کلاس: دہم عنوان:
روداد نویسی تاریخ: 19 مارچ
2023ء
وقت : 45 منٹ مہارت:
لکھنا مواد: قلم، کاپی، تعلمی مواد،
ایس ایل او: پوسٹر یا تصویری خاکوں یا
کسی واقعہ اور منظر کو بیان کرتے ہوئے (آنکھوں
دیکھا حال )روداد لکھ سکیں۔
عنوان : گدھے
یہیں کے
کل ابا جی کی چھٹی
تھی اس لیے ہم نے دانیال کے ساتھ مل کر پہلے ہی ابا
جی کی موٹر سائیکل چلانے کا پروگرام
بنا لیا تھا۔ہمارے دونوں بڑے بھائی اور باجیوں
کو بھی اسکول و کالج سے چھٹی ہوئی تھی ۔اس لیے سب ہی بہت دیر سے بیدار ہوتے ہیں ۔کل
صبح موٹر سائیکل چلانے کی خوشی میں رات کٹنا دوبھر ہوگیا تھا، اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی ۔فجر کی اذان پر بیداری
ہوئی ۔اس وقت دانیال بھی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔ہم نے جاتے ہی اسے بیدار کرنا
چاہا، تو ایسا لگا کہ ہم کسی مردے کو جگا رہے ہوں۔گھبراہٹ میں فکر یہ لاحق تھی کہ ان صاحب کے چکر میں کوئی اور بیدار نہ ہوجائے
۔ جب وہ عزت سے بیدار نہ ہوئے تو ہم نے ان کی ناک بند کردی مگر ہماری عقل دیکھیں کہ ہم یہ بھول ہی گئے کہ موصوف
پیدائشی زکام کے مریض ہیں اور منہ سے سانس لیتے ہیں ۔ خیر جب منہ بند کیا تو بھائی
نے آنکھیں کھول دیں۔ "کیاہے"؟ انہوں نے خفا ہوتے ہوئے کروٹ بدلنے کی کوشش
کرتے ہوئے کہا ۔ "ار ے اٹھو بھئی"
ہم نے بہت زور دیتے ہوئے ان کی ٹانگ پکڑ کر کھینچی" ارے ابا جی کی موٹر سائیکل
نہیں چلانی کیا ۔۔۔"
ہمارے کہنے پر وہ صاحب جلدی سے اُٹھے اور ہم دونوں بہت احتیاط سے کمرے سے نکل کر پہلے
برآمدے میں آئے پھر ابا جی کی موٹر سائیکل
کی چابی نکال کر مزید احتیاط سے دروازہ کھول کر موٹر سائیکل نکال لی اور گلی سے ذرا
دُور لے جا کر اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔مگر موٹر سائیکل تھی کہ ٹس سے مس
نہیں ہو رہی تھی ۔۔اوپر سے مصیبت یہ کہ ہماری ٹانگیں کِک پر نہیں پہنچ رہی تھی ۔ اور
کِک میں اتنی طاقت تھی کہ بہت زور آزمائی کرنے کے باوجود بھی موٹر سائیکل اسٹارٹ نہیں
ہو پارہی تھی اور وقت تھا کہ رُک ہی نہیں رہا
تھا ۔صبح ہی صبح لوگوں کی چہل پہل کم ہوتی ہے ،حادثے کا امکان بھی کم ہوتا ہے اس لیے یہ وقت مناسب تھا ۔آخر بہت زور آزمائی کے
باوجود موٹر سائیکل اسٹارٹ نہ ہوئی تو طے یہ پایا کہ موٹر سائیکل کو دھکا دے کر اسٹارٹ
کیا جائے ۔یہ تجویز کار گر ثابت ہوئی اور ذرا سی طاقت آزمائی
سے گاڑی اسٹارٹ ہوگئی ۔بس پھر کیا تھا
گاڑی کو جیسے کہ پَر اور ہم سپر مین
بن گئے ۔دھکا لگا کر دانیال بیچارہ سانس پُھلائے
بیٹھا تھا۔ہم نے بہت دُور جاکر گاڑی روکی تو ہانپتا ہوا آیا اور موٹر سائیکل پر سوار ہو گیا ۔راستہ بالکل صاف اور
کُشادہ تھا اور صبح کے موسم کی تو بات ہی کیا
ہے ،ہمارا بھی چہچہانے کا جی چاہ رہا تھا ،گنگنانے کو جی چاہ رہا تھا
،ہم موٹر سائیکل بالکل درمیانی رفتار سے چلا
رہے تھے اور پوری ذمہ داری سے گاڑی کو سنبھالا
ہوا تھا ۔ جیسے ہی قبرستان کی طویل دیوار شروع
ہوئی ہم نے گاڑی کی رفتار کم کر لی کیونکہ آگے گٹر تھا ۔جس کا ڈھکنا غائب تھا ۔ وہ جگہ پار کرکے ابھی تک ہم نے
گاڑی ذرا آگے ہی بڑھائی تھی کہ اچانک ہی ایک گدھا سورا قبرستان میں سے تیزی سے نمودار
