اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ۔۔۔ .....📢🪂🏇🧗🤾..... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

بدھ، 30 جولائی، 2025

بعنوان "بریانی پہ مر مٹے" کلام محب احمد

 نظم بعنوان 

 "بریانی پہ مر مٹے"


جس نے کیا ایجاد، اس باورچی آنجہانی پہ مر مٹے!

دیکھتے ہی بھری پلیٹ، سب بریانی پہ مر مٹے!


اس پوری کائنات میں، چاول ہیں کائنات

ہائے اس کی خوشبو، سہانی پہ مر مٹے!


اماں نے دم لگایا، اٹھی جو مہک  خاص،

خوشبو میں ایسا کھو ئے، کہ بریانی پہ مر مٹے!


سات پکوانوں کے درمیاں، اک چیز تھی جدا،

تیزی سے آگے بڑھ کے ہم، بریانی پہ مر مٹے!


آیا جب تھال سامنے، روح کانپنے لگی،

پکڑی پلیٹ ہاتھ میں، بریانی پہ مر مٹے!


بوٹیوں کی تہ لگی تھی، مصالحوں کی تھی بھر مار

ہر دانے میں رچی ہوئی، نکہت زعفرانی پہ مر مٹے!


پوچھا جو میزباں نے، آپ کو کیسا لگا طعام؟

ہم بول اٹھے مسکرا کے، "آپ کی بریانی پہ مر مٹے!"


جس گھر میں یہ پکی ہو، ہمسائے بھی ہوں پریشاں

بچے بھی گلی کے سارے، بریانی پہ مر مٹے!


رشتہ ہوا کیسے طے؟ کیسے کی گئی تھی ہاں؟

سن کے عشق کی اک سچی، کہانی پہ مر مٹے!


دیکھا نہ روپ اس کا،  دیکھے نہ نقش و نین

ماموں تو ان کے ہاتھ کی، بریانی پہ مر مٹے!


خیالوں میں پکے پلاؤ  کا،  بھی انداز ہے جدا

بکرے بھی سر کٹا کے, بریانی پہ مر مٹے!


ووٹ کسے دینا ہے؟ کس پارٹی کا منشور ہے پسند؟

اس بار بھی ووٹرز انتخاب میں، بریانی پہ مر مٹے!


عیدیں، بقر عیدیں، یا ہو سالگرہ کی شام،

اٹھی جو دیگ گرم،  سب بریانی پہ مر مٹے!


کراچی، حیدرآبادی، پشاوری، سٹوڈنٹ یا ہو خان

چکن ہو یا مٹن ، لوگ تو بس بریانی پہ مر مٹے!


دھوکے بھی کھائے ہم نے اور سہے کئی ستم،

پھر بھی رہے وفا پر، بریانی پہ مر مٹے!


محب! میدان عشق میں، کیا کیا نہ ہم سہے،

آخر میں سچ یہی کہ, بریانی پہ مر مٹے!


کلام:  محب احمد

فرسٹ ائیر


بدھ، 9 جولائی، 2025

غزل: ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں، ہمیں رہنے دو کلام: مظفر احمد ظفر

غزل: ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں، ہمیں رہنے دو کلام: مظفر احمد ظفر

غزل: ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں، ہمیں رہنے دو

کلام: مظفر احمد ظفر

ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں، ہمیں رہنے دو

جو ہم سے پیچھے رہ گئے، انھیں رہنے دو

تمہاری یاد کے سائے میں ہم جی لیں گے

تم آئے نہیں اب تک، تو پھر اب رہنے دو

ہم اپنے درد سے خوب آشنا ہیں اب تو

نصیب کا قصہ نہ چھیڑو، رہنے دو

یہ ٹوٹا دل سنبھل جائے گا آخر اک دن

مرہم کے نام پر نمک مت لگاؤ، رہنے دو

امید کے سہارے بہت دن جی چکے ہم

اب نئے وعدے، نیا سہارا، رہنے دو

جو بات لب پہ آ کے رُک جائے، بہتر ہے

خاموشیوں میں جو چھپا ہے، رہنے دو

ظفر! جگر کی حالت پہ دنیا ہنستی ہے

کسی سے اپنا فسانہ مت کہو، رہنے دو

 


دل ہے اُسی کے پاس ہیں سانسیں اسی کے پاس

دیکھا اُسے تو رہ گئیں آنکھیں اُسی کے پاس


ہم نے اپنے سب خواب اُسی کو دیے ہیں سونپ

اب ہیں ہماری راتیں اور نیندیں اسی کے 

پاس


ہفتہ، 5 جولائی، 2025

مکمل اردو حروفِ تہجی پر مشتمل ایک جملہ

 اردو زبان میں ایسا جملہ جس میں تمام حروفِ تہجی (ا سے ے تک) شامل ہوں، "حروفِ تہجی کا جملہ" کہلاتا ہے، اور اسے "پینگرام" (Pangram) بھی کہا جاتا ہے۔

مکمل اردو حروفِ تہجی پر مشتمل ایک جملہ:

"ایک روز صادق نامی ذہین مگر ضعیف حکیم جنگل سے مفید جڑی بوٹیاں اور ثمر اکٹھے کرتے ہوئے ظالم اور خطرناک اژدھے کے شور کے ڈر سے قریبی غار میں چھپ گیا۔"


 اس جملے کے خالق کا نام: مظفر احمد ظفر