مشقی
سوالات سبق "صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے"
سوال1:
مصنف ڈپٹی نذیر احمد کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔
جواب: مقصدیت اور اصلاحی انداز: ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں مقصدیت اور اصلاحی و تربیتی
انداز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح
کیلیے ناول، افسانے اور بے شمار کہانیاں تحریر کی ہیں۔
طنز و مزاح کا عنصر:
ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے
انتہائی ہلکے پھلکےانداز میں ہمارے معاشرے کی خامیوں پر طنز کیا
ہے اور اپنے افسانوں کے ذریعےانکی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
مکالماتی
انداز: ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور کہانیوں میں مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔
انھوں نے انتہائی لطیف انداز میں مفید اور سائنسی معلومات کو مکالمات کی صورت میں بیان
کیا ہے۔
بہترین کردار نگاری:
ڈپٹی نذیر احمد کو کردار نگاری میں کمال حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریرات میں کرداروں کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ وہ ہماری آنکھوں
کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
ماحول کی عکاسی: ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کاحالات وواقعات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری ان کے زمانے اور اُس دور کی تہذیب اور ثقافت سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
سوال
2: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کا مرکزی خیال اس طرح بیان کریں کہ مصنف کا پیغام
واضح ہو جائے۔
جواب: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے
فائدے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف ڈپٹی نذیر
احمد ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں چند باتوں کا خیال رکھیں تو
زندگی خوشحال ہو جاتی ہے اور کام بھی آسان
ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ صبح جلدی اٹھنے کے بے
شمار فائدے ہیں، اس سے انسان دن بھر چست رہتا ہے۔ مطالعہ کتب سے علم بڑھتا ہے اور ہر
طرح کی ہوشیاری آتی ہے۔ نیز مصنف نے اس سبق میں امیروں کے دولت پر غرور کرنے کی پُر
زور مذمت کی ہے۔
سوال
3: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے میں بتایا گیا ہے کہ محمودہ کو اس کی استانی نے
صبح جلدی اٹھنے کے نصیحت کی تھی۔
آپ کو بھی کسی استاد/استانی نے
کبھی کوئی نہ کوئی نصیحت کی ہوگی۔ اس نصیحت کا آپ پر کیا اثر ہوا؟ اپنے الفاظ میں بیان
کریں۔
جواب: جب میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا تو مجھے صبح دیر تک سونے کی عادت تھی، ایک روز میری استانی نےمجھے صبح جلدی اٹھنے کی نصیحت کی اور جلدی اٹھنے کا طریقہ بتایا کہ میں گھر میں ایسے فرد کو تاکید کر دوں جو صبح جلدی بیدار ہوتا ہو ، میرے منہ پر چھینٹے مار کر جگا دیا کرے، شروع میں مجھے پریشانی ہوئی اور سر میں درد رہتا تھا لیکن آہستہ آہستہ مجھے صبح خیزی کی عادت ہو گئی ۔ اب میں نہ صرف صبح جلدی اُٹھتا ہوں بلکہ اسکول بھی جلدی پہنچتا ہوں ۔
سوال
4: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ امراء کن عادات
کے مالک ہوں تو ان کے کردار کی مذمت کرنی چاہیے؟
جواب:
اگر دولت پا کر لوگ گھمنڈ اور غرور کریں اور یہ سمجھیں کہ وہی سب سے بڑے ہیں۔ جتنے
بھی غریب ہیں وہ حقیر اور ذلیل ہیں اور ان کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ
