اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

منگل، 26 ستمبر، 2017

تعارف شعراء غزلیات جماعت دہم Taaruf Shura Ghazliat Class 10th



اسد اللہ خان غالب
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
حالاتِ  زندگی: مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔
 اندازِ کلام:
·         غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔
·         اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔
·         ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔
·         غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں ۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔
·         انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں ۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔
·         غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں ۔
·         ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔




حسرت موہانی
اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت ، قصبہ موہان ضلع اناؤ میں 1875ءپیداہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ 1903ء میں علی گڑھ سے بی۔اے کیا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ 1903ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ ”اردوئے معلی“ جاری کیا۔ اسی دوران شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔”تم آدمی ہو یا جن ، پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو۔“ حسرت پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ 1907میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیئے گئے ۔ ان کے بعد 1947 ءتک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگران تمام مصائب کو انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘بھی کہا جاتا ہے-

اندازِ کلام:
·      حسرت محبت کے خوشگوار ماحول کے بہترین ، مقبول ترین اور مہذب ترین مصور اور ترجمان تھے وہ خالص غزل کے شاعر تھے ان کے شعروں میں ہر اس شخص کے لئے اپیل ہے جو محبت کے جذبات سے متصف ہے۔
·      حسرت کی غزل میں ایک ذہنی گدگدی ، ایک داخلی چھیڑ چھاڑ ، ایک حسین چہل کی عکاسی نظر آتی ہے۔
·      حسرت کی شاعری کا میدان ان معنوں میں محدود ہے کہ وہ جذبات حسن و عشق ہی سے سروکار رکھتے ہیں۔ ان کاد ل ایک شاعر کا دل ہے اور ان کی شاعر ی کا محور محبت اور صرف محبت ہے۔
·      حسرت موہانی اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو شاعری کے ارتقاءمیں ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے ۔
·      کلام حسرت کو دوسرے شاعروں سے ممتاز کرنے والی ایک صفت یہ بھی ہے کہ حسرت صرف عشق و عاشقی کے ترجمان نہیں بلکہ وہ عاشقی کے فلسفی بھی ہیں اور عاشقی کے ذوق کے بارے میں ہمیں بعض افکار بھی دئیے ہیں۔حسرت کی عشقیہ شاعری ایک قدرت شفا رکھتی ہے ۔ جو قاری کے لیے راحت اور فراغت کا سبب بنتی ہے۔ قاری کے دل کو گداز اور درمندی سے کی دولت سے آشنا کرتی ہے۔ یہ ان کے لیے راہ فرار نہیں بلکہ اسی وجہ سے انسان زندگی کی دوسری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔
·      حسن کی مصوری اور جزئیات کی مصوری میں حسرت کی بعض غزلیں لکھنؤ یت کے قریب آجاتی ہیں مگر یہ جزئیات بھی ایک حقیقی عنصر کی وجہ سے پورے نقش کو گہرا کرتی ہے۔
·      معاملہ بندی کے موضوعات قدیم اردو شاعری کا اہم موضوع رہا ہے۔حسرت موہانی نے بھی اپنی شاعری میں مومن کی طرح معاملہ بندی سے کام لیا ہے۔ ان کی شاعری میں اس قسم کی عکاسی عام نظر آتی ہے۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یا دہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یادہے

