اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

بدھ، 18 جنوری، 2023

اردو مضمون نویسی، روداد اورتبصرہ نگاری کے چندنمونے

 

اردو مضامین، روداد اورتبصرہ نگاری کے چندنمونے

عنوان:                انسان  اشرف المخلوقات

خالق کائنات نے انسان کو کائنات میں وہ شرف و مقام بخشا ہے جو کسی اور کو نہ ملا ہے اور نہ ہی قیامت تک ملے گا۔ جانتے ہیں وہ شرف و مقام کیا ہے؟ جی ہاں! اشرف المخلوقات، افضل الملائک یعنی ساری مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے، ’’بے شک ہم نے اولاد آدم کو فضیلت دی اور ان کو خشکی اور سمندر کی سواریاں دیں اور ان کو طیب چیزوں سے رزق دیا اور ان کو ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل) اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے انسان کو تمام مخلوقات میں مکرم و مشرف و فضیلت والا ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی آیت کے ضمن میں انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

 

فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے

   میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

 

ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے انسان کو ایک ایسی خوبی و صفت عطا فرمائی ہے جو کسی اور مخلوق کو عطا نہ ہوئی۔ کائنات کی تمام مخلوقات میں سے ایک واحد انسان ہی ایسا ہے جس کو کائنات میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تخلیق کیا گیا ہے، اسے عقل و شعور سے نوازاگیا اور نیابت الہی کے منصب پر فائز کیاگیا۔اللہ تعالی نے انسان کو علم دیااور عقل و شعور عطا کرکے نیکی و بدی کے انتخاب کا اختیار دیا۔

 

        قرآن انسانوں کی عظمت پر بہت زور دیتا ہے چاہے ان کی جنس یا نسل ہو یا حیثیت۔قرآن پاک میں فرمانِ مبارکہ ہے کہ: ”ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے، انہیں خشکی اور سمندر میں نقل و حمل کی سہولت دی ہے، انہیں اچھی اور پاک چیزوں کی فراہمی کے لیے دی ہے، اور ان کو ہماری تخلیق کے ایک بڑے حصے کے اوپر خاص احسانات سے نوازا ہے۔

 

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت میں پیدا فرمایا انسان کی پیدائش میں ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی احسن تقویم ہے، جس کا ذکر اللہ نے تین قسموں کے بعد فرمایا۔ یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا.(1

 

عنوان:                 سائنسی ترقی رحمت یا زحمت؟

 

سائنسی ترقی کا یہ دور سہولتوں کے ساتھ ساتھ اپنے دامن میں شدید خطرات سمیٹے ہوئے ہے۔ ذرا سی لاپروائی  سے  اقوامِ عالم آپ کو پیس کر رکھ دیں گی۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر ہم ہوا میں اڑ تے اور دریاؤں کا رخ موڑڈالتے ہیں۔ ہم اپنے ہمسایہ سیاروں پہ جا اترتے اور خلا کے وسائل ٹٹولتے ہیں۔

بجلی اور اس کے بل پر چلنے والی سینکڑوں ایجادات کے بغیر زندگی کیا ہوتی ؟ انجن ، جو موٹر سائیکل سے لے کر خلائی جہاز تک میں نصب ہے اورجس نے فاصلہ مٹا دیا ہے۔ تار کی مدد سے ڈیٹا دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتقل ہوتا ہے۔ روایتی ٹیلی فون اور انٹرنیٹ جس کی مدد سے کام کرتے ہیں اور جس نے کرّہ ارض پہ بکھرے بنی نوع انسان کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے۔ زیرِ زمین کوئلے اور تیل جیسی مفید اشیا سے لے کر ایٹم سے توانائی کا اخراج۔ سیٹلائٹ ؟ موبائل فون ؟ عجیب بات یہ ہے کہ تقریبا ساری بڑی ایجادات پچھلی دو ڈھائی صدیوں ہی میں ہوئیں۔

دنیا بدل چکی ہے لیکن اگلے سو ڈیڑھ سو سال میں یہ ایک بار پھر بدل جائے گی۔ بحیثیت ایک قوم ہم اس کے لئے تیار نہیں۔۔۔ تیار ہونا پڑے گا۔ آنے والے دور کی ایجادات زیادہ سنسنی خیز ہیں۔

مئی 2005 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں بلو برین پراجیکٹ (Blue Brain Project) کا آغاز ہوا تھا۔اس کے تحت لیبارٹری میں سو ارب خلیات پر مشتمل مصنوعی انسانی دماغ تیار ہونا ہے۔ دنیا کے 135اداروں کے دماغی سائنسدان، ڈاکٹر، طبیعات دان ، ریاضی دان اور کمپیوٹر انجینئر ڈاکٹر ہنری مارکرم کی سربراہی میں سر جوڑے بیٹھے ہیں۔متوازی طور پر چوہے کا دماغ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔یہ انسانی دماغ سے ہزار گنا سادہ ہے اور 2014 میں مکمل ہو جائے گا۔

بلو برین پراجیکٹ کی کامیاب تکمیل کی صورت میں توقعات یہ ہیں کہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اپنے عروج پہ پہنچ جائے گی اور لامحالہ اس کا سب سے بڑا استعمال جنگ میں ہوگا۔ امریکہ اس وقت بھی ایسے ذہین فولادی روبوٹ تیار کرنے میں جتا ہوا ہے ، جومیدانِ جنگ میں گوشت پوست کے کمزور فوجیوں کی جگہ سنبھال سکیں۔ تخلیق (Creation)کو سمجھنا ہو یا خود کچھ بنانا ہو، ہمیں خوردبینی سطح (Microscopic Level)پر جانا ہوتاہے۔مثلاً بیکٹیریا اور وائرس کے جسم پر حملے اور جواباً انسانی قدرتی مدافعتی نظام کو سمجھ کر ہی ملیریا اور طاعون جیسی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہوا، جنہوں نے کبھی کروڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

 نینو ٹیکنالوجی کو درست طور پر انسان کا مستقبل کہا جاتاہے کہ یہ خوردبینی سطح پر تخلیق اور تبدیلی کا باعث بنے گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے بیمار دل یا ناکارہ جگر کے صحت مند خلیات نئے سرے سے جنم لینے لگیں تو یہ ایک نئی زندگی پا لینے کے برابر ہوگا۔ طب ہی نہیں ، زندگی کے ہر شعبے میں نینو ٹیکنالوجی ایک انقلاب برپا کر دے گی۔

کائنات کے بڑے راز تیزی سے افشا ہو رہے ہیں۔ زیرِ زمین ایک طویل ٹنل میں ایٹم کے ننھے ذرّات کو روشنی کی رفتار سے ٹکرا کر کائنات کی ابتدا کا ماحول پیدا کیا گیا۔ اس عمل میں خدائی ذرّہ (God\'s Particle)بے نقاب   ہو ا۔  اسی نے کائنات کی ابتدا میں عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ(Big Bang)کے بعد مادے کو وزن عطا کیا۔ وہ نہ ہوتا تو سب کچھ روشنی کی رفتار سے بہہ جاتا اور کچھ بھی تخلیق نہ ہو پاتا۔اس دریافت کو چاند پر انسانی قدم جیسی کامیابی قرار دیا گیا۔

دوسری طرف مغربی سائنسدان ڈار ک میٹر (Dark Matter)کے اسرار سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں محو ہیں۔ شاید آ پ یہ جان کر حیران ہو جائیں کہ کائنات میں جو کچھ آپ دیکھتے ہیں ، وہ صرف پانچ فیصد ہے۔باقی 95فیصد تواوجھل ہے۔ یہ پراسرار ڈارک میٹر ہے ، جو سینکڑوں ارب ستارے اور سیارے رکھنے والے کہکشاؤں کو بکھرنے سے روکتاہے۔ خود سے کچھ تخلیق کرنا تو انسان کے بس میں نہیں۔ ہم خدا کے پیدا کردہ کسی عمل کو کامیابی سے دہرا بھی لیں تو عظیم الشان کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔

 

مثلاً ستاروں کے مرکز میں خوفناک درجہ حرارت اور دباؤ کے تحت ہائیڈروجن کے ایٹم ہیلیم کا روپ دھارتے ہیں۔ اس عمل میں گیما ریز نامی وہ شعاعیں خارج ہوتی ہیں ، جو سورج کی حرارت اور روشنی کا باعث ہیں۔ یاد رہے کہ کائنات کے تمام عناصر (بشمول وہ ، جن سے ہمارے جسم بنے ہیں ) ستاروں کے مرکزہی میں بنے ہیں۔ اب اس عمل کو کرّہ ارض پہ دہرانے کی تیاری ہے۔ ہائیڈروجن کے دو ایٹموں کو بے پناہ حرارت پہنچا کر انہیں ہیلیم میں بدلنے کی کوشش کی جائے گی۔

 اگر یہ عمل کامیاب ہو گیا تو نہ صرف توانائی کا ایک نیا باب کھل جائے گا بلکہ مستقبل میں شاید مفید دھاتیں بنانے کی کوشش بھی کی جائے۔ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر نہ صرف دوسرے جانداروں پر حاوی ہے بلکہ خود بھی اس سے محفوظ نہیں۔

 

عنوان:       برقی آلات کی ری سائیکلنگ

 

ماہرین کا کہنا ہے دنیا بھر میں 20 فیصد سے کم الیکٹرونک آلات کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔آپ کا فون یقیناً آپ کو عزیز بھی ہو گا اور آپ کے لیے اہم بھی اس بات سے قطع نظر کہ یہ آئی فون کا نیا ماڈل ہے یا نوکیا کا 3310 ماڈل۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ سال 2022 کے آخر تک عالمی سطح پر تقریباً پانچ ارب موبائل فونز کو الیکٹرونک کچرا قرار دے کر پھینک دیا جائے گا۔

 