آپ ہاتھ نہ ہلائیں اور دوسروں کی محنت سے آرام حاصل کریں۔ اپنی دولت سے غریبوں کا حصہ
نہ نکالیں۔ تو ایسے امراء کے کرداروں کی مذمت کرنی چاہیے
سوال5: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ امیر لوگ کن خصوصیات کے حامل ہوں تو ان کے کردار کی تعریف کرنی چاہیے؟
جواب: اگر دولت پا کر انسان گھمنڈ اور غرور نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ سب برابر ہیں۔ جتنے بھی غریب ہیں وہ قابلِ احترام ہیں اور ان کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ۔ انھیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو۔ وہ اپنی دولت سے غریبوں کے لیے صدقہ خیرات نکالیں۔ تو ایسے امراء کے کرداروں کی تعریف کرنی چاہیے
سوال 6: تعلیم یافتہ لوگ ان پڑھ کی نسبت اپنی زندگی سے کیسے زیادہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟ روزمرہ زندگی سے دو مثالیں دے کر اس نقطے کی وضاحت کیجیے۔
جواب: تعلیم یافتہ اور باشعور افراد دوسروں کے لیے بھی مددگار بنتے ہیں اور اپنی زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مثلاً حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے وہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔علم کے بل بوتے پر اپنے کاروبار کو فروغ دے کر کامیاب تاجر بن سکتے ہیں۔
2: کتابیں پڑھنے کے کوئی سے تین فوائد تحریر کریں۔ نیز کتابیں نہ پڑھنے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟
اس سبق کا خلاصہ یہ ہے کہ سجاد حیدر یلدرم ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ ہمیں دوستی کے لیے چند اصول طے کر لینے چاہئیں ورنہ حدسے زیادہ بے تکلف دوست آپ کا جینا دوبھر کر دیں گے۔
مصنف نے اپنی اپ بیتی بیان کی ہے کہ ایک روز چاندنی چوک سے گزرتے وقت اس نے ایک فقیر کو اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتے ہوئے دیکھا. فقیر لوگوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ "میں غریب الوطن ہوں میرا کوئی دوست نہیں، میری مدد کرو۔" یہ طرز اس کو خاص معلوم ہوا اور اس نے اس کی حالت کو اپنی حالت سے موازنہ کیا تو اسے ایک چیز میں وہ حد درجے بہتر نظر آیا, وہ یہ کہ فقیر کا کوئی دوست نہیں اور میرے بہت زیادہ دوست ہیں. مصنف اس شخص کو دل ہی دل میں خوش قسمت کہتے ہوئے گھر پہنچا, کہ فقیر کو فرصت ہی فرصت ہے اور نہ ہی روپیہ مانگنے والا کوئی دوست ہے۔
سبق میں مصنف نے اپنے چار دوستوں کا ذکر بھی کیا. پہلے دوست احمد مرزا ہیں جنہیں وہ بھڑ بھڑیا دوست کہتا ہے. اگرچہ یہ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو کر صرف ایک منٹ ہی بیٹھتے, اس ایک منٹ میں اتنا بولتے کہ سب خیالات ذہن سے چلے جاتے. دوسرے دوست محمد تحسین, بال بچوں والے ہیں جو جہاں بھی ہوں جو بھی بات کریں اپنے بچوں کی بیماری پر ہی کریں. تیسرے دوست مقدمے باز دوست, جنہیں صرف ریاست کے مقدموں پر ہی بولنا ہے۔
آخری دوست محمد شاکر خاں, باقی دوستوں سے ذرا مختلف ہیں. رئیس اور معزز آدمی ہیں. مگر ایک بار جب یہ مصنف کو اپنے گھر لے گئے اگرچہ ان کی خوب خاطر خدمت کی مگر مصنف کو لکھنے کا مکمل سامان مہیا نہ تھا مزید یہ کہ مصنف کو دو منٹ سکون کو لکھنے کے لیے میسر نہیں آیا, کبھی پرندوں کی آواز تو کبھی بھائی کی موسیقی آخر سب ختم ہونے کے بعد مصنف کو لکھنے کے لیے صرف اتنا وقت ملا کہ وہ سبق مکمل کرسکے.
مصنف کے تمام دوست مصنف کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن سب دوست مصنف کا وقت ضائع کرتے ہیں اس لیے مصنف ان سے نالاں ہے اور یہ فیصلہ کر کے بیٹھا ہے کہ وہ سب کو چھوڑ دے گا.