·      حسرت کے اشعار کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ انہوں نے زبان لکھنؤ میں رنگ دہلی کی نمود کی ہے۔ زبان کی سادگی کے علاوہ ان کی شاعری میں خلوص اور سچائی ہے۔
·      حسرت موہانی کی شاعری کا لہجہ صحت مندانہ ہے ان کے لہجہ میں خلوص اور صداقت کی پرچھائیاں موجود ہیں۔
·      حسرت موہانی کاسیاست سے بھی گہرا واسطہ تھا ۔ سیاسی حوالے سے وہ کئی بار جیل کی ہوا کھا چکے تھے مشق سخن اور چکی کی مشقت ان کی شاعری میں واضح ہے۔
 جگر مراد آبادی
نام علی سکندر اور تخلص‘‘‘جگر مرادآبادی‘‘‘ تھا۔ بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مراداباد میں پیدا ہوئے۔ اردو کے مشہور شاعر گذرے ہیں۔ آپ ٦ اپریل ١٨٩٨ء کو مرادآباد میں پیدا ہوے .آپ بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں .آپ کو سب سے زیادہ نظموں کو جمع کرنے پر ایوارڈ ملا .آپ کم عمر میں ہی اپنے والد سے محروم ہو گئے اور آپ کا بچپن آسان نہیں تھا .آپ نے مدرسے سے اردو اور فارسی سیکھی .شروع میں آپ کے شاعری کے استاد رسہ رامپوری تھے .آپ غزل لکھنے کے ایک اسکول سے تعلق رکھتے تھے .بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھا پے میں تا ئب ہو گئے تھے -آپ کا ٩ ستمبر ١٩٦٠ء کو انتقال ہو گیا .گوندا میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر 'جگر گنج ' رکھا گیا ہے .وہاں ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج رکھا گیا ہے.
اندازِ کلام:
·        جگر مرادآبادی خالص تغزل کے شاعر ہیں اور ان کے یہاں جوشفتگی اور وارفتگی ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اسی لیے انہیں کبھی شہنشاہِ تغزل اور کبھی رئیس المتغز لین کہاگیا اور بلا شبہ وہ اس کے مستحق تھے۔
·        جگرنے صاف ستھری اور سلیس زبان کا استعمال تو کیا ہی ہے ساتھ ساتھ اپنی غزل میں کلاسکی محاورات اوراستعارات کابھی استعمال کیا ہے۔
·        محبت کے موضوع کو انہوں نے مختلف زاو یو ں سے دیکھا اور پرکھا ہے اور اس موضوع پر تازہ کار اشعار کہے ہیں اور یہی جگر کا مخصوص انداز ہے۔
·        جگر کے یہاں اشعار میں غنایت ہے کیونکہ وہ خود بہت مترنم شاعر تھے اور انہوں نے اپنی تمام غزلوں میں اسے برتا ہے۔ لیکن گرد وپیش کے حالات سے بھی کبھی بے خبر نہیں رہے۔ انہوں نے حالات حاضرہ کواپنے اشعار میں سمیٹا ہے۔


فراق گورکھپوری

اصل نام رگھو پتی سہائے ۔ فراق گورکھپوری کی ولادت 28 اگست 1896ء کو گورکھپور کے ایک کائستھ خاندان میں ہوئی تھی ۔
فراق پی سی یس اور آئی سی یس (انڈین سول سروس) کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی مخالفت میں استعفا دے دیا۔ جس کی پاداش میں انھیں جیل جانا پڑا ۔ اس کے بعد وہ الہٰ اآباد یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے لکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہیں پر انہوں نے بہت زیادہ اردو شاعری کی۔جس میں آپ کی شہر آفاق کتاب گل نغمہ بھی شامل ہے۔ جس کو ہندوستان کا اعلی معیار ادب گیان پیٹھ انعام بھی ملا۔اور وہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی رہے۔
بطور ممتاز شاعر انہوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنہوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی وثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں۔
ن کی وفات تین مارچ سنہ 1982ء کو دہلی میں ہوئی۔
اندازِ کلام:
·       جدید شاعری میں فراق کا مقام بہت بلند ہے۔ آج کے شاعری پر فراق کے اثر کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بہترین شخصیت کے مالک تھے حاضر جوابی میں ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
·       بین الاقوامی ادب سے بھی شغف رہا۔
·       تنقید میں رومانی تنقید کی ابتداء فراق سے ہوئی۔
·       ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’اندازے‘‘ اور ان کی کتاب’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ بہت اہمیت رکھتی ہے ۔
·       شاعری میں فراقؔ کی غزل اور ان کی رباعی کاانداز سب سے الگ ہے ۔ انہوں نے رباعی کی صنف کو ہندوستانی ثقافت کا ترجمان بنادیا۔
·       ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف ہیں۔

