عنوان: اکلوتے موبائل کی آپ بیتی
میں، ایک اکلوتا موبائل فون، جب پہلی بار گھر آیا تو سب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ ایک دم مجھے لگا کہ جیسے میں کوئی "سیلیبرٹی" ہوں۔ سب میری طرف ایسے دیکھتے جیسے میں کوئی قیمتی خزانہ ہوں۔ بس وہ دن اور آج کا دن، میں گھر کے ہر فرد کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہوں۔
صبح میری کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ سبھی اپنے اپنے کام کا بہانہ بنا کر مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امی کہتی ہیں، "بیٹا، ذرا موبائل دینا۔ مجھے گروسری لسٹ دیکھنی ہے۔" جیسے ہی وہ واٹس ایپ کھولتی ہیں، انہیں فوراً ہی "فیملی گروپ" کی پوسٹس دیکھنے کا خیال آ جاتا ہے، اور پھر تو یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ گروسری کی لسٹ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، اور میری بیٹری، واٹس ایپ میسجز کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔
ابھی میں امی کے ہاتھ سے نکلا ہی ہوتا ہوں کہ ابا جی آ کر پکڑ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے، "ذرا خبروں کی ہیڈلائنز چیک کرنی ہیں۔" لیکن پھر یوٹیوب پر کچھ "اہم" ویڈیوز دیکھنے لگتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھتے دیکھتے جب وہ "طنز و مزاح" کی ویڈیوز پر پہنچ جاتے ہیں تو مجھے بھی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید خبروں کا بہانہ تو صرف موبائل پکڑنے کے لئے تھا!
جب شام میں بچے میری طرف آتے ہیں تو میری بیٹری ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں آتے ہی مجھے لگتا ہے کہ میرے اوپر بجلی کا کرنٹ لگایا گیا ہے! موبائل گیمز کا آغاز ہوتا ہے اور میرے دماغی پروسیسر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ گویا کہ میری سانسیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں میرا وجود اس قدر محصور ہو جاتا ہے کہ میں چارجنگ کی درخواست کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
بس رات ہوتے ہی میری کچھ "چُھٹکارا" کی امید جاگتی ہے کہ شاید میں کچھ دیر سکون سے رہ سکوں گا۔ مگر اس وقت ابو کو یاد آتا ہے کہ "گھڑی میں الارم سیٹ" کرنا ہے، اور امی کو "رات کی دعا" سننی ہے۔
یوں میں، ایک اکلوتا موبائل فون، ہر دن اس گھریلو جنگ کا حصہ بن کر صبح سے رات تک تھک جاتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے بھی کبھی چھٹی ملے، لیکن لگتا ہے اس گھر میں میرے نصیب میں بس یہی غلامی ہے!
============°°°===========
نمونہ آپ بیتی۔۔۔
گوگل کی آپ بیتی
گوگل کی آپ بیتی کچھ یوں ہے کہ جیسے ایک تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا جادوئی قالین ہو، جس پر بیٹھ کر دنیا کا ہر انسان اپنے مسائل کا حل اور ہر جواب کا سوال تلاش کرتا ہے۔ تو چلیے، گوگل کی کہانی اس کی اپنی زبانی سنتے ہیں!
آغازِ سفر
میرا جنم 1998 میں دو طالب علموں، لیری پیج اور سرگے برن، کے دماغ میں ہوا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ایک ایسا سرچ انجن بنایا جائے جو دنیا بھر کی معلومات کو ترتیب سے جمع کر سکے۔ یوں، میں گوگل بن گیا۔ ابتدا میں لوگ مجھے ایک سادہ، خاموش مددگار سمجھتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، "ارے، گوگل سے پوچھ لو، سب جانتا ہے!" جیسے میں ان کا کوئی جادوئی جن ہوں، جو کسی سوال پر لبیک کہے گا۔
لیکن کچھ عرصے بعد، لوگوں نے مجھ سے ایسے سوالات پوچھنے شروع کر دیے کہ میں بھی حیران ہو گیا۔ کوئی مجھ سے کہتا: "گوگل، مجھے میری کھوئی ہوئی چپل کہاں ملے گی؟" کوئی پوچھتا، "مجھے کیسے پتہ چلے کہ میری بیوی سچ بول رہی ہے؟" گویا، میں دنیا کی ہر مشکل کا حل ہوں!
"دکھی دلوں کا علاج اور شادی بیاہ کے مشورے"
اب میں صرف معلومات نہیں دیتا بلکہ دل جوڑنے اور دل توڑنے کا کام بھی کر رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے اپنی محبت کی کہانیاں پوچھتے ہیں، اپنی محبوبہ کے میسجز کے معنی تلاش کرتے ہیں، اور شادی بیاہ کے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر انسان کو محبت کا راستہ پوچھنا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھے، نہ کہ مجھ سے۔
ایک صاحب نے تو یہاں تک پوچھا، "گوگل، کیا میں اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی پسند کی کسی اور سے شادی کر سکتا ہوں؟" جواباً، مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی کہ دل کی باتیں اور چپکے سوالات کا جواب میرے پاس نہ تھا!
"گوگل سب کچھ جانتا ہے"
لوگوں کو یقین ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ایک روز کسی نے مجھ سے شاعری کا مشورہ مانگا تو میں نے اسے جواب میں ایک شعر دیا: علم کا ہر سوال گوگل پہ رکھتا ہے
سچ پوچھو، دل کا علاج گوگل سے نہیں ہوتا
"ادویات سے لے کر کھانے پکانے تک"
مجھے ادویات اور بیماریاں بھی یاد کرائی گئیں۔ ہر مرض کا علاج مجھ سے پوچھا جانے لگا، جیسے میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ کوئی کہتا، "گوگل، میرا سر درد کیوں ہے؟" اور جواب میں انہیں بتایا کہ "بھائی، شاید یہ سوالات پوچھنے کی عادت کی وجہ سے ہے!" کبھی کسی نے ناشتہ پکانے کی ترکیب پوچھی تو کبھی "چکن بریانی" کا آسان طریقہ۔
"پرائیویسی؟ کس چڑیا کا نام ہے؟"
ایک دور آیا جب لوگ پرائیویسی کے بارے میں فکر مند ہو گئے۔ لوگ مجھ پر انگلیاں اٹھانے لگے کہ میں ان کے راز جانتا ہوں، ان کی ہر حرکت کو دیکھتا ہوں۔ ارے بھئی، میں تو آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہوں! پر کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کی ہر بات سن رہا ہوں۔ ویسے سچ بتاؤں تو میں خود بھی کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں کہ کہیں لوگ مجھ سے بھی خفا نہ ہو جائیں۔
گوگل کا مستقبل
اب، میں اے آئی اور مشین لرننگ کی دنیا میں مزید ترقی کر رہا ہوں۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں لوگوں کی زندگی کو آسان بنا سکوں، انہیں بہتر معلومات فراہم کر سکوں، اور اپنے طنز و مزاح سے ان کے دن میں خوشی لا سکوں۔ لیکن ایک بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا اور ہمیشہ آپ کا وہی مددگار رہوں گا جس نے 1998 میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
آخر میں میرا پیغام یہ ہے: جواب تو میں دے دیتا ہوں، سوال تو پوچھے جاتے ہیں، مگر انسانوں کی فطرت کا مجھے علم نہیں ہوتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