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
سوال نمبر1: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" میں مصنف اپنے دوستوں
کے رویے سے کیوں نالاں(ناراض) ہے اور انھیں چھوڑنا چاہتا ہے؟
جواب:
مصنف اپنے دوستوں کے رویوں سے اس لیے ناراض ہے کیونکہ وہ اس کا قیمتی وقت ضائع
کرتے ہیں۔ کام نہیں کرنے دیتے۔ آرام میں خلل ڈالتے ہیں۔ پیسے ادھار مانگتے ہیں اور
واپس نہیں کرتے۔ اس لیے مصنف انھیں چھوڑنا چاہتا ہے۔
سوال نمبر2: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" میں مصنف نے کن امور
میں خود کو فقیر سے کم تر تصور کیا ہے؟
جواب:
مصنف
نے خود کو فقیر سے اس لیے کم تر تصور کیا کیونکہ: فقیر ہٹا کٹا اور صحت مند ہے جبکہ مصنف نحیف و نزار
ہے۔ مصنف رات دن فکر میں گزارتا ہے جبکہ فقیر بے فکری کی زندگی گزارتا ہے۔ سب سے
بڑھ کر یہ کہ فقیر کا کوئی دوست نہیں جس نے اس کا مصنف کے دوستوں کی طرح جینا
دوبھر کر رکھا ہو۔
سوال نمبر3: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کو مد نظر رکھتے
ہوئے آپ کے مطابق ایک اچھے دوست میں کیا
خوبیاں ہونی چاہئیں؟ تین تحریر کریں۔
جواب:
اچھا
دوست ہمیشہ مصیبت میں کام آتا ہے۔ آپ کی عزت و احترام کرنے والا ہو۔ آپ کو برے
کاموں سے روکے اور نیک کاموں کی صلاح دے۔
سوال نمبر4: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کو مد نظر رکھتے ہوئے
بتائیں کہ مصنف کے دوستوں(احمد مرزا، محمد
تحسین، مقدمے باز دوست اور شاکر خان کا رویہ مصنف کے ساتھ کیسا تھا؟ ہر ایک کا رویہ
الگ الگ بیان کریں۔
جواب:
احمد
مرزا: بہت باتیں کرتا، مصنف کے کام میں خلل ڈالتا، بغیر اجازت مصنف کے کمرے میں آ
جاتا۔
محمد
تحسین: ہمیشہ صرف اپنے بیوی بچوں کی بیماریوں کا ذکر کرتے، مصنف کا وقت ضائع کرتے
اور آرام میں خلل ڈالتے۔
مقدمے
باز دوست: ہر وقت دوسروں کی غیبت کرتے، مصنف کا وقت ضائع کرتے اور کام میں خلل
ڈالتے تھے۔
شاکر
خان: مصنف پیارا دوست تھا ہمیشہ مصنف کا خیال رکھتا تھا لیکن مصنف کا قیمتی وقت
ضائع ہو جاتا تھا۔۔ کام اور آرام میں خلل پیدا ہوتا تھا۔
سوال نمبر5: " چاہے مجھ پر
نفرین کی جائے مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا
کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ نہیں ثابت نہیں کر سکا کہ احباب کا ایک جمِ غفیر
رکھنے اور شناسائی کے دائرےکو وسیع کرنے کا کیا فائدہ ہے۔"
کیا آپ دیے گئے اقتباس
میں مصنف کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں؟
دلائل سے واضح کریں
جواب:
اس اقتباس میں مصنف کے پیش کردہ موقف سےمیں
مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں کیونکہ ہمارے قریبی دوست ہمیشہ ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں
اور کام نہیں کرنے دیتے۔ مثلاً اگر ایک طالب علم اپنی دوستیاں نبھاتا رہے تو اس کی
پڑھائی کا حرج ہوگا اور امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سبق تحریک کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں کبھی نہ کبھی پیش آنے والا کوئی سانحہ یا واقعہ یا اس شخص کی کسی سے والہانہ محبت اسکی زندگی میں ایسی تحریک پیدا کرتی ہے جو اس کی کایا پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اوروہ غیر ذمہ دار سے ذمہ دار اور فرض شناس شہری بن جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے اس کا کردار کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، وہ دوسروں کے سامنے عمدہ مثال بننے کیلیے اپنی عادات کو یکسر بدل دیتا ہے۔ نیز مصنف منشی پریم چند ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حکام یا افسران بالا سے اگر اختلافات ہو جائیں تو حق پر ہونے کے باوجود اکثر اوقات نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہے۔
4: افسانہ "چراغ کی لَو" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ اچھن کے گھر میں غربت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
محاورات
اور ضرب الامثال کا استعمال: شفیع عقیل نے اپنے افسانوں میں محاورات اور
ضرب الامثال کا کمال مہارت سے استعمال کیا
ہے۔
طنز
و مزاح کا عنصر: شفیع
عقیل نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر طنزیہ
اور مزاحیہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ حق گوئی
اور بے باکی ان کا شعار تھا ۔وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ
کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا ۔
سادگی
اور تسلسل: سادگی ، روانی اور تسلسل ان کے کلام کی
نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں۔
4: اس سبق" نہ گھر کے نہ گھاٹ کے" کے مطابق پرندے اور درندے ایک بادشاہ کے انتخاب پر کیوں راضی نہ ہو سکے؟
4: باغ میں کام کرنے والے دیگر مالیوں کا رویہ کیسا تھا؟
4: دھوبن کو کپڑے دیتے وقت گھر کی جو حالت مصنف نے بیان کی ہے اسے اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔
کردار نگاری: مرزا ادیب کو کردار
نگاری پر عبور حاصل تھا۔ کسی بھی کردار کی خوبیوں اور مزاج کو اس طرح واضح کرتے
گویا ہم ان کرداروں کو اپنے سامنے موجود پاتے ہیں۔
مکالمہ
نگاری: مکالمہ
نگاری ان کے افسانوں کی نمایاں خوبی ہے۔
ان کے افسانے پڑھ کر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم دو افراد کے مابین ہونے والی
گفتگو سن رہے ہوں۔
سادگی
اور تسلسل: مرزا ادیب کے افسانوں اور تحریرات میں استعمال ہونے
والی زبان انتہائی سادہ اور سلیس ہے۔ اگرچہ انھوں نے دیگر کئی زبانوں کے
الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے یہ الفاظ عوام میں رائج ہیں۔
مقصدیت: مرزا
ادیب کی تحریرات میں مقصدیت کا عنصر نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں اور ڈراموں کے
ذریعے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
4: فاطمہ کی والدہ اسے جنگ میں کیوں نہیں بھیجنا چاہتی تھیں؟
1.
