نظم " شکوہ " شاعر علامہ اقباؔل
(جماعت
ہشتم کی اردو کی کتاب "کنول" میں شامل صرف چار بندوں کی تشریح)
حوالہ: یہ بند علامہ اقبال کی مشہور نظم "شکوہ" سے لیا گیا ہے۔( مجموعہ کلام بانگِ درا ہے۔) یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔ اقبال نےنظم شکوہ میں مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہے۔
تشریح بند نمبر 1:
نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال اللہ سے شکایت کر
رہا ہے۔ اس میں وہ مسلمانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے خیالات کو پیش کرتے ہوئے کہتا
ہے کہ اے اللہ میں ایسا انسان نہیں بننا چاہتا جو کہ اپنے فائدے سے غافل ہو اور
اپنا نقصان خود کرے۔ نہ ہی مجھے ایسا بننا ہے جس سے مستقبل کی کوئی پرواہ
نہ ہو اور وہ یاد ماضی میں کھویا رہے اور اپنے
آباء و اجداد کے قصوں کو یاد کر کے روتا رہے۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں جو بے حس
نہیں ہے۔ جیسا کہ پھول بلبل کی آہ و زاری سن کر خاموش رہتا ہے مجھے معاشرے کے حالات
کا دکھ ہے اور احساس بھی ہے۔ میں مسلمانوں کی بے چینی اور گھبراہٹ پر خاموش نہیں رہ
سکتا۔ اے اللہ میری اس شکایت کو گستاخی نہ سمجھنا یہ شکوہ کے چند الفاظ اس لیے کہنے
کی جرات کی ہے کیونکہ تو نے مجھے بولنے کی قوت عطا کی ہے۔ ورنہ میرے منہ میں خاک ہو کہ اپنے رب کے سامنے کوئی
گلہ یا شکوہ کروں۔
تشریح بند نمبر 2:
تشریح بند نمبر 3:
تشریح بند نمبر 4:
نظم شکوہ کے اس بند
میں شاعر علامہ اقبال مسلمانوں کی آواز بنتے ہوئے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
اے اللہ! اس دنیا میں بہت سی قومیں آباد ہیں۔ ان میں کئی لوگ ہیں جو گناہوں میں ڈوبے
ہوئے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔لیکن بہت سے ان میں ایسے بھی ہیں جو
عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنی مستی میں مست رہتے ہیں ۔کچھ ایسے ہیں جو بہت سست ہیں اور اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں بعض بہت چالاک ،ہوشیار
اور ذہین ہیں ۔اے اللہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تجھے بھلا دیا ہے اور وہ تیرا
نام لینا پسند نہیں کرتے کئی مسلمان ایسے ہیں جن کے دل ودماغ میں میں یہ بات بیٹھ گئی
ہے کہ ہم تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر
ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں
اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بیچارے مسلمان
تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ
کیوں ہورہا ہے؟
تفہیمی سوالات:
1:اقبال کی مشہورِ زمانہ نظم "شکوہ" کی توجیہ بیان کریں۔(اس نظم میں اقبال اللہ سےکس بات کی شکایت کررہا ہے؟ اور کیوں کر رہا ہے؟)
جواب: یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔ نظم شکوہ میں اقبال نے مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہےکہ ہم مسلمان تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بےچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