اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

ہفتہ، 18 دسمبر، 2021

نظم شکوہ تشریح کلاس 8 اردو کنول

نظم " شکوہ "      شاعر علامہ اقباؔل

(جماعت ہشتم کی اردو کی کتاب  "کنول"    میں شامل صرف چار بندوں کی تشریح)

حوالہ:  یہ بند علامہ اقبال کی مشہور نظم "شکوہ" سے لیا گیا ہے۔( مجموعہ کلام بانگِ درا ہے۔) یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔  اقبال نےنظم شکوہ میں مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہے۔

تشریح  بند نمبر 1:

نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال  اللہ سے شکایت کر رہا ہے۔ اس میں وہ مسلمانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے خیالات کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ میں ایسا انسان نہیں بننا چاہتا جو کہ اپنے فائدے سے غافل ہو اور اپنا نقصان خود کرے۔ نہ ہی مجھے ایسا بننا ہے جس سے مستقبل کی کوئی پرواہ نہ ہو  اور وہ یاد ماضی میں کھویا رہے اور اپنے آباء و اجداد کے قصوں کو یاد کر کے روتا رہے۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں جو بے حس نہیں ہے۔ جیسا کہ پھول بلبل کی آہ و زاری سن کر خاموش رہتا ہے مجھے معاشرے کے حالات کا دکھ ہے اور احساس بھی ہے۔ میں مسلمانوں کی بے چینی اور گھبراہٹ پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ اے اللہ میری اس شکایت کو گستاخی نہ سمجھنا یہ شکوہ کے چند الفاظ اس لیے کہنے کی جرات کی ہے کیونکہ تو نے مجھے بولنے کی قوت عطا کی ہے۔  ورنہ میرے منہ میں خاک ہو کہ اپنے رب کے سامنے کوئی گلہ یا شکوہ کروں۔

تشریح  بند نمبر 2:

 نظم شکوہ کے اس بند میں اقبؔال نے اللہ کے حضور شکایت کے انداز میں مسلمانوں کے آباؤ اجداد کے  کارنامے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنحضور صلی علیہ وسلم کی دنیا میں آمد سے پہلے عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ لوگ طرح طرح کی برائیوں میں گھرے ہوئے تھے ۔ شرک اور بت پرستی عام تھی۔ کوئی پتھروں کو سجدہ کرتا تھا تو کوئی درختوں کو اپنا خدا مانتا تھا ۔ اس زمانے میں انسان صرف ایسے ظاہری  وجود کو خدا ماننے کے لیے تیار ہوتا تھا جسے وہ اپنے حواس  سے محسوس کر سکے۔ ایسی صورت حال میں ایک ایسے خدا کو ماننا یا اس کا تصور کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا جو ہر جگہ موجود ہو لیکن دکھائی نہ دے۔ ہر شے پر قادر ہو  لیکن سامنے نہ آئے۔ ایسے خدائے واحد پر ایمان یقین پیدا کرنا بہت مشکل کام تھا۔ لوگ کئی خداؤں کی پوجا کرنے کی عادی ہو چکے تھے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ! اس وقت یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے اپنے زورِ بازو سے   اور ہمت  کے بل بوتے پر اپنی جان مال وقت اور عزت کو قربان کرتے ہوئے تیری تبلیغ کو دنیا میں پھیلایا۔ نہ صرف تجھ پر سچے دل سے ایمان لائے بلکہ ہر طرف  تیری توحید کا عَلم لہرایا۔

تشریح  بند نمبر 3:

 نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال نےمسلمانوں کے اُس سنہری دور کا ذکر کیا ہے جب مسلمان دین پر عمل پیرا تھے۔ اسلامی ترقی کا دور دورہ تھا ۔ مسلمانوں کی سلطنت اسپین اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے علم و ہنر کے ہر میدان میں بے انتہا ترقی کر لی تھی۔ اسی دور میں جب مسلمان فتوحات پر فتوحات کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ساتھ غرور و تکبر سے بہت دور اور اسلام کے بتائے ہوئے  "اخوت ومساوات" کے اصول پر سختی سے کاربند بھی تھے۔جنگوں میں لڑائی کے دوران جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو پابندی نماز باجماعت کی عادت کی وجہ سے وہ صف بندی کرتے ہوئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے۔  حکمران، امیر وغریب کا فرق ختم کرکے سب دنیاوی عہدے اور مناصب کو بھلا کر ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔ مساوات کا عملی نمونہ دیکھنے والوں کو یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کون امیر ہے کون غریب ہے کون مالک ہے اور کون غلام ہے۔ یہ ایسا مثالی منظر تھا جو اس سے پہلے کبھی کسی مذہب یا قوم میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

تشریح  بند نمبر 4:

نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال مسلمانوں کی آواز بنتے ہوئے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ! اس دنیا میں بہت سی قومیں آباد ہیں۔ ان میں کئی لوگ ہیں جو گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔لیکن بہت سے ان میں ایسے بھی ہیں جو عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنی مستی میں مست رہتے ہیں  ۔کچھ  ایسے ہیں جو بہت سست ہیں اور اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں بعض بہت چالاک ،ہوشیار اور ذہین ہیں ۔اے اللہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تجھے بھلا دیا ہے اور وہ تیرا نام لینا پسند نہیں کرتے کئی مسلمان ایسے ہیں جن کے دل ودماغ میں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے  کہ ہم تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بیچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟

