اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

منگل، 15 اکتوبر، 2024

رسمی خط کا نمونہ، پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں

رسمی خط کا نمونہ، پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں

*ڈی ایس پی صاحب کے نام خط*

موضوع: چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کے متعلق آگاہی اور اصلاح احوال کی درخواست

 

امتحانی مرکز

6-اکتوبر 2024ء

مکرم و محترم ڈی ایس پی صاحب، ضلع ایسٹ کراچی!

آداب!

خاکسار آپ کی توجہ انتہائی اہم اور سنگین مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے، جو کہ ہمارے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔

حالیہ چند مہینوں کے دوران، خاص طور پر  ناظم آباد کے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور یہ واقعات عوام کی جان و مال کے لیے سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

عام شہریوں کو دن دہاڑے قیمتی اشیاء، نقدی اور موبائل فون سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اکثر مزاحمت پر ڈاکو فائرنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے بلکہ علاقے کے امن و امان کے لیے بھی سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

یہ مسئلہ بہت ہی تشویشناک ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ صورت حال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔

 میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سنگین مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

  • علاقے میں پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
  •  مشکوک افراد کی نشاندہی کے لیے عوام کو شامل کیا جائے اور علاقائی کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تاکہ پولیس کے ساتھ تعاون ممکن ہو سکے۔
  • سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں اور ان کی مدد سے وارداتوں کی نشاندہی کی جائے۔
  • عوام کو خود حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کے لیے پولیس کی جانب سے خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
  •  جرائم پیشہ افراد کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے۔

میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر فوری نوٹس لیں گے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔

شکریہ!

والسلام

خاکسار

ا۔ب۔ج      

ناظم آباد کراچی

 


ہفتہ، 12 اکتوبر، 2024

مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام ۔۔۔۔ طنزو مزاح

 مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام


دہلی، 25 جولائی 2024ء

پیارے جناح،

سلام مسنون! امید ہے کہ آپ وہاں بخیریت ہوں گے۔ کراچی کی تپتی دھوپ اور ٹریفک کے بپھرے ہوئے سمندر کے متعلق جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں، ان پر کچھ عرض کیے بغیر رہنا مشکل تھا۔ ویسے، میں دہلی میں بیٹھ کر کراچی کے موسم اور حالات پر کیا ہی کہہ سکتا ہوں، لیکن جیسے دل کا مریض ڈاکٹروں کو مشورے دینے لگتا ہے، ویسے ہی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔


دیکھیے، میری طبیعت تو اب ان چکروں سے باہر نکلنے کی نہیں ہے۔ میں یہاں دہلی میں بھی اگر بارش ہو جائے تو چھت کے نیچے ہی بیٹھا ہوں کہ کہیں بارش کا ایک قطرہ نہ گر جائے۔ اب کراچی میں جو حالات چل رہے ہیں، جیسے شہر کے سڑکیں پانی سے بھر کر تالاب بن گئیں ہیں، اور ٹریفک کے قافلے ایسے گھومتے ہیں جیسے کسی میدان جنگ میں صف بندی ہو رہی ہو، ان پر بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو بستر سے باہر نکلنے کا خیال ہی بے چین کر دیتا ہے۔


ویسے آپ کا کراچی کا سفر کچھ یوں ہے جیسے میرؔ کا سفر لکھنؤ ہوا کرتا تھا؛ بس فرق یہ ہے کہ وہاں تو شاعری ہوتی تھی، اور یہاں شہری انتظامیہ کے قصے! عوامی ٹرانسپورٹ کا عالم تو یہ ہے کہ آدمی رکشے میں بیٹھے تو رکشے والے کا حال یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اب اگلے چوک پر قسمت کا نیا پانسہ پلٹنے والا ہو کہ پٹرول ہوگا یا نہیں۔


تو، پیارے قائد، دل کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جو بارش برستی ہے وہ تو ہمیں یہاں دہلی سے بھی سیراب کر جاتی ہے، مگر عوام کے دلوں میں جو امید کی خشکی ہے، اس کے خاتمے کا موسم ابھی شاید آپ ہی کے آنے سے آئے گا۔ دعا ہے کہ آپ کی قیادت میں کراچی کے ٹریفک اور سیوریج کا پانی یوں بہہ جائے جیسے میرا قلم کاغذ پر بہتا تھا، اور شہریوں کو ایسا چین ملے جیسے ہمیں ایک بھرپور نیند میں ملتا ہے۔

آپ کی صحت اور کراچی کی قسمت کی بہتری کی دعا کے ساتھ،


آپ کا مخلص، غالب


غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

 کلام:  مظفر احمد ظفؔر


عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

خواب باقی ہوں، پر حاصل نہ رہے آنکھوں میں

 

درد کا سمندر جو دل میں سمویا ہے ہم نے

شاید اُس کا کوئی ساحل نہ رہے آنکھوں میں

 

راستے بھی وہی ہیں، قدموں کے نشان بھی ہیں

اب مگر پہلی سی مشکل نہ رہے آنکھوں میں


یوں تو آئے ہیں کئی لمحے سکونت کے لیے

پر وہ اک لمحۂ کامل نہ رہے آنکھوں میں

 

