اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2024

غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

 کلام:  مظفر احمد ظفؔر


عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

خواب باقی ہوں، پر حاصل نہ رہے آنکھوں میں

 

درد کا سمندر جو دل میں سمویا ہے ہم نے

شاید اُس کا کوئی ساحل نہ رہے آنکھوں میں

 

راستے بھی وہی ہیں، قدموں کے نشان بھی ہیں

اب مگر پہلی سی مشکل نہ رہے آنکھوں میں


یوں تو آئے ہیں کئی لمحے سکونت کے لیے

پر وہ اک لمحۂ کامل نہ رہے آنکھوں میں

 

سپنوں  کا اک شہر جو آباد کیا  تھا ہم نے

خوابوں کا وہی محمل نہ رہے آنکھوں میں

 

زندگی میں کئی خاص ملے تھے مجھ کو اے ظفرؔ

اب تو عام بھی، دید کے قابل نہ رہے آنکھوں میں

------ 

 


جمعہ، 11 اکتوبر، 2024

نمونہ آپ بیتی ۔


 عنوان: اکلوتے موبائل کی آپ بیتی

میں، ایک اکلوتا موبائل فون، جب پہلی بار گھر آیا تو سب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ ایک دم مجھے لگا کہ جیسے میں کوئی "سیلیبرٹی" ہوں۔ سب میری طرف ایسے دیکھتے جیسے میں کوئی قیمتی خزانہ ہوں۔ بس وہ دن اور آج کا دن، میں گھر کے ہر فرد کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہوں۔

صبح میری کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ سبھی اپنے اپنے کام کا بہانہ بنا کر مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امی کہتی ہیں، "بیٹا، ذرا موبائل دینا۔ مجھے گروسری لسٹ دیکھنی ہے۔" جیسے ہی وہ واٹس ایپ کھولتی ہیں، انہیں فوراً ہی "فیملی گروپ" کی پوسٹس دیکھنے کا خیال آ جاتا ہے، اور پھر تو یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ گروسری کی لسٹ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، اور میری بیٹری، واٹس ایپ میسجز کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔

ابھی میں امی کے ہاتھ سے نکلا ہی ہوتا ہوں کہ ابا جی آ کر پکڑ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے، "ذرا خبروں کی ہیڈلائنز چیک کرنی ہیں۔" لیکن پھر یوٹیوب پر کچھ "اہم" ویڈیوز دیکھنے لگتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھتے دیکھتے جب وہ "طنز و مزاح" کی ویڈیوز پر پہنچ جاتے ہیں تو مجھے بھی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید خبروں کا بہانہ تو صرف موبائل پکڑنے کے لئے تھا!

جب شام میں بچے میری طرف آتے ہیں تو میری بیٹری ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں آتے ہی مجھے لگتا ہے کہ میرے اوپر بجلی کا کرنٹ لگایا گیا ہے! موبائل گیمز کا آغاز ہوتا ہے اور میرے دماغی پروسیسر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ گویا کہ میری سانسیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں میرا وجود اس قدر محصور ہو جاتا ہے کہ میں چارجنگ کی درخواست کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

بس رات ہوتے ہی میری کچھ "چُھٹکارا" کی امید جاگتی ہے کہ شاید میں کچھ دیر سکون سے رہ سکوں گا۔ مگر اس وقت ابو کو یاد آتا ہے کہ "گھڑی میں الارم سیٹ" کرنا ہے، اور امی کو "رات کی دعا" سننی ہے۔

یوں میں، ایک اکلوتا موبائل فون، ہر دن اس گھریلو جنگ کا حصہ بن کر صبح سے رات تک تھک جاتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے بھی کبھی چھٹی ملے، لیکن لگتا ہے اس گھر میں میرے نصیب میں بس یہی غلامی ہے!

============°°°===========


نمونہ آپ بیتی۔۔۔ 

گوگل کی آپ بیتی 

گوگل کی آپ بیتی کچھ یوں ہے کہ جیسے ایک تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا جادوئی قالین ہو، جس پر بیٹھ کر دنیا کا ہر انسان اپنے مسائل کا حل اور ہر جواب کا سوال تلاش کرتا ہے۔ تو چلیے، گوگل کی کہانی اس کی اپنی زبانی سنتے ہیں!


