مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام
دہلی، 25 جولائی 2024ء
پیارے جناح،
سلام مسنون! امید ہے کہ آپ وہاں بخیریت ہوں گے۔ کراچی کی تپتی دھوپ اور ٹریفک کے بپھرے ہوئے سمندر کے متعلق جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں، ان پر کچھ عرض کیے بغیر رہنا مشکل تھا۔ ویسے، میں دہلی میں بیٹھ کر کراچی کے موسم اور حالات پر کیا ہی کہہ سکتا ہوں، لیکن جیسے دل کا مریض ڈاکٹروں کو مشورے دینے لگتا ہے، ویسے ہی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
دیکھیے، میری طبیعت تو اب ان چکروں سے باہر نکلنے کی نہیں ہے۔ میں یہاں دہلی میں بھی اگر بارش ہو جائے تو چھت کے نیچے ہی بیٹھا ہوں کہ کہیں بارش کا ایک قطرہ نہ گر جائے۔ اب کراچی میں جو حالات چل رہے ہیں، جیسے شہر کے سڑکیں پانی سے بھر کر تالاب بن گئیں ہیں، اور ٹریفک کے قافلے ایسے گھومتے ہیں جیسے کسی میدان جنگ میں صف بندی ہو رہی ہو، ان پر بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو بستر سے باہر نکلنے کا خیال ہی بے چین کر دیتا ہے۔
ویسے آپ کا کراچی کا سفر کچھ یوں ہے جیسے میرؔ کا سفر لکھنؤ ہوا کرتا تھا؛ بس فرق یہ ہے کہ وہاں تو شاعری ہوتی تھی، اور یہاں شہری انتظامیہ کے قصے! عوامی ٹرانسپورٹ کا عالم تو یہ ہے کہ آدمی رکشے میں بیٹھے تو رکشے والے کا حال یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اب اگلے چوک پر قسمت کا نیا پانسہ پلٹنے والا ہو کہ پٹرول ہوگا یا نہیں۔
تو، پیارے قائد، دل کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جو بارش برستی ہے وہ تو ہمیں یہاں دہلی سے بھی سیراب کر جاتی ہے، مگر عوام کے دلوں میں جو امید کی خشکی ہے، اس کے خاتمے کا موسم ابھی شاید آپ ہی کے آنے سے آئے گا۔ دعا ہے کہ آپ کی قیادت میں کراچی کے ٹریفک اور سیوریج کا پانی یوں بہہ جائے جیسے میرا قلم کاغذ پر بہتا تھا، اور شہریوں کو ایسا چین ملے جیسے ہمیں ایک بھرپور نیند میں ملتا ہے۔
آپ کی صحت اور کراچی کی قسمت کی بہتری کی دعا کے ساتھ،
آپ کا مخلص، غالب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے کا ہم احترام کرتے ہیں۔
نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