نظم بعنوان
"بریانی پہ مر مٹے"
جس نے کیا ایجاد، اس باورچی آنجہانی پہ مر مٹے!
دیکھتے ہی بھری پلیٹ، سب بریانی پہ مر مٹے!
اس پوری کائنات میں، چاول ہیں کائنات
ہائے اس کی خوشبو، سہانی پہ مر مٹے!
اماں نے دم لگایا، اٹھی جو مہک خاص،
خوشبو میں ایسا کھو ئے، کہ بریانی پہ مر مٹے!
سات پکوانوں کے درمیاں، اک چیز تھی جدا،
تیزی سے آگے بڑھ کے ہم، بریانی پہ مر مٹے!
آیا جب تھال سامنے، روح کانپنے لگی،
پکڑی پلیٹ ہاتھ میں، بریانی پہ مر مٹے!
بوٹیوں کی تہ لگی تھی، مصالحوں کی تھی بھر مار
ہر دانے میں رچی ہوئی، نکہت زعفرانی پہ مر مٹے!
پوچھا جو میزباں نے، آپ کو کیسا لگا طعام؟
ہم بول اٹھے مسکرا کے، "آپ کی بریانی پہ مر مٹے!"
جس گھر میں یہ پکی ہو، ہمسائے بھی ہوں پریشاں
بچے بھی گلی کے سارے، بریانی پہ مر مٹے!
رشتہ ہوا کیسے طے؟ کیسے کی گئی تھی ہاں؟
سن کے عشق کی اک سچی، کہانی پہ مر مٹے!
دیکھا نہ روپ اس کا، دیکھے نہ نقش و نین
ماموں تو ان کے ہاتھ کی، بریانی پہ مر مٹے!
خیالوں میں پکے پلاؤ کا، بھی انداز ہے جدا
بکرے بھی سر کٹا کے, بریانی پہ مر مٹے!
ووٹ کسے دینا ہے؟ کس پارٹی کا منشور ہے پسند؟
اس بار بھی ووٹرز انتخاب میں، بریانی پہ مر مٹے!
عیدیں، بقر عیدیں، یا ہو سالگرہ کی شام،
اٹھی جو دیگ گرم، سب بریانی پہ مر مٹے!
کراچی، حیدرآبادی، پشاوری، سٹوڈنٹ یا ہو خان
چکن ہو یا مٹن ، لوگ تو بس بریانی پہ مر مٹے!
دھوکے بھی کھائے ہم نے اور سہے کئی ستم،
پھر بھی رہے وفا پر، بریانی پہ مر مٹے!
محب! میدان عشق میں، کیا کیا نہ ہم سہے،
آخر میں سچ یہی کہ, بریانی پہ مر مٹے!
کلام: محب احمد
فرسٹ ائیر