ادا جعفری
ادا جعفری اردو زبان کی معروف شاعرہ تھیں۔ آپ کی پیدائش 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ۔وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی ۔ ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ادبی انعام ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ جو رہی سو بے خبری رہی کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغا امتیاز سے نوازا۔ وہ کراچی میں رہائش تھیں ۔
مختصر علالت کے بعد 12 مارچ، 2015ء کو آپ کا انتقال ہو گیا۔
اندازِ کلام
ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں ۔ گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ اور جو کچھ کہہ رہی ہیں شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں۔ حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ فکرو جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہہ رہی ہیں جس کی بدولت آج سے تیس چالیس سال پہلے ان کا شعر پہچان لیا جاتا تھا۔   
ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی ہائیکو کا مجموعہ ’’ساز سخن ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ اس میں بھی ادا جعفری نے صغائے حیات اور سائل کائنات کو موضوع بنایا ہے۔ اور کامیابی سے اردو ہائیکو کہیں ہیں۔ان کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہی کی رہنمائی و پیش قدمی نے نئی آنے والی پود کو حوصلہ دیا ہے اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا ہے بلاشبہ وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
 1950ء تک زندگی کے شب کدے میں ادا جعفری کو جس نور کی تلاش تھی وہ اسے مل گیا ہے اور اس نور نے ان کی بساط جسم و جاں پر بہت خوشگوار اثر ڈالا ہے۔ خواب و خیال کی دھندلی راہوں میں امید کی چاندنی چٹکا دی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دوپہر کی کڑی دھوپ میں چلنے والے تھکے ماندے مسافر کو دیوار کا سایہ میسر آگیا ہے۔ اس دیوار کے سائے میں ادا جعفری کی زندگی میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ داخلی دنیا کے ہنگاموں میں قدرے ٹھہراؤ آیا ہے اور خارجی دنیا پر تازہ امنگوں کے ساتھ جرات مندانہ نگاہ ڈالنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔
اب ان کے لیے زندگی کی کوئی خوشی یا کوئی غم محض ذاتی یا محض کائناتی نہیں رہا بلکہ دونوں ایک دوسرے میں اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ذات و کائنات میں وہ دوئی جس نے 1950ء سے کچھ پہلے تک ان کے دروں خانہ جاں میں تضاد و تصادم کی ایک کرب آلودہ فضا پیدا کر رکھی تھی اب وہ باقی نہیں رہی ۔ پہلے ان کی نظر ماضٰ اور حال پر مرکوز تھی ، اب ان سے آگے بڑھ کر مستقبل کو خوش آئند بنانے اور نژاد نو کو زندگی کی تازہ بشاتوں سے ہمکنار کرنے کی جستجو میں ہے ،وہ خود کہتی ہیں۔
میری آغوش میں ہمکتا ہوا چاند ، فردا کے خوابوں کی تعبیر ہے
یہ نئی نسل کے حوصلوں کا امین آنے والے زمانے کی تقدیر ہے
یہ خواب کشاں کشاں انہیں ایک نئے موڑ پر لے آیا۔ پہلے وہ صرف درد آشنا تھیں اب ’’شہر درد‘‘ کے بیچوں بیچ آبسیں۔ ’’شہر درد ‘‘ چونکہ امیر غریب ، عام و خاص ، محبوب محب اور اپنے پرائے سب کا ہے اس لیے ’’مرگ انبوہ جیے دارد‘‘ کے مصداق ہے ۔ ہر چند کہ اس کی وسعتیں ان کی وحشت جاں کے لیے صحرا جیسی سازگار تو نہیں تاہم فرزانگی کو شرمسار کرنے اور پائے جنوں کو جنبش میں لانے کے لیے بہت ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