اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

njabhs notes hissa nassar class 9th لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
njabhs notes hissa nassar class 9th لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 23 مئی، 2019

اردو نوٹس برائے جماعت نہم حصہ نثر HISSA NASAR CLASS 9TH

سبق نمبر1: صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے
مصنف: ڈپٹی نذیر احمد

مشقی سوالات سبق "صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے"

سوال1: مصنف ڈپٹی نذیر احمد کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔

جواب: مقصدیت اور  اصلاحی انداز:   ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں مقصدیت اور  اصلاحی و تربیتی انداز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کیلیے ناول، افسانے اور بے شمار کہانیاں تحریر کی ہیں۔

 طنز و مزاح کا عنصر: ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے انتہائی ہلکے  پھلکےانداز میں  ہمارے معاشرے کی خامیوں پر طنز کیا ہے اور اپنے افسانوں کے ذریعےانکی اصلاح کی کوشش کی ہے۔

مکالماتی انداز: ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور کہانیوں میں مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے انتہائی لطیف انداز میں مفید اور سائنسی معلومات کو مکالمات کی صورت میں بیان کیا ہے۔

 بہترین کردار نگاری: ڈپٹی نذیر احمد کو کردار نگاری میں کمال حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریرات میں کرداروں  کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

ماحول کی عکاسی: ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کاحالات وواقعات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری ان کے زمانے اور اُس دور کی تہذیب اور ثقافت سے  لطف اندوز ہوتا ہے ۔

سوال 2: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کا مرکزی خیال اس طرح بیان کریں کہ مصنف کا پیغام واضح ہو جائے۔

جواب: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ  مصنف ڈپٹی نذیر احمد  ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ  ہم اپنی زندگیوں میں چند باتوں کا خیال رکھیں تو زندگی خوشحال  ہو جاتی ہے اور کام بھی آسان ہو جاتے ہیں۔  جیسا کہ صبح جلدی اٹھنے کے بے شمار فائدے ہیں، اس سے انسان دن بھر چست رہتا ہے۔ مطالعہ کتب سے علم بڑھتا ہے اور ہر طرح کی ہوشیاری آتی ہے۔  نیز مصنف نے  اس سبق میں امیروں کے دولت پر غرور کرنے کی پُر زور مذمت کی ہے۔

سوال 3: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے میں بتایا گیا ہے کہ محمودہ کو اس کی استانی نے صبح جلدی اٹھنے کے نصیحت کی تھی۔

 آپ کو بھی کسی استاد/استانی نے کبھی کوئی نہ کوئی نصیحت کی ہوگی۔ اس نصیحت کا آپ پر کیا اثر ہوا؟ اپنے الفاظ میں بیان کریں۔

جواب:   جب میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا تو مجھے صبح   دیر تک   سونے کی عادت تھی، ایک روز میری استانی نےمجھے صبح جلدی اٹھنے کی نصیحت کی اور جلدی اٹھنے کا طریقہ بتایا کہ میں گھر میں  ایسے فرد کو تاکید کر دوں  جو صبح جلدی  بیدار ہوتا ہو ، میرے منہ پر چھینٹے مار کر جگا دیا کرے، شروع میں مجھے پریشانی ہوئی اور سر میں درد رہتا تھا لیکن آہستہ آہستہ  مجھے صبح خیزی کی عادت ہو گئی ۔ اب میں نہ صرف صبح جلدی اُٹھتا ہوں بلکہ  اسکول بھی جلدی پہنچتا ہوں ۔

سوال 4: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ امراء کن عادات کے مالک ہوں تو ان کے کردار کی مذمت کرنی چاہیے؟

جواب: اگر دولت پا کر لوگ گھمنڈ اور غرور کریں اور یہ سمجھیں کہ وہی سب سے بڑے ہیں۔ جتنے بھی غریب ہیں وہ حقیر اور ذلیل ہیں اور ان کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ آپ ہاتھ نہ ہلائیں اور دوسروں کی محنت سے آرام حاصل کریں۔ اپنی دولت سے غریبوں کا حصہ نہ نکالیں۔ تو ایسے امراء کے کرداروں کی مذمت کرنی چاہیے۔


سوال5: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ امیر لوگ کن   خصوصیات کے حامل ہوں تو ان کے کردار کی  تعریف کرنی چاہیے؟

