اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

منگل، 31 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: نئے سال کی دعا

 نظم بعنوان: نئے سال کی دعا 

زباں پہ ہماری،  سدا ترا نام ہو، اے خدا

تری رحمتوں کا نزول،  مدام ہو، اے خدا


سبق جو ملا، وہی رہنما بنے ہر قدم

ہر راہ پہ آسانی کا انعام ہو، اے خدا


نیا  سال لائے،  تیرے  کرم  کا  پیام نور

ہر خواب کی تعبیر کا احرام ہو، اے خدا


صحت بھی ہو، علم و عمل کا نصیب ہو

ہر کام میں کامیابی کا، اکرام ہو، اے خدا


مصیبتوں سے بچا، دکھوں سے رِہا بھی کر

دنیا میں نہ کہیں مچا کہرام ہو، اے خدا 


ہر پل رہے، تیرے شکر کا، احساس جاگتا

دلوں میں محبتوں کا، قیام ہو، اے خدا


ظفر کریں عہد وقت کی قدر کا لحاظ

ہر دل کو تری یاد کا پیغام ہو، اے خدا


(ایم۔اے ظفر)

غزل: جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے حسن کلام: مظفر احمد ظفر

 غزل: جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے

 حسن کلام: مظفر احمد ظفر 


جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے

گر یہ معجزہ ہوگا، تو ہو سکتا ہے


افق پر ہیں بادل، گھٹائیں ہیں گھنگور

یہ منظر بدل جائے، تو ہو سکتا ہے


یہ جو چاہت کا دریا ہے، بہت گہراہے

پر کنارہ نظر آئے، پار تو ہو سکتا ہے


جو خواب میں روشن تھی امید کی کرن

وہ جگنو چمک جائے، تو ہو سکتا ہے


جو تقدیر نے لکھا ہی نہیں، میری قسمت میں

وہ اک لکیر ہتھیلی پہ آجائے، تو ہو سکتا ہے


دل کی دنیا اسی امید پہ قائم ہے ظفرؔ

نصیب مسکرا جائے، تو ہو سکتا ہے

اتوار، 15 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: فلسطین کی پکار

  نظم بعنوان

 فلسطین کی پکار 

عقل مند بھی حیراں ہیں، ان حیوانوں پر 

سفاکی نے حدیں پار کیں معاہدوں کے بہانوں پر


یہ دھرتی کانپتی ہے بموں کی برسات سے

برا وقت آیا ہے فلسطین کی معصوم جانوں پر  


لشکر فیل نے خون کی ہولی کھیلی ہے  

قیامت برپا کی گئی ہے غزہ کے میدانوں پر  


بغل میں ہے چھری اور منہ میں رام رام 

سب حیران ہیں ان جہل کے ایوانوں پر  


  اب کسے پکاریں، کس سے فریاد کریں محبؔ 

بند ہو گئے سبھی در، انصاف کے، مسلمانوں پر


شاعر: محب احمد 

جماعت دہم بی

منگل، 3 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: خاموش کیوں ہو؟ کلام: مظفر احمد ظفر

 نظم بعنوان:

 خاموش کیوں ہو؟

کلام: 

مظفر احمد ظفرؔ 

کر کے لہجہ اپنا نرم بولتے ہیں

مگر الفاظ میں دم بولتے ہیں


حال دل اپنا ، ضرور سناتے مگر

غموں کو ہم اپنے، کم بولتے ہیں


جنہیں مطلب نہ ہو دل کی باتوں سے

ہم ایسے ہم سخن سے کم بولتے ہیں


لبوں پہ لگی ہے مہر ، لیکن دل ہے گویا

لفظوں کی بجائے، چشمِ نم بولتے ہیں


دو چار شعر کہہ کے جب، خاموش ہو گئے 

وہ مسکرا کے بولے، آپ بہت کم بولتے ہیں


جہاں خاموشیاں لازم ہوں ظفرؔ

وہاں پہ صرف ، زخم بولتے ہیں