غزل: جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے
حسن کلام: مظفر احمد ظفر
جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے
گر یہ معجزہ ہوگا، تو ہو سکتا ہے
افق پر ہیں بادل، گھٹائیں ہیں گھنگور
یہ منظر بدل جائے، تو ہو سکتا ہے
یہ جو چاہت کا دریا ہے، بہت گہراہے
پر کنارہ نظر آئے، پار تو ہو سکتا ہے
جو خواب میں روشن تھی امید کی کرن
وہ جگنو چمک جائے، تو ہو سکتا ہے
جو تقدیر نے لکھا ہی نہیں، میری قسمت میں
وہ اک لکیر ہتھیلی پہ آجائے، تو ہو سکتا ہے
دل کی دنیا اسی امید پہ قائم ہے ظفرؔ
نصیب مسکرا جائے، تو ہو سکتا ہے