹر سائیکل کی چابی نکال کر مزید احتیاط سے دروازہ کھول کر موٹر سائیکل نکال لی اور گلی سے ذرا دُور لے جا کر اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔مگر موٹر سائیکل تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی ۔۔اوپر سے مصیبت یہ کہ ہماری ٹانگیں کِک پر نہیں پہنچ رہی تھی ۔ اور کِک میں اتنی طاقت تھی کہ بہت زور آزمائی کرنے کے باوجود بھی موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں ہو پارہی تھی  اور وقت تھا کہ رُک ہی نہیں رہا تھا ۔صبح ہی صبح لوگوں کی چہل پہل کم ہوتی ہے ،حادثے کا امکان بھی کم ہوتا ہے  اس لیے یہ وقت مناسب تھا ۔آخر بہت زور آزمائی کے باوجود موٹر سائیکل اسٹارٹ نہ ہوئی تو طے یہ پایا کہ موٹر سائیکل کو دھکا دے کر اسٹارٹ کیا جائے ۔یہ تجویز کار گر ثابت  ہوئی  اور ذرا سی طاقت  آزمائی  سے گاڑی اسٹارٹ ہوگئی ۔بس پھر کیا تھا  گاڑی کو جیسے کہ پَر  اور ہم سپر مین بن گئے ۔دھکا لگا کر دانیال بیچارہ  سانس پُھلائے بیٹھا  تھا۔ہم نے بہت دُور جاکر گاڑی روکی  تو ہانپتا ہوا آیا اور موٹر سائیکل  پر سوار ہو گیا ۔راستہ بالکل  صاف  اور کُشادہ تھا اور صبح کے موسم کی  تو بات ہی کیا ہے  ،ہمارا بھی چہچہانے   کا جی چاہ رہا تھا ،گنگنانے کو جی چاہ رہا تھا ،ہم موٹر سائیکل بالکل  درمیانی رفتار سے چلا رہے تھے  اور پوری ذمہ داری سے گاڑی کو سنبھالا ہوا تھا ۔ جیسے ہی قبرستان کی طویل  دیوار شروع ہوئی ہم نے گاڑی کی رفتار  کم کر لی  کیونکہ آگے گٹر تھا ۔جس کا  ڈھکنا غائب تھا ۔ وہ جگہ پار کرکے ابھی تک ہم نے گاڑی ذرا آگے ہی بڑھائی تھی کہ اچانک ہی ایک گدھا سورا قبرستان میں سے تیزی سے نمودار ہوا اور بڑی سڑک پر آتے ہی جیسے کہ گدھے کوبریک لگ گئے ۔ہم بیچارے شاہی کٹھولے پر سوار گدھے کے یوں سڑک کے بیچوں بیچ رُک جانے پر حواس باختہ ہوگئے ۔موٹر سائیکل کی  رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ہم نے فوراً بریک لگائی ۔گدھے سوارنے جو بُل فائٹر کو بے لگام اپنی طرف آتے دیکھا تو اس نے گدھے  کودولتیاں بھی مار یں مگر تب تک دھڑام کی آواز کے ساتھ موٹر سائیکل گدھے  سے جاٹکرائی ۔دانیال پیچھے  بیٹھا تھا  اور ہوشیار بھی تھا وہ محفوظ رہا جبکہ ہمارا منہ گدھے کے  فولادی سر سے ایسا ٹکرایا کہ ہمارے آٹھوں طبق روشن ہوگئے ۔گدھے کا مالک گدھے کی چھت پر بیٹھا تھا  اس لیے محفوظ رہا جبکہ ہماری موٹر سائیکل گدھے سے ٹکرا کراس زور سے زمین پر گری کہ اس کا میٹر لائٹ  اور دو اشارے ٹوٹ  گئے ۔ہینڈل ٹیڑھا ہوگیا ،ہمیں بھی بڑ ی ذمہ دار چوٹیں لگی تھیں  مگر اپنی موٹر سائیکل کی حالت اور اب اپنی ہونے والی شامت یاد کرتے ہوئے ہمارا دل خون کے آنسو بہا رہا تھا ۔ "گدھا چلانے کی تمیز نہیں ہے۔ یوں گدھا چلاتے ہیں۔۔؟"  ہم نے بھناتے ہوئے گدھے اور سوار مالک کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ "ارے میاں ! یہ خود ہی رک گیا ہے تم نے دیکھا نہیں کہ میں اسے راستے سے ہٹانے کی کتنی کوشش کررہا تھا۔۔۔؟ گدھے سوار نے بدحواسی کی حالت میں  عجیب  سا جواب دیا۔ " کیا خاک کوشش کر رہے تھے ، دیکھو تمہارے گدھے  کو تو کچھ نہیں ہوا ،ہماری موٹر سائیکل کی کیا حالت ہوگئی ہے۔۔ اور۔۔۔اور دیکھو ہم دونوں کو کتنی چوٹیں لگیں ہیں۔ہم نے اپنی آستین اور شلوار ذرا اوپر اٹھا کر انہیں دکھائی تو خود بھی چکرا گئے کیونکہ واقعی ہم گدھے کی مرہون ِ منت کچھ زیادہ ہی زخمی ہوگئے تھے ۔