جواب: اگر دولت پا کر  انسان گھمنڈ اور غرور  نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ  سب برابر  ہیں۔ جتنے بھی غریب ہیں وہ قابلِ احترام  ہیں اور ان کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا  نہیں کیے گئے ۔ انھیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو۔ وہ  اپنی دولت سے غریبوں کے لیے صدقہ خیرات نکالیں۔ تو ایسے امراء کے کرداروں کی تعریف کرنی چاہیے۔

سوال 6: تعلیم یافتہ لوگ  ان پڑھ کی نسبت اپنی زندگی سے کیسے زیادہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟ روزمرہ زندگی سے دو مثالیں دے کر اس نقطے کی وضاحت کیجیے۔

جواب:  تعلیم یافتہ اور باشعور افراد دوسروں کے لیے بھی مددگار بنتے ہیں اور اپنی زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 

مثلاً حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے وہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔علم کے بل بوتے پر اپنے کاروبار کو فروغ دے کر کامیاب تاجر بن سکتے ہیں۔


اس کے علاوہ سبق کےچند تفہیمی سوالات برائے تیاری امتحان پیش ہیں۔ ان کے جوابات طلبہ خود سے لکھنے کی کوشش کریں۔
1: صبح جلدی اٹھنے کے چند فائدے بیان کریں۔
2: کتابیں پڑھنے کے کوئی سے تین فوائد تحریر کریں۔ نیز کتابیں نہ پڑھنے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟
3: حسن آراء میں کیا خامیاں  پائی جاتی تھیں؟


سبق نمبر2: مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
مصنف: سجاد  حیدر  یلدرم
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:
طنز ومزاح کا عنصر:  سید سجاد حیدر یلدرم  نے اپنی تحریرات میں طنز ومزاح کے پھول کھلائے ہیں۔ لیکن ان کا مزاح سلجھا ہوا ہے۔ اس میں چُبھن تو ضرور ہے لیکن طنز کے تیر نہیں ہیں۔
خیال آرائی یلدرم کی تحریرات اور کہانیاں خیا لی ہیں۔ جن میں صداقت کی کمی ہے مگر یلدرم نے اس کمی کو اپنی بہترین خیال آرائی سے پورا کیا ہے۔ اس طرح قاری (پڑھنے والا) اسے حقیقت تصور کرتا ہے۔
جذبات نگاری جذبات نگاری میں یلدرم کو کمال حاصل ہے۔  اگرچہ انھوں نے کئی افسانے اور کہانیاں دوسری زبانوں سے ترجمہ کی ہیں، لیکن ان میں جذبات نگاری بھی اسی انداز سے کی ہے۔ اس لیے ان کی تحریرات کو  محض ترجمہ کہنا زیادتی ہوگا۔
ماحول کی بہترین عکاسی:  سجاد حیدر یلدرم کی تحریرات ہمارے ماحول کی بہترین عکاس ہیں۔ انھوں نے ہمارے روزمرہ مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔
سبق کا مرکزی خیال:  سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف سید سجاد حیدر یلدرم ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ دوستی میں حد سے زیادہ بے تکلفی اکثر اوقات دوستی میں دراڑ پیدا کر دیتی ہے۔  مصنف کے مطابق دوستی کو  مضبوط رکھنے کیلیے  کچھ اصول  طے کر لینے چاہئیں ورنہ ایک دوسرے سے نفرت پیدا ہو جائے گی۔   ضرورت سے زیادہ بے تکلف دوست  تنہائی میں کام نہیں کرنے دیتے اور ہمارا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ رات دیر تک بیٹھے رہنا، دعوتوں میں بلا لینا اور قرض مانگ لینا ایسی عادات ہیں جو دوستی کے نام پر دھبہ ہیں۔


اس سبق کا خلاصہ یہ ہے کہ سجاد حیدر یلدرم  ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ ہمیں دوستی کے لیے چند اصول طے کر لینے چاہئیں ورنہ حدسے زیادہ بے تکلف دوست آپ کا جینا دوبھر کر دیں گے۔

مصنف نے اپنی اپ بیتی بیان کی ہے کہ ایک روز چاندنی چوک سے گزرتے وقت اس نے ایک فقیر کو اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتے ہوئے دیکھا. فقیر لوگوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ "میں غریب الوطن ہوں میرا کوئی دوست نہیں، میری مدد کرو۔" یہ طرز اس کو خاص معلوم ہوا اور اس نے اس کی حالت کو اپنی حالت سے موازنہ کیا تو اسے ایک چیز میں وہ حد درجے بہتر نظر آیا, وہ یہ کہ فقیر کا کوئی دوست نہیں اور میرے بہت زیادہ دوست ہیں. مصنف اس شخص کو دل ہی دل میں خوش قسمت کہتے ہوئے گھر پہنچا, کہ فقیر کو فرصت ہی فرصت ہے اور نہ ہی روپیہ مانگنے والا کوئی دوست ہے۔

