اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

CLASS 10TH لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
CLASS 10TH لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 6 فروری، 2023

URDU HISSA GHAZAL CLASS 10THاردو نوٹس برائے جماعت دہم حصہ غزل

 

اردو حصہ غزل (جماعت دہم(

غزل نمبر 1:   فقیرانہ آئے صدا کرچلے 

   شاعر : میر تقی میرؔ


سوال نمبر 1: میر تقی میرؔ کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے ۔

جواب:

· سادگی اور سلاست: میر ؔ کا کلام اپنی سادگی اور سلاست کی وجہ سے مشہور ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا ہے۔


· سوز و گداز: انکے کلام میں سوز و گداز پایا جاتا ہے۔ انہوں نے زمانے تلخیوں اور دکھوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے۔


· ترنم اور حسنِ تغزل: ترنم اور حسنِ تغزل میر ؔ کے کلام کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ میر غالباً واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ،ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔


· وارداتِ قلبی کا اظہار: میرؔ نے اپنی شاعری میں دلی کیفیات اور جذبات کو انتہائی لطیف انداز میں پیش کیا ہے۔ انکی باتیں دل سے نکلتی اور دل پر اثر کرتی ہیں۔


 سوال نمبر2: میر تقی میرؔ کو"خدائے سخن " کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب: 

خدائے سخن سے مراد با کمال کلام کہنے والا ہے۔

میر تقی میر کو "خدائے سخن" کا لقب اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ:

میر تقی میر اردو شاعری میں ایک عظیم مقام رکھتے ہیں۔

 ان کی شاعری میں انسانی جذبات، زندگی کی تلخ حقیقتوں خاص طور پر غم، درد، محبت، اور تنہائی کے احساسات کو بڑی لطافت اور مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔

میر نے اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور منفرد انداز دیا ہے۔

 ان کی زبان نہایت سادہ لیکن دلکش ہے، جو دلوں کو چھو لیتی ہے۔

ان کا اسلوب بیان منفرد اور نرالا تھا، جس نے اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔

انہیں "خدائے سخن" کہنا ان کی شاعری کی عظمت، فنی کمالات، اور اردو ادب کی خدمات کا اعتراف ہے۔ 


تشریح غزل

 

شعر نمبر 1: اپنی غزل  کے اس شعر میں   میر ؔ اپنی زندگی کے غموں کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ شاعر نے اپنی زندگی میں بہت دشواریاں دیکھی ہیں۔ اس کو محبت میں ناکامی ہوئی غربت کی مار ، یتیمی کی زندگی اور اپنے سوتیلے بھائیوں کی  دھتکار  کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس لیے اُس نے  لوگوں سے کہا کہ میں  فقیروں کی طرح اس دنیا میں آیا تھا اور دوسروں کو دعائیں دیتے ہوئے اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ میرے پاس دوسروں کو دینے کیلیے کچھ نہیں سواۓ دعاؤں کے،   خدا کرے جن دکھوں کا مجھے سامنا کرنا پڑا ہے وہ کسی اور کو نہ دیکھنا نصیب ہوں۔

 

شعر نمبر 2:  شاعر میر تقی میرؔ   اس شعر میں اپنے مجازی محبوب سے  کہتا ہے کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ  ہمیشہ تمھا را ساتھ دوں گا، تمھارے بغیر میں زندہ نہیں رہوں گا، ہم ایک ساتھ جئیں گے  اور ساتھ مریں گے۔ اب  چونکہ تم نے بے وفائی کی ہے اور مجھے چھوڑ دیا ہے لیکن میں اپنے عہد  پر ابھی بھی قائم ہوں۔ اپنے کیے گئے وعدے کے مطابق اس دنیا کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کیونکہ اگر میری زندگی میں تو نہیں ہے تو پھر میرا جینا کس کام کا؟

 

شعر نمبر 3:  اپنی غزل  کے اس شعر میں   میر ؔ  اپنے محبوب کی بے رخی اور بے وفا ئی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب!  میری قسمت میں تیری محبت نہ تھی۔  تجھے  پانے کیلیے  میں نے لاکھ جتن کیے تھے ،  تجھے راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں ناکام رہا۔  جس طرح ایک مریض بیماری سے بچنے کیلیے علاج معالجے کی حتیٰ المقدور  کوشش کرتا ہے  لیکن  اگر اس کے مقدر میں شفا لکھی ہو تو ہی  وہ صحتیاب  ہو تا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں بھی مریض ِ عشق تھا ۔ میں نے اس بیماری  سے شفا پانے کی بھر پور کوشش کی لیکن میرے نصیب کھوٹے نکلے۔ اس کا مجھے بہت غم ہے لیکن میرے دل کو اتنی تسلی تو ضرور ہے کہ کم ازکم میں نے اپنی بساط کے مطابق کوشش تو  ضرور کی ہے آگے اللہ کی مرضی تھی۔

 

شعر  نمبر4: شاعر میر تقی میرؔ   اس شعر میں اپنی  محبت  میں ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے  اپنے محبوب  کے دیے غموں اور دکھوں کی وجہ سے اس دنیا سے بیزار ہو گیا ہوں۔ لیکن اب وہ کونسی چیز یا قوت  ہے  جس نے مجھ میں   ان سب غموں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور میرے اندر سے عشق مجازی کا بھوت سر سے اُتار کر پھینکا ہے۔ اس قوت نے  مجھے  بیماری سے شفا دی ہے۔ ہاں وہ خدا ہے جس کی وجہ سے میں صحت یاب ہوا ہوں۔  اب میں صرف اس سے سچا عشق کرنے لگا ہوں۔ میں دنیا سے لاتعلق ہو گیا ہوں  کیونکہ مجھے اس دنیا کی کوئی  چیز  خدا کی محبت سے بڑھ کر نہیں ہے۔ ہر چیز  خدا کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔

 

شعر نمبر 5:   اپنی غزل  کے اس شعر میں   میر ؔ   کہتا ہے کہ جب سے میں  نے دنیاوی محبوب کو چھوڑا ہے اور  خدا کی محبت کو پہچانا ہے۔  میں اپنے لیے  جینا ہی بھول گیا ہوں۔ اب میرے دل میں  ْْمیںْْ اور تُو  کا فرق ختم ہو گیا ہے۔  میرے دل میں بس اب صرف خدا کی محبت  ہے اور اُسی نے اپنا دیوانہ بنا دیا ہے۔  میں معرفت الٰہی کا قائل ہو گیا ہوں اور فنا فی اللہ ہو گیا ہوں۔  اب میرے رگ و ریشہ میں صرف خدا ہی خدا ہے۔

 

شعر نمبر 6: اپنی غزل کے اس شعر میں میرؔ کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی عبادت اور بندگی کیلیے پیدا کیا ہے اور انسان کی  زندگی  کا  اولین مقصد خدا کی رضا کا حصول  ہونا  چاہیے۔ اسی لیے میں  خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں اور ہمیشہ اسی کے سامنے جھکنے کو پسند کروں گا۔  کاش میرے سجدے قبولیت کا درجہ پا لیں اور خدا مجھ سے  راضی ہو جائے۔

 

شعر نمبر 7: اپنی غزل کے اس شعر میں میرؔ  اپنے دکھوں کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے ساری زندگی ہمیشہ  مصائب کا ہی سامنا کیا ہے۔  لیکن اس بات کی خوشی ہے کہ میرے دوستوں  کو  ایسے دن دیکھنے نہیں پڑے۔   خدا کا شکر ہے میرے احباب ان  مصائب سے آزاد ہیں اور خیریت کی زندگی گزارتے  رہے ہیں۔ اگر کبھی کسی کو کوئی تکلیف پہنچی  بھی تو اس نے اس کا مجھ پر اظہار نہیں کیا۔ افسوس کہ ایک میں ہی ہوں جو اپنے تمام دکھوں کے قصے سب کو سناتا رہا ہوں جبکہ انھوں نے میرے سامنے کبھی  اُف تک نہ کی  ۔