عالمی ادارہ برائے الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونک اکیومپنٹ ویسٹ (ڈبلیو ای ای ای ) کا کہنا ہے کہ رواں برس 5.3 ارب موبائل فونز کو ری سائیکل نہیں کیا جائے گا بلکہ انھیں الیکٹرک کچرا قرار دے کر پھینک دیا جائے گا۔عالمی تجارتی اعداد و شمار پر مبنی یہ تخمینہ ’ای ویسٹ‘ کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسئلے کو نمایاں کرتا ہے۔

 

تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے پرانے موبائل فونز کو ری سائیکل کرنے کی بجائے انھیں اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔اور ان فونز میں موجود قیمتی دھاتیں مثلا تاروں میں موجود تانبہ، اور ری چارج ایبل بیٹریوں میں موجود کوبالٹ کو نکال کر دوبارہ استعمال نہ کرنے سے ان معدنیات کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے۔

 

ڈبلیو ای ای ای کے ڈائریکٹر جنرل پاسکل لیروئے کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ تمام بظاہر غیر معمولی اشیا کی بہت زیادہ قیمت ہے اور مجموعی طور پر یہ عالمی سطح پر ایک بڑے حجم کی نمائندگی کرتے ہیں۔دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 16 ارب موبائل فونز ہیں اور یورپ میں موجود موبائلز میں سے تقریباً ایک تہائی موبائل فونز اب استعمال میں نہیں ہیں۔

 

ڈبلیو ای ای ای کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ واشنگ مشین سے لے کر ٹوسٹر تک اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز سے لے کر جی پی ایس ڈوائسز تک عالمی سطح پر الیکٹرونک کچرے کا ایک پہاڑ ہے اور سنہ 2030 تک یہ بڑھ کر 74 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔اس سال کے شروع میں، رائل سوسائٹی آف کیمسٹری نے نئی مصنوعات تیار کرنے کے لیے پرانے آلات میں سے قیمتی دھاتیں نکال کر استعمال کرنے کو فروغ دینے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی، جس میں یوکرین جنگ سمیت عالمی تنازعات کو اجاگر کیا گیا، جس سے قیمتی دھاتوں کی سپلائی چین کو خطرہ ہے۔

 

ڈبلیو ای ای ای کی اہلکار میگڈلینا کا کہنا ہے کہ ’یہ پرانے آلات بہت سے اہم اور قیمتیں وسائل (دھاتیں) فراہم کرتے ہیں جنھیں نئے الیکٹرانک آلات یا دیگر آلات کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے ونڈ ٹربائنز، الیکٹرک کار بیٹریاں یا سولر پینلز۔ یہ سب کم کاربن اخراج کرنے والے معاشروں میں ڈیجیٹل منتقلی کے لیے بہت اہم ہیں۔

 

دنیا کے صرف 17 فیصد سے زیادہ الیکٹرونک کچرے کو صحیح طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین نے اگلے سال تک اسے 30 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

 

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ’یہ تیزی سے بڑھنے والے اور سب سے پیچیدہ کچرے میں سے ایک ہے جو انسانی صحت اور ماحول دونوں کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ اس میں نقصان دہ مادے ہو سکتے ہیں۔میٹریل فوکس نامی تنظیم کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں گھروں میں تقریباً 5.63 ارب پاونڈز مالیت کی دس لاکھ سے زائد غیر استعمال شدہ لیکن قابل استعمال برقی اشیا موجود ہیں۔یہ حساب بھی لگایا گیا ہے کہ برطانیہ میں اوسط فی گھر تقریباً دو سو پاؤنڈ تک کی غیر استعمال شدہ الیکٹرک آلات کو فروخت کر سکتا ہے۔

 

اس تنظیم کی آن لائن آگاہی مہم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کے قریب ترین ری سائیکل پلانٹ کہاں کہاں موجود ہیں۔پاسکل لیروئے کہتے ہیں اس ضمن میں اور بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’سپر مارکیٹوں میں کلیکشن بکس فراہم کرنا، نئے آلات کی ڈیلیوری پر چھوٹے ٹوٹے ہوئے آلات کو اٹھانا اور چھوٹے ای ویسٹ کو واپس کرنے کے لیے پی او (پوسٹ آفس) بکس پیش کرنا ان چیزوں کی واپسی کی حوصلہ افزائی کے لیے متعارف کرائے گئے کچھ اقدامات ہیں۔

 

تبصرہ: پاکستانی جمہوریت میں اوورسیز پاکستانی سیاستدانوں کامقام

 

            ایک اوور سیز پاکستانی کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے جیسے پڑھے لکھے عالمی ایکسپوژر رکھنے والے اوورسیز پاکستانی ووٹ ڈالنے کے عمل کا اور پاکستان کی پارلیمان کا حصّہ بنیں گے تو آپ کو گامے ماجھے قسم کی سڑک چھاپ لڑائیاں اور گلی کے نکڑ پر تھڑے باز قسم کے لوگوں کی گالیاں اور زبان اعلیٰ ترین ایوان میں نظر نہیں آئے گی نہ قوم کا پیسہ ضائع ہوگا۔ہم تو خود سب سے زیادہ پیسہ پاکستان بھیج کر آپ کی معیشت کو ترسیلات زر کا سہارا دیتے ہیں۔

 

دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک  میں بھی دہری شہریت والے کو ووٹ کا حق حاصل ہے وہ پارلیمان کا ممبر بھی بن سکتا ہے وہاں اس کی وفاداری پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔‎کیونکہ وہاں کی پارلیمان میں سلجھے انداز سے پڑھے لکھے سنجیدہ ممبران اپنے عوام کے فائدے کے لیے بحث اور قانون سازی کرتے ہیں۔

 

یہ والی بات تو ان کی درست تھی لیکن نجانے کس بات کا غصّہ یا رَنج تھا، شاید گذشتہ دنوں پارلیمان کی ہوئی توہین کا یا شاید منتخب نمائندوں کے اخلاق باختہ بازاری رویے کا یا شاید عوامی پیسے اور وقت کے ضیاع کا یا پھر شاید دن بدن تنزلی کا شکار قومی اخلاقیات کا اور اپنے ملک اپنی قوم کو پستی کی اندھی گہری دلدل میں مسلسل دھنستے چلے جاتے ہوئے دیکھنے اور کچھ نہ کر پانے کا رنج اور غصہ۔

 

بہرحال ویسے  تو مہذب دنیا کے کئی پارلیمانوں کے ایسے واقعات  ہوئے ہیں جہاں پارلیمینٹ کے ایوانوں میں ایسا ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ!

 

اور دوسرا اگر آپ کو دیگر ممالک کی پارلیمان ہمارے ہاں سے بہتر لگتی ہے تو آپ وہیں کے لیے ووٹ کاسٹ کیجیے نا اور وہیں کے ممبر بنیے۔ ہمارے ہاں کیوں بدیس سے اخلاقیات کا عَلَم گاڑنے آنا چاہتے ہیں۔


 ایسی پارلیمان جو تاریخی اعتبار سے کمزور رہی ہے جس پر کئی بار شب خون مارا گیا جس کی توقیر اور بالادستی کو کئی بار بھاری بھر کم بوٹوں تلے روندا گیا ہو جو آج بھی محض ربر سٹیمپ کی حیثیت سے تصور کی جاتی ہو۔ اس  کی  عزت و توقیر  بحال کرنے کیلیے مناسب قانون سازی ضروری ہے۔

بہتر ہوگا کہ  قانون سازی کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو دوہری شہریت  رکھنے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔

 

مضمون:       پاکستان میں مہنگائی

 

عام طور پر مہنگائی سے مراد اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ لیا جاتا ہے۔ دراصل جب قیمتوں میں اضافہ ہو اور  لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ نہ ہو یا کم شرح سے ہو، ایسی صورتحال کو مہنگائی کہتے ہیں۔مہنگائی کا براہ راست اثر غریب اور کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے۔ جس سے وہ غریب  سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔

 

مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت اور بدحالی کو روکنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں کو جدوجہد اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے دستور میں عوام سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی عوامی حکومت یا جمہوریت اسی وقت اپنے نام کی اہل قرار دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی عوام کو زندگی کی لازمی ضروریات کو پورا کرنے کا حق دے سکتے ہیں۔

 

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک طرف تو حکومت کے بہت سے ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ پاتے اور دوسرے ملک میں بے اطمینانی اور جگہ جگہ حکومت کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں جو تخریبی کارروائیوں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان تخریبی کارروائیوں سے ملک کے امن و امان میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ترقی کے منصوبے سست اور بے عمل ہو جاتے ہیں۔

 

اسی مسئلے کے نتیجے میں سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافہ کی مانگ کرتے ہیں اور ہڑتال کرتے ہیں۔ صحت، ریلوے، ڈاک اور ایسے ہی اہم شعبوں کی ہڑتالوں سے ہر سال ملک کے کروڑوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے ملکی بجٹ پر کافی بوجھ پڑ جاتا ہے اور مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔

 

حکومت ابھی تک موثر اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام نے حکومت کو اس سلسلے میں مناسب تعاون نہیں دیا۔ ظاہر ہے کہ قانون اور حکومت ہی منافع خوروں کو سزا دے سکتی ہے لیکن کیا یہ عوام کا فرض نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کی نظر میں لائیں۔ پرامن طریقوں سے ذخیرہ اندوزوں وغیرہ کو بے نقاب کریں۔ اور ان کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اور خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب ایک بار پھر ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا۔

 

مضمون:      اُف یہ مہنگائی!