 سبق میں مصنف نے اپنے چار دوستوں کا ذکر بھی کیا. پہلے دوست احمد مرزا ہیں جنہیں وہ بھڑ بھڑیا دوست کہتا ہے. اگرچہ یہ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو کر صرف ایک منٹ ہی بیٹھتے, اس ایک منٹ میں اتنا بولتے کہ سب خیالات ذہن سے چلے جاتے. دوسرے دوست محمد تحسین, بال بچوں والے ہیں جو جہاں بھی ہوں جو بھی بات کریں اپنے بچوں کی بیماری پر ہی کریں. تیسرے دوست مقدمے باز دوست, جنہیں صرف ریاست کے مقدموں پر ہی بولنا ہے۔

آخری دوست محمد شاکر خاں, باقی دوستوں سے ذرا مختلف ہیں. رئیس اور معزز آدمی ہیں. مگر ایک بار جب یہ مصنف کو اپنے گھر لے گئے اگرچہ ان کی خوب خاطر خدمت کی مگر مصنف کو لکھنے کا مکمل سامان مہیا نہ تھا مزید یہ کہ مصنف کو دو منٹ سکون کو لکھنے کے لیے میسر نہیں آیا, کبھی پرندوں کی آواز تو کبھی بھائی کی موسیقی آخر سب ختم ہونے کے بعد مصنف کو لکھنے کے لیے صرف اتنا وقت ملا کہ وہ سبق مکمل کرسکے.

 مصنف کے تمام دوست مصنف کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن سب دوست مصنف کا وقت ضائع کرتے ہیں اس لیے مصنف ان سے نالاں ہے اور یہ فیصلہ کر کے بیٹھا ہے کہ وہ سب کو چھوڑ دے گا.


سبق کےچند تفہیمی سوالات:


سوال نمبر1: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" میں مصنف اپنے دوستوں کے رویے سے کیوں نالاں(ناراض) ہے اور انھیں چھوڑنا چاہتا ہے؟

جواب: مصنف اپنے دوستوں کے رویوں سے اس لیے ناراض ہے کیونکہ وہ اس کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔ کام نہیں کرنے دیتے۔ آرام میں خلل ڈالتے ہیں۔ پیسے ادھار مانگتے ہیں اور واپس نہیں کرتے۔ اس لیے مصنف انھیں چھوڑنا چاہتا ہے۔

سوال نمبر2: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" میں مصنف نے کن امور میں خود کو فقیر سے کم تر تصور کیا ہے؟

جواب:

مصنف نے خود کو فقیر سے اس لیے کم تر تصور کیا کیونکہ: فقیر  ہٹا کٹا اور صحت مند ہے جبکہ مصنف نحیف و نزار ہے۔ مصنف رات دن فکر میں گزارتا ہے جبکہ فقیر بے فکری کی زندگی گزارتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فقیر کا کوئی دوست نہیں جس نے اس کا مصنف کے دوستوں کی طرح جینا دوبھر کر رکھا ہو۔

سوال نمبر3: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کو مد نظر رکھتے ہوئے  آپ کے مطابق ایک اچھے دوست میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟ تین تحریر کریں۔

جواب:

اچھا دوست ہمیشہ مصیبت میں کام آتا ہے۔ آپ کی عزت و احترام کرنے والا ہو۔ آپ کو برے کاموں سے روکے اور نیک کاموں کی صلاح دے۔

سوال نمبر4: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کو مد نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ مصنف کے دوستوں(احمد مرزا،  محمد تحسین، مقدمے باز دوست اور شاکر خان کا رویہ مصنف کے ساتھ کیسا تھا؟ ہر ایک کا رویہ الگ الگ بیان کریں۔

جواب:

احمد مرزا: بہت باتیں کرتا، مصنف کے کام میں خلل ڈالتا، بغیر اجازت مصنف کے کمرے میں آ جاتا۔

محمد تحسین: ہمیشہ صرف اپنے بیوی بچوں کی بیماریوں کا ذکر کرتے، مصنف کا وقت ضائع کرتے اور آرام میں خلل ڈالتے۔