 

شعر نمبر 8:  اپنی غزل کے اس شعر میں میرؔ کہتا ہے کہ میری ساری زندگی آوارگی ، دیوانگی اور دنیا داری میں گزر گئی  ہے ۔ اللہ نے انسانوں کو محض  اپنی عبادت کیلیے  پیدا کیا ہے۔ اس کے ذمہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ اب روزِ آخرت جب حساب کتاب  ہوگا اور  مجھ سے  پوچھا جائے  گا کہ میں نے اس دنیا میں آکر کیا کام کیے ہیں؟   تو  مجھے فکر لاحق ہو گئی ہے کہ میں وہاں کیا منہ دکھاؤں گا؟ کیا جواب دوں گا ، کرنا کیا تھا اور ساری زندگی کیا کرتے گزری ہے،  میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا  ہے کہ رہتی نسل تک مجھے یاد رکھا جائے۔  میر ؔ عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے ایسا کہتا ہے   جبکہ انکا شاعرانہ کلام ہی ایسا ہے کہ ہم انہیں آئندہ زندگی میں یاد رکھیں گے۔


غزل نمبر 2: تصور  سے کسی کے میں نے کی ہے گفتگو برسوں

 

 شاعر : خواجہ حیدر علی آتشؔ    

 

 سوال: خواجہ حیدر علی آتشؔ    کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے ۔ یا انھیں   لکھنو کے دبستانِ  شاعری کا نمائندہ کیوں کہا جاتا ہے؟


جواب: آتشؔ    کو دبستان ِ لکھنو  کے بانیوں میں  شمار کیا جاتا ہے۔خالص اور صاف  طرزِ بیان کے شاعر تھے۔ انکا ایک مخصوص  انفرادی رنگ ہے۔ انھیں لکھنو کے دبستانِ  شاعری کا نمائندہ  اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ:

·       بلند خیالی اور تحرک: آتشؔ  کے کلام میں بلند خیالی اور مضامین کا تنوع پایا جاتا ہے۔  انکا  کلام  بہت جامع ہے۔ انکی غزلیات میں تہہ دار معانی والے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ انکے کلام میں  بے قراری ، اضطراب، اور تڑپ پائی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں زندگی کی علامت ہیں۔


·       تصوف:  انکی شاعری بنیادی طور پر لکھنو شعرا ء کی  رنگین مزاجیوں سے مختلف ہے۔ درویشی اور قلندری انکی فطرت میں شامل تھی۔  اسلیے انکی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔


·      لفظی صنعت گری: انھوں  نے اپنے کلام میں  تشبیہات اور استعارات کا  استعمال کیا ہے ۔لیکن  انکا کمال یہ ہے کہ انھوں نے لفظی صنعت گری کے باوجود  شعر کے حُسن اور تاثیر کو بدستور قائم رکھا ہے۔


تشریح غزل:

تشریح شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس مطلع میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش ؔ نے  اپنے   تصوراتی محبوب کی بے رُخی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو اپنے محبوب پر جان چھڑکتا ہوں مگر محبوب مجھ سے خفا  ہے اور بےوفائی کا رویہ رکھتا ہے۔ دراصل  شاعر کی محبت یکطرفہ ہے۔ شاعر کہتا ہے میرا دل اتنا مضبوط نہیں کہ اس کے سامنے جاکر اپنی محبت کا اظہار کر سکوں اور نہ وہ  مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ اس سے میں ہمکلام ہوں۔ اس لیے میں نے اپنے دل میں اپنے محبوب کی ایک خیالی تصویر سی بنا رکھی ہے اور عرصہ ہو گیا ہے میں اسی تصویر سے باتیں کرتا رہتا ہوں  اور گلے شکوے  کرتا رہتا ہوں۔


جیسا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔

تیرا  درد  دل میں بسا لیا تجھے اپنا ہم نہ بنا سکے

رہیں  دل ہی دل میں حسرتیں  تجھے حالِ دل نہ سنا سکے

 

شعر نمبر 2:  اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنی زندگی کے غموں  اور دکھوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک روز میں باغ کی سیر کرنے  گیا تھا ، وہاں غلطی سے اپنے دکھوں کو  یاد کر کے   آہ و زاری  کی تو بُلبل بھی سُن کر آبدیدہ ہو گئی۔   میرے نالے میں اس قدر تاثیر تھی کہ بُلبل  بہت  غمگین ہوگئی ،  جب پھول نے کہا کہ گیت گاؤ تو اس نے  گلے کی خرابی کا بہانہ کر دیا، اسی غم میں اُس  نے بھی محبت ترک کر دی ہے۔   شاعر  افسوس کا اظہار کرتا ہے  کہ  کاش میں  اپنے  مصائب کا ذکر یہاں  باغ میں نہ کرتا کیونکہ جب سے بلبل نے   میری درد بھری  داستان  سنی ہے اس نے گانا ہی  چھوڑ دیا ہے۔ ہر بار اپنے محبوب پھول کے سامنے  گلے کی خرابی کا بہانہ کرکے اُڑ جاتی ہے۔ جبکہ پُھول سے اس کی  محبت اور تعلق برسوں پرانا ہے۔

 

شعر نمبر 3:  اس شعر میں آتشؔ  کہتا ہے کہ ساری زندگی میں نے اپنے محبوب سے عشق کیا ہے اور کبھی اپنے دل سے اُس کی محبت کم نہیں ہونے دی۔  موت بھی میرے اس لگاؤ کو کم نہیں کر سکے گی۔ اگر میں مر گیا تو اے میرے محبوب تجھے پانے کی آرزو  اور تمنا   زندہ رہے گی۔  میری روح  تیری یاد میں تڑپے گی اور میری قبر سے  صرف ایک ہی خواہش جھلکے گی کہ کاش میں اپنے محبوب کو پا لوں۔   لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں ، ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی طرح میری محبت ہمیشہ قائم رہے گی۔

 

شعر نمبر 4:   آتش ؔ  اس شعر  میں اپنے  غموں اور دکھوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے  جب محبت   میں دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا  اور عشق کی راہ میں کانٹے پار کرنے پڑے  تب جاکر کہیں محبوب کو پایا۔ لیکن جب  اس  نے بے وفائی  کی  پھر میں نے سارے جہاں کو چھوڑ دیا  اور دنیا سے لاتعلق ہو گیا۔ سکون کی تلاش کرتے کرتے بالآخر شراب  نوشی کا سہارا لیا۔ اب عرصہ ہوا دنیا کے غمو ں سے دور رہنے کیلیے شراب پی کر شراب کامٹکا   ساتھ رکھ لیتا ہوں  اور  ہاتھ   کا سرہانہ بنا کر سو جاتا ہوں۔ اس طرح زندگی گزر رہی ہے۔

 

شعر نمبر 5:  اس شعر میں آتش ؔ اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب نہیں جانتا   کہ میں کتنا حسّاس ہوں۔ اتنا نازک طبیعت ہوں کہ اگر اس نے  وفا کا تعلق نہ رکھا تو  یہ میری طبیعت کیلیے  ظلم عظیم ہے ۔ میں اس ظلم کو برداشت نہیں کر پاؤں گا اور  مر جاؤں گا۔  لیکن میری موت پر میرے محبوب کو بھی سکون  نہیں آئے گا۔ وہ ہمیشہ بے چین رہے گا کہ اس نے مجھ سے بے رُخی برتی ہے   اور  ناحق خون کیا ہے۔  جبکہ صرف  میں ہی ہوں جو اس پرجان چھڑکتا ہوں۔

