نظم بعنوان:
خاموش کیوں ہو؟
کلام:
مظفر احمد ظفرؔ
کر کے لہجہ اپنا نرم بولتے ہیں
مگر الفاظ میں دم بولتے ہیں
حال دل اپنا ، ضرور سناتے مگر
غموں کو ہم اپنے، کم بولتے ہیں
جنہیں مطلب نہ ہو دل کی باتوں سے
ہم ایسے ہم سخن سے کم بولتے ہیں
لبوں پہ لگی ہے مہر ، لیکن دل ہے گویا
لفظوں کی بجائے، چشمِ نم بولتے ہیں
دو چار شعر کہہ کے جب، خاموش ہو گئے
وہ مسکرا کے بولے، آپ بہت کم بولتے ہیں
جہاں خاموشیاں لازم ہوں ظفرؔ
وہاں پہ صرف ، زخم بولتے ہیں