سبق نمبر1: اخلاق حسنہ ،
مصنف: سید سلیمان ندوی ،
صنف سخن/صنف ادب: سیرت نگاری
سبق کا مرکزی خیال: سید سلیمان ندوی کے مضمون " اخلاق حسنہ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اچھے اخلاق انسانی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ اخلاق حسنہ انسان کو معاشرے میں باوقار بناتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی بہترین اخلاق کا نمونہ ہے۔ سچائی، صبر ، عدل اور ہمدردی جیسے اوصاف سے انسان کی شخصیت نکھرتی ہے۔ ایک خوشحال اور پر امن معاشرہ اچھے اخلاق ہی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
مصنف کا تعارف: سید سلیمان ندوی ایک مشہور مسلمان عالم، مؤرخ، سوانح نگار اور ادیب تھے ۔ وہ 1884ء میں بھارت کے شہر دیسنہ (بہار) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں وہیں تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ان کی مشہور تصنیف "سیرت النبیﷺ" ہے، جو انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کے ساتھ مل کر لکھی۔ سید سلیمان ندوی 1953ء میں کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔
مصنف سید سلیمان ندوی کے انداز بیان کی چند خصوصیات:
مقصدیت اور اصلاحی انداز: مصنف سید سلیمان ندوی کی تحریرات میں مقصدیت پائی جاتی ہے ۔ ان کا اولین مقصد مسلمانوں کی تربیت اور اصلاح کرنا ہے۔
سادگی وروانی :ان کی زبان آسان اور عام فہم ہوتی ہے، جو ہر طبقے کے قاری کو سمجھ آجاتی ہے۔
دلائل و حوالہ جات کا استعمال: وہ اپنی بات کو مضبوط بنانے کے لیے تاریخی و عقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔
اخلاقی اثر پذیری :ان کی تحریریں قاری کے دل پر اثر ڈالتی ہیں اور کردار سازی میں مدد دیتی ہیں۔
ادبی حسن :ان کے اسلوب میں ادبی چمک اور تاثیر پائی جاتی ہے، جو تحریر کو پر اثر اور خوبصورت بناتی ہے۔
سبق اخلاق حسنہ کے مختصر سوالات اور جوابات:
سوال 1: اخلاق سے کیا مراد ہے؟
جواب: اخلاق سے مراد باہم بندوں کے حقوق و فرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کا ادا کرنا انسان کے لیے ضروری ہے۔
سوال 2: سب سے پہلا اور اہم تعلق کون سا ہے؟
جواب: سب سے پہلا اور اہم تعلق ماں باپ، اہل و عیال اور عزیزوں رشتہ داروں سے ہوتا ہے۔
سوال 3: انسان کے تعلقات کا سب سے بڑا دائرہ کیا ہے؟
جواب: سب سے بڑا دائرہ وہ تعلقات ہیں جو انسان باقی انسانوں سے قائم کرتا ہے۔
سوال 4: اخلاقی تعلیم کا کیا مقصد ہے؟
جواب: اخلاقی تعلیم کا مقصد انسان کو نیکی، سچائی، عدل، محبت، خیر خواہی اور ہمدردی جیسے اوصاف سکھانا ہے۔
سوال 5: نبی کریم ﷺ کی سیرت میں اخلاق کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: نبی کریم ﷺ کی سیرت اخلاق حسنہ کی کامل ترین مثال ہے۔
سوال 6: قرآن مجید نے نبی ﷺ کے اخلاق کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب: قرآن مجید میں فرمایا گیا: "بیشک آپؐ اخلاق کے بلند درجے پر فائز ہیں۔"
سوال 7: نبی کریم ﷺ پر اخلاقی تعلیم کا آغاز کب ہوا؟
جواب: اخلاقی تعلیم کا آغاز آپؐ پر بعثت سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔
سوال 8: نبی ﷺ کے رشتہ داروں کا آپؐ کے بارے میں کیا بیان تھا؟
جواب: آپؐ کے رشتہ دار کہتے تھے کہ نبی ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
سوال 9: اخلاقی تعلیم کی بنیاد کیا ہے؟
جواب: اخلاقی تعلیم کی بنیاد عدل، انصاف، سچائی اور ہمدردی ہے۔
سوال : نبی کریم ﷺ نے خود کو کن الفاظ میں متعارف کروایا؟
جواب: آپؐ نے فرمایا: "میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ میں اخلاق حسنہ کی تعلیم مکمل کر دوں۔"
سوال : حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کے اخلاق کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب: حضرت جعفرؓ نے فرمایا کہ مسلمان پہلے جاہل، بت پرست اور ظالم تھے، مگر نبی کریم ﷺ کی تعلیم سے وہ سچ بولنے، امانت داری، صلہ رحمی، حسن سلوک اور ظلم سے باز رہنے والے بن گئے۔
سوال : اسلامی تعلیمات اور اسوہ حسنہ نے عربوں کے اخلاق پر کیا اثر ڈالا؟
جواب: اسلامی تعلیمات نے عربوں کو جھوٹ، خیانت، بدکاری، ناپاکی اور ظلم سے نکال کر سچائی، امانت، پاکیزگی اور عدل و انصاف کی راہ پر لگا دیا۔
سوال : نبی کریم ﷺ کے اخلاق سے غیر مسلم کس طرح متاثر ہوئے؟
جواب: نبی کریم ﷺ کے اخلاق سے غیر مسلم بھی بہت متاثر ہوئے، یہاں تک کہ دشمن بھی آپؐ کو صادق و امین کہتے تھے۔
سوال : اسلام کے مطابق اخلاق کی اہمیت کیوں ہے؟
جواب: اسلام میں اخلاق کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے کیونکہ اچھے اخلاق فرد اور معاشرے دونوں کو بہتر بناتے ہیں۔
سوال : انسان کی ظاہری عبادات کی قبولیت کے لیے اخلاق کیوں ضروری ہے؟
جواب: اگر انسان کا اخلاق درست نہ ہو تو اس کی عبادات، روزہ، نماز سب بے اثر ہو سکتے ہیں کیونکہ اخلاقی بگاڑ عبادات کے اثر کو زائل کر دیتا ہے۔
سوال : ایمان کی سب سے اعلیٰ اور ادنیٰ شاخ کون سی ہے؟
جواب: ایمان کی سب سے اعلیٰ شاخ توحید کا اقرار ہے اور ادنیٰ شاخ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا جائے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔
سوال : کامل مومن ہونے کے لیے کون سی شرط بیان کی گئی ہے؟
جواب: کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔
سوال : اچھے مسلمان کی پہچان کیا بیان کی گئی ہے؟
جواب: اچھا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
سوال : ایمان کی تین نمایاں علامتیں کون سی ہیں؟
جواب: (1) حق بات کے سامنے جھگڑنے سے باز رہنا، (2) جھوٹ سے بچنا، (3) تقدیر پر یقین رکھنا کہ جو ہونا ہے، وہ ہو کر رہے گا۔
سوال: نبی کریم ﷺ کے نزدیک سب سے بہتر اسلام کیا ہے؟
جواب: سب سے بہتر اسلام یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے اور جانے انجانے ہر ایک کو سلام کیا جائے۔
سوال: مومن کی کون سی صفات قابلِ تعریف ہیں؟
جواب: مومن وہ ہے جو دوسروں سے محبت کرے اور جس سے لوگ محبت کریں، وہ طعنہ زن، بد زبان یا گالی دینے والا نہیں ہوتا۔
سوال : نبی کریم ﷺ نے مسلمان بھائی کے ساتھ کیا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے؟
جواب: مسلمان، دوسرے مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ گالی دیتا ہے، اور اگر وہ مشکل میں ہو تو اس کی مدد کرتا ہے۔
سوال: اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ تحریر کیجیے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے آپ نے کسی دوست کے ساتھ حسن خلق کا سلوک کیا ہو؟
