اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

ہفتہ، 8 فروری، 2025

تبصرہ نگاری کے چندنمونے

  

تبصرہ نگاری کے چندنمونے

سوشل میڈیا کے آج کل کی نئی نسل پر پڑنے والے اثرات پر تبصرہ کیجیے۔

سوشل میڈیا آج کے دور میں زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے، مگر اس کا بچوں کی زندگی پر کئی منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ بچوں کا زیادہ وقت سوشل میڈیا پر صرف کرنا نہ صرف ان کی تعلیم اور تخلیقی سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔

منفی اثرات:

1. وقت کا ضیاع:

سوشل میڈیا پر غیر ضروری مواد دیکھنے میں بچے قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

2. ذہنی دباؤ اور حسد:

سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگی کے مثالی پہلو دیکھ کر بچے اپنی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں، جس سے احساس کمتری اور ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔

3. نامناسب مواد:

بچے اکثر ایسے مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جو ان کی عمر کے لیے مناسب نہیں ہوتا، جس سے ان کی اخلاقیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

4. صحت کے مسائل:

زیادہ وقت سکرین کے سامنے گزارنے سے بچوں کو جسمانی مسائل جیسے نظر کی کمزوری اور نیند کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

5. سماجی تنہائی:

سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال بچوں کو حقیقی دنیا سے دور کر دیتا ہے، جس سے ان کے سماجی تعلقات اور اعتماد پر منفی اثر پڑتا ہے۔

رائے:

سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن اس کا بچوں پر بڑھتا ہوا منفی اثر تشویش ناک ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان کے وقت کا تعین کریں تاکہ وہ سوشل میڈیا کو متوازن طریقے سے استعمال کر سکیں۔ بچوں کو سوشل میڈیا کے بجائے مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کا بڑھتا ہوا رجحان ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ اپنا تبصرہ لکھیے۔

جی ہاں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کا بڑھتا ہوا رجحان ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی روزمرہ کے کاموں کو سہل اور مؤثر بنا رہی ہے، مگر اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ چند چیلنجز اور خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مثبت اثرات:

1. کارکردگی میں اضافہ:

مصنوعی ذہانت روزمرہ کے کاموں کو خودکار بنا کر وقت اور توانائی کی بچت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، گھریلو آلات، آن لائن خریداری، اور سمارٹ اسسٹنٹس جیسے ایلیکسا اور سیری نے زندگی کو سہولت فراہم کی ہے۔

2. تعلیم اور صحت میں انقلاب:

اے آئی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے، جیسے آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز اور پرسنلائزڈ لرننگ۔ اسی طرح، صحت کے شعبے میں اے آئی تشخیص، سرجری، اور مریضوں کی دیکھ بھال کو جدید بنا رہا ہے۔

3. کاروباری دنیا میں جدت:

اے آئی کاروباری فیصلے کرنے، مارکیٹنگ، اور صارفین کی ضروریات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جس سے معیشت میں بہتری آتی ہے۔

منفی اثرات:

1. روزگار کے مواقع کم ہونا:

مصنوعی ذہانت کی وجہ سے کئی ملازمتیں خودکار ہو رہی ہیں، جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

2. نجی زندگی میں مداخلت:

اے آئی پر مبنی نظام جیسے فیس ریکگنیشن اور ڈیٹا مانیٹرنگ لوگوں کی پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

3. انسانی انحصار میں اضافہ:

مصنوعی ذہانت کے زیادہ استعمال سے لوگ خود کام کرنے کے بجائے مشینوں پر انحصار کرنے لگتے ہیں، جس سے تخلیقی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

4. اخلاقی مسائل:

اے آ ئی کے غلط استعمال جیسے جعلی خبریں، ڈیپ فیک ویڈیوز، اور ہیکنگ معاشرتی بگاڑ کا سبب بن سکتے ہیں۔

رائے:

مصنوعی ذہانت بلاشبہ زندگی کے کئی پہلوؤں میں سہولت فراہم کر رہی ہے، لیکن اس کے مثبت اور منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے استعمال کو ذمہ داری کے ساتھ فروغ دینا ضروری ہے۔ حکومت، تعلیمی ادارے، اور معاشرہ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ اے آئی کے فوائد تمام افراد تک پہنچیں اور اس کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔

تبصرہ: پاکستانی جمہوریت میں اوورسیز پاکستانی سیاستدانوں کامقام

             ایک اوور سیز پاکستانی کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے جیسے پڑھے لکھے عالمی ایکسپوژر رکھنے والے اوورسیز پاکستانی ووٹ ڈالنے کے عمل کا اور پاکستان کی پارلیمان کا حصّہ بنیں گے تو آپ کو گامے ماجھے قسم کی سڑک چھاپ لڑائیاں اور گلی کے نکڑ پر تھڑے باز قسم کے لوگوں کی گالیاں اور زبان اعلیٰ ترین ایوان میں نظر نہیں آئے گی نہ قوم کا پیسہ ضائع ہوگا۔ہم تو خود سب سے زیادہ پیسہ پاکستان بھیج کر آپ کی معیشت کو ترسیلات زر کا سہارا دیتے ہیں۔

 دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک  میں بھی دہری شہریت والے کو ووٹ کا حق حاصل ہے وہ پارلیمان کا ممبر بھی بن سکتا ہے وہاں اس کی وفاداری پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔کیونکہ وہاں کی پارلیمان میں سلجھے انداز سے پڑھے لکھے سنجیدہ ممبران اپنے عوام کے فائدے کے لیے بحث اور قانون سازی کرتے ہیں۔

 یہ والی بات تو ان کی درست تھی لیکن نجانے کس بات کا غصّہ یا رَنج تھا، شاید گذشتہ دنوں پارلیمان کی ہوئی توہین کا یا شاید منتخب نمائندوں کے اخلاق باختہ بازاری رویے کا یا شاید عوامی پیسے اور وقت کے ضیاع کا یا پھر شاید دن بدن تنزلی کا شکار قومی اخلاقیات کا اور اپنے ملک اپنی قوم کو پستی کی اندھی گہری دلدل میں مسلسل دھنستے چلے جاتے ہوئے دیکھنے اور کچھ نہ کر پانے کا رنج اور غصہ۔

 بہرحال ویسے  تو مہذب دنیا کے کئی پارلیمانوں کے ایسے واقعات  ہوئے ہیں جہاں پارلیمینٹ کے ایوانوں میں ایسا ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ!

اور دوسرا اگر آپ کو دیگر ممالک کی پارلیمان ہمارے ہاں سے بہتر لگتی ہے تو آپ وہیں کے لیے ووٹ کاسٹ کیجیے نا اور وہیں کے ممبر بنیے۔ ہمارے ہاں کیوں بدیس سے اخلاقیات کا عَلَم گاڑنے آنا چاہتے ہیں۔

 ایسی پارلیمان جو تاریخی اعتبار سے کمزور رہی ہے جس پر کئی بار شب خون مارا گیا جس کی توقیر اور بالادستی کو کئی بار بھاری بھر کم بوٹوں تلے روندا گیا ہو جو آج بھی محض ربر سٹیمپ کی حیثیت سے تصور کی جاتی ہو۔ اس  کی  عزت و توقیر  بحال کرنے کیلیے مناسب قانون سازی ضروری ہے۔

بہتر ہوگا کہ  قانون سازی کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو دوہری شہریت  رکھنے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔

  

تبصرہ: مہنگائی

مہنگائی انسان کے ایک ایسے فعل کا نام ہے۔جس میں ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کو اُن کے مُنصفانہ اور اعتدالانہ نرخ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے۔اسلامی تعلیمات میں اس عمل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔اور اس عمل کو ظلم کہا گیا ہے۔

مہنگائی کے غیر مُنصفانہ اور غیر عادلانہ عمل سے سماج کا کمزور اور افلاس زدہ طبقہ دولت مندوں ۔سرمایہ داروں اور امیروں کے ہاتھوں دب کر رہ جاتا ہے۔اور یوں سرمایہ دار روز بروز امیر اور دولت مند ہوتا چلا جاتا ہے۔

اللہ نے اپنی مقدس کتاب قُران کے زریعے نوعِ انسان پر اسی لیے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا ہے۔تاکہ سرمایہ دار طبقہ کے سرمایہ کا ڈھائی فیصد حِصہ وصول کر کے ان غریبوں اور مساکین کو دیا جائے۔اور یوں سماج کے غریب طبقہ کو غُربت کی اُس سطح سے اوپر اُٹھا کر کسی حد تک غُربت سے نجات دلائی جاۓ اور امیر کو مزید امیر بننے سے روکا جاٸے۔ تاکہ امیر اور غریب کے درمیان کا تفاوُت ختم ہو جائے۔