تفہیمی سوالات:

1:اقبال کی مشہورِ زمانہ  نظم "شکوہ" کی توجیہ بیان کریں۔(اس نظم میں اقبال اللہ سےکس بات کی شکایت کررہا ہے؟ اور کیوں کر رہا ہے؟)

جواب:  یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔ نظم شکوہ میں اقبال نے مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہےکہ ہم مسلمان تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بےچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟

 


پیر، 31 مئی، 2021

6 غزل نمبر: کچھ اشارے تھے ۔۔۔۔ شاعر فراق گورکھپوری

 غزل  نمبر 6    کچھ اشارے تھے ۔۔۔۔ شاعر فراق گورکھپوری


فراق گورکھ پوری کے اندازِ کلام کی خصوصیات تحریر کریں۔۔

 

تشبیہات اور استعارات کا استعمال:

فراق گورکھپوری نے اپنی شاعری میں تشبیہات اور استعارات کا نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کو نئے استعارات اور نازک نمونوں سے آراستہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو ادب کو نئی تازگی ملی ہے۔

 

آفاقیت اور معرفت کا رنگ:

 فراق کے کلام میں آفاقی رنگ پایا جاتا ہے۔ انکی شاعری انکی ذات تک محدود نہیں بلکہ انھوں نے اپنی شاعری میں کائنات کے رنگ و خوبصورتی کو بھی پیش کیا ہے۔ فراق نہ تو زاہد  تھے اور نہ ہی عارف لیکن انکے کلام میں اردو اور فارسی کلام کی آمیزش سے عارفانہ رنگ دکھائی دیتا ہے۔

 

خودداری اور عزتِ نفس:

فراق کےکلام میں خود داری اور عزتِ نفس بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق جذبہ عشق  میں خودداری کا کوئی دخل نہیں یہ سپردگی اور راضی برضا رہنے کا نام ہے۔ لیکن غالب کے بعد فراق ایسے شاعر ہیں جنھوں نے جزبہ عشق اور خود داری کو مربوط کر دیا۔

 

تشریح غزل:

 

شعر نمبر 1:

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر فراق گورکھ پوری عشقِ مجازی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبوب کی نگاہوں نے اسے فریب میں مبتلا کر دیا ہے۔ شاعر کے مطابق یہ اس کی زندگی کی بڑی بھول تھی کہ اس نے اپنے بےوفا محبوب کے ساتھ گزارے چند لمحات کو دنیا کی سب سے بڑی دولت سمجھ لیا۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کا محبوب بھی اس سے اسی طرح سچی اور بے لوث محبت کرتا ہے جیسا کہ وہ اس سے کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بر عکس نکلی۔

(اس شعر میں علم البیان کی قسم مجاز مرسل کا استعمال کیا گیا ہے۔ نگاہِ آشنا کو التفات بنانا۔۔۔ ایک غلط فہمی تھی۔)

 

شعر نمبر 2:

شاعر عشق مجازی کے حامل اس شعر میں اپنے دل کی کیفیت کا حال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے محبوب پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کا نتیجہ مجھے اس صورت میں ملا ہے کہ میں اپنی ہی نظروں میں شرمسار ہو گیا ہوں۔ یہ میری بھول تھی کہ میں اپنے بے وفا محبوب کو اپنا سمجھتا رہا ، جب کہ اس کے دل میں میرے بارے میں کوئی محبت کے جذبات نہیں تھے۔ یہ  میری اپنی بہت بڑی بھول تھی جس کی وجہ سے میں اپنے نظروں میں پرایا ہو گیا ہوں۔

 

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام کنایہ  (واہ ری غفلت ۔۔۔محبوب پر بھروسہ کیا ہے۔)اور صنعت تضاد (غیر اور اپنا متضاد الفاظ ہیں۔) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

 

 

شعر نمبر 3:

شاعر عشق مجازی کے حامل اس شعر میں محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبوب سے گفتگو کے دوران جب خاموشی طاری ہوگئی یعنی رابطوں میں تعطل آگیا تو اس نے یہ گمان کیا کہ شاید میری داستان محبت یہیں  ختم ہو گئی ہے۔ اس خاموشی سے شاعر کی یہ حالت ہوگئی کہ کانوں میں اس کے محبوب  کی آوازیں گونجنے لگیں۔  ہر لمحہ اسے یہ محسوس ہوتا جیسے اسے اس کا محبوب پکار رہا ہے۔ کیونکہ ابھی تو داستانِ محبت کا ایک طویل حصہ باقی تھا ۔شاعر سے یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب اُس سے ہم کلام ہو اور وہ اسے اپنی داستان محبت سنائے۔

 

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام مجازِ مرسل  (کان بجتے ہیں ۔۔۔ ) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

 

 

شعر نمبر 4:

اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر فراق گورکھپوری مجنوں اور اور فرہاد کی محبت کے قصوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو عشق کو ایسے عاشقوں کا قصہ ہی سمجھتا رہا۔ حالانکہ یہاں تو پوری دنیا ہی ہیں محبت اور عشق کے جذبے کی وجہ سے درد و غم میں مبتلا ہے۔ جس کو دیکھو  وہی عشق و محبت کے عارضے میں مبتلا ہے اور اس کی وجہ سے تکالیف برداشت کر رہا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق سے کوئی انسان بچا ہوا نہیں ہے ۔ چاہے عشق مجازی ہو یا عشقِ حقیقی ہر شخص کسی نہ کسی عشق میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔شاید اسی وجہ سے ہی اس دنیا  میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے  کا مقابلہ جاری ہے۔
(اس شعر میں علم البیان کی اقسام استعارہ  (دنیا درد کی تصویر نکلی ۔۔۔۔)اور صنعت تلمیح (قیس اور کوہ کن۔۔۔ مجنوں اور فرہاد کی محبت کی داستانوں کی طرف اشارہ ہے۔) کا استعمال کیا گیا ہے۔
)

 

 

شعر نمبر 5:

عشق مجازی کے حامل اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہا ہوں۔  اپنے محبوب سے جدائی کی وجہ سے شاید مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے، لیکن جب میں ماحول پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ہر طرف ہی عشق میں ڈوبے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔  ہر دوسرا شخص عشقِ مجازی ہو یا  عشقِ حقیقی میں مبتلانظر آتا ہے۔ شاعر کے مطابق یہ  جذبہ عشق کی کارفرمائی ہے کہ اس  دنیا  میں کاروانِ حیات رواں دواں ہے۔

(اس شعر میں علم البیان کی اقسام مجازِ مرسل  (عشق مانوسِ جہاں ہوتا گیا۔۔۔۔ ) کا استعمال کیا گیا ہے۔)

 


پیر، 24 مئی، 2021

5 غزل نمبر : نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے شاعر: حسرت موہانی

 

غزل نمبر 5: نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے

شاعر: حسرت موہانی

سوال: حسرت موہانی کو "رئیس المتغزلین" کا خطاب کیوں ملا؟ حسرت موہانی کے انداز کلام کی چند خصوصیات تحریر کیجیے.

جواب:  حسرت کو  ان کے کلام کی درج ذیل خصوصیات کی بنا پر "رئیس المتغزلین" کہا جاتا ہے.

رومانوی انداز: حسرت کی غزلیات رومانیت سے بھر پور ہیں.

صوفیانہ انداز اور عشق حقیقی: حسرت کی غزلیں عشق حقیقی پر مشتمل ہیں. ان میں صوفیانہ اور اصلاحی انداز پایا جاتا ہے.

سادگی اور تسلسل: حسرت کو زبان پر بڑا عبور حاصل تھا. اپنے خیالات و جذبات کو نہایت سادہ انداز میں پیش کیا ہے.

انھوں نے غزل کو عشق حقیقی کا رنگ دے کر پاکیزگی عطا کی ہے جس کی وجہ سے انھیں "رئیس المتغزلین" کا خطاب ملا.

سوال : حسرت موہانی کی غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے یا عشق مجازی کی؟ مثال سے واضح کیجیے.

جواب:  حسرت موہانی کی غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے. جیسا کہ انھوں نے کہا ہے..

دلوں کو فکر دو عالم سے کر دیا آزاد....

اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عشق حقیقی ہی ہمیں فکر دو عالم سے آزاد کرتا ہے. کیونکہ اللہ کی محبت ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی دلاتی ہے.

اسی طرح شاعر کہتا ہے کہ

؂     غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش          وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

اس شعر میں بھی عشق حقیقی کا رنگ نمایاں ہے. شاعر لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ اگر غم جہاں سے نجات پانی ہے تو خدا سے دل لگاو. کیونکہ عشق مجازی تمھیں دونوں عالم کی فکروں سے آزاد نہیں کروا سکتا. اس لیے میرے خیال میں یہ غزل عشق حقیقی کی ترجمانی کرتی ہے.

تشریح غزل:

شعرنمبر 1: اپنی غزل کے مطلع میں حسؔرت موہانی خدا کی محبت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ سے سچی محبت کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر مہربان ہوتا ہے اور  اپنی نگاہ کرم ڈالتا ہے۔اور اس کی دلی مرادیں پوری کرتا ہے۔ ایسا شخص دنیا کا خوش قسمت ترین شخص ہے۔ اسے اپنی اچھی قسمت ہر ہمیشہ فخر کرنا چاہیے اور رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے۔۔۔ مراد دلی مُرادیں  جان لے(

شعر نمبر 2: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سے  میں نے اللہ  سے  دل لگایا ہے تب سے دونو ں جہانوں کی تمام فکروں سے آزادی مل گئی ہے۔  مجھے نہ اس دنیا میں کوئی فکر ہے اور آخرت میں بھی خدا سے محبت  کی وجہ سے کوئی  پریشانی نہیں ہوگی۔  کیونکہ تو میرا سچا محبوب بن گیا ہے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (جنوں کا سلسلہ خدا دراز کرے۔۔۔ مراد یہ عشقِ حقیقی  کا تعلق ہمیشہ جاری رہے(

شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیرے  حُسن کا جلوہ بہت  جادوئی ہے۔ جب کوئی دنیا دار دیوانہ دیکھتا ہے تو اسے عقل آجاتی ہے اور  جب  صاحبِ فہم و فراست تجھے پہچانتا ہے تو وہ تیرے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دراصل حقیقی دانائی عشق حقیقی   کی دیوانگی ہے۔اللہ کو پہچاننا ہے اورصرف  اُسی  سے دل لگانا ہے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت تضاد    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (خِرَد۔ اور ۔جنوں۔ دو متضاد الفاظ ہیں(

شعر نمبر 4: اپنی غزل کے اس شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  عشقِ حقیقی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری ہر آزمائش مجھے قبول ہے اور میں اس پر ہمیشہ  راضی رہوں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کسی پر اس کی استطاعت   / طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ مجھے ہر ابتلا پر خوشی ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھے یاد تو  رکھتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ  مجھ سے راضی ہو اور مجھے اپنے  نیک لوگوں میں شمار کر لے۔

 

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (شاملِ اربابِ امتیاز کرے۔۔۔۔  مراد  راضی ہو جائے(

شعر نمبر 5: : اپنی غزل کے آخری  شعر میں  شاعر حسرؔت موہانی  دنیا کو نصیحت کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ جو لوگ دنیا کی فکروں سے آزادی اور چھٹکارہ چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ  اللہ سے  دل لگائیں۔ کیونکہ عشق مجازی تمھیں دونوں عالم کی فکروں سے آزاد نہیں کروا سکتا۔   ایک وہی ذات ہے جو حاجت روا  اور مشکل کُشا ہے۔

؂           حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر     کر بیاں سب حاجتیں حاجت رَوا کے سامنے

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں کنایہ    کا استعمال کیا گیا ہے۔  (ان کے دردِ محبت سے ساز باز  کرے۔۔۔۔  مراد   ۔۔۔ اللہ کی ذات سے دل لگائے(


4 غزل نمبر: ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا شاعر : بہادر شاہ ظفرؔ

 

غزل نمبر 4:  ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا           

شاعر : بہادر شاہ ظفرؔ

بہادر شاہ ظفر  کے انداز بیان کی چند خصوصیات:

سوز و گداز: بہادر شاہ ظفر نے اپنے کلام میں اپنی زندگی کے رنج و الم کو بیان کرتے ہوئے دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کیا ہے. اس لیے اس کے کلام میں سوز و گداز پایا جاتا ہے.

سادہ زبان و بیان: بہادر شاہ ظفر نے اپنی شاعری میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے. اس لیے اس کے کلام میں جوش کی بجائے دھیما پن نمایاں نظر آتا ہے.

تشبیہات و استعا رات کا استعمال:  ظفر کو تشبیہات اور استعارات کے استعمال میں  کمال مہارت حاصل تھی. الفاظ اور تراکیب کی خوبصورتی نے ان کے کلام کو پر اثر بنایا ہے.

تشریح غزل:

شعر نمبر 1:اپنی غزل کے اس مطلع میں شاعر بہادر شاہ ظفر ؔ اپنی زندگی کے غموں اور دنیا کی  بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب سے وہ اس دنیا میں آیا ہے اس نے کبھی سُکھ کا سانس نہیں لیا۔ ساری زندگی مصیبتوں کو جھیلتے گزر گئی ہے۔  وہ  اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس دنیا کی  زندگی کی کوئی حقیقت نہیں، سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔  اس کے پاس اقتدار تھا ، طاقت تھی لیکن یہ سب  تھوڑے عرصہ تک اس کے پاس رہا۔ شاعر کو  یہ باتیں اب خواب لگتی ہیں۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت  تشبیہ کا استعمال کیا گیا ہے۔( جو دیکھا  سو خواب سا دیکھا)

شعر نمبر 2:  اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  انسان کا خمیر اگرچہ مٹی سے بنا ہے لیکن  اس کی  زندگی پانی کے بلبلے  کی طرح ہے۔  پانی کا بلبلا بھی چند لمحوں تک باقی رہتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نشان بھی باقی  نہیں رہتا۔ اس دنیا کی حقیقت ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔  انسان اس دنیا میں بہت مختصر وقت کیلیے آیا ہے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں استعارہ  کا استعمال کیا گیا ہے۔( پانی کا بلبلا۔۔۔ انسان کو  اس کی کمزوری کی وجہ سے کہا گیا ہے)

شعر نمبر 3: اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کی خوبصورتی بھی عارضی ہے۔ اگر کسی وجود کو  ہمیشہ رہنا ہے تو وہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس نے دنیا کی  بہت سی خوبصورت چیزیں یا وجود دیکھے ہیں لیکن جو شان و شوکت اور حُسن خدا کی ہے وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔( خوباں ۔۔۔  تجھ سا نہ دوسرا دیکھا۔۔۔ اللہ کا وجود ظاہری طور پر نظر نہیں آتا۔(