مقدمے باز دوست: ہر وقت دوسروں کی غیبت کرتے، مصنف کا وقت ضائع کرتے اور کام میں خلل ڈالتے تھے۔

شاکر خان: مصنف پیارا دوست تھا ہمیشہ مصنف کا خیال رکھتا تھا لیکن مصنف کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا تھا۔۔ کام اور آرام میں خلل پیدا ہوتا تھا۔

سوال نمبر5:   " چاہے مجھ پر نفرین کی جائے مگر میں  یہ کہے بغیر نہیں   رہ سکتا  کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ نہیں ثابت نہیں کر سکا کہ احباب کا ایک جمِ غفیر رکھنے  اور شناسائی کے  دائرےکو وسیع کرنے کا کیا فائدہ ہے۔" 

     کیا آپ دیے گئے اقتباس میں  مصنف کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں؟ دلائل سے واضح کریں

جواب: اس اقتباس میں مصنف کے پیش کردہ موقف سےمیں مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں کیونکہ ہمارے قریبی دوست ہمیشہ ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں اور کام نہیں کرنے دیتے۔ مثلاً اگر ایک طالب علم اپنی دوستیاں نبھاتا رہے تو اس کی پڑھائی کا حرج ہوگا اور امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔



سبق نمبر3: تحریک
مصنف: منشی پریم چند
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:
  : کردار نگاری: منشی پریم چند کو کردار نگاری پر عبور حاصل تھا۔ کسی بھی کردار کی خوبیوں اور مزاج کو اس طرح واضح کرتے گویا  ہم ان کرداروں کو اپنے سامنے موجود پاتے ہیں۔
   : مکالمہ نگاری: مکالمہ نگاری پریم چند کے افسانوں کی نمایاں خوبی ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم دو افراد کے مابین ہونے والی گفتگو سن رہے ہوں۔
  :سادگی اور تسلسل: منشی پریم چند کے افسانوں اور تحریرات میں استعمال ہونے والی زبان انتہائی سادہ اور سلیس ہے۔  اگرچہ انھوں نے دیگر کئی زبانوں کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے یہ الفاظ عوام میں رائج ہیں۔
  :مقصدیت:  پریم چند کی تحریرات میں مقصدیت کا عنصر نمایاں ہے۔ انھوں نے  اپنے افسانوں کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
سبق کا مرکزی خیال:  
سبق تحریک کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں کبھی نہ کبھی  پیش آنے والا کوئی سانحہ  یا واقعہ یا اس شخص کی کسی سے والہانہ محبت  اسکی زندگی میں ایسی تحریک پیدا  کرتی ہے جو اس کی کایا پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اوروہ غیر ذمہ دار سے ذمہ دار اور فرض شناس شہری بن جاتا ہے۔  اگرچہ اس سے پہلے اس کا کردار کتنا  ہی برا کیوں نہ ہو، وہ دوسروں کے سامنے عمدہ مثال بننے کیلیے اپنی عادات کو یکسر بدل دیتا ہے۔ نیز مصنف منشی پریم چند ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حکام  یا افسران بالا سے اگر اختلافات ہو جائیں تو حق پر ہونے کے باوجود اکثر اوقات نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہے۔

سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1:  سبق "تحریک " کو مد نظر رکھتے ہوئے مرکزی کردار  سورج  پرکاش کے منفی اور مثبت رویے بیان کریں۔ تین تین رویے تحریر کریں۔ 
2:سبق "تحریک " کو مد نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ  سورج پرکاش کے رویے میں مثبت تبدیلی کیوں کر (کیسے) ممکن ہوئی؟
3: موہن کی موت کیسے واقع ہوئی؟ اور اسکا سورج پرکاش پر کیسا اثر پڑا؟

سبق نمبر4: چراغ کی لَو
مصنف: ہاجرہ مسرور
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:
  : دلچسپ اور سادہ انداز بیان ہاجرہ  مسرور نے  اپنی تحریرات میں انتہائی سادہ اور دلچسپ انداز اپنایا ہے۔ان کا انداز بیان عام روایات سے ہٹ کر ہے۔ اس لیے اسے اردو ادب میں بہت پسند کیا گیا ہے۔
  : طنز نگاری: ہاجرہ مسرور کی تحریرات میں طنز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں طنز کے تیر چلائے ہیں اور خاص طور پر صاحب حیثیت اور امراء  کے کرداروں  کو نشانہ بنایا ہے۔
  : کردار نگاری: ہاجرہ مسرور کو کردار نگاری میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں کرداروں کے مزاج اور نفسیات  کا اس طرح نقشہ کھینچا ہے گویا وہ کردار جیتے جاگتے ہماری آنکھوں کے سا منے  نظر آتے ہیں۔