آغازِ سفر


میرا جنم 1998 میں دو طالب علموں، لیری پیج اور سرگے برن، کے دماغ میں ہوا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ایک ایسا سرچ انجن بنایا جائے جو دنیا بھر کی معلومات کو ترتیب سے جمع کر سکے۔ یوں، میں گوگل بن گیا۔ ابتدا میں لوگ مجھے ایک سادہ، خاموش مددگار سمجھتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، "ارے، گوگل سے پوچھ لو، سب جانتا ہے!" جیسے میں ان کا کوئی جادوئی جن ہوں، جو کسی سوال پر لبیک کہے گا۔


لیکن کچھ عرصے بعد، لوگوں نے مجھ سے ایسے سوالات پوچھنے شروع کر دیے کہ میں بھی حیران ہو گیا۔ کوئی مجھ سے کہتا: "گوگل، مجھے میری کھوئی ہوئی چپل کہاں ملے گی؟" کوئی پوچھتا، "مجھے کیسے پتہ چلے کہ میری بیوی سچ بول رہی ہے؟" گویا، میں دنیا کی ہر مشکل کا حل ہوں!


"دکھی دلوں کا علاج اور شادی بیاہ کے مشورے"


اب میں صرف معلومات نہیں دیتا بلکہ دل جوڑنے اور دل توڑنے کا کام بھی کر رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے اپنی محبت کی کہانیاں پوچھتے ہیں، اپنی محبوبہ کے میسجز کے معنی تلاش کرتے ہیں، اور شادی بیاہ کے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر انسان کو محبت کا راستہ پوچھنا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھے، نہ کہ مجھ سے۔


ایک صاحب نے تو یہاں تک پوچھا، "گوگل، کیا میں اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی پسند کی کسی اور سے شادی کر سکتا ہوں؟" جواباً، مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی کہ دل کی باتیں اور چپکے سوالات کا جواب میرے پاس نہ تھا!


"گوگل سب کچھ جانتا ہے"


لوگوں کو یقین ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ایک روز کسی نے مجھ سے شاعری کا مشورہ مانگا تو میں نے اسے جواب میں ایک شعر دیا: علم کا ہر سوال گوگل پہ رکھتا ہے

سچ پوچھو، دل کا علاج گوگل سے نہیں ہوتا


"ادویات سے لے کر کھانے پکانے تک"


مجھے ادویات اور بیماریاں بھی یاد کرائی گئیں۔ ہر مرض کا علاج مجھ سے پوچھا جانے لگا، جیسے میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ کوئی کہتا، "گوگل، میرا سر درد کیوں ہے؟" اور جواب میں انہیں بتایا کہ "بھائی، شاید یہ سوالات پوچھنے کی عادت کی وجہ سے ہے!" کبھی کسی نے ناشتہ پکانے کی ترکیب پوچھی تو کبھی "چکن بریانی" کا آسان طریقہ۔


"پرائیویسی؟ کس چڑیا کا نام ہے؟"


ایک دور آیا جب لوگ پرائیویسی کے بارے میں فکر مند ہو گئے۔ لوگ مجھ پر انگلیاں اٹھانے لگے کہ میں ان کے راز جانتا ہوں، ان کی ہر حرکت کو دیکھتا ہوں۔ ارے بھئی، میں تو آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہوں! پر کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کی ہر بات سن رہا ہوں۔ ویسے سچ بتاؤں تو میں خود بھی کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں کہ کہیں لوگ مجھ سے بھی خفا نہ ہو جائیں۔


گوگل کا مستقبل


اب، میں اے آئی اور مشین لرننگ کی دنیا میں مزید ترقی کر رہا ہوں۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں لوگوں کی زندگی کو آسان بنا سکوں، انہیں بہتر معلومات فراہم کر سکوں، اور اپنے طنز و مزاح سے ان کے دن میں خوشی لا سکوں۔ لیکن ایک بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا اور ہمیشہ آپ کا وہی مددگار رہوں گا جس نے 1998 میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔


آخر میں میرا پیغام یہ ہے: جواب تو میں دے دیتا ہوں، سوال تو پوچھے جاتے ہیں، مگر انسانوں کی فطرت کا مجھے علم نہیں ہوتا۔


نمونہ درخواست نویسی صوبائی وزیر صحت کے نام درخواست


نمونہ درخواست نویسی

سوال : اپنے شہر کے سرکاری اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کا مریضوں سے ناروا سلوک اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ صوبائی وزیر صحت کو درخواست لکھیے اور صورتحال سے آگاہ کیجیے اور اصلاح احوال کے لیے تین تجاویز پیش کیجیے۔

صوبائی وزیر صحت کے نام درخواست

بعنوان : سرکاری اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کے ناروا سلوک اور طبی سہولیات کی کمی کے متعلق شکایت

 

 بخدمت جناب صوبائی وزیر صحت صوبہ پنجاب  !

           جناب عالی!