ہوا اور بڑی سڑک پر آتے ہی جیسے کہ گدھے کوبریک لگ گئے ۔ہم بیچارے شاہی کٹھولے پر سوار
گدھے کے یوں سڑک کے بیچوں بیچ رُک جانے پر حواس باختہ ہوگئے ۔موٹر سائیکل کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ہم نے فوراً بریک لگائی
۔گدھے سوارنے جو بُل فائٹر کو بے لگام اپنی طرف آتے دیکھا تو اس نے گدھے کودولتیاں بھی مار یں مگر تب تک دھڑام کی آواز کے
ساتھ موٹر سائیکل گدھے سے جاٹکرائی ۔دانیال
پیچھے بیٹھا تھا اور ہوشیار بھی تھا وہ محفوظ رہا جبکہ ہمارا منہ
گدھے کے فولادی سر سے ایسا ٹکرایا کہ ہمارے
آٹھوں طبق روشن ہوگئے ۔گدھے کا مالک گدھے کی چھت پر بیٹھا تھا اس لیے محفوظ رہا جبکہ ہماری موٹر سائیکل گدھے سے
ٹکرا کراس زور سے زمین پر گری کہ اس کا میٹر لائٹ
اور دو اشارے ٹوٹ گئے ۔ہینڈل ٹیڑھا
ہوگیا ،ہمیں بھی بڑ ی ذمہ دار چوٹیں لگی تھیں
مگر اپنی موٹر سائیکل کی حالت اور اب اپنی ہونے والی شامت یاد کرتے ہوئے ہمارا
دل خون کے آنسو بہا رہا تھا ۔ "گدھا چلانے کی تمیز نہیں ہے۔ یوں گدھا چلاتے ہیں۔۔؟" ہم نے بھناتے ہوئے گدھے اور سوار مالک کو ہاتھوں
ہاتھ لیا۔ "ارے میاں ! یہ خود ہی رک گیا ہے تم نے دیکھا نہیں کہ میں اسے راستے
سے ہٹانے کی کتنی کوشش کررہا تھا۔۔۔؟ گدھے سوار نے بدحواسی کی حالت میں عجیب سا
جواب دیا۔ " کیا خاک کوشش کر رہے تھے ، دیکھو تمہارے گدھے کو تو کچھ نہیں ہوا ،ہماری موٹر سائیکل کی کیا حالت
ہوگئی ہے۔۔ اور۔۔۔اور دیکھو ہم دونوں کو کتنی چوٹیں لگیں ہیں۔ہم نے اپنی آستین اور
شلوار ذرا اوپر اٹھا کر انہیں دکھائی تو خود بھی چکرا گئے کیونکہ واقعی ہم گدھے کی
مرہون ِ منت کچھ زیادہ ہی زخمی ہوگئے تھے ۔
"غلطی
ہوگئی بچو!مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا ڈھیٹ اور اڑیل ہے۔۔۔۔گدھے کے مالک نے اپنی
جان چھڑانے کے سے اندز میں کہا ۔ "تمہاری
غلطی ہوگئی اور ہمارا اتنا انقصان ہوگیا ۔۔۔ہمارا نقصان پورا کردو۔۔۔ورنہ ہم تجھے گدھا لیجانے نہیں دیں گے ۔ " ہم نے گدھے کی لگام مضبوطی سے اپنے قابو میں کرتے ہوئے کہا ۔ یہ سنتے
ہی گدھے کا مالک بدحواس ہوگیا اور عاجزی پر اتر آیا ۔ اُ س نے کہا "غلطی ہوگئی
۔ معاف کردو ۔اور اس وقت تو تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔اس نے جان
چھڑانے کے سے انداز میں روہانسی صورت بناتے
ہوئے کہا
۔ "کچھ بھی ہو ہمارا نقصان پورا کردو ۔
اتنی دیر میں چہل پہل شروع ہوگئی تھی اور لوگ تفریح اور صلح صفائی کرانے کے لیے آنا شروع
ہوگئے ۔سبھی گدھے کے مالک کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ایک لمبی چھڑی والے بابا جی نے
کہا چالیس پچاس ہزار کا گدھا لے کر گھوم رہا ہے ،بچوں کا اتنا نقصان ہوا ہے اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے ۔ نہیں دینا
اسے گدھا ۔۔۔جب تک یہ بچوں کا نقصان پورا نہیں کردیتا ۔۔۔اسے گدھا مت دینا ۔۔۔لوگوں
کے مشورہ دینے اور ڈھیٹ بن جانے پر ہمیں دلی
تسلی ہوئی اور اطمینان ہوا کہ لوگوں میں ا بھی بھی انسانیت باقی ہے ،خیر گدھے کا مالک اب بھلا کیا کرسکتا تھا ،مجبورً ا اس نے
ہتھیار ڈال کر گدھے کی لگام
