اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

ہفتہ، 18 دسمبر، 2021

نظم شکوہ تشریح کلاس 8 اردو کنول

نظم " شکوہ "      شاعر علامہ اقباؔل

(جماعت ہشتم کی اردو کی کتاب  "کنول"    میں شامل صرف چار بندوں کی تشریح)

حوالہ:  یہ بند علامہ اقبال کی مشہور نظم "شکوہ" سے لیا گیا ہے۔( مجموعہ کلام بانگِ درا ہے۔) یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔  اقبال نےنظم شکوہ میں مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہے۔

تشریح  بند نمبر 1:

نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال  اللہ سے شکایت کر رہا ہے۔ اس میں وہ مسلمانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے خیالات کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ میں ایسا انسان نہیں بننا چاہتا جو کہ اپنے فائدے سے غافل ہو اور اپنا نقصان خود کرے۔ نہ ہی مجھے ایسا بننا ہے جس سے مستقبل کی کوئی پرواہ نہ ہو  اور وہ یاد ماضی میں کھویا رہے اور اپنے آباء و اجداد کے قصوں کو یاد کر کے روتا رہے۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں جو بے حس نہیں ہے۔ جیسا کہ پھول بلبل کی آہ و زاری سن کر خاموش رہتا ہے مجھے معاشرے کے حالات کا دکھ ہے اور احساس بھی ہے۔ میں مسلمانوں کی بے چینی اور گھبراہٹ پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ اے اللہ میری اس شکایت کو گستاخی نہ سمجھنا یہ شکوہ کے چند الفاظ اس لیے کہنے کی جرات کی ہے کیونکہ تو نے مجھے بولنے کی قوت عطا کی ہے۔  ورنہ میرے منہ میں خاک ہو کہ اپنے رب کے سامنے کوئی گلہ یا شکوہ کروں۔

تشریح  بند نمبر 2:

 نظم شکوہ کے اس بند میں اقبؔال نے اللہ کے حضور شکایت کے انداز میں مسلمانوں کے آباؤ اجداد کے  کارنامے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنحضور صلی علیہ وسلم کی دنیا میں آمد سے پہلے عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ لوگ طرح طرح کی برائیوں میں گھرے ہوئے تھے ۔ شرک اور بت پرستی عام تھی۔ کوئی پتھروں کو سجدہ کرتا تھا تو کوئی درختوں کو اپنا خدا مانتا تھا ۔ اس زمانے میں انسان صرف ایسے ظاہری  وجود کو خدا ماننے کے لیے تیار ہوتا تھا جسے وہ اپنے حواس  سے محسوس کر سکے۔ ایسی صورت حال میں ایک ایسے خدا کو ماننا یا اس کا تصور کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا جو ہر جگہ موجود ہو لیکن دکھائی نہ دے۔ ہر شے پر قادر ہو  لیکن سامنے نہ آئے۔ ایسے خدائے واحد پر ایمان یقین پیدا کرنا بہت مشکل کام تھا۔ لوگ کئی خداؤں کی پوجا کرنے کی عادی ہو چکے تھے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ! اس وقت یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے اپنے زورِ بازو سے   اور ہمت  کے بل بوتے پر اپنی جان مال وقت اور عزت کو قربان کرتے ہوئے تیری تبلیغ کو دنیا میں پھیلایا۔ نہ صرف تجھ پر سچے دل سے ایمان لائے بلکہ ہر طرف  تیری توحید کا عَلم لہرایا۔

تشریح  بند نمبر 3:

 نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال نےمسلمانوں کے اُس سنہری دور کا ذکر کیا ہے جب مسلمان دین پر عمل پیرا تھے۔ اسلامی ترقی کا دور دورہ تھا ۔ مسلمانوں کی سلطنت اسپین اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے علم و ہنر کے ہر میدان میں بے انتہا ترقی کر لی تھی۔ اسی دور میں جب مسلمان فتوحات پر فتوحات کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ساتھ غرور و تکبر سے بہت دور اور اسلام کے بتائے ہوئے  "اخوت ومساوات" کے اصول پر سختی سے کاربند بھی تھے۔جنگوں میں لڑائی کے دوران جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو پابندی نماز باجماعت کی عادت کی وجہ سے وہ صف بندی کرتے ہوئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے۔  حکمران، امیر وغریب کا فرق ختم کرکے سب دنیاوی عہدے اور مناصب کو بھلا کر ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔ مساوات کا عملی نمونہ دیکھنے والوں کو یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کون امیر ہے کون غریب ہے کون مالک ہے اور کون غلام ہے۔ یہ ایسا مثالی منظر تھا جو اس سے پہلے کبھی کسی مذہب یا قوم میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

تشریح  بند نمبر 4:

نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال مسلمانوں کی آواز بنتے ہوئے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ! اس دنیا میں بہت سی قومیں آباد ہیں۔ ان میں کئی لوگ ہیں جو گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔لیکن بہت سے ان میں ایسے بھی ہیں جو عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنی مستی میں مست رہتے ہیں  ۔کچھ  ایسے ہیں جو بہت سست ہیں اور اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں بعض بہت چالاک ،ہوشیار اور ذہین ہیں ۔اے اللہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تجھے بھلا دیا ہے اور وہ تیرا نام لینا پسند نہیں کرتے کئی مسلمان ایسے ہیں جن کے دل ودماغ میں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے  کہ ہم تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بیچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟

تفہیمی سوالات:

1:اقبال کی مشہورِ زمانہ  نظم "شکوہ" کی توجیہ بیان کریں۔(اس نظم میں اقبال اللہ سےکس بات کی شکایت کررہا ہے؟ اور کیوں کر رہا ہے؟)

جواب:  یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔ نظم شکوہ میں اقبال نے مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہےکہ ہم مسلمان تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بےچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