شعر نمبر 4:  : اپنی غزل کے اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفرؔ  انسان کی کمزوری اور دنیا کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ انسان اپنی طاقت اور دولت پر بہت غرور کرتا  ہے ۔ لیکن اس کی حقیقت پانی کے ایک بلبلے کی طرح ہے۔  جس طرح بلبلہ چند لمحوں میں مٹ جاتا ہے اسی طرح انسان بھی کمزور ہے۔ اس کی زندگی بھی دائمی نہیں  ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی زندگی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت تجنیس   کا استعمال کیا گیا ہے۔(دم ۔۔۔  سانس/زندگی۔۔دم ۔۔ لمحہ)

شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس شعر میں بہادر شاہ ظفر اپنی زندگی کے دکھوں کو یاد کر رہا ہے.

اس شعر میں دو مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں...

ظفر کا خدا سے شکوے کا رنگ: اے خدا تیرے سامنے دنیا نے میرے ساتھ زیادتیاں کیں. ظلم و ستم کے اتنے پہاڑ ڈھائے کہ میں زندگی سے گزر گیا ہوں.

ظفر کا خدا کے شکر کا رنگ:  اے خدا جب سے میں نے تجھے پہچانا ہے اور تیری نظر مجھ پڑی ہے، میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہوا ہے.میں تیری سچی محبت میں زندگی کی بازی ہار گیا ہوں.

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔ (حدف ناوک قضا ۔ ... نظروں کے تیر دل کو چیر گئے...(

شعر نمبر 6: اپنی غزل کے اس شعر میں بہادر شاہ ظفر زندگی سے مایوسی اور عشق حقیقی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے خدا میں نے تیری رضا پانے کی کوشش میں ہوں.  اب یہی میرا مقصد حیات ہے. میری زندگی گزر گئی ہے لیکن میں تجھے راضی نہیں کر سکا.

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں صنعت کنایہ   کا استعمال کیا گیا ہے.. نہ ہوئے تیری خاک پا...  خاک میں ملا دیکھا ... بطور کنایہ استعمال ہوا ہے. یعنی تجھے راضی نہیں کر پائے.... اور دنیا سے گزر گیا ہے)

شعر نمبر 7: اپنی غزل کے اس مقطع میں ظفر کہتا ہے کہ دنیا میں سب نے میرے ساتھ بے وفائی کی ہے. شاعر دوسروں کو نصیحت کر رہا ہے کہ دنیا کی زندگی اور خوشیاں عارضی ہیں۔ کوئی چیز بھی باقی نہیں رہے گی، اگر کوئی ہمیشہ رہے  گا تو وہ خدا کی ذات ہے۔  اس لیے اس دنیا سے دل نہیں لگانا چاہیے۔

علم البدیع/علم البیان کی قسم:  اس شعر میں مجاز مرسل   کا استعمال کیا گیا ہے۔(نہ دیجیے کسی کو دل۔.. حقیقت میں دل کسی کو دیا نہیں جاسکتا)

3 غزل نمبر : حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں شاعر : مرزا اسد اللہ خان غالبؔ

 غزل نمبر 3: حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

        شاعر :  مرزا اسد اللہ خان غالبؔ

شاعر کے انداز کلام کی چند خصوصیات:

*: سوز و گداز: غالب نے زندگی میں عشق میں ناکامی کا منہ دیکھا، انکا کا زمانہ شورش سے بھرا ہوا تھا اس لیے ان کے کلام میں گہرا سوز و گداز پایا جاتا ہے.

*: تصوف و فلسفہ: غالب کو اردو کا پہلا فلسفی شاعر کہتے ہیں. انکی شاعری فکرو فلسفہ سے پر ہوتی ہے. انھوں نے اپنے کلام میں صوفیانہ مضامین کو بھی نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے.

*: بہترین تراکیب کا استعمال: غالب نے اپنی شاعری میں استعارات اور تراکیب کا کمال مہارت سے استعمال کیا ہے. انھوں نے مختلف تلمیحات کے ذریعے اپنی شاعری کو خوبصورت بنایا ہے...

تشریح غزل

شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس مطلع میں غالب ؔ اپنی زندگی کی داستانِ غم سناتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے ساری زندگی دکھوں   کا سامنا کیا ہے۔ مالی تنگدستی تھی،   عشق میں ناکامی   ہوئی، کوئی اولاد زندہ نہ رہی ۔   شعر و سخن  میں بھی اس کو وہ عزت و پذیرائی نصیب نہ ہوئی جو وہ چاہتا تھا۔   اس کے علاوہ اسے اپنے وطن دلّی کے اجڑنے کا بھی غم تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ  اسے سمجھ نہیں آتا  کہ  وہ  کس غم پر روئیں ۔ دل بھی زخمی ہے اور جگر بھی چھلنی  چھلنی ہو چکا ہے۔  وہ اپنا غم نوحہ کی صورت میں دوسروں  کو سناتے تھے، اب اگر اتنی  مالی  استطاعت ہو تو کسی نوحہ گر سے یہ کام کروائیں  جو ان کے نالے دوسروں کو بہتر انداز میں  سنا سکے۔