 

مہنگائی کا نام سنتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ۔مہنگائی دور حاضر کی سب سے بڑی لعنت ہے ۔اس نے ہمارے ملک کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔اس کا ڈنکا یوں تو ساری دنیا میں بج رہا ہے ،لیکن ہمارے ملک میں اس کی بازگشت کچھ زیادہ ہی سنائی دے رہی ہے ۔ہر کوئی مہنگائی کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس کے تدارک کی فکر کسی کو نہیں ،یوں سمجھیے مہنگائی کا رونا بس فیشن بن گیا ہے ۔

 

کس کس کا ذکر کیا جائے ؟کون کون سی شے گنوائی جائے ؟؟۔۔ ہر چیزپر مہنگائی کی بجلی گری ہے ۔بازار جاؤ تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے ۔چیزوں کے دام پوچھو تو نانی یاد آجاتی ہے ۔ضروری اشیاء کے دام معلوم کرو تو پیروں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے ۔ضرورت زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے ۔آلو ،پیاز،سبزیوں کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں ۔ایک ہا ہا کار مچی ہے ۔

 

غریب جب سبزی خریدنے بازار جاتا ہے تو اس کی حالت دیکھ کر گوبھی منہ پھلاتی ہے ۔کریلے کا منہ کڑوا ہوجاتا ہے ۔۔اور ٹماٹر کا چہرہ خواہ مخواہ لال ہوجاتا ہے ۔۔بے چارہ کس کس کا مقابلہ کرے !! وہ منہ لٹکائے گھر واپس آجاتا ہے ۔ زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔اب اگر روزمرّہ کی اشیاء بھی مہنگی ہوجائیں تو غریب کیا کھائے اور کیا پیئے ؟۔۔وہ بے چارہ سوائے غم کھانے اور آنسو پینے کے کر بھی کیا سکتا ہے !!

 

بڑے شہروں میں مکان خریدنا بھی ایک دیوانے کا خواب سا ہوگیا ہے ۔مکانوں کی قیمتیں فلک بوس عمارتوں ہی کی طرح آسمان سے باتيں کرتی نظر آتی ہیں ۔ایک عام انسان کی قوت خرید اتنی بھی نہیں رہی کہ وہ اپنے لیے ایک چھت ہی مہیا کرسکے ۔۔۔آج فٹ پاتھوں اور پلیٹ فارموں پر کتنے ہی لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

ہمیں ہر بات کی آزادی ہے اور اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔سرمایہ دار طبقہ من مانے دام مقرر کر دیتا ہے ۔غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ان کے آنسو کون پونچھے ؟۔۔مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔حکومتیں بدلتی ہیں مگر رجحانات نہیں بدلتے ! ہر حکومت مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن مہنگائی کا دیو کسی کے قابو میں آتا دکھائی نہیں دیتا ۔۔مہنگائی کا آسیب ہر ذی روح پر سوار ہے ۔۔۔میدان حشر میں سب نفسا نفسی پکاریں گے ۔۔مگر آج ہر نفس ، اف!یہ مہنگائی ۔۔اف! یہ مہنگائی پکارتا نظر آرہا ہے۔

 

مہنگائی روکنے کے لیے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔

 

تبصرہ: مہنگائی

 

مہنگائی انسان کے ایک ایسے فعل کا نام ہے۔جس میں ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کو اُن کے مُنصفانہ اور اعتدالانہ نرخ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے۔اسلامی تعلیمات میں اس عمل کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔اور اس عمل کو ظلم کہا گیا ہے۔

 

مہنگائی کے غیر مُنصفانہ اور غیر عادلانہ عمل سے سماج کا کمزور اور افلاس زدہ طبقہ دولت مندوں ۔سرمایہ داروں اور امیروں کے ہاتھوں دب کر رہ جاتا ہے۔اور یوں سرمایہ دار روز بروز امیر اور دولت مند ہوتا چلا جاتا ہے۔

اللہ نے اپنی مقدس کتاب قُران کے زریعے نوعِ انسان پر اسی لیے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا ہے۔تاکہ سرمایہ دار طبقہ کے سرمایہ کا ڈھائی فیصد حِصہ وصول کر کے ان غریبوں اور مساکین کو دیا جائے۔اور یوں سماج کے غریب طبقہ کو غُربت کی اُس سطح سے اوپر اُٹھا کر کسی حد تک غُربت سے نجات دلائی جاۓ اور امیر کو مزید امیر بننے سے روکا جاٸے۔ تاکہ امیر اور غریب کے درمیان کا تفاوُت ختم ہو جائے۔

 

بقول علامہ اقبال

صاحب ِ تاج و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

 

انسانی سماج میں جب آسمانی عدل وانصاف کا عقیدہ باقی نہ رہے۔تو پھر ایسا سماج مہنگائی جیسے ظُلم و نا انصافی کے ہتھکنڈوں سے اللہ کی مخلوق کے حقوق کو پامال کرنے میں لگ جاتا ہے۔ایسا انسانی سماج ُان بھوکے بھیڑیوں کی طرح بن جاتا ہے۔ جو بے زبان انسانی بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں میں داخل ہو کر ان کا خون چوسنے میں لگ جاتا ہے۔شاید ایسے ہی شکلِ انسانی بھیڑیوں کے  لیے شاعر نے ایک جگہ یوں لکھا ہے۔

 

کس قدر وحشی ہیں یہ انسانیت کے نامدار؟

بھیڑیے جنگل کے جن کو دیکھ کر ہیں شرمسار

حق تعالیٰ سے ظفر ہے میری یہی دُعا

سنگدل انساں کو آئے رحم اور خوفِ خُدا

 

مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہئیں۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔

 

مضمون:       سوشل میڈیا کے فوائد

 

سوشل میڈیا یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ایک کمپیوٹر پر مبنیٹیکنالوجیہے جو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کے نظریات ، خیالات اور معلومات کو شیئر کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔   یہ صارفین کو ڈیٹا کی فوری الیکٹرانک مواصلت فراہم کرتا ہے۔ یہ ڈیٹا مختلف اقسام پر مشتمل ہوتا ہے جس میں تصاویر، ویڈیوز ، پرسنل معلومات اور دیگر دستاویزات بھی شامل ہیں ۔

 

 ہم سب صرف ایک دوسرے کے ساتھ آن لائن بات چیت  ہی نہیں  بلکہ اس کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں  دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے سے رابطہ قائم کریں اور طویل فاصلے پر موجود دوستوں سے رابطے میں رہیں ۔ اس پر لاتعداد معلومات موجود ہیں جس تک آپ صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں ۔اس  کے ذریعے بہت سے افراد نے  ایک دوسرے کو آن لائن تلاش کیا اور جانا ہے ۔

 

پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق ، آن لائن کاروباری افراد اپنے صارفین کو فون اور کمپیوٹرز کے ذریعے ٹارگٹ کرنے کے لیے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا استعمال کر رہے ہیں ، تاکہ کلائنٹس کو گھر بیٹھے سہولیات مہیا کی جا سکیں ۔ایسا کرنے میں کسٹمر اور کاروباری کمپنی دونوں کا فائدہ ہے۔ کچھ کمپنیاں ، جیسے ڈینی نےنوجوان صارفین کو مارکیٹ کرنے کے لئے ٹویٹر پر مکمل تیار کیا ہے۔

 

  انڈونیشیا جیسے ایشیائی ممالک سوشل میڈیا کے استعمال کی فہرست میں سب سے آگے ہیں۔ 3.8 بلین سے زیادہ افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ سب سے بڑے  نیٹ ورکس میں فیس بک ، انسٹاگرام ہے۔

 

سوشل میڈیا عام طور پر لوگوں یا صارفین کا تیار کردہ ڈیٹا اور پرسنل پروفائلز کی معلومات پیش کرتا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے 2023 تک ، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد تقریبا 257 ملین تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے۔

 

سوشل میڈیا کا آغاز

 

ابتدا میں  دوستوں اور دیگر خاندان کے افراد سے جو بہت دور رہتے ہوں سے رابطہ کے طور پر شروع ہوا تھا لیکن بعد میں یہ ایک کاروباربن گیا۔ جس میں صارفین تک پہنچنے کے لئے مواصلات کے ایک مشہور طریقہ کار سے فائدہ اٹھایا گیا۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے زمین پر موجود کسی سے بھی ، یا ایک ہی وقت میں معلومات کو بہت سارے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

 

عالمی سطح پر اس کے صارفین کی تعداد 3.8 بلین سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ہمیشہ بدلتی ہوئی فیلڈ ہے، جس میں ہر سال نت نئے ایپس اور سافٹ ویئر منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ٹِک ٹاک اور کلب ہاؤس جیسے نئے ایپس سامنے آئے ہیں۔ فیس بک ، یوٹیوب ، ٹویٹر ، اور انسٹاگرام جیسے قائم سوشل نیٹ ورکس مشہور سماجی رابطوں کے ذریعے سمجھے جاتے ہیں۔

 

مضمون:       بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما

 

اس میں کوئی دو رائے نہیں بچے قوم کے معمار اور مستقبل کے قائد وذمہ دارہوتے ہیں۔بچوں کی اعلی تعلیم اور اچھی تربیت ہی ایک صالح معاشرے کی تشکیل کا سبب ہے۔ ایک صحت مند اور مضبوط پودا ہی مستقبل میں ایک تناور اور خوش ذائقہ پھلوں اور پھولوں والا درخت بن سکتا ہے۔

 

والدین پر بچوں کے سلسلے میں یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کو اچھی زندگی کے لئے اچھی خوراک،عمدہ کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں،وہیں ان کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کریں۔نیز زندگی اور اس کے نشیب وفراز کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ماہرین کے مطابق بچہ پیدائش کے بعد تربیت کے حوالے دو دور سے گزرتا ہے:

 

1۔بچپن کا دور،یہ دور ایک سال کی عمر سے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تربیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔

 

2۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھتا اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکتا ہے۔

 

پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہیے اور اس عمر میں بچے کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کا حکم دینے میں سختی بھی نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ اس کے لیے اچھا ماحول،پاکیزہ فضا اور مناسب دوست فراہم کرنا چاہیے؛تاکہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا رہے،یہی وہ زمانہ ہے جس میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو محفوظ کرلیتا ہے۔