سپنوں  کا اک شہر جو آباد کیا  تھا ہم نے

خوابوں کا وہی محمل نہ رہے آنکھوں میں

 

زندگی میں کئی خاص ملے تھے مجھ کو اے ظفرؔ

اب تو عام بھی، دید کے قابل نہ رہے آنکھوں میں

------ 

 


جمعہ، 11 اکتوبر، 2024

نمونہ آپ بیتی ۔


 عنوان: اکلوتے موبائل کی آپ بیتی

میں، ایک اکلوتا موبائل فون، جب پہلی بار گھر آیا تو سب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ ایک دم مجھے لگا کہ جیسے میں کوئی "سیلیبرٹی" ہوں۔ سب میری طرف ایسے دیکھتے جیسے میں کوئی قیمتی خزانہ ہوں۔ بس وہ دن اور آج کا دن، میں گھر کے ہر فرد کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہوں۔

صبح میری کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ سبھی اپنے اپنے کام کا بہانہ بنا کر مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امی کہتی ہیں، "بیٹا، ذرا موبائل دینا۔ مجھے گروسری لسٹ دیکھنی ہے۔" جیسے ہی وہ واٹس ایپ کھولتی ہیں، انہیں فوراً ہی "فیملی گروپ" کی پوسٹس دیکھنے کا خیال آ جاتا ہے، اور پھر تو یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ گروسری کی لسٹ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، اور میری بیٹری، واٹس ایپ میسجز کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔

ابھی میں امی کے ہاتھ سے نکلا ہی ہوتا ہوں کہ ابا جی آ کر پکڑ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے، "ذرا خبروں کی ہیڈلائنز چیک کرنی ہیں۔" لیکن پھر یوٹیوب پر کچھ "اہم" ویڈیوز دیکھنے لگتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھتے دیکھتے جب وہ "طنز و مزاح" کی ویڈیوز پر پہنچ جاتے ہیں تو مجھے بھی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید خبروں کا بہانہ تو صرف موبائل پکڑنے کے لئے تھا!

جب شام میں بچے میری طرف آتے ہیں تو میری بیٹری ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں آتے ہی مجھے لگتا ہے کہ میرے اوپر بجلی کا کرنٹ لگایا گیا ہے! موبائل گیمز کا آغاز ہوتا ہے اور میرے دماغی پروسیسر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ گویا کہ میری سانسیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں میرا وجود اس قدر محصور ہو جاتا ہے کہ میں چارجنگ کی درخواست کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

بس رات ہوتے ہی میری کچھ "چُھٹکارا" کی امید جاگتی ہے کہ شاید میں کچھ دیر سکون سے رہ سکوں گا۔ مگر اس وقت ابو کو یاد آتا ہے کہ "گھڑی میں الارم سیٹ" کرنا ہے، اور امی کو "رات کی دعا" سننی ہے۔

یوں میں، ایک اکلوتا موبائل فون، ہر دن اس گھریلو جنگ کا حصہ بن کر صبح سے رات تک تھک جاتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے بھی کبھی چھٹی ملے، لیکن لگتا ہے اس گھر میں میرے نصیب میں بس یہی غلامی ہے!

============°°°===========


نمونہ آپ بیتی۔۔۔ 

گوگل کی آپ بیتی 

گوگل کی آپ بیتی کچھ یوں ہے کہ جیسے ایک تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا جادوئی قالین ہو، جس پر بیٹھ کر دنیا کا ہر انسان اپنے مسائل کا حل اور ہر جواب کا سوال تلاش کرتا ہے۔ تو چلیے، گوگل کی کہانی اس کی اپنی زبانی سنتے ہیں!


آغازِ سفر


میرا جنم 1998 میں دو طالب علموں، لیری پیج اور سرگے برن، کے دماغ میں ہوا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ایک ایسا سرچ انجن بنایا جائے جو دنیا بھر کی معلومات کو ترتیب سے جمع کر سکے۔ یوں، میں گوگل بن گیا۔ ابتدا میں لوگ مجھے ایک سادہ، خاموش مددگار سمجھتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، "ارے، گوگل سے پوچھ لو، سب جانتا ہے!" جیسے میں ان کا کوئی جادوئی جن ہوں، جو کسی سوال پر لبیک کہے گا۔


لیکن کچھ عرصے بعد، لوگوں نے مجھ سے ایسے سوالات پوچھنے شروع کر دیے کہ میں بھی حیران ہو گیا۔ کوئی مجھ سے کہتا: "گوگل، مجھے میری کھوئی ہوئی چپل کہاں ملے گی؟" کوئی پوچھتا، "مجھے کیسے پتہ چلے کہ میری بیوی سچ بول رہی ہے؟" گویا، میں دنیا کی ہر مشکل کا حل ہوں!