 

شعر نمبر 6:  آتش ؔ اپنی غزل کے اس  شعر میں اپنی محبت میں ناکامی اور محبوب کی  بے رخی  کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری عمر بیت گئی ہے۔  جوانی ختم ہو گئی۔ ہماری محبت پر ہمیشہ خزاں چھائی  رہی اور میں نے کبھی بہار کا منہ نہیں دیکھا۔ میں نے اس محبت کی راہ میں بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور دشوار گزار گھاٹیوں  سے گزرا ہوں، پر مجھے اپنا پیار نہیں مل سکا۔ لیکن  ابھی بھی میرا جنوں اور عشق قائم ہے، میں تھک ہار کر بیٹھنے والا  نہیں۔  اپنی محبت کو کم نہیں ہونے دوں گا  بلکہ  اگر اس راہ میں  مزید چوٹیں آئیں تو انھیں بھی خندہ پیشانی سے قبول کروں گا۔

 

شعر نمبر7:  اپنی غزل کے اس شعر  میں آتشؔ   اپنے تصوراتی محبوب  کے بارے میں کہتا ہے کہ  سالوں  اپنے پیار کو تلاش کرتے بیت گئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اسکی  محبت میرے نصیب میں نہ لکھی تھی۔  میں نے اپنے  حقیقی محبوب  کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے  قریہ قریہ ، بستی بستی ، کونہ کونہ  چھان مارا ہے لیکن ایک دن بھی اس کی زیارت نہیں ہوئی۔  شاعر کے مطابق اس نے  اپنے  سچے پیار کو پانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

 

شعر نمبر 8:  آتشؔ اپنی غزل کے اس شعر میں  محبت میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کر رہا ہے۔   شاعر کہتا ہے کہ اپنے حقیقی محبوب  کی تلاش میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا ، ہر جگہ ڈھونڈا ہے پر وہ مجھے نہیں ملا ہے۔ اب  میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس محبوب کو اپنے دل میں تلاش کروں گا۔ کیونکہ ساری دنیا میں اگر کہیں نہیں  ملا ہے تو کوئی بات نہیں اس کا گھر میرے دل میں ہے، وہ  وہاں تو ضرور رہتا ہے۔میں ہمیشہ اسے اپنے دل میں بسائے رکھوں گا۔

 

شعر نمبر 9:  اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنے حقیقی   عشق کے بارے میں کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب سے ہمیشہ پیار کرتا تھا، کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔  اگر میں مر بھی گیا تو خاک میں مل  کرمٹی مٹی  ہو جانے کے باوجود  میرے دل سے  اسکی محبت کم نہ ہوگی۔ کیونکہ محبت ایک لافانی جذبہ ہے یہ مرنے سے بھی نہیں ختم ہوتا۔  مرنے کے بعد بھی میری روح اس کے پیار میں تڑپتی رہے گی اور ہوا کا بگولا بن کر  دنیا میں گھومتی رہے گی اور  اپنے حقیقی محبوب کی تلاش  کرتی رہے گی۔ 

 

غزل نمبر 3: حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں


        شاعر :  مرزا اسد اللہ خان غالبؔ

 

شاعر کے انداز کلام کی چند خصوصیات:


*: سوز و گداز: غالب نے زندگی میں عشق میں ناکامی کا منہ دیکھا، ان کا زمانہ شورش سے بھرا ہوا تھا اس لیے ان کے کلام میں گہرا سوز و گداز پایا جاتا ہے.


*: تصوف و فلسفہ: غالب کو اردو کا پہلا فلسفی شاعر کہتے ہیں. انکی شاعری فکرو فلسفہ سے پر ہوتی ہے. انھوں نے اپنے کلام میں صوفیانہ مضامین کو بھی نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے.


*: بہترین تراکیب کا استعمال: غالب نے اپنی شاعری میں استعارات اور تراکیب کا کمال مہارت سے استعمال کیا ہے. انھوں نے مختلف تلمیحات کے ذریعے اپنی شاعری کو خوبصورت بنایا ہے...

 

تشریح غزل


شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس مطلع میں غالب ؔ اپنی زندگی کی داستانِ غم سناتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے ساری زندگی دکھوں   کا سامنا کیا ہے۔ مالی تنگدستی تھی،   عشق میں ناکامی   ہوئی، کوئی اولاد زندہ نہ رہی ۔   شعر و سخن  میں بھی اس کو وہ عزت و پذیرائی نصیب نہ ہوئی جو وہ چاہتا تھا۔   اس کے علاوہ اسے اپنے وطن دلّی کے اجڑنے کا بھی غم تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ  اسے سمجھ نہیں آتا  کہ  وہ  کس غم پر روئیں ۔ دل بھی زخمی ہے اور جگر بھی چھلنی  چھلنی ہو چکا ہے۔  وہ اپنا غم نوحہ کی صورت میں دوسروں  کو سناتے تھے، اب اگر اتنی  مالی  استطاعت ہو تو کسی نوحہ گر سے یہ کام کروائیں  جو ان کے نالے دوسروں کو بہتر انداز میں  سنا سکے۔

 

شعر  نمبر 2:  غالب ؔ اس شعر میں اپنے عشق میں نا کامی کا  ذکر  کرتے ہوئے  کہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے زیادہ توجہ میرے رقیب کو دیتا ہے،  اس لیے  میں نے جب  جب اپنے محبوب کو یاد کیا  تو مجھے رشک اور حسد  کا شکار ہونا پڑتا ہے۔  اسی حسد اور رشک کی وجہ سے میں نے اس کی گلیوں جانا چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ میں اس سے ملنا بھی چاہتا ہوں اور اس کا  نام بھی کسی اور کے سامنے نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے  جب میں کسی سے اپنے محبوب  کا گھر معلوم کرنا چاہتا ہوں  تو پھر یہی کہہ دیتا ہوں کہ  مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں نے کدھر جانا ہے۔

 

شعر نمبر 3:  غالب اپنی غزل کے اس شعر میں کہتا ہے کہ   میرے رقیب نے اپنا گھر میرے محبوب کے  گھر کے سامنے بنا لیا ہے  اس لیے  اب میں جب بھی اپنے معشوق کی زیارت کیلیے جاتا ہوں تو رقیب کا گھر دیکھ کر جل جاتا ہوں ۔ یہ دکھ مجھ سے برداشت نہیں ہو پاتا اس لیے  میں چاہتا ہوں میری  یاداشت کھو جائے اور میں اپنے محبوب کے گھر کا راستہ ہی بھول جاؤں ۔ تاکہ بار بار مجھے  اپنے رقیب کا  سامنا نہ کرنا پڑے۔

 

شعر نمبر 4:  اس شعر میں غالبؔ کہتا ہے کہ یہ سیاسی انتشار کا دور آگیا ہے ہر طرف افرا تفری ہے۔ ساری قوم بکھر گئی ہے میرا شہر  دلّی اجڑ  گیا ہے۔  ساری قوم کسی ایسے  دیانت دار  رہبر و رہنما کی تلاش میں  ہے جو انھی سیدھے راستے پر لاسکے۔ جب بھی وہ کسی کو اپنے سے آگے چلتا دیکھتے ہیں تو وہ اسے اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں لیکن جب  کچھ عرصہ گزرتا ہے  اور اس کی حقیقت ان پر ظاہر ہوتی ہے تو وہ  اپنا  راستہ بدل لیتے ہیں۔  پھر سے نئے رہنما کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔  خدا کرے  اس قوم کو  ایک مخلص رہنما مل جائے۔

 

شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس  شعر میں غالؔب کہتا ہے کہ میں نے اپنے حقیقی محبوب کی خاطر خود کو بھلا  دیا ہے اور عشق میں ایسا ڈوبا ہوں کہ مدہوشی کے عالم میں  اُس کی گلیوں کا راستہ تک بھول بیٹھا ہوں۔ چونکہ میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اور وہ  میری رگوں میں بستا ہے اس لیے اب اس کو اپنے دل میں  تلاش کروں گا۔

 

شعر نمبر 6:  اس شعر میں غالبؔ نے دہلی کے اجڑنے پر دکھ  کا اظہار کرتے ہو کہا ہے کہ انگریزوں کے تسلط میں آئی قوم کے  درد اور انکی بربادی کی تصویر مجھ سے زیادہ کوئی اور اچھے انداز میں نہیں بیان کرسکتا ۔  کیونکہ اس زمانے کے لوگوں اور انکی دنیا داری کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں دہلی کا نمائندہ شاعر ہوں۔  میری شاعری   اِس وقت  کی آواز  اور قوم کانمائندہ بنے گی۔

 

شعر نمبر 7:  اپنی غزل کے مقطع میں  غالؔب اپنی دلی خواہش کا اظہار  کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  وہ مرنے کے بعد  حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی زیارت کرناچاہتا ہے۔ جس شان اور بہادری سے  حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے کئی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے تھے کاش کہ ایک بار پھر  اسی انداز سے وہ آئے اور  مغلیہ  شاہی انگریزوں سے واپس لے۔ دراصل غالبؔ چاہتا ہے کہ  اس  اجڑی قوم کو  ان جیسا  بہادر اور شان و شوکت والا عظیم رہنما میسر آ جائے۔

 

 

غزل نمبر 4:  ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا           


شاعر : بہادر شاہ ظفرؔ

 

بہادر شاہ ظفر  کے انداز بیان کی چند خصوصیات:

سوز و گداز: بہادر شاہ ظفر نے اپنے کلام میں اپنی زندگی کے رنج و الم کو بیان کرتے ہوئے دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کیا ہے. اس لیے اس کے کلام میں سوز و گداز پایا جاتا ہے.

سادہ زبان و بیان: بہادر شاہ ظفر نے اپنی شاعری میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے. اس لیے اس کے کلام میں جوش کی بجائے دھیما پن نمایاں نظر آتا ہے.

تشبیہات و استعا رات کا استعمال:  ظفر کو تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں  کمال مہارت حاصل تھی. الفاظ اور تراکیب کی خوبصورتی نے ان کے کلام کو پر اثر بنایا ہے.

 

تشریح غزل:

شعر نمبر 1:اپنی غزل کے اس مطلع میں شاعر بہادر شاہ ظفر ؔ اپنی زندگی کے غموں اور دنیا کی  بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب سے وہ اس دنیا میں آیا ہے اس نے کبھی سُکھ کا سانس نہیں لیا۔ ساری زندگی مصیبتوں کو جھیلتے گزر گئی ہے۔  وہ  اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس دنیا کی  زندگی کی کوئی حقیقت نہیں، سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔  اس کے پاس اقتدار تھا ، طاقت تھی لیکن یہ سب  تھوڑے عرصہ تک اس کے پاس رہا۔ شاعر کو  یہ باتیں اب خواب لگتی ہیں۔


علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت  تشبیہ کا استعمال کیا گیا ہے۔( جو دیکھا  سو خواب سا دیکھا)

 

شعر نمبر 2:  اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  انسان کا خمیر اگرچہ مٹی سے بنا ہے لیکن  اس کی  زندگی پانی کے بلبلے  کی طرح ہے۔  پانی کا بلبلا بھی چند لمحوں تک باقی رہتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نشان بھی باقی  نہیں رہتا۔ اس دنیا کی حقیقت ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔  انسان اس دنیا میں بہت مختصر وقت کیلیے آیا ہے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں استعارہ  کا استعمال کیا گیا ہے۔( پانی کا بلبلا۔۔۔ انسان کو  اس کی کمزوری کی وجہ سے کہا گیا ہے۔)

 

 شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کی خوبصورتی بھی عارضی ہے۔ اگر کسی وجود کو  ہمیشہ رہنا ہے تو وہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس نے دنیا کی  بہت سی خوبصورت چیزیں یا وجود دیکھے ہیں لیکن جو شان و شوکت اور حُسن خدا کی ہے وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔


علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔( خوباں ۔۔۔  تجھ سا نہ دوسرا دیکھا۔۔۔ اللہ کا وجود ظاہری طور پر نظر نہیں آتا۔)

 

 شعر نمبر 4:  : اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ انسان اپنی طاقت اور دولت پر بہت غرور کرتا  ہے ۔ لیکن اس کی حقیقت پانی کے ایک بلبلے کی طرح ہے۔  جس طرح بلبلہ چند لمحوں میں مٹ جاتا ہے اسی طرح انسان بھی کمزور ہے۔ اس کی زندگی بھی دائمی نہیں  ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی زندگی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت تجنیس   کا استعمال کیا گیا ہے۔(دم ۔۔۔  سانس/زندگی۔۔دم ۔۔ لمحہ۔ )

 

شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس شعر میں بہادر شاہ ظفر اپنی زندگی کے دکھوں کو یاد کر رہا ہے.

اس شعر میں دو مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں...

ظفر کا خدا سے شکوے کا رنگ: اے خدا تیرے سامنے دنیا نے میرے ساتھ زیادتیاں کیں. ظلم و ستم کے اتنے پہاڑ ڈھائے کہ میں زندگی سے گزر گیا ہوں.

ظفر کا خدا کے شکر کا رنگ:  اے خدا جب سے میں نے تجھے پہچانا ہے اور تیری نظر مجھ پڑی ہے، میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا ہے.میں تیری سچی محبت میں زندگی کی بازی ہار گیا ہوں۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔(حدف ناوک قضا ۔ ... نظروں کے تیر دل کو چیر گئے)

 

شعر نمبر 6: اپنی غزل کے اس شعر میں بہادر شاہ ظفر زندگی سے مایوسی اور عشق حقیقی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے خدا میں نے تیری رضا پانے کی کوشش میں ہوں.  اب یہی میرا مقصد حیات ہے. میری زندگی گزر گئی ہے لیکن میں تجھے راضی نہیں کر سکا.

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت کنایہ   کا استعمال کیا گیا ہے.. نہ ہوئے تیری خاک پا...  خاک میں ملا دیکھا ... بطور کنایہ استعمال ہوا ہے. یعنی تجھے راضی نہیں کر پائے.... اور دنیا سے گزر گیا ہے)

 

شعر نمبر 7: اپنی غزل کے اس مقطع میں ظفر کہتا ہے کہ دنیا میں سب نے میرے ساتھ بے وفائی کی ہے. شاعر دوسروں کو نصیحت کر رہا ہے کہ دنیا کی زندگی اور خوشیاں عارضی ہیں۔ کوئی چیز بھی باقی نہیں رہے گی، اگر کوئی ہمیشہ رہے  گا تو وہ خدا کی ذات ہے۔  اس لیے اس دنیا سے دل نہیں لگانا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔(نہ دیجیے کسی کو دل۔.. حقیقت میں دل کسی کو دیا نہیں جاسکتا)

 

غزل نمبر 5: نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے


شاعر: حسرت موہانی

 

سوال: حسرت موہانی کو "رئیس المتغزلین" کا خطاب کیوں ملا؟ حسرت موہانی کے انداز کلام کی چند خصوصیات تحریر کیجیے.

جواب:  حسرت کو  ان کے کلام کی درج ذیل خصوصیات کی بنا پر "رئیس المتغزلین" کہا جاتا ہے.

رومانوی انداز: حسرت کی غزلیات رومانیت سے بھر پور ہیں.