ایک بار ہمارے محلے کے ایک غریب بچے کے اسکول کی فیس جمع نہ ہو سکی۔ وہ بہت پریشان تھا اور رونے لگا۔ مجھے نبی کریم ﷺ کی سیرت یاد آئی کہ آپؐ غریبوں کی دل کھول کر مدد کیا کرتے تھے۔میں نے اپنی جیب خرچ سے کچھ پیسے دیے اور اپنے والد سے بھی مدد کی درخواست کی۔ ہم دونوں نے مل کر اس کی فیس جمع کروا دی۔
اگلے دن وہ بچہ خوشی خوشی اسکول آیا اور اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ مجھے دلی سکون ملا کہ میں نے رسول ﷺ کے اخلاق پر عمل کرتے ہوئے کسی کی ضرورت پوری کی۔
سبق نمبر 2: کتبہ
مصنف: غلام عباس
صنف سخن/ صنفِ ادب: افسانہ
سوال: صنف سخن "افسانہ" کی تعریف لکھیے. نیز اپنی درسی کتاب کے کسی ایسے سبق کا نام لکھیے جو اس تعریف پر پورا اترتا ہو۔
جواب: افسانہ ادب کی نثری صنف ہے۔ لغت کے اعتبار سے افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں یہ لوک کہانی کی ہی ایک قسم ہے۔ ناول زندگی کا کُل اور افسانہ زندگی کا ایک جزو پیش کرتا ہے۔ جبکہ ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق بھی ہے اور وحدت تاثر کا بھی۔
سبق "کتبہ" افسانے کی مثال ہے۔
سوال: غلام عباس کے افسانے "کتبہ" کا مرکزی خیال لکھیے۔
جواب: غلام عباس کے افسانے "کتبہ" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان زندگی بھر ترقی اور پہچان کے خواب دیکھتا ہے مگر اکثر یہ خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ شریف حسین کا کتبہ ساری عمر بیکار پڑا رہا اور بالآخر اس کی قبر پر ہی کام آیا، جو انسانی خواہشات کی ناپائیداری کو ظاہر کرتا ہے۔
سوال: غلام عباس کے انداز بیان کی چار ایسی خصوصیات تحریر کیجیے جو انھیں دیگر مصنفین سے ممتاز کرتی ہوں۔
جواب:
1. حقیقت نگاری (منظر نگاری): غلام عباس چھوٹی چھوٹی جزئیات اور روزمرہ زندگی کے مناظر کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری کو وہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
2. طنز و مزاح کا عنصر: ان کے انداز میں ہلکی پھلکی طنزیہ جھلک قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور سماجی کمزوریوں کو بے نقاب کرتی ہے۔
3. کردار نگاری کی نفاست: وہ عام اور متوسط طبقے کے کرداروں کو بڑی باریکی اور سادگی سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ زندہ اور حقیقی محسوس ہوتے ہیں۔
4. سادگی اور روانی: ان کی زبان نہایت سادہ، رواں اور دل نشین ہے جو قاری کو بوجھل ہونے نہیں دیتی بلکہ آسانی سے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔
سوال: اپنی زندگی کی کسی ایسی خواہش یا کسی خواب کا ذکر کیجیے جو باوجود کوشش کے پورا نہ ہو سکا ہو۔
جواب: طلباء خود سے جواب لکھیں البتہ نمونے کے طور پر چند جوابات ذیل میں درج ہیں۔
1: میری خواہش تھی کہ میں پائلٹ بنوں اور جہاز اڑاؤں۔ میں نے اس خواب کو پورا کرنے کی کوشش کی مگر وسائل کی کمی نے اجازت نہ دی۔ بالکل اسی طرح جیسے افسانے "کتبہ" میں انسان کی خواہشیں اکثر حالات کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔
2: میری خواہش تھی کہ میں ایک اچھی کتاب لکھوں۔ کئی بار آغاز کیا مگر مصروفیات نے پورا نہ ہونے دیا۔ یہ بھی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، جیسے افسانے میں قبر پر کتبہ انسان کی نامکمل تمناؤں کی گواہی دیتا ہے۔
3: میری خواہش تھی کہ میں تیراکی سیکھوں، مگر مسلسل مشق نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ ناکامی مجھے یاد دلاتی ہے کہ انسان کی ہر کوشش منزل تک نہیں پہنچتی، جیسا کہ افسانہ "کتبہ" ہمیں زندگی کی ناپائیداری کا سبق دیتا ہے۔
سبق کے چند مزید اہم تفہیمی سوالات و جوابات
1. افسانے "کتبہ" میں خواب اور حقیقت کا کیا تعلق دکھایا گیا ہے؟
جواب: خواب انسان کی آرزوؤں اور تمناؤں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن حقیقت اکثر ان خوابوں کی تکمیل نہیں ہونے دیتی۔ یہی المیہ شریف حسین کی زندگی میں دکھایا گیا ہے۔
2. کتبے کا غیر استعمال شدہ رہ جانا کس بات کی علامت ہے؟
جواب: یہ علامت ہے کہ انسان کی خواہشیں اور منصوبے اکثر ادھورے رہ جاتے ہیں اور تقدیر اپنے فیصلے نافذ کر دیتی ہے۔
3. مصنف نے شریف حسین کی شخصیت کو متوسط طبقے کے نمائندہ کردار کے طور پر کیسے دکھایا ہے؟
جواب: اس کی معمولی خواہشات، محدود وسائل اور خوابوں کی ناکامی اسے عام آدمی کے دکھ اور آرزوؤں کا عکس بنا دیتی ہے۔
4. افسانے میں طنز کا پہلو کہاں اور کیسے جھلکتا ہے؟
جواب: طنز اس بات پر ہے کہ ساری زندگی کتبہ بےکار پڑا رہا، اور آخرکار وہی کتبہ شریف حسین کی قبر پر لگا — یعنی خواب اپنی حقیقت میں بے معنی ہو گئے۔
5. کتبے کا انجام زندگی کی ناپائیداری پر کس طرح روشنی ڈالتا ہے؟
جواب: یہ دکھاتا ہے کہ دنیاوی عزت، شہرت یا منصوبے سب وقتی ہیں، اور آخرکار سب کچھ موت پر ختم ہو جاتا ہے۔
6. شریف حسین کی ناکامی قاری کو کس سماجی حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے؟
جواب: یہ اس بات کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ معاشرے میں اکثر عام لوگ محنت اور خوابوں کے باوجود کامیابی نہیں پا سکتے۔
7. افسانے میں دکھائے گئے واقعات کس حد تک عام انسان کی زندگی سے میل کھاتے ہیں؟
جواب: یہ واقعات ہر اُس شخص کی زندگی سے میل کھاتے ہیں جو خواہشات تو رکھتا ہے لیکن حالات اور تقدیر کے باعث ان کی تکمیل نہیں کر پاتا۔
8. مصنف نے کردار کے خوابوں اور تمناؤں کو کس انداز میں پیش کیا ہے؟
جواب: مصنف نے ان خوابوں کو حقیقت پسندانہ، سادہ اور عام زندگی کے تناظر میں بیان کیا ہے تاکہ قاری ان سے جڑ سکے۔
9. کتبے کا سارا عرصہ بیکار پڑے رہنا افسانے کی فضا کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟
جواب: یہ فضا میں طنزیہ تلخی اور ناکامی کا احساس پیدا کرتا ہے، جس سے قاری کو کردار کی محرومی گہری محسوس ہوتی ہے۔
10. غلام عباس کے اسلوب کی سادگی قاری کی تفہیم میں کس طرح مدد دیتی ہے؟
جواب: سادہ اور رواں زبان کی وجہ سے قاری آسانی سے افسانے کے پس منظر اور اس کی علامتی معنویت کو سمجھ لیتا ہے۔
11. شریف حسین کی شخصیت سے ہمیں انسانی نفسیات کا کون سا پہلو معلوم ہوتا ہے؟
جواب: یہ کہ انسان ہمیشہ اپنی پہچان اور کامیابی کا خواہاں رہتا ہے، چاہے حالات اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
12. افسانے میں وقت کا گزرنا اور زندگی کا بدلنا کس پہلو کو اجاگر کرتا ہے؟
جواب: یہ دکھاتا ہے کہ وقت سب خوابوں اور خواہشوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور انجام صرف فنا ہے۔
13. افسانے کا اختتام قاری پر کیسا اثر ڈالتا ہے؟