 بقول علامہ اقبال

صاحب ِ تاج و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

 انسانی سماج میں جب آسمانی عدل وانصاف کا عقیدہ باقی نہ رہے۔تو پھر ایسا سماج مہنگائی جیسے ظُلم و نا انصافی کے ہتھکنڈوں سے اللہ کی مخلوق کے حقوق کو پامال کرنے میں لگ جاتا ہے۔ایسا انسانی سماج ُان بھوکے بھیڑیوں کی طرح بن جاتا ہے۔ جو بے زبان انسانی بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں میں داخل ہو کر ان کا خون چوسنے میں لگ جاتا ہے۔شاید ایسے ہی شکلِ انسانی بھیڑیوں کے  لیے شاعر نے ایک جگہ یوں لکھا ہے۔

 

کس قدر وحشی ہیں یہ انسانیت کے نامدار؟

بھیڑیے جنگل کے جن کو دیکھ کر ہیں شرمسار

حق تعالیٰ سے ظفر ہے میری یہی دُعا

سنگدل انساں کو آئے رحم اور خوفِ خُدا ”

 

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔

 

تبصرہ بعنوان:*ووٹ کی طاقت کا درست استعمال*

 پاکستان میں ووٹ کی طاقت ایک نہایت اہم اور مؤثر ذریعہ ہے جسے صحیح طریقے سے استعمال کر کے عوام سیاست دانوں کے جھوٹے دعوؤں اور سبز باغ دکھانے کی سیاست کو روک سکتے ہیں۔ ووٹ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کا بنیادی حق ہے اور ان کی پسند کا مظہر بھی۔ اگر عوام اپنی ووٹ کی طاقت کو صحیح معنوں میں استعمال کریں اور شعور کے ساتھ فیصلہ کریں تو اس سے سیاست دانوں کو جوابدہ بنایا جا سکتا ہے اور انہیں صرف بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حقیقی خدمات فراہم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

 

بدقسمتی سے، پاکستان میں کئی سیاست دان انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں اور عوام کو ترقی، خوشحالی اور بہتر مستقبل کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر انتخابات کے بعد جب یہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو وہ وعدے اور دعوے کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ عوام کو بارہا دھوکا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اعتماد کا فقدان پیدا ہو چکا ہے۔ لیکن اگر عوام سیاست دانوں کے انتخابی ماضی، کارکردگی اور ان کے حقیقی منصوبوں کا جائزہ لے کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں تو یہ چکر روکا جا سکتا ہے۔

 

عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی شعور پیدا کریں، سیاست دانوں کی کارکردگی اور ان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر نظر رکھیں اور جھوٹے دعوے کرنے والے سیاست دانوں کو ووٹ دینے سے اجتناب کریں۔ اس طرح، سیاست دانوں کو معلوم ہو گا کہ عوام اب جھوٹے وعدوں پر یقین نہیں کرتے، بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ ووٹ کے اس طاقتور ہتھیار کے ذریعے عوام ایسے نمائندوں کو منتخب کر سکتے ہیں جو واقعی ان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہوں۔

جیسا کہ ایک شعر میں کہا گیا ہے:

بس اک فیصلہ ہی بدلے گا زمانے کا رخ،           ووٹ کی طاقت سے ہو گا انقلاب کا سفر

 یہ شعر ووٹ کی طاقت کو بیان کرتا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر عوام ایک مرتبہ سمجھداری سے فیصلہ کریں تو اس سے انقلاب آ سکتا ہے۔ اس لیے ووٹ کو سنجیدگی سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ سیاست میں تبدیلی لائی جا سکے اور صرف وہی لوگ اسمبلی میں پہنچ سکیں جو عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں۔

 

تبصرہ:  *پاکستان میں افواہ سازی اور صحافتی برادری کا کردار*

 پاکستان میں افواہ سازی اور صحافتی برادری کا کردار ایک پیچیدہ اور اہم موضوع ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں سوشل میڈیا اور آن لائن ذرائع ابلاغ نے خبروں کی رسائی کو بے حد آسان بنا دیا ہے، وہیں افواہوں اور غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ صحافتی برادری کا کردار اس صورتحال میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کا کام عوام کو مستند، باوثوق اور غیر جانبدارانہ معلومات فراہم کرنا ہے۔

 بدقسمتی سے، پاکستان میں بعض اوقات صحافی اور میڈیا ادارے سنسنی خیز خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہ افواہیں اکثر سیاسی مقاصد، ذاتی مفادات، یا عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں، جس سے عوام میں بےچینی اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ میڈیا ادارے تحقیق کیے بغیر خبروں کو نشر کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے جھوٹے بیانیے اور افواہیں مزید پروان چڑھتی ہیں۔

 

