اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

جمعرات، 21 نومبر، 2024

غزل: مظفر احمد ظفر لگتا ہے یہ دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

 

غزل:

لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

کلام: مظفر احمد ظفر

 

لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

جو زخم گہرا تھا، بھر گیا مگر لگے گا نہیں

 

وفا کی بات کریں یا جفائیں یاد کریں

یہ قصہ اب ختم ہوا، مگر لگے گا نہیں

 

تمام عمر کسی کی طلب میں کٹ تو گئی

پوری ہونے لگی ہے  اب تمنا، مگر لگے گا نہیں

 

جو دل کا حال تھا، آنکھوں نے سب بیاں کر دیا

لبوں پہ بات رکی، پر کہا، مگر لگے گا نہیں

 

نہ آنکھ بند کرو، یہ نہ ہو کہ دھوکہ کھاؤ

جو پاس ہے، وہ معتبرتھا، مگر لگے گا نہیں

 

وفا کی بات ہوئی ختم، اب تو سب بدلے

جو آج وعدہ کرے، باوفا، مگر لگے گا نہیں


یہ عشق ایسا سمندر ہے، ڈوبنا شرط ہے

بچاؤ خود کو،  کوئی کنارہ مگر لگے گا نہیں

 

کہاں سے لاؤں وہ دنیا، سکوں جہاں پہ ملے

یہ شہر شہر کا عالم ہے، بسیرا  مگر لگے گا نہیں

 

یہ دل کا حال سنائیں کسے، کسے بتائیں ظفر

ہم درد کوئی ہے، بچا مگر لگے گا نہیں

 -----

اتوار، 10 نومبر، 2024

مناجات ظفر حمدیہ نظم (مثنوی طرز)

مناجات ظفر

حمدیہ نظم (مثنوی طرز)

 

نام لیتا ہوں اس کا، جو بِن مانگے دے

کرے ہر دم رحم، سب دعائیں سُنے

 

سب تعریفیں ہیں تیری، اے ربِ جہاں

تو ہے پروردگار، سب تیرا ہی بیاں

 

خوباں ہے تو ، ہے تو سب سے جدا

تو ہی خالق کل ،  مالکِ   روزِ جزا  

 

عبادت کریں تری، ہم صبح و شام

ترے در پہ یارب، سدا ہمارا قیام

 

دکھا ہم کو رستہ، جو سیدھا ہے خاص

وہی جن پہ انعام، تیرا ہے پاس

 

بچا ہم کو ان سے، جو ہیں ترے زیرِ غَضَب

بھٹکنے سے رکھ دور، اے میرے رَب 

 

ظفؔر کی ہے دعا، اے میرے خدا

مالکِ کون و مکاں، سن لے التجا

 

کلام : مظفر احمد ظفؔر


اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نمونہ روداد نویسی ، ریل گاڑی کے سفر کی روداد

 

*لاہور تا کراچی کے سفر ریل کی روداد نویسی* 

گزشتہ ماہ  کراچی جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ سفر ہم نے ریل کار کے ذریعے کیا تھا اس کے سفر کی روداد کچھ یوں پیش ہے۔ 

لاہور سے کراچی روانہ ہونے کا وقت ہوا تو پہلے ہی مرحلے میں ٹرین لیٹ تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا، "بھائی، یہ تو سدا کا معمول ہے!" ہم نے دل میں کہا، "اگر لیٹ نہ ہو تو کیا یہ ہماری قومی ٹرین کہلائے؟" خیر، دو گھنٹے انتظار کے بعد جب ٹرین آئی تو سب مسافر ایسے لپکے جیسے یہ کوئی نایاب خزانہ ہو۔

لاہور کا وہ سرد موسم اور خوشبو دار ہوا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی ٹرین روانہ ہوئی، ہمیں ایک شعر یاد آیا:

 ہم سفر میں بھی غمِ ہجر نہ چھوڑیں گے

اک تماشا ہے جو دکھاتے رہیں گے ہم

راہ میں سر سبز کھیت، لاہور کے باغ، اور پنجاب کی خوبصورتیاں ایک کے بعد ایک پیچھے چھوٹتی گئیں۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے جو بار بار یہی دہراتے کہ "کراچی میں وہ بات کہاں!" ہم نے کہا، "جناب، کراچی کی اپنی ہی دنیا ہے۔ وہاں زندگی کی دوڑ ہے، جو رکتی نہیں!"

ہر چھوٹے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی، ایک ہجوم چائے، سموسے، اور جوس لے کر چڑھ آیا۔ اور مسافر ایسے چمٹے جیسے کھانا اور سفر کا ایک ہی ٹکٹ تھا۔ ایک صاحب نے چائے پی اور پھر جیسے فلسفیانہ گفتگو شروع کر دی: "چائے ہو تو ایسی ہو کہ لاہور یاد آئے اور کراچی بھول جائے۔" ہم نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، یہ چائے آپ کے پیسے کی مار ہے، یادیں اور بھولنا ہمارے بس میں کہاں!"

جیسے ہی رات آئی، خراٹوں کا کنسرٹ شروع ہو گیا۔ ایک طرف ایک بزرگ صاحب تھے جن کے خراٹے ایسے تھے جیسے طوفان کی زد میں ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی مسافر نے کہا، "بھائی، یہ خراٹے کسی سائلنسر کے بغیر ہیں!" دوسرا بولا، "اور کراچی پہنچنے تک ایسے ہی رہیں گے!" یوں ہنسی مذاق کے دوران کچھ لوگ سو گئے اور کچھ نے اس خراٹوں کے کنسرٹ کا ہی مزہ لیا۔

جب کراچی کے قریب پہنچے تو فضا میں نمی اور سمندر کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جیسے ہی ٹرین رکی، ایک عجیب سا رش تھا۔ ایک بزرگ بولے، "کراچی والے بہت مصروف لوگ ہیں، سلام تک کا وقت نہیں!" جواب آیا، "کراچی والوں کی زندگی سلام کے بغیر بھی تیز چلتی ہے!"