جواب: اختتام قاری کو چونکا دیتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ انسان کی ساری محنت اور خواب بالآخر موت کے سامنے بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
14. "کتبہ" کو انسانی ناکامیوں کا استعارہ کیوں کہا جا سکتا ہے؟
جواب: کیونکہ کتبہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ انسان کی بیشتر کوششیں ادھوری رہتی ہیں اور صرف ایک یادگار کے طور پر پیچھے رہ جاتی ہیں۔
15. آپ کے نزدیک افسانہ "کتبہ" کا سب سے اہم سبق کیا ہے؟
جواب: یہ کہ انسان کو زندگی کے خواب دیکھنے چاہئیں، لیکن ساتھ ہی حقیقت کو سمجھ کر عاجزی اور صبر کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے۔
سبق نمبر 3: بھیڑیا مصنف کا نام: فاروق سرور صنف سخن: افسانہ
سوال : افسانہ بھیڑیا کا مرکزی خیال لکھیے۔
جواب: افسانہ "بھیڑیا" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان کی اصل غلامی بیرونی طاقتوں یا رکاوٹوں کی نہیں بلکہ اس کے اپنے دل کے خوف کی ہوتی ہے۔ درخت عارضی آسائشوں اور سہولتوں کی علامت ہے مگر وہ آزادی نہیں دے سکتا۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے بہادری اور قربانی ضروری ہے۔ بھیڑیا دراصل انسان کے اندر کا وہم اور خوف ہے جو بظاہر بہت طاقتور دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں کمزور ہے۔ مصنف کا پیغام یہ ہے کہ جو شخص اپنے خوف پر قابو پا لے، وہی حقیقی زندگی اور آزادی حاصل کر سکتا ہے۔
سوال : مصنف فاروق سرور کے انداز بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے ۔
جواب:
1. تمثیلی اور علامتی انداز:
مصنف نے بھیڑیے کو خوف اور بزدلی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ درخت آسائشوں اور وقتی سہولتوں کی علامت ہے۔ اس طرح وہ قاری کو گہرے معنوی پیغام تک پہنچاتا ہے۔
2. پُراثر منظرکشی اور جذبات نگاری:
مصنف نے کردار کی داخلی کیفیت کو بڑی فنکارانہ مہارت سے بیان کیا ہے۔ خوف، پسینے میں ڈوبا جسم، ڈراؤنے خواب اور آزادی کی خوشی—سبھی مناظر قاری کو براہِ راست اثر انداز کرتے ہیں۔
3. روانی و سلاست:
زبان سادہ مگر مؤثر ہے، جملے طویل ضرور ہیں لیکن روانی رکھتے ہیں۔ مکالمہ، خود کلامی اور منظر کشی کا امتزاج افسانے کو دلچسپ اور فکرانگیز بنا دیتا ہے۔
سوال: اپنی روزمرہ زندگی سے کوئی ایسی مثال دیجیے جب کبھی آپ کسی چیز یا جانور سے خوفزدہ ہوئے تھے اور پھر اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اس مشکل صورتحال سے نکل آئے ہوں۔
جواب:
نمونہ 1:
ایک بار میں سائیکل چلا رہا تھا کہ کتا پیچھے بھاگا۔ شروع میں خوف محسوس ہوا مگر ہمت کر کے رُکا تو کتا خود ہی واپس چلا گیا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ بالکل افسانے کے کردار کی طرح ڈر حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہوتا۔
نمونہ 2:
بچپن میں اندھیرے سے بہت ڈرتا تھا۔ ایک رات بجلی گئی تو میں نے ہمت کی اور ٹارچ جلا کر کمرے سے باہر نکلا۔ یوں مجھے سمجھ آیا کہ اندھیرا بھیڑیے کی طرح صرف وہم ہے۔
نمونہ 3:
امتحان کے نتیجے کا خوف مجھے بہت بے چین کر رہا تھا۔ دعا اور حوصلے سے نتیجہ دیکھا تو کامیاب تھا۔ تب جانا کہ ڈر دراصل انسان کے ذہن کا بنایا ہوا "بھیڑیا" ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے۔
افسانے کے چند تفہیمی نوعیت کے سوالات اور ان کے جوابات:
1. سوال: راوی کو درخت پر پناہ لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جواب: کیونکہ بھیڑیا اس کا پیچھا کر رہا تھا اور وہ خوف زدہ تھا۔
2. سوال: درخت کو مصنف نے کس چیز سے تشبیہ دی ہے؟
جواب: جادو کے درخت سے، جہاں خواہشات فوراً پوری ہو جاتی ہیں۔
3. سوال: درخت پر راوی کو کون سی سہولتیں میسر تھیں؟
جواب: نرم بستر، ٹی وی، کھانے پینے کی ہر چیز اور دیگر آسائشیں۔
4. سوال: ان سب آسائشوں کے باوجود راوی کس چیز کو ترس رہا تھا؟
جواب: آزادی کو۔
5. سوال: آزادی حاصل کرنے کے لیے راوی کو کیا کرنا تھا؟
جواب: اسے درخت سے نیچے اتر کر بھیڑیے کا مقابلہ کرنا تھا۔
6. سوال: رات کو راوی کو سب سے زیادہ کس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا؟
جواب: ڈراؤنے خواب اور بھیڑیے کا خوف۔
7. سوال: دوسرے شخص نے درخت پر کیوں پناہ لے رکھی تھی؟
جواب: وہ بھی اپنے بھیڑیے سے خوف زدہ ہو کر درخت پر چڑھا تھا۔
8. سوال: دونوں بھیڑیوں کا ایک دوسرے سے کیا تعلق تھا؟
جواب: دونوں بالکل لاتعلق تھے اور صرف اپنے اپنے آدمی سے تعلق رکھتے تھے۔
9. سوال: راوی کا ساتھی کس طرح آزادی حاصل کرتا ہے؟
جواب: وہ نیچے کود کر بہادری سے اپنے بھیڑیے کو مار ڈالتا ہے۔
10. سوال: راوی نیچے کودنے کی ہمت کیوں نہ کر سکا؟
جواب: کیونکہ وہ بزدلی اور خوف کا شکار تھا۔
11. سوال: درخت میں اچانک کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے؟
جواب: درخت چھوٹا ہونے لگتا ہے اور بھیڑیا بڑا ہونے لگتا ہے۔
12. سوال: راوی کو کس موقع پر یقین ہوتا ہے کہ وہ مر جائے گا؟
جواب: جب درخت چھوٹنے لگتا ہے اور بھیڑیا قریب آنے لگتا ہے۔
13. سوال: ساتھی نیچے سے راوی کو کیا مشورہ دیتا ہے؟
جواب: کہ وہ نیچے اترے، بھیڑیا محض خوف ہے اور اسے آسانی سے مار سکتا ہے۔
14. سوال: آخر کار راوی نے بھیڑیے کو کیسے مارا؟
جواب: درخت کی ایک پتلی سی شاخ سے وار کر کے۔
15. سوال: افسانے کا بنیادی پیغام کیا ہے؟
جواب: خوف انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، بہادری دکھا کر ہی آزادی اور سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ڈراما: آرام و سکون مصنف: سید امتیاز علی تاج
صنفِ سخن: ڈراما
مرکزی خیال
ڈراما "آرام و سکون" از سید امتیاز علی تاج کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مریض کے لیے سکون سب سے بڑی دوا ہے، مگر گھریلو شور و غل اور بدنظمی اسے حاصل نہیں ہونے دیتے۔ نتیجتاً مریض گھر کے بجائے دفتر کو سکون کی جگہ سمجھنے لگتا ہے۔
سوال: صنفِ سخن/ادب *ڈراما* کی تعریف بیان کریں۔
جواب:ڈراما ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں زندگی کے واقعات کو کرداروں کے مکالموں اور عمل کے ذریعے اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ناظر یا قاری کے سامنے جیتی جاگتی تصویر بن جائے۔ اس میں کہانی براہِ راست مکالمے اور منظر نگاری کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔
سوال: مصنف سید امتیاز علی تاج کے اندازِ بیان کی چند اہم خصوصیات تحریر کیجیے۔
جواب:
1. طنز و مزاح: گھریلو حالات کو مزاحیہ اور دلچسپ پیرائے میں پیش کیا ہے۔
2. حقیقت نگاری: کرداروں اور ماحول کو بالکل روزمرہ زندگی کے قریب دکھایا ہے۔