اس کے برعکس، پاکستان میں ایسے باصلاحیت اور ذمہ دار صحافی بھی موجود ہیں جو حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے ذریعے عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صحافی اپنے فرائض کو سنجیدگی سے نبھاتے ہیں اور معلومات کی تصدیق کرنے کے بعد ہی عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لیکن، آزاد صحافت اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں، جن میں دباؤ، سنسرشپ، اور مالی وسائل کی کمی شامل ہیں۔

 صحافتی برادری کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو ترجیح دے اور افواہوں کے خلاف سخت رویہ اپنائے۔ اس کے علاوہ، میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے صحافیوں کو تربیت دیں کہ وہ ہر خبر کی تصدیق کریں اور صحافت کے اصولوں کو مدنظر رکھیں۔ ایک مضبوط، ذمہ دار اور آزاد صحافت ہی ملک کو صحیح سمت میں لے جا سکتی ہے۔

کسی شاعرنےکیا خوب کہاہے:

خبروں کے بازار میں سچ کی قدر گھٹ گئی،           سچ بولنے والے کے حق میں صدائیں کم ہوئیں

 یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سچائی کی قدر اس دور میں کم ہوتی جا رہی ہے، اور سچ بولنے والوں کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں۔ صحافتی برادری کا کردار ہے کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔

 

تبصرہ :  *پاکستان میں حقوقِ نسواں اور عام انسانی حقوق کی پامالی*

 پاکستان میں حقوقِ نسواں اور عام انسانی حقوق کی پامالی ایک سنگین مسئلہ ہے جو مختلف معاشرتی، اقتصادی اور قانونی مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں کئی مسائل پائے جاتے ہیں جن میں جبری شادی، گھریلو تشدد، تعلیم اور ملازمت کے مواقع کی کمی، اور سماجی نابرابری شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو خاص طور پر اپنی بنیادی انسانی حقوق تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور کئی جگہوں پر انہیں وراثت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ، عام انسانی حقوق کی پامالی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ صورتحال خاص طور پر نچلے طبقے، اقلیتوں اور مزدور طبقے کے لوگوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ انہیں اکثر انصاف، تعلیم، اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوتے اور ان کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عام انسانی حقوق جیسے تعلیم، صحت اور آزادی اظہار کا حق اکثر پالیسیوں یا روایتی پابندیوں کے باعث متاثر ہوتے ہیں۔

 

ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کچھ قانون سازی ضرور موجود ہے، مگر ان پر عملدرآمد کے معاملے میں شدید کمی پائی جاتی ہے۔ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی سست روی کا شکار ہے اور اکثر اوقات سیاسی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے متأثرہ افراد کو انصاف نہیں مل پاتا۔ اس کے علاوہ، معاشرتی رویے بھی حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فروغ دیتے ہیں کیونکہ کئی طبقات میں مردوں کو خواتین پر برتری دی جاتی ہے۔

 حکومت اور مختلف تنظیموں کی جانب سے اس صورتحال میں بہتری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، مگر یہ مسئلہ اتنا گہرا ہے کہ اس کے حل کے لیے تعلیم و آگاہی اور مؤثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ، سماجی رویوں میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔

جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

حقوق کی باتیں تو ہر بزم میں ہیں جاری،   

 مگر حقیقت میں زخموں پہ نمک پاشی ہیں ساری 

یہ شعر ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جہاں حقوق کی باتیں تو کی جاتی ہیں، مگر حقیقت میں ان پر عمل کرنے کے بجائے انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔

تبصرہ :  پاکستان کا شعبہ صحت

 

پاکستان میں شعبہ صحت کی صورتحال کئی پہلوؤں سے انتہائی پیچیدہ اور تشویشناک ہے۔ صحت عامہ کے مسائل کی جڑیں غریب عوام تک پھیلی ہوئی ہیں، جو کہ بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ بیشتر دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں ہسپتال اور کلینک نہ ہونے کے برابر ہیں، اور جہاں یہ سہولیات موجود بھی ہیں، وہاں وسائل، عملہ، اور جدید آلات کی کمی کی وجہ سے عام لوگوں کو معیاری علاج میسر نہیں ہوتا۔

 بڑے شہروں میں بڑے ہسپتال ضرور ہیں، مگر وہاں پر بھی مریضوں کی بھیڑ، طبی عملے کی کمی اور مہنگے علاج کی وجہ سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج اکثر غیر معیاری ہوتا ہے، جبکہ نجی ہسپتالوں میں علاج اتنا مہنگا ہے کہ غریب یا متوسط طبقے کے افراد کی پہنچ سے دور ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ تر افراد یا تو علاج کروانے سے رہ جاتے ہیں یا نیم حکیموں کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں، جو کہ ان کی صحت کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