"غلطی ہوگئی بچو!مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا ڈھیٹ اور اڑیل ہے۔۔۔۔گدھے کے مالک نے اپنی جان چھڑانے کے سے اندز  میں کہا ۔ "تمہاری غلطی ہوگئی اور ہمارا اتنا انقصان ہوگیا ۔۔۔ہمارا نقصان پورا کردو۔۔۔ورنہ ہم تجھے گدھا  لیجانے نہیں دیں گے ۔ "  ہم نے گدھے کی لگام  مضبوطی سے اپنے قابو میں کرتے ہوئے کہا ۔ یہ سنتے ہی گدھے کا مالک بدحواس ہوگیا اور عاجزی پر اتر آیا ۔ اُ س نے کہا "غلطی ہوگئی ۔ معاف کردو ۔اور اس وقت تو تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔اس نے جان چھڑانے کے سے  انداز میں روہانسی صورت بناتے ہوئے  کہا  ۔ "کچھ بھی ہو ہمارا نقصان پورا کردو ۔

اتنی دیر میں چہل پہل شروع ہوگئی تھی  اور لوگ تفریح اور صلح صفائی کرانے کے لیے آنا شروع ہوگئے ۔سبھی گدھے کے مالک کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ایک لمبی چھڑی والے بابا جی نے کہا چالیس پچاس ہزار کا گدھا لے کر گھوم رہا ہے ،بچوں کا اتنا نقصان ہوا ہے  اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے ۔ نہیں دینا اسے گدھا ۔۔۔جب تک یہ بچوں کا نقصان پورا نہیں کردیتا ۔۔۔اسے گدھا مت دینا ۔۔۔لوگوں کے مشورہ دینے اور ڈھیٹ بن جانے  پر  ہمیں   دلی تسلی  ہوئی اور اطمینان  ہوا کہ لوگوں میں ا بھی  بھی انسانیت باقی ہے ،خیر گدھے کا مالک اب  بھلا کیا کرسکتا تھا ،مجبورً  ا اس نے  ہتھیار ڈال کر  گدھے  کی لگام   ہمارے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا "ٹھیک  ہے ،پکڑو اسے ۔۔۔۔میں ابھی پیسے لاتا ہوں ۔۔۔" یہ کہتے ہوئے  وہ  غصہ ہونے کے بجائے  پاگل سا ہوکر جیسے کہ ہنسنے لگا پھر خراماں خراماں چال چلتے ہوئے آگے بڑھا  اور پھر تیزی سے آگے جا کر گلی میں مڑ گیا ۔

گدھے کی لگام پکڑ کر اب ہمیں قدرے  سکون ہوا ،اب ابو جو کچھ ہمارے ساتھ کریں گے وہ تو دنیا  دیکھے گی  مگر نقصان کا ازالہ ہوجانا یقیناً  سب کو چپ کرا دے گا ۔موٹر سائیکل کا نقصان   کوئی چھ سات سو روپے سے زیادہ نہیں ہوا تھا ۔اب ہمیں اس کے آنے کا انتظار تھا ۔تکلیف بھی اب بڑھنے لگی تھی ۔ دانیال صحیح  سویا نہیں تھا ۔ اس لیے گدھے سے ٹیک لگائے وہ بھی اونگھنے لگا ۔اب وقت تھا کہ کٹنا مشکل ہورہا تھا ۔گدھے کا مالک ابھی تک نہیں آیا تھا ،ہم نے دعائیں بھی بہت کرلی تھیں  اور یہ دعائیں تو خاص  طور پر کر لی تھیں  کہ اللہ کرے  اماں ، ابا  اور سب گھر والے سوتے ہی رہیں ۔ پھر گدھے والے سے پیسے لے کر موٹر سائیکل ٹھیک کروائیں اور لے جا کر گھر میں  کھڑی کردیں ۔کسی کو پتہ نہ چلے مگر وقت تھا کہ بڑھتا اور سورج طلوع ہوتا جا رہا تھا ۔ مگر وہ نہیں آیا ۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد دو موٹر سائیکلوں  پر چار سوار نمودار ہوئے ۔ ابھی وہ کسی طرف جانے ہی والے تھے کہ ہمیں دیکھتے ہی وہ جیسے چیختے ہوئے بولے   ۔۔ "ارے یہ رہا ۔۔۔ان کے لبیک کہنے پر ہم کچھ نہ سمجھے ،،  انہوں نے آتے ہی گدھے کی بلائیں لینا شروع  کر دیں ۔

