غزل:
لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں
کلام: مظفر احمد ظفر
لگے
ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں
جو
زخم گہرا تھا، بھر گیا مگر لگے گا نہیں
وفا
کی بات کریں یا جفائیں یاد کریں
یہ
قصہ اب ختم ہوا، مگر لگے گا نہیں
تمام
عمر خوشی کی طلب میں کٹ تو گئی
پوری
ہوگی اب تمنا، مگر لگے گا نہیں
حالِ دل، آنکھوں نے سب بیاں کر دیا
لبوں
پہ بات رکی، پر کہا، مگر لگے گا نہیں
نہ
آنکھ بند کرو، یہ نہ ہو کہ دھوکہ کھاؤ
جو
پاس ہے وہ معتبرتھا، مگر لگے گا نہیں
وفا کی بات ختم ہوئی ، یاں سب بدل گئے
جو
آج وعدہ کرے نباہ، مگر لگے گا نہیں
یہ
عشق ایسا سمندر ہے، ڈوبنا شرط ہے
بچاؤ
خود کو، کوئی کنارہ مگر لگے گا نہیں
کہاں
سے لاؤں وہ دنیا، سکوں جہاں پہ ملے
یہ
شہر شہر کا عالم ہے، بسیرا مگر لگے گا نہیں
دل کا حال سنائیں کسے، کسے بتائیں ظفرؔ
ہم
درد کوئی ہے، بچا مگر لگے گا نہیں