3. مکالماتی روانی: جملے سادہ اور براہِ راست ہیں، ڈراما دلچسپ اور مؤثر بن گیا ہے۔
4. سماجی تنقید: شور و غل اور بدنظمی کے خلاف تنقیدی پہلو نمایاں ہے۔
سوال: مصنف سید امتیاز علی تاج کا مختصر تعارف بیان کیجیے۔
جواب:
نام: سید امتیاز علی تاج
جائے پیدائش: لاہور (13 اکتوبر 1900ء)
وجہ شہرت: اردو کے نامور ڈراما نگار؛ مشہور ڈراما "انارکلی" ان کی وجہ شہرت ہے۔
اردو ڈرامے کو ادبی وقار بخشا۔
اخبارات و رسائل کی ادارت کی۔
ادبی اداروں اور انجمنوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
جائے وفات: لاہور
تاریخ وفات: 19 اپریل 1970ء
سبق کے چند اہم تفہیمی سوالات و جوابات
1. ڈاکٹر نے سکون کو دوا سے زیادہ ضروری کیوں قرار دیا؟
جواب: کیونکہ بیماری ذہنی اور اعصابی تھکن کی وجہ سے تھی۔
2. بیوی کی مسلسل باتیں میاں کے لیے کس طرح نقصان دہ ثابت ہو رہی تھیں؟
جواب: وہ شور اور ذہنی دباؤ میں اضافہ کر رہی تھیں۔
3. بچے کی پٹ پٹ گاڑی کا ذکر کس رویے کی نشاندہی کرتا ہے؟
جواب: کہ بچوں کو والدین کی بیماری کا احساس کم ہوتا ہے۔
4. ڈرامے میں ملازم للو کس چیز کی علامت ہے؟
جواب: گھریلو بدنظمی اور چھوٹی غفلتوں کی۔
5. میاں کا بار بار "ہوں" کہنا کس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے؟
جواب: تھکن، لاچاری اور برداشت کی انتہا کو۔
6. بیوی کا خود شور کرنا کس طنزیہ پہلو کو اجاگر کرتا ہے؟
جواب: کہ لوگ نصیحت تو کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔
7. شور کی بار بار موجودگی کا فنی مقصد کیا تھا؟
جواب: سکون کی اہمیت کو زیادہ نمایاں کرنا۔
8. بیوی کی فکرمندی کے باوجود میاں کو سکون کیوں نہ ملا؟
جواب: کیونکہ فکر اور شور دونوں ساتھ موجود تھے۔
9. ہمسائے کے گانے کا ذکر کس چیز کو ظاہر کرتا ہے؟
جواب: بیرونی شور بھی مریض کے لیے نقصان دہ ہے۔
10. میاں نے دفتر جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
جواب: گھر کے شور سے تنگ آ کر دفتر میں سکون تلاش کرنے کے لیے۔
11. ڈرامے کے عنوان "آرام و سکون" میں طنزیہ پہلو کیا ہے؟
جواب: عنوان سکون کی بات کرتا ہے، مگر ڈرامے میں سکون کہیں نہیں۔
12. ڈاکٹر کی ہدایات اور گھر کی عملی صورتِ حال میں کیا تضاد تھا؟
جواب: ڈاکٹر نے سکون کہا مگر گھر میں شور ہی شور رہا۔
13. بیوی کے رویے سے عورتوں کی کون سی کمزوری ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: کہ وہ چھوٹی بات کو بھی بڑھا دیتی ہیں اور گھبرا جاتی ہیں۔
14. طنز و مزاح ڈرامے میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟
جواب: سنجیدہ پیغام کو دلچسپ اور مؤثر بنا دیتا ہے۔
15. ڈرامے کے اختتام سے کیا سبق ملتا ہے؟
جواب: کہ حقیقی سکون شور و بدنظمی سے بچ کر سادگی میں ہے۔
سوال: ڈرامے میں میاں کو سکون چاہیے تھا مگر شور و غل نے انھیں بے حال کر دیا۔ اپنی زندگی سے ایسی مثال دیجیے جب آپ کو سکون درکار تھا مگر حالات نے اجازت نہ دی۔
نمونے کے مختصر جوابات
1. پچھلے سال کی بات ہے میرے بورڈ کے امتحانات سر پر تھے۔ جب میں اردو کے پرچے کی تیاری کرنے لگا تو اس وقت محلے کے شور سے پڑھائی مشکل ہو گئی۔
2. ایک مرتبہ مجھے تیز بخار ہو گیا۔ میں نے دوا لینے کے بعد سونے کا ارادہ مگر گھر آئے مہمان بچوں کے کھیلنے اور شور وغل سے میں آرام نہ کر سکا۔
3. میرا گھر محلے کی جامعہ مسجد کے قریب ہے۔ اس لیے اکثر اوقات وہاں ہونے والی مجالس یا اجتماعات میں لاؤڈ اسپیکر کی بلند آواز سے آرام نہیں مل پاتا۔
سبق: ابتدائی حساب مصنف: ابنِ انشاء صنف سخن: طنز و مزاح
سوال: سبق ابتدائی حساب کا مرکزی خیال اس طرح تحریر کیجیے کہ مصنف کا پیغام واضح ہو جائے۔
جواب: سبق "ابتدائی حساب" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ابنِ انشاء نے ریاضی کے سادہ قواعد (جمع، تفریق، ضرب، تقسیم) کو مزاحیہ پیرائے میں بیان کرکے معاشرتی ناانصافیوں، معاشی مسائل، سیاسی چالبازیوں اور سماجی تضادات کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ حساب کے یہ اصول زندگی کے مختلف پہلوؤں میں الگ الگ اور اکثر منفی انداز میں برتے جاتے ہیں۔ ان کی تحریر ہمیں ہنساتے ہنساتے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ اصل مسئلہ اعداد نہیں بلکہ انسانی رویے اور نظام کی ناہمواریاں ہیں۔
سوال: صنف سخن طنزو مزاح کی تعریف لکھیے ۔
جواب: طنزو مزاح ادب کی وہ صنف ہے جس میں معاشرتی برائیوں اور خامیوں کو ہنسی مذاق کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ قاری محظوظ (لطف اندوز) بھی ہو اور اصلاح کی طرف متوجہ بھی ہو۔
سوال: مصنف ابنِ انشاء کے انداز بیان کی چار خصوصیات لکھیے۔
جواب:
1. طنزو مزاح کا عنصر: ان کی تحریرات میں طنزو مزاح پایا جاتا ہے ۔ وہ ہنسی مذاق کے پیرائے میں سنجیدہ حقائق اور معاشرتی مسائل بیان کرتے ہیں۔
2. سادہ زبان و بیان: ان کی تحریروں میں مشکل الفاظ کے بجائے سادہ انداز ملتا ہے جو ہر قاری کو فوراً متاثر کرتا ہے۔
3. ماحول کی عکاسی: ان کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے ۔ وہ عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں۔
4. مقصدیت اور اصلاحی انداز: ان کے طنز و مزاح میں محض ہنسی نہیں بلکہ گہری فکر اور معاشرتی اصلاح کا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔
سوال: پطرس بخاری اور ابن انشاء کے طنزو مزاح کا موازنہ کیجیے۔
جواب:
1. پطرس بخاری: ان کا طنزو مزاح زیادہ تر ہلکا پھلکا، شگفتہ اور روزمرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی کمزوریوں پر مبنی ہے۔
وہ قاری کو زور دار قہقہے پر مجبور کرتے ہیں اور ان کی تحریروں میں شگفتگی کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
2. ابنِ انشاء: ان کے طنزو مزاح میں ہنسی کے ساتھ ساتھ گہری فکر اور اصلاحی پہلو نمایاں ہے۔
وہ سماجی ناہمواریوں، سیاسی تضادات اور قومی مسائل پر چوٹ کرتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔
سوال: مصنف ابن انشاء کا مختصر تعارف لکھیے۔
جواب:
ابنِ انشاء کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور عملی زندگی میں استاد، مترجم، ادیب اور اقوامِ متحدہ میں ملازمت کی۔ وہ اپنے دلکش اسلوب، طنزو مزاح پر مبنی نثر اور منفرد شاعری کی وجہ سے شہرت حاصل کر گئے۔ ان کی کتابیں اردو کی آخری کتاب، خمار گندم، ابن بطوطہ کے تعاقب میں اور غزل انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو انہیں اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ابنِ انشاء کا انتقال 11 جنوری 1978ء کو لندن میں ہوا، جہاں وہ کینسر کے علاج کے لیے گئے تھے۔
تفہیمی سوالات اور جوابات:
سوال 1: ابنِ انشاء نے جمع کے قاعدے کو مہنگائی کے ساتھ کیوں جوڑا ہے؟
جواب: کیونکہ مہنگائی کے باعث عام آدمی کی آمدنی خرچ ہو جاتی ہے اور کوئی چیز جمع نہیں ہو پاتی۔
سوال 2: عام آدمی کے لیے 1+1=1.5 کیوں قرار دیا گیا ہے؟
جواب: اس لیے کہ اس میں سے آدھی رقم انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں۔
سوال 3: تجارت کے قاعدے سے "1+1=11" کا کیا مطلب ہے؟
جواب: تاجر معمولی چیز کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں اور فائدہ بڑھا لیتے ہیں، اسی کو مزاحیہ انداز میں "1+1=11" کہا گیا ہے۔
سوال 4: زبانی جمع خرچ کو ملک کے مسائل کے حل سے کیوں جوڑا گیا؟
جواب: کیونکہ اکثر ملکوں میں مسائل عملی طور پر نہیں بلکہ صرف دعوؤں اور وعدوں کی حد تک حل کیے جاتے ہیں۔
سوال 5: تفریق کے ذریعے ابنِ انشاء نے کس سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے؟
جواب: قوم، زبان اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں فرقہ واریت اور تفرقے کو نمایاں کیا ہے۔
سوال 6: بعض اعداد ازخود نکل جاتے ہیں اور بعض کو ڈنڈے مار کر نکالنے کی بات سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ خود ہی الگ ہو جاتے ہیں لیکن بعض کو زبردستی نکالا جاتا ہے، جیسے معاشرتی یا سیاسی دھکیلا جانا۔
سوال 7: ابنِ انشاء کے نزدیک زیادہ جمع کرنے والوں ہی کو زیادہ تفریق کیوں سہنی پڑتی ہے؟
جواب: کیونکہ جو لوگ دولت یا طاقت زیادہ جمع کرتے ہیں، وہی زیادہ جھگڑوں اور اختلافات کا شکار ہوتے ہیں۔
سوال 8: عام لوگ تفریق کے قاعدے کو کیوں ناپسند کرتے ہیں؟
جواب: کیونکہ اس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا، صرف اختلاف اور نقصان ہوتا ہے۔
سوال 9: ضرب کی مختلف اقسام بیان کرنے سے مصنف نے کیا طنزیہ پہلو اجاگر کیا؟
جواب: اس سے ظاہر کیا کہ معاشرے میں "ضرب" صرف ریاضیاتی نہیں بلکہ مارپیٹ اور ظلم کی شکل میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
سوال 10: "علامہ اقبال کی ضرب کلیم" کو عام ضربوں سے کیوں الگ کہا گیا ہے؟
جواب: کیونکہ وہ فکری و ادبی ضرب تھی جس کا تعلق اصلاحِ معاشرہ اور بیداری سے تھا۔
سوال 11: تقسیم کے ضمن میں "اندھوں کا ریوڑیاں بانٹنا" اور "بندر کا بلیوں میں روٹی بانٹنا" جیسے استعارے کس حقیقت کو بیان کرتے ہیں؟
جواب: یہ استعارے ناانصافی اور غیر منصفانہ تقسیم کی حقیقت کو طنزیہ طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
سوال 12: ابنِ انشاء کے مطابق "حقوق اپنے پاس رکھنا اور فرائض دوسروں پر ڈال دینا" کس قسم کی تقسیم ہے؟
جواب: یہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ تقسیم ہے جو اکثر حکمران طبقے اپناتے ہیں۔
سوال 13: 22 خاندانوں کا 12 کروڑ کی دولت آپس میں بانٹ لینا کس سماجی حقیقت کی طرف اشارہ ہے؟
جواب: یہ پاکستان کے سیاسی و معاشی طبقے پر طنز ہے کہ دولت چند خاندانوں میں تقسیم ہے اور عام آدمی بے خبر رہ جاتا ہے۔
سبق: کلیم اور
مرزا ظاہر دار بیگ
مصنف: ڈپٹی نذیر احمد
دہلوی صنف ادب: ناول
(ناول ایک طویل افسانوی نثر ہوتی ہےجس میں کردار، واقعات اور ماحول کی تفصیل
ہو۔)
سوال: سبق "کلیم
اور مرزا ظاہر دار بیگ" کا مرکزی خیال لکھیے۔
جواب: ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے ناول "کلیم اور
مرزا ظاہر دار بیگ" کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ظاہری چمک دمک اور باتوں کے فریب
میں آ کر کسی کی حقیقت پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ساتھ ہی ناول میں تکبر، خود پسندی،
معاشرتی دکھاوا، اور جھوٹے تعلقات کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے، کیوں کہ یہ انسان کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گرا دیتی ہیں۔
سوال : ڈپٹی نذیر
احمد دہلوی کے اندازِ بیان کی چند اہم خصوصیات تحریر کیجیے ۔
جواب:
1۔ مقصدیت
اور اصلاحی انداز : ڈپٹی نذیر احمد کے ناول محض کہانیاں نہیں
بلکہ معاشرتی اصلاح کا پیغام ہیں۔وہ اپنے کرداروں کے ذریعے قاری کو نیکی، دیانت
داری اور سچائی کی تلقین کرتے ہیں۔ان کی تحریر کا مقصد انسان کو اپنی خامیوں کا
احساس دلانا اور معاشرے میں اخلاقی بیداری پیدا کرنا ہے۔
2۔ بہترین
کردار نگاری : ان کے کردار جیتے جاگتے انسانوں کی طرح قاری کے
ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ہر کردار اپنی فطرت، زبان اور عمل سے منفرد اور حقیقی
محسوس ہوتا ہے۔مثلاً "مرزا ظاہر دار بیگ" کی چرب زبانی اور "کلیم"
کی سادگی دونوں حقیقت کے قریب تر ہیں۔
3۔
مکالماتی انداز : ڈپٹی
نذیر احمد کے مکالمے قدرتی، رواں اور روزمرہ زبان کے قریب ہوتے ہیں۔ انھوں نے مکالموں کے ذریعے کرداروں کی ذہنی کیفیت،
اخلاق اور مزاج کو ظاہر کیا۔قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود محفل میں بیٹھ
کر گفتگو سن رہا ہو۔
4۔ طنز و مزاح کا عنصر : ان کی نثر میں
طنز و مزاح شگفتہ، شائستہ اور اصلاحی نوعیت کا ہوتا ہے۔وہ کرداروں کی خامیوں پر
ہنسی کے پیرائے میں تنقید کرتے ہیں تاکہ قاری لطف بھی لے اور سبق بھی حاصل کرے۔ان
کے مزاح میں سنجیدگی چھپی ہوتی ہے جو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
5۔ ماحول کی عکاسی یا منظر کشی : نذیر احمد نے
اپنے ناولوں میں دہلی کے سماجی، گھریلو اور ثقافتی ماحول کو حقیقت کے ساتھ پیش کیا۔گھروں،
گلیوں، محفلوں اور معاشرتی رویّوں کی منظرکشی نہایت دل چسپ اور مؤثر ہے۔ان کے
مناظر قاری کو اُس زمانے کے معاشرتی پس منظر میں پہنچا دیتے ہیں۔
سبق کے مشکل الفاظ کے معانی
|
الفاظ |
معانی |
الفاظ |
معانی |
|
جماعہ دار |
سپہ سالار، افسر یا عہدے دار شخص |
ضرار |
نقصان دہ، ضرر پہنچانے والا |
|
محل سرا |
حویلی یا کوٹھی کا اندرونی حصہ، خاص طور پر عورتوں کے لیے |
قل ہو اللہ پڑھنا |
بھوک یا تنگی میں بے بسی ظاہر کرنا (استعارہ) |
|
دیوان خانہ |
دربار یا مہمانوں کے بیٹھنے کا کمرہ |
سڈول |
متناسب، خوب صورت ساخت والا |
|
متبنیٰ |
منہ بولا یا گود لیا ہوا بیٹا |
بسنتی |
زردی مائل رنگ |
|
جانشین |
وارث، تخت یا منصب کا حقدار |
پِسْتَئی |
ہلکا سبز مائل زرد رنگ، پِستے کے رنگ کا |
|
رخنہ انداز |
فساد ڈالنے والا، رکاوٹ پیدا کرنے والا |
بھڑ بھونجا |
بھاڑ میں بھوننے والا ، چنےیا اناج بھوننے والا |
|
کنارہ کش |
الگ تھلگ رہنے والا، گوشہ نشین |
دھیلا |
پرانی چھوٹی سکہ اکائی |
|
تیمار داری |
مریض کی خدمت و دیکھ بھال |
سہار |
برداشت، قوتِ برداشت |
|
اشتداد |
شدت، سختی، بڑھ جانا |
دیواشتہا |
طعام کی خواہش، بھوک (فارسی مرکب) |
|
اختلاجِ قلب |
دل کی بے ترتیبی، دھڑکن کی تیزی |