صوفیانہ انداز اور عشق حقیقی: حسرت کی غزلیں عشق حقیقی پر مشتمل ہیں. ان میں صوفیانہ اور اصلاحی انداز پایا جاتا ہے.

سادگی اور تسلسل: حسرت کو زبان پر بڑا عبور حاصل تھا. اپنے خیالات و جذبات کو نہایت سادہ انداز میں پیش کیا ہے.

انھوں نے غزل کو عشق حقیقی کا رنگ دے کر پاکیزگی عطا کی ہے جس کی وجہ سے انھیں "رئیس المتغزلین" کا خطاب ملا.


سوال : حسرت موہانی کی غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے یا عشق مجازی کی؟ مثال سے واضح کیجیے.

جواب:  حسرت موہانی کی غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے. جیسا کہ انھوں نے کہا ہے..

دلوں کو فکر دو عالم سے کر دیا آزاد....

اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عشق حقیقی ہی ہمیں فکر دو عالم سے آزاد کرتا ہے. کیونکہ اللہ کی محبت ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی دلاتی ہے.

اسی طرح شاعر کہتا ہے کہ

؂     غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش          وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

اس شعر میں بھی عشق حقیقی کا رنگ نمایاں ہے. شاعر لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ اگر غم جہاں سے نجات پانی ہے تو خدا سے دل لگاو. کیونکہ عشق مجازی تمھیں دونوں عالم کی فکروں سے آزاد نہیں کروا سکتا. اس لیے میرے خیال میں یہ غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے.

 

تشریح غزل:


شعرنمبر 1: اپنی غزل کے مطلع میں حسؔرت موہانی خدا کی محبت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ سے سچی محبت کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر مہربان ہوتا ہے اور  اپنی نگاہ کرم ڈالتا ہے۔اور اس کی دلی مرادیں پوری کرتا ہے۔ ایسا شخص دنیا کا خوش قسمت ترین شخص ہے۔ اسے اپنی اچھی قسمت ہر ہمیشہ فخر کرنا چاہیے اور رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے۔۔۔ مراد دلی مُرادیں  جان لے)

 

شعر نمبر 2: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سے  میں نے اللہ  سے  دل لگایا ہے تب سے دونو ں جہانوں کی تمام فکروں سے آزادی مل گئی ہے۔  مجھے نہ اس دنیا میں کوئی فکر ہے اور آخرت میں بھی خدا سے محبت  کی وجہ سے کوئی  پریشانی نہیں ہوگی۔  کیونکہ تو میرا سچا محبوب بن گیا ہے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (جنوں کا سلسلہ خدا دراز کرے۔۔۔ مراد یہ عشقِ حقیقی  کا تعلق ہمیشہ جاری رہے)

 

شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیرے  حُسن کا جلوہ بہت  جادوئی ہے۔ جب کوئی دنیا دار دیوانہ دیکھتا ہے تو اسے عقل آجاتی ہے اور  جب  صاحبِ فہم و فراست تجھے پہچانتا ہے تو وہ تیرے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دراصل حقیقی دانائی عشق حقیقی   کی دیوانگی ہے۔اللہ کو پہچاننا ہے اورصرف  اُسی  سے دل لگانا ہے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت تضاد    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (خِرَد۔ اور ۔جنوں۔ دو متضاد الفاظ ہیں ۔)

 

شعر نمبر 4: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری ہر آزمائش مجھے قبول ہے اور میں اس پر ہمیشہ  راضی رہوں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کسی پر اس کی استطاعت   / طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ مجھے ہر ابتلا پر خوشی ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھے یاد تو  رکھتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ  مجھ سے راضی ہو اور مجھے اپنے  نیک لوگوں میں شمار کر لے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (شاملِ اربابِ امتیاز کرے۔۔۔۔  مراد  راضی ہو جائے)


شعر نمبر 5: : اپنی غزل کے آخری  شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  دنیا کو نصیحت کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ جو لوگ دنیا کی فکروں سے آزادی اور چھٹکارہ چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ  اللہ سے  دل لگائیں۔ کیونکہ عشق مجازی تمھیں دونوں عالم کی فکروں سے آزاد نہیں کروا سکتا۔   ایک وہی ذات ہے جو حاجت روا  اور مشکل کُشا ہے۔

؂                                                                                                                 حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر       کر بیاں سب حاجتیں حاجت رَوا کے سامنے

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (ان کے دردِ محبت سے ساز باز  کرے۔۔۔۔  مراد   ۔۔۔ اللہ کی ذات سے دل لگائے)


شعر نمبر 6:   جب انسان  دعا مانگتاہے تو گویا اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی فہرست پیش کر کے عاجزی اور انکساری کے ساتھ  اور اس سے رحم و کرم کی التجا کرتا ہے کیونکہ وہ  جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مختارِ کل ہے۔ ہزار گناہوں کے باوجود بھی عفو و درگزر سے کام لے کر سربلند و سرفراز کر سکتا ہے۔ اسی امید پر شاعر اپنے محبوب رب کے حضور التجا کرتا ہے کہ میری گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ میں نافرمانیوں کے سبب تیری لطف و کرم اور عنایتوں کا مستحق قرار نہیں ہوں۔ میں صرف تیرے حضور گناہوں کا اعتراف کر کے رحم و کرم کا طلب گار ہوں۔ آگے تیری مرضی، تو مختار ہے  یا تو مجھے انعامات سے نواز دے یا  میرے ساتھ جو مرضی سلوک  روا رکھے مجھے قبول ہوگا۔

  راضی ہوں میں اسی میں جس میں تیری رضا ہو۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (کرم کا سزا وار۔۔۔۔)

 

غزل نمبر6 :۔۔۔۔۔ کہاں کے لالہ و گل ، کیا بہار تو بہ شکن   ۔۔۔۔شاعر: جگر مراد آبادی

جگر مراد آبادی کے اندازِ کلام  کی خصوصیات:

 سادہ اور سلیس زبان: جگر نے  صاف ستھری اورسلیس زبان  کا استعمال کیا ہے ۔ وہ مشکل تراکیب کی بجائے زبان کی سادگی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

 کلاسیکل غزل شاعری: جگر کا تعلق غزل کے کلاسیکل  مکتبہ فکر   سے تھا۔ جگر بطور عوامی شاعر مشہور ہوئے اور ان کی وفات کے بعد اُن کی شہرت  میں مزید اضافہ ہو گیا۔

تشبیہات اور استعارات کا  بہترین استعمال: جگر  نے اپنے کلام میں  تشبیہات اور استعارات  کااستعمال بہت خوبصورتی سے کیا ہے ۔

حسنِ  تغزل : جگر  کی غزل  حسنِ تغزل  سے بھر پور ہے ۔ محبت کے موضوع  کو انہوں نے مختلف زاویوں سے پیش کیا  ہے ۔ مثلاً: 

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے  ۔۔۔۔۔۔سمٹے  تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

 کہاں کے لالہ و گل ، کیا بہار تو بہ شکن                                          

                            کھلے ہو ئے ہیں دلوں کی جراحتوں کے چمن

شعر نمبر 1تشریح: جگر مراد آبادی اپنی غزل کے اس مطلع میں کہتا ہے کہ باغ میں گُلِ لالہ کھلے ہوئے ہیں ۔ بہار کا موسم جوبن پر ہے۔یہ  منظر اس قدر دل فریب اور خوبصورت ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے ۔اس رونق کے پیچھے حقیقت یہ ہے  ان پھولوں کی رنگت میں ہمارا خون شامل ہے۔  اسی خون  نے باغ کے تمام پھولوں کو خوبصورتی بخشی ہے ۔ ہم نے اپنے خون سے اس  چمن کی سینچائی کی ہے یعنی   ہم نے بے شمار  قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی ہے۔ (مجاز مرسل۔۔۔۔ دلوں کی جراحتوں)

