اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نمونہ روداد نویسی: پاکستان میں بڑھتی مہنگائی/ تیزی سے بڑھتی ہوئی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے موضوع پر ایک روداد لکھیے

 

عنوان: مہنگائی کا تماشا                (روداد کا ایک نمونہ)

   ایک وقت تھا کہ جب سوروپے میں بندہ نہ صرف پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا بلکہ چائے کا لطف بھی اُٹھا  لیتا تھا۔ مگر آج کے حالات کچھ ایسے ہو چکے ہیں کہ   بچےبھی سو روپے لے کر شکریہ نہیں کہتے۔

پچھلے ہفتے سوچا کہ مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے خود بازار کی سیر کی جائے۔ جب گلی میں قدم رکھا تو سبزی والے کی آواز سنائی دی: ’’ٹماٹر تین سو روپے کلو، تین سو روپے کلو!‘‘ دل نے کہا، " یہ ٹماٹر ہیں یا سونے کے زیور؟‘‘ قریب جا کر  سبزی والےسے مذاق کرتے ہوئے  پوچھا، ’’بھائی صاحب، کیا ان ٹماٹروں میں کوئی خاص بات ہے جو اتنے مہنگے ہو گئے ہیں؟‘‘ سبزی والے نے کہا، ’’صاحب!  یہ وہی ٹماٹر ہیں جن سے آج کل سیاست دانوں کی دعوت ہو رہی ہے،  ایسے میں قیمت تو بڑھے گی ہی۔‘‘

وہاں سے کچھ آگے بڑھے تو پٹرول پمپ پر نظر پڑی۔ ایک صاحب بڑے رنجیدہ چہرے کے ساتھ بائیک پر  بیٹھےتیل بھروا رہے تھے۔ ان کی  روتی صورت  دیکھ کر پوچھا، ’’بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘ بولے، ’’بس بھائی، ہر بار پٹرول کی قیمت بڑھنے پر دل چاہتا ہے کہ  موٹر سائیکل میں سے موٹر نکال کر صرف سائیکل ہی رہنے دی جائے تو اچھا ہوگا۔‘‘  میں نے سوچاواقعی اگر مہنگائی ایسے ہی بڑھتی رہی تو شاید سائیکل ہی واحد سواری بچ جائے گی۔

پھر ایک دودھ والے کی  دکان کا رخ کیا۔ دودھ کی قیمت  دو سو بیس  روپے فی لیٹرسن کر ایسے لگا جیسے ہم دودھ نہیں ولائتی   مشروب  خرید رہے ہوں۔ جب پوچھا کہ’’دودھ کی قیمت میں اتنا اضافہ کیوں ہے؟‘‘ تو بولا، ’’بھائی صاحب ! آپ جانتے ہیں دودھ دینے والے جانور بھی اب ٹی وی پر مہنگائی کی خبریں دیکھتے ہیں، وہ بھی تو اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں۔!"

آخر کار سوچا کہ گھر واپس چلیں اور بجلی کا بل دیکھیں۔ بجلی کا بل دیکھ کر احساس ہوا کہ گھر میں بجلی کا استعمال کم کرنے کی بجائے اسے  عجائب گھرکی کسی نایاب چیز کی طرح سجا کر رکھ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن بجلی کا بل دیکھتے ہوئے بجلی ہی غصے میں آ جائے اور کہے، ’’بھائی، اگر اتنا بل مہنگا لگتا ہے تو چراغ سے ہی کام چلاؤ۔‘‘

مہنگائی کی اس روداد کو بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بلکہ  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی نے سب کو ایک جیسے ہی رونا رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے:

؎           یہ زندگی ہے یا  کوئی طوفان ہے   

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

حکومت ِ وقت کو چاہیے کہ عوام  پر پڑنے والے   مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے اور مصنوعی مہنگائی کرنے  والوں کو  کڑی سے کڑی  سزا دی جائے۔


ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

روداد نویسی کا طریقہ بیان کریں۔

روداد نویسی کا طریقہ:

1. موضوع کی شناخت: روداد کا موضوع، مقام، تاریخ اور وقت کو واضح کریں۔

2. حقیقت پر مبنی معلومات: واقعات کو حقیقت پسندی سے بیان کریں، مبالغہ آرائی سے گریز کریں۔

3. ترتیب وار بیان: تمام واقعات کو ترتیب وار بیان کریں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

4. اہم نکات پر توجہ: روداد کے اہم نکات اور واقعات کو واضح کریں، خاص طور پر وہ جو روداد کی اصل روح کو بیان کرتے ہیں۔

5. زبان و اسلوب: سادہ اور مختصر زبان استعمال کریں تاکہ روداد عام فہم اور موثر ہو۔

6. تاثرات کا اظہار: اگر مناسب ہو تو روداد کے اختتام پر اپنی ذاتی رائے یا احساسات کا اظہار کریں۔

7. اختتام: روداد کو ایک جامع اور موزوں نتیجے کے ساتھ ختم کریں۔

8. نظر ثانی: روداد لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں۔

منگل، 15 اکتوبر، 2024

رسمی خط کا نمونہ، پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں

رسمی خط کا نمونہ، پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں

*ڈی ایس پی صاحب کے نام خط*

موضوع: چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کے متعلق آگاہی اور اصلاح احوال کی درخواست

 

امتحانی مرکز

6-اکتوبر 2024ء

مکرم و محترم ڈی ایس پی صاحب، ضلع ایسٹ کراچی!