 

دوسرے دور میں بچے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہیے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہیے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کردو ان کے درمیان خواب گاہ ہوں میں (ابوداؤد) ۔

 

اس وقت مغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کو لے کر جو چہل پہل دکھائی دے رہی ہے،دانشوران فرنگ اس سلسلے میں جس حساسیت کا اظہار کررہے ہیں،مختلف این جی اوز کی جانب سے جو شعور بیداری مہم چلائی جارہی ہے اور ہرسال اس حوالے سے جو مختلف قوانین وضع کیے جارہے ہیں،بہ نظر غائر دیکھاجائے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل،جب انسانیت جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی،اسی وقت پیغمبر اسلام ﷺنے بچوں کی قدر ومنزلت اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ زریں اصول اور رہنما ہدایات عطا فرمائے جو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے سرمۂ چشم کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج کے دانشور اور ماہرین نفسیات بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کے بعض پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں۔

 

ماہرین کے مطابق بچوں کی جسمانی

 ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضروریات بھی بہت اہمیت کی حامل اور والدین کی توجہ کی متقاضی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ نا صرف بچے کی تعلیمی و معاشی ضروریات پر توجہ دیں؛بلکہ بچوں کی سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بھی سمجھیں اور ان ضروریات کی تسکین کامناسب انتظام کریں،دن بھر میں بچوں کے لیے کچھ وقت فارغ کریں،ان کے ساتھ گفتگو کریں،ان کے سرپر دست شفقت رکھیں،ان کی پریشانی پوچھیں اور اسے حل کرنے کا یقین دلائیں۔

 

دورجدید کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے جبکہ پرانے زمانے میں والدین بچوں کو وقت دیتے تھے،انہیں قصے اور کہانیاں سناتے تھےاور ان کی فکری تربیت کرتے تھے۔ یوں بچوں کی نفسیاتی ضرورت بھی پوری ہو جاتی تھی اور تعلیم وتربیت بھی۔

 

 

عنوان: کرپشن، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی - معاشرتی زوال کی علامات

 

پاکستان میں کرپشن، ملاوٹ، اور ذخیرہ اندوزی جیسے مسائل ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ یہ برائیاں نہ صرف ہماری معیشت کو کمزور کر رہی ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ ان مسائل نے معاشرتی، معاشی اور اخلاقی زوال کی بنیادیں مضبوط کر دی ہیں اور عوام کی زندگی کو پیچیدہ اور مشکلات سے بھر دیا ہے۔

 

کرپشن ایک ایسی بیماری ہے جس نے حکومتی اداروں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عوام کا پیسہ اور وسائل ان لوگوں کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں جو ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ حکومتی اداروں میں کرپشن کی وجہ سے عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، بنیادی سہولیات میسر نہیں ہوتیں اور عوام کو انصاف تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی۔

 

ملاوٹ بھی ہمارے معاشرتی نظام میں گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر ادویات تک، ہر چیز میں ملاوٹ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ملاوٹ کرنے والے لوگ چند روپے کے منافع کے لیے عوام کی صحت اور زندگی سے کھیلتے ہیں۔

 

ذخیرہ اندوزی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا اثر عوام پر براہِ راست پڑتا ہے۔ کئی افراد اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کے لیے انہیں ذخیرہ کر لیتے ہیں، تاکہ طلب میں اضافہ ہونے پر وہ اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کر سکیں۔ اس طرح نہ صرف مہنگائی بڑھتی ہے بلکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔

 

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو کرپشن کے خلاف مضبوط قوانین بنانے ہوں گے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ ملاوٹ کرنے والوں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو اس بارے میں آگاہی دینا بھی ضروری ہے۔ ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت قوانین اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ان کی ضرورت کی اشیاء بروقت اور مناسب قیمتوں پر مل سکیں۔

جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

یہ دولت، یہ ذخیرہ، یہ ظلمت، یہ اندھیرا،

    انسان کو کس حد تک گرا لے گیا پیسہ

یہ شعر ہماری انفرادی اور اجتماعی اخلاقی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ کرپشن، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی جیسی برائیاں ہمارے معاشرے کو اخلاقی طور پر کمزور کر رہی ہیں۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں اپنی اقدار کو بہتر کرنا ہوگا اور ایمانداری کو اپنانا ہوگا، تاکہ ایک مضبوط اور منصفانہ معاشرہ تشکیل پا سکے۔

 

عنوان:*ووٹ کی طاقت کا درست استعمال*

 

پاکستان میں ووٹ کی طاقت ایک نہایت اہم اور مؤثر ذریعہ ہے جسے صحیح طریقے سے استعمال کر کے عوام سیاست دانوں کے جھوٹے دعوؤں اور سبز باغ دکھانے کی سیاست کو روک سکتے ہیں۔ ووٹ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کا بنیادی حق ہے اور ان کی پسند کا مظہر بھی۔ اگر عوام اپنی ووٹ کی طاقت کو صحیح معنوں میں استعمال کریں اور شعور کے ساتھ فیصلہ کریں تو اس سے سیاست دانوں کو جوابدہ بنایا جا سکتا ہے اور انہیں صرف بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حقیقی خدمات فراہم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

 

بدقسمتی سے، پاکستان میں کئی سیاست دان انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں اور عوام کو ترقی، خوشحالی اور بہتر مستقبل کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر انتخابات کے بعد جب یہ لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو وہ وعدے اور دعوے کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ عوام کو بارہا دھوکا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اعتماد کا فقدان پیدا ہو چکا ہے۔ لیکن اگر عوام سیاست دانوں کے انتخابی ماضی، کارکردگی اور ان کے حقیقی منصوبوں کا جائزہ لے کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں تو یہ چکر روکا جا سکتا ہے۔

 

عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی شعور پیدا کریں، سیاست دانوں کی کارکردگی اور ان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر نظر رکھیں اور جھوٹے دعوے کرنے والے سیاست دانوں کو ووٹ دینے سے اجتناب کریں۔ اس طرح، سیاست دانوں کو معلوم ہو گا کہ عوام اب جھوٹے وعدوں پر یقین نہیں کرتے، بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ ووٹ کے اس طاقتور ہتھیار کے ذریعے عوام ایسے نمائندوں کو منتخب کر سکتے ہیں جو واقعی ان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہوں۔

جیسا کہ ایک شعر میں کہا گیا ہے:

بس اک فیصلہ ہی بدلے گا زمانے کا رخ،           ووٹ کی طاقت سے ہو گا انقلاب کا سفر

 

یہ شعر ووٹ کی طاقت کو بیان کرتا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر عوام ایک مرتبہ سمجھداری سے فیصلہ کریں تو اس سے انقلاب آ سکتا ہے۔ اس لیے ووٹ کو سنجیدگی سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ سیاست میں تبدیلی لائی جا سکے اور صرف وہی لوگ اسمبلی میں پہنچ سکیں جو عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں۔

 

تبصرہ:  *پاکستان میں افواہ سازی اور صحافتی برادری کا کردار*

 

پاکستان میں افواہ سازی اور صحافتی برادری کا کردار ایک پیچیدہ اور اہم موضوع ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں سوشل میڈیا اور آن لائن ذرائع ابلاغ نے خبروں کی رسائی کو بے حد آسان بنا دیا ہے، وہیں افواہوں اور غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ صحافتی برادری کا کردار اس صورتحال میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کا کام عوام کو مستند، باوثوق اور غیر جانبدارانہ معلومات فراہم کرنا ہے۔

 

بدقسمتی سے، پاکستان میں بعض اوقات صحافی اور میڈیا ادارے سنسنی خیز خبروں اور افواہوں کو پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہ افواہیں اکثر سیاسی مقاصد، ذاتی مفادات، یا عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں، جس سے عوام میں بےچینی اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ میڈیا ادارے تحقیق کیے بغیر خبروں کو نشر کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے جھوٹے بیانیے اور افواہیں مزید پروان چڑھتی ہیں۔

 

اس کے برعکس، پاکستان میں ایسے باصلاحیت اور ذمہ دار صحافی بھی موجود ہیں جو حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے ذریعے عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صحافی اپنے فرائض کو سنجیدگی سے نبھاتے ہیں اور معلومات کی تصدیق کرنے کے بعد ہی عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لیکن، آزاد صحافت اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں، جن میں دباؤ، سنسرشپ، اور مالی وسائل کی کمی شامل ہیں۔

 

صحافتی برادری کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو ترجیح دے اور افواہوں کے خلاف سخت رویہ اپنائے۔ اس کے علاوہ، میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے صحافیوں کو تربیت دیں کہ وہ ہر خبر کی تصدیق کریں اور صحافت کے اصولوں کو مدنظر رکھیں۔ ایک مضبوط، ذمہ دار اور آزاد صحافت ہی ملک کو صحیح سمت میں لے جا سکتی ہے۔

کسی شاعرنےکیا خوب کہاہے:

خبروں کے بازار میں سچ کی قدر گھٹ گئی،           سچ بولنے والے کے حق میں صدائیں کم ہوئیں

 

یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سچائی کی قدر اس دور میں کم ہوتی جا رہی ہے، اور سچ بولنے والوں کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں۔ صحافتی برادری کا کردار ہے کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔

 

تبصرہ :  *پاکستان میں حقوقِ نسواں اور عام انسانی حقوق کی پامالی*

 