چشم زدن |
پلک جھپکنے کی دیر، بہت جلدی |
|
دفعِ دخلِ مقدر پیش |
بندی، ممکنہ اعتراض کو پہلے ہی روک دینا |
چنپت ہونا |
چوری سے غائب ہو جانا، اڑا لے جانا |
|
بچھونا |
بستر، زمین پر بچھانے کی چیز |
زبردست بیگ |
طاقت ور نوکر یا پہرے دار (نام بطور علامت) |
|
ابابیل |
ایک چھوٹا پرندہ جو عمارتوں میں بسیرا کرتا ہے |
مردوا |
گالی نما لفظ: کمینہ یا دھوکے باز |
|
ماہتاب |
چاندنی، چاند کا نور |
ٹھینگا دکھانا |
انکار کرنا، حقارت سے جواب دینا |
|
فاقہ |
بھوکا رہنا، بغیر کھائے وقت گزارنا |
کشاں کشاں |
گھسیٹتے ہوئے، زبردستی لے جانا |
|
خستہ چنے |
نرم چنے، بھربھرے
چنے، بھنے ہوئے چنے |
چبوترہ |
اونچا بنا ہوا چوکور چبوترہ یا تختہ |
|
چرب زبانی |
فریب دہ زبان، چالاک گفتگو |
صنعتِ خداوندی |
قدرتِ الٰہی، تخلیقِ قدرت |
|
کثیف |
گندا، میلا، ناپاک |
وعظ و پند |
نصیحت، نیکی کی تلقین |
|
خلوت خانہ |
تنہائی کی جگہ، نجی کمرا |
سرسری طور پر |
سطحی انداز میں، بغیر غور کے |
|
عشرت منزل |
آرام و عیش و عشرت کی جگہ |
حسب و نسب |
خاندان، شجرہ یا نسل |
|
ضماد |
لیپ، مرہم یا دوا جو جسم پر لگائی جائے |
نخوت |
غرور، تکبر |
|
بھبھوت |
راکھ، گرد یا دھول جو جسم پر جم جائے |
سہارنا |
برداشت کرنا، سہنا |
|
کوتوال |
شہر کا محافظ یا پولیس افسر |
رفقائے نصوح |
نصوح کے/نصیحت کرنے والے کے ساتھی |
|
منکر نکیر |
قبر کے فرشتے جو سوال کرتے ہیں |
کوتوال |
محافظ شہر، پولیس کا افسر |
سبق کے چند اہم تفہیمی سوالات:
سوال 1: کلیم اور مرزا ظاہر دار بیگ میں تعارف کہاں ہوا؟
جواب: کلیم اور مرزا کا تعارف ایک مشاعرے کی محفل میں ہوا۔
سوال 2: کلیم اور مرزا میں دوستی کی نوعیت کیا تھی؟
جواب: دونوں میں اس قدر دوستی ہو گئی تھی کہ گویا ایک جان
دو قالب تھے۔
سوال 3: کلیم کو مرزا کی اصلی حالت کا علم کب اور کیسے ہوا؟
جواب: جب کلیم مرزا کے بتائے گئے محل سرا پر گیا اور لونڈیوں
سے پوچھا تو اسے معلوم ہوا کہ مرزا کے دعوے سب جھوٹے تھے۔
سوال 4: مرزا ظاہر دار بیگ کہاں رہتا تھا؟
جواب: وہ جماعہ دار کی محل سرا کے پچھواڑے ایک چھوٹے سے کچے
مکان میں رہتا تھا۔
سوال 5: مرزا کلیم کو رات گزارنے کے لیے کہاں لے گیا؟
جواب: مرزا نے کلیم کو ایک پرانی، ویران اور گندی مسجد میں
ٹھہرایا۔
سوال 6: مسجد کی حالت کیسی تھی؟
جواب: مسجد ویران، بوسیدہ، چمگادڑوں سے بھری اور ان کی بیٹوں
سے آلودہ تھی۔
سوال 7: مرزا نے چراغ کیوں نہ بھیجا؟
جواب: مرزا نے بہانہ کیا کہ روشنی سے ابابیل گرنے لگیں گی
اور کلیم کو تکلیف ہو گی۔
سوال 8: مرزا نے کلیم کو کھانے کے لیے کیا دیا؟
جواب: مرزا نے چنے کی دال بھنوا کر لانے کا کہا، مگر تھوڑے
سے بھنے ہوئے چنے لا کر خوشامدی انداز میں پیش کیے۔
سوال 9: مرزا نے بھنے ہوئے چنوں کی تعریف کس طرح کی؟
جواب: مرزا نے چنوں کی خوشبو، رنگت اور ساخت کی ایسی تعریف
کی جیسے کوئی نفیس کھانا ہو۔
سوال 10: کلیم کا کیا حال ہوا جب وہ صبح بیدار ہوا؟
جواب: وہ مسجد کے فرش پر گندگی اور گرد سے لتھڑا ہوا تھا،
اور مرزا کا کہیں پتا نہیں تھا۔
سوال 11: مرزا کے گھر والوں نے کلیم سے کیا سوال کیا؟
جواب: انہوں نے پوچھا کہ وہ دری اور تکیہ کہاں ہے جو مرزا
نے رات بھیجا تھا۔
سوال 12: مرزا کے نوکر زبردست نے کلیم کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: زبردست نے کلیم کو چور سمجھ کر پکڑا اور کوتوال کے
پاس لے گیا۔
سوال 13: کوتوال نے کلیم کے بیان پر کیا ردِ عمل ظاہر کیا؟
جواب: کوتوال نے کلیم کے حلیے کو دیکھ کر اس کی بات پر یقین
نہ کیا اور اسے حوالات میں رکھنے کا حکم دیا۔
سوال 14: کوتوال نے کلیم کے والد کے بارے میں کیا کہا؟
جواب: کوتوال نے کہا کہ وہ نصوح کو جانتا ہے اور کلیم کے
والد کا ذکر درست ہے، مگر کلیم جیسی حالت والا شخص اس کا بیٹا نہیں لگتا۔
سوال 15: سپاہیوں نے کلیم کو کہاں لے جایا؟
جواب: سپاہیوں نے کلیم کو اس کے والد میاں نصوح کے پاس لے
جایا تاکہ تصدیق ہو سکے۔
سوال 16: میاں نصوح نے بیٹے کو دیکھ کر کیا کہا؟
جواب: انہوں نے صبر و تحمل سے کہا: "میں اس کے فرزند
ہونے سے انکار کیسے کر سکتا ہوں؟" اور “انا للہ وانا الیہ راجعون” پڑھا۔
سوال 17: اس واقعے سے ناول کا کیا اخلاقی سبق ملتا ہے؟
جواب: ناول یہ سبق دیتا ہے کہ خود فریبی، جھوٹی شان اور
بناوٹ کا انجام ذلت و رسوائی ہے، اور سچائی و دیانت ہی حقیقی عزت کا سبب ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے مختصر حالاتِ زندگی:
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی 6
دسمبر 1831ء کو بجنور (اتر پردیش، ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے
والد کا نام مولوی سعید احمد تھا جو نہایت نیک، عالم اور دیندار شخص تھے۔ نذیر
احمد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، پھر دہلی کالج سے اعلیٰ تعلیم پائی۔
وہ عربی، فارسی اور منطق میں کامل دسترس رکھتے تھے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور بعد ازاں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے، اسی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ "ڈپٹی" مشہور ہوا۔ انھوں نے سرکاری فرائض کے ساتھ ساتھ قوم و ملت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں کی تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ڈپٹی نذیر احمد اردو کے پہلے باقاعدہ ناول نگار مانے جاتے ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں"مراۃ العروس"، "توبتہ النصوح"، "ابن الوقت"، "فسانۂ مبتلا" اور "بنات النعش" شامل ہیں۔ان کے ناولوں میں اصلاح، مقصدیت، دینداری، اور سماجی تربیت کا پہلو نمایاں ہے۔وہ 1898ء میں دہلی میں وفات پا گئے۔ ان کی ادبی خدمات نے اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا اور انھیں اردو نثر کا امام قرار دیا جاتا ہے۔
جماعت نہم پرانا سلیبس سال 25-2024ء
کتاب مجموعہ نظم و نثر
مشقی
سوالات سبق "صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے"
سوال1:
مصنف ڈپٹی نذیر احمد کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے۔
جواب: مقصدیت اور اصلاحی انداز: ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں مقصدیت اور اصلاحی و تربیتی
انداز پایا جاتا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح
کیلیے ناول، افسانے اور بے شمار کہانیاں تحریر کی ہیں۔
طنز و مزاح کا عنصر:
ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے
انتہائی ہلکے پھلکےانداز میں ہمارے معاشرے کی خامیوں پر طنز کیا
ہے اور اپنے افسانوں کے ذریعےانکی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