ہمارے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے ،پکڑو اسے ۔۔۔۔میں ابھی پیسے لاتا ہوں
۔۔۔" یہ کہتے ہوئے وہ غصہ ہونے کے بجائے پاگل سا ہوکر جیسے کہ ہنسنے لگا پھر خراماں خراماں
چال چلتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر تیزی سے آگے
جا کر گلی میں مڑ گیا ۔
گدھے کی لگام پکڑ کر اب ہمیں قدرے سکون ہوا ،اب ابو جو کچھ ہمارے ساتھ کریں گے وہ
تو دنیا دیکھے گی مگر نقصان کا ازالہ ہوجانا یقیناً سب کو چپ کرا دے گا ۔موٹر سائیکل کا نقصان کوئی چھ سات سو روپے سے زیادہ نہیں ہوا تھا ۔اب
ہمیں اس کے آنے کا انتظار تھا ۔تکلیف بھی اب بڑھنے لگی تھی ۔ دانیال صحیح سویا نہیں تھا ۔ اس لیے گدھے سے ٹیک لگائے وہ بھی
اونگھنے لگا ۔اب وقت تھا کہ کٹنا مشکل ہورہا تھا ۔گدھے کا مالک ابھی تک نہیں آیا تھا
،ہم نے دعائیں بھی بہت کرلی تھیں اور یہ دعائیں
تو خاص طور پر کر لی تھیں کہ اللہ کرے
اماں ، ابا اور سب گھر والے سوتے ہی
رہیں ۔ پھر گدھے والے سے پیسے لے کر موٹر سائیکل ٹھیک کروائیں اور لے جا کر گھر میں کھڑی کردیں ۔کسی کو پتہ نہ چلے مگر وقت تھا کہ بڑھتا
اور سورج طلوع ہوتا جا رہا تھا ۔ مگر وہ نہیں آیا ۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد دو موٹر سائیکلوں پر چار سوار نمودار ہوئے ۔ ابھی وہ کسی طرف جانے
ہی والے تھے کہ ہمیں دیکھتے ہی وہ جیسے چیختے ہوئے بولے ۔۔ "ارے یہ رہا ۔۔۔ان کے لبیک کہنے پر ہم
کچھ نہ سمجھے ،، انہوں نے آتے ہی گدھے کی بلائیں
لینا شروع کر دیں ۔
"یہی ہے۔۔۔ہاں ۔۔ہاں یہی ہے ۔۔۔" ان صاحب کے کہتے ہی دیگر سوار
بھی آگئے ،ان میں سے ایک صاحب نے ہمارے گریبان پکڑ کر کھینچا اور کہا ۔ "ارے چھچھوندر کے کام تو دیکھو
۔۔۔ اس سے پہلے وہ ہمیں ہمارا قصور بتائے بغیر
پٹائی کرتے ہم نے پہلے ہی بھاں ۔۔۔بھاں رونا
شروع کردیا ۔۔ہمیں روتا دیکھتے ہی چند لوگ
پھر تفریح لینے کے لیے آگئے تو پتا چلا کہ
یہ گدھا رات ہی چوری ہوا ہے اور کھوجی
نے یہی نشاندہی کی تھی کہ گدھا قبرستان میں سے گزرا ہے۔اب ہم تہری مصیبت میں مبتلا تھے ۔ آج گدھے کے ہاتھوں بُرے پھنسے تھے
کئی صاحباں نے ہماری بے گناہی کی گواہی دی مگر ان صاحب نے کسی کی نہ سنی ۔وہ چھڑی والے بابا جی بُری مصیبت میں پھنسوا کر واپس نہ آئے اور نہ
وہ گدھے والا۔۔خیر اس نے تو کمبخت آنا ہی نہیں تھا ،یہ بھی کوئی انسانیت ہے کہ انہوں نے کسی کی نہیں سنی اور ہمیں زبردستی تھانے لے گئے ۔ اُ س روز خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ میں پولیس والوں کی انسانیت اور خدا کی طرف سے مدد ملنے پر یقین ہوگیا ۔ انہی پولیس والوں نے ان
چاروں لوگوں اور ہمارے اماں ، ابا کے غضب سے جان بخشی کرائی ۔ بلکہ نقصان کا خرچہ بھی دلایا
۔انہوں نے کہا شکر کرو کہ گدھا ہوشیار تھا، موٹر سائیکل کے سامنے ہی آکر اڑیل بن کر کھڑا ہو
گیا ۔ آگے ہی پھاٹک ہے اگر یہ ریلوے لائین پر کھڑا ہو جاتا تو تمہیں اس کی دُم بھی نہیں ملتی ۔ اس روز اماں
،ابا نے تو کچھ نہیں کیا ۔ کہا تو بہت کچھ ۔۔۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگلے ہی ہفتے
سالانہ امتحانات ہونے والے تھے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