آداب!

خاکسار آپ کی توجہ انتہائی اہم اور سنگین مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے، جو کہ ہمارے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔

حالیہ چند مہینوں کے دوران، خاص طور پر  ناظم آباد کے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور یہ واقعات عوام کی جان و مال کے لیے سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

عام شہریوں کو دن دہاڑے قیمتی اشیاء، نقدی اور موبائل فون سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اکثر مزاحمت پر ڈاکو فائرنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے بلکہ علاقے کے امن و امان کے لیے بھی سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

یہ مسئلہ بہت ہی تشویشناک ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ صورت حال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔

 میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سنگین مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

  • علاقے میں پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
  •  مشکوک افراد کی نشاندہی کے لیے عوام کو شامل کیا جائے اور علاقائی کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تاکہ پولیس کے ساتھ تعاون ممکن ہو سکے۔
  • سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں اور ان کی مدد سے وارداتوں کی نشاندہی کی جائے۔
  • عوام کو خود حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کے لیے پولیس کی جانب سے خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
  •  جرائم پیشہ افراد کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے۔

میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر فوری نوٹس لیں گے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔

شکریہ!

والسلام

خاکسار

ا۔ب۔ج      

ناظم آباد کراچی

 


ہفتہ، 12 اکتوبر، 2024

مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام ۔۔۔۔ طنزو مزاح

 مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام


دہلی، 25 جولائی 2024ء

پیارے جناح،

سلام مسنون! امید ہے کہ آپ وہاں بخیریت ہوں گے۔ کراچی کی تپتی دھوپ اور ٹریفک کے بپھرے ہوئے سمندر کے متعلق جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں، ان پر کچھ عرض کیے بغیر رہنا مشکل تھا۔ ویسے، میں دہلی میں بیٹھ کر کراچی کے موسم اور حالات پر کیا ہی کہہ سکتا ہوں، لیکن جیسے دل کا مریض ڈاکٹروں کو مشورے دینے لگتا ہے، ویسے ہی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔


دیکھیے، میری طبیعت تو اب ان چکروں سے باہر نکلنے کی نہیں ہے۔ میں یہاں دہلی میں بھی اگر بارش ہو جائے تو چھت کے نیچے ہی بیٹھا ہوں کہ کہیں بارش کا ایک قطرہ نہ گر جائے۔ اب کراچی میں جو حالات چل رہے ہیں، جیسے شہر کے سڑکیں پانی سے بھر کر تالاب بن گئیں ہیں، اور ٹریفک کے قافلے ایسے گھومتے ہیں جیسے کسی میدان جنگ میں صف بندی ہو رہی ہو، ان پر بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو بستر سے باہر نکلنے کا خیال ہی بے چین کر دیتا ہے۔


ویسے آپ کا کراچی کا سفر کچھ یوں ہے جیسے میرؔ کا سفر لکھنؤ ہوا کرتا تھا؛ بس فرق یہ ہے کہ وہاں تو شاعری ہوتی تھی، اور یہاں شہری انتظامیہ کے قصے! عوامی ٹرانسپورٹ کا عالم تو یہ ہے کہ آدمی رکشے میں بیٹھے تو رکشے والے کا حال یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اب اگلے چوک پر قسمت کا نیا پانسہ پلٹنے والا ہو کہ پٹرول ہوگا یا نہیں۔


تو، پیارے قائد، دل کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جو بارش برستی ہے وہ تو ہمیں یہاں دہلی سے بھی سیراب کر جاتی ہے، مگر عوام کے دلوں میں جو امید کی خشکی ہے، اس کے خاتمے کا موسم ابھی شاید آپ ہی کے آنے سے آئے گا۔ دعا ہے کہ آپ کی قیادت میں کراچی کے ٹریفک اور سیوریج کا پانی یوں بہہ جائے جیسے میرا قلم کاغذ پر بہتا تھا، اور شہریوں کو ایسا چین ملے جیسے ہمیں ایک بھرپور نیند میں ملتا ہے۔

آپ کی صحت اور کراچی کی قسمت کی بہتری کی دعا کے ساتھ،


آپ کا مخلص، غالب


غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

 کلام:  مظفر احمد ظفؔر


عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

خواب باقی ہوں، پر حاصل نہ رہے آنکھوں میں

 

درد کا سمندر جو دل میں سمویا ہے ہم نے

شاید اُس کا کوئی ساحل نہ رہے آنکھوں میں

 

راستے بھی وہی ہیں، قدموں کے نشان بھی ہیں

اب مگر پہلی سی مشکل نہ رہے آنکھوں میں


یوں تو آئے ہیں کئی لمحے سکونت کے لیے

پر وہ اک لمحۂ کامل نہ رہے آنکھوں میں

 

سپنوں  کا اک شہر جو آباد کیا  تھا ہم نے

خوابوں کا وہی محمل نہ رہے آنکھوں میں

 

زندگی میں کئی خاص ملے تھے مجھ کو اے ظفرؔ

اب تو عام بھی، دید کے قابل نہ رہے آنکھوں میں

------