علم البیان /علم البدیع کی اصطلاحات
استعارہ، تشبیہ، تلمیح ،
کنایہ، مجازِ مرسل ، صنعت
تضاد ، صنعت تجنیس
1: استعارہ کی تعریف بیان کریں۔
استعارہ: استعارہ کے لغوی معنی ہیں ادھار لینا۔ استعارہ سے
مراد ہے کہ کسی چیز کو اسکی مشترکہ خوبی یا
خامی کی بنیاد پر ہو بہو دوسری چیز قرار دیا
جائے۔ مثلاً میرا بیٹا شیر ہے۔
شعری
اصطلاح میں استعارہ وہ صفت ہے جس کے تحت کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹ کر کسی
اور شے سے مشابہت کی وجہ سے اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیاجائے۔ مثال کے طور پر
یہ سنتے ہی تھرا گیا گلہ سارا
راعی نے للکار کر جب پکارا
اس شعر
میں راعی اپنے حقیقی معنوں سے ہٹ کر استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد حضوراکرم صلی اللہ
علیہ وسلم ہیں۔ اس طرح اس شعر میں استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔
ایک
اور مثال پیش ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے
اس شعر
کہ پہلے مصرعے میں استعارہ استعمال کیا گیا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ ؑ کے
لئے شیر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
2: تشبیہ کسے کہتے ہیں؟
تشبیہ: تشبیہ سے مراد ہے کہ دو مختلف چیزوں کو کسی مشترکہ
خوبی یا خامی کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مانند
قرار دیا جائے۔ مثلاً میرا بیٹا شیر کی طرح
بہادر ہے۔
ارکانِ
تشبیہ: اراکینِ تشبیہ درج ذیل ہیں۔
مشبّہ : جس شے یاشخص کوتشبیہ دی جائے اسے مشبّہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ مثال میں مشبہ بیٹا ہے۔
مشبّہ
بہ : جس شے یا شخص سے تشبیہ دی جائے
اسے مشبّہ بہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ مثال میں مشبہ
بہ شیر ہے۔
حرفِ
تشبیہ : جو حرف تشبیہ دینے کے لئے استعمال
ہوتا ہے وہ حرفِ تشبیہ کہلاتا ہیں۔ جیسا کہ مثال میں حرفِ تشبیہ کی طرح
ہے۔
وجہ
تشبیہ : جس وجہ یا صفت کی بناءپرتشبیہ
دی جائے اسے وجہ تشبیہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ مثال میں بہادری کی وجہ سے بیٹے کو شیر کہا
گیا ہے۔
ایک
اور مثال پیش ہے .
نازکی اس کی لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس شعر
میں شاعر محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھری سے تشبیہ دے رہا ہی۔ ارکان تشبیہ یہ ہیں۔
مشبّہ: محبوب کا لب‘ مشبّہ بہ: گلاب کی پنکھڑی‘ حرفِ
تشبیہ: کی سی‘ وجہ تشبیہ: نازکی اور گلابی رنگت۔
تشبیہ
اور استعارہ میں فرق:
تشبیہ
|
استعارہ
|
۱۔ تشبیہ حقیقی ہوتی ہے۔
|
استعارہ مجازی ہوتا ہے۔
|
۲۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر
ہوتا ہے۔
|
استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔
|
۳۔ تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک
چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے۔
|
جبکہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔
|
۴۔ تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں۔
|
استعارہ کے ارکان تین ہیں۔
|
۵۔ تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے۔
|
استعارہ اس علم کی ایک بلیغ صورت ہے۔
|
۶۔ تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے۔
|
استعارہ کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے۔
|
3: تلمیح
کی وضاحت کریں۔
تلمیح: تلمیح کے لغوی معنی ہیں اِشارہ کرنا۔
شعری اصطلاح میں تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی
تاریخی‘ سیاسی‘ اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کے استعمال سے
شعر کے معنوں میں وُسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ شعر کے بعد پورا واقعہ قاری
کے ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔
مثال
کے طور پر غالب کا ایک شعر ہے :
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آﺅ نا
ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
اس
شعر میں اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چڑھ
کر اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔اس خواہش کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے
تجلّی ظاہر کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اور کوہِ طور
جل کر سیاہ ہو گیا۔
4: کنایہ
کسے کہتے ہیں؟
کنایہ:
کنایہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اور اسکا معنی اشارہ کرنے کے ہیں۔کنایہ میں لفظ اپنے
مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اسکے حقیقی معنی کہا جاتا ہے۔کنایہ
علمِ بیان کی ایک اہم قسم ہے۔
میر صاحب زمانہ نازک
ہے
دونوں
ہاتھوں سے تھامیے
دستار
اس
شعر میں لفظ” دستار" اپنے
مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔لیکن حقیقی معنی بھی مراد لیے گئے ہیں۔
5:مجازِ مرسل کی
تعریف بیان کیجیے۔
مجازِ مرسل : مجازِ مرسل اصطلاح
میں یہ وہ لفظ ہے جو اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور
حقیقی مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو۔
مثلا
’’الحمد‘‘ پڑھنے سے مراد پوری سورۂ فاتحہ ہے۔ بادل برسنے سے مراد بارش ہے، دریا
بہنے سے مراد صرف پانی بہنا ہے وغیرہ۔
6: صنعت
تضاد کسے کہتے ہیں؟
صنعت
تضاد: صنعت تضاد شاعری میں اس صفت کو کہتے
ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد متضاد الفاظ استعمال کئے جائیں۔
مثال
:
خِرَد
کا نام جَنوں پڑ گیا جنوں کا خِرَد
جو چاہے
آپ کا حسن کرشمہ سازکرے
اس شعر میں" خِرَد "
اور" جَنوں" متضاد الفاظ ہیں اس لئے اس شعرمیں صنعت تضاد استعمال کی گئی
ہے۔
7: صنعت
تجنیس کی تعریف بیان کیجیے۔
صنعت
تجنیس: صنعت تجنیس شاعری میں اس صفت کو کہتے
ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے الفاظ استعمال
کئے جائیں۔ ان الفاظ کی املاء ایک جیسی ہو
جبکہ معنی مختلف ہوں۔
مثال :
ایک
دَم پر ہوا نہ باندھ حباب
دَم
کو دَم بھر یہاں ہوا دیکھا
اس
شعر میں" دَم " اور" دَم" ہم جنس الفاظ ہیں ، ایک "دَم" کا مطلب سانس یا زندگی ہے اور دوسرے "دَم" کا
مطلب لمحہ/وقت ہے۔