سبق کا مرکزی خیال: 
 سبق " چراغ کی لَو میں ہاجرہ مسرور ہمارے معاشرے کی بے حسی کو بیان کرنا چاہتی ہیں۔ اکثر امیر لوگ غرباء کا خیال نہیں رکھتے ۔ انھیں اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں جو مال و دولت حاصل ہے اس میں سے غریبوں کی مدد نہیں کرتے۔ البتہ  ریاکاری اور دکھاوے کی خاطر دنیا کو دکھانے کیلیے غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔  نیز وہ ہمیں سمجھانا چاہتی ہیں کہ جو لوگ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے ان کے گھروں میں ہمیشہ مایوسی کے بادل چھائے رہتے ہیں۔

سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1: ہاجرہ مسرور  نے اپنے افسانے "چراغ کی لَو " میں لفظ  تجارت کا استعمال کرتے ہوئے کس انسانی رویے کی طرف اشارہ کیا ہے؟
2: اچھن کی ماں کی موت کیسے واقع ہوئی تھی؟
3:  افسانہ "چراغ کی لَو" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے   تبصرہ کریں کہ "غربت بچوں کی خواہشات کی قاتل ہے۔"
4:  افسانہ "چراغ کی لَو" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے  بتائیں کہ اچھن کے گھر میں غربت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ 
5: ہاجرہ مسرور نے اپنے افسانے کا نام "چراغ کی لَو " علامتی طور پر استعمال کیا ہے۔ آپ کے خیال میں چراغ کی لَو کا بڑھنا کس چیز کی علامت ہے؟
6:  افسانہ "چراغ کی لَو" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے  بتائیں کہ اچھن چراغ کی لَو کیوں بڑھانا چاہتی تھی؟  نیز اسے گھر کے صحن سفید کپڑوں لپٹے  ڈھانچے کیوں دکھائی دیتے تھے؟

سبق نمبر5: نہ گھر کے نہ گھاٹ کے
مصنف: شفیع عقیل
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:

محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال: شفیع عقیل نے اپنے افسانوں میں محاورات اور ضرب الامثال کا  کمال مہارت سے استعمال کیا ہے۔

طنز و مزاح کا عنصر:   شفیع عقیل  نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔  حق گوئی اور بے باکی ان کا شعار تھا ۔وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا ۔

سادگی اور تسلسل:   سادگی ، روانی اور تسلسل ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں۔

سبق کا مرکزی خیال:  
  سبق " نہ گھر  کے نہ گھاٹ کے" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اس میں مصنف شفیع عقیل جانوروں اور پرندوں کی مثال دے کر انسانوں کے خوشامد پسندانہ اور منافقانہ رویے کی  طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ  سمجھانا چاہتے ہیں کہ اپنی قوم اور گروہ کے ساتھ ہر حالت میں وفادار رہنا چاہیے. ان کے دکھ، درد، غمی،  خوشی  میں انکا ساتھ دینا چاہیے. ورنہ مصیبت میں اپنوں کو چھوڑ کر غیروں سے مل جانے والے دونوں طرف سے دھتکار دیے جاتے ہیں. اسطرح مایوسی اور شرمندگی انکا مقدر بن جاتی ہے. نیز ہمارے معاشرے میں غریب اور کمزور لوگوں کی رائے کی کوئی اہمیت  نہیں  سمجھی جاتی۔    علاوہ ازیں فتح  یا کامیابی کی خوشی کا جشن مناتے وقت  اعتدال سے کام لینا چاہیے اور اپنے دشمن سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1: اس سبق " نہ گھر  کے نہ گھاٹ کے"کے مطابق چمگادڑوں کے کردار کی چند خصوصیات تحریر کریں۔
2: آپ کے خیال میں ایک اچھے بادشاہ میں کن صفات کا ہونا ضروری  ہے؟
3: معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنے کیلیے انسان کو کن خصوصیات  کا حامل ہونا چاہیے؟
4:  اس سبق" نہ گھر  کے نہ گھاٹ کے" کے مطابق  پرندے اور درندے ایک بادشاہ کے انتخاب پر کیوں راضی نہ ہو سکے؟