مکالماتی
انداز: ڈپٹی نذیر احمد کے ناول اور کہانیوں میں مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔
انھوں نے انتہائی لطیف انداز میں مفید اور سائنسی معلومات کو مکالمات کی صورت میں بیان
کیا ہے۔
بہترین کردار نگاری:
ڈپٹی نذیر احمد کو کردار نگاری میں کمال حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریرات میں کرداروں کو اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ وہ ہماری آنکھوں
کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
ماحول کی عکاسی: ڈپٹی نذیر احمد کی تحریرات میں ماحول کی عکاسی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کاحالات وواقعات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری ان کے زمانے اور اُس دور کی تہذیب اور ثقافت سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
سوال
2: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کا مرکزی خیال اس طرح بیان کریں کہ مصنف کا پیغام
واضح ہو جائے۔
جواب: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے
فائدے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مصنف ڈپٹی نذیر
احمد ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں چند باتوں کا خیال رکھیں تو
زندگی خوشحال ہو جاتی ہے اور کام بھی آسان
ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ صبح جلدی اٹھنے کے بے
شمار فائدے ہیں، اس سے انسان دن بھر چست رہتا ہے۔ مطالعہ کتب سے علم بڑھتا ہے اور ہر
طرح کی ہوشیاری آتی ہے۔ نیز مصنف نے اس سبق میں امیروں کے دولت پر غرور کرنے کی پُر
زور مذمت کی ہے۔
سوال
3: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے میں بتایا گیا ہے کہ محمودہ کو اس کی استانی نے
صبح جلدی اٹھنے کے نصیحت کی تھی۔
آپ کو بھی کسی استاد/استانی نے
کبھی کوئی نہ کوئی نصیحت کی ہوگی۔ اس نصیحت کا آپ پر کیا اثر ہوا؟ اپنے الفاظ میں بیان
کریں۔
جواب: جب میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا تو مجھے صبح دیر تک سونے کی عادت تھی، ایک روز میری استانی نےمجھے صبح جلدی اٹھنے کی نصیحت کی اور جلدی اٹھنے کا طریقہ بتایا کہ میں گھر میں ایسے فرد کو تاکید کر دوں جو صبح جلدی بیدار ہوتا ہو ، میرے منہ پر چھینٹے مار کر جگا دیا کرے، شروع میں مجھے پریشانی ہوئی اور سر میں درد رہتا تھا لیکن آہستہ آہستہ مجھے صبح خیزی کی عادت ہو گئی ۔ اب میں نہ صرف صبح جلدی اُٹھتا ہوں بلکہ اسکول بھی جلدی پہنچتا ہوں ۔
سوال
4: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ امراء کن عادات
کے مالک ہوں تو ان کے کردار کی مذمت کرنی چاہیے؟
جواب:
اگر دولت پا کر لوگ گھمنڈ اور غرور کریں اور یہ سمجھیں کہ وہی سب سے بڑے ہیں۔ جتنے
بھی غریب ہیں وہ حقیر اور ذلیل ہیں اور ان کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ
آپ ہاتھ نہ ہلائیں اور دوسروں کی محنت سے آرام حاصل کریں۔ اپنی دولت سے غریبوں کا حصہ
نہ نکالیں۔ تو ایسے امراء کے کرداروں کی مذمت کرنی چاہیے
سوال5: سبق صبح خیزی اور پڑھنے کے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ امیر لوگ کن خصوصیات کے حامل ہوں تو ان کے کردار کی تعریف کرنی چاہیے؟
جواب: اگر دولت پا کر انسان گھمنڈ اور غرور نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ سب برابر ہیں۔ جتنے بھی غریب ہیں وہ قابلِ احترام ہیں اور ان کی ٹہل خدمت کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ۔ انھیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو۔ وہ اپنی دولت سے غریبوں کے لیے صدقہ خیرات نکالیں۔ تو ایسے امراء کے کرداروں کی تعریف کرنی چاہیے
سوال 6: تعلیم یافتہ لوگ ان پڑھ کی نسبت اپنی زندگی سے کیسے زیادہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟ روزمرہ زندگی سے دو مثالیں دے کر اس نقطے کی وضاحت کیجیے۔
جواب: تعلیم یافتہ اور باشعور افراد دوسروں کے لیے بھی مددگار بنتے ہیں اور اپنی زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مثلاً حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے وہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔علم کے بل بوتے پر اپنے کاروبار کو فروغ دے کر کامیاب تاجر بن سکتے ہیں۔
2: کتابیں پڑھنے کے کوئی سے تین فوائد تحریر کریں۔ نیز کتابیں نہ پڑھنے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟
اس سبق کا خلاصہ یہ ہے کہ سجاد حیدر یلدرم ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ ہمیں دوستی کے لیے چند اصول طے کر لینے چاہئیں ورنہ حدسے زیادہ بے تکلف دوست آپ کا جینا دوبھر کر دیں گے۔
مصنف نے اپنی اپ بیتی بیان کی ہے کہ ایک روز چاندنی چوک سے گزرتے وقت اس نے ایک فقیر کو اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتے ہوئے دیکھا. فقیر لوگوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ "میں غریب الوطن ہوں میرا کوئی دوست نہیں، میری مدد کرو۔" یہ طرز اس کو خاص معلوم ہوا اور اس نے اس کی حالت کو اپنی حالت سے موازنہ کیا تو اسے ایک چیز میں وہ حد درجے بہتر نظر آیا, وہ یہ کہ فقیر کا کوئی دوست نہیں اور میرے بہت زیادہ دوست ہیں. مصنف اس شخص کو دل ہی دل میں خوش قسمت کہتے ہوئے گھر پہنچا, کہ فقیر کو فرصت ہی فرصت ہے اور نہ ہی روپیہ مانگنے والا کوئی دوست ہے۔
سبق میں مصنف نے اپنے چار دوستوں کا ذکر بھی کیا. پہلے دوست احمد مرزا ہیں جنہیں وہ بھڑ بھڑیا دوست کہتا ہے. اگرچہ یہ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو کر صرف ایک منٹ ہی بیٹھتے, اس ایک منٹ میں اتنا بولتے کہ سب خیالات ذہن سے چلے جاتے. دوسرے دوست محمد تحسین, بال بچوں والے ہیں جو جہاں بھی ہوں جو بھی بات کریں اپنے بچوں کی بیماری پر ہی کریں. تیسرے دوست مقدمے باز دوست, جنہیں صرف ریاست کے مقدموں پر ہی بولنا ہے۔
آخری دوست محمد شاکر خاں, باقی دوستوں سے ذرا مختلف ہیں. رئیس اور معزز آدمی ہیں. مگر ایک بار جب یہ مصنف کو اپنے گھر لے گئے اگرچہ ان کی خوب خاطر خدمت کی مگر مصنف کو لکھنے کا مکمل سامان مہیا نہ تھا مزید یہ کہ مصنف کو دو منٹ سکون کو لکھنے کے لیے میسر نہیں آیا, کبھی پرندوں کی آواز تو کبھی بھائی کی موسیقی آخر سب ختم ہونے کے بعد مصنف کو لکھنے کے لیے صرف اتنا وقت ملا کہ وہ سبق مکمل کرسکے.
مصنف کے تمام دوست مصنف کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن سب دوست مصنف کا وقت ضائع کرتے ہیں اس لیے مصنف ان سے نالاں ہے اور یہ فیصلہ کر کے بیٹھا ہے کہ وہ سب کو چھوڑ دے گا.