منفرد اندازِ مکتوب نگاری: غالب
نے اپنے خطوط میں قدیم اندازِ آداب و
تکریم کو ترک کر کے جدید انداز اپنایا ہے۔
اپنے مراسلوں میں تاریخ، دن، مہینہ
اور سال کا ذکر ضرور کرتے تھے۔ سلام دعا
کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہ کرتے کبھی خط کے آغاز میں ، کبھی درمیانی حصہ تو
کبھی اختتام میں سلام دعا لکھتے تھے۔
2. ماحول
کی عکاسی: غالب کے خطوط انکے ماحول، معاشرے اور تہذیب کی عکاسی کرتے تھے۔ اکثر خطوط میں وہ اپنی صحت کا احوال بیان کرتےکرتے تختِ دہلی کی
حالتِ زار اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکرضرور کرتے تھے۔
3. شوخی اور ظرافت: غالب کے خطوط میں شوخ لہجہ پایا جاتا ہے۔ لیکن
انکا شوخ لہجہ مکتوب الیہ کے مقام ، مرتبے،عمر اور مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔
4. مکالماتی اندازِ بیان: انکے خطوط میں مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔ وہ خط اس انداز سے لکھتے گویا مکتوب الیہ کے سامنے بیٹھے اُس سے باتیں کر رہے ہوں۔
مکاتیبِ غالب کےچند تفہیمی سوالات:
1: مرزا غالب نے مرزا تفتہ کو خط کیوں لکھا؟
2: غالب نے مرزا تفتہ کے نام خط کے آغاز میں شعر کے ذریعےمکتوب الیہ کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی ہے؟
3:
4: مرزا غالب کا خط میر مہدی مجروح کے نام کا مرکزی خیال تحریر کریں۔
رشید
احمد صدیقی کے خطوط نگاری کی چند خصوصیات:
بامقصد تنقید: رشید صدیقی بہترین تنقید نگار تھے۔ ان کے خطوط میں بامقصد تنقید پائی جاتی ہے۔ انکی تنقید ہمیشہ اصلاحی اور تعمیری ہوتی ہے۔
مزاح نگاری: انکے خطوط میں طنز و مزاح کا ملا جُلا عنصر پایا جاتا ہے۔ انکا ذوقِ مزاح بہت بلند ہے اور طنز کا رنگ بہت مدھم اور دھیما ہے۔
منفرد اندازِ مکتوب نگاری: رشید صدیقی کے مکتوب نگاری کا انداز منفرد ہے۔ انکا اندازِتحریر سادہ، زبان باوقار ہے اور دردمندی و خلوص کے جذبات نمایاں ہیں۔
خط کےچند تفہیمی سوالات:
سوال:
ایک اچھے تنقید نگار میں کیا صفات ہونی چاہئیں؟
اچھا
تنقید نگار شعر و ادب کا ضمیر ہوتا ہے۔ کیونکہ اسکی تنقید ہمیشہ سچائی پر مبنی ہوتی
ہے۔ ضمیر چونکہ دل کی آواز کو کہتے ہیں اسلیے وہ شعر و ادب پر ہمیشہ خلوص کے جذبات
کے ساتھ تنقید کرتا ہے۔
وہ
ہمیشہ تعصب سے پاک تنقید کرتا ہے۔ اور اس کا تجزیہ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔
اسکی
تنقید ہمیشہ اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کی رہنمائی کر سکے.
سوال: رشید احمد صدیقی کا خط نظیر احمد صدیقی کے نام کا مرکزی خیال تحریر کریں۔