پاکستان میں حقوقِ نسواں اور عام انسانی حقوق کی پامالی ایک سنگین مسئلہ ہے جو مختلف معاشرتی، اقتصادی اور قانونی مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان میں کئی مسائل پائے جاتے ہیں جن میں جبری شادی، گھریلو تشدد، تعلیم اور ملازمت کے مواقع کی کمی، اور سماجی نابرابری شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو خاص طور پر اپنی بنیادی انسانی حقوق تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور کئی جگہوں پر انہیں وراثت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ، عام انسانی حقوق کی پامالی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ صورتحال خاص طور پر نچلے طبقے، اقلیتوں اور مزدور طبقے کے لوگوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ انہیں اکثر انصاف، تعلیم، اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوتے اور ان کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عام انسانی حقوق جیسے تعلیم، صحت اور آزادی اظہار کا حق اکثر پالیسیوں یا روایتی پابندیوں کے باعث متاثر ہوتے ہیں۔

 

ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کچھ قانون سازی ضرور موجود ہے، مگر ان پر عملدرآمد کے معاملے میں شدید کمی پائی جاتی ہے۔ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی سست روی کا شکار ہے اور اکثر اوقات سیاسی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے متأثرہ افراد کو انصاف نہیں مل پاتا۔ اس کے علاوہ، معاشرتی رویے بھی حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فروغ دیتے ہیں کیونکہ کئی طبقات میں مردوں کو خواتین پر برتری دی جاتی ہے۔

 

حکومت اور مختلف تنظیموں کی جانب سے اس صورتحال میں بہتری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، مگر یہ مسئلہ اتنا گہرا ہے کہ اس کے حل کے لیے تعلیم و آگاہی اور مؤثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ، سماجی رویوں میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔

جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

حقوق کی باتیں تو ہر بزم میں ہیں جاری،   

 مگر حقیقت میں زخموں پہ نمک پاشی ہیں ساری 

یہ شعر ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جہاں حقوق کی باتیں تو کی جاتی ہیں، مگر حقیقت میں ان پر عمل کرنے کے بجائے انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔

 

تبصرہ :  پاکستان کا شعبہ صحت

 

پاکستان میں شعبہ صحت کی صورتحال کئی پہلوؤں سے انتہائی پیچیدہ اور تشویشناک ہے۔ صحت عامہ کے مسائل کی جڑیں غریب عوام تک پھیلی ہوئی ہیں، جو کہ بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ بیشتر دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں ہسپتال اور کلینک نہ ہونے کے برابر ہیں، اور جہاں یہ سہولیات موجود بھی ہیں، وہاں وسائل، عملہ، اور جدید آلات کی کمی کی وجہ سے عام لوگوں کو معیاری علاج میسر نہیں ہوتا۔

 

بڑے شہروں میں بڑے ہسپتال ضرور ہیں، مگر وہاں پر بھی مریضوں کی بھیڑ، طبی عملے کی کمی اور مہنگے علاج کی وجہ سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج اکثر غیر معیاری ہوتا ہے، جبکہ نجی ہسپتالوں میں علاج اتنا مہنگا ہے کہ غریب یا متوسط طبقے کے افراد کی پہنچ سے دور ہے۔ اس صورتحال میں زیادہ تر افراد یا تو علاج کروانے سے رہ جاتے ہیں یا نیم حکیموں کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں، جو کہ ان کی صحت کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

 

حکومتی سطح پر شعبہ صحت کے لیے بجٹ بھی ناکافی ہے، اور جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ بدانتظامی اور کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی تربیت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی، جس سے مریضوں کی شکایات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

عوام کی صحت کا تحفظ اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر اس جانب فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ مسائل آنے والے وقت میں مزید بگڑ سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے، بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے، اور دیہاتی علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے۔

جیسا کہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہر طرف ہے بیماری ، یہ کیسی زندگانی ہے

 مستقبل غیر محفوظ اور بے سروسامانی ہے

یہ شعر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ جب بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تو زندگی کی بقا ہی مشکل ہو جاتی ہے۔

 

تبصرہ : مہنگائی کی چکی میں پستی عوام

 

آج کے دور میں مہنگائی ایک ایسا جن بن چکی ہے جو ہر گھر میں بے قابو ہو چلا ہے۔ کبھی وقت تھا جب عام آدمی اپنی ضرورت کی چیزیں آسانی سے خرید لیا کرتا تھا، مگر آج کل تو جیسے ہر چیز کا بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ چاول، آٹا، دالیں اور سبزیاں بھی ایسے مہنگے ہو گئے ہیں جیسے ان میں سونا ملا ہو۔

 

حالات اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ عام آدمی کی زندگی مشکل میں گھری نظر آتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا آج کے بعد اپنے بچوں کو اچھی تعلیم، اچھا کھانا یا اچھی زندگی دے پائے گا یا نہیں۔ صرف ضروریاتِ زندگی ہی نہیں، دوائیں اور علاج بھی اتنے مہنگے ہو چکے ہیں کہ بیمار ہونا بھی ایک "لگژری" بنتا جا رہا ہے۔

 

مزدور طبقہ، جس کی روز کی آمدنی بس اتنی ہوتی ہے کہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے، اس مہنگائی کی چکی میں سب سے زیادہ پس رہا ہے۔ جب روز مرہ کی بنیادی چیزیں بھی دسترس سے باہر ہو جائیں تو انسان کا دل تو یہی کہتا ہے:

بڑھتی قیمتوں سے دلوں میں درد ہے پیدا،

    اب تو جینا بھی لگتا ہے اک خواب سا۔

 

حکومتوں کی جانب سے کبھی کبھار مہنگائی کو کم کرنے کے وعدے تو سنائی دیتے ہیں، لیکن عملاً عوام کی مشکلات بڑھتی ہی جاتی ہیں۔

 

 اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے، ورنہ مہنگائی کا یہ طوفان عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکلات کی طرف دھکیل دے گا۔

 

تبصرہ   عنوان: مہنگائی کا دیو اور عوام کا حال

مہنگائی کا دیو آج کل ہمارے گھروں میں یوں دندناتا پھر رہا ہے جیسے ہماری دعائیں سنے بغیر فیصلہ کر چکا ہو کہ کسی کو بھی جینے نہیں دے گا۔ پہلے جو چائے کا کپ سکون کا ذریعہ ہوتا تھا، اب وہ کپ بھی خاندانی میٹنگ میں زیر بحث آتا ہے کہ آخر اتنا خرچ کس کے بس میں ہے! گویا چائے پینا بھی "قسطوں" پر چل رہا ہے۔

 

ہمارے بزرگ قصے سناتے ہیں کہ ان کے زمانے میں سبزیاں، دالیں اور چاول کیسے با آسانی میسر ہوتے تھے۔ مگر اب، پیاز اور ٹماٹر خریدنا بھی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم نے کوئی "اسٹاک ایکسچینج" میں سرمایہ کاری کر دی ہو! دو دن پہلے جو قیمت تھی، اگلے دن اس سے دگنی ہوتی ہے۔

 

بازاروں میں جاؤ تو لگتا ہے کہ سبزی فروش، گوشت فروش اور دکاندار سب کی ملی بھگت ہے، ایک ہی مقصد کہ "جیب سے جان نکالو۔" اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی چیز سستی ہو جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے دکاندار نے ہمیں خیرات دے دی ہو!

گویا مہنگائی کی صورتحال کچھ یوں ہے:

آسمان کی بلندی پر قیمتیں ہیں، 

 زمین پر انسان بے قیمت سا ہے۔

 

مہنگائی کا یہ دیو کب قابو میں آئے گا، یہ سوال تو شاید اب ہر پاکستانی کے لبوں پر ہے۔ شاید مستقبل میں ہمیں ایک نیا کھیل کھیلنا پڑے گا جس کا نام ہوگا "پیسے بچاؤ، کچھ بھی خرید پاؤ"۔

 

تبصرہ: سیاسی عدم استحکام – ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

 

سیاسی عدم استحکام کسی بھی ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایک مستحکم حکومت اور پائیدار سیاسی نظام ہی کسی ملک کو معاشی اور معاشرتی سطح پر ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکتا ہے۔ جب ملک میں سیاسی صورتحال غیر یقینی ہو، حکومتیں بار بار تبدیل ہوتی رہیں، اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں، تو اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے اور پالیسیز متاثر ہوتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کو اپنے سرمائے کے تحفظ کا یقین نہیں ہوتا۔

 

سیاسی عدم استحکام سے سرکاری ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں، اور ان میں بدعنوانی اور نااہلی کا رجحان بڑھتا ہے۔ جب حکومتیں اپنی پالیسیوں کو مستقل طور پر نافذ نہیں کر پاتیں اور بار بار نئی حکمتِ عملیوں کو اپنانا پڑتا ہے تو اس سے عوام میں اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں، روزگار کے مواقع محدود ہوتے ہیں، اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

سیاسی استحکام ملکی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد حکومت ہی دیرپا ترقیاتی پالیسیز متعارف کروا سکتی ہے۔ جب ملک میں سیاسی استحکام ہوتا ہے، تو لوگ اور سرمایہ کار اس میں سرمایہ لگانے سے گھبراتے نہیں، اور معاشرتی فلاح و بہبود کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس لیے، سیاسی استحکام کسی بھی ملک کے لیے کامیابی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

 

تبصرہ: معاشرے میں امن کے لیے برداشت اور رواداری کی ضرورت

 

معاشرے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے برداشت اور رواداری جیسے اوصاف نہایت اہم ہیں۔ جب افراد اپنے خیالات، نظریات، اور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں تو ایک خوشگوار اور پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ برداشت کا مطلب ہے کہ انسان دوسروں کی رائے کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ رکھے، چاہے وہ اس سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ رواداری، اس کے برعکس، ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی، ثقافتی، اور سماجی اختلافات کا احترام کرنا سکھاتی ہے۔

 

برداشت اور رواداری کی کمی سے معاشرت میں اختلافات بڑھتے ہیں اور یہی اختلافات جھگڑے اور عدم برداشت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جب معاشرت میں لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہونے لگتے ہیں، تو یہ نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ اور ناانصافی کو بھی جنم دیتا ہے۔ ان رویوں سے دوسروں کی عزت اور ان کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور معاشرہ انتہاپسندی اور شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