شعر  نمبر 2:  غالب ؔ اس شعر میں اپنے عشق میں نا کامی کا  ذکر  کرتے ہوئے  کہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے زیادہ توجہ میرے رقیب کو دیتا ہے،  اس لیے  میں نے جب  جب اپنے محبوب کو یاد کیا  تو مجھے رشک اور حسد  کا شکار ہونا پڑتا ہے۔  اسی حسد اور رشک کی وجہ سے میں نے اس کی گلیوں جانا چھوڑ دیا ہے۔ جب کہ میں اس سے ملنا بھی چاہتا ہوں اور اس کا  نام بھی کسی اور کے سامنے نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے  جب میں کسی سے اپنے محبوب  کا گھر معلوم کرنا چاہتا ہوں  تو پھر یہی کہہ دیتا ہوں کہ  مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں نے کدھر جانا ہے۔

شعر نمبر 3:  غالب اپنی غزل کے اس شعر میں کہتا ہے کہ   میرے رقیب نے اپنا گھر میرے محبوب کے  گھر کے سامنے بنا لیا ہے  اس لیے  اب میں جب بھی اپنے معشوق کی زیارت کیلیے جاتا ہوں تو رقیب کا گھر دیکھ کر جل جاتا ہوں ۔ یہ دکھ مجھ سے برداشت نہیں ہو پاتا اس لیے  میں چاہتا ہوں میری  یاداشت کھو جائے اور میں اپنے محبوب کے گھر کا راستہ ہی بھول جاؤں ۔ تاکہ بار بار مجھے  اپنے رقیب کا  سامنا نہ کرنا پڑے۔

شعر نمبر 4:  اس شعر میں غالبؔ کہتا ہے کہ یہ سیاسی انتشار کا دور آگیا ہے ہر طرف افرا تفری ہے۔ ساری قوم بکھر گئی ہے میرا شہر  دلّی اجڑ  گیا ہے۔  ساری قوم کسی ایسے  دیانت دار  رہبر و رہنما کی تلاش میں  ہے جو انھی سیدھے راستے پر لاسکے۔ جب بھی وہ کسی کو اپنے سے آگے چلتا دیکھتے ہیں تو وہ اسے اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں لیکن جب  کچھ عرصہ گزرتا ہے  اور اس کی حقیقت ان پر ظاہر ہوتی ہے تو وہ  اپنا  راستہ بدل لیتے ہیں۔  پھر سے نئے رہنما کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔  خدا کرے  اس قوم کو  ایک مخلص رہنما مل جائے۔

شعر نمبر 5: اپنی غزل کے اس  شعر میں غالؔب کہتا ہے کہ میں نے اپنے حقیقی محبوب کی خاطر خود کو بھلا  دیا ہے اور عشق میں ایسا ڈوبا ہوں کہ مدہوشی کے عالم میں  اُس کی گلیوں کا راستہ تک بھول بیٹھا ہوں۔ چونکہ میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اور وہ  میری رگوں میں بستا ہے اس لیے اب اس کو اپنے دل میں  تلاش کروں گا۔

شعر نمبر 6:  اس شعر میں غالبؔ نے دہلی کے اجڑنے پر دکھ  کا اظہار کرتے ہو کہا ہے کہ انگریزوں کے تسلط میں آئی قوم کے  درد اور انکی بربادی کی تصویر مجھ سے زیادہ کوئی اور اچھے انداز میں نہیں بیان کرسکتا ۔  کیونکہ اس زمانے کے لوگوں اور انکی دنیا داری کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں دہلی کا نمائندہ شاعر ہوں۔  میری شاعری   اِس وقت  کی آواز  اور قوم کانمائندہ بنے گی۔

شعر نمبر 7:  اپنی غزل کے مقطع میں  غالؔب اپنی دلی خواہش کا اظہار  کرتے ہوئے کہتا ہے کہ  وہ مرنے کے بعد  حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی زیارت کرناچاہتا ہے۔ جس شان اور بہادری سے  حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے کئی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے تھے کاش کہ ایک بار پھر  اسی انداز سے وہ آئے اور  مغلیہ  شاہی انگریزوں سے واپس لے۔ دراصل غالبؔ چاہتا ہے کہ  اس  اجڑی قوم کو قوم کو  ان جیسا  بہادر اور شان و شوکت والا عظیم رہنما میسر آ جائے۔

2 غزل نمبر : تصور سے کسی کے میں نے گفتگو کی ہے برسوں شاعر : خواجہ حیدر علی آتشؔ

 

غزل نمبر 2: تصور  سے کسی کے میں نے گفتگو کی ہے برسوں

 شاعر : خواجہ حیدر علی آتشؔ    

 سوال: خواجہ حیدر علی آتشؔ    کے اندازِ بیان کی چند خصوصیات تحریر کیجیے ۔

بلند خیالی اور جدت: 