"یہی ہے۔۔۔ہاں ۔۔ہاں  یہی ہے ۔۔۔" ان صاحب کے کہتے ہی دیگر سوار بھی آگئے ،ان میں سے ایک صاحب نے ہمارے گریبان پکڑ کر کھینچا  اور کہا ۔ "ارے چھچھوندر کے کام تو دیکھو ۔۔۔ اس سے پہلے وہ  ہمیں ہمارا قصور بتائے بغیر پٹائی کرتے ہم نے پہلے ہی بھاں ۔۔۔بھاں  رونا شروع کردیا ۔۔ہمیں روتا دیکھتے ہی چند  لوگ پھر تفریح لینے کے لیے آگئے  تو پتا چلا کہ یہ گدھا رات ہی چوری ہوا  ہے  اور کھوجی  نے یہی نشاندہی کی تھی کہ گدھا قبرستان میں سے  گزرا ہے۔اب ہم تہری مصیبت  میں مبتلا تھے ۔ آج گدھے کے ہاتھوں بُرے پھنسے تھے کئی صاحباں نے ہماری بے گناہی کی گواہی دی مگر ان صاحب نے کسی  کی نہ سنی ۔وہ چھڑی والے بابا  جی بُری مصیبت میں پھنسوا کر واپس نہ آئے اور نہ وہ گدھے والا۔۔خیر اس نے تو  کمبخت  آنا ہی نہیں تھا ،یہ بھی کوئی انسانیت    ہے کہ انہوں نے کسی کی نہیں سنی  اور ہمیں زبردستی تھانے لے گئے  ۔ اُ س روز خدا  کاکرنا ایسا ہوا کہ میں  پولیس والوں کی انسانیت اور خدا کی طرف سے  مدد ملنے پر یقین ہوگیا ۔ انہی پولیس والوں نے ان چاروں  لوگوں اور ہمارے اماں ، ابا کے غضب  سے جان بخشی کرائی ۔ بلکہ نقصان کا خرچہ بھی دلایا ۔انہوں نے کہا شکر کرو کہ گدھا  ہوشیار تھا،   موٹر سائیکل کے سامنے ہی آکر اڑیل بن کر کھڑا ہو گیا ۔ آگے ہی پھاٹک ہے  اگر یہ ریلوے لائین  پر کھڑا ہو جاتا  تو تمہیں اس کی دُم بھی نہیں ملتی ۔ اس روز اماں ،ابا نے تو کچھ نہیں کیا ۔ کہا تو بہت کچھ ۔۔۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگلے ہی ہفتے سالانہ امتحانات  ہونے والے تھے ۔

علم البیان /علم البدیع کی اصطلاحات

 علم البیان /علم البدیع کی اصطلاحات

استعارہ، تشبیہ،  تلمیح ،   کنایہ،  مجازِ مرسل ،  صنعت تضاد ، صنعت تجنیس

1: استعارہ کی تعریف بیان کریں۔

استعارہ:استعارہ کے لغوی معنی ہیں ادھار لینا۔ استعارہ سے مراد ہے کہ کسی چیز  کو اسکی مشترکہ خوبی یا خامی  کی بنیاد پر ہو بہو دوسری چیز قرار دیا جائے۔ مثلاً میرا بیٹا شیر ہے۔

شعری اصطلاح میں استعارہ وہ صفت ہے جس کے تحت کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹ کر کسی اور شے سے مشابہت کی وجہ سے اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیاجائے۔ مثال کے طور پر

یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا

   راعی نے للکار کر جب پکارا

اس شعر میں راعی اپنے حقیقی معنوں سے ہٹ کر استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طرح اس شعر میں استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔

ایک اور مثال پیش ہے

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

اس شعر کہ پہلے مصرعے میں استعارہ استعمال کیا گیا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ ؑ کے لئے شیر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

2: تشبیہ کسے کہتے ہیں؟

تشبیہ:تشبیہ سے مراد ہے کہ دو مختلف چیزوں کو کسی مشترکہ خوبی یا خامی  کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مانند قرار دیا جائے۔ مثلاً    میرا بیٹا شیر کی طرح بہادر ہے۔