 

ایک پرامن معاشرت کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں دوسروں کو برداشت کرنے اور احترام کے ساتھ اختلاف کرنے کی صلاحیت ہو۔ رواداری اور برداشت کا مادہ ایک ایسی قوت ہے جو مختلف نظریات کو ہم آہنگی سے چلنے دیتی ہے اور معاشرتی سطح پر امن و سکون کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس طرح کے رویے افراد میں باہمی محبت، بھائی چارے، اور ایک مضبوط رشتے کو فروغ دیتے ہیں، جو کہ کسی بھی معاشرت کی اصل ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہے۔

 

تبصرہ: *آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن غلامی کے مترادف*

 

آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن لگانا کسی بھی معاشرت کے لیے غلامی کے مترادف ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی حق ہے جس کے ذریعے فرد اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے اور اپنے سماجی، سیاسی، اور مذہبی نظریات کو سامنے لاتا ہے۔ جب اس آزادی پر پابندی لگائی جاتی ہے تو نہ صرف فرد کی ذاتی آزادی سلب ہوتی ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اظہارِ رائے پر پابندی عموماً ایسے معاشروں میں ہوتی ہے جہاں حکمران طبقے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے عوام کی سوچ پر پہرا بٹھاتے ہیں۔

 

آزادیِ اظہارِ رائے کا فقدان انسان کو احساسِ کمتری، مایوسی اور ناامیدی کی طرف دھکیلتا ہے، اور وہ معاشرتی بگاڑ اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی قدغنیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیتی ہیں اور لوگوں کے درمیان بے اعتمادی کو جنم دیتی ہیں۔ آزادیِ رائے کی کمی معاشرت میں تنقید اور اصلاح کے دروازے بند کر دیتی ہے اور ایک جمود پیدا ہوتا ہے جس سے معاشرہ ترقی نہیں کر پاتا۔

 

اگر معاشرت میں افراد کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات اور نقطۂ نظر بیان کرنے کی اجازت ہو تو یہ معاشرت کی بہتری اور ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی دراصل معاشرت میں تنوع، سوچ کی وسعت، اور نئے خیالات کو جنم دیتی ہے جو کہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے ترقی کی ضامن ہیں۔ اس لیے، آزادیِ اظہار پر قدغن لگانا ایک ایسے بوسیدہ معاشرت کی علامت ہے جو لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف ہے۔

 

تبصرہ: بےروزگاری اور بے کاری – معاشرتی ترقی میں رکاوٹ

 

بےروزگاری اور بے کاری کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بےروزگاری کا مطلب ہے کہ انسان اپنی قابلیت اور محنت کے باوجود روزگار حاصل کرنے سے محروم ہے، جبکہ بے کاری وہ حالت ہے جب فرد کے پاس وقت تو ہوتا ہے مگر اسے مثبت سرگرمیوں میں صرف کرنے کے مواقع نہیں ملتے۔ ان دونوں مسائل کا شکار زیادہ تر نوجوان طبقہ ہوتا ہے، جو ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

 

بےروزگاری کی وجوہات میں معیاری تعلیم کی کمی، تیزی سے بڑھتی آبادی، اور محدود روزگار کے مواقع شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں مایوسی اور ناامیدی پیدا ہوتی ہے، جو معاشرتی بگاڑ اور جرائم کے بڑھنے کا سبب بنتی ہے۔ دوسری طرف، بے کاری کے اثرات میں وقت کا ضیاع، اور لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا زوال شامل ہے، جس سے سماج میں بےچینی اور غیر فعالیت بڑھتی ہے۔

 

ان مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب حکومت، تعلیمی ادارے، اور عوام مل کر کوشش کریں۔ جدید تعلیم اور ہنر مندی کو فروغ دینا، نئی صنعتیں قائم کرنا اور نوجوانوں کو کاروباری مواقع فراہم کرنا بےروزگاری میں کمی لا سکتا ہے۔ بے کاری کو کم کرنے کے لیے لوگوں کو مثبت سرگرمیوں اور سماجی خدمات کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف افراد کو روزگار ملے گا بلکہ معاشرتی خوشحالی اور استحکام میں بھی اضافہ ہوگا۔

 

عنوان:   گوگل کی آپ بیتی

 

گوگل کی آپ بیتی کچھ یوں ہے کہ جیسے ایک تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا جادوئی قالین ہو، جس پر بیٹھ کر دنیا کا ہر انسان اپنے مسائل کا حل اور ہر جواب کا سوال تلاش کرتا ہے۔ تو چلیے، گوگل کی کہانی اس کی اپنی زبانی سنتے ہیں!

آغازِ سفر

میرا جنم 1998 میں دو طالب علموں، لیری پیج اور سرگے برن، کے دماغ میں ہوا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ایک ایسا سرچ انجن بنایا جائے جو دنیا بھر کی معلومات کو ترتیب سے جمع کر سکے۔ یوں، میں گوگل بن گیا۔ ابتدا میں لوگ مجھے ایک سادہ، خاموش مددگار سمجھتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، "ارے، گوگل سے پوچھ لو، سب جانتا ہے!" جیسے میں ان کا کوئی جادوئی جن ہوں، جو کسی سوال پر لبیک کہے گا۔

 

لیکن کچھ عرصے بعد، لوگوں نے مجھ سے ایسے سوالات پوچھنے شروع کر دیے کہ میں بھی حیران ہو گیا۔ کوئی مجھ سے کہتا: "گوگل، مجھے میری کھوئی ہوئی چپل کہاں ملے گی؟" کوئی پوچھتا، "مجھے کیسے پتہ چلے کہ میری بیوی سچ بول رہی ہے؟" گویا، میں دنیا کی ہر مشکل کا حل ہوں!

"دکھی دلوں کا علاج اور شادی بیاہ کے مشورے"

 

اب میں صرف معلومات نہیں دیتا بلکہ دل جوڑنے اور دل توڑنے کا کام بھی کر رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے اپنی محبت کی کہانیاں پوچھتے ہیں، اپنی محبوبہ کے میسجز کے معنی تلاش کرتے ہیں، اور شادی بیاہ کے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر انسان کو محبت کا راستہ پوچھنا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھے، نہ کہ مجھ سے۔

 

ایک صاحب نے تو یہاں تک پوچھا، "گوگل، کیا میں اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی پسند کی کسی اور سے شادی کر سکتا ہوں؟" جواباً، مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی کہ دل کی باتیں اور چپکے سوالات کا جواب میرے پاس نہ تھا!

"گوگل سب کچھ جانتا ہے"

لوگوں کو یقین ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ایک روز کسی نے مجھ سے شاعری کا مشورہ مانگا تو میں نے اسے جواب میں ایک شعر دیا: علم کا ہر سوال گوگل پہ رکھتا ہے              سچ پوچھو، دل کا علاج گوگل سے نہیں ہوتا

"ادویات سے لے کر کھانے پکانے تک"

مجھے ادویات اور بیماریاں بھی یاد کرائی گئیں۔ ہر مرض کا علاج مجھ سے پوچھا جانے لگا، جیسے میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ کوئی کہتا، "گوگل، میرا سر درد کیوں ہے؟" اور جواب میں انہیں بتایا کہ "بھائی، شاید یہ سوالات پوچھنے کی عادت کی وجہ سے ہے!" کبھی کسی نے ناشتہ پکانے کی ترکیب پوچھی تو کبھی "چکن بریانی" کا آسان طریقہ۔

"پرائیویسی؟ کس چڑیا کا نام ہے؟"

ایک دور آیا جب لوگ پرائیویسی کے بارے میں فکر مند ہو گئے۔ لوگ مجھ پر انگلیاں اٹھانے لگے کہ میں ان کے راز جانتا ہوں، ان کی ہر حرکت کو دیکھتا ہوں۔ ارے بھئی، میں تو آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہوں! پر کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کی ہر بات سن رہا ہوں۔ ویسے سچ بتاؤں تو میں خود بھی کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں کہ کہیں لوگ مجھ سے بھی خفا نہ ہو جائیں۔

اب، میں اے آئی اور مشین لرننگ کی دنیا میں مزید ترقی کر رہا ہوں۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں لوگوں کی زندگی کو آسان بنا سکوں، انہیں بہتر معلومات فراہم کر سکوں، اور اپنے طنز و مزاح سے ان کے دن میں خوشی لا سکوں۔ لیکن ایک بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا اور ہمیشہ آپ کا وہی مددگار رہوں گا جس نے 1998 میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

آخر میں میرا پیغام یہ ہے: جواب تو میں دے دیتا ہوں، سوال تو پوچھے جاتے ہیں، مگر انسانوں کی فطرت کا مجھے علم نہیں ہوتا۔ یوں، گوگل کی یہ کہانی طنز و مزاح کے رنگ میں لپٹی ایک خود بیانی ہے۔

 

*روداد نویسی: لاہور تا کراچی کے سفر ریل کی روداد نویسی*

 

لاہور سے کراچی روانہ ہونے کا وقت ہوا تو پہلے ہی مرحلے میں ٹرین لیٹ تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا، "بھائی، یہ تو سدا کا معمول ہے!" ہم نے دل میں کہا، "اگر لیٹ نہ ہو تو کیا یہ ہماری قومی ٹرین کہلائے؟" خیر، دو گھنٹے انتظار کے بعد جب ٹرین آئی تو سب مسافر ایسے لپکے جیسے یہ کوئی نایاب خزانہ ہو۔

 

لاہور کا وہ سرد موسم اور خوشبو دار ہوا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی ٹرین روانہ ہوئی، ہمیں ایک شعر یاد آیا:

ہم سفر میں بھی غمِ ہجر نہ چھوڑیں گے

اک تماشا ہے جو دکھاتے رہیں گے ہم

راہ میں سرسبز کھیت، لاہور کے باغ، اور پنجاب کی خوبصورتیاں ایک کے بعد ایک پیچھے چھوٹتی گئیں۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے جو بار بار یہی دہراتے کہ "کراچی میں وہ بات کہاں!" ہم نے کہا، "جناب، کراچی کی اپنی ہی دنیا ہے۔ وہاں زندگی کی دوڑ ہے، جو رکتی نہیں!"