آتشؔ کے کلام میں بلند خیالی اور مضامین کا تنوع پایا جاتا ہے۔ انکا کلام بہت جامع ہے۔ انکی غزلیات میں تہہ دار معانی والے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ انکے کلام میں بے قراری ، اضطراب، اور تڑپ پائی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں زندگی کی علامت ہیں۔


تصوف/صوفیانہ انداز: 

درویشی اور قلندری انکی فطرت میں شامل تھی۔ اسلیے ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے۔ان کی شاعری بنیادی طور پر لکھنو شعرا ء کی رنگین مزاجیوں سے مختلف ہے۔ 


لفظی صنعت گری/تشبیہات و استعارات کا استعمال:

 انھوں نے اپنے کلام میں تشبیہات اور استعارات کا استعمال کیا ہے ۔لیکن انکا کمال یہ ہے کہ انھوں نے لفظی صنعت گری کے باوجود شعر کے حُسن اور تاثیر کو بدستور قائم رکھا ہے۔


سوال:  خواجہ حیدر علی آتشؔ کو لکھنو کے دبستانِ  شاعری کا نمائندہ کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب: آتش کو لکھنو کے دبستانِ  شاعری کا نمائندہ  اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ:

 خواجہ حیدر علی آتش لکھنؤ کے دبستان شاعری سے وابستہ تھے، جو زبان کی نزاکت اور آداب پر زور دیتا تھا۔

 ان کی شاعری میں لکھنؤ کے تہذیبی اور ادبی رنگ کی جھلک نظر آتی ہے، جس میں محاورات اور روزمرہ کا خوبصورت استعمال ہوتا ہے۔

 آتش نے لکھنؤ کے دبستان کی روایات کو اپناتے ہوئے سادہ اور فصیح زبان میں شعر کہے، جو ہر طبقے کے لیے قابلِ فہم تھے۔

 ان کی شاعری میں زورِ بیان، تشبیہات، اور استعارات کا استعمال نمایاں ہے، جو لکھنؤ کے دبستان کی خصوصیات میں سے ہیں۔

 انہوں نے اپنے کلام میں لکھنؤ کی معاشرت، رسم و رواج اور مقامی زبان کو خوبصورتی سے پیش کیا، جس کی وجہ سے انہیں لکھنؤ کے دبستان کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔


سوال: خواجہ حیدرعلی آتش کی غزل کی تشریح تحریر کیجیے.

جواب:

تشریح شعر نمبر 1: اپنی غزل کے اس مطلع میں شاعر خواجہ حیدر علی آتش ؔ نے  اپنے   تصوراتی محبوب کی بے رُخی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تو اپنے محبوب پر جان چھڑکتا ہوں مگر محبوب مجھ سے خفا  ہے اور بےوفائی کا رویہ رکھتا ہے۔ دراصل  شاعر کی محبت یکطرفہ ہے۔ شاعر کہتا ہے میرا دل اتنا مضبوط نہیں کہ اس کے سامنے جاکر اپنی محبت کا اظہار کر سکوں اور نہ وہ  مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ اس سے میں ہمکلام ہوں۔ اس لیے میں نے اپنے دل میں اپنے محبوب کی ایک خیالی تصویر سی بنا رکھی ہے اور عرصہ ہو گیا ہے میں اسی تصویر سے باتیں کرتا رہتا ہوں  اور گلے شکوے  کرتا رہتا ہوں۔

جیسا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔

تیرا  درد  دل میں بسا لیا تجھے اپنا ہم نہ بنا سکے

رہیں  دل ہی دل میں حسرتیں  تجھے حالِ دل نہ سنا سکے

شعر نمبر 2:  اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنی زندگی کے غموں  اور دکھوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک روز میں باغ کی سیر کرنے  گیا تھا ، وہاں غلطی سے اپنے دکھوں کو  یاد کر کے   آہ و زاری  کی تو بُلبل بھی سُن کر آبدیدہ ہو گئی۔   میرے نالے میں اس قدر تاثیر تھی کہ بُلبل  بہت  غمگین ہوگئی ،  جب پھول نے کہا کہ گیت گاؤ تو اس نے  گلے کی خرابی کا بہانہ کر دیا، اسی غم میں اُس  نے بھی محبت ترک کر دی ہے۔   شاعر  افسوس کا اظہار کرتا ہے  کہ  کاش میں  اپنے  مصائب کا ذکر یہاں  باغ میں نہ کرتا کیونکہ جب سے بلبل نے   میری درد بھری  داستان  سنی ہے اس نے گانا ہی  چھوڑ دیا ہے۔ ہر بار اپنے محبوب پھول کے سامنے  گلے کی خرابی کا بہانہ کرکے اُڑ جاتی ہے۔ جبکہ پُھول سے اس کی  محبت اور تعلق برسوں پرانا ہے۔

شعر نمبر 3:  اس شعر میں آتشؔ  کہتا ہے کہ ساری زندگی میں نے اپنے محبوب سے عشق کیا ہے اور کبھی اپنے دل سے اُس کی محبت کم نہیں ہونے دی۔  موت بھی میرے اس لگاؤ کو کم نہیں کر سکے گی۔ اگر میں مر گیا تو اے میرے محبوب تجھے پانے کی آرزو  اور تمنا   زندہ رہے گی۔  میری روح  تیری یاد میں تڑپے گی اور میری قبر سے  صرف ایک ہی خواہش جھلکے گی کہ کاش میں اپنے محبوب کو پا لوں۔ لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں ، ہیر رانجھے اور شیریں فرہاد کی طرح میری محبت ہمیشہ قائم رہے گی۔