 حکومتی سطح پر شعبہ صحت کے لیے بجٹ بھی ناکافی ہے، اور جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ بدانتظامی اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی تربیت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی، جس سے مریضوں کی شکایات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

عوام کی صحت کا تحفظ اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر اس جانب فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ مسائل آنے والے وقت میں مزید بگڑ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے، بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے، اور دیہاتی علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے۔

جیسا کہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہر طرف ہے بیماری ، یہ کیسی زندگانی ہے

 مستقبل غیر محفوظ اور بے سروسامانی ہے

یہ شعر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جب بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تو زندگی کی بقا ہی مشکل ہو جاتی ہے۔

 

تبصرہ : مہنگائی کی چکی میں پستی عوام

 آج کے دور میں مہنگائی ایک ایسا جن بن چکی ہے جو ہر گھر میں بے قابو ہو چلا ہے۔ کبھی وقت تھا جب عام آدمی اپنی ضرورت کی چیزیں آسانی سے خرید لیا کرتا تھا، مگر آج کل تو جیسے ہر چیز کا بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ چاول، آٹا، دالیں اور سبزیاں بھی ایسے مہنگے ہو گئے ہیں جیسے ان میں سونا ملا ہو۔

 حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ عام آدمی کی زندگی مشکل میں گھری نظر آتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا آج کے بعد اپنے بچوں کو اچھی تعلیم، اچھا کھانا یا اچھی زندگی دے پائے گا یا نہیں۔ صرف ضروریاتِ زندگی ہی نہیں، دوائیں اور علاج بھی اتنے مہنگے ہو چکے ہیں کہ بیمار ہونا بھی ایک "لگژری" بنتا جا رہا ہے۔

 مزدور طبقہ، جس کی روز کی آمدنی بس اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے، اس مہنگائی کی چکی میں سب سے زیادہ پس رہا ہے۔ جب روز مرہ کی بنیادی چیزیں بھی دسترس سے باہر ہو جائیں تو انسان کا دل تو یہی کہتا ہے:

بڑھتی قیمتوں سے دلوں میں درد ہے پیدا،

    اب تو جینا بھی لگتا ہے اک خواب سا۔

 حکومتوں کی جانب سے کبھی کبھار مہنگائی کو کم کرنے کے وعدے تو سنائی دیتے ہیں، لیکن عملاً عوام کی مشکلات بڑھتی ہی جاتی ہیں۔

  اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، ورنہ مہنگائی کا یہ طوفان عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکلات کی طرف دھکیل دے گا۔

 

تبصرہ   عنوان: مہنگائی کا دیو اور عوام کا حال

مہنگائی کا دیو آج کل ہمارے گھروں میں یوں دندناتا پھر رہا ہے جیسے ہماری دعائیں سنے بغیر فیصلہ کر چکا ہو کہ کسی کو بھی جینے نہیں دے گا۔ پہلے جو چائے کا کپ سکون کا ذریعہ ہوتا تھا، اب وہ کپ بھی خاندانی میٹنگ میں زیر بحث آتا ہے کہ آخر اتنا خرچ کس کے بس میں ہے! گویا چائے پینا بھی "قسطوں" پر چل رہا ہے۔

 ہمارے بزرگ قصے سناتے ہیں کہ ان کے زمانے میں سبزیاں، دالیں اور چاول کیسے با آسانی میسر ہوتے تھے۔ مگر اب، پیاز اور ٹماٹر خریدنا بھی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم نے کوئی "اسٹاک ایکسچینج" میں سرمایہ کاری کر دی ہو! دو دن پہلے جو قیمت تھی، اگلے دن اس سے دگنی ہوتی ہے۔

 بازاروں میں جاؤ تو لگتا ہے کہ سبزی فروش، گوشت فروش اور دکاندار سب کی ملی بھگت ہے، ایک ہی مقصد کہ "جیب سے جان نکالو۔" اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی چیز سستی ہو جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے دکاندار نے ہمیں خیرات دے دی ہو!