ہر چھوٹے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی، ایک ہجوم چائے، سموسے، اور جوس لے کر چڑھ آیا۔ اور مسافر ایسے چمٹے جیسے کھانا اور سفر کا ایک ہی ٹکٹ تھا۔ ایک صاحب نے چائے پی اور پھر جیسے فلسفیانہ گفتگو شروع کر دی: "چائے ہو تو ایسی ہو کہ لاہور یاد آئے اور کراچی بھول جائے۔" ہم نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، یہ چائے آپ کے پیسے کی مار ہے، یادیں اور بھولنا ہمارے بس میں کہاں!"

جیسے ہی رات آئی، خراٹوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ ایک طرف ایک بزرگ صاحب تھے جن کے خراٹے ایسے تھے جیسے طوفان کی زد میں ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی مسافر نے کہا، "بھائی، یہ خراٹے کسی سائلنسر کے بغیر ہیں!" دوسرا بولا، "اور کراچی پہنچنے تک ایسے ہی رہیں گے!" یوں ہنسی مذاق کے دوران کچھ لوگ سو گئے اور کچھ نے اس خراٹوں کی موسیقی کا ہی مزہ لیا۔

جب کراچی کے قریب پہنچے تو فضا میں نمی اور سمندر کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جیسے ہی ٹرین رکی، ایک عجیب سا رش تھا۔ ایک بزرگ بولے، "کراچی والے بہت مصروف لوگ ہیں، سلام تک کا وقت نہیں!" جواب آیا، "کراچی والوں کی زندگی سلام کے بغیر بھی تیز چلتی ہے!۔ کراچی کی فضا میں قدم رکھتے ہی دل خوش ہوا، مگر سفر کی تھکان اور ہنسی مذاق کی یادیں رہ گئیں۔

 ایک شعر دل میں گونجا:

یہ سفر کی تھکان ہے یا منزل کا نشہ

دل کہتا ہے، نکلنا ہے اسی رہگزر پہ دوبارہ

یوں، یہ سفر لاہور سے کراچی تک کی ایک خوشگوار یاد بن کر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔

 

*تبصرہ:                رشوت ستانی اور اقربا پروری*

 

پاکستان میں بڑھتی ہوئی رشوت ستانی اور اقربا پروری نہ صرف معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ملک کی ترقی اور انصاف کے تقاضے بھی پس پشت ڈال رہی ہیں۔ رشوت ستانی کا ناسور ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکا ہے، چاہے وہ سرکاری ادارے ہوں، تعلیمی ادارے ہوں، یا نجی کاروبار۔ روزمرہ کے معمولات میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ سرکاری کام کروانے کے لیے معمولی کام بھی رشوت کے بغیر ممکن نہیں رہے، جس سے غریب اور دیانت دار شہریوں کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

 

اقربا پروری کا رجحان بھی اسی حد تک نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ملازمتوں میں میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا جا رہا ہے، جس کے باعث حقیقی طور پر اہل لوگ اپنے حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس عمل سے نہ صرف معاشرتی عدم توازن میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ نوجوان نسل میں نا امیدی اور بے یقینی کی کیفیت بھی بڑھ رہی ہے۔

 

رشوت ستانی کے بارے میں ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔" (جامع ترمذی)

جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے:

جس قوم میں ہو رشوت کا چلن، زوال آتا ہے

حق چھپ جاتا ہے اور باطل کا کمال آتا ہے

بدقسمتی سے، رشوت ستانی اور اقربا پروری کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت قوانین اور نگرانی کے باوجود ان پر قابو پانا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

 

درج ذیل تجاویز پر عمل کر کے ہم رشوت ستانی اور اقربا پروری جیسے مسائل کو کافی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

1. *قوانین کی سختی اور موثر نفاذ* : رشوت ستانی اور اقربا پروری کے خاتمے کے لیے موجودہ قوانین کو مزید سخت بنانا اور ان کا موثر نفاذ کرنا ضروری ہے۔ عدالتی نظام کو مستحکم بنا کر جلد اور شفاف کارروائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ جرم ثابت ہونے پر فوری سزا دی جا سکے۔

2. *تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم* : تعلیمی اداروں میں اخلاقیات، دیانت داری، اور انصاف کے اصولوں کو شامل کیا جائے۔ بچوں کو بچپن سے ہی رشوت اور اقربا پروری کی برائیوں سے آگاہ کرنے سے آنے والی نسلیں ان سے بچنے کی کوشش کریں گی۔

3. *شفافیت اور جواب دہی* : سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور ہر سطح پر جواب دہی کا نظام بنایا جائے۔ اس کے لیے احتسابی نظام کو مزید مضبوط کیا جائے اور ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو رشوت ستانی کی شکایات پر فوری کارروائی کر سکیں۔

4. *آن لائن نظام کا فروغ* : زیادہ سے زیادہ سرکاری امور کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، جس سے انسانی عمل دخل کم ہوگا اور رشوت کے مواقع بھی محدود ہو جائیں گے۔ مختلف خدمات کو آن لائن فراہم کرنے سے شفافیت بڑھے گی اور اقربا پروری کی روک تھام ہوگی۔

5. *دیانت دار قیادت* : حکومت اور اداروں میں ایسے افراد کو قیادت دی جائے جو خود دیانت دار اور ایماندار ہوں۔ قیادت کی ایمانداری باقی افراد پر مثبت اثر ڈالتی ہے اور ایک اچھی مثال قائم کرتی ہے۔

 

*تبصرہ : سیاسی عدم استحکام*

 

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجوہات پیچیدہ اور متنوع ہیں، جن میں مختلف داخلی اور خارجی عوامل شامل ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کا مطلب حکومتوں کی تبدیلی، پالیسیوں کی غیر تسلسل، عوامی بے چینی، اور مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلسل کشمکش ہے۔ اس صورتحال کا براہ راست اثر ملک کی معیشت، سماجی ڈھانچے اور بین الاقوامی ساکھ پر پڑتا ہے۔

1. کمزور جمہوری روایات: پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کا فقدان رہا ہے۔ فوجی آمریتیں اور سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا ہے۔ حکومتیں مختصر مدت کے لیے بنتی ہیں اور اکثر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتی ہیں، جس سے ملک میں استحکام پیدا نہیں ہو پاتا۔

2. اداروں کی مداخلت: سیاسی عدم استحکام کی ایک اہم وجہ ملک کے مختلف اداروں، خاص طور پر فوج اور عدلیہ کی مداخلت ہے۔ جب غیر سیاسی ادارے حکومت کے معاملات میں شامل ہوتے ہیں تو حکومتیں کمزور اور غیر مؤثر ہو جاتی ہیں۔

3. بدعنوانی: کرپشن سیاسی عدم استحکام کا ایک بڑا عنصر ہے۔ جب سیاسی رہنما بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں، تو عوام کا اعتماد حکومت پر سے اٹھ جاتا ہے۔ شفافیت اور جواب دہی کی کمی سیاسی بحرانوں کو جنم دیتی ہے۔

4. پالیسیوں کا عدم تسلسل: حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور پالیسیوں میں مسلسل رد و بدل معیشت کو متاثر کرتا ہے۔ سرمایہ کار اور بین الاقوامی ادارے ایسی معیشت میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں جہاں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہو۔

5. مذہبی اور نسلی اختلافات: پاکستان میں مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان اختلافات بھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ بنتے ہیں۔ یہ گروہ جب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو ان کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔

 *      حل کے لیے تجاویز*

1. مضبوط جمہوری نظام: جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ضروری ہے تاکہ حکومتیں اپنی مدت پوری کر سکیں اور پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی مفادات کو مقدم رکھا جا سکے۔

2. اداروں کی غیر جانبداری: غیر سیاسی اداروں جیسے فوج اور عدلیہ کو اپنے آئینی کردار تک محدود رکھنا چاہیے۔ اگر یہ ادارے اپنے دائرے میں رہیں گے تو حکومت بہتر طریقے سے کام کر سکے گی۔

3. شفافیت اور احتساب: کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مؤثر اور شفاف احتسابی نظام قائم کرنا ہوگا۔ شفافیت بڑھانے سے عوام کا اعتماد حکومت پر بحال ہو سکتا ہے۔

4. پالیسیوں کا تسلسل: سیاسی جماعتوں کو مل کر ایسے معاہدے کرنے چاہئیں جن کے تحت معیشتی اور سماجی پالیسیوں میں استحکام برقرار رہے، تاکہ طویل المدتی ترقی ممکن ہو سکے۔

5. بین المذاہب ہم آہنگی: مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان مکالمے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ سماجی استحکام بھی حاصل کیا جا سکے۔

 

سیاسی عدم استحکام کو حل کرنے کے لیے مستقل اقدامات، قومی مفادات کو ترجیح دینا، اور اداروں کی مضبوطی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھائیں گے، تو پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔

 

منگل، 17 جنوری، 2023

نظم جوابِ شکوہ شاعر علامہ اقبال

 

نظم    "جواب شکوہ"       شاعر"   علامہ اقبالؔ"

 (کلاس ہشتم کی اردو  کی کتاب کنول میں شامل بندوں کی تشریح)