سبق نمبر6: قائدِ اعظم اور نظم و ضبط
مصنف: قدرت اللہ شہاب
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:
ماحول کی عکاسی:   قدرت اللہ شہاب  کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ وہ دیگر عوامل  جیسے حالات و واقعات کے ساتھ  ساتھ  اپنے زمانے کے  تاریخی حوالوں کا  بھی انتہائی خوبصورتی سےذکر کرتے تھے۔
 ذاتی مشاہدہ:    ان کی تحریرات کا زیادہ حصہ ان کے ذاتی مشاہدے پر مشتمل ہے ۔ اس لیے ان کی لکھی کہانیاں اور خاکے حقیقت پر مبنی ہیں۔  انھوں نے مبالغہ آرائی کی بجائے حقیقت پسندانہ  انداز اپنایا ہے۔
  سوانح نگاری:  قدرت اللہ شہاب ایک بہترین سوانح نگار تھے۔ انھوں نے اپنے دور کے عظیم لوگوں کے حالات ِ زندگی کو قلم بند کیا ہے۔
  طنز نگاری:   قدرت اللہ شہاب اپنے دور کے     بہترین نقاد تھے۔ انھوں نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر بھر پور انداز میں طنز کیا ہے ۔ مسائل کی نشاندہی کی اور اصلاح کی کوشش کی ہے۔
سبق کا مرکزی خیال:  
سبق  " قائد اعظم اور نظم و ضبط " کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اس میں مصنف  قدرت اللہ شہاب  ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے عظیم رہنما قائد  اعظم محمد علی جناح  کی مثالی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ایسی عادات اور اطوار کو اپنانا چاہیے جو  ملک و  قوم کی ترقی اور سلامتی کا موجب ہوں۔ نیز اپنی پیشہ وارانہ زندگی کو بددیانتی اور بے ایمانی سے پاک کر کے اُجاگر کرنا چاہیے۔
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1: سبق  " قائد اعظم اور نظم و ضبط " میں مصنف نے قائد اعظم کی سیرت کے کس پہلو پر روشنی ڈالی ہے؟
2: سبق  " قائد اعظم اور نظم و ضبط " کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ ایک طالبعلم اپنی درسگاہ اور معاشرے میں نظم و ضبط کو  کیسےفروغ دے سکتا ہے؟

سبق نمبر7: نام دیو ۔۔۔۔ مالی
مصنف: مولوی عبدالحق
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:
مقصدیت:‎ مولوی عبد الحق کی تحریرات میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔ ان کا اولین مقصد اردو ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اصلاح و تربیت ہے۔
مدلل انداز:‎ مولوی عبد الحق نے اپنی تحریرات میں مدلل انداز اپنایا ہے۔ انھوں نے مبالغہ آرائی کی بجائے اپنا موقف دلائل سے پیش کیا ہے۔
خلوص اور سچائی:‎ مولوی عبد الحق کی تحریرات خلوص اور سچائی سے پر ہیں۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی اور دل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
بہترین سوانح/خاکہ نگاری:‎ ان کو سوانح نگاری میں کمال تھا۔ انھوں نے اپنے دور کی عظیم اور مشہور شخصیات کے علاوہ معاشرے کے کمزور اور کم اہم سمجھے جانے والے لوگوں کے حالات زندگی بھی بیان کیے ہیں۔ جیسے نام دیو مالی۔

سادہ اور آسان زبان کا استعمال:
سبق کا مرکزی خیال:  
سبق  " نام دیو۔۔۔ مالی " کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف مولوی عبدالحق ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ سچائی ، نیکی، حُسن  اور نیکی کسی کی میراث نہیں ہیں۔ یہ خوبیاں نیچی ذات والوں میں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی اونچی ذات والوں میں۔  نیز ہر شخص میں قدرت نے  کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے۔ اس صلاحیت کو درجہ کمال تک پہنچانے میں ہی سب نیکی اور بڑائی ہے۔  اگرچہ درجہ کمال تک عام انسانوں میں سے نہ کوئی پہنچا ہے اور نہ پہنچ سکتا ہے، البتہ درجہ کمال تک پہنچنے کی کوشش  ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔ 
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1: نام دیو۔۔۔ مالی کے کردار کی چند خوبیاں تحریر کریں۔ 
2: نام دیو۔۔۔ مالی  کی موت کیسے واقع ہوئی؟
3: نام دیو ۔۔۔ مالی نے اچھی کارکردگی پر انعام وصول کرنے سے کیوں انکار کیا تھا؟
4: باغ میں کام کرنے والے دیگر مالیوں کا رویہ کیسا تھا؟
5: مصنف مولوی عبد الحق نے اپنے  خاکے " نام دیو۔۔۔ مالی" میں  مالی کی کردار نگاری پیش کر کے ہمیں کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے؟