شعر نمبر2:   

یہ کس غضب کی محبت نے ڈال دی الجھن

نہ ضبط شوق کا یارا،  نہ تابِ عرضِ سُخن

 جگر مراد آبادی  اپنی غزل کے اس شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی انتہا بھی اپنے اندر ایک انوکھا رنگ  لیے ہوئے ہے۔  جب بھی انسان عشق کی وادی میں قدم رکھ لیتا ہے تو اس کا دل عجیب کش مکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں عشق ایسے تڑپ رہا ہوتا ہے کہ وہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ نہ تو وہ اس عشق کو اپنے دل میں چھپا سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے عشق کا بیان دنیا کے سامنے کر سکتا ہے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ تابِ عرض سخن)

شعر نمبر 3:

خلوصِ شوق ، نہ جوشِ عمل، نہ دردِ وطن

یہ زندگی ہے خدایا کہ زندگی کا کفن

 تشریح:  شاعر جگر مراد آبادی اس شعر میں اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہوئےکہتا ہے کہ جس قوم کے اندر خلوص کا مادہ نہ رہے۔ جس قوم میں آگے بڑھنے کا جذبہ ماند پڑ جائے ۔ اور وہ اپنے اندر سے آگے بڑھنے  کی صلاحیت کو ختم کردے ۔ نہ ہی وہ اپنے وطن کے لیے دل میں درد رکھے ۔ تو ایسی قوم زندہ قوم کہلانے کے قابل  نہیں ہوتی بلکہ  ایسی قوم مردہ قوم کہلاتی ہے ۔ (مجاز مرسل۔۔۔۔ زندگی کا  کفن)

شعر نمبر 4:

جمال اس کا چھپائے گی کیا بہار چمن

گلوں سب دب نہ سکی جس کی بوئے پیراہن

شاعر جگر مراد آبادی اس شعر میں اپنے محبوب  کےحسن و جمال کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب اتنا خوبصورت ہے کہ  جیسے موسم بہار میں باغ کی  خوبصورتی   اپنی  انتہا کو ہوتی ہے ۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ  ہوتا ہے پھول مہک رہے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ہے  یہ خوبصورتی میرے  محبوب کی خوبصورتی کے آگے ماند پر جاتی ہے۔ باغ کے تمام پھولوں کی مہک مل کر بھی میرے محبوب کے  لباس کی خوشبو کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ (کنایہ۔۔۔۔ جمال اس کا)

شعر نمبر 5:

وطن ہی جب نہیں اپنا تو پھر کہاں کا وطن

چمن اجاڑ رہا ہوں  مگر برائے چمن

 یہ شعر شاعر کی  تقسیم ہند کی سخت نا پسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاعر کا دل اس تقسیم سے خوش نہ تھا ۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ وطن جہاں اس نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے۔ وہ اس وطن سے محبت کرتا ہے ۔ یہ کیسی آزادی  ملی ہے کہ وہ اپنے پرانے وطن کو اجاڑ  کرنئے وطن کی طرف جا رہا  ہے ۔ وہ اپنے آبائی علاقے کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔ کیونکہ اس سے اس کی پرانی اور پیاری یادیں وابستہ ہیں۔ نئے وطن میں جا کر   شاعر کا دل و دماغ ہمیشہ پہلے وطن کی یادوں کی غلامی میں مبتلا رہے گا۔

شعر نمبر 6:

غضب ہے ، قہر ہے انسان کی یہ ابو العجبی              خود اپنا دوست  بہت کم  ، زیاده تر دشمن

اس شعر میں جگر مراد آبادی کہتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ  نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔ انسان آیا تو خدا کی عبادت اور مخلوق خدا سے محبت کرنے کے لیےتھا ۔ لیکن  افسوس  ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے مقصد کو ہی بھول گیا ہے ۔ دنیا داری اور ذاتی منفعت  کی سوچ کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے بھلے کو مدِ نظر رکھتا ہے اور دنیا میں  فتنہ و فساد کا باعث بن گیا ہے۔  اسے کسی  دوسری مخلوق کی دشمنی کا خطرہ نہیں  بلکہ وہ خود ہی اپنا دشمن  بن گیا ہے ۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اس  نے خدا کی دی ہوئی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ (کنایہ۔۔۔۔ غضب ہےـ  قہر ہے)

شعر نمبر 7:

یہ مرحلہ بھی مری حیر توں نے دیکھ لیا

بہار  میرے  لیے اور  میں  تہی دامن

 اس شعر میں شاعر اپنی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے ہے کہ دنیا میں بہار آگئی ۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پھیل گئی  ہیں۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ رہی ہے ۔ در اصل شاعر کی خوشی تو اپنے محبوب کو پانے میں تھی ۔ اس  لیے دنیا کی باقی تمام خوشیاں شاعر کے  لیے  کچھ معنی نہیں رکھتیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کے لیے تھا مگر  وہ خالی ہاتھ رہا اور ابھی تک  خالی ہاتھ ہے ۔(کنایہ۔۔۔۔ مرحلہ حیرتوں نے دیکھ لیا)

شعر نمبر 8:

مرا شعور محبت ہے کس لیے  ہمہ گوش

اگر نہیں مری جانب کسی کا روئے سخن

اس شعر میں شاعر جگر مراد آبادی اپنے محبوب کی بے رخی اور بے اعتنائی کا ذکر کرتے  ہوئے کہتا ہے اس کے محبوب کی ساری  توجہ اس کے رقیب  کی طرف ہے۔ اس نے کبھی بھی اس کی طرف دیکھنا گوارہ نہیں کیا ۔ اس کی عقل اس بات کو سمجھتی ہے کہ  اس کے  محبوب  کا رُخ   اس کی طرف نہیں ۔  مگر پھر بھی اُس کی محبت اسے اس سے باتیں  کرنے پر مجبور کر رہی  ہے ۔ اس کے  کان اس کی آواز سننے کے منتظر  ہیں۔ وہ  اسی بات کا منتظر ہے  کہ اس کا محبوب  اُس  سے ہم کلام ہو۔ (کنایہ۔۔۔۔ شعور محبت)

شعر نمبر 9:

مقام عشق کی نیرنگیاں  نہ پوچھ جگر

کمال آگہی ، سخت آگہی دشمن

جگر مراد آبادی اس شعر میں عشق حقیقی کو بیان کر دیا ہے۔ غزل کے مقطع میں شاعر مقام عشق کے اسرار و رموز  بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب انسان  عشق کے  تمام بھید اور  بلندیوں سے آگاہ  ہو جاتا ہے تب  بھی  وہ مطمئن  نہیں ہوتا ۔وہ عشق کی معراج کو پانے کے لیے ہمیشہ جستجو  میں  بے قرار رہتا ہے۔ یہی عشق کی جادوگری ہے ۔ ایک منزل کے بعد دوسری منزل کا سفر اور انسان کہیں مطمئن ہو کر ٹھہر نہیں سکتا۔  انسان جہاں تک بھی پہنچ جائے وہ یہ ہی سوچتا رہتا ہے کہ شاہد  وہ اللہ تعالی کے اور زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ مقام عشق)


غزل  نمبر7   

کچھ اشارے تھے ۔۔۔۔ شاعر فراق گورکھپوری

فراق گورکھ پوری کے اندازِ کلام کی خصوصیات تحریر کریں۔۔

 

تشبیہات اور استعارات کا استعمال:

فراق گورکھپوری نے اپنی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کو نئے استعارات اور نازک نمونوں سے آراستہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو ادب کو نئی تازگی ملی ہے۔


آفاقیت اور معرفت کا رنگ:

 فراق کے کلام میں آفاقی رنگ پایا جاتا ہے۔ انکی شاعری انکی ذات تک محدود نہیں بلکہ انھوں نے اپنی شاعری میں کائنات کے رنگ و خوبصورتی کو بھی پیش کیا ہے۔ فراق نہ تو زاہد  تھے اور نہ ہی عارف لیکن انکے کلام میں اردو اور فارسی کلام کی آمیزش سے عارفانہ رنگ دکھائی دیتا ہے۔

 

خودداری اور عزتِ نفس:

فراق کےکلام میں خود داری اور عزتِ نفس بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق جذبہ عشق  میں خودداری کا کوئی دخل نہیں یہ سپردگی اور راضی برضا رہنے کا نام ہے۔ لیکن غالب کے بعد فراق ایسے شاعر ہیں جنھوں نے جذبہ عشق اور خود داری کو مربوط کر دیا۔

 

تشریح غزل

 

شعر نمبر 1

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر فراق گورکھ پوری عشقِ مجازی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبوب کی نگاہوں نے اسے فریب میں مبتلا کر دیا ہے۔ شاعر کے مطابق یہ اس کی زندگی کی بڑی بھول تھی کہ اس نے اپنے بےوفا محبوب کے ساتھ گزارے چند لمحات کو دنیا کی سب سے بڑی دولت سمجھ لیا۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کا محبوب بھی اس سے اسی طرح سچی اور بے لوث محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ اس سے کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بر عکس نکلی۔

(اس شعر میں علم البیان کی قسم مجاز مرسل کا استعمال کیا گیا ہے۔ نگاہِ آشنا کو التفات بنانا۔۔۔ ایک غلط فہمی تھی۔)

 

شعر نمبر 2

شاعر عشق مجازی کے حامل اس شعر میں اپنے دل کی کیفیت کا حال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے محبوب پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کا نتیجہ مجھے اس صورت میں ملا ہے کہ میں اپنی ہی نظروں میں شرمسار ہو گیا ہوں۔ یہ میری بھول تھی کہ میں اپنے بے وفا محبوب کو اپنا سمجھتا رہا ، جب کہ اس کے دل میں میرے بارے میں کوئی محبت کے جذبات نہیں تھے۔ یہ  میری اپنی بہت بڑی بھول تھی جس کی وجہ سے میں اپنے نظروں میں پرایا ہو گیا ہوں۔

 

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام کنایہ  (واہ ری غفلت ۔۔۔محبوب پر بھروسہ کیا ہے۔)اور صنعت تضاد (غیر اور اپنا متضاد الفاظ ہیں۔) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

 

 

شعر نمبر 3

شاعر عشق مجازی کے حامل اس شعر میں محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبوب سے گفتگو کے دوران جب خاموشی طاری ہوگئی یعنی رابطوں میں تعطل آگیا تو اس نے یہ گمان کیا کہ شاید میری داستان محبت یہیں  ختم ہو گئی ہے۔ اس خاموشی سے شاعر کی یہ حالت ہوگئی کہ کانوں میں اس کے محبوب  کی آوازیں گونجنے لگیں۔  ہر لمحہ اسے یہ محسوس ہوتا جیسے اسے اس کا محبوب پکار رہا ہے۔ کیونکہ ابھی تو داستانِ محبت کا ایک طویل حصہ باقی تھا ۔شاعر سے یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب اُس سے ہم کلام ہو اور وہ اسے اپنی داستان محبت سنائے۔

 

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام مجازِ مرسل  (کان بجتے ہیں ۔۔۔ ) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

 

 

شعر نمبر 4

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر فراق گورکھپوری مجنوں اور اور فرہاد کی محبت کے قصوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو عشق کو ایسے عاشقوں کا قصہ ہی سمجھتا رہا۔ حالانکہ یہاں تو پوری دنیا ہی ہیں محبت اور عشق کے جذبے کی وجہ سے درد و غم میں مبتلا ہے۔ جس کو دیکھو  وہی عشق و محبت کے عارضے میں مبتلا ہے اور اس کی وجہ سے تکالیف برداشت کر رہا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق سے کوئی انسان بچا ہوا نہیں ہے ۔ چاہے عشق مجازی ہو یا عشقِ حقیقی ہر شخص کسی نہ کسی عشق میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔شاید اسی وجہ سے ہی اس دنیا  میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے  کا مقابلہ جاری ہے۔
(اس شعر میں علم البیان کی اقسام استعارہ  (دنیا درد کی تصویر نکلی ۔۔۔۔)اور صنعت تلمیح (قیس اور کوہ کن۔۔۔ مجنوں اور فرہاد کی محبت کی داستانوں کی طرف اشارہ ہے۔) کا استعمال کیا گیا ہے۔
)

  

شعر نمبر 5

عشق مجازی کے حامل اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہا ہوں۔  اپنے محبوب سے جدائی کی وجہ سے شاید مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے، لیکن جب میں ماحول پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ہر طرف ہی عشق میں ڈوبے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔  ہر دوسرا شخص عشقِ مجازی ہو یا  عشقِ حقیقی میں مبتلانظر آتا ہے۔ شاعر کے مطابق یہ  جذبہ عشق کی کارفرمائی ہے کہ اس  دنیا  میں کاروانِ حیات رواں دواں ہے۔

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام مجازِ مرسل  (عشق مانوسِ جہاں ہوتا گیا۔۔۔۔ ) کا استعمال کیا گیا ہے۔)


شعر نمبر 6

شاعر حسن کی قدر نا شناسی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمانہ حُسن جیسی لطافت کو محسوس کرنے سے قاصر رہا ہے ۔ فراق زمانے کے اس انداز پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  دنیا والوں نے حُسن کو وفا و بے وفائی کے پیمانے میں تول کر  اس بیش قیمت اور انمول انعام کی بے قدری کی ہے۔حسن کی دلفریبی اور رعنائی کے جادو  کا اسیر ہونے کی بجائے حسن کو ہجر و وصال کے اثرات سے مجروح کیا ہے۔ حسن کو حسن کی حیثیت سے سراہا نہیں گیا حالانکہ یہ وہ انعام ہے جسے غیر مشروط طور پر  پذیرائی حاصل ہونی چاہیے۔ اس شعر میں علم البیان کی قسم  صنعت تضاد  (مہربان ، نا مہربان ) کا استعمال کیا گیا ہے۔


غزل نمبر :8

          ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا  نام ہی آئے     شاعرہ: ادا ؔجعفری

شاعرہ کے کلام کی نمایاں خصوصیات :-

 انفرادیت:  ادا ؔجعفری کا شمار طویل مشقِ سخن اور ریا ضتِ فن کے صفِ اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے ۔ ان کے اشعار شعور ذات  اور دل آویزی کی زندہ مثال ہیں۔

حرف شناسی:

ادؔا جعفری حرف و صوت کی شگفتگی اور فکرو خیال کی شناسائی کی تازگی سے لبریز اشعار کہتی ہیں ۔ فکر و جذبہ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔

آفاقیت اور جذبات نگاری:

 ادا جعفری کے کلام میں جو جذبات نظر آتے  ہیں وہ  ان  کے ذاتی نہیں بلکہ مشاہداتی بھی ہیں۔ ان کی شاعری میں ساری کائنات کا درد نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

بہترین ہائیکو شاعرہ:

غزل کے ساتھ ساتھ ادا جعفری نے آزاد نظم کو اپنے جذبات کے اظہار کےلیے چنا ہے۔ انھوں نے جاپانی صنف سُخن ہائیکو پر بہت طبع آزمائی کی ہے۔

شعر نمبر 1:

؎    ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا  نام ہی آئے           آئے تو سہی، برسرِ الزام  ہی آئے