کراچی کی فضا میں قدم رکھتے ہی دل خوش ہوا، مگر سفر کی تھکان اور ہنسی مذاق کی یادیں رہ گئیں۔

 ایک  شعر دل میں گونجا:

 یہ سفر کی تھکان ہے یا منزل کا نشہ 

دل کہتا ہے، نکلنا ہے اسی رہگزر پہ دوبارہ 

یوں، یہ سفر لاہور سے کراچی تک کی ایک خوش گوار یاد بن کر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔

نمونہ روداد نویسی: پاکستان میں بڑھتی مہنگائی/ تیزی سے بڑھتی ہوئی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے موضوع پر ایک روداد لکھیے

 

عنوان: مہنگائی کا تماشا                (روداد کا ایک نمونہ)

   ایک وقت تھا کہ جب سوروپے میں بندہ نہ صرف پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا بلکہ چائے کا لطف بھی اُٹھا  لیتا تھا۔ مگر آج کے حالات کچھ ایسے ہو چکے ہیں کہ   بچےبھی سو روپے لے کر شکریہ نہیں کہتے۔

پچھلے ہفتے سوچا کہ مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے خود بازار کی سیر کی جائے۔ جب گلی میں قدم رکھا تو سبزی والے کی آواز سنائی دی: ’’ٹماٹر تین سو روپے کلو، تین سو روپے کلو!‘‘ دل نے کہا، " یہ ٹماٹر ہیں یا سونے کے زیور؟‘‘ قریب جا کر  سبزی والےسے مذاق کرتے ہوئے  پوچھا، ’’بھائی صاحب، کیا ان ٹماٹروں میں کوئی خاص بات ہے جو اتنے مہنگے ہو گئے ہیں؟‘‘ سبزی والے نے کہا، ’’صاحب!  یہ وہی ٹماٹر ہیں جن سے آج کل سیاست دانوں کی دعوت ہو رہی ہے،  ایسے میں قیمت تو بڑھے گی ہی۔‘‘

وہاں سے کچھ آگے بڑھے تو پٹرول پمپ پر نظر پڑی۔ ایک صاحب بڑے رنجیدہ چہرے کے ساتھ بائیک پر  بیٹھےتیل بھروا رہے تھے۔ ان کی  روتی صورت  دیکھ کر پوچھا، ’’بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘ بولے، ’’بس بھائی، ہر بار پٹرول کی قیمت بڑھنے پر دل چاہتا ہے کہ  موٹر سائیکل میں سے موٹر نکال کر صرف سائیکل ہی رہنے دی جائے تو اچھا ہوگا۔‘‘  میں نے سوچاواقعی اگر مہنگائی ایسے ہی بڑھتی رہی تو شاید سائیکل ہی واحد سواری بچ جائے گی۔

پھر ایک دودھ والے کی  دکان کا رخ کیا۔ دودھ کی قیمت  دو سو بیس  روپے فی لیٹرسن کر ایسے لگا جیسے ہم دودھ نہیں ولائتی   مشروب  خرید رہے ہوں۔ جب پوچھا کہ’’دودھ کی قیمت میں اتنا اضافہ کیوں ہے؟‘‘ تو بولا، ’’بھائی صاحب ! آپ جانتے ہیں دودھ دینے والے جانور بھی اب ٹی وی پر مہنگائی کی خبریں دیکھتے ہیں، وہ بھی تو اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں۔!"

آخر کار سوچا کہ گھر واپس چلیں اور بجلی کا بل دیکھیں۔ بجلی کا بل دیکھ کر احساس ہوا کہ گھر میں بجلی کا استعمال کم کرنے کی بجائے اسے  عجائب گھرکی کسی نایاب چیز کی طرح سجا کر رکھ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن بجلی کا بل دیکھتے ہوئے بجلی ہی غصے میں آ جائے اور کہے، ’’بھائی، اگر اتنا بل مہنگا لگتا ہے تو چراغ سے ہی کام چلاؤ۔‘‘

مہنگائی کی اس روداد کو بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بلکہ  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی نے سب کو ایک جیسے ہی رونا رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے:

؎           یہ زندگی ہے یا  کوئی طوفان ہے   

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

حکومت ِ وقت کو چاہیے کہ عوام  پر پڑنے والے   مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے اور مصنوعی مہنگائی کرنے  والوں کو  کڑی سے کڑی  سزا دی جائے۔


ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

روداد نویسی کا طریقہ بیان کریں۔

روداد نویسی کا طریقہ:

1. موضوع کی شناخت: روداد کا موضوع، مقام، تاریخ اور وقت کو واضح کریں۔

2. حقیقت پر مبنی معلومات: واقعات کو حقیقت پسندی سے بیان کریں، مبالغہ آرائی سے گریز کریں۔

3. ترتیب وار بیان: تمام واقعات کو ترتیب وار بیان کریں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

4. اہم نکات پر توجہ: روداد کے اہم نکات اور واقعات کو واضح کریں، خاص طور پر وہ جو روداد کی اصل روح کو بیان کرتے ہیں۔

5. زبان و اسلوب: سادہ اور مختصر زبان استعمال کریں تاکہ روداد عام فہم اور موثر ہو۔

6. تاثرات کا اظہار: اگر مناسب ہو تو روداد کے اختتام پر اپنی ذاتی رائے یا احساسات کا اظہار کریں۔

7. اختتام: روداد کو ایک جامع اور موزوں نتیجے کے ساتھ ختم کریں۔

8. نظر ثانی: روداد لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں۔