گویا مہنگائی کی صورتحال کچھ یوں ہے:

آسمان کی بلندی پر قیمتیں ہیں، 

 زمین پر انسان بے قیمت سا ہے۔

 مہنگائی کا یہ دیو کب قابو میں آئے گا، یہ سوال تو شاید اب ہر پاکستانی کے لبوں پر ہے۔ شاید مستقبل میں ہمیں ایک نیا کھیل کھیلنا پڑے گا جس کا نام ہوگا "پیسے بچاؤ، کچھ بھی خرید پاؤ"۔

 

تبصرہ: سیاسی عدم استحکام – ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

 

سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایک مستحکم حکومت اور پائیدار سیاسی نظام ہی کسی ملک کو معاشی اور معاشرتی سطح پر ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکتا ہے۔ جب ملک میں سیاسی صورتحال غیر یقینی ہو، حکومتیں بار بار تبدیل ہوتی رہیں، اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں، تو اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے اور پالیسیز متاثر ہوتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کو اپنے سرمائے کے تحفظ کا یقین نہیں ہوتا۔

 

سیاسی عدم استحکام سے سرکاری ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں، اور ان میں بدعنوانی اور نااہلی کا رجحان بڑھتا ہے۔ جب حکومتیں اپنی پالیسیوں کو مستقل طور پر نافذ نہیں کر پاتیں اور بار بار نئی حکمتِ عملیوں کو اپنانا پڑتا ہے تو اس سے عوام میں اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں، روزگار کے مواقع محدود ہوتے ہیں، اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

سیاسی استحکام ملکی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد حکومت ہی دیرپا ترقیاتی پالیسیز متعارف کروا سکتی ہے۔ جب ملک میں سیاسی استحکام ہوتا ہے، تو لوگ اور سرمایہ کار اس میں سرمایہ لگانے سے گھبراتے نہیں، اور معاشرتی فلاح و بہبود کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس لیے، سیاسی استحکام کسی بھی ملک کے لیے کامیابی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

 

تبصرہ: معاشرے میں امن کے لیے برداشت اور رواداری کی ضرورت

 معاشرے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے برداشت اور رواداری جیسے اوصاف نہایت اہم ہیں۔ جب افراد اپنے خیالات، نظریات، اور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں تو ایک خوشگوار اور پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ برداشت کا مطلب ہے کہ انسان دوسروں کی رائے کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ رکھے، چاہے وہ اس سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ رواداری، اس کے برعکس، ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی، ثقافتی، اور سماجی اختلافات کا احترام کرنا سکھاتی ہے۔

 

برداشت اور رواداری کی کمی سے معاشرت میں اختلافات بڑھتے ہیں اور یہی اختلافات جھگڑے اور عدم برداشت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جب معاشرت میں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہونے لگتے ہیں، تو یہ نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ اور ناانصافی کو بھی جنم دیتا ہے۔ ان رویوں سے دوسروں کی عزت اور ان کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور معاشرہ انتہاپسندی اور شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

 

ایک پرامن معاشرت کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں دوسروں کو برداشت کرنے اور احترام کے ساتھ اختلاف کرنے کی صلاحیت ہو۔ رواداری اور برداشت کا مادہ ایک ایسی قوت ہے جو مختلف نظریات کو ہم آہنگی سے چلنے دیتی ہے اور معاشرتی سطح پر امن و سکون کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس طرح کے رویے افراد میں باہمی محبت، بھائی چارے، اور ایک مضبوط رشتے کو فروغ دیتے ہیں، جو کہ کسی بھی معاشرت کی اصل ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

 

تبصرہ: *آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن غلامی کے مترادف*

 آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن لگانا کسی بھی معاشرت کے لیے غلامی کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی حق ہے جس کے ذریعے فرد اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے اور اپنے سماجی، سیاسی، اور مذہبی نظریات کو سامنے لاتا ہے۔ جب اس آزادی پر پابندی لگائی جاتی ہے تو نہ صرف فرد کی ذاتی آزادی سلب ہوتی ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اظہارِ رائے پر پابندی عموماً ایسے معاشروں میں ہوتی ہے جہاں حکمران طبقے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے عوام کی سوچ پر پہرا بٹھاتے ہیں۔

 آزادیِ اظہارِ رائے کا فقدان انسان کو احساسِ کمتری، مایوسی اور ناامیدی کی طرف دھکیلتا ہے، اور وہ معاشرتی بگاڑ اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی قدغنیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیتی ہیں اور لوگوں کے درمیان بے اعتمادی کو جنم دیتی ہیں۔ آزادیِ رائے کی کمی معاشرت میں تنقید اور اصلاح کے دروازے بند کر دیتی ہے اور ایک جمود پیدا ہوتا ہے جس سے معاشرہ ترقی نہیں کر پاتا۔