سبق نمبر8: چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے
مصنف:امتیاز علی تاج
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:
طنز و مزاح:   سید امتیاز علی تاج کی تحریرات میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔   جسے پڑھ کر شگفتگی  اور تازگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔  ان کے طنز میں چبھن تو ہے مگر   کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی۔
کردار نگاری:   کردار نگاری میں انھیں کمال مہارت حاصل  تھی۔  وہ کردار  کو ایسی خوبصورتی سے پیش کرتے کہ اس کی صورت کے ساتھ ساتھ سیرت کا پہلو بھی واضح ہوتا ہے۔
روز مرہ اور تشبیہات کا استعمال:    انھوں نے اپنے افسانوں اور کہانیوں میں روزمرہ ، محاورات اور تشبیہات کا نہایت احسن انداز سے استعمال کیا ہے۔ ان کی اس خوبی نے ان کے افسانوں کو چار چاند لگا دیے۔
سبق کا مرکزی خیال:  
سبق "چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے" کا مرکزی خیال یہ ہے کہبعض مردوں میں عادت ہوتی ہے کہ وہ   اپنے آپ کو سب سے زیادہ سلیقہ مند اور سگھڑ سمجھتے ہیں اور دوسروں کی کاموں میں بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ جبکہ  عورتوں اور مردوں کے   مخصوص کام ہوتے ہیں۔  ایسے مرد جب عورتوں کے کاموں میں ٹانگ اڑاتے ہیں تو کام بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔  جب انھیں  روکا جائے تو اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے منہ پُھلا لیتے ہیں  یعنی ناراض ہو جاتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ "جس کا کام اُسی کو ساجھے دوسرا کرے تو ٹھینگا باجے۔"
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1: چچا چھکن کے کردار کی تین خصوصیات تحریر کریں۔
2: چچی جان ہمیشہ چچا چھکن سے کیوں خفا رہتی تھیں؟
3: چچی  کیوں چاہتی تھی کہ چچا چھکن دھوبن کو کپڑے نہ دیں؟
4:  دھوبن کو کپڑے دیتے وقت گھر کی جو حالت مصنف نے بیان کی ہے اسے اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔


سبق نمبر9: فاطمہ بنت عبداللہ
مصنف:مرزا ادیب
مصنف کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات:

  کردار نگاری: مرزا ادیب کو کردار نگاری پر عبور حاصل تھا۔ کسی بھی کردار کی خوبیوں اور مزاج کو اس طرح واضح کرتے گویا  ہم ان کرداروں کو اپنے سامنے موجود پاتے ہیں۔

مکالمہ نگاری: مکالمہ نگاری  ان کے افسانوں کی نمایاں خوبی ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم دو افراد کے مابین ہونے والی گفتگو سن رہے ہوں۔

سادگی اور تسلسل: مرزا ادیب کے افسانوں اور تحریرات میں استعمال ہونے والی زبان انتہائی سادہ اور سلیس ہے۔  اگرچہ انھوں نے دیگر کئی زبانوں کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے یہ الفاظ عوام میں رائج ہیں۔

مقصدیت:  مرزا ادیب کی تحریرات میں مقصدیت کا عنصر نمایاں ہے۔ انھوں نے  اپنے افسانوں  اور ڈراموں کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔

سبق کا مرکزی خیال:  
سبق " فاطمہ بنت عبداللہ " کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اسلام کی خاطرقربانی پیش کرنے والوں میں نہ صرف بڑی عمر کے مردوں اور عورتوں نے ہی حصہ لیا ہے بلکہ اس لڑائی میں کم سن بچے بچیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تاریخ رقم کی ہے۔ نیز مصنف مرزا ادیب  ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ والدین کی  بہترین تربیت اور  بہادری کا  عملی نمونہ ہی  مسلمان بچوں میں اسلام کی محبت  اور قربانی کے جذبے کو پروان چڑھاتا ہے۔
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
1: اس ڈرامے کے مرکزی کردار کونسے ہیں؟
2: اس ڈرامے میں کس جنگ کا ذکر کیا گیا ہے؟
3: فاطمہ بنت عبداللہ نے جنگ میں کیا خدمات انجام دی تھیں؟
4: فاطمہ کی والدہ اسے جنگ میں کیوں نہیں بھیجنا چاہتی تھیں؟