شعر نمبر 4:   آتش ؔ  اس شعر  میں اپنے  غموں اور دکھوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے  جب محبت   میں دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا  اور عشق کی راہ میں کانٹے پار کرنے پڑے  تب جاکر کہیں محبوب کو پایا۔ لیکن جب  اس  نے بے وفائی  کی  پھر میں نے سارے جہاں کو چھوڑ دیا  اور دنیا سے لاتعلق ہو گیا۔ سکون کی تلاش کرتے کرتے بالآخر شراب  نوشی کا سہارا لیا۔ اب عرصہ ہوا دنیا کے غمو ں سے دور رہنے کیلیے شراب پی کر شراب کامٹکا   ساتھ رکھ لیتا ہوں  اور  ہاتھ   کا سرہانہ بنا کر سو جاتا ہوں۔ اس طرح زندگی گزر رہی ہے۔

شعر نمبر 5:  اس شعر میں آتش ؔ اپنے محبوب کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب نہیں جانتا   کہ میں کتنا حسّاس ہوں۔ اتنا نازک طبیعت ہوں کہ اگر اس نے  وفا کا تعلق نہ رکھا تو  یہ میری طبیعت کیلیے  ظلم عظیم ہے ۔ میں اس ظلم کو برداشت نہیں کر پاؤں گا اور  مر جاؤں گا۔  لیکن میری موت پر میرے محبوب کو بھی سکون  نہیں آئے گا۔ وہ ہمیشہ بے چین رہے گا کہ اس نے مجھ سے بے رُخی برتی ہے   اور  ناحق خون کیا ہے۔  جبکہ صرف  میں ہی ہوں جو اس پرجان چھڑکتا ہوں۔

شعر نمبر 6:  آتش ؔ اپنی غزل کے اس  شعر میں اپنی محبت میں ناکامی اور محبوب کی  بے رخی  کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میری عمر بیت گئی ہے۔  جوانی ختم ہو گئی۔ ہماری محبت پر ہمیشہ خزاں چھائی  رہی اور میں نے کبھی بہار کا منہ نہیں دیکھا۔ میں نے اس محبت کی راہ میں بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور دشوار گزار گھاٹیوں  سے گزرا ہوں، پر مجھے اپنا پیار نہیں مل سکا۔ لیکن  ابھی بھی میرا جنوں اور عشق قائم ہے، میں تھک ہار کر بیٹھنے والا  نہیں۔  اپنی محبت کو کم نہیں ہونے دوں گا  بلکہ  اگر اس راہ میں  مزید چوٹیں آئیں تو انھیں بھی خندہ پیشانی سے قبول کروں گا۔

شعر نمبر7:  اپنی غزل کے اس شعر  میں آتشؔ   اپنے تصوراتی محبوب  کے بارے میں کہتا ہے کہ  سالوں  اپنے پیار کو تلاش کرتے بیت گئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اسکی  محبت میرے نصیب میں نہ لکھی تھی۔  میں نے اپنے  حقیقی محبوب  کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے  قریہ قریہ ، بستی بستی ، کونہ کونہ  چھان مارا ہے لیکن ایک دن بھی اس کی زیارت نہیں ہوئی۔  شاعر کے مطابق اس نے  اپنے  سچے پیار کو پانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

شعر نمبر 8:  آتشؔ اپنی غزل کے اس شعر میں  محبت میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کر رہا ہے۔   شاعر کہتا ہے کہ اپنے حقیقی محبوب  کی تلاش میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا ، ہر جگہ ڈھونڈا ہے پر وہ مجھے نہیں ملا ہے۔ اب  میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس محبوب کو اپنے دل میں تلاش کروں گا۔ کیونکہ ساری دنیا میں اگر کہیں نہیں  ملا ہے تو کوئی بات نہیں اس کا گھر میرے دل میں ہے، وہ  وہاں تو ضرور رہتا ہے۔میں ہمیشہ اسے اپنے دل میں بسائے رکھوں گا۔

شعر نمبر 9:  اپنی غزل کے اس شعر میں آتشؔ اپنے حقیقی   عشق کے بارے میں کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب سے ہمیشہ پیار کرتا تھا، کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔  اگر میں مر بھی گیا تو خاک میں مل  کرمٹی مٹی  ہو جانے کے باوجود  میرے دل سے  اسکی محبت کم نہ ہوگی۔ کیونکہ محبت ایک لافانی جذبہ ہے یہ مرنے سے بھی نہیں ختم ہوتا۔  مرنے کے بعد بھی میری روح اس کے پیار میں تڑپتی رہے گی اور ہوا کا بگولا بن کر  دنیا میں گھومتی رہے گی اور  اپنے حقیقی محبوب کی تلاش  کرتی رہے گی۔