 اگر معاشرت میں افراد کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات اور نقطۂ نظر بیان کرنے کی اجازت ہو تو یہ معاشرت کی بہتری اور ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی دراصل معاشرت میں تنوع، سوچ کی وسعت، اور نئے خیالات کو جنم دیتی ہے جو کہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے ترقی کی ضامن ہیں۔ اس لیے، آزادیِ اظہار پر قدغن لگانا ایک ایسے بوسیدہ معاشرت کی علامت ہے جو لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف ہے۔

 

تبصرہ: بےروزگاری اور بے کاری – معاشرتی ترقی میں رکاوٹ

 بےروزگاری اور بے کاری کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بےروزگاری کا مطلب ہے کہ انسان اپنی قابلیت اور محنت کے باوجود روزگار حاصل کرنے سے محروم ہے، جبکہ بے کاری وہ حالت ہے جب فرد کے پاس وقت تو ہوتا ہے مگر اسے مثبت سرگرمیوں میں صرف کرنے کے مواقع نہیں ملتے۔ ان دونوں مسائل کا شکار زیادہ تر نوجوان طبقہ ہوتا ہے، جو ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

 بےروزگاری کی وجوہات میں معیاری تعلیم کی کمی، تیزی سے بڑھتی آبادی، اور محدود روزگار کے مواقع شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوتی ہے، جو معاشرتی بگاڑ اور جرائم کے بڑھنے کا سبب بنتی ہے۔ دوسری طرف، بے کاری کے اثرات میں وقت کا ضیاع، اور لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا زوال شامل ہے، جس سے سماج میں بےچینی اور غیر فعالیت بڑھتی ہے۔

 

ان مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب حکومت، تعلیمی ادارے، اور عوام مل کر کوشش کریں۔ جدید تعلیم اور ہنر مندی کو فروغ دینا، نئی صنعتیں قائم کرنا اور نوجوانوں کو کاروباری مواقع فراہم کرنا بےروزگاری میں کمی لا سکتا ہے۔ بے کاری کو کم کرنے کے لیے لوگوں کو مثبت سرگرمیوں اور سماجی خدمات کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف افراد کو روزگار ملے گا بلکہ معاشرتی خوشحالی اور استحکام میں بھی اضافہ ہوگا۔

 

*تبصرہ:                رشوت ستانی اور اقربا پروری*

پاکستان میں بڑھتی ہوئی رشوت ستانی اور اقربا پروری نہ صرف معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ملک کی ترقی اور انصاف کے تقاضے بھی پس پشت ڈال رہی ہیں۔ رشوت ستانی کا ناسور ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکا ہے، چاہے وہ سرکاری ادارے ہوں، تعلیمی ادارے ہوں، یا نجی کاروبار۔ روزمرہ کے معمولات میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ سرکاری کام کروانے کے لیے معمولی کام بھی رشوت کے بغیر ممکن نہیں رہے، جس سے غریب اور دیانت دار شہریوں کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

اقربا پروری کا رجحان بھی اسی حد تک نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ملازمتوں میں میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا جا رہا ہے، جس کے باعث حقیقی طور پر اہل لوگ اپنے حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس عمل سے نہ صرف معاشرتی عدم توازن میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ نوجوان نسل میں نا امیدی اور بے یقینی کی کیفیت بھی بڑھ رہی ہے۔

 رشوت ستانی کے بارے میں ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔" (جامع ترمذی)

جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے:

جس قوم میں ہو رشوت کا چلن، زوال آتا ہے

حق چھپ جاتا ہے اور باطل کا کمال آتا ہے

بدقسمتی سے، رشوت ستانی اور اقربا پروری کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت قوانین اور نگرانی کے باوجود ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

درج ذیل تجاویز پر عمل کر کے ہم رشوت ستانی اور اقربا پروری جیسے مسائل کو کافی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

1. *قوانین کی سختی اور موثر نفاذ* : رشوت ستانی اور اقربا پروری کے خاتمے کے لیے موجودہ قوانین کو مزید سخت بنانا اور ان کا موثر نفاذ کرنا ضروری ہے۔ عدالتی نظام کو مستحکم بنا کر جلد اور شفاف کارروائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ جرم ثابت ہونے پر فوری سزا دی جا سکے۔

2. *تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم* : تعلیمی اداروں میں اخلاقیات، دیانت داری، اور انصاف کے اصولوں کو شامل کیا جائے۔ بچوں کو بچپن سے ہی رشوت اور اقربا پروری کی برائیوں سے آگاہ کرنے سے آنے والی نسلیں ان سے بچنے کی کوشش کریں گی۔