ارکانِ تشبیہ:اراکینِ تشبیہ درج ذیل ہیں۔

مشبّہ :جس شے یاشخص کوتشبیہ دی جائے اسے مشبّہ کہتے ہیں۔  جیسا کہ مثال میں مشبہ  بیٹا ہے۔

مشبّہ بہ :جس شے یا شخص سے تشبیہ دی جائے اسے مشبّہ بہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ مثال میں مشبہ   بہ شیر  ہے۔

حرفِ تشبیہ :جو حرف تشبیہ دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ حرفِ تشبیہ کہلاتا ہیں۔ جیسا کہ مثال میں حرفِ تشبیہ  کی طرح  ہے۔

وجہ تشبیہ :جس وجہ یا صفت کی بناءپرتشبیہ دی جائے اسے وجہ تشبیہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ مثال میں بہادری کی وجہ سے بیٹے کو شیر کہا گیا ہے۔

ایک اور مثال پیش ہے .          

نازکی اس کی لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

اس شعر میں شاعر محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھری سے تشبیہ دے رہا ہی۔ ارکان تشبیہ یہ ہیں۔

 مشبّہ: محبوب کا لب‘ مشبّہ بہ: گلاب کی پنکھڑی‘ حرفِ تشبیہ: کی سی‘ وجہ تشبیہ: نازکی اور گلابی رنگت۔

تشبیہ اور استعارہ میں فرق:

تشبیہ

استعارہ

۱۔ تشبیہ حقیقی ہوتی ہے۔

استعارہ مجازی ہوتا ہے۔

۲۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے۔

استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔

۳۔ تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے۔

جبکہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔

۴۔ تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں۔

استعارہ کے ارکان تین ہیں۔

۵۔ تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے۔

استعارہ اس علم کی ایک بلیغ صورت ہے۔

۶۔ تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے۔

استعارہ کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔

 

3: تلمیح  کی وضاحت کریں۔

 تلمیح: تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔ شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی‘ سیاسی‘ اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر غالب کا ایک شعر ہے :   

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب 

آ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

اس شعر میں اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔اس خواہش کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تجلّی ظاہر کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اور کوہِ طور جل کر سیاہ ہو گیا۔

 

4:  کنایہ کسے کہتے ہیں؟

 کنایہ:   کنایہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اور اسکا معنی اشارہ کرنے کے ہیں۔کنایہ میں لفظ اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اسکے حقیقی معنی کہا  جاتا ہے۔کنایہ علمِ بیان کی ایک اہم قسم ہے۔

میر  صاحب  زمانہ  نازک  ہے

دونوں  ہاتھوں  سے تھامیے  دستار

اس شعر میں لفظ” دستار"  اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔لیکن حقیقی معنی بھی مراد لیے گئے ہیں۔

 

5:مجازِ مرسل  کی تعریف بیان کیجیے۔

مجازِ مرسل : مجازِ مرسل اصطلاح میں یہ وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو۔

 مثلا ’’الحمد‘‘ پڑھنے سے مراد پوری سورۂ فاتحہ ہے۔ بادل برسنے سے مراد بارش ہے، دریا بہنے سے مراد صرف پانی بہنا ہے وغیرہ۔

6: صنعت تضاد کسے کہتے ہیں؟

صنعت تضاد: صنعت تضاد شاعری میں اس صفت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد متضاد الفاظ استعمال کئے جائیں۔

مثال : 

    خِرَد کا نام جَنوں پڑ گیا جنوں کا خِرَد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے

اس شعر میں" خِرَد " اور" جَنوں" متضاد الفاظ ہیں اس لئے اس شعرمیں صنعت تضاد استعمال کی گئی ہے۔

7: صنعت تجنیس کی تعریف بیان کیجیے۔

صنعت تجنیس: صنعت تجنیس شاعری میں اس صفت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد  ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے الفاظ استعمال کئے جائیں۔ ان الفاظ کی املاء ایک جیسی ہو  جبکہ معنی مختلف ہوں۔

 مثال : 

ایک دَم پر ہوا نہ باندھ حباب

دَم کو دَم بھر یہاں ہوا دیکھا

اس شعر میں" دَم " اور" دَم" ہم جنس  الفاظ ہیں ، ایک  "دَم" کا مطلب  سانس یا زندگی ہے اور دوسرے "دَم" کا مطلب لمحہ/وقت ہے۔