سبق کےچند تفہیمی سوالات:
سوال نمبر1: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" میں مصنف اپنے دوستوں
کے رویے سے کیوں نالاں(ناراض) ہے اور انھیں چھوڑنا چاہتا ہے؟
جواب:
مصنف اپنے دوستوں کے رویوں سے اس لیے ناراض ہے کیونکہ وہ اس کا قیمتی وقت ضائع
کرتے ہیں۔ کام نہیں کرنے دیتے۔ آرام میں خلل ڈالتے ہیں۔ پیسے ادھار مانگتے ہیں اور
واپس نہیں کرتے۔ اس لیے مصنف انھیں چھوڑنا چاہتا ہے۔
سوال نمبر2: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" میں مصنف نے کن امور
میں خود کو فقیر سے کم تر تصور کیا ہے؟
جواب:
مصنف
نے خود کو فقیر سے اس لیے کم تر تصور کیا کیونکہ: فقیر ہٹا کٹا اور صحت مند ہے جبکہ مصنف نحیف و نزار
ہے۔ مصنف رات دن فکر میں گزارتا ہے جبکہ فقیر بے فکری کی زندگی گزارتا ہے۔ سب سے
بڑھ کر یہ کہ فقیر کا کوئی دوست نہیں جس نے اس کا مصنف کے دوستوں کی طرح جینا
دوبھر کر رکھا ہو۔
سوال نمبر3: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کو مد نظر رکھتے
ہوئے آپ کے مطابق ایک اچھے دوست میں کیا
خوبیاں ہونی چاہئیں؟ تین تحریر کریں۔
جواب:
اچھا
دوست ہمیشہ مصیبت میں کام آتا ہے۔ آپ کی عزت و احترام کرنے والا ہو۔ آپ کو برے
کاموں سے روکے اور نیک کاموں کی صلاح دے۔
سوال نمبر4: سبق" مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کو مد نظر رکھتے ہوئے
بتائیں کہ مصنف کے دوستوں(احمد مرزا، محمد
تحسین، مقدمے باز دوست اور شاکر خان کا رویہ مصنف کے ساتھ کیسا تھا؟ ہر ایک کا رویہ
الگ الگ بیان کریں۔
جواب:
احمد
مرزا: بہت باتیں کرتا، مصنف کے کام میں خلل ڈالتا، بغیر اجازت مصنف کے کمرے میں آ
جاتا۔
محمد
تحسین: ہمیشہ صرف اپنے بیوی بچوں کی بیماریوں کا ذکر کرتے، مصنف کا وقت ضائع کرتے
اور آرام میں خلل ڈالتے۔
مقدمے
باز دوست: ہر وقت دوسروں کی غیبت کرتے، مصنف کا وقت ضائع کرتے اور کام میں خلل
ڈالتے تھے۔
شاکر
خان: مصنف پیارا دوست تھا ہمیشہ مصنف کا خیال رکھتا تھا لیکن مصنف کا قیمتی وقت
ضائع ہو جاتا تھا۔۔ کام اور آرام میں خلل پیدا ہوتا تھا۔
سوال نمبر5: " چاہے مجھ پر
نفرین کی جائے مگر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا
کہ آج تک میرے سامنے کوئی یہ نہیں ثابت نہیں کر سکا کہ احباب کا ایک جمِ غفیر
رکھنے اور شناسائی کے دائرےکو وسیع کرنے کا کیا فائدہ ہے۔"
کیا آپ دیے گئے اقتباس
میں مصنف کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں؟
دلائل سے واضح کریں
جواب:
اس اقتباس میں مصنف کے پیش کردہ موقف سےمیں
مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں کیونکہ ہمارے قریبی دوست ہمیشہ ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں
اور کام نہیں کرنے دیتے۔ مثلاً اگر ایک طالب علم اپنی دوستیاں نبھاتا رہے تو اس کی
پڑھائی کا حرج ہوگا اور امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سبق تحریک کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں کبھی نہ کبھی پیش آنے والا کوئی سانحہ یا واقعہ یا اس شخص کی کسی سے والہانہ محبت اسکی زندگی میں ایسی تحریک پیدا کرتی ہے جو اس کی کایا پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اوروہ غیر ذمہ دار سے ذمہ دار اور فرض شناس شہری بن جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے اس کا کردار کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، وہ دوسروں کے سامنے عمدہ مثال بننے کیلیے اپنی عادات کو یکسر بدل دیتا ہے۔ نیز مصنف منشی پریم چند ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حکام یا افسران بالا سے اگر اختلافات ہو جائیں تو حق پر ہونے کے باوجود اکثر اوقات نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہے۔
4: افسانہ "چراغ کی لَو" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ اچھن کے گھر میں غربت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
محاورات
اور ضرب الامثال کا استعمال: شفیع عقیل نے اپنے افسانوں میں محاورات اور
ضرب الامثال کا کمال مہارت سے استعمال کیا
ہے۔
طنز
و مزاح کا عنصر: شفیع
عقیل نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر طنزیہ
اور مزاحیہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ حق گوئی
اور بے باکی ان کا شعار تھا ۔وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ
کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا ۔
سادگی
اور تسلسل: سادگی ، روانی اور تسلسل ان کے کلام کی
نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں۔
4: اس سبق" نہ گھر کے نہ گھاٹ کے" کے مطابق پرندے اور درندے ایک بادشاہ کے انتخاب پر کیوں راضی نہ ہو سکے؟
4: باغ میں کام کرنے والے دیگر مالیوں کا رویہ کیسا تھا؟
4: دھوبن کو کپڑے دیتے وقت گھر کی جو حالت مصنف نے بیان کی ہے اسے اپنے الفاظ میں تحریر کریں۔
کردار نگاری: مرزا ادیب کو کردار
نگاری پر عبور حاصل تھا۔ کسی بھی کردار کی خوبیوں اور مزاج کو اس طرح واضح کرتے
گویا ہم ان کرداروں کو اپنے سامنے موجود پاتے ہیں۔
مکالمہ
نگاری: مکالمہ
نگاری ان کے افسانوں کی نمایاں خوبی ہے۔
ان کے افسانے پڑھ کر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم دو افراد کے مابین ہونے والی
گفتگو سن رہے ہوں۔
سادگی
اور تسلسل: مرزا ادیب کے افسانوں اور تحریرات میں استعمال ہونے
والی زبان انتہائی سادہ اور سلیس ہے۔ اگرچہ انھوں نے دیگر کئی زبانوں کے
الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے یہ الفاظ عوام میں رائج ہیں۔
مقصدیت: مرزا
ادیب کی تحریرات میں مقصدیت کا عنصر نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں اور ڈراموں کے
ذریعے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے۔
4: فاطمہ کی والدہ اسے جنگ میں کیوں نہیں بھیجنا چاہتی تھیں؟
1.
منفرد اندازِ مکتوب نگاری: غالب
نے اپنے خطوط میں قدیم اندازِ آداب و
تکریم کو ترک کر کے جدید انداز اپنایا ہے۔
اپنے مراسلوں میں تاریخ، دن، مہینہ
اور سال کا ذکر ضرور کرتے تھے۔ سلام دعا
کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہ کرتے کبھی خط کے آغاز میں ، کبھی درمیانی حصہ تو
کبھی اختتام میں سلام دعا لکھتے تھے۔
2. ماحول
کی عکاسی: غالب کے خطوط انکے ماحول، معاشرے اور تہذیب کی عکاسی کرتے تھے۔ اکثر خطوط میں وہ اپنی صحت کا احوال بیان کرتےکرتے تختِ دہلی کی
حالتِ زار اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکرضرور کرتے تھے۔
3. شوخی اور ظرافت: غالب کے خطوط میں شوخ لہجہ پایا جاتا ہے۔ لیکن
انکا شوخ لہجہ مکتوب الیہ کے مقام ، مرتبے،عمر اور مزاج کے مطابق ہوتا ہے۔
4. مکالماتی اندازِ بیان: انکے خطوط میں مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔ وہ خط اس انداز سے لکھتے گویا مکتوب الیہ کے سامنے بیٹھے اُس سے باتیں کر رہے ہوں۔
مکاتیبِ غالب کےچند تفہیمی سوالات:
1: مرزا غالب نے مرزا تفتہ کو خط کیوں لکھا؟
2: غالب نے مرزا تفتہ کے نام خط کے آغاز میں شعر کے ذریعےمکتوب الیہ کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی ہے؟
3:
4: مرزا غالب کا خط میر مہدی مجروح کے نام کا مرکزی خیال تحریر کریں۔
رشید
احمد صدیقی کے خطوط نگاری کی چند خصوصیات:
بامقصد تنقید: رشید صدیقی بہترین تنقید نگار تھے۔ ان کے خطوط میں بامقصد تنقید پائی جاتی ہے۔ انکی تنقید ہمیشہ اصلاحی اور تعمیری ہوتی ہے۔
مزاح نگاری: انکے خطوط میں طنز و مزاح کا ملا جُلا عنصر پایا جاتا ہے۔ انکا ذوقِ مزاح بہت بلند ہے اور طنز کا رنگ بہت مدھم اور دھیما ہے۔
منفرد اندازِ مکتوب نگاری: رشید صدیقی کے مکتوب نگاری کا انداز منفرد ہے۔ انکا اندازِتحریر سادہ، زبان باوقار ہے اور دردمندی و خلوص کے جذبات نمایاں ہیں۔
خط کےچند تفہیمی سوالات:
سوال:
ایک اچھے تنقید نگار میں کیا صفات ہونی چاہئیں؟
اچھا
تنقید نگار شعر و ادب کا ضمیر ہوتا ہے۔ کیونکہ اسکی تنقید ہمیشہ سچائی پر مبنی ہوتی
ہے۔ ضمیر چونکہ دل کی آواز کو کہتے ہیں اسلیے وہ شعر و ادب پر ہمیشہ خلوص کے جذبات
کے ساتھ تنقید کرتا ہے۔
وہ
ہمیشہ تعصب سے پاک تنقید کرتا ہے۔ اور اس کا تجزیہ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔
اسکی
تنقید ہمیشہ اصلاح کی غرض سے ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کی رہنمائی کر سکے.
سوال: رشید احمد صدیقی کا خط نظیر احمد صدیقی کے نام کا مرکزی خیال تحریر کریں۔