3. *شفافیت اور جواب دہی* : سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور ہر سطح پر جواب دہی کا نظام بنایا جائے۔ اس کے لیے احتسابی نظام کو مزید مضبوط کیا جائے اور ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو رشوت ستانی کی شکایات پر فوری کارروائی کر سکیں۔

4. *آن لائن نظام کا فروغ* : زیادہ سے زیادہ سرکاری امور کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، جس سے انسانی عمل دخل کم ہوگا اور رشوت کے مواقع بھی محدود ہو جائیں گے۔ مختلف خدمات کو آن لائن فراہم کرنے سے شفافیت بڑھے گی اور اقربا پروری کی روک تھام ہوگی۔

5. *دیانت دار قیادت* : حکومت اور اداروں میں ایسے افراد کو قیادت دی جائے جو خود دیانت دار اور ایماندار ہوں۔ قیادت کی ایمانداری باقی افراد پر مثبت اثر ڈالتی ہے اور ایک اچھی مثال قائم کرتی ہے۔

*تبصرہ : سیاسی عدم استحکام*

 پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجوہات پیچیدہ اور متنوع ہیں، جن میں مختلف داخلی اور خارجی عوامل شامل ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کا مطلب حکومتوں کی تبدیلی، پالیسیوں کی غیر تسلسل، عوامی بے چینی، اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلسل کشمکش ہے۔ اس صورتحال کا براہ راست اثر ملک کی معیشت، سماجی ڈھانچے اور بین الاقوامی ساکھ پر پڑتا ہے۔

1. کمزور جمہوری روایات: پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کا فقدان رہا ہے۔ فوجی آمریتیں اور سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا ہے۔ حکومتیں مختصر مدت کے لیے بنتی ہیں اور اکثر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتی ہیں، جس سے ملک میں استحکام پیدا نہیں ہو پاتا۔

2. اداروں کی مداخلت: سیاسی عدم استحکام کی ایک اہم وجہ ملک کے مختلف اداروں، خاص طور پر فوج اور عدلیہ کی مداخلت ہے۔ جب غیر سیاسی ادارے حکومت کے معاملات میں شامل ہوتے ہیں تو حکومتیں کمزور اور غیر مؤثر ہو جاتی ہیں۔

3. بدعنوانی: کرپشن سیاسی عدم استحکام کا ایک بڑا عنصر ہے۔ جب سیاسی رہنما بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں، تو عوام کا اعتماد حکومت پر سے اٹھ جاتا ہے۔ شفافیت اور جواب دہی کی کمی سیاسی بحرانوں کو جنم دیتی ہے۔

4. پالیسیوں کا عدم تسلسل: حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور پالیسیوں میں مسلسل رد و بدل معیشت کو متاثر کرتا ہے۔ سرمایہ کار اور بین الاقوامی ادارے ایسی معیشت میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں جہاں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہو۔

5. مذہبی اور نسلی اختلافات: پاکستان میں مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان اختلافات بھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ بنتے ہیں۔ یہ گروہ جب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو ان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔

 * حل کے لیے تجاویز*

1. مضبوط جمہوری نظام: جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ضروری ہے تاکہ حکومتیں اپنی مدت پوری کر سکیں اور پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی مفادات کو مقدم رکھا جا سکے۔

2. اداروں کی غیر جانبداری: غیر سیاسی اداروں جیسے فوج اور عدلیہ کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنا چاہیے۔ اگر یہ ادارے اپنے دائرے میں رہیں گے تو حکومت بہتر طریقے سے کام کر سکے گی۔

3. شفافیت اور احتساب: کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مؤثر اور شفاف احتسابی نظام قائم کرنا ہوگا۔ شفافیت بڑھانے سے عوام کا اعتماد حکومت پر بحال ہو سکتا ہے۔

4. پالیسیوں کا تسلسل: سیاسی جماعتوں کو مل کر ایسے معاہدے کرنے چاہئیں جن کے تحت معیشتی اور سماجی پالیسیوں میں استحکام برقرار رہے، تاکہ طویل المدتی ترقی ممکن ہو سکے۔

5. بین المذاہب ہم آہنگی: مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان مکالمے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ سماجی استحکام بھی حاصل کیا جا سکے۔

 سیاسی عدم استحکام کو حل کرنے کے لیے مستقل اقدامات، قومی مفادات کو ترجیح دینا، اور اداروں کی مضبوطی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھائیں گے، تو پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