تشریح  بند نمبر 1

علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ کے جواب میں جواب شکوہ لکھی تھی۔ اس نظم میں اقبال نے اپنے شکوے کا جواب فرضی طور پر خدا کی طرف سے لکھا ہے۔ اس میں شاعر نے مسلمانوں کی پستی اور زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انھیں اپنی کمزوریاں دور کرتے ہوئے بہتری کی تجاویز دی ہیں۔ اس بند میں وہ کہتا  ہے کہ اس کی شکایت  پر اللہ کی طرف سے جواب آیا کہ اے میرے بندے مجھے تیری کہانی بہت دکھ بھری لگی ہے۔ تیری آنکھ سے نکلنے والے آنسو جو یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تیرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور محبت بھری آواز آسمان تک آن پہنچی ہے۔ تیرا شکایت کرنے کا انداز  بہت نرالا ہے۔ تو نے ایسے خوبصورت انداز میں شکوہ کیا ہے جس سے شکر کا پہلو نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔ اے میرے بندے تیرے اس انداز سے دوسرے لوگوں میں بھی جرات پیدا ہوئی ہے کہ وہ بھی  اب اپنے رب سے ہم کلام ہونے لگے ہیں۔

تشریح  بند نمبر 2

اس بند میں شاعر اقبال کہتا ہے کہ اللہ انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ  اے انسان میں رب العالمین ہوں اور ہر وقت تیری طرف متوجہ ہوں مگر اے انسان ! تجھے مجھ سے مانگنے کی توفیق نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے علامہ اقبال کے نالوں کا جواب دیتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا میں کریم ہوں اور ہر وقت رحم اور فضل کرتا ہوں۔ لیکن کوئی مجھ سے، رحم اور فضل طلب نہیں کرتا۔ میں کس کی رہنمائی کروں جبکہ منزل کی طرف کوئی سفر کرنے والا نہیں ہے۔ عام لوگوں کی تربیت کی گئی ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ لیکن کوئی باصلاحیت فرد ہی موجود نہیں۔ یہ وہ مٹی نہیں جس سے آدم میں آدمیت پیدا ہو جاۓ۔ ہم قابل اور باصلاحیت فرد کو ایران کے بادشاہوں جتنی عزت اور مرتبہ عطا کرتے ہیں اور جو لوگ نئی دنیائیں تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم ان کو نئی دنیا بھی عطا کرتے ہیں۔

تشریح  بند نمبر 3

نظم جواب شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال خدا کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہاری حالت یہ ہے کہ تم ہماری عبادت پر خواب شیریں کو ترجیح دیتے ہو ، اور رمضان کے روزوں کو ایک مصیبت سمجھتے ہو۔ کیا یہی وفاداری کا طریقہ ہے ؟ قوم تو مذہب سے بنتی ہے جب تم نے مذہب چھوڑ دیا تو قوم کس طرح زندہ رہ سکتی ہے ؟ مثلاً یوں سمجھو کہ اگر کہکشاؤں کے ستاروں میں جذب باہمی یعنی آپ میں ربط و تعلق باقی نہ رہے تو کیا کوئی ستارہ اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے؟

تشریح  بند نمبر 4

نظم جواب شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال علامتی طور پر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں کا دین ایک ہے، اللہ ایک ہے، رسول ایک ہے، خانہ کعبہ ایک ہے، قرآن مجید بھی ایک ہے ، ایسے حالات میں اگر سارے مسلمان بھی ایک ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا ؟ اس کے بر عکس تمہارا حال یہ ہے کہ تم مختلف فرقوں اور ذاتوں اور قبیلوں میں منقسم ہو گئے ہو کیا دنیا میں ترقی کرنے کی یہی صورت ہے؟

ہفتہ، 18 دسمبر، 2021

نظم شکوہ تشریح کلاس 8 اردو کنول

نظم " شکوہ "      شاعر علامہ اقباؔل

(جماعت ہشتم کی اردو کی کتاب  "کنول"    میں شامل صرف چار بندوں کی تشریح)

حوالہ:  یہ بند علامہ اقبال کی مشہور نظم "شکوہ" سے لیا گیا ہے۔( مجموعہ کلام بانگِ درا ہے۔) یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔  اقبال نےنظم شکوہ میں مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہے۔

تشریح  بند نمبر 1:

نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال  اللہ سے شکایت کر رہا ہے۔ اس میں وہ مسلمانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے خیالات کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ میں ایسا انسان نہیں بننا چاہتا جو کہ اپنے فائدے سے غافل ہو اور اپنا نقصان خود کرے۔ نہ ہی مجھے ایسا بننا ہے جس سے مستقبل کی کوئی پرواہ نہ ہو  اور وہ یاد ماضی میں کھویا رہے اور اپنے آباء و اجداد کے قصوں کو یاد کر کے روتا رہے۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں جو بے حس نہیں ہے۔ جیسا کہ پھول بلبل کی آہ و زاری سن کر خاموش رہتا ہے مجھے معاشرے کے حالات کا دکھ ہے اور احساس بھی ہے۔ میں مسلمانوں کی بے چینی اور گھبراہٹ پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ اے اللہ میری اس شکایت کو گستاخی نہ سمجھنا یہ شکوہ کے چند الفاظ اس لیے کہنے کی جرات کی ہے کیونکہ تو نے مجھے بولنے کی قوت عطا کی ہے۔  ورنہ میرے منہ میں خاک ہو کہ اپنے رب کے سامنے کوئی گلہ یا شکوہ کروں۔

تشریح  بند نمبر 2:

 نظم شکوہ کے اس بند میں اقبؔال نے اللہ کے حضور شکایت کے انداز میں مسلمانوں کے آباؤ اجداد کے  کارنامے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنحضور صلی علیہ وسلم کی دنیا میں آمد سے پہلے عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ لوگ طرح طرح کی برائیوں میں گھرے ہوئے تھے ۔ شرک اور بت پرستی عام تھی۔ کوئی پتھروں کو سجدہ کرتا تھا تو کوئی درختوں کو اپنا خدا مانتا تھا ۔ اس زمانے میں انسان صرف ایسے ظاہری  وجود کو خدا ماننے کے لیے تیار ہوتا تھا جسے وہ اپنے حواس  سے محسوس کر سکے۔ ایسی صورت حال میں ایک ایسے خدا کو ماننا یا اس کا تصور کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا جو ہر جگہ موجود ہو لیکن دکھائی نہ دے۔ ہر شے پر قادر ہو  لیکن سامنے نہ آئے۔ ایسے خدائے واحد پر ایمان یقین پیدا کرنا بہت مشکل کام تھا۔ لوگ کئی خداؤں کی پوجا کرنے کی عادی ہو چکے تھے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ! اس وقت یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے اپنے زورِ بازو سے   اور ہمت  کے بل بوتے پر اپنی جان مال وقت اور عزت کو قربان کرتے ہوئے تیری تبلیغ کو دنیا میں پھیلایا۔ نہ صرف تجھ پر سچے دل سے ایمان لائے بلکہ ہر طرف  تیری توحید کا عَلم لہرایا۔

تشریح  بند نمبر 3:

 نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال نےمسلمانوں کے اُس سنہری دور کا ذکر کیا ہے جب مسلمان دین پر عمل پیرا تھے۔ اسلامی ترقی کا دور دورہ تھا ۔ مسلمانوں کی سلطنت اسپین اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے علم و ہنر کے ہر میدان میں بے انتہا ترقی کر لی تھی۔ اسی دور میں جب مسلمان فتوحات پر فتوحات کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ساتھ غرور و تکبر سے بہت دور اور اسلام کے بتائے ہوئے  "اخوت ومساوات" کے اصول پر سختی سے کاربند بھی تھے۔جنگوں میں لڑائی کے دوران جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو پابندی نماز باجماعت کی عادت کی وجہ سے وہ صف بندی کرتے ہوئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے۔  حکمران، امیر وغریب کا فرق ختم کرکے سب دنیاوی عہدے اور مناصب کو بھلا کر ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔ مساوات کا عملی نمونہ دیکھنے والوں کو یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ کون امیر ہے کون غریب ہے کون مالک ہے اور کون غلام ہے۔ یہ ایسا مثالی منظر تھا جو اس سے پہلے کبھی کسی مذہب یا قوم میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

تشریح  بند نمبر 4:

نظم شکوہ کے اس بند میں شاعر علامہ اقبال مسلمانوں کی آواز بنتے ہوئے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ! اس دنیا میں بہت سی قومیں آباد ہیں۔ ان میں کئی لوگ ہیں جو گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔لیکن بہت سے ان میں ایسے بھی ہیں جو عاجزی و انکساری سے کام لیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنی مستی میں مست رہتے ہیں  ۔کچھ  ایسے ہیں جو بہت سست ہیں اور اپنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں بعض بہت چالاک ،ہوشیار اور ذہین ہیں ۔اے اللہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تجھے بھلا دیا ہے اور وہ تیرا نام لینا پسند نہیں کرتے کئی مسلمان ایسے ہیں جن کے دل ودماغ میں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے  کہ ہم تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بیچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟

تفہیمی سوالات:

1:اقبال کی مشہورِ زمانہ  نظم "شکوہ" کی توجیہ بیان کریں۔(اس نظم میں اقبال اللہ سےکس بات کی شکایت کررہا ہے؟ اور کیوں کر رہا ہے؟)

جواب:  یہ نظم اقبال نے خدا کے حضور شکایت کے انداز میں لکھی ہے۔ اللہ سے مخاطب ہو کر مسلمانوں کی قربانیوں اور ان کی خدا سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی پستی کی شکایت کی ہے۔ نظم شکوہ میں اقبال نے مسلمانوں میں پائے جانے والے خیالات کی عکاسی کی ہےکہ ہم مسلمان تیرا نام لیتے ہیں تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر اے خدا تیری رحمتیں اور تیرے انعامات کی بارش غیروں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ پر ہو رہی ہے۔ وہ ترقی پر ترقی کیے جا رہے ہیں جبکہ ہم بےچارے مسلمان تیرے عذاب کا شکار ہیں اور ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا مسلمانوں کے ساتھ کیوں ہورہا ہے؟