 تشریح : ادا جعفری اس شعر میں اپنی یکطرفہ محبت میں مایوسی اور محبوب کی بے وفائی کا رونا روتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا محبوب بہت سنگ دل ہے کہ اس کے دل کے کسی کونے میں بھی میرے لیے  محبت پیدا نہیں ہوئی۔ اس  کے  لبوں پر کبھی بھی میرا نام نہیں آیا ۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ بے شک میرا  محبوب مجھ  پر الزام لگا کر ہی   یا نفرت  بھرے اندازسے  ہی میرا  نام لے لے۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہوگا۔  میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھوں گی کہ اس نے کسی بہانے سے مجھے یاد تو کیا ہے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ ہونٹوں پہ نام آئے)

شعر نمبر 2:

؎    حیران ہیں،  لب  بستہ ہیں ، دل گیر ہیں غنچے                   خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے

 ادا جعفری اس شعر میں اپنے محبوب کی دوری اور جدائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب کچھ دن میری اپنے محبوب سے بات نہ ہو سکی، تو اس غم کی وجہ  سے باغ میں اداسی چھاگئی۔ کلیاں جنہوں نے کھل کر پھول بننا تھا ، انہوں نے کھلنے سے انکار کردیا ۔ شاعرہ  کہتی ہے کہ کاش میرا محبوب کسی خوشبو کے جھونکے  کو قاصد بنا کر باغ میں بھجوا دے تا کہ باغ کی اداسی بھی ختم ہو جائے اور باغ میں ہر طرف خوشی بکھر جائے اور میرا دل بھی باغ باغ ہوجائے۔(استعارہ۔۔۔۔ خوشبو  کی  زبانی)

 شعر نمبر 3:

؎             لمحات   مسرت ہیں تصور سے گریزاں                          یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تشریح : اس شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ میری زندگی تو غم کی ایک تصویر ہے۔ اگر میں اپنے ماضی  پہ نظر ڈالوں  تو مجھے کوئی ایسے لمحات نہیں یاد آتے جب کبھی   میرے محبوب نے  مجھے خوشی  دی ہو یا مجھ  سے محبت کا اظہار کیا ہو۔ میں  نے جب بھی ماضی کو دیکھا تو محبوب کے  دیے ہوئے غم ہی نظر آئے ہیں ۔  محبوب  کی  نفرت ہی دکھائی  دی ہے۔ صرف اپنا ز خمی دل ہی دکھائی دیا ہے کوئی  ایسا لمحہ  تصور میں نہیں آیا جو خوشی میں گزرا ہو ۔  میرے محبوب نے کبھی بھی مجھ سے  محبت نہیں کی ۔(کنایہ۔۔۔۔ لمحاتِ مسرت)

  ؎ اک مرگ تسلسل سے ہر اک سانس ہے گزرا                                 رکھے گا زمانہ میرے  جینے  کی ادا یاد

 

شعر نمبر 4:

؎ تاروں  سے سجا لیں گے  رہِ  شہر تمنا                         مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

اس شعر میں میں شاعرہ ناامیدی اور مایوسی کو اپنی زندگی سے نکالتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر مجھے سورج کی روشنی میں میسر نہ ہوئی یعنی محبت میں ناکامی ہوئی  تو بھی صبر شکر کر لوں گی۔اگر مجھے   کوئی امید کی کرن دکھائی نہ دے  تو میں سمجھ لوں گی کہ  میری قسمت میں محبوب کو پانا نہیں لکھا  تھا اور اس کے بغیر ہی اپنی راہ تلاش کر لو ں گی۔ اگر صبح کی روشنی میری قسمت میں نہیں تو  میں تاروں کی روشنی میں آگے بڑھنے  کے لیے راہ تلاش کر لوں گی۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ تاروں سے سجانا)

شعر نمبر 5:

؎ کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے                   جس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ اپنے محبوب  کے ہرجائی پن کا شکوہ  کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں اپنے اکیلے  پن  کا  گلہ نہیں کرتی نہ ہی  مجھے اپنے ساتھ نہ  چلنے والوں سے گلہ ہے۔ اگر  میرے محبوب نے   بے وفائی کر کے  یا ہرجائی بن کے  راستہ بدلہ ہے تو  اس  کا  مجھے اس سے کوئی شکوہ نہیں ہے ۔ اگر وہ راستہ بدل بھی لے تو بھی ہم سب کو ایک منزل کی تلاش ہی ہے۔ میرے رقیب بھی میرے ہم سفر ہیں ۔ہم سب کی منزل  اپنے اپنے محبوب کو پانا ہے ۔ میں  جانتی ہوں کہ بے شک میرے  محبوب نے  مجھے  بیچ راستے چھوڑ کر راستہ بدل لیا ہے، لیکن پھر بھی ہم سب کی آخری منزل محبوب کو پانا ہے اور آخر کار اسی منزل پہ ہم سب کو پھر سے اکٹھا  ہو جائیں گے۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ درو بام)

شعر نمبر 6:

؎ یادوں کے، وفاؤں کے، عقیدوں کے، غموں کے                                       کام آئے جو دنیا میں تو اصنام ہی آئے

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعرہ  محبت میں  مایوسی اور  اداسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس دنیا میں  ہمیشہ عورت ذات کے نصیب میں محبت کی خوشی  کم ہی نصیب  ہوتی ہے۔ ساری زندگی عورت اپنی حسرتِ ناتمام کو لیے  دل ہی دل میں روتی رہتی ہے۔ شاید محبت میں ناکامی اس کا مقدر بن چکا ہے۔  یادِ ماضی عذاب بن جاتا ہے، وفا کی متلاشی کو بے وفائی اور غم کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ بہر حال وہ جینے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکال لیتی ہے اور یک طرفہ محبت دل میں لیے اپنے محبوب  کو چاہتی رہتی ہے ، اس کے ظلم و ستم کو برداشت کر تی رہتی ہے۔  ۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ اصنام)

شعر نمبر 7:

؎ تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا                               کام آئے تو پھر یہ جذبہ  ناکام ہی آئے

اس شعر میں شاعرہ محبت میں ناکامی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم سب عشق کی راہ سے تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔ میں نے اپنے تمام جذبات کو محبوب کی جھولی میں ڈال دیا ہے ۔میں جس قدر اپنے محبوب سے محبت کر سکتی تھی میں نے اس کی انتہا کر دی ہے۔  میں نے اپنا دل کھول کر محبوب کے سامنے رکھ دیا لیکن  افسوس مجھے اس کا کوئی صلہ نہیں ملا ۔ لیکن  جو چیز میرے کام آئی وہ  میری ناکام محبت تھی،  اس کی ناکام چاہت  تھی۔ اب یہ ناکام چاہتوں  کےجذبات ہیں  جو میری میری باقی ماندہ  زندگی کا اثاثہ ہیں۔ اب اسی یاد اور اسی ناکام محبت کے سہارے ہی مجھے اپنی ساری زندگی گزارنی ہوگی۔(مجاز مرسل۔۔۔۔ سرِ کوئے تمنّا)

شعر نمبر 8:

؎  باقی نہ رہے ساکھ ادا ؔدشت جنوں کی                         دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

اپنی غزل کے اس مقطع میں ادا جعفری اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے کہتی ہے کہ عشق کے صحرا میں  عشق کی قدر و قیمت  اُس وقت ختم ہوجاتی ہے  جب انسان عشق کے انجام کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔  عشق  کی دیوانگی کی انتہا  یہ ہے کہ ہمیشہ انسان اس میں آگے بڑھتا رہے کبھی بھی اس کے انجام کے بارے میں نہ سوچے ۔ جب انسان کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہو جائے کہ اس  عشق کا انجام کیا ہوگا  تو وہ محبت کے مقام سے گر جاتا ہے اور کبھی بھی اپنی منزل کو نہیں پا سکتا۔  (مجاز مرسل۔۔۔ دشتِ جنوں)