***مکاتیبِ غالب***
 مرزا غالب کا خط مرزا تفتہ کے نام+  مرزا غالب کا خط میر مہدی مجروح کے نام 
غالب کے خطوط نگاری کی چند خصوصیات:

1.    منفرد اندازِ مکتوب نگاری: غالب نے  اپنے خطوط میں قدیم اندازِ آداب و تکریم کو ترک کر کے جدید انداز اپنایا ہے۔   اپنے مراسلوں میں تاریخ، دن، مہینہ اور سال کا ذکر ضرور کرتے تھے۔  سلام دعا کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہ کرتے کبھی خط کے آغاز میں ، کبھی درمیانی حصہ تو کبھی  اختتام میں سلام دعا لکھتے تھے۔

2.    ماحول کی عکاسی: غالب کے خطوط انکے ماحول، معاشرے اور تہذیب کی عکاسی کرتے تھے۔  اکثر خطوط میں وہ  اپنی صحت کا احوال بیان کرتےکرتے تختِ دہلی کی حالتِ زار اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکرضرور کرتے تھے۔

3.    شوخی اور ظرافت:  غالب کے خطوط میں شوخ لہجہ پایا جاتا ہے۔ لیکن انکا شوخ لہجہ مکتوب الیہ کے مقام ، مرتبے،عمر اور مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔

4.    مکالماتی اندازِ بیان:  انکے خطوط میں مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔ وہ خط اس انداز سے لکھتے گویا مکتوب الیہ کے سامنے بیٹھے اُس سے باتیں کر رہے ہوں۔

 مکاتیبِ  غالب   کےچند تفہیمی سوالات:

1: مرزا غالب نے مرزا تفتہ کو خط کیوں لکھا؟

2: غالب نے مرزا تفتہ کے نام   خط کے آغاز میں شعر کے ذریعےمکتوب الیہ کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی ہے؟

3: غالب نے مرزا تفتہ کے نام   خط کےاختتام  میں شعر کے ذریعےمکتوب الیہ کو کیا نصیحت کی ہے؟

4: مرزا غالب کا خط میر مہدی مجروح کے نام کا مرکزی خیال تحریر کریں۔


***مکتوبِ رشید صدیقی***
رشید  احمد صدیقی کا خط نظیر احمد صدیقی  کے نام

رشید احمد صدیقی کے خطوط نگاری کی چند خصوصیات:

       بامقصد تنقید: رشید صدیقی بہترین تنقید نگار تھے۔ ان کے خطوط میں بامقصد تنقید پائی جاتی ہے۔ انکی تنقید ہمیشہ اصلاحی اور تعمیری ہوتی ہے۔

    مزاح نگاری: انکے خطوط میں طنز و مزاح کا ملا جُلا عنصر پایا جاتا ہے۔ انکا ذوقِ مزاح بہت بلند ہے اور طنز کا رنگ بہت مدھم اور دھیما ہے۔

       منفرد اندازِ مکتوب نگاری: رشید صدیقی کے مکتوب نگاری کا انداز منفرد ہے۔ انکا اندازِتحریر سادہ، زبان باوقار ہے اور دردمندی و خلوص کے جذبات نمایاں ہیں۔

 خط کےچند تفہیمی سوالات:

سوال: ایک اچھے تنقید نگار میں کیا صفات ہونی چاہئیں؟

    اچھا تنقید نگار شعر و ادب کا ضمیر ہوتا ہے۔ کیونکہ اسکی تنقید ہمیشہ سچائی پر مبنی ہوتی ہے۔ ضمیر چونکہ دل کی آواز کو کہتے ہیں اسلیے وہ شعر و ادب پر ہمیشہ خلوص کے جذبات کے ساتھ تنقید کرتا ہے۔

   وہ ہمیشہ تعصب سے پاک تنقید کرتا ہے۔ اور اس کا تجزیہ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔

اسکی تنقید ہمیشہ اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کی رہنمائی کر سکے.

سوال: رشید  احمد صدیقی کا خط نظیر احمد صدیقی  کے نام  کا مرکزی خیال تحریر کریں۔