عنوان: مہنگائی کا تماشا
(روداد کا ایک نمونہ)
ایک وقت تھا کہ جب سوروپے میں بندہ نہ صرف پیٹ بھر کر کھانا
کھا لیتا تھا بلکہ چائے کا لطف بھی اُٹھا لیتا تھا۔ مگر آج کے حالات کچھ ایسے ہو چکے ہیں
کہ بچےبھی سو روپے لے کر شکریہ نہیں
کہتے۔
پچھلے ہفتے سوچا کہ مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے خود
بازار کی سیر کی جائے۔ جب گلی میں قدم رکھا تو سبزی والے کی آواز سنائی دی:
’’ٹماٹر تین سو روپے کلو، تین سو روپے کلو!‘‘ دل نے کہا، " یہ ٹماٹر ہیں یا
سونے کے زیور؟‘‘ قریب جا کر سبزی والےسے
مذاق کرتے ہوئے پوچھا، ’’بھائی صاحب، کیا
ان ٹماٹروں میں کوئی خاص بات ہے جو اتنے مہنگے ہو گئے ہیں؟‘‘ سبزی والے نے کہا،
’’صاحب! یہ وہی ٹماٹر ہیں جن سے آج کل سیاست
دانوں کی دعوت ہو رہی ہے، ایسے میں قیمت
تو بڑھے گی ہی۔‘‘
وہاں سے کچھ آگے بڑھے تو پٹرول پمپ پر نظر پڑی۔ ایک صاحب
بڑے رنجیدہ چہرے کے ساتھ بائیک پر بیٹھےتیل
بھروا رہے تھے۔ ان کی روتی صورت دیکھ کر پوچھا، ’’بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘ بولے،
’’بس بھائی، ہر بار پٹرول کی قیمت بڑھنے پر دل چاہتا ہے کہ موٹر سائیکل میں سے موٹر نکال کر صرف سائیکل ہی
رہنے دی جائے تو اچھا ہوگا۔‘‘ میں نے سوچاواقعی
اگر مہنگائی ایسے ہی بڑھتی رہی تو شاید سائیکل ہی واحد سواری بچ جائے گی۔
پھر ایک دودھ والے کی دکان کا رخ کیا۔ دودھ کی قیمت دو سو بیس
روپے فی لیٹرسن کر ایسے لگا جیسے ہم دودھ نہیں ولائتی مشروب خرید رہے ہوں۔ جب پوچھا کہ’’دودھ کی قیمت میں
اتنا اضافہ کیوں ہے؟‘‘ تو بولا، ’’بھائی صاحب ! آپ جانتے ہیں دودھ دینے والے جانور
بھی اب ٹی وی پر مہنگائی کی خبریں دیکھتے ہیں، وہ بھی تو اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں۔!"
آخر کار سوچا کہ گھر واپس چلیں اور بجلی کا بل دیکھیں۔ بجلی
کا بل دیکھ کر احساس ہوا کہ گھر میں بجلی کا استعمال کم کرنے کی بجائے اسے عجائب گھرکی کسی نایاب چیز کی طرح سجا کر رکھ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی
دن بجلی کا بل دیکھتے ہوئے بجلی ہی غصے میں آ جائے اور کہے، ’’بھائی، اگر اتنا بل
مہنگا لگتا ہے تو چراغ سے ہی کام چلاؤ۔‘‘
مہنگائی کی اس روداد کو بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی کہہ
سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی نے سب کو ایک جیسے
ہی رونا رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے:
؎ یہ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
حکومت ِ وقت کو چاہیے کہ عوام پر پڑنے والے
مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے اور مصنوعی
مہنگائی کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