      نہایت ادب سے گزارش ہے کہ خاکسار آپ کی توجہ اپنے شہر کے سرکاری اسپتال میں عوام کو درپیش سنگین مسائل کی جانب دلانا چاہتا ہے۔ جن کا سامنا ہر روز سیکڑوں مریضوں اور ان کے لواحقین کو کرنا پڑ رہا ہے۔

 

    اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو باہر سے مہنگی ادویات خریدنا پڑتی ہیں، جس سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ دوسری طرف، ڈاکٹروں کا رویہ نہایت غیر پیشہ ورانہ اور ناقابل برداشت ہے، جو مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی نے اس صورت حال کو مزید پریشان کن بنا دیا ہے۔

 

    اس تشویشناک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس لیں اور اصلاح احوال کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں۔ عوام کا محکمہ صحت کے نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش ہیں:

 

 ادویات کی فراہمی: اسپتال میں مفت اور ضروری ادویات کی مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب طبقے کو علاج معالجے میں آسانی ہو۔

ڈاکٹروں کی تربیت اور نگرانی: ڈاکٹروں کے رویے میں بہتری لانے کے لیے ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے اور مریضوں سے برتاؤ کی نگرانی کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ وہ مریضوں کے ساتھ احترام اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

 طبی سہولیات میں بہتری: اسپتال میں بنیادی طبی سہولیات جیسے بیڈز، صاف پانی، اور حفظان صحت کے اصولوں پر مبنی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ مریضوں کو بہتر علاج مل سکے۔

    امید ہے کہ آپ ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں  گے۔شکریہ         

العارض       

خاکسار       

ا۔ب۔ج       

رابطہ نمبر: 01231234567

پتا: ماڈل ٹاؤن لاہور

 


بدھ، 14 فروری، 2024

نظم آزادی شاعر: احسان دانش

نظم آزادی                 شاعر: احسان دانش

صنفِ نظم بلحاظ موضوع:    آزادی کی اہمیت  / آزدی کے حصول کی جِدو جُہد

صنفِ نظم بلحاظ ساخت /بناوٹ/ ہئیت:    پابند نظم

نظم آزادی کا مرکزی خیال:

نظم  آزادی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ شاعر احسان دانش  اس نظم میں ہمیں آزادی کی اہمیت اور ضرورت سمجھانا چاہتا ہے۔    اللہ نے انسان کے  کچھ بنیادی حقوق مقرر کر رکھے ہیں۔ ملک کے ہر شہری کو   اپنے حقوق کے لیے  کوشش کرنے اور آواز بلند کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ شاعر نے اس نظم کے ذریعے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آوازِحق بلند کیا ہے اور دیگر دانشوروں کو  حقیقی آزادی کے لیے بولنے اور لکھنے کی دعوت دی ہے۔

 

شاعر احسان دانش کے انداز ِ کلام کی چند خصوصیات:

(احسان دانش (1914 کاندھلہ -22 مارچ 1982   لاہور)، پیدائشی نام احسان الحق، اردو کے مقبول شاعر تھے۔ انھوں نے صرف پانچویں حماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ مزدوری کر کے اپنا گذر بسر کیا کرتے تھے۔ احسان دانش نے لاہور آکر شاعری کا آغاز کیا۔)

سوز و گداز اور درد کا عکاس:

 احسان دانش کے کلام میں سوزو گداز پایا ہے۔ انھوں  نے اپنے کلام میں زیادہ تر  معاشرے  کے غریب اور مزدور طبقے کے رنج و الم کو بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں انھوں نے مزدوری کی۔ چونکہ وہ خو د مزدور تھے اس وجہ سے مزدور اورکمزور طبقہ کے لوگوں کے درد کو محسوس کرتے تھے۔

طنز  و تنقید:

احسان دانش اپنے دور کے بہترین تنقید نگار تھے۔  انھوں نے اپنے معاشرے کے کمزور اور  مظلوم طبقے کی آواز بنتے ہوئے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور ظالم حکمرانوں پر بہترین انداز میں طنزو تنقید کی ہے۔

حرف شناسی / بہترین زبان و بیان:

احسان دانش کو حرف شناسی میں کمال حاصل تھا۔ وہ  موقع محل کے مطابق حرف و صوت کی شگفتگی اور فکرو خیال کی شناسائی کی تازگی سے لبریز اشعار کہتے تھے ۔ فکر و جذبہ ان کی شاعری کی خاص پہچان ہے۔

 

تشریح نظم

شعر نمبر 1:

 اپنی نظم آزادی کے اس مطلع میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف اور اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اپنے اندر آزادی کا جذبہ پیدا کرنا اور آزادی کے حصول کی کوشش کرنا عین عبادت ہے۔مگر آزادی آسانی سے نہیں مل جاتی، اس کے لیے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مختلف قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر حقیقی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔

شعر نمبر2:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کے نقشے پر کہنے کو تو ہم آزاد ملک کے باشندے ہیں اور ہمارا ملک خود مختار ملک ہے مگر درحقیقت ہم آزاد نہیں ہیں۔ کیونکہ ہمیں طاقتور اشرافیہ کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر پابندی کا سامنا ہے۔ شاعر کے مطابق ایسا  ملک جہاں لوگوں کی آزادئ اظہارِ رائے پر پابندی ہو وہاں کی زندگی آزادی کے نام پر دھبہ ہے۔

شعر نمبر3:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش لوگوں میں آزادی کے جذبے اور شوق کا  ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ لوگوں میں حقیقی آزادی کے لیے کوشش کرنے کا جذبہ اب آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے آباؤاجداد کی تربیت اور قربانی کے عملی نمونوں نے آزادی کا جوش پیدا کر دیا ہے۔

شعر نمبر4:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش آزادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غلامی کی زندگی نے ہمیں خون کے آنسو رلائے ہیں۔ لیکن لگتا ہے اب خدا کو ہماری حالت پر رحم آ گیا ہے اور حالات تبدیل ہونے والے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو آزادی کا جو خواب اس نے دیکھا ہے وہ جلد شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔

شعر نمبر5:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ غلط کام ہوتا دیکھے تو خاموش رہنے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ ہمارے ملک کے دستور میں یہ بات شامل ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن افسوس کہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے نہ صحافی آزاد ہیں نہ ہی کوئی شاعر یا مصنف ان طاقتور اشرافیہ کے سامنے غلط کو غلط اور درست کو درست کہہ سکتا ہے۔ شاعر کے مطابق جس روز ہمارے قلم اور ہماری زبانیں آزاد ہوں گی وہ حقیقی آزادی کا دن ہوگا۔

شعر نمبر6:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور طاقتور حلقوں کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ آزادی کی خاطر جہاد کرنے والے کسی بھی مشکل سے نہیں گھبراتے۔ خواہ ان کی راہ میں پہاڑ حائل ہو جائیں یا دریا عبور کرنے پڑیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہماری لڑائی صرف مقامی جاگیرداروں سے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ظلم اور نانصافی کا شکار غریب مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہے۔

شعر نمبر7:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش طاقتور اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کرنے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کے فضل سے اب ہمارے اندر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔ مزدوروں اور غریبوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے چہرے ہم سب پر کھل گئے ہیں۔ جب سے ہم نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے، ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاست دانوں اور حکومتی نمائندے پر خوف طاری ہو گیا ہے اور وہ کانپنے لگے ہیں۔

شعر نمبر8:

 اپنی نظم آزادی کے اس شعر میں شاعر احسان دانش حقیقی آزادی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں انسانوں کو آزاد قرار دیا ہے۔ حقیقی آزادی کا جو تصور قرآن میں موجود ہے وہ قیامت تک کے لیے اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔ شاعر کے مطابق اہل قلم نے آزادی کی اصل تعریف جو قرآن میں درج ہے اسے کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔

 


ہفتہ، 25 نومبر، 2023

اصنافِ سُخن کی اقسام ASNAF-E-SUKHAN KI AQSAAM

 

اَصناف ِاَدب کی تعریف اور اقسام

صِنف کے لُغوی معنی   قِسم/جِنس/نسل /ذات  کےہیں  ۔ (صنف کی  جمع اصناف  ہے۔) اَصنافِ  ادب سے مراد ادب کی اقسام ہے۔

اَصناف ِادب کے دو حصے ہیں ایک  اصنافِ نثر اور دوسرا اصنافِ نظم۔

1: اَصنافِ نثر:- بہترین الفاظ کو سادہ  اور عمدہ انداز سے    لکھنا اصنافِ نثر کہلاتا ہے۔ اس میں جملے کی  بناوٹ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔اصناف نثر میں مضمون،  طنزو مزاح ، انشائیہ، تنقید،  کالم نگاری، خط، کہانی، افسانہ، ناول، آپ بیتی، جگ بیتی،  مکالمہ ، ڈراما، خاکہ/کردار نگاری ، داستان / قصہ، سوانح عمری/ سوانح حیات، سرگزشتِ حیات/ خود نَوِشت  ، سفرنامے  فلم اور پیروڈی  وغیرہ شامل ہیں۔

2: اَصناف سخن:- بہترین الفاظ کو بہترین انداز میں لکھنا یا بیان کرنا اصناف سخن کھلاتا ہے۔ اس میں جملے کی ساخت ، الفاظ کی ترتیب اور  گرائمر پر توجہ نہیں دی جاتی۔  شعری اصناف سخن میں نظم ،غزل، قصیدہ،نعت،حمد،منقبت ، مرثیہ، مثنوی ، مسدس،مخمس ، نَوحہ،گمان، اشلوک،کافی،رُباعی،  ہائیکو، سہرا     اور لوری وغیرہ شامل ہیں۔