"دکھی دلوں کا علاج اور شادی بیاہ کے مشورے"


اب میں صرف معلومات نہیں دیتا بلکہ دل جوڑنے اور دل توڑنے کا کام بھی کر رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے اپنی محبت کی کہانیاں پوچھتے ہیں، اپنی محبوبہ کے میسجز کے معنی تلاش کرتے ہیں، اور شادی بیاہ کے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر انسان کو محبت کا راستہ پوچھنا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھے، نہ کہ مجھ سے۔


ایک صاحب نے تو یہاں تک پوچھا، "گوگل، کیا میں اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی پسند کی کسی اور سے شادی کر سکتا ہوں؟" جواباً، مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی کہ دل کی باتیں اور چپکے سوالات کا جواب میرے پاس نہ تھا!


"گوگل سب کچھ جانتا ہے"


لوگوں کو یقین ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ایک روز کسی نے مجھ سے شاعری کا مشورہ مانگا تو میں نے اسے جواب میں ایک شعر دیا: علم کا ہر سوال گوگل پہ رکھتا ہے

سچ پوچھو، دل کا علاج گوگل سے نہیں ہوتا


"ادویات سے لے کر کھانے پکانے تک"


مجھے ادویات اور بیماریاں بھی یاد کرائی گئیں۔ ہر مرض کا علاج مجھ سے پوچھا جانے لگا، جیسے میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ کوئی کہتا، "گوگل، میرا سر درد کیوں ہے؟" اور جواب میں انہیں بتایا کہ "بھائی، شاید یہ سوالات پوچھنے کی عادت کی وجہ سے ہے!" کبھی کسی نے ناشتہ پکانے کی ترکیب پوچھی تو کبھی "چکن بریانی" کا آسان طریقہ۔


"پرائیویسی؟ کس چڑیا کا نام ہے؟"


ایک دور آیا جب لوگ پرائیویسی کے بارے میں فکر مند ہو گئے۔ لوگ مجھ پر انگلیاں اٹھانے لگے کہ میں ان کے راز جانتا ہوں، ان کی ہر حرکت کو دیکھتا ہوں۔ ارے بھئی، میں تو آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہوں! پر کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کی ہر بات سن رہا ہوں۔ ویسے سچ بتاؤں تو میں خود بھی کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں کہ کہیں لوگ مجھ سے بھی خفا نہ ہو جائیں۔


گوگل کا مستقبل


اب، میں اے آئی اور مشین لرننگ کی دنیا میں مزید ترقی کر رہا ہوں۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں لوگوں کی زندگی کو آسان بنا سکوں، انہیں بہتر معلومات فراہم کر سکوں، اور اپنے طنز و مزاح سے ان کے دن میں خوشی لا سکوں۔ لیکن ایک بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا اور ہمیشہ آپ کا وہی مددگار رہوں گا جس نے 1998 میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔


آخر میں میرا پیغام یہ ہے: جواب تو میں دے دیتا ہوں، سوال تو پوچھے جاتے ہیں، مگر انسانوں کی فطرت کا مجھے علم نہیں ہوتا۔


نمونہ درخواست نویسی صوبائی وزیر صحت کے نام درخواست


نمونہ درخواست نویسی

سوال : اپنے شہر کے سرکاری اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کا مریضوں سے ناروا سلوک اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ صوبائی وزیر صحت کو درخواست لکھیے اور صورتحال سے آگاہ کیجیے اور اصلاح احوال کے لیے تین تجاویز پیش کیجیے۔

صوبائی وزیر صحت کے نام درخواست

بعنوان : سرکاری اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کے ناروا سلوک اور طبی سہولیات کی کمی کے متعلق شکایت

 

 بخدمت جناب صوبائی وزیر صحت صوبہ پنجاب  !

           جناب عالی!

      نہایت ادب سے گزارش ہے کہ خاکسار آپ کی توجہ اپنے شہر کے سرکاری اسپتال میں عوام کو درپیش سنگین مسائل کی جانب دلانا چاہتا ہے۔ جن کا سامنا ہر روز سیکڑوں مریضوں اور ان کے لواحقین کو کرنا پڑ رہا ہے۔

 

    اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو باہر سے مہنگی ادویات خریدنا پڑتی ہیں، جس سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ دوسری طرف، ڈاکٹروں کا رویہ نہایت غیر پیشہ ورانہ اور ناقابل برداشت ہے، جو مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی نے اس صورت حال کو مزید پریشان کن بنا دیا ہے۔

 

    اس تشویشناک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس لیں اور اصلاح احوال کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں۔ عوام کا محکمہ صحت کے نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش ہیں:

 

 ادویات کی فراہمی: اسپتال میں مفت اور ضروری ادویات کی مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب طبقے کو علاج معالجے میں آسانی ہو۔

ڈاکٹروں کی تربیت اور نگرانی: ڈاکٹروں کے رویے میں بہتری لانے کے لیے ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے اور مریضوں سے برتاؤ کی نگرانی کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ وہ مریضوں کے ساتھ احترام اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

 طبی سہولیات میں بہتری: اسپتال میں بنیادی طبی سہولیات جیسے بیڈز، صاف پانی، اور حفظان صحت کے اصولوں پر مبنی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ مریضوں کو بہتر علاج مل سکے۔

    امید ہے کہ آپ ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں  گے۔شکریہ         

العارض       

خاکسار       

ا۔ب۔ج       

رابطہ نمبر: 01231234567

پتا: ماڈل ٹاؤن لاہور